Pages

Most Popular

ہفتہ، 6 اگست، 2016

کیا پولس فریسی تھا؟

اس کتاب کو پی ڈی ایف شکل میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم               
                یہودی و مسیحی علمی حلقوں میں پروفیسر ہائم مکابی جیسے اسکالر کا نام تعارف کا محتاج نہیں، برطانیہ میں یہودی و مسیحی روایات پر انہیں اتھارٹی اسکالرز کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے حتی کہ ڈاکٹر ہیوجے شون فیلڈ جیسے چوٹی کے اسکالرز بھی ان کے علم کے متعلق لکھتے ہیں کہ "مجھے یقین ہے کہ ہائم مکابی کے مقدس پولس کے متعلق نظریات قابل فکر ہیں". زیر نظر تحریر بھی ہائم مکابی کی کتاب The myth maker Paul and The Invention of Christianity کے باب Was Paul a Pharisee? کا سلیس ترجمہ ہے جس میں انہوں نے مقدس پولس کے دعویٰ فریسیت اور ان کے چند دعاوی کا جائزہ لیا ہے۔ اپنی اس ادنی سی کاوش کو میں اپنے محسن، مرشد اور مربی محترم جناب ظفر اقبال صاحب مدظلہ کی طرف منسوب کرتا ہوں جن کی رہنمائی اورمحبت و شفقت کے باعث میں اس مقام پر پہنچااوریہ ترجمہ کرنے کے قابل ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے چند مخلصین دوستوں بھائی شہزادیوسف گجرانوالہ، محمد مسلم رحیم یار خان اور سید محمد وقاص حیدر امریکہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ بعض مشکل مقامات پر انہوں نے میری رہنمائی فرمائی۔
                                                                                                                                                احقر عبداللہ غازی

                یہ پولس ہی تھا جس نے یسوع سے اس قدر اختلاف شدید رکھا کہ ان کے پیغام کو ایسی اخروی شکل میں تبدیل کردیا جو نہ ہی سیاست سے مطابقت رکھتی ہے اور نہ ہی رومیوں کے مغضوب اسکے یہودیوں ساتھیوں کے مصائب سے. یہ تصریف رومیوں کے بجائے یہودیوں کو یسوع کی تصلیب کا مجرم ٹھہراتی ہے. کیونکہ یسوع ماورائے سیاست رہے، یہودی مذہبی اور سیاسی اعتبار سے اُس وقت معتوب قرار پائے جب وہ مسیحیت کی نظر میں اچھوت بنا دیئے گئے ، انہیں سیاسی و معاشی حقوق سے معزولی کا سامنا کرنا پڑا اور تعذیب کا تختہ مشق بھی بنائے گئے۔
                تو پھر پولس کون تھا؟ اور کس طرح کا انسان تھا کہ اِس نے یسوع کی حیات و ممات کے واقعات کو اس حد تک تبدیل کردیا کہ یہ (وقائع) ایک ایسے مذہب کی بنیاد بن گئے جس کا مرکزی تخیل یہودیوں کی کردار کشی کرتے ہوئے انہیں مقدس تاریخ کا بدترین شریر بنا کر پیش کرنا تھا. یسوع خدا کی بادشاہی کی منادی کرنے آئے تھے اور خودکو ایسے اسرائیل کا بادشاہ متصور کرتے تھے جس میں رومی اور دیگر عسکری حکومتیں شامل نہ تھیں۔ انہوں نے کبھی ایک الوہی ہستی ہونے کا دعوٰی نہیں کیا اور نہ ہی اس بات کا اعلان کیا کہ ان کی موت انسانیت کے گناہوں کا کفارہ ہوگی۔ یہ یسوع کے مشن کی ناکامی تھی کہ وہ ممکنہ طور پر خدا سے صادر ہونے والے ایک عظیم معجزے کی مدد سے رومیوں کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہو سکے جو کہ ان کی ساری امیدوں کا محور تھا اور ان کی مایوسی صلیب پر چیختے چلاتے صاف ظاہر ہوتی ہے. اپنی مقدس سرزمین کی آزادی کو بحال کرنے، خدا کی بادشاہی میں ساری دنیا کے لئے کاہنوں کی سلطنت کے طور پر عمل کرنے کے یسوع کے منظر نامہ کے مستقبل میں یہودی بطور مقربین الہی شامل تھے. پولس کا نظریہ انوکھا ہے جس میں یہودیوں کے لئے کوئی قابل ذکر کردار نہیں اور وہ درحقیقت خدا کے دشمنوں کا کردار ادا کرنے میں ڈوب گئے تھے. پولس کے ذریعے المسیح کے عنوان سے یسوع کی طرف منسوب وہ معنی جس میں وہ اسرائیل کے بادشاہ کے عارضی اعزازی لقب کے بجائے ایک الوہی ہستی کا لقب پا گیا، ان معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے یسوع کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
                یسوع کو ایک فریسی کے طور پر اس خیال کے ساتھ کبھی نہیں سمجھا یا قبول کیا جا سکتا جو اس کو کفر گو اور بت پرست گردانتا اور یہودی تاریخی اصولوں کا اس طرح سے مخالف ظاہر کرتا ہے گویا کہ وہ (یسوع) جھوٹے خداؤں کا مقابل ایسا شخص ہو جسے انسانی قربانی کے ذریعہ کفارہ ادا کرنے کا حق تفویض کیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ پولس(جس کے نزدیک یسوع ایک زمینی خدا اور انسانی قربانی جیسی دونوں حیثیوں کا حامل تھا) فریسی تربیت یافتہ ہونے کا دعوٰی کرتا ہے۔ اب ہم اس سوال کی مکمل کھوج میں داخل ہوتے ہیں کہ یہ دعوی سچ تھا یا جھوٹ؟
                اعمال کی کتاب میں فریسیوں کی تصویر کشی اُس منظر نامے کے بالکل متبائن ہے جو اناجیل میں پیش کیا گیا ہے اور یہ ایسا تفاوت ہے جس سے (واقعاتی) تضادات بہت زیادہ صریح ہو گئے ہیں. ایک طرف اعمال کی کتاب میں فریسیوں کے مظالم کی تصویر خود پولس کے کردار کے ذریعے اس طرح کی گئی ہے جس طرح اناجیل میں فریسیوں کی تصویر بطور ایذا رساں پیش کی گئی ہے اسی وجہ سے پولس کو مبینہ ابتدائی زمانہِ فریسیت میں یسوع کے پیروکاروں کے تکلیف پہنچانے اور ستانے والا ظاہر کیا گیا ہے۔ دوسری طرف انہی واقعات کے دوران بہت سی علامات متون میں ایسی موجود ہیں کہ فریسی ابتدائی ناصریوں کے مخالف نہیں تھے بلکہ اسکے برعکس وہ ان کے ہمدرد تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اعمال کی کتاب کا مصنف لوقا بمشکل ہی وہ سب کچھ فریسی مخالف صلاحیتیں بروئے کار لانے کا تسلسل برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنی انجیل میں انتہائی لاپرواہی سے کام میں لایا تھا. اعمال کی کتاب میں اس کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ لوقا فقط وہی بیان دیتا ہے جو پولس کی تصویر کشی کرتے ہوئے اُسے حقائق سے انحراف کرنے کے لئے ضروری معلوم ہوتے ہیں۔
                یسوع کے ابتدائی پیروکاروں اور فریسیوں کے درمیان بنیادی موافقت کا ثبوت اعمال کی کتاب میں موجود پولس کے فریسی ہونے کے دعوے پر سنگین شک قائم کرتا ہے۔یہ مناسبت اعمال کی کتاب کے ایک اہم جز میں یہ ملاحظہ کی جا سکتی ہے جہاں پطرس اور دوسرے رسولوں کا دفاع بزرگ گملیل کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں اعمال باب ٥ کا مبینہ واقعہ تفصیلی تجزیے کا تقاضا کرتا ہے.
سردار کاہن کی طرف سے پطرس کو یسوع کے متعلق منادی کرنے سے خبردار نہیں کیا گیا تھا بلکہ دوسرے رسولوں نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں. سردار کاہن اور اسکے ساتھی جو کہ صدوقی گروہ سے تھے وہ حسد کی وجہ سے انکے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اٹھے اور رسولوں (حواریین) کو گرفتار کرکے انہیں حوالات میں بند کردیا. اناجیل کے برعکس اعمال کی کتاب اس حقیقت کو نہیں چھپاتی کہ سردار کاہن صدوقی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ فریسیوں کا مخالف بھی تھا. یہاں بہت واضح اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ وہ صدوقی جماعت سے تعلق رکھتا تھا جو کہ اعمال کی کتاب کے مطابق رسولوں کو گرفتار کرانے اور حوالات میں بند کروانے میں ملوث تھے. یہودیوں کی عدالت عالیہ سنہڈرین کی طرف سے تبلیغی سرگرمیوں سے باز آجانے کے حکم کے باوجود شاگرد اپنی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے کا جرم کرتے رہتے ہیں. پطرس رسولوں کی طرف سے جواب دیتے ہیں کہ " ہمیں آدمِیوں کے حُکم کی نِسبت خُدا کا حُکم ماننا زیادہ فرض ہے". اور پھر یہ کہانی اس طرح جاری ہوتی ہے۔
                گملی ایل نام ایک فرِیسی نے جو شرع کا مُعلِّم اور سب لوگوں میںعزت دار تھا عدالت میں کھڑے ہوکر حُکم دِیا کہ اِن آدمِیوں کو تھوڑی دیر کے لِئے باہِر کردو ۔ پِھر اُن سے کہا کہ اَے اِسرئیلیوں ۔ اِن آدمِیوں کے ساتھ جو کُچھ کِیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا کِیُونکہ کہ اِن دِنوں سے پہلے تھیُوداس نے اُٹھ کر دعویٰ کِیا تھا کہ مَیں بھی کُچھ ہُوں اور تخمینا چارسَو آدمِی اُس کے ساتھ ہوگئے تھے مگر وہ مارا گیا اور جتِنے اُس کے ماننے والے تھے سب پراگندہ ہُوئے اور مِٹ گئے ۔ اِس شَخص کے بعد یہُوداہ گلِیلی اِسم نِویسی کے دِنوں میں اُٹھا اور اُس نے کُچھ لوگ اپنی طرف کر لِئے ۔ وہ بھی ہلاک ہُؤا اور جِتنے اُس کے ماننے والے تھے سب پراگندہ ہوگئے ۔ پَس اَب مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِن آدمِیوں سے کِنارہ کرو اور اِن سے کُچھ کام نہ رکھّو ۔ کِہیں اَیسا نہ ہو کہ خُدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو کِیُونکہ یہ تدِبیریا کام اگر آدمِیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہوجائے گا لیکِن اگر خُدا کی طرف سے ہے تو تُم اِن لوگوں کو مغلُوب نہ کرسکوگے ۔ اُنہوں نے اُس کی بات مانی اور رَسُولوں کو پاس بُلاکر اُن کو پِٹوایا اور یہ حُکم دے کر چھوڑ دِیا کہ یِسُوع کا نام لے کر بات نہ کرنا ۔ (اعمال باب ٥ فقرات ٣٣ تا ٤٠)
                اِس واقعہ کی تاریخ اہمیت کی علماء نے کماحقہ قدر نہیں کی۔ اوپر وضاحت کردہ بیان کی روشنی میں یہ واقعہ جو اناجیل اور اعمال کی کتاب کے بعض واقعات کے مکمل متضاد نمایاں مفروضہ بیانات کے خلاف جاتا ہے، خاص توجہ کا متقاضی ہے۔ اُس وقت کی درست تاریخی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ قضیے کا مطالعہ اس واقعہ کا ایک اہم رُخ سامنے لاتا ہے۔
                پہلی قابل ذکر بات یہی ہے کہ گملیل کسی طرح بھی شاگردوں کی طرف سے مذمت نہیں کر سکتا تھا جوکہ بدعتی اور یہودی مذہب کے باغی تھے۔ اس مقام پر ہم انہیں مسیحی تحریک کے مناد کے بجائے رومیوں کے خلاف ہدایت یافتہ پاتے ہیں۔ اس کا ثبوت گملیل کا تجزیہ پر مبنی بیان ہے جو وہ شاگردوں اور اُس وقت کی دیگر تحاریک کے مابین کرتا ہے. اپنی تقریر میں وہ دو قسم کی تحاریک کا ذکر کرتا ہے جس میں تھیوداس اور یہودا گلیلی شامل ہیں۔ ان دونوں تحریکوں کے وقوع کے متعلق ہمارے پاس اعمال کی کتاب کے ہم عصر ماخذات کی بنیاد پر لکھی جانے والی ٩٠ عیسوی سے تعلق رکھنے والی جوزفیس کی تاریخی تحاریر ہیں۔ (اعمال کی کتاب کو ترتیب دینے کا زمانہ بھی ٩٠ عیسوی ہی ہے) جوزفیس ان دونوں تحریکوں کو ایسی میسیانک تحریک قرار دیتے ہوئے انکی تصدیق کرتا ہے جو کہ کسی بھی طرح یہودی مذہب کے خلاف نہیں تھیں۔ تھیوداس ایک نبی کے مماثل اُٹھا تھا جس کے پاس کوئی عسکری تنظیم نہیں تھی بلکہ اس نے بائبل کی پیشگوئیوں پر انحصار کرتے ہوئے خدا کی طرف سے ایسے معجزے کے صادر ہونے کا انتظار کیا جو رومیوں کو تباہ و برباد کر دے۔
                بے شک یہ فرض کر لینے میں یہ کوئی قباحت نہیں کہ اعمال کا مصنف جو الفاظ گملیل کی طرف سے بیان کرتا ہے بالکل وہی ہیں جو گملیل نے سنہڈرین سے قبل استعمال کئے بلکہ گملیل کی اصل رائے اُس وقت کے اصل تاریخی حالات کے ساتھ درست قرار پاتی ہے کہ (اعمال کی کتاب کی کتاب میں مختلف کرداروں کو مختلف تقاریر دی گئی ہیں) اس بات میں زبردست حقیقت موجود ہے۔یہ بیان تصنع سے بھرپور نہیں ہے بلکہ ایسی حقیقت پر مبنی ہے جس کی کچھ تفصیلات کو مسخ کردیا گیا ہے. مثال کے طور پر گملیل کی تقریر میں موجود تھیوداس کا نام درست نہیں ہو سکتا کیونکہ تھیوداس کا زمانہ بغاوت ٤٥ عیسوی ہے اور وہ گملیل کے تقریر کے متاخر زمانہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اعمال کے مصنف نے یہاں گمنامی کی دبیر تہوں میں دبے کردار کے اصل نام کی جگہ متبادل نام شامل کیا ہے جیسا کہ المسیح کی حیثیت سے نمودار ہونے والا تھیوداس، جس کا نام تاحال قارئینِ اعمال میں معروف تھا۔
                دوسری طرف یہوداہ گلیلی چھٹی صدی عیسوی میں ہونے والی کورنیس کے عہد کی مردم شماری اور محصول جمع کرنے والوں کے زمانہ میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ یہوداہ گلیلی ایک زبردست حریت پسند تحریک کا بانی تھا جو کہ "زائیلوٹ" کے نام سے مشہور تھی اور یہوداہ گلیلی کے موت کے بعد بھی طویل عرصے تک جاری رہی۔ اعمال کی کتاب کے ضبط تحریر میں لانے کے وقت تک اِس کا نَام قارئین کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ تھیوداس کے برعکس یہوداہ ایک عسکریت پسند جنگجو تھا جو جنگی گوریلا کارروائیوں میں مصروف رہا۔ وہ کسی بھی طرح ایسا باغی نہیں تھا جسے یہودی مذہب کا مخالف قرار دیا جاتا بلکہ اس کے برعکس وہ فریسی ربی بھی تھا۔
                گملیل یسوع کی تحریک کو بھی انہی دونوں تحاریک کے تناظر میں رکھتا ہے۔ یہوداہ گلیلی اور یسوع کے درمیان مماثلت کی بنسبت یسوع اور تھیوداس (گمنام کردار جس کی جگہ معروف نام ودیعت رکھا گیا از مترجم) کے درمیان گہری مشابہت ہے کیونکہ یسوع کبھی بھی عسکری قوت کو منظم کرنے میں مصروف عمل نہیں رہے بلکہ تھیوداس کی طرح خدا کی طرف سے صدورِ معجزہ کے منتظر رہے۔ جس وقت یسوع کی تحریک کے زمانہ عروج کے وقت اُس میں بغاوت کے عناصر جنم لے چکے تھے یہی وجہ تھی کہ یسوع اپنے شاگردوں سے سوال کرتے نظر آتے ہیں "خواہ ان کے پاس تلواریں ہوں یا نہ یوں" اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان شاگردوںکے پاس دو تلواریں ہیں تو وہ فرماتے ہیں "بس بہت ہیں" (لوقا ٣٨:٢٢)اس واقعہ کو فقط ایک ہی انجیل نویس کا رقم کرنا دراصل یہ تاثر قائم کرنا نہیں کہ یسوع عدم تشدد کا حامی نہیں تھا بلکہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کے حصے کی لڑائی کے لئے یہ کافی ہیں باقی کام خدا کرے گا۔ یہاں وہ جدعون کے بائبلی محاورے کی پیروی کرتا ہے لیکن یسوع کا یہ غیر عسکری مؤقف اس کی رومیوں کی مخالفت میں زرا بھی کمی نہیں کرتا جنہوں نے تھیوداس کی بات کو اس قدر سنجیدگی سے لیا کہ اس کو قتل کرنے کے درپے ہو گئے۔
                اناجیل کے مبینہ بیان کے مطابق اگر یسوع واقعی یہودی مذہب کے باغی تھے اور تورات کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے خود کو اس کی دفعات منسوخ کرنے کے قابل سمجھتے تھے تو گملیل نے اِس موقع پر اس حوالے سے ایسا کچھ کیوں نہیں کہا جب وہ یسوع کے پیروکاروں کے ساتھ ممکنہ برتاؤ کی تجویز دے رہا تھا کہ ان کے ساتھ فوری طور پر کیا کرنا ہے؟ حالانکہ گملیل فریسی اور ایسی مذہبی جماعت کا سربراہ تھا جو تورات کے مامور من اللہ ہونے پر ایمان رکھتی تھی۔ اگر فریسی واقعی یسوع کی حین حیات ان کے دشمن ہوتے تو ان کا مذہبی پیشوا یسوع کی موت کے بعد یکدم اتنی جلدی یہ سب کچھ کیسے بھول کر ان لوگوں کی حمایت کر سکتا تھا جو یسوع کے ساتھی بھی تھے اور ان میں پطرس جیسے یسوع کے دست راست بھی شامل تھے ؟ اگر یسوع اور اس کے ساتھی سبت اور دیگر یہودی قوانین کو توڑنے والے ہوتے(جیسا کہ مروجہ مسیحی عقیدہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ سب کچھ اُس رویے کے مطابق جاری رکھا جائے جو یسوع کا اپنا تھا) تو گملیل جیسے فریسی کیسے اس تحریک کو "خدا کی طرف" سے قرار دے سکتے تھے؟
                اگر یہ فریسی رہنما کا نرم رویہ تھا (مگر روایتی مسیحی نظریہ کے مطابق ناقابل توضیح) تو مبینہ فریسی پولس اس سے یکسر مختلف نظریات کا حامل کیوں تھا کہ وہ یسوع کے پیروکاروں کا خونی دشمن اور سخت ایذا رساں تھا اور انہیں اُس جیل کی طرف کھینچنے ہوئے لے جاتا تھا جدھر سے گملیل اسے رہا کرانا چاہ رہا تھا؟
                کلیسیاء کے مسیحی دلیلی (Apologist ) ان سوالات کا مشکل ہی سے سامنا کر پاتے ہیں اور عموما ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ گملیل ایک روایتی فریسی نہیں تھا بلکہ وہ فی الحقیقت خفیہ طور پر مسیحیوں کا ہمدرد تھا اور اس کے ساتھ ساتھ مسیحی کلیسیاء کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتا تھا۔ ہر وہ شخص جو گملیل کے فریسی پس منظر سے واقفیت رکھتا ہے اس کے نزدیک یہ جواب انتہائی مضحکہ خیز ہوگا لیکن اعمال کی کتاب سے گملیل کی بطور فریسی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کرنے سے ناکامی سے دوچار ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور اس کی وجہ خود اعمال کی کتاب ہے جو اپنے واقعات میں تضاد بیانی کا شکار ہے۔
                لوقا کا گملیل کو" ایک ایسا فرِیسی جو شرع کا مُعلِّم اور سب لوگوں میں عِزت دار تھا "کہنا اس بات کو واضح نہیں کرتا کہ وہ اس وقت کی نسل کا ایسا فریسی سردار تھا جو یہودی روایت کے سلسلے کی اہم کڑی ہو اور یہودیت کے حقیقی اجداد میں سے ہو۔ لوقا کا گملیل کو خفیہ مسیحی کہنا اسی طرح ہوا جیسا کہ پطرس ایکوناس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ خفیہ طور پر ہندو تھا۔ بے شک گملیل یسوع کے پیروکاروں کا ہمدرد تھا جیسا کہ حالیہ واقعہ سے بھی ظاہر ہے مگر یہ ہمدردی ان معنوں میں تھی کہ اُس نے اِن لوگوں میں کوئی قباحت نہیں پائی اور سوچا کہ ممکن ہے کہ یہ خدا کی طرف سے مؤید ہو سکتے ہیں ۔ لیکن وہ یہ ہمدردی اُس وقت کبھی نہیں کر سکتا تھا اگر یسوع اور پیروکاروں کی طرف وہ نظریات منسوب ہوتے جو بعد میں مسیحی ایمان کا حصہ بنے۔
                یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اعمال کی کتاب میں گملیل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے جیسے وہ سب لوگوں میں انتہائی معزز ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اشارہ ہے جو عہد جدید میں یہودیوں عوام کے درمیان فریسیوں کے رتبے کو ظاہر کرتا ہے۔ اناجیل کی ایسی تفہیم کو ہم کبھی بھی درست نہیں کہتے بلکہ وہاں فریسیوں کو بطور فخریہ ظالم، عوام کو مشقت میں ڈالنے والے، ریاکاری کرتے اور تقوی و پرہیزگاری کی نمائش کرتے ہوئے منافق ظاہر کیا گیا ہے۔ ایک شخص کبھی بھی اِس مواد (عہد جدید) سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ فریسی درحقیقت ایسے لوگوں کا گروہ تھا جو صدوقیوں کی خلافِ شرع آراء سے یہودی رسوم و روایات کی حفاظت کررہے تھے اور لوگ انہیں خدا کی طرف سے بدعنوان سردار کاہنوں اور بادشاہوں کے خلاف قدرتی محافظ سمجھتے ہوئے ان سے محبت کرتے تھے۔
                گملیل کے معمہ کا جدید حل دراصل فریسیوں کے مابین تقسیم کی تدبیر ہے، اِس نظریہ کے مطابق گملیل ربی ہللیل کی فریسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا جبکہ پولس انتہائی سخت گیراور انتہا پسند ربی شمائی کے گروہ سے آمدہ تھا۔ یہ وضاحت طلب بات یہ ہے کہ دو فریسی گروہ کیوں یسوع کے پیروکاروں کے ساتھ مختلف رویوں سے پیش آ رہے تھے؟ یہ حقیقت ہے کہ گملیل ایک ہلیلائی تھا کیونکہ وہ ہلیل کی نسل میں سے تھا۔ لیکن یہاں ربی ہلیل اور شمائی کے درمیان اختلاف کا کوئی موقع نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے یسوع کے متبعین کے متعلق کچھ اختلافی نظریہ پیش کیا ہو۔ یہ سارا واقعہ اس امر کی خبر دیتا ہے کہ اپنے اعمال و نظریات میں ناصری کس طرح بدعتی تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی گزارنے میں قدامت پسند یہودی تھے جس میں ختنہ پر عمل، غذائی احکامات کی تعظیم، سبت اور دیگر تہواروں کی تکریم بھی شامل تھا۔ فقط ایک ہی شے تھی جو انہیں دیگر روایتی مسیحیوں سے ممتاز کرتی تھی اور وہ یسوع کو بحیثیت "المسیح" قبول کرنا تھا کیونکہ اُس وقت تک ناصریوں میں یسوع کے متعلق الوہی ہستی ہونے کا کوئی نظریہ شامل نہیں ہوا تھا اور یہ نظریہ بھی دوسرے یہودیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رواداری کے دائرے میں ہی تھا جن میں (دیگر یہودیوں) سے اکثر المسیح کے متعلق اِسی طرح کا عقیدہ دیگر ہستیوں کے بارے میں رکھتے تھے جیسا کہ یہوداہ گلیلی اور تھیوداس. کوئی بھی فریسی خواہ وہ ہلیلی ہو یا شمائی اس کے لئے ایسی کوئی معقول وجہ نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ یسوع کے متعلقین کے لئے تعصب یا ناراضگی کا کوئی رویہ رکھے۔
                ربی شمائی کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے فریسی، یسوع کے ابتدائی پیروکاروں سے ہلیلی فریسیوں کی نسبت زیادہ ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے کیونکہ شمائی فریسی، ہلیلیوں کی نسبت رومی غلامی کے خلاف زیادہ مستعد و سرگرم تھے چنانچہ اگر کوئی بھی "رومی غلامی سے جلد نجات کی امید کے ساتھ اُٹھنے والی مسیحی تحریک " اگر سرگرم ہوتی تو محتاط روش اختیار کرنے والے ہلیلیوں کی نسبت شمائی فریسیوں کی طرف سے زیادہ پرجوش مثبت ردعمل وصول کر سکتی تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا اس سے اس بات کے یقین کا جواز پیدا ہوتا ہے کہ یسوع خود بھی شمائی مکتب فکر سے تھے. یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہلیلی رومی حکومت سے راضی تھے اور متوقع مستقبل میں یہودی آزادی کی تمام امیدیں کھو چکے تھے. گملیل کی تقریر اس کے برعکس ظاہر کرتی ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ یہ ایک سرگرم سیاسی تقریر تھی۔ وہ درحقیقت یہ کہتا ہے کہ "ماضی کے چند ناکام گروہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یسوع کے پیروکاروں کی متوقع کامیابی کے سوا کوئی چیز خوش نہیں کر پائے گی مگر میں صرف انتظار اور معاملہ کی نزاکت دیکھنے کو اختیار کروں گا۔ بحیثیت ایک معتدل فریسی یہ بالکل درست رویہ تھا جو کہ سابقہ بہت سی ناکام تحریکوں کی وجہ سے کسی بھی ایسے شخص کی طرف سے امید و بیم میں مبتلا تھے جو المسیح ہونے کا دعوٰی کرتا اور وہ المسیح کی آمد پر گرم جوشی اور امید کے ساتھ ایمان رکھے ہوئے تھے۔ اس طرح اعتدال پسند فریسی سیاسی جمود سے تحرک کی طرف بآسانی منتقل ہو سکتے تھے جیسا کہ بارکیوبا کی تحریک کے دوران ہوا۔ فریسی جماعت رومی مخالفت کی فضا پیدا کرنے اور لوگوں کو رومی حکومت کے خلاف برانگیختہ کرنے کا مرکز تھی۔ گملیل کی تقریر کا سیاسی کردار، یسوع کی تحریک اور فریسیوں کے درمیان تعلق کے واقعات اور عہد جدید کی عمومی جانبدار وضع کے مضبوط فرق کو ظاہر کرتی ہے جسے اعمال کے مصنف نے فقط مذہبی مسئلہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
                یہ بات قابل استفسار ہے کہ اعمال کی کتاب کے مصنف لوقا نے اس واقعہ کے انکشاف کو کیوں ظاہر کیا جوکہ اناجیل میں بےحد متضاد رخ سے پیش کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہی سجھائی دیتا ہے کہ لوقا کے پاس دیگر انجیل نویسوں کے مقابل تاریخی ماخذات تک زیادہ رسائی تھی اور اکثر ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے کردار کے تحریری ذرائع سے کام لے رہا تھا جس کو سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل تھی اور لوقا اِس مواد کو علمی قابلیت کے ساتھ فخر ظاہر کرتے ہوئے منتقل کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی انجیل میں وہ ہمیں اُس وقت کی فرد جرم کی تفصیل بھی فراہم کرتا ہے جب یسوع کو رومیوں کے حوالے کیا جا چکا تھا. کوئی شک نہیں کہ یہ سارا بیان کسی سرکاری کاغذات سے لیا گیا ہے ( اِسے ہم نے اپنی قَوم کو بہکاتے اور قَیصر کو خِراج دینے سے منع کرتے اور اپنے آپ کو مسِیح بادشاہ کہتے پایا)۔ لوقا کا اپنے ماخذ سے لفظ بہ لفظ اقتباس دینا سیاسی حقیقت کے رجحان کو واضح کرتا ہے جس کی لوقا نے مختلف تجاویز کے ذریعے مزاحمت کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔ اگرچہ حالیہ واقعہ میں وہ سنہڈرین کے سیاسی مقدمہ سے قبل رسولوں کا ظہور اُس تقریر کے ساتھ کرتا ہے جسے وہ پطرس کے منہ میں اُس وقت رکھتا ہے جب وہ مقدمہ شروع ہونے سے قبل سوالات کی زد میں تھا. " ہمیں آدمِیوں کے حُکم کی نِسبت خُدا کا حُکم ماننا زیادہ فرض ہے ۔ ہمارے باپ دادا کے خُدا نے یِسُوع کو جِلایا جِسے تُم نے صلِیب پر لٹکاکر مار ڈالا تھا ۔ اُسی کو خُدا نے مالِک اور مُنجّی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سر بُلند کِیا تاکہ اِسرائیل کو تَوبہ کی تَوفِیق اور گُناہوں کی مُعافی بخشے ۔ اور ہم اِن باتوں کے گواہ ہیں اور رُوح القدُس بھی جِسے خُدا نے اُنہِیں بخشا ہے جو اُس کا حُکم مانتے ہیں ۔ " (اعمال باب ٥ فقرات ٢٩ تا٣٢)یہ تقریر دراصل سردار کاہن سے خطاب ہے جہاں لوقا یہودیوں پر یسوع کے قتل کا الزام لگاتا ہے اور رومیوں کے خلاف حریت پسند کے بجائے یسوع کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتا ہے یہاں تک کہ گملیل کے متاخر تقریر سے نکلنے والے مفہوم کے برخلاف یسوع کی تحریک کو بالکل ہی مختلف جماعت کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یہاں مسیحا کی اصطلاح یقیناً استعمال کی گئی ہے لیکن یہ یہودی اصطلاح "نجات دھندہ" کے انداز میں قطعاً استعمال نہیں ہوئی ہے بلکہ مسیحیوں نے بہت بعد میں اسے "گناہوں سے نجات" کے معنی میں استعمال کیا۔ یہ اندازِ بیاں اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے جو سنہڈرین کے باقی ماندہ پس منظر میں پیش کیا گیا ہے لیکن اگر آپ پطرس اور دیگر رسولوں کے نظریات اِسی بنیاد پر استوار ہوتے (جس پر مروجہ مسیحیت کی عمارت کھڑی ہے) تو گملیل کبھی بھی ان کا دفاع نہ کرتا۔
                دوسری صورتحال جو گملیل کے واقعہ میں استعمال ہوئی ہے وہ گملیل کی فرد واحد اور نااہل نمائندے کے طور پر تصویر ہے جہاں صرف اس حقیقت جو چھپا کر تسلیم نہیں کیا جاتا کہ گملیل فریسیوں کا سردار تھا بلکہ اس سچائی پر بھی پردہ ڈالا گیا ہے کہ شاگردوں کی رہائی ایک واضح اکثریت کے ذریعے عمل میں آئی تھی۔ لوقا لفظوں کی ہیر پھیر کے ساتھ صرف یہ بتاتا ہے کہ گملیل اپنے نقطہ نظر سے سنہڈرین کو اپنی رائے کے موافق ترغیب دے رہا تھا کہ وہ شاگردوں کو معاف کرنے اور درگزر کرنے کا انوکھا عمل کریں. یہ بات گملیل کو واحد شخص کی حیثیت سے ممتاز کر دیتی ہے جس نے ایک موقع پر معجزاتی انداز میں قائل کرنے کی کوشش کی مگر عام فریسی ایسا کچھ نہ کر سکے۔ مسیحی علماء نے اس سارے معاملے کو اسی طرح سمجھا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ سنہڈرین کی نرم دلی تو لوقا کے اسی دعوے سے ختم ہو جاتی ہے کہ شاگردوں کو رہا کرنے سے قبل کوڑے سے مارا گیا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ گملیل جو کہ فریسیوں کا مذہبی رہنما تھا اس کے مؤقف کے مؤید سنہڈرین کے سبھی فریسی ارکان ہونے چاہیے تھے ناکہ صدوقی جن کا پیشوا سردار کاہن تھا، اس وجہ سے یہ معاملہ فریسیوں کی کثرت رائے کے سبب صدوقی اور سردار کاہن کا ہے۔ اہم واقعات کی شہادات اور دیگر ذرائع تائید کرتے ہیں کہ سردار کاہن عام طور پر سنہڈرین میں "جہاں فریسیوں کی کثرت تھی" اپنا راستہ نہ بنا سکتا تھا اور اسی طرح سردار کاہن اور فریسیوں کے نظریات میں اختلاف کی وجہ سے یکسانیت نہیں ہو سکتی تھی۔
                گملیل کو یہاں ناصریوں (مسیحیوں) سے غیرمعمولی مہربان رویہ رکھنے والے واحد شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس طرح کی دیگر صورتیں بھی اسکے ساتھ جگہ لیتی ہیں جیسا کہ یوسف ارمتیائی اور نیکودیمس جو کہ اناجیل میں نمایاں ہیں اور دونوں کو ہی سنہڈرین کا رکن اور فریسی بیان کیا گیا ہے جو کہ یسوع کی تحریک میں شمولیت اختیار کئے بغیر ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور مصلوبیت کے بعد یسوع کو ایک مناسب مقبرہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ سب صورتیں دراصل اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ فی الاصل فریسیوں اور یسوع کے درمیان کوئی مخاصمت موجود نہ تھی بلکہ انکے آپس میں ذاتی روابط تھے جبکہ اناجیل میں فریسیوں کی معاندانہ تصویرکشی کرکے اسکے برعکس تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر یسوع کفر گو ہوتے، بت پرستی کی طرف دعوت دیتے یا تورات کے مخالف ہوتے تو کوئی بھی فریسی یسوع اور ان کے شاگردوں سے ہمدردی نہیں کرتا، اگر ایسا ہوتا تو نیکودیمس، یوسف ارمتیائی کا دوستانہ رویہ اور گملیل کی تمام فریسیوں کی طرف سے یسوع کی حمایت کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔
                اعمال کی کتاب میں ہمیں گملیل اور پولس کے دو کردار ملتے ہیں جن کے بارے میں فریسی ہونے فرض کر لیا گیا ہے مگر اسکے باوجود وہ ایک دوسرے کے مخالف کھڑے نظر آتے ہیں. اناجیل میں پائے جانے والے واقعات کا تسلسل ہم گملیل کی ذات میں جاری رکھیں گے (اگرچہ ظاہری طور پر نہیں) کہ یسوع فریسی تھے اور انکی تحریک فریسیوں کے ہمدردوں میں شمار کی جاتی تھی۔ اناجیل میں فریسی مخالفت کے رجحان کا اہم کارندہ ہم پولس کی ذات میں دیکھتے ہیں لہٰذا انجیل میں یسوع کی موت کی تشریح کے مطابق پولس وہ غیر عاقل اور متشدد فریسی تھا جو یسوع کے پیغام سے بہت برانگیختہ ہوتا اور یسوع کی تحریک کو تباہی سے دوچار کرنا چاہتا تھا۔ گملیل ایک مستند تاریخی کردار ہے جس کا رویہ اُس وقت کی معلومات کی روشنی میں درست سمجھا جا سکتا ہے لیکن صرف ساؤل (پولس) ہی ایسا مضحکہ خیز اور دہشت ناک فریسی ہے جس کے محرکات کو کسی طرح بھی نہیں سمجھا جا سکتا) بحیثیت فریسی پولس کو درست سمجھا ممکن نہیں لیکن فریسیت کے دائرے سے خارج کرکے پولس کی تفہیم درست سمت میں کی جا سکتی ہے اور اس کے ساتھ پولس کے سردار کاہن کے ساتھ تعلقات کی جانچ بھی ضروری ہے بلکہ سچائی کے ادراک کا ایک ذریعہ ہے۔
                جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سردار کاہن صدوقیوں کا سردار تھا (عہد جدید بھی اس کی گواہی دیتا ہے) اور فریسیوں کے ساتھ مذہبی معاملات میں مسلسل مخاصمت میں مصروف تھا اور صدوقیوں کی فریسیوں سے یہ مخالفت رومی قابضین کے ساتھ تعاون کی حد کے تعین کے سیاسی مسئلہ پر بھی تھی جہاں ان دونوں گروہوں کے درمیان بنیادی فرق یہ تھا کہ صدوقی رومیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے یہاں تک فعال تھے کہ لوگوں کو گرفتار کرکے ایذا دینے کے لئے رومیوں کے حوالے تک کردیا کرتے تھے. رومیوں کی طرف سے نامزد کی حیثیت سے سردار کاہن ہیکل پر فقط رسمی سرکاری اختیار نہیں رکھتا تھا بلکہ درحقیقت پولیس چیف ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی خود کی مسلح پولیس رکھتا تھا جس کا تعلق سیاسی جرائم سے تھا اور اس پولیس کا باقاعدہ تعزیری نظام بھی تھا جس میں مجرموں کو کوڑے مارنے کی سزا بھی شامل تھی۔ جبکہ رومی حکومت کے خلاف تشویشناک بغاوت جیسے بڑے جرائم کے مقدمات میں وہ (سردار کاہن) مجرموں کو خود سزا سنانے کے بجائے رومی حکومت کے حوالے کردیا کرتا تھا، یہ صورتحال دوسری جنگ عظیم میں مقبوضہ فرانس کے حالات سے موازنہ کرکے درست سمجھی جا سکتی ہے۔
                یہ اگرچہ ناقابل یقین ہے کہ معروف فریسی یا کوئی بھی فریسی، سردار کاہن کے ساتھ قریبی شراکت میں داخل تھا جیسا کہ پولس اپنی کارگزاری میں بیان کرتا ہے کہ وہ اُن لوگوں کو گرفتار کرکے قیدی بنا کر سردار کاہن کے پاس لاتا تھا جو سردار کاہن کی نظروں میں مجرم تھے اور یہ پولیس کا کام تھا کیونکہ سردار کاہن کوئی ایسا بڑا مذہبی جج نہیں تھا کہ وہ بدعتیوں کا محاسبہ کرنے کے معاملات میں مداخلت کرتا۔ یقیناً ایک صدوقی کے طور پر یہودیوں کی اکثریت اُسے بدعتی تسلیم کرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ سردار کاہن سرکاری ہرکاروں کو کسی بھی طرح کیوں استعمال کرسکتا تھا، لیکن سردار کاہن نے اپنے نفع بخش مقاصد کی تکمیل کے لئے انہیں استعمال نہیں کیا۔ (کچھ ذرائع اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ سرکاری افسران کو دہ یکی وصول کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے اگرچہ انہیں یہ ظاہر کیا جاتا تھا جیسا کہ وہ اختیاری معاملہ ہو) ان کا بنیادی تعلق رومی زعماء کو مطلوب نتائج کو منظر عام پر لانا تھا۔
                اگر یسوع کی تحریک اس طرح بدعتی ہوتی اور یہودیت کے روایتی عقائد کے برعکس مذہبی نظریات کا پرچار کرنے والی ہوتی، تو کاہن اس سے مکمل طور پر لا تعلق ہوتے لیکن اگر یہ تحریک مذہبی معاملات میں فریسیوں کی مخالف ہوتی تو کاہن اس سے راضی رہتے ، کیونکہ یہی ان کے موقف کے مؤید ہوتے ۔ (دراصل انہوں نے اضطراب میں انجیل میں یسوع کےمنہ سے ایسی باتیں منسوب کی ہیں جو بعض اوقات صدوقیوں سے ملتی جلتی ہیں ، اور واضح طور پر فریسیوں کے برعکس صدوقیوں کے دلائل سے اخذ کی گئی ہیں ، اس اصول پر کہ کتے کو کسی بھی چھڑی سے مارا جا سکتا ہے ) واحد صورت کہ جس میں کاہن اپنی عسکری قوت کو عوام کو گرفتار یا قید کرنے کے لئے استعمال کر سکتا تھا وہ یہ تھی کہ عوام میں سے کوئی رومی سلطنت کے مخالف کسی طرح کی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہوتا۔ اگر ساؤل (پولس) کو کاہن نے لوگوں کو گرفتار اور قید کرنے کے لئے مامور کیا تھا تو اس کا صرف ایک ہی سبب تھا کہ ساؤل (پولس) کاہن کی عسکری قوت کا ایک رکن تھا اور اس کا پیشہ ورانہ فرض تھا کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو گرفتار کرلے جو اسکی حیثیت کے لیے خطرے کا باعث ہو۔ آخری شخص جو کاہن نے اس حیثیت میں مامور کیا تھا وہ فریسی تھا اگرچہ ساؤل فریسی نہیں تھا۔
                یہ ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ محقق جو کبھی اس امکان کا گمان نہیں رکھتے تھے کہ پولس ایک فریسی نہیں تھا بالآخر اسے تسلیم کرنے لگتے ہیں ۔ یوں Johannes Munck اپنی کتاب رسولوں کے اعمال میں لکھتے ہیں کہ اس ثبوت کے تناظر میں کہ فریسی ناصریوں (مسیحیوں) کے دوست تھے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ساؤل واحد فریسی تھا جس نے تحریک کو سزا دینے کے لیے فوجی قوت میں شمولیت اختیار کی ۔ کاہن کے خدمت گاروں میں واحد فریسی پولس تھا جس نے گیمیلن چھوڑ دیا تھا اور عیسائیوں کو سزا دینے والا پر جوش سپاہی بن گیا تھا اور اس سے پہلے اس سے زیادہ ایک انقلابی لہر نے اسے یسوع کا حواری بنا دیا تھا۔ کہانی کے اس طرح بالکل بدل دیے جانے پر اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس کہانی میں بنیادی طور پر کچھ غلط ہے ۔ اس صورتحال میں واحد تسلی بخش حل یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساؤل فریسی نہیں تھا مگر اس نے مسیحیوں کو ٹھیک اسی وجہ سے سزائیں دیں جس کے سبب کاہن نےانہیں سزائیں دی تھیں کیونکہ وہ (فریسی) رومن تسلط کے مخالفین تھے۔ ورنہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ایک فریسی لوگوں کے ایک ایسے گروپ کو سزائیں دے جنہیں تمام فریسی بشمول اپنے محترم رہنما کے مقدس یہودی سمجھتے ہوں ۔ جنکے یسوع کے مسیح ہونے کے یقین کی وقت کے ساتھ تصدیق ہو چکی تھی۔
                پھر کس قسم کے یہودی نے سردار کاہن کے زیر اثر سیاسی پولیس میں شمولیت اختیار کی ہو گی ۔ بلاشبہ سردار کاہن کی پولیس مختلف النوع قسم کے لوگوں پر مشتمل تھی جن میں چھوٹے درجے کے کاہن جو جزوی طور پر صدوقیوں کے حامی تھے یا پھر ان چند خاندانوں کے افراد تھے جن میں سے سردار کاہن کو روایتی طور پر منتخب کیا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی مختلف ممالک کے مناد بھی شامل تھے، جن میں یہودی اور غیر یہودی بھی تھے۔ جو کہ یہودی حب الوطنی سے نسبتاً بے نیاز تھے اور وہ اس غیر مقبولیت کو برداشت کرنے پر راضی تھے جو کہ ناپسندیدہ فوجی تسلط کے مفادات میں طاقت کا استعمال کرتے تھے ان کا لازمی مقدر تھی . یہاں ہم یہودی مسیحی "ابیونیوں" کی ساؤل کی اصلیت کے بارے میں رائے جاننے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کہ اسے یسوع کے پیغام کو بگاڑنے کا مسبب جانتے تھے اور ایک ایسے نئے مذہب کا بانی بھی سمجھتے تھے جسے خود یسوع بھی رد کر دیتے ۔ ابیونیوں کے مطابق ساؤل فریسی نہیں تھا اور نہ ہی پیدائشی یہودی ۔ اس کے والدین طرسوس میں غیر یہودی تھے اور وہ خود مذہب تبدیل کر کے مقدس زمین کی طرف گیا تھا۔ جہاں پر اسے کاہن کے ماتحت ملازمت مل گئی تھی۔ یہ عہد نامہ جدید میں پائی جانے والی کہانی سے بالکل مختلف ہے جس کے مطابق ساؤل ایک نمایاں فریسی تھا جو کہ سردار کاہن کی خدمت گاری میں زیادہ داخل نہیں ہوتا تھا جتنا اس اتحاد میں شمولیت پر فخر کرتا ۔ ابیونیوں کے بیان کو ہمیشہ عیسائی مصنفین اور جدید محققین نے حقارت آمیز انداز کے ساتھ رد کر دیا ہے ۔ جن کا مقصد پولس کی حیثیت کو کم کرنا تھا اور جنکی رائے کی بنیاد محض کینہ اور بغض پر تھی۔ لیکن ابیونی اس سے کہیں زیادہ داد کے مستحق ہیں کیونکہ جب ہم ابیونی تحریک کے خواص اور تاریخ کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ ہمیں غالب روایات کی وارث محسوس ہوتی ہے۔
                موجودہ باب میں جو دلائل دئیے گئے ہیں وہ ہمیں ساول کی اصلیت کے بارے میں ابیونیوں کی روایتی حقارت کو مسترد کرنے کی جانب راغب کرتے ہیں اور اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔ ساؤل ایک فریسی تھا یہ امکان ناصریوں کو اسکی جانب سے دی گئی سزاؤں اور کاہن کے ساتھ اسکے تعلق دونوں کی بنیاد سے مسترد ہو جاتا ہے ۔ لیکن ایک شخص جو غیر ملکی اور غیر یہودی بنیاد رکھتا ہو صرف وہی اس قسم کا شخص ہو سکتا ہے کہ وہ کاہن کے زیر خدمت ہو اور ایسی عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہو جنہیں ایک مقامی پیدائشی یہودی جو کہ رومن تسلط اور صدوقیوں کی اتحادی حکومت کے خلاف ہو اور وہ اسے نفرت اور ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا۔جن معاشروں کے نزدیک پال ایک وحی یافتہ رسول تھا، انہیں خطوط لکھتے ہوئے فطری امر تھا کہ پال اپنے آپ کو اس سے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا جو کچھ وہ حقیقت میں تھا اور اپنی خدمات انجام دینے کی صورتحال کی مکمل وضاحت پیش کرتا جسے وہ سردار کاہن کی پولیس کے ایک رکن ہونے کے باعث مذہبی غیرت کے نام پر کر رہا تھا بجائے اس کے کہ وہ ایک بے کیف تحریک کے زیر اثر اپنا رزق روٹی کماتا جو ایک مہاجر کا مقدر ہوتی ہے،وہ اقوام جنہیں پولس خط لکھ رہا تھا، یہودیہ میں سیاسی مذہبی حالات سے ناواقف تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ فریسی اور ابتدائی پیروکاران یسوع باہم مخالف تھے لہٰذا وہ اس بات کو خلافِ عقل نہیں پاتے کہ پولس ابتداء میں ایسی تحریک کا مخالف تھا جو فریسی ازم کے ذریعے متحرک تھی۔ یہ وضاحت خود پولس کے خطوط سے سامنے آتی ہے جس میں وہ یہ انکشاف کبھی نہیں کرتا کہ وہ طرطوس میں پیدا ہوا لیکن اعمال کی کتاب میں لوقا بہت احتیاط سے اور حقیقتا بغیر کہے یہ تاثر ابھارتا ہے کہ وہ ایک یہودیہ میں پیدا ہونے والا مقامی فرد تھا۔

لیکن ہم یہاں کچھ نظریہ پر غور کر سکتے ہیں جب بہت سے علماء اس بات کو مسلمہ تسلیم کرتے ہیں کہ کیا پولس کی بطور فریسی تربیت یافتہ ہونا اس کے خطوط سے ظاہر ہے؟ ہمیں بار بار بتایا گیا ہے کہ پولس کے اپنے خطوط میں انداز تحریر و دلائل یہودی ربیوں جیسا ہے. پولس یہودی ربیوں کی نسبت اپنے علمی نظریات اور دلائل کے معاملے میں بہت آگے چلا جاتا ہے، اگرچہ پولس کی منطق یہودیت کی ربیائی شکل جیسی ہی رہتی ہے اور وہ اسی بنیاد پر کلام الہی کی تفسیر کرتا ہے اور طریقے وضع کرتا ہے. یہاں اس کی فریسی تعلیم صاف نظر آتی ہے. اگرچہ یہ نقطہِ نظر علماء کا ہے، لیکن یہ بلکل غلط ہے، ناواقفیت اور ربیوں کی تشریح اور منطق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس سے پہلے دوسرے اعتراضات سے نمٹا جائے جو کہ اس نظریہ پر ہیں کہ پولس کے ابیونی نظریات عہد نامہ جدید کے نظریات کے مقابلے میں سچائی کے قریب تر ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔