Pages

Most Popular

بدھ، 29 اپریل، 2020

عہدنامہ جدید اور صدوقی






عہدنامہ جدید اور صدوقی

تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
یسوع مسیح نے جب اپنی منادی شروع کی تو اس وقت ارض فلسطین پر مختلف یہودی فرقے آباد تھے جن میں بڑی حد تک مذہبی، معاشرتی اور اعتقادی اختلافات موجود تھے۔ان فرقوں کی موجودگی کا ثبوت عہدنامہ جدید میں بھی موجود ہے۔ اناجیل کے مطابق فریسی،صدوقی اور سامری وغیرہ یہود کے وہ مذہبی فرقے تھے جن کا وجود پہلی صدی عیسوی میں پایا جاتا تھا۔سیاسی فرقے اس کے علاوہ تھے جن میں غیور،زائیلوٹ،اسکریوٹ جیسے متعدد حریت پسند سیاسی فرقے شامل تھے۔انجیل نویس نے اپنی تصنیف میں ان لوگوں کااحاطہ کرنے میں بخل سے کام لیا ہے یا کتمان حق سے؟اس بارے میں یقینی طور پر کہنا کچھ مشکل ہوگا تاہم انجیل نویسوں کا طرزِ تحریر اور دیگر مواد کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کا مطمع نظر فقط مخصوص نظریات کا پرچار تھا اور انہی نظریات کی تائید وتوثیق کےلئے انہوں نے اپنی اپنی اناجیل کو مرتب کیا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت انجیل نویسوں کا یہودیوں کے تیسرے اہم فرقے اسینیوں کو مسلسل نظرانداز کرنا ہے جن کے عقائد ونظریات پولوسی نظریات سے متبائن اور یسوع کے حقیقی پیروکار"ناصریوں" سے کسی حد تک مماثل تھے۔ وادی قمران کے صحائف پر تحقیق کرنے والے علماء کے مطابق اسینی درحقیقت مسیحیت سے قبل مسیحیت کا دوسرا نام ہے کیونکہ یسوع کے ابتدائی پیروکاروں کے طرزِحیات ،گفتگو اور عقائد غیرمعمولی طور پر ان سے مشابہت رکھتے ہیں۔
انجیل نویسوں نے اسینیوں کو نظرانداز کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہی معاملہ انہوں نے صدوقی فرقے کے ساتھ بھی اختیار کیا کہ اُس فرقےکے نام کے علاوہ مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ اناجیل میں متعدد مقامات پر صدوقیوں کا ذکر ملتا ہے لیکن کسی مقام پر انجیل نویس نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ یہ صدوقی کاہن تھے اور سردارکاہن بھی صدوقی تھا۔اناجیل متوافقہ نے صدوقیوں کے متعلق ان کے نام کی حد تک تو معلومات فراہم کیں ہیں مگر اس معاملے میں سب سے زیادہ شدت پسند انجیل نویس جناب یوحنا ہیں جنہوں نے اسینی اور صدوقی دونوں کے بارے میں ایک لفظ تک شاملِ تحریر کرنا گوارا نہ کیا حالانکہ یہ دونوں گروہ یسوع مسیحؑ کی بعثت کے وقت نہ صرف موجود تھے بلکہ ان کا سامنا روزانہ یسوع مسیح سے ہوا کرتا تھا کیونکہ سب ایک ہی زمین اور علاقے کے باسی تھے۔
انجیل نویسوں کے برعکس اعمال کی کتاب میں صدوقیوں کے متعلق کچھ جزوی معلومات فراہم کی گئی ہیں تاہم وہ معلومات ناکافی بھی ہیں اور مشکوک بھی کیونکہ اُس وقت سردارکاہن کا عہدہ ایک سیاسی عہدہ بن چکاتھا اور سردارکاہن کا تقرر رومیوں کی طرف سے ہوتا تھا ۔ فریسیوں کی نسبت صدوقی اقلیت میں تھے مگر طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے کے باعث سردارکاہن صدوقی فرقے سے ہوا کرتا تھا لیکن اعمال کی کتاب میں سردارکاہن کے صدوقیوں سے تعلق کو مکمل طورپر دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔اعمال کی کتاب میں مذکور ہے۔
“جب وہ لوگوں سے یہ کہہ رہا تھا تو کاہِن اور ہَیکل کا سَردار اورصُدوقی اُن پر چڑھ آئے۔ وہ سخت اور رنجِیدہ ہُوئے کِیُونکہ یہ لوگوں کو تعلِیم دیتے اور یِسُوع کی نظِیر دے کر مُردوں کے جی اُٹھنے کی منادی کرتے تھے اور اُنہوں نے اُن کو پکڑ کر دُوسرے دِن تک حوالات میں رکھّا کِیُونکہ شام ہوگئی تھی مگر کلام کے سُننے والوں میں بہُتیرے اِیمان لائے۔ یہاں تک کے مردوں کی تعداد پانچ ھزار ہوگئی۔ دُوسرے دِن یُوں ہُؤا کہ اُن کے سَردار اور بُزُرگ اور فقِیہ۔اور سَردار کاہِن حنّا اور کائِفا اور یُوحنّا اور اِسکندر اور جِتنے اور جِتنے سَردار کاہِن کے گھرانے کے تھے یروشلِیم میں جمع ہُوئے۔اور اُن کو بِیچ میں کھڑا کر کے پُوچھنے لگے کہ تُم نے یہ کام کِس قُدرت اور کِس نام سے کِیا؟۔" (اعمال ۴:۱-۷)
اس پورے قضیہ کا تحلیل جائزہ لیاجائے تو پہلی ورس میں ہی"کاہن اور ہیکل کا سرداراور صدوقی"کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تینوں مختلف قسم کے لوگ تھے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہیکل کے تمام انتظامی معاملات صدوقیوں کے ہاتھ میں تھے اور ہیکل کے اکثر کاہن صدوقی تھے۔ دوسری ورس میں ان کے غم و غصے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ انہیں یہ بات سخت ناگوار گزری کہ شاگرد یسوع کی نظیر دے کر مردوں کے جی اٹھنے کی منادی کرتے تھے۔یادرہے کہ صدوقی اس بات کے منکر تھے کہ مردوں کی قیامت ہوگی ۔ مذکورہ بالا قضیہ میں مردوں کی قیامت کے عقیدے کاپرچار کرنے کے باعث شاگردوں کو گرفتار کرنے کے بعد جب مقدمہ چلانے کا وقت آیا تو سردار،بزرگ،فقیہ،سردارکاہن حنا اور کائفا اور سکندر اور سردار کاہن کے گھرانے کے افراد آئے۔یہ تمام افراد بھی صدوقی تھے کیونکہ یہ مقدمہ سنہڈرین میں نہیں چلایا جارہاتھا بلکہ صدوقیوں کی عدالت میں کاروائی ہورہی تھی۔ اگریہ معاملہ سنہڈرین میں حل کےلئے پیش ہوتا تو سنہڈرین میں بلوہ ہوجاتا(کیونکہ جب پولس کو سنہڈرین میں پیش کیا گیا تھا تو اس نے بھی فریسیوں کو مخاطب کرکے یہی دہائی دی تھی کہ مردوں کی قیامت کے سبب سے مجھ پر مقدمہ چلایا جارہا ہے اس پر پوری عدالت عالیہ میں فساد مچ گیا اور فریسیوں نے صدوقیوں سے جھگڑا کرلیا۔اعمال باب23) انجیل نویس نے مقدمہ کی کاروائی کے لئے آنے والے ان تمام افراد کی مذہبی شناخت کو جان بوجھ کر چھپا لیا اور زرا سابھی اشارہ نہیں دیا کہ یہ تمام لوگ صدوقی تھی۔
اعمال کی کتاب کے اس بیانئے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدوقیوں نے یسوع کے شاگردوں کو اس لئے گرفتار کیا تھا کہ وہ مردوں کی قیامت کی منادی کررہے تھے لیکن جب صدوقی جب شاگرودں کا مقدمہ چلاتے ہیں تو یکایک ان کے جرم کو بھول جاتے ہیں اور مردوں کی قیامت کے متعلق کوئی سوال نہیں کرتے بلکہ شاگردوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ "تم نے یہ کام کس کی قدرت اور نام سے کیا؟"
اعمال کی کتاب میں ہی ایک اور موقع پر سردارکاہن کی مذہبی شناخت کو ایک بار پھر چھپایا گیا ہے۔جیسا کہ مذکور ہے۔
"پِھر سَردار کاہِن اور اُس کے سب ساتھی جو صُدوقیوں کے فِرقہ کے تھے حسد کے مارے اُٹھے اور رَسُولوں کو پکڑکر عام حوالات میں رکھ دِیا ۔"(اعمال ۵:۱۷-۱۸)
مزید وضاحت کےلئے اعمال کی کتاب کے انگریزی متن کو بھی دیکھ لیا جائے تو بات مزید واضح ہوجائے گی۔
“But the High Priest rose up and all who were with him, this is, the party of the Sadducess.”
دونوں عباراتِ بالا سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس مقام پر بھی انجیل نویس نے سردارکاہن کو صدوقیوں سے الگ شخص ظاہر کیا ہے۔ اور "all who were with him" کے الفاظ صراحتاً اس کا تعلق صدوقیوں سے کاٹ رہے ہیں حالانکہ سردارکاہن خود بھی صدوقی ہی تھا۔
جیساکہ گزر چکا کہ سردارکاہن ایک سیاسی عہدہ تھا اور اس کی تقرری رومیوں کی طرف سے ہوتی تھی ،ایسے میں انجیل نویسوں کا سردارکاہن کی شناخت کوچھپانا ماورائے تفہیم ہے کیونکہ یہی وہ سردارکاہن تھا جو یسوع کے مقدمے میں پیش پیش تھا اور یسوع کو سزادلوانے میں کلیدی کردار ادا کررہاتھا۔ قاتلین ِ یسوع سے انجیل نویسوں کی ہمدردی اناجیل اربعہ کی استنادی حیثیت اور وقائع نگاری پر سوالیہ نشانات لگا دیتی ہے۔ایک سارے معاملے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ انجیل نویسوں نے اسینیوں سے ترک تعلق کرتے ہوئے ان کے متعلق کسی قسم کی معلومات فراہم نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے اپنی کتب کو مرتب کیا جبکہ صدوقیوں کے بارے میں قلیل معلومات فراہم کیں۔تیسری طرف فریسیوں کی جماعت تھی جن کو اناجیل میں بھرپورانداز میں یسوع کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہ فریسی ہی تھے جو یسوع مسیحؑ کے سچے خیرخواہ اور ہمدرد تھے اور انہوں نے ہی عین موقع پر آکر یسوع مسیح ؑ کو خبردار کیا تھا کہ آپ فورا یہاں سے نکل جائیں کیونکہ ہیرودیس آپ کو قتل کرنے کی سازشیں کررہا ہے۔(لوقا ۱۳:۳۱) یہ فریسی ہی تھےجنہوں نے یسوع مسیح اور ان کی جماعت کو نہ صرف خدا کی طرف سے قرار دیا بلکہ انہیں صدوقیوں کے چنگل سے بھی چھڑایا جو ان کی جان لینے کے درپے ہورہے تھے۔(اعمال ۵:۳۹)
مخلصین ِیسوع فریسیوں سے عداوت،معاندین ِ یسوع صدوقیوں سے محبت اور متبعینِ یسوع اسینیوں سے ترک تعلق کی روش اختیار کرنے کی انجیل نویسوں کی روش سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ان کا مطمع نظر پولوسی نظریات کی ترویج تھی اور اسی مقصد کےحصول کےلئے انہوں نے اپنی اناجیل کو مرتب کیا اور دیگر تاریخی حقائق کو عمداً وسہواً چھوڑ دیا پھر خلطِ مبحث کردیا۔
مکمل تحریر >>

جمعرات، 23 اپریل، 2020

یسوع سامری اور سامریہ



یسوع مسیح ،سامریہ اور  سامری
 تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ         
یسوع مسیح یہودیت کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں جنہوں نے پہلی صدی عیسوی میں اپنی تعلیمات سے ارض گلیل  پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اناجیل متوافقہ کےمطابق ارض گلیل سے یسوع کا تعلق خاصہ گہرا رہا ہے کیونکہ اپنی ساری زندگی ان کی منادی کا مرکز یہی علاقہ رہا اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں صرف ایک مرتبہ وہ یروشلم گئے لیکن اناجیل متوافقہ کے برخلاف  یوحنا کی انجیل یہ خبر دیتی ہے کہ یسوع نے متعدد بار یروشلم کا دورہ کیا لیکن چونکہ یہودیہ کے لوگ یسوع کو قتل کرنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے اپنے یہ تمام دورے خفیہ رکھے۔ کتاب مقدس کے جغرافیہ سے واقف کسی طالب علم پر یہ مخفی نہیں ہوگا کہ گلیل اور یروشلم کے درمیان ایک طویل فاصلہ تھا اور درمیان میں سامریوں کا ملک پڑتا تھا جن کی یہودیوں سے سخت ترین عداوت ودشمنی تھی۔ گلیل اور یروشلم میں اکثریتی آبادی یہودیوں کی تھی لیکن سامریہ اور دیکا پولس ایسے دور دراز علاقے تھے جو یہودی نہیں سمجھے جاتے تھے کیونکہ یہاں سامری آباد تھے۔یسوع کی منادی کو اگر فلسطین کے جغرافیہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انجیل یوحنا کے مطابق یسوع نے واقعی یروشلم کے متعدد دورے کیے تو کیا انہوں نے سامریہ میں کلام کی منادی کی جو گلیل اور یروشلم کے وسط میں واقع تھا اور گلیل سے آنے والے زائرین یروشلم کو سامریہ سے گزر کر ہی یروشلم پہنچنا پڑتا تھا۔
اس حوالے سے انجیل نویسوں کا رویہ مختلف فیہ اور باہم متضاد ہے۔ سب سے پہلی انجیل ،مرقس کا مصنف مختلف شہروں "یروشلم، ادومیہ، یردن کے پار، صور اور صیدا کے آس پاس کے علاقوں[1]"میں یسوع کی منادی پہنچنے کی خبر دیتا ہے لیکن ان علاقوں سے سامریہ کا ذکر ہی حذف کر دیتا ہے۔ایسے میں انجیل کی صداقت پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یسوع واقعی سامریہ گئے یا مرقس اور یوحنا کی انجیلیں اس حوالے سے باہم متضاد ہیں؟ مرقس یسوع کی سامریہ میں منادی سے یکسر بے خبر ہے تو دوسری طرف یوحنا کی انجیل دیکھنے پر  معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ انجیل کسی سامری مسیحی معاشرے (Samaritan Christian Community)کےلیے لکھی گئی ہے کیونکہ یوحنا نےسامریوں کے ساتھ یسوع کا خاص تعلق ظاہر کیا ہے۔یوحنا کے مطابق یسوع نے گلیل سے یروشلم کی طرف متعدد بار سفر کیا اور ہر بار وہ سامریہ کے علاقے سے گزر کر یروشلم گئے تو پھر کیسے باقی انجیل نویس اس اہم نکتے کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟ یوحنا کے مطابق یسوع سامریہ میں قیام بھی کیا کرتے تھے۔ [2]
           یسوع کا سامریہ سے کیا تعلق تھا،اس سوال کا جواب ہر انجیل میں مختلف ملتا ہے۔مرقس کے برخلاف لوقا صرف ایک واقعہ نقل کرتا ہے جس کے مطابق یسوع گلیل سے یروشلم کی طرف اپنا آخری سفر شرو ع کرتے ہیں۔
"اُس نے یروشلِیم جانے کو کمر باندھی اور اپنے آگے قاصِد بھیجے۔ وہ جا کر سامرِیوں کے ایک گاؤں میں داخِل ہُوئے تاکہ اُس کے لِئے تیّاری کریں لیکِن اُنہوں نے اُس کو ٹِکنے نہ دِیا کِیُونکہ اُس کا رُخ یروشلِیم کی طرف تھا۔یہ دیکھ کر اُس کے شاگِردیعقوب اور یُوحنّا نے کہا اَے خُداوند کیا تُو چاہتا ہے کہ ہم حُکم دیں کہ آسمان سے آگ نازِل ہو کر اُنہِیں بھسم کردے [جَیسا ایلِیاہ نے کِیا]مگر اُس نے پھِر کر اُنہِیں جھِڑکا [تُم نہِیں جانتے کہ تُم کَیسی رُوح کے ہوکِیُونکہ اِبنِ آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہِیں بلکہ بَچانے آیا] پھِر وہ کِسی اور گاؤں میں چلے گئے۔"[3]
          لوقا نے اپنی تصنیف میں یہ واقعہ اس لیے پیش کیا تاکہ یسوع اور سامریہ کے درمیان عداوت اور دشمنی ظاہر کی جائے(ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوقا کے نزدیک سامریہ صرف ایک گاؤں پر مشتمل تھا)۔ اگر فی نفسہ واقعہ ایسا ہی ہے جیسا لوقا لکھتا ہے تو بھی اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ سامریہ کے صرف ایک گاؤں نے یسوع کا انکار کیا تھا جبکہ دوسرے گاؤں والوں نے پہلے جیسوں کی طرح برتاؤ نہ کیا کیونکہ سامریہ کے علاقے سے گزرنے کے لیے ایک دن سے زیادہ وقت لگتا تھا لہذا راستے میں ٹھہرنا ایک لازمی امر تھا۔ لوقا نے یہ تو نقل کردیا کہ سامریہ کے ایک گاؤں نے یسوع کا انکار کیا  لیکن اس واقعہ کے دوسرے پہلو کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا کہ دوسرے سامریوں نے یقیناً یسوع مسیح کی مدد کی ہوگی۔
          لوقا کی انجیل میں ہی ایک دوسرے مقام پر ایک معلم شرع یسوع سے پڑوسی کے متعلق سوال کرتا ہے تو یسوع ایک تمثیل بیان کرتے ہیں جس میں ایک زخمی شخص راستے میں پڑا ہوتا ہے اور کاہن و لاوی اسے دیکھ کر منہ پھیر کرچلے جاتے ہیں مگر سامری آکر اس پر ترس کھاتا ہے اور اس کا علاج معالجہ کرتا ہے ۔[4]اس واقعہ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سامریہ من حیث القوم اچھے نہیں تھے بلکہ ان میں اکا دکا افراد ایسے تھے جنہیں راست باز کہا جاسکتا تھا اور مذکورہ تمثیل میں موجود سامری بھی انہی میں سے ایک تھا جسے برےسامریوں سے استثنا حاصل تھا۔ اس بات کی تائید و توثیق انجیل لوقا  میں موجود ایک اور واقعہ سے ہوتی ہے جہاں تیسری بار لوقا سامریوں  کا ذکر کرتا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب یسوع گلیل اور سامریہ کی سرحد سے  گزرتے ہوئے کوڑھیوں کے ایک جتھے کو شفا بخشتے ہیں۔ یقیناً یہ تمام افراد سامری ہی تھےجنہیں یسوع نے اپنے قریب بلائے بغیر ہی دور سے شفا بخش دی مگر انجیل نویس لکھتا ہے کہ ان دس میں سے صرف بندہ پلٹ کر آیا جو سامری تھا اور اس نے خداوند کی تمجید کی جس پر یسوع  نے فرمایا کہ "کیااس پردیسی کے سوا ور نہ نکلے جو لوٹ کر خدا کی تمجید کرتے؟" گویا کہ یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ ان لوگوں میں صرف ہی بندہ اچھا تھا اور باقی سامری عام طورپر اچھے لوگ نہیں تھے۔[5]
مرقس اور لوقا کے برعکس متی  لکھتاہے  کہ جب یسوع نے شاگردوں کو منادی کے لیے روانہ کیا تو انہیں نصیحت کی کہ
"غَیر قَوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کِسی شہر میں داخِل نہ ہونابلکہ اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہُوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔"[6]
حالانکہ یسوع کا سامریہ جانا دیگر اناجیل سے ثابت ہے اور یسوع کے صعود آسمانی کے بعد شاگرد بھی سامریہ کی طرف گئے تھے جس کا واضح ثبوت اعمال کی کتاب سے ملتا ہے ۔[7]یسوع کے سامریہ جانے کے ٹھوس ثبوتوں کی موجودگی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاگردوں کو سامریہ جانے سے منع کرنا خالص متی کی اختراع ہے  جو اس نے سامریوں کےلیے منفی تاثر قائم کرنے کےلیے کی ہے۔ جب یسوع خود متعدد بار سامریہ تشریف لے گئے تو پھر شاگردوں کو روکنے میں کون سا امر مانع تھا؟
اناجیل متوافقہ  میں سامریوں کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم چوتھی اور آخری انجیل یوحنا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جسے پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ سامری مسیحیوں کے لیے لکھی گئی ہو۔ اس انجیل میں یسوع کو ایسے پیش کیا گیا ہے کہ جیسے ان کا سامریوں سے نہایت گہرا تعلق ہو اور وہ کثرت سے وہاں جاتے رہتے ہوں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ یہودیوں نے ان پر الزام لگا یا تھا کہ "تو سامری ہے اور تجھ میں بدروح ہے؟"[8]حیرت انگیز طور پر یسوع اس الزام کی کوئی تردید نہیں کرتے حالانکہ اناجیل میں دیکھا جائے تو یہودیوں کی طرف سے لگائے گئے ہر الزام کا یسوع نے فی الفور جواب دے کر انہیں لاجواب کیا لیکن اس معاملے میں وہ سکوت اختیار کر لیتے ہیں۔
یوحنا کی انجیل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سامری ہی تھے جنہوں نے شاگردوں کے بعد سب سے پہلے یسوع کو المسیح جان کر قبول کیا تھا۔ انجیل یوحنا کے مطابق سامریہ میں ہی عہد نامہ جدید کا سب سے عجیب واقعہ رونما ہوا جس پر سب سے پہلے تعجب خود شاگردان یسوع نے کیا۔[9]جب یسوع فریسیوں کی عداوت کی وجہ سے یہودیہ چھوڑ کر گلیل کی طرف جا رہے تھے تو سامریہ میں سوخار کے ایک قصبے میں یعقوبؑ کے کنویں پر ان کا سامنا ایک سامری عورت سے  ہوتا ہے۔
"وہ سامریہ کے ایک شہر تک آیا جو سوخار کہلاتا ہے۔ وہ اُس قطہ کے نزدیک ہے جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دِیا تھااور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ چنانچہ یسوع سفر سے تھکاماندہ ہو کر اُس کنوئیں پر یونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا مجھے پانی پِلاکیونکہ اُس کے شاگرد شہر میں کھانا مول لینے کو گئے تھے۔اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تُو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟(کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے۔۔۔۔الخ"[10]
یوحنا کا یہ واقعہ اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ یہ عہدنامہ عتیق کے دو عظیم الشان واقعات سے بڑی حد تک مماثلت رکھتا ہے اور دلچسپ بات ہے کہ دونوں واقعات کا انجام منگنی اور شادی پر ہوا۔ ان میں سے پہلا واقعہ بزرگ یعقوبؑ اور راخیل کا ہے جو سینکڑوں برس پہلے ٹھیک اسی کنویں پر پیش آیا تھا جہاں اس وقت یسوع بیٹھے تھے۔ عہد نامہ عتیق کے مطابق اس کنویں پر بزرگ یعقوب اور راخل کی ملاقات ہوتی ہے جو بعدازاں منگنی اور بالآخر نکاح پر منتج ہوتی ہے۔[11] جبکہ دوسرا واقعہ والد یعقوب جناب مقدس اصحاقؑ سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نوکر ان کےلیے بیوی کی تلاش میں نکلتا ہے تو نحور شہر کے ایک  کنویں پر اس کی ملاقات بی بی ربقہ سے ہوتی ہے جنہیں وہ حضرت اصحاق کے لیے پسند کرلیتا ہے اور ان کے وارثین سے بات کرکے انہیں اس شادی پر راضی کر لیتا ہے۔ بالآخر حضرت اصحاقؑ کی غائبانہ منگنی کروا کر رخصتی لے لیتا ہے اور پھر اپنے گھر پہنچ کر دونوں کا نکاح ہو جاتا ہے۔[12] کنواں، کنویں پر خاتون سے ملاقات، ملاقات  کے بعد منگنی اور پھر بالآخر شادی ہونا دونوں واقعات میں یکساں طور پر  موجود ہے۔
بہت سے ناقد علما کا خیال ہے کہ انجیل نویس یوحنا نے یہ واقعہ عہدنامہ عتیق کی انہی کہانیوں سے مستعار لے کر کچھ رنگ آمیزی کے ساتھ شامل تصنیف کیا ہے وگرنہ یسوع اور اس عورت کی ملاقات کے وقت کوئی تیسرا فرد وہاں موجود نہیں تھا جو اس ساری گفتگو کو سن کر محفوظ کرتا اور پھر روایت کرتا۔ عینی شاہد کی غیر دستیابی کی صورت میں یہ نتیجہ سو فیصد درست معلوم ہوتا ہے نیز بعض علما کے نزدیک اس بات کا امکان بھی موجود ہے  کہ اس ملاقا  ت کے بعد یسوع مسیح نے بھی اس عورت سے نکاح کر لیا ہو۔ اس نظریہ کو تقویت انجیل یوحنا کے اس واقعہ سے بھی ملتی ہے جہاں یہودی کثرت اختلاط کی وجہ سے یسوع پر سامری ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور وہ یہودیوں کی اس بات کی کوئی تردید نہیں کرتے۔ اگر یہ نظریہ غلط ہے تو پھر سامریوں کے ساتھ یسوع کا کثرت سےاٹھنا بیٹھنا اور بار بار سامریہ آنا کیا معنی رکھتا ہے؟
اگر کوئی یہودی یا سامری پیدائش کی کتاب  میں موجود دونوں واقعات کے ساتھ اگر اس تیسرے "واقعہ یسوع "کو ساتھ رکھ کر پڑھے تو وہ یہی نتیجہ نکالے گا کہ انہوں نے فی الفور شادی کر لی ہوگی کیونکہ سابقہ دونوں قضیوں میں بھی نبیوں نے ایسا ہی کیا تھا لہذا عہد نامہ عتیق کی روشنی میں یسوع اور سامری عورت کی اس گفتگو کے بعد منگنی اور پھر شادی کے امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتا  کیونکہ اناجیل میں یسوع کی زندگی کے مختلف واقعات کو عہدنامہ عتیق کی ہی تکمیل قرار دیا گیا ہے۔ ولادت یسوع کے وقت مقدسہ مریم کا گیت اور والدہ سموئیلؑ حنہ کے گیت کی باہم مماثلت اس کی بہترین مثال ہے اور اس قسم کی بہت سی مثالیں ہم عہد نامہ جدید میں پاتے ہیں لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے لہذا ہم صرف ایک مثال پر ہی اکتفا کریں گے کہ جب یسوع کی زندگی کے انجیلی واقعات پر عہد نامہ عتیق کاگہرا رنگ غالب ہے تو پھر اس مقام پر آکر عہد نامہ عتیق کا عکس کیوں ماند پڑ جاتا ہے؟ دیگر تاریخی شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے تو کچھ علما نے یہ توجیح بھی کی ہے کہ یسوع مسیح نے شادی کی تھی کیونکہ یہودی معاشرے میں تیس سال کی عمر تک تجرد کی زندگی گزارنا بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اُس وقت کم عمری میں ہی بچوں کی شادی کر دی جاتی تھی۔ خود والدہ ِیسوع مقدسہ مریم کی منگنی بھی بارہ برس کی عمر میں یوسف نجار کے ساتھ طے پا گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ شادی کرنا انبیا کرامؑ کی سنت ہے اور یسوع مسیح کے جد امجد تمام انبیا کرام نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں تو پھر یسوع مسیح کیسے اس معاملے میں اپنے اسلاف کی سنت کے تارک ہو سکتے ہیں؟ انجیل نویسوں نے یسوع مسیح کی زندگی کے بارے میں بمشکل ایک سے ڈیڑھ مہینےکا ریکارڈ فراہم کیا ہے لہذا ان کا یسوع کی زندگی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دینے سے یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی کہ انہوں نے کبھی شادی ہی نہیں کی کیونکہ تجرد کی تعلیم پولس کی تعلیم ہے اور انجیل نویس پولوسی نظریات کی تقویت و تائید دکے لیے ہی اپنی  کتب مدون کر رہے تھے۔ بہرحال یہ ایک اضافی بات ہے جس پر مزید کلام بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ہم دوبارہ اپنے اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں کہ اگر یسوع نے وہاں شادی نہ کی ہوتی تو ان کا بار بار سامریہ آنا اور وہاں وقت گزارنا کیا معنی رکھتا ہے؟
یوحنااس واقعہ میں آگے چل کر شادی کا ذکر بھی کرتا ہے  لیکن اس مقام پر وہ یسوع ؑ کی شادی کے بجائے کہانی کو فی الفور اس عورت کی شادی اور اس کے جنسی کردار کی طرف موڑ دیتا ہے تاکہ واقعہ میں موجود اس مشترکہ عنصر کو دبایا جا سکے۔ اس واقعہ میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پورے عہد نامہ عتیق میں واحد یہی ایک موقع ہے جہاں یسوع اس عورت  کو اپنا راز دار بناتے ہوئے اس کے سامنے  نہایت صاف الفاظ میں اپنے المسیح ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔[13]اگر یسوع مسیح کا اس سے واجبی سا تعلق تھا تو اس پر وہ راز مکشف کرنے کی کیا توجیح کی جائے گی جو یسوع نے اپنے خاص الخاص شاگردوں پر بھی نہیں کیا تھا؟
           بعض لوگوں نے یہاں حد سے تجاوز کرتے ہوئے یہ نظریہ بھی پیش کیا ہے کہ اس ملاقا ت کے فورا بعد یسوع اور اس سامری عورت نے جسمانی تعلق بھی قائم کرلیا کیونکہ کنویں پر اس وقت کوئی موجود نہیں تھا لیکن اس قسم کے نظریات نہایت گھٹیا اور فضول ہیں اور ہرگز کسی نبی کے شایان شان نہیں۔
اس کہانی کا اگلا حصہ مزید واضح ہے  جس میں یسوع یہودیوں اور سامریوں کے بیچ قدیم تنازعہ کا  مستقل حل بھی  یہ کہتے ہوئے پیش کرتے ہیں کہ "میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلم میں۔۔۔۔۔۔مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اور سچائی سے کریں گے "۔[14]
اس عبارت سے انجیل نویس کا مقصود یہ پیغام دینا ہے کہ یسوع کی مبینہ صلیبی موت اور جی اٹھنے نے تمام اصولوں کو بدل دیا ہے  لہذا ایسی کوئی مخصوص جگہ باقی نہیں جہاں خدا کی عبادت کی جائے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوحنا نے یہی پیغام دینے کے لیے اس پوری کہانی کو تخلیق کیا ہے؟ انجیل نویس نے اس پورے واقعہ میں بہت سی ایسی باتیں بھی یسوع سے منسوب کر دی ہیں جو حقیقت سے بالکل خالی ہیں۔ ان میں اول یسوع کا خود کو واضح الفاظ میں المسیح قرار دینا ہے حالانکہ اپنی پوری زندگی وہ ایسے دعوے سے اجتناب کرتے رہے اور جہاں کہیں بھی وہ معجزانہ انداز میں کسی کو شفا دیتے تو اسے تاکید سے کہتے کہ اس بابت کسی کو نہ بتانا۔ اس احتیاط کا مقصد یہی تھا کہ وہ خود کو پوشیدہ ہی رکھنا چاہتے تھے مگر اس مقام پر ان کا اس راز کو فاش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
اس واقعہ کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ سامری بھی "تہاب " نامی  موعود نجات ہندہ کے منتظر تھے لیکن اس نجات دہندہ کا تصور داؤدی المسیح کے تصور سے بالکل ہٹ کر تھا۔ تہاب کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ وہ سامریوں کو یہودیوں پر برتری دلائے گا اور سامریوں کے جد امجد افراہیم کے قبیلے سے ہو گا جبکہ دوسری طرف یسوع کا معاملہ اس سے یکسر مختلف تھا۔ اناجیل کے مطابق وہ داؤدی المسیح تھے تو پھر کیسے سامریوں نے سامری تورات کے مطابق انہیں نجات دہندہ قبول کر لیا؟ حالانکہ سامری شریعت کے معاملے میں سخت متشدد تھے ۔انجیل نویس ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کرتا کہ یسوع نے کون سے دلائل پیش کر کے انہیں اپنے روایتی مؤقف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ اگر یسوع کے قول کو دیکھا جائے تو وہ یروشلم اور کوہ گرزیم دونوں کی تباہی کی بابت گفتگو فرما رہے تھے حالانکہ یہودیوں اور سامریوں کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یسوع یروشلم کو مقام ہیکل جبکہ سامری کوہ گرزیم کو حقیقی مقام ہیکل قرار دیتے تھے۔ اگر یسوع کوہ گرزیم کے ڈھائے جانے کے متعلق ارشاد فرما رہے تھے تو ان کی اس بات پر کسی سامری نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ ہم دیکھتےہیں کہ اناجیل میں  جب بھی یسوع ہیکل کے ڈھانے کے متعلق گفتگو کرتے ہین تو فی الفور یہودی یسوع سے سوال کرتے ہیں۔ جب یہودی ہیکل کے بارے میں ایسی گفتگو برداشت نہیں کر پا رہے تھے تو سامریوں نے کیسے اس بات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا۔
اناجیل اربعہ میں سامریہ اور سامریوں کی کھوج لگانے پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دیگر معاملات کی طرح سامریوں کا معاملہ بھی مسیحی مقدس متون میں  ایک ارتقائی مرحلے سے گزر کر حتمی شکل میں آیا ہے۔ سب سے پہلا انجیل نویس مرقس تو سرے سے اس بات کا ہی منکر ہے کہ  یسوع کی منادی سامریہ پہنچی ۔لوقا کی یہی روش متی نے بھی اختیار کیے رکھی بلکہ متی نے اس معاملے میں مزید شدت اختیار کرلی۔ متی کےمطابق یسوع نے اپنے شاگردوں کو سختی سے منع کررکھا تھا کہ وہ سامریہ کے علاقوں کی طرف بھی نہ جائیں۔ متی کے بعد لکھی جانے والی لوقا کی انجیل میں متی اور مرقس کے برخلاف سامریوں کے حوالے سے مختلف واقعات نقل کرتی ہے مگر اس واقعات سے سامریوں کے لیے کوئی مثبت تاثر قائم نہیں ہوتا لیکن جب ہم انجیل یوحنا میں پہنچتے ہیں جس کا زمانہ تالیف دوسری صدی عیسوی کا نصف اول ہے تو یکا یک منظرنامہ تبدیل ہو جاتا ہے اور جن سامریوں سے دیگر انجیل نویس مجتنب رہے،وہی سامری انجیل یوحنا میں یسوع کے منظور نظر بن جاتے ہیں اور یسوع نہ صرف ان کی دعوتیں قبول کرتے ہیں بلکہ کئی کئی ایام ان کے یہاں قیام بھی کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنامہ جدید سے سامریوں کے متعلق معلومات نکالنا نقش برآب بنانے کے مثل ہے۔




[1] مرقس۳ :۸
[2] یوحنا۴ :۴۰
[3] لوقا۹ :۵۱-۵۶
[4] لوقا۱۰ :۲۵-۳۷
[5] لوقا۱۷ :۱۱-۱۹
[6] متی۱۰ :۵-۶
[7] اعمال۸ :۱، ۹ :۳۱
[8] یوحنا۸ :۴۸
[9] یوحنا۴ :۲۷
[10] یوحنا۴ :۵-۴۲
[11] پیدائش باب۲۹
[12] پیدائش باب۲۴
[13] یوحنا۴ :۲۶
[14] یوحنا۴ :۲۱-۲۴

مکمل تحریر >>

یسوع کے ننانوے ناموں کی حقیقت




مسیحیوں کی خوش فہمی کاازالہ
تحریر:عبداللہ غازیؔ

گذشتہ دنوں کراچی میں منعقد ہونے والے ایک مناظرے کےدوران باجی غزالہ شفیق صاحبہ نے فرمایاکہ بائبل مقدس میں یسوع مسیح کےننانوے القاب مذکور ہیں۔ یہ بات معروف ومسلمہ ہے کہ ننانوے اسماء والقاب کاتصور اہل اسلام کے یہاں مروج ہے اوراللہ جل شانہ کے ننانوے اسماء (اگرچہ اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن وحدیث میں مستعمل القابات کی تعداد اس عدد سے کئی گنازیادہ ہے) کےساتھ رسول کریمﷺ کے ننانوے صفاتی نام بھی لکھے جاتے ہیں جوکہ مختلف احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں اوران کاتعلق خودرسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔اس کے برعکس باجی غزالہ کے دعوے کےمطابق بائبل میں مذکور یسوع کے مبینہ ننانوے ناموں میں سے معدودہ چند ہی ہوں گے جنہیں یسوع نے خود کےلیے یاان کے شاگردوں نے یسوع کےلیے استعمال کیا۔یہ سب اسماء پولس اوراس کےشاگرد انجیل نویسوں کی اختراعات ہیں جنہوں نے انہیں یسوع سے منسوب کیا ہے۔ قاموس الکتاب کی طرف مراجعت کرکے جب ہم یسوع کی طرف منسوب ان القابات کی طرف دیکھتے ہیں تواندازہ ہوجاتاہے کہ مسیحی علماء نے کتنی کھینچاتانی کرکے ننانوے کی تعداد پوری کی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں۔
24۔چھڑانے والا، 76۔مخلصی دینے والا، 87۔نجات کابانی، 88۔نجات کاسینگ، 84۔منجی(درج ذیل تمام القابات کامطلب ایک ہی ہے یعنی چھڑانے والا۔مگرایک ہی بات کو مختلف طریقوں سےگھماپھراکر اور ترجمہ کرکے پانچ مختلف القاب بناڈالے)
7۔استاد،49۔ربونی(یعنی میرے استاد)، 50۔ربی(ایک ہی نام کوترجمہ میں ہیرپھیرکرکے تین مختلف نام بنادیا)
31۔خداکامسیح 37۔خداوندمسیح،82۔مسیح خداوند،39۔خداوندیسوع،40۔خرستس(یہ یونانی لفظ ہےجس کے معنی مسیح ہی ہیں)،79۔مسیح، 80۔مسیح بادشاہ، 81۔مسیح یسوع، 94۔یسوع مسیح(دیکھئے کتنی چرب زبانی سے ایک ہی نام کو ننانوے کاعدد پوراکرنے کے لیے سات حصوں میں بانٹ ڈالا)
92۔یسوع، 93۔یسوع ناصری،94۔یسوع مسیح، 95۔یسوع مسیح راستباز، 96۔یسوع مسیح ناصری(یہاں بھی ایک ہی نام کو پانچ طریقوں سے لکھا گیاہے)
6۔ازلی بادشاہ،8۔اسرائیل کابادشاہ، 99۔یہودیوں کابادشاہ،31۔خداکامسیح(اسرائیل کاہربادشاہ ممسوح ہی کہلاتاتھا)46۔بادشاہوں پرحاکم،65۔ صلح کابادشاہ،66۔عادل منصف،58۔سالم کابادشاہ ،61۔سردار، 62۔سردارگلہ بان،89۔ ہمارا بڑاسردار(یہاں بھی نام ایک ہی ہے مگر نہایت شاطرپن سے اسے ایک سے زائد حصوں میں بانٹاگیاہے)
41۔داؤد کی اصل، 97۔یسوع کی جڑ(دونوں کامفہوم ایک ہی ہےاورعربی میں اصل جڑ کوہی کہتے ہیں)
کچھ اور نام بھی ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح انہیں بھی لاسٹک کی طرح کھینچ کر لمبا کیاگیاہے۔
27۔خداتعالیٰ کابیٹا،29۔خداکابیٹا
48۔راستباز، 30۔خداوندکاقدوس، 69۔قدوس اور راستباز
16۔پاک خادم، 26۔خیمے کاخادم
52۔زندگی، 53۔زندگی کامالک، 54۔زندگی کاکلام، 56۔زندگی کی روٹی،
58۔سبت کامالک، 74۔مالک،75۔مالک اور منجی،
35۔خداوند،85۔ میرےخداوندمیرےخدا،
نوٹ:یہ تمام القابات قاموس الکتاب از ایف ایس خیراللہ کے صفحہ نمبر75اور76پرمرقوم ہیں۔آج سے کئی سال قبل 2014ء میں بھائی زین علی صاحب نے اس امر کی طرف میری توجہ مرکوز کرائی تھی کہ عیسائیوں کی اس دھوکہ دہی کاپردہ بھی چاک کیا جائے مگر اس وقت میں نے اسے اتنا اہم نہیں سمجھاتھا مگرآج اس ننانوے القابات کی حقیقت کاپردہ بھی چاک ہو ہی گیا۔
اس تحریر کو فیس بک پر ملاحظہ کرنے کےلیے یہاں کلک کیجیے

مکمل تحریر >>

جمعہ، 3 اپریل، 2020

عہدنامہ جدید میں یسوع کے بدلتے چہرے





عہدنامہ جدید میں یسوع کے بدلتے چہرے
تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
اس تحریر کو پی ڈی ایف کی شکل میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔          یسوع کے وقفاًفوقفابدلتے چہروں کی وضاحت کامقصد عہدجدید کے مختلف مقامات میں یسوع کے حیات کے تدریجی مراحل کوبیان کرناہے کہ کس طرح سے مصنفین عہدجدید نے یسوع کی ذات سے منسوب افکار کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر یسوع کی شخصیت کونبی سے لے کر مجسم خدا بناڈالا۔ غیر اقوام سے تعلق رکھنے والے ان مصنفین عہدجدید کی اس روش کامقصدا س کے سوا کچھ اور نہیں تھاکہ یسوع کی ہستی کو مشرک اقوال کے لیے زیادہ سے زیادہ قابل قبول اور پرکشش بنایاجاسکے۔ان کے اسی طرز عمل نے یسوع کو ایک متنازع شخصیت بناڈالا۔
عہدجدید کی اولین تحاریر مقدس پولس کے خطوط ہیں اس کےبعد سب سے پہلی انجیل مرقس،بعدازاں متی ولوقا،آخر میں یوحنااور سب سے آخر میں اعمال کی کتاب کانمبر آتاہے۔اس ترتیب سے اگر یسوع کی سوانح کامطالعہ کیاجائے تو قاری کواس امر کاادراک ہوتاہے کہ  مصنفین عہدجدید میں سے ہرایک نے یسوع کو یاتوایک نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی یاپھر مقدس پولس کے مؤقف کی تائید میں یسوع کی ذات میں مزید شاخ وبرگ کااضافہ کیاجس نے بیانات میں موافقت پیداکرنے کے بجائے انہیں مزید الجھادیااوریوں درست حقائق کاادراک مزید پیچیدگی کاشکارہوگیا۔
          اس مضمون کی شروعات ہم یوحناکی انجیل سے کریں گے جوکہ وقائع نگاری کی تاریخ (دوسری صدی کے ابتدائی سالوں میں)کے اعتبار سے نہ صرف سب سے جدید  انجیل ہے (کیونکہ یہی انجیل سب سے آخر میں لکھی گئی اور یسوع کے متعلق اُن نظریات کی خبر دیتی ہے جو دوسری صدی کے اوائل میں مسییحیت میں مروج تھے)بلکہ عہدجدید میں مسیح کو پیش کرنےکے اعتبار سے بھی نئی باتوں کی خبرد یتی ہے۔یوحناکی انجیل  بنیادی طورپر ابتدائی اناجیل متوافقہ سے مختلف بھی ہےاوران کے مذہبی رنگ سے بھی مشابہت نہیں رکھتی۔یوحنا کی بیان کردہ داستان میں مصلوبیت اوریسوع کی موت کے واقعات کے علادہ بمشکل ہی ایسا مواد ملتاہےجو دیگراناجیل متوافقہ سے مشابہ ہو۔ یوحناکی انجیل ،خداکی بادشاہت کےبارے میں یسوع کی باربار دی جانے والی تعلیم کے بڑے حصے کونظرانداز کردیتی ہے اوراس کے بجائے ذومعنی تماثیل اور یسوع کی ایسی بےترتیب تقاریرکو شامل کرتی ہے جس میں یسوع اپنی ذات کے بارے میں ہی وضاحتیں پیش کررہے ہیں۔انجیل نویس کے اس طرزتحریر سے معلوم ہوتاہے کہ یوحناکی انجیل کےلکھے جانے تک یسوع کی الوہیت کاعقیدہ اپنی جڑیں مضبوط کرچکاتھا۔
           اس چوتھی انجیل میں ہم یسوع کو ایک کرشماتی گلیلی  مردکے بجائےایک ایسی الوہی حیثیت رکھنے والی ہستی کے طورپر پاتے ہیں جسے اس زمین پر عارضی طورپربےدخل کیاگیا ہواوروہ عنقریب اپنے حقیقی گھر لوٹ جانے والاہو۔انجیل یوحنا کے ابتدائیہ میں موجود252شانداریونانی الفاظ  درا صل عہدجدید کےعلم الہیات کامنبع اوربنیادہیں کیونکہ بعدازاں مسیحی کلیسیاء کی بنیاد انہی عقائدپر استوار کی گئی جن کی تعلیم یوحنانے اپنی انجیل کی تمہید میں دی ہے۔اس تمہیدی بیان کے مطابق اس دنیاکی تخلیق میں اپناواحدکرداراداکرنے والا ،خداکاابدی اورالوہی کلمہ یسوع کی شکل میں مجسم ہواتاکہ ان دیکھے خداکوانسانی شکل میں ظاہر کرے۔
          انجیل یوحناکی تصنیف  تک مسیحیت کی یہودی مخالفت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی جس کی بنیادی وجہ مقدس پولس کے وہ مشرکانہ اقوام سے مستعار عقائد ونظریات تھے جو انہوں نے یسوع کانام لے کر پیش کیے تھےچنانچہ اس انجیل میں یہودی مخالف کاعنصر دیگراناجیل کی نسبت زیادہ نظرآتاہے۔اس انجیل کامصنف یسوع کواس کے یہود ی پس منظرسے جداکرکے ایک الگ ہستی کے روپ میں پیش کرتاہے ۔اس کی بہترین مثال یوحنا6:49 میں نظرآتی ہے جہاں یسوع یہودیوں سے دوران مکالمہ کہتے ہیں کہ "تمہارے باپ دادانے بیاباں میں من کھایااور مرگئے"۔اس مقام پر یہود کے جن آباء کے متعلق انجیل نویس نے یہ الفاظ یسوع کے منہ میں ڈالے ہیں وہ لوگ جس طرح یہودیوں کے اسلاف ہیں اسی طرح یسوع کے بھی آباء واجداد ہیں اور یسوع کاان کے متعلق اس طرح سے لاتعلقی کااظہار کرنااس امر کاغماز ہے کہ اس انجیل کی تصنیف کے وقت یہود ی ومسیحی مخاصمت نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی۔
یسوع کے متعلق یوحنا کاپیش کردہ خاکہ بعدمیں آنے والی مسیحیت کاخلاصہ اور پیش خیمہ ہے۔چرچ کے ابتدائی ہزارسالوں کےزبردست نظریاتی اختلافات اور اس کی تاریخ تقریباانہی نظریات کے گرد گھومتی ہے جوکہ چوتھی انجیل ،یوحناکےابتدائیہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ آرتھوڈکس کلیساء کے نظریات "ایک شخص میں دوفطرتوں کااجتماع"ہوں یانظریہ تثلیث وتجسیم ،سب کچھ یوحناکی اسی روحانی انجیل سے نکلتے ہیں۔اس حقیقت کومدنظررکھتے ہوئے اگریہ کہاجائے تو بےجانہ ہوگاکہ مشرقی مسیحیت کے علوم الہیات کابانی درحقیقت یوحناانجیل نویس ہے۔
پولس کے خطوط یوحنا سے ایک صدی قبل لکھے گئے چنانچہ اس لحاظ سے یہ انجیل یوحناپر تاریخی برتری رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان دونوں تحاریر میں مسیحیت کانظریاتی ارتقاء محسوس نہیں ہوتااور ایک قاری کو یوں گمان ہوتاہے کہ دونوں تحاریر ایک ہی زمان ومکان سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ بات مسلمہ ہے کہ پولس ہی مسیحیت کاحقیقی خالق اور مغربی مسیحیت کے عقیدہ کفارہ کابانی ہے۔ پولس کی یسوع سے اس کی حین حیات کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ،یہی وجہ ہے کہ پولس کے پاس یسوع سے نقل کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھامگر اس کے باوجود اُس(پولس)نے اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی نگاہ اس ہستی پر مرتکز کی جسے یہودی معاشرہ "المسیح"کی حیثیت سے جانتاتھا اور اسی نے دنیامیں آکر  یہودی اور غیریہودی دونوں کوہی نجات دینی تھی۔
چنانچہ پولس نے 'المسیح' کے متعلق ایسا تصور پیش کیاجس میں المسیح باقی ماندہ انسانوں سے ماوراءتھا لیکن کلی طورپر الوہی صفات وحیثیت کامالک نہ تھا۔ایسا 'تصورمسیح 'افسانوی مذاہب کے ہیروز کی یاد دلانے والاتھا جن کی داستانیں یونانیت ذدہ رومی معاشرے میں ہرخاص وعام کی زبان پر مشہور تھیں اور ان کے مطابق اسی'المسیح'نے آکرنجات کے خدائی منصوبے میں اپنامرکزی کرداراداکرناتھا۔
پولس کے مطابق آدم وہ پہلے انسان ہیں جن کی وجہ سے گناہ اور موت وجود میں آئی مگر آخری آدم(یسوع مسیح) تمام گناہگاروں کو زندگی اور نجات بخشتاہے۔ غیراقوام میں انجیل پہنچنے سے پہلے ہی یسوع کی آمد ثانی  (جوکہ نہیں ہوسکی)کے نظریے کو پولس اور قدیم کلیساء نے فوراً قبول کرلیاتھا اورپھر لوگوں کواسی کی تعلیم دی۔اس(پولس) نے یہ خیال کیا کہ مشرک اقوام میں اس کی ترقی اورشہرت یہودیوں کی حسد میں اضافہ کرے گی جنہوں نے یسوع کا بحیثیت المسیح انکار کردیاتھا۔پولس کے مطابق ایسے لوگ اپنے روحانی ورثے کو نہ صرف کھوچکے بلکہ (غیراقوام کی طرف سے یسوع کو قبول کیے جانے کے بعد)مشرک اقوام کے سامنے بھی مکمل طورپر ناکام ہوگئےتھے۔پولس سمجھتاتھاکہ اگر یہودی اس کی منادی یکے نتیجے میں یسوع کوقبول کرلیتے ہیں تووہ چھلانگیں اوردوڑ لگاکرعنقریب نجات کوحاصل کرلیں گے اوراس طرح سے تمام انسانیت بشمول یہود وغیریہود سب مسیح کے ذریعے نجات حاصل کرلیں گے۔
پولس کویقین تھاکہ فقط اسے ہی خداکی طرف سے یونان،ایشیائے کوچک اورملک شام سے شروع ہونے والے بحیرہ روم کے مشرقی اور شمالی ساحلوں پر تمام غیراقوام میں منادی کے لیے منتخب کیاگیاہے۔وہ روم جانےاور اٹلی کوتبدیل کرتےہوئے اسپین تک پہنچنے کامنصوبہ تیارکرتاہے کیونکہ مشرق میں فقط اسپین ہی  ایسا ملک تھاجہاں سے پولس کو کچھ امید تھی  کہ مسیح کی واپسی کے عقیدے کی منادی کو وہاں بآسانی قبول کرلیا جائے گا۔
جیساکہ مشہور ہے کہ خوبصورت خوابوں کے ساتھ کسی معاملے کااختتام اس کے انتہاء پر پہنچنے سے پہلے ہی ہوجاتاہے چنانچہ یہاں بھی ایساہی ہوا۔پولس کبھی اسپین نہیں پہنچ سکااوریہودی اور مسیحی تاحال دوٹکڑوں میں تقسیم ہیں جبکہ دوہزارسال گزر گئے ہیں  لیکن ابھی تک مسیح کی واپسی بھی نہیں ہوئی  ہے۔لیکن مسیحی دنیا کواب تک اس کی واپسی کایقین ہے  ۔عالم مسیحیت کے اس  ایقان کی وجہ یسوع کاوہ روحانی خاکہ ہے جوایک ایسے اجنبی اور غیرمتعلقہ شخص نے کھینچاجوکبھی بھی (روحانی اور نہ ہی جسمانی طوپر)کبھی یسوع سے ملاہی نہیں تھا۔
یسوع کے مجسم خداسمجھنا،اس کاکفارہ اوراس کی واپسی کاایقان وغیرہ یہ سب ایسے مور ہیں جوہمیں "رسولوں کے اعمال" کتاب کے نصف اول میں موجودیسوع کے تیسرے خاکے کی طرف لے جاتے ہیں جہاں یسوع کی منادی وہ یہودی مسیحی(Jewish Christians) کررہے تھے جنہوں نے اسے (یسوع کو)بذات خود دیکھا،سنااور چھواتھا۔اعمال کی کتاب کی یہ  تصویر پولس کے تصور نجات اور یوحناکے الوہی حیثیت کے حامل مسیح کے خاکے سے بہت دور ہے ۔اعمال کی کتاب کا یسوع ایک کرشماتی گلیلی شخص  ہے جسے خدانے عزت وتوقیر بخشی ہے۔ اعمال2:22 کے مطابق پطرس اپنے پہلے مسیحی خطاب میں یروشلم کے ایک بڑے مجمعے کے سامنے یسوع کو خداکے بجائے ایک عام انسان قرار دیتاہے جس کا خدا کی طرف سے ہونا معجزوں،عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا۔اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ فقط ایک نبی تھا۔
جب ہم اعمال کی کتاب کے چھٹے باب میں پہنچتے ہیں تو وہاں ہماری اس یسوع سے ملاقات ہوتی ہے جو مرقس،متی اور لوقا کی اناجیل متوافقہ میں موجود  ہے مگروہاں ان کو  اس انداز سے پیش کیا گیا  ہے کہ وہ اب تک زندہ ہے،گلیل کے دیہاتی گردآلود راستوں پر گھومتاپھررہاہےاور ایک خانہ بدوش شفاء دینے والے،بھوت بھگانے والے،منادی کرنے والے شخص کے طورپر اپنے افعال سرانجام دے رہاہے۔نیز یہ یسوع معاشرے کے دھتکارے ہوئے افراد "کسبیوں،محصول لینے والوں اورگناہگاروں"کی نظر میں نہایت معتبر اور ان کاممدوح ہےمگر عجیب بات ہے کہ ان افراد کایسوع کی تعریف کرناہیکل کے عہدیداروں،بزرگوں اور فقہاء کی نظر میں نہایت معتوب اور مبغوض ٹھہرتاہے۔اس (یسوع)کے ہمدردوں نے شروع سے ہی اس کی تعظیم ایک معجزات دکھانے والے نبی کی حیثیت سے کی اور وہ اپنے لوگوں میں المسیح ابن داؤد کے نام سے معروف ہوا۔اس کے مفیدکرشماتی کارناموں کو آنے والے اس دور کے قائم مقام دیکھا گیا جس میں المسیح کی حکومت قائم ہوگی اور اندھے دیکھیں گے،بہرے سنیں گے،لنگڑے چلیں گےاورکوڑھی شفاء یاب ہونگے۔
یسوع ایک جنگجو المسیح نہ تھا اور نہ ہی سیاسی قوت حاصل کرنے کاامید تھاجیساکہ اس کے معاصرین یہودیوں نے عبرانی نوشتوں کی تشریح کرتے ہوئے مسیح سے توقعات وابستہ کرلی تھیں،یسوع کسی بھی ایسی امید پر پورااترنے سے قاصر ہی رہا۔مسیحیت کے مطابق اس کے المسیح کادعوے کرنے کابنیادی مقصد ایک نئے عہدکی آمد کی نوید سناناتھااور اس نئے عہد میں یسوع کو خداکی طرف سے یہودیوں کی قیادت کی ذمہ داری دی گئی تھی تاکہ وہ توبہ کریں اور ارض موعود کودوبارہ حاصل کرسکیں۔
ہیکل میں کبوترفروشوں اور سوداگروں کی دکانوں کے ساتھ غلط سلوک اورہیکل کی اعلیٰ انتظامیہ جیسا رویہ اختیار کرنایسوع کے لیے ہرگزرواں نہ تھاکیونکہ یروشلم اُس وقت نہایت غیرمستحکم اور شورش زدہ علاقہ تھالہذا اس کاایسا طرزعمل غلط وقت پراورغلط جگہ پرانتہائی غلط قدم اٹھانے کے مترادف تھا۔قدس الاقداس میں پیش کیے جانے والے خالص چاندی کے سکوں کوبیچنے والوں،قربانی کے جانوروں کوبیچنے والوں اورسوداگروں کی دکانیں اور میزیں الٹادینااس کی سنگین غلطی تھی۔غلط مقام یروشلم کامقدس ہیکل تھا جہاں زائرین اور مقامی لوگوں کاایک بڑامجمع جمع ہوتااورکاہنوں کی طرف سے (جوکہ سردارکاہن کے حکومت کی طرف سے تقرر ہونے کے باعث رومی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے)اشتعال انگیز سرگرمیوں کے حوالے سے  لوگوں کونرمی کی تلقین کی جاتی تھی۔نیزعیدفصح کے آمدہ ایام ،آزادی کی عید اور مسیح کے ظہورکی متوقع تاریخ یہ سب ایساخطرناک وقت تھا کہ اس وقت قانونی انتظامیہ کی ہمت جواب دے جاتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ یسوع کی اِس کاروائی کوامن وامان کے لیے بڑاخطرہ سمجھاگیا۔اسے یہودی قائدین کے ذریعے گرفتار کیاگیا تاہم انہوں نے اس کی موت کی ذمہ داری خود پر لینے کے بجائے اسے سیاسی انتظامیہ کے حوالے کردیا چنانچہ یسوع کو یہودیہ کے گورنر پیلاطوس کے حکم پر رومی صلیب پر لٹکادیاگیا۔
یہ منظرنامہ اناجیل متوافقہ کے ایک ایسے یسوع کے بارے میں پیش کیاگیا جوکرشماتی،مسیحانہ شفاء دینے والا،بھوت بھگانے والااور خداکی بادشاہت کی منادی کرنے والاتھا لیکن شاید ہی کسی ایک انجیل نویس نے بھی اس کے متعلق کچھ سچ لکھاہو۔ لیکن اناجیل کی پیش کردہ یہ تصویراس امرکاتقاضہ کرتی ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں فلسطینی یہودیت اس کے سیاسی،سماجی اور مذہبی پس منظر پر غورکیاجائے۔ان تمام حقائق کا ادراک کرنے کا بہترین ذریعہ داوی قمران کے صحائف ،پہلی صدی عیسوی کےمؤرخین فلواور جوزیفس،قدیم بائبلی اورربائی دستاویزات ہیں جہاں دوران مطالعہ ہماراسامنا یسوع سے زیادہ معجزات دکھانے اور کرشماتی طاقتوں کے حاملین کرداروں سے ہوتاہے۔ایسےبرگذیدہ افراد میں ہونی دائرہ کش،حننیاہ بن دوسااور ارنیاس کابیٹایسوع سرفہرست ہیں۔
اناجیل متوافقہ کے مطابق یسوع کے کردارمیں عجیب تاثیر تھی جس نے  اس کے شاگردوں کے قلوب واذہان میں بھی گہرااثر ڈالااوراسی اثر کے باعث انہوں نے یسوع کے بعد بھی اس کے نام کے ساتھ اس کامشن  جیساکہ شفایابی، بھوت نکالنا اور خداکی بادشاہت کی منادی کرنا جاری رکھا۔لیکن اب جدیددنیا میں یسوع اور اس کی آمد ثانی سے متعلقہ ان عقائد کازوال شروع ہوگیاہے جنہیں انجیل نویس یوحنا،پولس کے انوکھے مکاشفے اور کلیسیاء کے خودساختہ عقائد نے مل کر تشکیل دیاتھا۔
پہلی صدی عیسوی کے اختتام تک،مسیحیت یسوع اور اس کے پیغام کے حقیقی معانی کے درست ادراک کی صلاحیت تقریباً کھوچکی تھی  کیونکہ پولس،یوحنااور ان کے نظریات کی بنیاد پر بننے والی کلیسیاؤں نے اس کو 'یسوع کے بجائے'مسیح کے ایمان سے بدل دیاتھا۔انتقال نظریات کایہ عمل  نہ صرف مذہبی تناظر میں ہوا بلکہ اس نے تہذیبی ساخت پر بھی گہرااثر ڈالاجس کے نتیجے میں فقط چنددہائیوں کے اندر اندر ہی تاریخی شناخت رکھنے والے یسوع کاپیغام آرامی عبرانی لسانیاتی سیاق وسباق  سے بالکل کٹ گیاجس کےباعث یہودیوں اصطلاحات کومشرکانہ معانی کالبادہ اڑھادیاگیا۔اس تبدیلی کااثر گلیلی فلسطینی جغرافیائی ترتیب   پربھی پڑا نیزیسوع اوران کا پیغام اپنے یہودی مذہبی تشخص سے نکل کر ابتدائی طورپر یونانی بولنے والے مشرکین اور وسط ایشیاء کی دنیاکے قدیم تہذیبی پس منظر میں تبدیل ہوگیا۔اس تبدیلی نے نہایت ہی کم وقت لیا کیونکہ کلیسیاء کی بنیادبننے والی مٹی ابھی تک نرم اور لچکدار ہی تھی اور اسے کمہار کی پسند کے مطابق کسی بھی وضع میں بآسانی ڈھالاجاسکتا تھا  چنانچہ ایساہی ہوا،پولس نظریات اور انہیں تقویت دینے کےلیے منصہ شہود پرآنے والی اناجیل نے اس ضمن میں مرکزی کرداراداکیاجس کے نتیجے میں مشرک اقوام کی طرف سے ایسا چرچ وجود میں آیا جواپنے یہودی ہونے کے احساس سے عاری ہوچکاتھااورآگے چل کر یہ بدترین یہودی مخالف ثابت ہوا۔
دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں چرچ کی قیادت کرنے والے استادوں نے  یونانی فلسفہ پرعبور حاصل کیا جیساکہ لیونس کا ارینیاس ،کلیمنٹ ،اوریجن اوراسکندریہ کا اثناسیس ۔انہوں نے خدا کے لیے توبہ اور خودکواشاعت مذہب کے لیے وقف کرتے ہوئے یسوع کی شناخت فلسفیانہ رو سے ظاہرکرتے ہوئے اُسے(یسوع کو)مافوق الفطرت ہستی،خداکے ابدی کلمے کاتجسم اور تثلیث کادوسرااقنوم ہونے کی تعلیم دی۔اس وقت چونکہ پولوسی نظریات رکھنےو الی کلیسیاء اپنی جڑیں مضبوط کرچکی تھی لہذاوہ ایسی مشرکانہ تعلیم دینے میں بالکل آزاد تھے کیونکہ اس بات کاکوئی خطرہ نہ تھا کہ ان مشرکانہ تعلیمات کے خلاف کوئی یہودی آواز اٹھ سکتی ہے ۔
یہ ایک یقینی سچ ہے کہ اگر مسیحیت اپنی جڑیں رومی سلطنت کے صوبوںمیں سیاسی قوت کے زور پر مضبوط نہ کرتی تو آج یہ فقط یہودیت کاایک حقیر سافرقہ ہوتی جس کے متعلق شاید ہی کسی کو علم ہوتا۔
 چرچ کا یہ طے کرناکہ  غیر یہودیوں کو بھی مسیحیت کے دامن میں لایاجاسکتاہے ،یہ دراصل  غیریہودی دنیاکے فائدے کے لیے مسیحی پیغام کے "منتقل ہونے"کی ایک منطقی کوشش تھی۔
یہودیت سے ناطہ توڑ کر غیریہودیوں کو مسیحی بنانے کی کلییسائی کوشش غیریہودی دنیاکے فائدے کے نام پر دراصل اپنی افرادی قوت مضبوط کرنے کی کوشش تھی کیونکہ یہودی معاشرے سے تعلق رکھنے والے یسو ع ،اس کے شاگرد اور ان کی خالصتاًیہودی تعلیمات  اورمعاشرت کو مشرکانہ لباس پہنایاجاچکاتھااور یہ سب جہدمسلسل ایک ایسی مشرک قوم کے ہاتھوں ہواجویسوع کے یہودی مذہب سے سرسری طورپرہی واقف تھی۔اس زبردست تبدیلی کے عمل کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں کوئی بھی یہودی ایسانہ تھا جو کلیسیاء کی طرف سے پیش کردہ یسوع سے متعلقہ نئے نظریات پرمشتمل پیغام کو قبول کرتا کیونکہ کلیسیائی تعلیمات کے زیراثر یسوع اور ان کاپیغام اپنی یہودی شناخت کھوکر مشرک اقوام کے افکار میں ڈھل چکاتھاجسے قبول کرنا کسی بھی مؤحد یہودی کے لیے اتناآسان  نہ تھا۔
اس کے بعد چرچ کی بڑھتی ہوئی یہودی مخالفت نے مسیحی تہذیب کو یسوع کی حقیقی دنیا (یعنی یہودیت)سے مزید دور کردیا۔پانچویں صدی کی ابتداء میں فقط مقدس جیروم  ہی ایساشخص تھاجو پوری مسیحیت میں اکلوتا عبرانی جانتاتھاجوکہ یہودیوں کی مقدس اور مذہبی زبان تھی۔اس نے یہودی عبادت خانوں (سینیگاگ)کے عبادت گزاروں کی تلاوت کی آوازوں  کا تقابل سور کی غراہٹ اور گدھوں کے رینکنے کی آواز سے کیا۔جیروم کے معاصر قسطنطنیہ کے بشپ سینٹ یوحناخرستوم نے یہودیوں کو قاتلین یسوع قرار دیتے ہوئے ان کی عبادت گاہوں(سینیگاگ) کو عصمت فروشی کے اڈے،شیطان کے قلعے اور جہنم کے گڑھے قرار دیا۔بعد میں نے آنے والے مسیحی مخالف مارٹن لوتھر نے بھی اپنے انہی آباء کی پیروی کی۔
          پروٹسٹنٹ تحریک کے نتیجے میں مسیحی اسکالرز نے کئی سوسال بعد پھر سے قدیم یہود ی بائبلی لٹریچر میں دلچسپی لیناشروع کیا اور بالآخر سترہویں صدی میں مسیحیوں کو ربائی لٹریچر پڑھنے کی ترغیبات دی جانے لگیں نیزاناجیل کے گہرے مطالعے کی خاطر تلمود ان مسیحی علماء کے لیے یکدم مفید بن گئی۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والے عہدجدید پر تنقیدکےعمل  نے مسلسل ترقی کی اور اس کی بدولت کافی قدیم یہود ی دستاویزات دریافت ہوئیں جیساکہ وادی قمران کے صحائف وناگ حمادی کتب خانہ وغیرہ۔ان دریافتوں نے تقابلی مطالعہ کے میدان کو وسعت دی اور مسیحیت کے حقیقی معنوں اوران پوشیدہ گوشوں کو دنیا کے سامنے لائیں جن پر مدت دراز سے تاریخ کی گرد جم چکی تھی۔گذشتہ صدی کے نصف آخرمیں درجنوں قدیم یہودی کتب  دریافت ہوچکی ہیں جنہوں نے یسوع کی زندگی کے مزیدپہلوؤں کو سامنے لاکھڑا کیاہے۔زندگی نے وفاکی تو ان شاءاللہ ان پر بھی روشنی ڈالیں گے۔

کتابیات
1.     Holy Bible
2.     Jesus the Jew, Geza Vermes, Fortress Press, Phildelphia, 1973
3.     The Missing Jesus, Jacob Neusner, Brill Academic Publisher, Boston. 2002.
4.     The Real Jesus, Then and Now, Geza Vermes, Fortress Press, Minneapolis, 2009.

مکمل تحریر >>