کیا یسوع فریسی تھے؟
مترجمین: صبا خان، عبداللہ غازیؔ
یہودی و مسیحی علمی حلقوں میں پروفیسر ہائم مکابی جیسے اسکالر کا نام تعارف کا محتاج نہیں، برطانیہ میں یہودی و مسیحی روایات پر انہیں اتھارٹی اسکالرز کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے حتی کہ ڈاکٹر ہیوجے شون فیلڈ جیسے چوٹی کے اسکالرز بھی ان کے علم کے متعلق لکھتے ہیں کہ "مجھے یقین ہے کہ ہائم مکابی کے مقدس پولس کے متعلق نظریات قابل فکر ہیں"۔ زیر نظر تحریر بھی ہائم مکابی کی کتاب The myth maker Paul and The Invention of Christianity کے باب Was Jesus a Pharisee? کا سلیس ترجمہ ہے جس میں انہوں نے یسوع کی انجیلی تصویر کا ایک انوکھے اور دلچسپ انداز سے جائزہ لے کر مستور حقائق کو معروف کروایا ہے۔ اس طویل مضمون کا ترجمہ محترمہ صبا خان صاحبہ(جھنگ)اور بندہ ناچیز کی مشترکہ کاوش ہےاوراس ادنی سی کاوش کو میں اپنے محسن، مرشد اور مربی محترم جناب ظفر اقبال صاحب مدظلہ کی طرف منسوب کرتا ہوں جن کی رہنمائی اورمحبت و شفقت کے باعث ہم یہ ترجمہ کرنے اور آپ کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوئےاور اسکے ساتھ ساتھ اپنے چند مخلصین دوستوں بھائی محمد مسلم صاحب(رحیم یارخان)اورمحترمہ اسمارہ رفیق صاحبہ (رحیم یار خان)کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے اس ترجمہ کرنے میں رہنمائی ومعاونت فرمائی۔اللہ تعالیٰ انہیں خوب خوب جزائے خیر عطا فرمائے۔
آپ کا رفیق
عبداللہ غازیؔ
پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے
گذشتہ مضمون کی روشنی میں یہ سوال بہتر انداز میں پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر فریسی حق شناس اور ترقی پذیر تحریک تھی تو یسوع کیوں شدت سے ان پر تنقید کررہے تھے؟ اس درپیش صورت کا جواب پہلے ہی تجویز کیا جاچکا ہے کہ یسوع نے فریسیوں کو اس طرح سے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جیسا کہ اناجیل میں پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ بذات خود ایک فریسی تھا.یسوع کی مکمل تصویر جو فریسیوں کے ساتھ تراشی گئی ہے یسوع کی موت کے بعد والے اس زمانے کی تخلیق ہے جب مسیحی کلیسیاء فریسیوں کے خلاف تھی کیونکہ ان کا دعوٰی اصل یہودیت کے علمبردار ہونے کا تھا. اناجیل بھج اسی زمانے یا پھر اس سے متصل زمانے کی ہی پیداوار ہیں جو کہ ایسے مواد پر مشتمل ہیں جن کا کچھ حصہ اس ابتدائی زمانے کی فریسی مخالفت میں مرتب ہونے والی تحاریر سے لیا گیا تھا. اگرچہ خود اناجیل میں شامل فریسی مخالف تصویر کا ابطال ممکن ہے جن میں نظرثانی کرنے کے بعد کافی معلومات و ابتدائی واقعات یہ ظاہر کرنے کے لیے داخل کئے گئے ہیں کہ یسوع فریسیوں کا مخالف نہیں تھا بلکہ خود بھی ایک فریسی ہی تھا.
اناجیل میں نظرثانی کا عمل مفروضہ نہیں ہے بلکہ مختلف اناجیل میں یکساں مبینہ واقعات کے تقابل کے ذریعے واضح دیکھا جا سکتا ہے. یہ حقیقت ہے کہ تجدید کے عمل سے ایک کے بجائے چار اناجیل کی اصل کہانی کی تسہیل مقصود تھی بالخصوص جب کوئی اناجیل کے مرتب کے وقت کے اسلوب میں جدید علماء کی آراء و نتائج کو مستحضر رکھے. مرقس کی انجیل سب سے مستحکم و مستند ہے کیونکہ اناجیل میں سب سے قدیم یہی انجیل ہے لہٰذا ہم دیگر متاخرین اناجیل کے ساتھ مرقس کے تقابل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم متعددبار اس انجیل سے حوالہ دے سکتے ہیں۔
ابتدائی مثال کے طور پر ہم مرقس کی کہانی میں یسوع اور فقیہ (فریسی کی متبادل اصطلاح جوکہ متاخرمسیحی دستاویزات اور اناجیل دونوں میں ہی استعمال کی گئی ہے)کے درمیان ایک مکالمہ پاتے ہیں۔
اور فقِیہوں میں سے ایک نے اُن کو بحث کرتے سُن کر جان لِیا کہ اُس نے اُن کو خُوب جواب دِیا ہے۔ وہ پاس آیا اور اُس سے پوُچھا کہ سب حُکموں میں اوّل کَون سا ہے؟ یِسُوع نے جواب دِیا کہ اوّل یہ ہے اَے اِسرائیل سُن۔ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ اور تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبّت رکھ۔ دُوسرا یہ ہے کہ تُو اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔ اِن سے بڑا اَور کوئی حُکم نہِیں۔ فِقیہ نے اُس سے کہا اَے اُستاد بہُت خُوب!تُو نے سَچ کہا کہ وہ ایک ہی ہے اور اُس کے سِوا اَور کوئی نہِیں۔ اور اُس سے سارے دِل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے محبّت رکھنا اور اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھنا سب سوختنی قُربانِیوں اور ذبِیحوں سے بڑھ کر ہے۔ جب یِسُوع نے دیکھا کہ اُس نے دانائی سے جواب دِیا تو اُس سے کہا تُو خُدا کی بادشاہی سے دُور نہِیں اور پِھر کِسی نے اُس سے سوال کرنے کی جُراَت نہ کی۔
(مرقس باب ٢٨ :٢٨تا٣٤)
اسی کہانی کا ترجمہ دوسری انجیل میں بھی پایاگیا ہے،جیساکہ مذکور ہے۔
اور جب فرِیسِیوں نے سُنا کہ اُس نے صدُوقِیوں کا مُنہ بند کر دِیا تو وہ جمع ہوگئے۔ اور اُن میں سے ایک عالمِ شرع نے آزمانے کے لِئے اُس سے پُوچھا۔ اَے اُستاد توریت میں کون سا حُکم بڑا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا کہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حُکم یِہی ہے۔ اور دُوسرا اِس کی مانِند یہ ہے کہ اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔ اِنہی دو حُکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحِیفوں کا مدار ہے۔
(متی٢٢: ٣٤ تا ٤٠)
واقعہ کے دوسرے انداز بیاں میں مکالمہ کا منصفانہ طریقہ بالکل ہی نیست ونابودہوگیاہے۔ فریسی کسی حیرت وتعجب کی وجہ سے یسوع سے سوال پوچھنے نہیں آیا تھاجیساکہ پہلے اندراج میں ذکر ہے(کہ کس طرح اس نے صدوقیوں کا منہ بندکردیا) لیکن اس نے فقط یسوع کا امتحان لینا چاہا تھا۔ پہلے قضیہ میں فریسی سائل یسوع کی تعریف کرتے ہوئے ایک طویل جواب یسوع کو دیتا ہے اور اپنے خود کے تبصرے میں محبت کاقربانی پر فوقیت کے متعلق اضافہ کرتا ہے جبکہ یسوع کی طرف اضافہ کرتا ہے کہ وہ عزت وتہذیب سے جواب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سائل خدا کی بادشاہت سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ سب دوسری اشاعت سے خارج کردیئے گئے ہیں جوکہ یسوع کی اعلیٰ دانش مندی کے ذریعے حاس فریسی کو لاجواب کرنے کی فقط ایک اضافی داستان ہے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تنہا یسوع ہی ان دوفقرات کاعبرانی بائبل سے بطور عظیم احکام انتخاب کرتا ہے (ایک تثنیہ شرع کی کتاب سے جبکہ دوسرا احبار سے) جوکہ درحقیقت خود اس کا نظریہ نہ تھا بلکہ فریسی افکار کا مرکزی حصہ تھا۔فریسیوں نے بنیادی مذہبی قائدے کے اصول جو تخلیق کیے تھے اس میں اس کو ”شمع“ کہا گیا ہے(اورآج تک یہودیوں میں استعمال کیاجاتا ہے) جوکہ تثنیہ شرع سے یسوع نے اقتباس کیا ہے۔سُن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تُو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ ۔ یہ حکم فریسیوں میں اس قدر اہم شمار کیا جاتا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ عبادت کی اساسی ذمہ داریوں کی بجاآوری کے لیے ان آیات کو دن میں فقط دوبار ادا کرنا ہی کافی تھا۔(۱) یہ بھی دلچسپ ہے کہ یسوع کے پیش نظر جو آخری جواب فقیہ کو دیا گیا وہ یسوع کی ایجاد نہیں بلکہ فریسی طرز کلام کا حصہ ہے اور ربائی ان آیات کو خدا کی بادشاہت کے ساتھ ایک مضبوط ربط کے طور پر شمار کرتے تھے.
ان کا کہنا تھا کہ ان آیات کی تلاوت خود کو خدا کی بادشاہت میں حلقہ بدوش ہونے کے لیے قبول کرنا ہے. یہ یاد رہے کہ فریسی مکتب فکر میں خدا کی بادشاہت کے دو معنی تھے. اول یہ کہ موجودہ سلطنت یا خدا کی سلطنت یا پھر مستقبل کی خدائی سلطنت جو کہ المسیح کے زمانے میں پوری دنیا میں ہوگی. یسوع کے اس کلام کو سمجھنا قدرے آسان ہے کیونکہ وہ اکثر اس محاورے کو ذومعنی استعمال کرتا تھا. کبھی اس محاورے سے اس کا مطمع نظر مستقبل کے ملکی معاملات تھے جن کی پیشگوئی کے لیے اس کی آمد ہوئی تھی (جیسا کہ توبہ کرو کیونکہ خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے) اور بعض اوقات اِس محاورے سے اُس کی مراد موجودہ خدا کی سلطنت ہوتی تھی جسے ہر بشر نے مجبوراً قبول کیا ہوا تھا (جیسا کہ خدا کی بادشاہت تمہارے درمیان موجود ہے). موجودہ انتخاب میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مؤخر الذکر معانی ہی راجح ہے.
دوسری آیت جو احبار کی کتاب سے یسوع منقول کرتے ہیں وہ " اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جیسے اپنے آپ سے کر تے ہو" ہے. یہ آیت بھی فریسی افکار میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی اور فریسی ازم کے دو عظیم ترین بزرگوں ربائی ہللیل اور اور ربائی اکوبا نے اسے یہودیت کے ایسے اصول قرار دیا ہے جس پر ہر شے منحصر ہے. بےشک اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دیگر قوانین کو یکسر نظرانداز کردیا جائے یا مکمل طور پر ختم کردیا جائے کیونکہ یہ شریعت کا ایک اہم اصول تھا اسکے برعکس شریعت کو بطور مسائل کا حل اور پڑوسی سے محنت کی عملی بجاآوری، روزمرہ زندگی کی پیچیدگیوں میں پڑوسی سے محبت کی کیفیت، کے متعلق رہنمائی دینے والی کے طور سمجھی جاتی تھی. ایسی وضاحت کے بغیر اصول بنا لینا ایسا ہی ہے جیسا کہ فیثا غورث کے مسلمہ اصول کا استعمال ہو جو کسی قوائد متعارفہ کا محتاج ہو. متاخر مسیحی تحاریر اس مقام کی غلط عکاسی کرتی ہیں کہ جب یسوع نے خدا اور پڑوسی کی محبت کا انتخاب کیا تو اس طرح سے اس نے باقی مکمل تورات کو مسترد کردیا تھا. یہاں ایسی فکر کی بظاہر کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ یہاں یسوع کی یہی مراد تھی بالخصوص کہ جب وہ فریسی فقیہ کے ساتھ ایک خوشگوار مکالمہ کررہا تھا. (کم از کم ابتدائی اور کچھ مستند مرقس کی انجیل اسی طرح بیان کرتی ہے).
قربانی کے متعلق فقیہ کی بظاہر تحقیرانہ رائے کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے. اُس کا خیال یہ نہیں تھا کہ قربانیاں یا ہیکل کی عبادت کلی طور پر منسوخ ہو جائے گی بلکہ عبرانی نبیوں کے الفاظ کفارے کی قربانی کے بارے میں اس کے ذہن میں مستحضر تھے کہ یہ قربانیاں خدا کے ساتھ سچی توبہ اور تصفیہ نفس کا نشان تھیں. یہودی سال کا سب سے پر جلال دن یوم کفارہ ہوا کرتا تھا، جب ہیکل میں قربانیاں ادا کی جاتیں اور کفارے کا برہ بیاباں میں بھیجا جاتا. ابھی تک یہ فریسی نظریات تھے کہ ان میں سے کوئی بھی حیات بخش رسومات کا اثر بغیر سچی توبہ کے واقع نہیں ہوتا اور پڑوسی کے نقصان کو ادا کئے بغیر بحالی توبہ ممکن نہیں. لہذا فریسی قربانیوں کی ادائیگی کے مخالف نہ تھے (جو کہ مقدس نوشتوں میں مقرر کی گئی تھیں) لیکن وہ ان قربانیوں کو کماحقہ جگہ رکھتے تھے جیسا کہ فریسی ہیکل کی عبادت اور کاہنانہ ذمہ داریوں میں عمومی تعاون کرتے تھے لیکن یہودی مذہب کے تمام تر خاتمے کے لئے اس کے حق میں پائے جانے والے کسی بھی رجحان کے سخت مخالف تھے جبکہ صدوقی اس کا رجحان رکھتے تھے. یہاں یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ یسوع کا رویہ ہیکل کے لیے مختلف تھا.
یسوع اور فریسی کے متعلق واقعے کا تجزیہ دو چیزیں ظاہر کرتا ہے کہ یسوع اور فریسیوں کے درمیان بے ربطگی نہ تھی اور انجیل مرتب کرنے میں تسلسل کے ساتھ نظر ثانی کا عمل اس لیے جاری ہوا تاکہ متاخر اناجیل میں موجود ایک دوستانہ گفتگو کو معاندانہ مکالمے میں تبدیل کیا جائے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک غیر متعصب فریسی عکس کے لیے ہمیں ابتدائی انجیل مرقس کی طرف رجوع کرنا پڑے گا. اسکے برعکس انجیل مرقس فریسیوں کے خلاف تعصبانہ رویہ رکھتی ہے لیکن بعد میں آنے والی اناجیل کی نسبت یہ قدیم انجیل مرقس فریسی مخالفت کو ظاہر کرنے کی خاطر کی جانے والی نظر ثانی کا عنصر کم رکھتی ہے.
یہاں ہم انجیلی تفسیر کے ایک اہم اصول پر نقد کریں گے. جب ہم اصل روایت کے خلاف جانے والے حصے کو مدنظر رکھتے ہیں تو احتساب کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے پر اعتماد ہو جاتے ہیں کہ یہ اصل اور مستند روایت کا حصہ ہے کیونکہ اناجیل میں عمومی رجحان فریسی مخالفت کا ہے لہذا وہ روایت یکے بعد دیگرے کی جانے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں مزید سے مزید تر فریسی مخالف ہو جاتی ہے کیونکہ فریسیانہ دوستی پر مبنی کوئی بھی واقعہ بعد کے متون میں شامل نہیں کیا گیا. (تصرف کرنے والوں کا رجحان رہا ہے کہ کچھ جزئیات کو خارج کر دیتے ہیں اور شامل نہیں کرتے) اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعد کی اناجیل ہر واقعہ سے متعلق ہوں کیونکہ مختلف اناجیل بعینہ وہی مواد پیش نہیں کرتیں جو کہ ایک ہی ماخذ سے مستعار ہو. (٣) اسی وجہ سے جب آزادانہ ماخذات سوال میں اٹھائے جاتے ہیں تو مابعد انجیل وہ مواد بھی محفوظ رکھتی ہیں جو کہ ابتدائی انجیل سے مفقود ہے. جب ہم مؤخر انجیل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں ایک ہی ذریعے سے حاصل کئے گئے مواد کو محفوظ رکھتی ہیں. یہ صورتحال اوپر دی گئی ہے جہاں یہ واضح ہے کہ فقیہ اور یسوع کے واقعے کی خبر مرقس (جو کہ متی سے قبل ہی اپنی انجیل لکھ چکا تھا) میں پہلے اور متی اس کا ذکر بعد میں کرتا ہے. یہ متی کے مصنف کے ذریعے مرقس میں دی جانے والی خبر کی بنیاد پر ایک موافق تبدیلی ہے.
یہ ابتدائی مثال ان وسیع دلائل کی پیروی کرتی ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ یسوع فریسی ازم کا مخالف نہ تھا بلکہ خود ایک فریسی تھا. یہ بیان اس کتاب کے مرکزی خیال پولس کے موضوع سے متبائن نہیں ہے کیونکہ یسوع کے فریسی ہونے یا نہ ہونا اس سوال سے زبردست تعلق رکھتا ہے کہ کیا پولس فریسی تھا؟
یسوع کی وہ تصویر جو انجیل میں ہے اس کے مطابق فریسی یسوع کو ایذاء پہنچاتے اور اس کو تنگ کرتے تھے. یہ تصویر اعمال میں پولس کی عکاسی کو تقویت دیتی ہے کہ فریسی (مبینہ طور پر پولس بھی فریسی تھا) یروشلم چرچ اور یسوع کے پیروکاروں کو تکلیف دیتے تھے. اگر یہ نظریہ درست ہے کہ فریسیوں نے کبھی بھی یسوع کا تعاقب نہیں کیا اور یسوع خود بھر فریسی تھے تو یہ دعوٰی ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے کہ یروشلم چرچ کو ستانے والا پولس دراصل فریسی تھا. پولس کے ہمعصر فریسی سربراہ گملیل کا یروشلم چرچ کے ساتھ رویہ رحمدل اور بردباری کا تھا جس کی معقولی وجہ یہی ہے کہ فریسیوں کے یسوع ساتھ دوستانہ معاملات کا تسلسل تھا. اس کتاب کا تنازع یہ ہے کہ یسوع کو اناجیل میں جس طرح بھی پیش کیا گیا مگر اسکے باوجود وہ ایک فریسی ہی تھا جبکہ مبینہ طور پر ہدایت پانے سے قبل پولس کو ہمیشہ بحیثیت فریسی ہی پیش کیا گیا جو کہ وہ کبھی تھا ہی نہیں. دلائل کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح عہدنامہ جدید کے مصنفین کی طرف سے حقائق میں تبدیلی کی گئی ہے. انجیل کے مطابق فریسیوں اور یسوع کے درمیان تنازع کی اہم وجہ یسوع کا سبت کے دن شفاء دینے کا عمل تھا جو کہ مبینہ طور پر فریسی قوانین کے خلاف تھا. انجیل یہ دعوی کرتی ہے کہ سبت کے دن علاج کرنے پر فریسیوں نے یسوع پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس کے باعث یسوع کے قتل کی سازش تک کی. (متی 3:6،متی 12:14) یسوع نے سبت کے دن علاج کرنے کے دفاع میں فریسیوں کے سامنے کچھ دلائل بھی رکھے مثلاً سبت کے دن ختنہ کرنے کی اجازت تھی تو علاج کرنے سے یسوع روکا جاتا ہے. (یوحنا 7:23) یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اگر ہم فریسی قانون کی کتاب سے مدد لیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت سبت کے دن شفاء دینے کی تعلیم دیا کرتے تھے،ہم پاتے ہیں کہ انہوں نے اسے ممنوع قرار نہیں کیا تھا اور وہ یہی دلائل استعمال کرتے تھے جو یسوع نے اس کے جواز کے لیے استعمال کی. یسوع نے کہا کہ "سبت آدمی کے لیے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کے لیے"، انہیں ایک نئی عہد ساز معرفت کی تشبیہ کے طور پر بہت مرتبہ یسوع نے ذکر کیا اور بعینہ یہی لفظ فریسی ماخذات میں پائے جاتے ہیں جہاں اسے انسانی زندگی کے سبت پر فوقیت رکھنے کے فریسی نظریات کی تائید کے لیے کام میں لایا جاتا تھا. انجیل نویس نے یہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یسوع جب ان فریسیوں سے مباحثہ کررہا تھا تو بذات خود فریسی نہ تھا اور اپنے سبت کے دن شفاء دینے کا دفاع کررہا تھا.
سبت کے مخالفین کے اثرات حقیقتاً سبت کے متعلق کہانیوں کی داستانوں میں پائے جاتے ہیں. یہاں یہ بیان ہے کہ سبت کے دن صحتیابی کرنے پر یسوع پر برہم و نالاں فریسی ہیرودیوں کے حامیوں کے حامیوں کے ہمراہ مل کر مخالف چالیں چلنے لگے کہ وہ یسوع کو کس طرح لوگوں سے دور کریں (مرقس 3:6) ہیرودیس کے ساتھی (ہیرودیس اینٹی پاس، جو کہ رومی حکومت کی طرف سے گلیل کا حاکم تھا)سب کے سب سیاسی اور یونانیت زدہ یہودی تھے، ان کا رجحان مذہب میں بالکل کم اور طاقت حاصل کرنے کی طرف زیادہ تھا. فریسی (جو کہ رومی قابضین کی مخالفت کے علمبردار تھے) اور ہیرودیوں کے ساتھیوں میں اتحاد ناممکن تھا لیکن ہیرودیوں اور صدوقیوں میں اتحاد ممکن بلکہ یقینی تھا. جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے کہ صدوقی اگرچہ ایک مذہبی جماعت تھی جو کہ جمود کا شکار اور رومی وزارت کے حصول کے خواہاں تھے. ان کا سربراہ سردار کاہن رومی قابضین کے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تھا. اس امر کا زبردست امکان موجود ہے کہ اناجیل کی تصحیح کرنے والوں کی مداخلت کی وجہ سے اصل صدوقی نام کو فریسی نام سے تبدیل کردیا گیا ہو، غالباً ایسا دیگر وقائع میں بھی ہوا ہے جہاں یسوع فریسیوں کے خلاف فریسیانہ نقطہ نظر سے سبت پر ناقابل فہم بحث کررہے تھے. ہم جانتے ہیں کہ فریسیوں کی نسبت صدوقی سبت کے متعلق سخت نظریہ رکھتے تھے. (اگرچہ کوئی صدوقی دستاویز محفوظ نہیں رہی) یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ فریسیوں کے برعکس انہوں نے یسوع کو سبت کے دن علاج سے روکا. ایسے مفروضات جو کہانیاں تشکیل دیتے ہیں وہ ماوراء تفہیم ہیں کہ فریسی یسوع کو فریسی عقائد ہی کی ترویج کرنے کے باعث قتل کرنا چاہتے تھے.
اگرچہ یسوع ان ایام کے سردار کاہن کے مخالف کے طور پر سامنے آتا ہے جو کہ صدوقی تھا لہذا ضروری ہے کہ ان تمام کہانیوں کو محفوظ کیا جائے جس میں یسوع کی تصویر صدوقی مذہبی نظریات کے مخالف کی طرح پیش کی ہے اسکے باوجود یہ واضح ہے کہ یسوع اور صدوقیوں کے مابین تنازع کی اہم وجہ مذہبی کے بجائے سیاسی اختلافات تھے. فریسی دستاویزات میں ان فریسی معلمین کے متعلق متعدد کہانیاں پائی جاتی ہیں جو صدوقیوں کے ساتھ مناظروں میں مصروف رہے. ان مناظروں کا مرکزی عنوان مردوں کی قیامت کا سوال تھا جس پر فریسی یقین رکھتے تھے اور صدوقی اس کے منکر تھے. اسی طرح کی ایک کہانی انجیل میں بھی پیش کی گئی ہے (مرقس باب 12 فقرات 18 تا 27) یسوع کی طرف سے صدوقیوں کو دیئے جانے والے جوابات ان سے کئی گنا زیادہ پیچیدہ ہیں جو فریسی اپنے مباحثوں میں دیا کرتے تھے. غیر یہودی لوگ بھی مردوں کی قیامت کے متعلق فریسیانہ عقیدے کا علم رکھتے تھے اور یہ کہانیاں یسوع اور فریسیوں کو باہم مخالف ظاہر کرنے کے انداز میں مرتب کی گئی ہیں لہٰذا عہد جدید میں تصرف کرنے والوں نے یہاں تبدیلی کیے بغیر یسوع کے فریسی ہونے کی ایک واضح و دلچسپ گواہی چھوڑ دی ہے اگرچہ اناجیل میں اسے اس طرح مباحثہ کرتے دکھایا گیا ہے جیسے وہ فریسی کے بجائے ایسا شخص ہو جس کے خیالات کبھی فریسیوں سے موافق تھے.
ان کہانیوں میں تصرف کرنے والوں کے یسوع اور صدوقیوں کے درمیان مخاصمت کے کیا محرکات تھے کہ انہوں نے صدوقیوں کے بجائے فریسیوں کو مخالف یسوع کے طور پر پیش کیا؟ اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے، فریسی یہودیت میں اعلی بالادستی رکھنے والوں کی حیثیت سے معروف تھے جبکہ صدوقی ایسے نہ تھے. حقیقت یہ ہے کہ اناجیل کے لکھنے جانے کے وقت صدوقی اپنی ہر وہ معمولی سی بھی مذہبی شناخت کھو چکے تھے جو ان کے پاس تھی اور فریسی مذہبی اختیارات کے یکتا محافظ تھے. انجیل نویسوں کی حتی الامکان کوشش تھی کہ وہ یسوع کو رومی قابضین کے بجائے یہودی مذہب کے خلاف بطور باغی پیش کریں. اناجیل میں شامل مواد کی متعدد بار تبدیلی کی وجہ یہی ہے کہ مصنفین عہد جدید کا مافی الضمیر ایسی تصویر کی تشکیل دینا تھا جس میں یسوع اور فریسی باہم مخالف ہوں.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدوقی رومیوں کے ساتھ معاونت کرتے تھے، یسوع کی اصل مخالفت دراصل صدوقیوں سے تھی جبکہ خالص مذہبی پس منظر پر یسوع کا تاثر بطور رومی مخالف نظر آتا ہے جسے انجیل نویسوں نے چھپانے کی کوشش کی ہے.
درحقیقت یسوع اور فریسیوں کے درمیان کوئی مخالفت نہ تھی جو کہ ان خبر رساں نقوش سے ظاہر ہوتی ہیں جو کہ روایت میں ہی باقی رہ گئی ہے. ایک اہم مثال ہے کہ " اُسی گھڑی بعض فرِیسِیوں نے آ کر اُس سے کہا کہ نِکل کر یہاں سے چل دے کِیُونکہ ہیرودِیس تُجھے قتل کرنا چاہتا ہے" (لوقا13:31) یہ واقعہ تمام مفسرین کے لیے معمہ بن چکا ہے کہ وہ فریسی جنہیں گذشتہ واقعات میں یسوع کے شفائیہ کاموں کے باعث اس کی موت کی کوششیں کرتے پایا گیا ہے وہ اسے تنبیہ کرنے اس ارادے سے آتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی بچا لے؟
کچھ مسیحی مفسرین فریسیوں کی کینہ پرور تصویر محفوظ کرنے کے لیے بےچین نظر آتے ہیں اور ایک ایسا مشکل منظرنامہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں فریسی دہرا معیار کرتے نظر آئیں. وہ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ یسوع کے لیے گلیل سے زیادہ یروشلم میں خطرہ تھا اس لیے فریسی یسوع کو فرار کرانے کی غرض سے ہیرودیس کے متعلق ایک جعلی تنبیہ کرتے ہوئے راغب کرتے ہیں کہ وہ اپنی موت سے قبل یروشلم سے نکل جائے. حقیقت سے دور یہ تاویل ایک عجوبہ اور بمشکل ہی قابل اعتبار ہے کہ گذشتہ بیان کے مطابق اگر فریسی یسوع کے دشمن تھے تو وہ یہ کیسے امید رکھ سکتے تھے کہ یسوع ان کے ایسے پیغام کو قبول کرے گا جو وہ نیک نیتی کے ارادے سے یسوع کو دے رہے تھے؟
یہ بیان یسوع اور فریسیوں کے درمیان باہمی مواخات کی بیش قیمت شہادت ہے اور ان کا یسوع کو یہ تنبیہ کرنا ہی اس بات کی علامت ہے کہ فریسی یسوع کو اپنی ہی جماعت کا ایک فرد شمار کرتے تھے. زبردست حقیقت یہ ہے کہ یسوع کے ساتھ فریسیوں کے تعلقات کی عمومی تصویر جو اناجیل میں پیش کی گئی ہے یہ کہانی اس کے بالکل برعکس ہے. تاریخی سچائی ہے کہ یہ کہانی اس ترمیمی مواد میں شامل نہیں تھی جو متاخر زمانہ میں انجیل میں داخل کیا گیا، بلکہ یہ شروع سے ہی انجیل میں چلی آرہی تھیں جن کی غلطی سے ترمیم نہیں کی جا سکی.
یہ ایک اہم اور ضروری اشارہ ہے کہ یسوع کی فریسی مخالفت کے متعلق روایات میں سبت کے دن شفاء دینے کا سوال کچھ معنی نہیں رکھتا، حقیقت یہ ہے کہ یسوع کے مقدمہ میں اس الزام کا کہیں ذکر نہیں ملتا. اگر انجیلی بیان کے مطابق یسوع کی سبت کے دن کی سرگرمیاں فریسیوں کی نظر میں بہت بڑا جرم تھا تو یہ فرد جرم اس کے خلاف کیوں شامل نہیں کی گئی جب وہ اپنی زندگی اور موت کے مقدمے میں کھڑا تھا؟ یسوع کے مقدمے میں فریسیوں کی طرف سے بالخصوص کوئی الزام کیوں عائد نہیں کیا گیا؟ جیسا کہ ہم اگلے حصے میں دیکھیں گے کہ یسوع پر کوئی بھی الزام مذہبی نہیں تھا بلکہ تمام الزامات سیاسی نوعیت کے تھے جبکہ اناجیل انہی سیاسی الزامات کو مذہبی رنگ دے کر پیش کرتی ہیں. اگر یسوع کا مقدمہ حقیقتاً مذہبی تھا تو فریسیوں کو اس مقدمہ کی کاروائی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنا تھا جو کہ مبینہ طور پر یسوع کے بدترین معاند تھے.
یہ سوال نہایت اہم ہے کہ فریسی یسوع کے مقدمے کے وقت یسوع کو اس طرح سے کیوں نہیں بچاتے ہیں جس طرح فریسی سردار گملیل نے یسوع کے شاگرد پطرس کو اس وقت بچایا جب اس پر مذہبی عدالت سے قبل ہی فرد جرم نافذ کر دی گئی تھی؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یسوع کے اس مقدمے میں فریسی حاضر نہ تھے جو خصوصی سیاسی عدالت سے قبل مذہبی عدالت یعنی سنہڈرین میں چلایا گیا تھا جس میں سردار کاہن رومیوں کا قائم مقام اور ہمدرد تھا اور اپنی ہی منظور نظر عدالت کی صدارت کررہا تھا.
سبت کو شفاء دینے کا معاملہ، یسوع اور فریسیوں کے درمیان مخالفت کے تناظر میں ہرگز اہم نہیں ہے. یسوع کی تعلیمات کے نقوش کو اناجیل ایسے انقلابی انداز میں کیوں پیش کرتی ہیں جو اس وقت کی یہودی مذہبی قیادت کے لیے ناقابل برداشت تھیں. یسوع کا دعوی مسیح ہونے سے متعلق کیا تھا؟ کیا یہ فریسیوں کی نظر میں کفر بکنا نہیں تھا؟ ہیکل کو تباہ کرنے کی یسوع کی دھمکی کو اس کے مخالفین نے اس کے خلاف مقدمہ میں بطور دلیل کیوں پیش نہیں کیا؟ موسی کی شریعت کی تجدید یا منسوخ کرنے کے متعلق یسوع کی خواہش کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فریسی مکتبہ فکر کے مطابق ان میں سے کوئی بھی مسئلہ دھمکی کے قائم مقام نہیں ہو سکتا اور بغور مشاہدہ کرنے پر ہم ان تمام معاملات میں یسوع کے نظریات کو خالصتا فریسی اعتقادات کے مطابق پاتے ہیں جو کہ اس بات کی واضح تصدیق ہے کہ یسوع خود بھی فریسی تحریک کے ہی ایک رکن تھے.
یسوع کا المسیح ہونے کا دعوٰی کسی بھی فریسی یا دیگر یہودیوں کی نظر میں کلمہ کفر نہیں تھا کیونکہ مسیح کا لقب خدائی دعوی یا الوہیت کے معنی میں نہیں تھا. مسیح کا سادہ معنی مسیح کیا ہوا ہے جو کہ بادشاہت کا لقب ہوا کرتا تھا. داؤد کے شاہی گھرانے کا ہر یہودی بادشاہ اس لقب کو اختیار کرتا تھا اور یہودی شریعت میں یہ بے ضرر تھا. اس کے برعکس تمام یہودی المسیح کی آمد کی امید پر زندہ تھے جس نے آکر انہیں بیرونی قابضین سے خلاصی دینی اور یہود کی قومی آزادی کو بحال کرنا تھا. ہر وہ شخص جو داؤد کے متبرک گھرانے کو بحال کرنے والے مسیح موعود (جس کی پیشگوئیاں بائبل کے عبرانی انبیاء کرتے رہے) ہونے کا دعوٰی کرتا وہ یقیناً بہت سے پیروکاروں کی ہمدردیاں حاصل کر لیتا. دعوی مسیح کرنے کے وقت یسوع ہرگز یہ دعوی کرنے والا تن تنہا واحد شخص نہیں تھا اور نہ ہی یہ دعوی ایسا تھا جس کی وجہ سے کفر گوئی کا الزام لگایا جاتا. المسیح ہونے کے سارے دعاوی ایک ہی نوعیت کے نہیں تھے، بعض مدعیان المسیح جنگجو تھے جیسا کہ بارکیوبا یا یہوداہ گلیلی جبکہ کچھ المسیح ہونے کا دعوی کرنے والے غیر عسکری ولولہ انگیز جذبہ رکھنے والے تھے جیسا کہ تھیوداس اور مصری (ان دونوں کا ذکر عہد جدید اور جوزیفس(4)نے کیا ہے) انہوں نے معتقدین کا گروہ جمع کرلیا تھا اور پر اعتماد ہو کر ایسے معجزے کے منتظر تھے جس کے ذریعے رومیوں کو زیر و زبر کیا جا سکے. یسوع اسی دوسری قسم کے مدعیان سے تعلق رکھتا تھا اور وہ کوہ زیتون پر ایک معجزے کے ظہور کے لیے پرامید تھا جس کی پیشگوئی زکریا نبی نے کی تھی. (5) کچھ مدعیان المسیح محدود مقاصد کو لے کر اٹھے جن کا مقصود فقط یہودیوں کو رومیوں سے نجات دلانا تھا، انکے برعکس مدعیان بشمول یسوع ایسی آزادی کے متمنی تھے جو پوری دنیا پر مشتمل ہو اور اس عہد میں یہ امن نقیب ہو جائیں جب نبیوں کے مطابق بھیڑیا برہ کے ساتھ آرام کرے گا، لیکن اس کے باوجود ان مدعیان کی کوئی بھی امید کفر گوئی کے رنگ میں نہیں تھی. وہ یہودیت کا ایک کامل حصہ تھے جس میں المسیح کی امید، خدا کی ذات پر یقین کا ایک معقولی نتیجہ تھی جس کی سلطنت ایک دن تمام انسانیت تک وسیع ہوگی.
بہرحال یسوع کی موت کے بعد متاخر مسیحیت میں عبرانی لفظ "مسیح" کا یونانی ترجمہ الوہیت یا خدائی وجود کے معنوں میں ہوگیا اسکے نتیجے میں مسیحیوں نے اس معنی کو قبول کرنے کے لیے آسان پایا کہ یسوع پر کفر گوئی کا الزام لگنے کی وجہ اسکا دعوی مسیح تھا اور اس کے ساتھی یہودی بھی اس دعوے پر حیران تھے. اناجیل یسوع کو ایک الگ ہی مسیانک شپ کے تصور کے ساتھ پیش کرتی ہیں جو کہ دیگر یہودی مدعیان مسیح سے مختلف تھی لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ جب وہ المسیح لفظ کو خود کے لیے استعمال کررہا تھا تو اسکے ساتھی یہودیوں کے پاس یہ یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس کا مطمع نظر اس (لفظ) سے خلاف دستور معنی ہے، خصوصاً جیسا کہ اناجیل کے مطابق وہ اس لفظ کے معانی متعارف کرانے میں بھی محتاط و کم گو تھا لہذا جب اس نے اس لفظ کو سمجھایا تو اس کے شاگرد سمجھ نہ سکے. اس وجہ سے کفر گوئی کا کوئی بھی الزام اس نظریہ پر قائم نہیں ہو سکتا جسے کبھی ظاہر ہی نہیں کیا گیا. بہرحال تاریخ میں ایک خفیہ مسییاح تصور کا اعتقاد کا یسوع کی طرف انتساب فقط بعد میں آنے والے مسیحیوں کی کوشش ہے جس کا یسوع کی موت کے بعد تک کوئی وجود نہیں تھا. یہ بات مزید دلچسپی رکھتی ہے کہ اناجیل متواقفہ میں فریسیوں کے بجائے فقط سردار کاہن کو ہی دعوی مسیح کی بنیاد پر یسوع کو کفر گوئی کا مرتکب قرار دیتے دکھایا گیا ہے. یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یسوع پر لگنے والا الزام کسی طرح بھی مذہبی نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا. المسیح ہونے کا دعوٰی کرنا فریسی قانون کی خلاف ورزی نہ تھا بلکہ اس کے معنی بادشاہ ہونا تھا. رومی قابضین یہودی حکومت تہس نہس کر چکے تھے ایسے میں کسی کا بھی المسیح کا دعوٰی کرنا رومی قابضین کے خلاف تخریب کارانہ عمل تھا. سردار کاہن کا تقرر رومی حکومت کی طرف سے ہوا تھا جس کا مقصد روم کے خلاف کسی بھی طرح کی برپا ہونے والی تحریک سے رومی مفادات کی حفاظت کرنا تھا اور یہ اس کے فرائض میں شامل تھا کہ کسی بھی مدعی المسیح کو سزا دینے کے لیے گرفتار کرکے رومی حکومت کے حوالے کرے. اناجیل نے یسوع کو یہودی مذہب کے خلاف بطور باغی پیش کرنے کے طریقہ کار کی پیروی کی ہے اور سردار کاہن کی منظر کشی اس طرح کی یے کہ وہ بغاوت کے بجائے کفر گوئی کے لیے زیادہ فکر مند تھا.
اسی طرح یہ الزام بھی صرف یسوع کے مقدمہ کے وقت فریسیوں کی عدم موجودگی میں ہی سامنے لایا گیا کہ یسوع نے ہیکل کو ڈھانے اور دوبارہ تعمیر کرنے کی دھمکی دی ہے. یہ یقیناً ایک سیاسی الزام تھا نہ کہ مذہبی، کیونکہ فریسی یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ہیرودیس کا تعمیر کردہ ہیکل آنے والے مسیح کے ایام تک باقی رہے گا. یسوع نے اپنی ساری توجہ ہیکل کی تباہی اور اس کی تعمیر نو پر لگا دی تھی کیونکہ المسیح کا ادعا کرنے والے فرد نے سب سے بنیادی کام جو کرنا تھا وہ یہی تھا. فریسی جو ہیکل کے لیے والہانہ تعظیم نہ رکھتے تھے اور نہ ہی وہ یسوع کے اس ارادے سے خوفزدہ تھے کہ یسوع کا مقصود موجودہ ہیکل کے بانی اول کے طرز کی ایک جدید ہیکل کی تعمیر ہے. وہ لوگ جن سے اس طرح کے ارادے کی وجہ سے پریشانی کی توقع رکھی جا سکتی تھی وہ سردار کاہن اور اس کے ہمراہی ہی ہو سکتے تھے جو مسیح کی سلطنت کی حفاظت کے ذریعے خود کے لیے مکمل کامیابی کی توقع لگائے بیٹھے تھے. یقیناً 66 عیسوی میں برپا ہونے والی یہودی جنگ میں رومی مخالف باغیوں نے سردار کاہن کو برطرف کیا اور رومی اشتراک سے لاوی کے مقدس خاندان سے نئے سردار کاہن کو مقرر کیا. یاد رہے کہ مذہبی کفر گوئی کا جو الزام اناجیل میں پیش کیا گیا ہے یقیناً جمود کے خلاف بغاوت کا ایک سیاسی الزام تھا جس میں حریف ہیکل اور سردار کاہن روم کے آلہ کار تھے.
اناجیل میں یہودیت کی مبینہ تجدید کے حمایتی کے طور پر یسوع کی عکاسی، تجزیہ کرنے پر کسی بھی طرح فریسی نظریات کے خلاف ثابت نہیں ہوتی. اگرچہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ یسوع عبرانی بائبل کی قانونی تعزیرات کے قانون "آنکھ کے بدلے آنکھ" کا مخالف تھا اور وہ خون بہا کے قانون کے بدلے محبت کے قانون کو اس کے قائم مقام کرتا ہے. یہ فریسی ازم میں صورتحال کی بگڑی ہوئی شکل ہے. فریسی آنکھ کے بدلے آنکھ کے بیان کو حرف بحرف شرعی دستور العمل کی طرح نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اس قانون کو ایسا اصول سمجھتے تھے جو کسی کو ضرر پہنچانے یا زخمی کرنے کے مرتکب کے خلاف مجروح کی تلافی نقصان کے لیے ہو. یقیناً عبرانی بائبل کی شرعی تعزیرات خود ایسے نقصانات کا خون بہا فراہم کرتی ہیں جب صورتحال یہ ہو کہ مضروب کا ہرجانہ اور دوائی کے اخراجات وہ شخص ادا کرے جو اسے زخمی کرنے کا ذمہ دار ہو (خروج 21:19) لہذا یہ واضح ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا نقدی معاوضہ کے بجائے غیر مہذب تلافی کی طرف رجوع کا رجحان رکھنے کے باوجود فریسی عبرانی بائبل کی خودساختہ تفسیر نہیں کرتے تھے. یسوع کہتے ہیں کہ اگر کوئی مضروب ہو تو بدلہ طلب نہ کرے بلکہ دوسرا گال بھی پیش کردے. اس نے بالکل بھی آزادی کے اس خیال کو زخموں کے معاوضہ کی زمہ داری سے اخذ نہیں کیا جو کہ کوئی عام فرد کر سکتا ہے. معاوضہ وصول کرنے کا تصور فریسی افکار کا بھی حصہ تھا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے علاج معالجہ کے بغیر نقصان کے ساتھ شریعت کی رو سے تکالیف کو درگزر کردیا جائے. اس کے برعکس اعلی شخص وہ ہے جو معاف کرنے کے لیے دوسروں کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے قانونی حق کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو بالخصوص اس وقت جب وہ خود بھی زخمی ہوا ہو. یہ وہ مقام ہے جہاں خیالات کے الجھاؤ کا تصادم زوروں پر ہے جس میں یسوع کی تعریف ایک محبت کے قانون کو برقرار رکھنے والے شخص کی حیثیت سے کی ہے جو کہ محض فضول گوئی ہے جس کا نتیجہ ایک متشدد اور جبری سماج کا قیام ہے جو کہ ہرگز قابل عمل قرار دیا نہیں جا سکتا. فریسی بھی محبت کے اس قانون پر یقین رکھتے تھے جیسا کہ انکے نظریہ سے جھلکتا ہے کہ خدا اور پڑوسی کی محبت، تورات کے بنیادی اصول ہیں لیکن تمام حقوق کی منسوخی کی بنسبت اس کے حقوق کی حفاظت کے فیصلے سے ایک پڑوسی کی محبت زیادہ ظاہر ہوتی ہے. یہاں یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ یسوع نے ایک احمقانہ نظریہ پیش کیا یا اسکے نظریات دیگر فریسیوں سے مختلف تھے.
یہودی شریعت کی اصلاح کا یسوع سے تعلق، عدم موجود ہے. مرقس 7:19 میں ہم یسوع کو تمام غذاؤں کو پاک قرار دیتے ہوئے پاتے ہیں، لیکن اس مقام کا ترجمہ بہت زیادہ اختلافات رکھتا ہے اور اکثر علماء کا اس حصے کے متعلق خیال ہے کہ یہ مرتبین نے اضافہ کیا ہے. ایک اور مقام پر ہم طہارت کے یہودی قانون کی یسوع سے تصدیق وضاحت کے ساتھ پاتے ہیں جہاں وہ کوڑھی کو شفاء یاب ہونے کی خبر دیتا ہے " جا کراپنے تِئیں کاِہن کو دِکھا اور اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت اُن چِیزوں کو جو مُوسی نے مُقرّر کِیں نذرگُزران تاکہ اُن کے لئِے گواہی ہو" (مرقس 1:43)
پہاڑی وعظ میں ہم یسوع کو ایک مصلح کی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے پاتے ہیں جب وہ کہتا ہے "تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا....... مگر میں تم سے کہتا ہوں" یہاں وہ ایک صاحب اختیار کی آواز میں سابقہ تعلیمات کی خود مختاری کو ایک مصلح کی تصریحات کا جواز فراہم کرتا ہے. بہرحال پہاڑی وعظ کا مکمل قصہ متی کی ایجاد ہے (یہ بیان مختلف اقساط کی صورت میں دیگر اناجیل میں بکھرا ہوا ہے سوائے لوقا کے، کہ جہاں یہ خطبہ ایک سادہ اسلوب دھار لیتا ہے جس میں پر شکوہ بلند مرتبت کا اختیار مفقود ہے) سادہ تشریح یہ ہے کہ مصلح کی آواز اس کہانی میں متاخرین مسیحی مرتبین کے ذریعے داخل کی گئی ہے جن کے نزدیک یہ خیال کرنا ناپسندیدہ تھا کہ یسوع نے دیگر فریسی فقہاء کی مانند تعلیم دی ہے.
گندم کی بالیاں توڑنے کا واقعہ ایک دلچسپ قصہ ہے جو ایک بے رحم تورات کے مصلح اور شریعت کی تعمیل سے لاتعلقی رکھنے والی یسوع کی عکاسی کو تقویت دیتا ہے. سب سے پہلے مرقس باب ثانی میں یہ پیش کیا گیا ہے.
اوریوں ہُؤاکہ وہ سَبت کے دِن کھیتوں میں ہوکرجارہاتھا اور اُس کے شاگِردراہ میں چلتے ہُوئے بالیں توڑنے لگے اورفرِیسِیوں نے اُس سے کہا دیکھ یہ سَبت کے دِن وہ کام کِیُوں کرتے ہیں جو روا نہِیں؟ اس نے اُن سے کہا کیا تُم نے کبھی نہِیں پڑھا کہ داؤد نے کیا کِیا جب اُس کو اور اُس کے ساتھیوں کو ضرُورت ہوئی اور وہ بھُوکے ہُوئے؟ وہ کیونکر ابیاترسَردار کاہِن کے دِنوں میں خُداکے گھرمیں گیا اوراس نے نذر کی روٹِیاں کھاہیں جِن کوکھانا کاہِنوں کے سِوا اور کِسی کو روانہِیں اور اپنے ساتھیوں کا بھی دیں؟ اور اُس نے اُن سے کہا سَبت آدمِی کے لیے بنا ہے نہ آدمِی سَبت کے لیے۔ پَس اِبنِ آدم سَبت کا بھی مالِک ہے۔
یہ واقعہ صدوقیوں کے ساتھ ایک حقیقی تکرار کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ زرعی مزدوروں کی تمام اقسام کے بشمول سبت کے دن بالیاں توڑنے سے بھی فریسی منع کرتے تھے لہذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے شاگردوں کو سبت کے دن گندم کی بالیاں توڑنے کی اجازت دے کر یسوع یقیناً فریسی قانون کی توہین کررہا تھا. بظاہر نظر آنے والا یہ واقعہ ایسا نہیں جیسا ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ یسوع آخر میں کہتا ہے کہ " سَبت آدمِی کے لیے بنا ہے نہ آدمِی سَبت کے لیے" جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا ہے کہ یہ ایک فریسی محاورہ ہے اور یہی سارے واقعے کی تفہیم کے لیے کلید ہے کیونکہ فریسی اس محاورے کو یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ انسانی زندگی کے لیے پر خطر حالات میں سبت کے قوانین کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے. اس پورے مبینہ واقعے میں انسانی زندگی کے لیے ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ سبت کے قانون کو نظرانداز کرکے شاگردوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے لیکن ہم یہاں ایسے کچھ اشارے پاتے ہیں کہ یہ واقعہ انتہائی خطرناک حالات میں پیش آیا تھا.
یسوع خالصتاً فریسی انداز میں فریسیوں کو وضاحت دیتے ہوئے گندم کی بالیاں توڑنے کے عمل کے پس منظر میں کتاب مقدس کا حوالہ دیتا ہے جو کہ داؤد اور نذر کی روٹی کی تقدیس کی خلاف ورزی کی صورتحال ہے اور فریسی دستاویزات میں اس واقعہ کو زندگی کے لیے انتہائی خطرناک حالات میں سے ایک حالت قرار دیا ہے کیونکہ داؤد اور انکے ساتھی بادشاہ ساؤل سے بھاگ رہے تھے اور فاقہ کشی میں قریب المرگ تھے. یہی وجہ ہے کہ فریسی نظریہ کے مطابق داؤد اور انکے ساتھی مقدس روٹی کھانے میں حق بجانب تھے جبکہ ایسے حالات میں جہاں انسانی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو اسے انتہائی قبیح فعل سمجھا جاتا تھا. غرض کہ داؤد اور انکے ساتھیوں کا واقعہ انتہائی کٹھن حالات میں سے ایک تھا مگر کسی مایوس اور پریشان کن حالات کے بغیر گندم کی بالیاں توڑنے کے واقعہ کی مثال یسوع اور اس کے شاگردوں کے لیے دینا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے جیسا کہ روایت کے مطابق وہ سبت کے دن گندم کے کھیت میں اطمینان سے گشت کررہے تھے اور اسکے شاگرد گندم کی بالیاں توڑنے کو فارغ رہنے سے بہتر سمجھ رہے تھے اور سستی سے اسے چبا رہے تھے. داؤد کا واقعہ بالکل ہی بےجوڑ (سبت کے دن کچھ کرنے سے بالکل جدا) ہے لیکن اگر ہم سخت اور ہنگامی حالات کا عنصر روایت کی طرف پھیر دیں تو یہ ایک بالکل درست اور قابل تفہیم مضمون بن جاتا ہے.
یسوع اور اس کے شاگرد ہیرودیس اینٹی پاس اور رومیوں کی حدود سے مفرور تھے یہاں تک کہ بھوک اور تھکاوٹ کی انتہا انہیں سبت کے دن گندم کے کھیت میں پہنچا دیتی ہے لیکن یسوع اس درپیش صورتحال کا موازنہ داؤد کے واقعہ سے کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اطمینان سے کھیت میں سے اپنی بھوک مٹا لیں کیونکہ یہ ایسی ہنگامی صورتحال تھی جس میں خواہ سبت ہو یاہیکل دونوں کی ہی تمام رسمی تعمیل فریسی قانون کے مطابق منسوخ ہو جاتی ہے،بعد میں جب اسکے فریسی دوست سوال کرتے ہیں تو وہ وضاحت کرتا ہے کہ وہ اس مقام پر آگیا ہے کہ جہاں سبت کا قانون ٹوٹ جاتا ہے. یہ وضاحت ایک گھمبیر مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے کہ کھیت سے گندم توڑنا فقط سبت کا قانون توڑنا نہیں تھا بلکہ چور کے مخالف قانون کی بھی خلاف ورزی تھا. کچھ مسیحی علماء نے استثناء 23:25 کا حوالہ دے کر اس نقطہ کو چھپانے کی کوشش کی ہے. "جب تو اپنے ہمسائے کے تاکستان میں جائے تو اپنی بھوک کی خواہش کے مطابق انگور کھا لیکن اپنی ٹوکری میں ہرگز نہ لے جانا اور اگر تو اپنے ہمسائے کے کھیت میں جائے تو تو ہاتھ سے بالیں توڑ لے مگر اپنے ہمسائے کے کھیت کو درانتی نہ لگانا"تاہم جیسا کہ فریسی مذہبی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے(e.g Mishnah Bava Metzia 7:2) اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنے مالک کے لیے کھیتوں میں کام کرتے ہوں کیونکہ اگر ہر راہگیر کو کھیت سے فصل توڑنے کی اجازت دے دی جاتی تو کسانوں کے لیے زندگی گزارنا ہی ناممکن ہو جاتا لیکن وہ حالات جس میں زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوں تو چوری کے قوانین درحقیقت کالعدم اور باطل ہو جاتے ہیں. درحقیقت فریسی قانون اسے زندگی بچانے کے لیے فرائض کے معنوں میں لیتا تھا. (9) اس لیے ایسے حالات میں چوری اور سبت کے قوانین پر متفق نہ ہونے پر یسوع قطعی طور پر فریسیوں کا ہم خیال تھا.
پھر کیوں ان ہنگامی حالات کے عنصر کو اس کہانی سے نکال دیا گیا جو کہ اس پورے قضیہ کو مہمل اور بے معنی بنا دیتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ وجوہات کے سبب ہنگامی حالات کا عنصر اناجیل سے عنقا کردیا گیا ہے جو کہ مہربان رومی حکومت کے ماتحت یہودیہ اور گلیل کو پرسکون علاقے کی طرح پیش کرتی ہے. اس کے برعکس اُس وقت کے تاریخی حقائق میں یہ رومیوں کی ظالم اور پرتشدد حکومت کے خلاف مستقل بغاوت، محصولات کی ادائیگی کے منکرین اور غارت گردی کا دور تھا. اگر کہانی میں مشکل صورتحال کا جز برقرار رکھا جاتا تو نہ صرف یہ ظاہر ہو جاتا کہ یسوع فریسی قوانین کی توہین نہیں کررہا تھا بلکہ یہ بھی واضح ہو جاتا کہ وہ ستم رسیدہ اور رومی حکومت کے مطلوب شخص تھے کیونکہ وہ انکے خلاف بغاوت کرنے والوں میں سے تھے.
لہذا گندم توڑنے کا واقعہ یسوع کے فریسی ہونے کی بابت معلومات فراہم کرنے والے حقائق کا مخالف ہے اور مفروضہ قائم کئے بغیر یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ یسوع انہی میں سے تھے. فریسی محاورے اور بائبل کے متقدمین شراح میں اس کا استعمال یہ تاثر دینے کے لیے تھا کہ غیر معمولی حالات میں شریعت کی خلاف ورزی کا اختیار ہے جو کہ مکمل طور پر فریسی تعامل اور اصولوں کے عین مطابق ہے اور تفسیر میں شریعت کے خلاف بغاوت کی اصطلاح کا جواز نہیں ملتا. اسی طرح یسوع کا آخری تبصرہ " اِبنِ آدم سَبت کا بھی مالِک ہے" کا عام مطلب یہی نکلتا ہے کہ یسوع یہودی شریعت سے برات کا اظہار اور اس کی دفعات کو اپنی مرضی سے منسوخ کرنے کے حق کا اعلان کررہے تھے. تاہم ضروری نہیں کہ اس جملے کا مفہوم یہی ہو. آرامی محاورے میں "ابن آدم" کا مطلب انسان یا آدمی ہی ہے، لہذا اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ انسان سبت سے زیادہ اہم ہے اور یہ ایسا بیان ہے جس سے تمام فریسی متفق ہو سکتے تھے. عہد نامہ جدید میں وارد بہت سے پیچیدہ مقامات جہاں "ابن آدم" استعمال ہوا ہے ان کی وضاحت انہی سطور پر کی جا سکتی ہے تاہم پھر بھی کچھ مقامات باقی رہ جاتے ہیں جہاں یسوع نے اپنے کردار کی ترجمانی کے لیے "ابن آدم" کا خطاب استعمال کیا ہے. جیسا کہ لقب سے ہی ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم الوہی ہستی نہیں بلکہ ایک رسولی درجہ ہے اور حزقیل کی پوری کتاب میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.
گنہگاروں اور محصول لینے والوں کے ساتھ تعلق رکھنے رکھنے کے سوال پر یسوع اور فریسیوں کے درمیان منسوب کردہ مخالفت بھی تبصرہ کی متقاضی ہے. عام طور پر جو رائے پیش کی جاتی ہے وہ یہ کہ یہ لوگ درحقیقت کسی معتبر معنوں میں گنہگار نہیں تھے بلکہ لوگ ان کو عزت کم دیتے تھے اور یہ رسم طہارت کے قوانین نظر انداز کرتے تھے. حقیقت تو یہ ہے کہ رسم طہارت اور نہ ہی عزت و توقیر کوئی مسائل تھے بلکہ محصول لینے والے ڈاکو، ایذارساں اور قاتل تھے جو حکومت روم کی طرف سے محصول وصول کرنے والوں کی معاونت کرتے تھے اور اپنے ہی ہم قوم یہودیوں سے جبرا کھانا اور پیسے چھیننے کے معاملے میں کافی بدنام تھے. یہ لوگ غلامی اور مفلسی کا سامنا کرنے کے بجائے باغی ہو گئے تھے تاہم یسوع اپنی ملک گیر توبہ کی مہم سے بہت پراعتماد تھے اور رومی غلامی سے قوم کو نکالنے کے لیے ایک مسیحیانہ معجزے کی تیاری کررہے تھے. وہ حالات سے مایوس گنہگاروں کے پاس فقط اس امید پر پہنچے تھے کہ ان کو برے طور طریقوں سے نکال سکیں. وہ محصول لینے والا جن کا یسوع سے سابقہ پڑا انہوں نے اپنے فعل سے رجوع کر لیا تھا ان میں سے ایک کی مثال زکائی کی ہے (لوقا 19) جس نے اپنی زندگی کے تمام برے کام ترک کر دیئے اور تمام لوٹا ہوا مال واپس کر دیا اور اپنی آدھی جائیداد خیرات کر دی. یہ رجوع کرنے کا صرف ایک طریقہ تھا جو فریسی عمل Tosefta میں محصول لینے والوں کی توبہ کے لیے مقرر کیا گیا تھا. کچھ علماء نے یہ دعوی قائم کیا ہے کہ فریسیوں کو محصول لینے والوں سے توبہ کی کوئی امید نہیں تھی. یہ حقیقت نہیں ہے لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ ندامت اور رجوع کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا. (10) اس موقع پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یسوع اور فریسیوں میں اختلاف کی یہی اصل وجہ ہو، یسوع محصول لینے والوں کی توبہ کے ذریعے واپسی کے لیے پرامید تھے جبکہ فریسی استادوں کی سوچ یہ تھی کہ ڈاکوؤں کے ساتھ تعلقات انہیں راہ راست پر لانے کے بجائے رجوع کرنے والوں کو خراب کرنے میں زیادہ اثر دکھائیں گے.
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یسوع نے دیگر فریسیوں سے اختلاف نہیں کیا تھا تو یسوع کو متشدد فریسی ہونا چاہیے تھا. جیسا کہ پہلے ہی وضاحت کی گئی کہ دوستانہ اختلافات فریسیوں اور فریسی ازم کا حصہ تھے اور فریسی ادبی دستاویزات میں تحریک کے بزرگوں کے درمیان اختلافات بھرے ہوئے ہیں. کچھ حالات میں عہد نامہ جدید فریسی اور یسوع کے درمیان مخالفت کو بے جا تراشتا ہے، صدوقیوں کو فریسیوں کی جگہ رکھنے کے بجائے یا پھر واقعہ کے بعض حصے حذف کرکے یسوع اور فریسیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جو دوستانہ بیانات تھے اسے بآسانی مخالفانہ مباحثے میں تبدیل کردیا.
اس طرح بہت سے طریقوں سے اناجیل میں یسوع کو اس تحریک سے جدا کردیا گیا جس کا وہ باقاعدہ حصہ تھے مگر اسکے باوجود ان کی شناخت پر ان کا انداز تبلیغ ایک فریسی ہونے کی مہر ثبت کردیتا ہے. ان کا تمثیلیں استعمال کرنا دراصل فریسی طریقہ تبلیغ تھا (فریسی ادب کے ناواقف لوگوں کو یہ انوکھا نظر آتا ہے) اور ان کے عجیب بیانات "سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا" یا "اپنی آنکھ کا شہتیر نکالنا" تلمود میں پائے جانے والے فریسی محاورے ہیں. بلاشبہ یہ سچ ہے کہ یسوع صرف اناجیل متوافقہ (متی، مرقس، لوقا) میں پائے جاتے ہیں. چوتھی انجیل میں یسوع ناقابل شناخت ہو جاتے ہیں جہاں وہ کوئی تمثیل استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی خاص انداز کے حامل ربائی خیالات کا اظہار کرتا ہے. اس کے بجائے وہ زبردست یونانی تصوف کا جابجا اظہار کرتے ہیں اور خود کو ایک الوہی ہستی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں. یسوع کے مابعد اساطیر میں اصل یسوع گم ہو چکا ہے. یہاں ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اصل یسوع کو اس وقت کے یہودی مذہب میں پا لیا ہے جو ان مقاصد کی ترغیب دے رہے تھے جو انکے رفقاء کے نزدیک قابل فہم تھے.
گذشتہ مضمون کی روشنی میں یہ سوال بہتر انداز میں پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر فریسی حق شناس اور ترقی پذیر تحریک تھی تو یسوع کیوں شدت سے ان پر تنقید کررہے تھے؟ اس درپیش صورت کا جواب پہلے ہی تجویز کیا جاچکا ہے کہ یسوع نے فریسیوں کو اس طرح سے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جیسا کہ اناجیل میں پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ بذات خود ایک فریسی تھا.یسوع کی مکمل تصویر جو فریسیوں کے ساتھ تراشی گئی ہے یسوع کی موت کے بعد والے اس زمانے کی تخلیق ہے جب مسیحی کلیسیاء فریسیوں کے خلاف تھی کیونکہ ان کا دعوٰی اصل یہودیت کے علمبردار ہونے کا تھا. اناجیل بھج اسی زمانے یا پھر اس سے متصل زمانے کی ہی پیداوار ہیں جو کہ ایسے مواد پر مشتمل ہیں جن کا کچھ حصہ اس ابتدائی زمانے کی فریسی مخالفت میں مرتب ہونے والی تحاریر سے لیا گیا تھا. اگرچہ خود اناجیل میں شامل فریسی مخالف تصویر کا ابطال ممکن ہے جن میں نظرثانی کرنے کے بعد کافی معلومات و ابتدائی واقعات یہ ظاہر کرنے کے لیے داخل کئے گئے ہیں کہ یسوع فریسیوں کا مخالف نہیں تھا بلکہ خود بھی ایک فریسی ہی تھا.
اناجیل میں نظرثانی کا عمل مفروضہ نہیں ہے بلکہ مختلف اناجیل میں یکساں مبینہ واقعات کے تقابل کے ذریعے واضح دیکھا جا سکتا ہے. یہ حقیقت ہے کہ تجدید کے عمل سے ایک کے بجائے چار اناجیل کی اصل کہانی کی تسہیل مقصود تھی بالخصوص جب کوئی اناجیل کے مرتب کے وقت کے اسلوب میں جدید علماء کی آراء و نتائج کو مستحضر رکھے. مرقس کی انجیل سب سے مستحکم و مستند ہے کیونکہ اناجیل میں سب سے قدیم یہی انجیل ہے لہٰذا ہم دیگر متاخرین اناجیل کے ساتھ مرقس کے تقابل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم متعددبار اس انجیل سے حوالہ دے سکتے ہیں۔
ابتدائی مثال کے طور پر ہم مرقس کی کہانی میں یسوع اور فقیہ (فریسی کی متبادل اصطلاح جوکہ متاخرمسیحی دستاویزات اور اناجیل دونوں میں ہی استعمال کی گئی ہے)کے درمیان ایک مکالمہ پاتے ہیں۔
اناجیل میں نظرثانی کا عمل مفروضہ نہیں ہے بلکہ مختلف اناجیل میں یکساں مبینہ واقعات کے تقابل کے ذریعے واضح دیکھا جا سکتا ہے. یہ حقیقت ہے کہ تجدید کے عمل سے ایک کے بجائے چار اناجیل کی اصل کہانی کی تسہیل مقصود تھی بالخصوص جب کوئی اناجیل کے مرتب کے وقت کے اسلوب میں جدید علماء کی آراء و نتائج کو مستحضر رکھے. مرقس کی انجیل سب سے مستحکم و مستند ہے کیونکہ اناجیل میں سب سے قدیم یہی انجیل ہے لہٰذا ہم دیگر متاخرین اناجیل کے ساتھ مرقس کے تقابل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم متعددبار اس انجیل سے حوالہ دے سکتے ہیں۔
ابتدائی مثال کے طور پر ہم مرقس کی کہانی میں یسوع اور فقیہ (فریسی کی متبادل اصطلاح جوکہ متاخرمسیحی دستاویزات اور اناجیل دونوں میں ہی استعمال کی گئی ہے)کے درمیان ایک مکالمہ پاتے ہیں۔
اور فقِیہوں میں سے ایک نے اُن کو بحث کرتے سُن کر جان لِیا کہ اُس نے اُن کو خُوب جواب دِیا ہے۔ وہ پاس آیا اور اُس سے پوُچھا کہ سب حُکموں میں اوّل کَون سا ہے؟ یِسُوع نے جواب دِیا کہ اوّل یہ ہے اَے اِسرائیل سُن۔ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ اور تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبّت رکھ۔ دُوسرا یہ ہے کہ تُو اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔ اِن سے بڑا اَور کوئی حُکم نہِیں۔ فِقیہ نے اُس سے کہا اَے اُستاد بہُت خُوب!تُو نے سَچ کہا کہ وہ ایک ہی ہے اور اُس کے سِوا اَور کوئی نہِیں۔ اور اُس سے سارے دِل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے محبّت رکھنا اور اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھنا سب سوختنی قُربانِیوں اور ذبِیحوں سے بڑھ کر ہے۔ جب یِسُوع نے دیکھا کہ اُس نے دانائی سے جواب دِیا تو اُس سے کہا تُو خُدا کی بادشاہی سے دُور نہِیں اور پِھر کِسی نے اُس سے سوال کرنے کی جُراَت نہ کی۔
(مرقس باب ٢٨ :٢٨تا٣٤)
اسی کہانی کا ترجمہ دوسری انجیل میں بھی پایاگیا ہے،جیساکہ مذکور ہے۔
(مرقس باب ٢٨ :٢٨تا٣٤)
اسی کہانی کا ترجمہ دوسری انجیل میں بھی پایاگیا ہے،جیساکہ مذکور ہے۔
اور جب فرِیسِیوں نے سُنا کہ اُس نے صدُوقِیوں کا مُنہ بند کر دِیا تو وہ جمع ہوگئے۔ اور اُن میں سے ایک عالمِ شرع نے آزمانے کے لِئے اُس سے پُوچھا۔ اَے اُستاد توریت میں کون سا حُکم بڑا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا کہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حُکم یِہی ہے۔ اور دُوسرا اِس کی مانِند یہ ہے کہ اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔ اِنہی دو حُکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحِیفوں کا مدار ہے۔
(متی٢٢: ٣٤ تا ٤٠)
واقعہ کے دوسرے انداز بیاں میں مکالمہ کا منصفانہ طریقہ بالکل ہی نیست ونابودہوگیاہے۔ فریسی کسی حیرت وتعجب کی وجہ سے یسوع سے سوال پوچھنے نہیں آیا تھاجیساکہ پہلے اندراج میں ذکر ہے(کہ کس طرح اس نے صدوقیوں کا منہ بندکردیا) لیکن اس نے فقط یسوع کا امتحان لینا چاہا تھا۔ پہلے قضیہ میں فریسی سائل یسوع کی تعریف کرتے ہوئے ایک طویل جواب یسوع کو دیتا ہے اور اپنے خود کے تبصرے میں محبت کاقربانی پر فوقیت کے متعلق اضافہ کرتا ہے جبکہ یسوع کی طرف اضافہ کرتا ہے کہ وہ عزت وتہذیب سے جواب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سائل خدا کی بادشاہت سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ سب دوسری اشاعت سے خارج کردیئے گئے ہیں جوکہ یسوع کی اعلیٰ دانش مندی کے ذریعے حاس فریسی کو لاجواب کرنے کی فقط ایک اضافی داستان ہے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تنہا یسوع ہی ان دوفقرات کاعبرانی بائبل سے بطور عظیم احکام انتخاب کرتا ہے (ایک تثنیہ شرع کی کتاب سے جبکہ دوسرا احبار سے) جوکہ درحقیقت خود اس کا نظریہ نہ تھا بلکہ فریسی افکار کا مرکزی حصہ تھا۔فریسیوں نے بنیادی مذہبی قائدے کے اصول جو تخلیق کیے تھے اس میں اس کو ”شمع“ کہا گیا ہے(اورآج تک یہودیوں میں استعمال کیاجاتا ہے) جوکہ تثنیہ شرع سے یسوع نے اقتباس کیا ہے۔سُن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تُو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ ۔ یہ حکم فریسیوں میں اس قدر اہم شمار کیا جاتا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ عبادت کی اساسی ذمہ داریوں کی بجاآوری کے لیے ان آیات کو دن میں فقط دوبار ادا کرنا ہی کافی تھا۔(۱) یہ بھی دلچسپ ہے کہ یسوع کے پیش نظر جو آخری جواب فقیہ کو دیا گیا وہ یسوع کی ایجاد نہیں بلکہ فریسی طرز کلام کا حصہ ہے اور ربائی ان آیات کو خدا کی بادشاہت کے ساتھ ایک مضبوط ربط کے طور پر شمار کرتے تھے.
ان کا کہنا تھا کہ ان آیات کی تلاوت خود کو خدا کی بادشاہت میں حلقہ بدوش ہونے کے لیے قبول کرنا ہے. یہ یاد رہے کہ فریسی مکتب فکر میں خدا کی بادشاہت کے دو معنی تھے. اول یہ کہ موجودہ سلطنت یا خدا کی سلطنت یا پھر مستقبل کی خدائی سلطنت جو کہ المسیح کے زمانے میں پوری دنیا میں ہوگی. یسوع کے اس کلام کو سمجھنا قدرے آسان ہے کیونکہ وہ اکثر اس محاورے کو ذومعنی استعمال کرتا تھا. کبھی اس محاورے سے اس کا مطمع نظر مستقبل کے ملکی معاملات تھے جن کی پیشگوئی کے لیے اس کی آمد ہوئی تھی (جیسا کہ توبہ کرو کیونکہ خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے) اور بعض اوقات اِس محاورے سے اُس کی مراد موجودہ خدا کی سلطنت ہوتی تھی جسے ہر بشر نے مجبوراً قبول کیا ہوا تھا (جیسا کہ خدا کی بادشاہت تمہارے درمیان موجود ہے). موجودہ انتخاب میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مؤخر الذکر معانی ہی راجح ہے.
دوسری آیت جو احبار کی کتاب سے یسوع منقول کرتے ہیں وہ " اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جیسے اپنے آپ سے کر تے ہو" ہے. یہ آیت بھی فریسی افکار میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی اور فریسی ازم کے دو عظیم ترین بزرگوں ربائی ہللیل اور اور ربائی اکوبا نے اسے یہودیت کے ایسے اصول قرار دیا ہے جس پر ہر شے منحصر ہے. بےشک اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دیگر قوانین کو یکسر نظرانداز کردیا جائے یا مکمل طور پر ختم کردیا جائے کیونکہ یہ شریعت کا ایک اہم اصول تھا اسکے برعکس شریعت کو بطور مسائل کا حل اور پڑوسی سے محنت کی عملی بجاآوری، روزمرہ زندگی کی پیچیدگیوں میں پڑوسی سے محبت کی کیفیت، کے متعلق رہنمائی دینے والی کے طور سمجھی جاتی تھی. ایسی وضاحت کے بغیر اصول بنا لینا ایسا ہی ہے جیسا کہ فیثا غورث کے مسلمہ اصول کا استعمال ہو جو کسی قوائد متعارفہ کا محتاج ہو. متاخر مسیحی تحاریر اس مقام کی غلط عکاسی کرتی ہیں کہ جب یسوع نے خدا اور پڑوسی کی محبت کا انتخاب کیا تو اس طرح سے اس نے باقی مکمل تورات کو مسترد کردیا تھا. یہاں ایسی فکر کی بظاہر کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ یہاں یسوع کی یہی مراد تھی بالخصوص کہ جب وہ فریسی فقیہ کے ساتھ ایک خوشگوار مکالمہ کررہا تھا. (کم از کم ابتدائی اور کچھ مستند مرقس کی انجیل اسی طرح بیان کرتی ہے).
قربانی کے متعلق فقیہ کی بظاہر تحقیرانہ رائے کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے. اُس کا خیال یہ نہیں تھا کہ قربانیاں یا ہیکل کی عبادت کلی طور پر منسوخ ہو جائے گی بلکہ عبرانی نبیوں کے الفاظ کفارے کی قربانی کے بارے میں اس کے ذہن میں مستحضر تھے کہ یہ قربانیاں خدا کے ساتھ سچی توبہ اور تصفیہ نفس کا نشان تھیں. یہودی سال کا سب سے پر جلال دن یوم کفارہ ہوا کرتا تھا، جب ہیکل میں قربانیاں ادا کی جاتیں اور کفارے کا برہ بیاباں میں بھیجا جاتا. ابھی تک یہ فریسی نظریات تھے کہ ان میں سے کوئی بھی حیات بخش رسومات کا اثر بغیر سچی توبہ کے واقع نہیں ہوتا اور پڑوسی کے نقصان کو ادا کئے بغیر بحالی توبہ ممکن نہیں. لہذا فریسی قربانیوں کی ادائیگی کے مخالف نہ تھے (جو کہ مقدس نوشتوں میں مقرر کی گئی تھیں) لیکن وہ ان قربانیوں کو کماحقہ جگہ رکھتے تھے جیسا کہ فریسی ہیکل کی عبادت اور کاہنانہ ذمہ داریوں میں عمومی تعاون کرتے تھے لیکن یہودی مذہب کے تمام تر خاتمے کے لئے اس کے حق میں پائے جانے والے کسی بھی رجحان کے سخت مخالف تھے جبکہ صدوقی اس کا رجحان رکھتے تھے. یہاں یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ یسوع کا رویہ ہیکل کے لیے مختلف تھا.
یسوع اور فریسی کے متعلق واقعے کا تجزیہ دو چیزیں ظاہر کرتا ہے کہ یسوع اور فریسیوں کے درمیان بے ربطگی نہ تھی اور انجیل مرتب کرنے میں تسلسل کے ساتھ نظر ثانی کا عمل اس لیے جاری ہوا تاکہ متاخر اناجیل میں موجود ایک دوستانہ گفتگو کو معاندانہ مکالمے میں تبدیل کیا جائے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک غیر متعصب فریسی عکس کے لیے ہمیں ابتدائی انجیل مرقس کی طرف رجوع کرنا پڑے گا. اسکے برعکس انجیل مرقس فریسیوں کے خلاف تعصبانہ رویہ رکھتی ہے لیکن بعد میں آنے والی اناجیل کی نسبت یہ قدیم انجیل مرقس فریسی مخالفت کو ظاہر کرنے کی خاطر کی جانے والی نظر ثانی کا عنصر کم رکھتی ہے.
یہاں ہم انجیلی تفسیر کے ایک اہم اصول پر نقد کریں گے. جب ہم اصل روایت کے خلاف جانے والے حصے کو مدنظر رکھتے ہیں تو احتساب کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے پر اعتماد ہو جاتے ہیں کہ یہ اصل اور مستند روایت کا حصہ ہے کیونکہ اناجیل میں عمومی رجحان فریسی مخالفت کا ہے لہذا وہ روایت یکے بعد دیگرے کی جانے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں مزید سے مزید تر فریسی مخالف ہو جاتی ہے کیونکہ فریسیانہ دوستی پر مبنی کوئی بھی واقعہ بعد کے متون میں شامل نہیں کیا گیا. (تصرف کرنے والوں کا رجحان رہا ہے کہ کچھ جزئیات کو خارج کر دیتے ہیں اور شامل نہیں کرتے) اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعد کی اناجیل ہر واقعہ سے متعلق ہوں کیونکہ مختلف اناجیل بعینہ وہی مواد پیش نہیں کرتیں جو کہ ایک ہی ماخذ سے مستعار ہو. (٣) اسی وجہ سے جب آزادانہ ماخذات سوال میں اٹھائے جاتے ہیں تو مابعد انجیل وہ مواد بھی محفوظ رکھتی ہیں جو کہ ابتدائی انجیل سے مفقود ہے. جب ہم مؤخر انجیل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں ایک ہی ذریعے سے حاصل کئے گئے مواد کو محفوظ رکھتی ہیں. یہ صورتحال اوپر دی گئی ہے جہاں یہ واضح ہے کہ فقیہ اور یسوع کے واقعے کی خبر مرقس (جو کہ متی سے قبل ہی اپنی انجیل لکھ چکا تھا) میں پہلے اور متی اس کا ذکر بعد میں کرتا ہے. یہ متی کے مصنف کے ذریعے مرقس میں دی جانے والی خبر کی بنیاد پر ایک موافق تبدیلی ہے.
یہ ابتدائی مثال ان وسیع دلائل کی پیروی کرتی ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ یسوع فریسی ازم کا مخالف نہ تھا بلکہ خود ایک فریسی تھا. یہ بیان اس کتاب کے مرکزی خیال پولس کے موضوع سے متبائن نہیں ہے کیونکہ یسوع کے فریسی ہونے یا نہ ہونا اس سوال سے زبردست تعلق رکھتا ہے کہ کیا پولس فریسی تھا؟
یسوع کی وہ تصویر جو انجیل میں ہے اس کے مطابق فریسی یسوع کو ایذاء پہنچاتے اور اس کو تنگ کرتے تھے. یہ تصویر اعمال میں پولس کی عکاسی کو تقویت دیتی ہے کہ فریسی (مبینہ طور پر پولس بھی فریسی تھا) یروشلم چرچ اور یسوع کے پیروکاروں کو تکلیف دیتے تھے. اگر یہ نظریہ درست ہے کہ فریسیوں نے کبھی بھی یسوع کا تعاقب نہیں کیا اور یسوع خود بھر فریسی تھے تو یہ دعوٰی ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے کہ یروشلم چرچ کو ستانے والا پولس دراصل فریسی تھا. پولس کے ہمعصر فریسی سربراہ گملیل کا یروشلم چرچ کے ساتھ رویہ رحمدل اور بردباری کا تھا جس کی معقولی وجہ یہی ہے کہ فریسیوں کے یسوع ساتھ دوستانہ معاملات کا تسلسل تھا. اس کتاب کا تنازع یہ ہے کہ یسوع کو اناجیل میں جس طرح بھی پیش کیا گیا مگر اسکے باوجود وہ ایک فریسی ہی تھا جبکہ مبینہ طور پر ہدایت پانے سے قبل پولس کو ہمیشہ بحیثیت فریسی ہی پیش کیا گیا جو کہ وہ کبھی تھا ہی نہیں. دلائل کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح عہدنامہ جدید کے مصنفین کی طرف سے حقائق میں تبدیلی کی گئی ہے. انجیل کے مطابق فریسیوں اور یسوع کے درمیان تنازع کی اہم وجہ یسوع کا سبت کے دن شفاء دینے کا عمل تھا جو کہ مبینہ طور پر فریسی قوانین کے خلاف تھا. انجیل یہ دعوی کرتی ہے کہ سبت کے دن علاج کرنے پر فریسیوں نے یسوع پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس کے باعث یسوع کے قتل کی سازش تک کی. (متی 3:6،متی 12:14) یسوع نے سبت کے دن علاج کرنے کے دفاع میں فریسیوں کے سامنے کچھ دلائل بھی رکھے مثلاً سبت کے دن ختنہ کرنے کی اجازت تھی تو علاج کرنے سے یسوع روکا جاتا ہے. (یوحنا 7:23) یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اگر ہم فریسی قانون کی کتاب سے مدد لیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت سبت کے دن شفاء دینے کی تعلیم دیا کرتے تھے،ہم پاتے ہیں کہ انہوں نے اسے ممنوع قرار نہیں کیا تھا اور وہ یہی دلائل استعمال کرتے تھے جو یسوع نے اس کے جواز کے لیے استعمال کی. یسوع نے کہا کہ "سبت آدمی کے لیے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کے لیے"، انہیں ایک نئی عہد ساز معرفت کی تشبیہ کے طور پر بہت مرتبہ یسوع نے ذکر کیا اور بعینہ یہی لفظ فریسی ماخذات میں پائے جاتے ہیں جہاں اسے انسانی زندگی کے سبت پر فوقیت رکھنے کے فریسی نظریات کی تائید کے لیے کام میں لایا جاتا تھا. انجیل نویس نے یہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یسوع جب ان فریسیوں سے مباحثہ کررہا تھا تو بذات خود فریسی نہ تھا اور اپنے سبت کے دن شفاء دینے کا دفاع کررہا تھا.
سبت کے مخالفین کے اثرات حقیقتاً سبت کے متعلق کہانیوں کی داستانوں میں پائے جاتے ہیں. یہاں یہ بیان ہے کہ سبت کے دن صحتیابی کرنے پر یسوع پر برہم و نالاں فریسی ہیرودیوں کے حامیوں کے حامیوں کے ہمراہ مل کر مخالف چالیں چلنے لگے کہ وہ یسوع کو کس طرح لوگوں سے دور کریں (مرقس 3:6) ہیرودیس کے ساتھی (ہیرودیس اینٹی پاس، جو کہ رومی حکومت کی طرف سے گلیل کا حاکم تھا)سب کے سب سیاسی اور یونانیت زدہ یہودی تھے، ان کا رجحان مذہب میں بالکل کم اور طاقت حاصل کرنے کی طرف زیادہ تھا. فریسی (جو کہ رومی قابضین کی مخالفت کے علمبردار تھے) اور ہیرودیوں کے ساتھیوں میں اتحاد ناممکن تھا لیکن ہیرودیوں اور صدوقیوں میں اتحاد ممکن بلکہ یقینی تھا. جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے کہ صدوقی اگرچہ ایک مذہبی جماعت تھی جو کہ جمود کا شکار اور رومی وزارت کے حصول کے خواہاں تھے. ان کا سربراہ سردار کاہن رومی قابضین کے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تھا. اس امر کا زبردست امکان موجود ہے کہ اناجیل کی تصحیح کرنے والوں کی مداخلت کی وجہ سے اصل صدوقی نام کو فریسی نام سے تبدیل کردیا گیا ہو، غالباً ایسا دیگر وقائع میں بھی ہوا ہے جہاں یسوع فریسیوں کے خلاف فریسیانہ نقطہ نظر سے سبت پر ناقابل فہم بحث کررہے تھے. ہم جانتے ہیں کہ فریسیوں کی نسبت صدوقی سبت کے متعلق سخت نظریہ رکھتے تھے. (اگرچہ کوئی صدوقی دستاویز محفوظ نہیں رہی) یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ فریسیوں کے برعکس انہوں نے یسوع کو سبت کے دن علاج سے روکا. ایسے مفروضات جو کہانیاں تشکیل دیتے ہیں وہ ماوراء تفہیم ہیں کہ فریسی یسوع کو فریسی عقائد ہی کی ترویج کرنے کے باعث قتل کرنا چاہتے تھے.
اگرچہ یسوع ان ایام کے سردار کاہن کے مخالف کے طور پر سامنے آتا ہے جو کہ صدوقی تھا لہذا ضروری ہے کہ ان تمام کہانیوں کو محفوظ کیا جائے جس میں یسوع کی تصویر صدوقی مذہبی نظریات کے مخالف کی طرح پیش کی ہے اسکے باوجود یہ واضح ہے کہ یسوع اور صدوقیوں کے مابین تنازع کی اہم وجہ مذہبی کے بجائے سیاسی اختلافات تھے. فریسی دستاویزات میں ان فریسی معلمین کے متعلق متعدد کہانیاں پائی جاتی ہیں جو صدوقیوں کے ساتھ مناظروں میں مصروف رہے. ان مناظروں کا مرکزی عنوان مردوں کی قیامت کا سوال تھا جس پر فریسی یقین رکھتے تھے اور صدوقی اس کے منکر تھے. اسی طرح کی ایک کہانی انجیل میں بھی پیش کی گئی ہے (مرقس باب 12 فقرات 18 تا 27) یسوع کی طرف سے صدوقیوں کو دیئے جانے والے جوابات ان سے کئی گنا زیادہ پیچیدہ ہیں جو فریسی اپنے مباحثوں میں دیا کرتے تھے. غیر یہودی لوگ بھی مردوں کی قیامت کے متعلق فریسیانہ عقیدے کا علم رکھتے تھے اور یہ کہانیاں یسوع اور فریسیوں کو باہم مخالف ظاہر کرنے کے انداز میں مرتب کی گئی ہیں لہٰذا عہد جدید میں تصرف کرنے والوں نے یہاں تبدیلی کیے بغیر یسوع کے فریسی ہونے کی ایک واضح و دلچسپ گواہی چھوڑ دی ہے اگرچہ اناجیل میں اسے اس طرح مباحثہ کرتے دکھایا گیا ہے جیسے وہ فریسی کے بجائے ایسا شخص ہو جس کے خیالات کبھی فریسیوں سے موافق تھے.
ان کہانیوں میں تصرف کرنے والوں کے یسوع اور صدوقیوں کے درمیان مخاصمت کے کیا محرکات تھے کہ انہوں نے صدوقیوں کے بجائے فریسیوں کو مخالف یسوع کے طور پر پیش کیا؟ اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے، فریسی یہودیت میں اعلی بالادستی رکھنے والوں کی حیثیت سے معروف تھے جبکہ صدوقی ایسے نہ تھے. حقیقت یہ ہے کہ اناجیل کے لکھنے جانے کے وقت صدوقی اپنی ہر وہ معمولی سی بھی مذہبی شناخت کھو چکے تھے جو ان کے پاس تھی اور فریسی مذہبی اختیارات کے یکتا محافظ تھے. انجیل نویسوں کی حتی الامکان کوشش تھی کہ وہ یسوع کو رومی قابضین کے بجائے یہودی مذہب کے خلاف بطور باغی پیش کریں. اناجیل میں شامل مواد کی متعدد بار تبدیلی کی وجہ یہی ہے کہ مصنفین عہد جدید کا مافی الضمیر ایسی تصویر کی تشکیل دینا تھا جس میں یسوع اور فریسی باہم مخالف ہوں.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدوقی رومیوں کے ساتھ معاونت کرتے تھے، یسوع کی اصل مخالفت دراصل صدوقیوں سے تھی جبکہ خالص مذہبی پس منظر پر یسوع کا تاثر بطور رومی مخالف نظر آتا ہے جسے انجیل نویسوں نے چھپانے کی کوشش کی ہے.
درحقیقت یسوع اور فریسیوں کے درمیان کوئی مخالفت نہ تھی جو کہ ان خبر رساں نقوش سے ظاہر ہوتی ہیں جو کہ روایت میں ہی باقی رہ گئی ہے. ایک اہم مثال ہے کہ " اُسی گھڑی بعض فرِیسِیوں نے آ کر اُس سے کہا کہ نِکل کر یہاں سے چل دے کِیُونکہ ہیرودِیس تُجھے قتل کرنا چاہتا ہے" (لوقا13:31) یہ واقعہ تمام مفسرین کے لیے معمہ بن چکا ہے کہ وہ فریسی جنہیں گذشتہ واقعات میں یسوع کے شفائیہ کاموں کے باعث اس کی موت کی کوششیں کرتے پایا گیا ہے وہ اسے تنبیہ کرنے اس ارادے سے آتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی بچا لے؟
کچھ مسیحی مفسرین فریسیوں کی کینہ پرور تصویر محفوظ کرنے کے لیے بےچین نظر آتے ہیں اور ایک ایسا مشکل منظرنامہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں فریسی دہرا معیار کرتے نظر آئیں. وہ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ یسوع کے لیے گلیل سے زیادہ یروشلم میں خطرہ تھا اس لیے فریسی یسوع کو فرار کرانے کی غرض سے ہیرودیس کے متعلق ایک جعلی تنبیہ کرتے ہوئے راغب کرتے ہیں کہ وہ اپنی موت سے قبل یروشلم سے نکل جائے. حقیقت سے دور یہ تاویل ایک عجوبہ اور بمشکل ہی قابل اعتبار ہے کہ گذشتہ بیان کے مطابق اگر فریسی یسوع کے دشمن تھے تو وہ یہ کیسے امید رکھ سکتے تھے کہ یسوع ان کے ایسے پیغام کو قبول کرے گا جو وہ نیک نیتی کے ارادے سے یسوع کو دے رہے تھے؟
یہ بیان یسوع اور فریسیوں کے درمیان باہمی مواخات کی بیش قیمت شہادت ہے اور ان کا یسوع کو یہ تنبیہ کرنا ہی اس بات کی علامت ہے کہ فریسی یسوع کو اپنی ہی جماعت کا ایک فرد شمار کرتے تھے. زبردست حقیقت یہ ہے کہ یسوع کے ساتھ فریسیوں کے تعلقات کی عمومی تصویر جو اناجیل میں پیش کی گئی ہے یہ کہانی اس کے بالکل برعکس ہے. تاریخی سچائی ہے کہ یہ کہانی اس ترمیمی مواد میں شامل نہیں تھی جو متاخر زمانہ میں انجیل میں داخل کیا گیا، بلکہ یہ شروع سے ہی انجیل میں چلی آرہی تھیں جن کی غلطی سے ترمیم نہیں کی جا سکی.
یہ ایک اہم اور ضروری اشارہ ہے کہ یسوع کی فریسی مخالفت کے متعلق روایات میں سبت کے دن شفاء دینے کا سوال کچھ معنی نہیں رکھتا، حقیقت یہ ہے کہ یسوع کے مقدمہ میں اس الزام کا کہیں ذکر نہیں ملتا. اگر انجیلی بیان کے مطابق یسوع کی سبت کے دن کی سرگرمیاں فریسیوں کی نظر میں بہت بڑا جرم تھا تو یہ فرد جرم اس کے خلاف کیوں شامل نہیں کی گئی جب وہ اپنی زندگی اور موت کے مقدمے میں کھڑا تھا؟ یسوع کے مقدمے میں فریسیوں کی طرف سے بالخصوص کوئی الزام کیوں عائد نہیں کیا گیا؟ جیسا کہ ہم اگلے حصے میں دیکھیں گے کہ یسوع پر کوئی بھی الزام مذہبی نہیں تھا بلکہ تمام الزامات سیاسی نوعیت کے تھے جبکہ اناجیل انہی سیاسی الزامات کو مذہبی رنگ دے کر پیش کرتی ہیں. اگر یسوع کا مقدمہ حقیقتاً مذہبی تھا تو فریسیوں کو اس مقدمہ کی کاروائی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنا تھا جو کہ مبینہ طور پر یسوع کے بدترین معاند تھے.
یہ سوال نہایت اہم ہے کہ فریسی یسوع کے مقدمے کے وقت یسوع کو اس طرح سے کیوں نہیں بچاتے ہیں جس طرح فریسی سردار گملیل نے یسوع کے شاگرد پطرس کو اس وقت بچایا جب اس پر مذہبی عدالت سے قبل ہی فرد جرم نافذ کر دی گئی تھی؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یسوع کے اس مقدمے میں فریسی حاضر نہ تھے جو خصوصی سیاسی عدالت سے قبل مذہبی عدالت یعنی سنہڈرین میں چلایا گیا تھا جس میں سردار کاہن رومیوں کا قائم مقام اور ہمدرد تھا اور اپنی ہی منظور نظر عدالت کی صدارت کررہا تھا.
سبت کو شفاء دینے کا معاملہ، یسوع اور فریسیوں کے درمیان مخالفت کے تناظر میں ہرگز اہم نہیں ہے. یسوع کی تعلیمات کے نقوش کو اناجیل ایسے انقلابی انداز میں کیوں پیش کرتی ہیں جو اس وقت کی یہودی مذہبی قیادت کے لیے ناقابل برداشت تھیں. یسوع کا دعوی مسیح ہونے سے متعلق کیا تھا؟ کیا یہ فریسیوں کی نظر میں کفر بکنا نہیں تھا؟ ہیکل کو تباہ کرنے کی یسوع کی دھمکی کو اس کے مخالفین نے اس کے خلاف مقدمہ میں بطور دلیل کیوں پیش نہیں کیا؟ موسی کی شریعت کی تجدید یا منسوخ کرنے کے متعلق یسوع کی خواہش کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فریسی مکتبہ فکر کے مطابق ان میں سے کوئی بھی مسئلہ دھمکی کے قائم مقام نہیں ہو سکتا اور بغور مشاہدہ کرنے پر ہم ان تمام معاملات میں یسوع کے نظریات کو خالصتا فریسی اعتقادات کے مطابق پاتے ہیں جو کہ اس بات کی واضح تصدیق ہے کہ یسوع خود بھی فریسی تحریک کے ہی ایک رکن تھے.
یسوع کا المسیح ہونے کا دعوٰی کسی بھی فریسی یا دیگر یہودیوں کی نظر میں کلمہ کفر نہیں تھا کیونکہ مسیح کا لقب خدائی دعوی یا الوہیت کے معنی میں نہیں تھا. مسیح کا سادہ معنی مسیح کیا ہوا ہے جو کہ بادشاہت کا لقب ہوا کرتا تھا. داؤد کے شاہی گھرانے کا ہر یہودی بادشاہ اس لقب کو اختیار کرتا تھا اور یہودی شریعت میں یہ بے ضرر تھا. اس کے برعکس تمام یہودی المسیح کی آمد کی امید پر زندہ تھے جس نے آکر انہیں بیرونی قابضین سے خلاصی دینی اور یہود کی قومی آزادی کو بحال کرنا تھا. ہر وہ شخص جو داؤد کے متبرک گھرانے کو بحال کرنے والے مسیح موعود (جس کی پیشگوئیاں بائبل کے عبرانی انبیاء کرتے رہے) ہونے کا دعوٰی کرتا وہ یقیناً بہت سے پیروکاروں کی ہمدردیاں حاصل کر لیتا. دعوی مسیح کرنے کے وقت یسوع ہرگز یہ دعوی کرنے والا تن تنہا واحد شخص نہیں تھا اور نہ ہی یہ دعوی ایسا تھا جس کی وجہ سے کفر گوئی کا الزام لگایا جاتا. المسیح ہونے کے سارے دعاوی ایک ہی نوعیت کے نہیں تھے، بعض مدعیان المسیح جنگجو تھے جیسا کہ بارکیوبا یا یہوداہ گلیلی جبکہ کچھ المسیح ہونے کا دعوی کرنے والے غیر عسکری ولولہ انگیز جذبہ رکھنے والے تھے جیسا کہ تھیوداس اور مصری (ان دونوں کا ذکر عہد جدید اور جوزیفس(4)نے کیا ہے) انہوں نے معتقدین کا گروہ جمع کرلیا تھا اور پر اعتماد ہو کر ایسے معجزے کے منتظر تھے جس کے ذریعے رومیوں کو زیر و زبر کیا جا سکے. یسوع اسی دوسری قسم کے مدعیان سے تعلق رکھتا تھا اور وہ کوہ زیتون پر ایک معجزے کے ظہور کے لیے پرامید تھا جس کی پیشگوئی زکریا نبی نے کی تھی. (5) کچھ مدعیان المسیح محدود مقاصد کو لے کر اٹھے جن کا مقصود فقط یہودیوں کو رومیوں سے نجات دلانا تھا، انکے برعکس مدعیان بشمول یسوع ایسی آزادی کے متمنی تھے جو پوری دنیا پر مشتمل ہو اور اس عہد میں یہ امن نقیب ہو جائیں جب نبیوں کے مطابق بھیڑیا برہ کے ساتھ آرام کرے گا، لیکن اس کے باوجود ان مدعیان کی کوئی بھی امید کفر گوئی کے رنگ میں نہیں تھی. وہ یہودیت کا ایک کامل حصہ تھے جس میں المسیح کی امید، خدا کی ذات پر یقین کا ایک معقولی نتیجہ تھی جس کی سلطنت ایک دن تمام انسانیت تک وسیع ہوگی.
بہرحال یسوع کی موت کے بعد متاخر مسیحیت میں عبرانی لفظ "مسیح" کا یونانی ترجمہ الوہیت یا خدائی وجود کے معنوں میں ہوگیا اسکے نتیجے میں مسیحیوں نے اس معنی کو قبول کرنے کے لیے آسان پایا کہ یسوع پر کفر گوئی کا الزام لگنے کی وجہ اسکا دعوی مسیح تھا اور اس کے ساتھی یہودی بھی اس دعوے پر حیران تھے. اناجیل یسوع کو ایک الگ ہی مسیانک شپ کے تصور کے ساتھ پیش کرتی ہیں جو کہ دیگر یہودی مدعیان مسیح سے مختلف تھی لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ جب وہ المسیح لفظ کو خود کے لیے استعمال کررہا تھا تو اسکے ساتھی یہودیوں کے پاس یہ یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس کا مطمع نظر اس (لفظ) سے خلاف دستور معنی ہے، خصوصاً جیسا کہ اناجیل کے مطابق وہ اس لفظ کے معانی متعارف کرانے میں بھی محتاط و کم گو تھا لہذا جب اس نے اس لفظ کو سمجھایا تو اس کے شاگرد سمجھ نہ سکے. اس وجہ سے کفر گوئی کا کوئی بھی الزام اس نظریہ پر قائم نہیں ہو سکتا جسے کبھی ظاہر ہی نہیں کیا گیا. بہرحال تاریخ میں ایک خفیہ مسییاح تصور کا اعتقاد کا یسوع کی طرف انتساب فقط بعد میں آنے والے مسیحیوں کی کوشش ہے جس کا یسوع کی موت کے بعد تک کوئی وجود نہیں تھا. یہ بات مزید دلچسپی رکھتی ہے کہ اناجیل متواقفہ میں فریسیوں کے بجائے فقط سردار کاہن کو ہی دعوی مسیح کی بنیاد پر یسوع کو کفر گوئی کا مرتکب قرار دیتے دکھایا گیا ہے. یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یسوع پر لگنے والا الزام کسی طرح بھی مذہبی نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا. المسیح ہونے کا دعوٰی کرنا فریسی قانون کی خلاف ورزی نہ تھا بلکہ اس کے معنی بادشاہ ہونا تھا. رومی قابضین یہودی حکومت تہس نہس کر چکے تھے ایسے میں کسی کا بھی المسیح کا دعوٰی کرنا رومی قابضین کے خلاف تخریب کارانہ عمل تھا. سردار کاہن کا تقرر رومی حکومت کی طرف سے ہوا تھا جس کا مقصد روم کے خلاف کسی بھی طرح کی برپا ہونے والی تحریک سے رومی مفادات کی حفاظت کرنا تھا اور یہ اس کے فرائض میں شامل تھا کہ کسی بھی مدعی المسیح کو سزا دینے کے لیے گرفتار کرکے رومی حکومت کے حوالے کرے. اناجیل نے یسوع کو یہودی مذہب کے خلاف بطور باغی پیش کرنے کے طریقہ کار کی پیروی کی ہے اور سردار کاہن کی منظر کشی اس طرح کی یے کہ وہ بغاوت کے بجائے کفر گوئی کے لیے زیادہ فکر مند تھا.
اسی طرح یہ الزام بھی صرف یسوع کے مقدمہ کے وقت فریسیوں کی عدم موجودگی میں ہی سامنے لایا گیا کہ یسوع نے ہیکل کو ڈھانے اور دوبارہ تعمیر کرنے کی دھمکی دی ہے. یہ یقیناً ایک سیاسی الزام تھا نہ کہ مذہبی، کیونکہ فریسی یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ہیرودیس کا تعمیر کردہ ہیکل آنے والے مسیح کے ایام تک باقی رہے گا. یسوع نے اپنی ساری توجہ ہیکل کی تباہی اور اس کی تعمیر نو پر لگا دی تھی کیونکہ المسیح کا ادعا کرنے والے فرد نے سب سے بنیادی کام جو کرنا تھا وہ یہی تھا. فریسی جو ہیکل کے لیے والہانہ تعظیم نہ رکھتے تھے اور نہ ہی وہ یسوع کے اس ارادے سے خوفزدہ تھے کہ یسوع کا مقصود موجودہ ہیکل کے بانی اول کے طرز کی ایک جدید ہیکل کی تعمیر ہے. وہ لوگ جن سے اس طرح کے ارادے کی وجہ سے پریشانی کی توقع رکھی جا سکتی تھی وہ سردار کاہن اور اس کے ہمراہی ہی ہو سکتے تھے جو مسیح کی سلطنت کی حفاظت کے ذریعے خود کے لیے مکمل کامیابی کی توقع لگائے بیٹھے تھے. یقیناً 66 عیسوی میں برپا ہونے والی یہودی جنگ میں رومی مخالف باغیوں نے سردار کاہن کو برطرف کیا اور رومی اشتراک سے لاوی کے مقدس خاندان سے نئے سردار کاہن کو مقرر کیا. یاد رہے کہ مذہبی کفر گوئی کا جو الزام اناجیل میں پیش کیا گیا ہے یقیناً جمود کے خلاف بغاوت کا ایک سیاسی الزام تھا جس میں حریف ہیکل اور سردار کاہن روم کے آلہ کار تھے.
اناجیل میں یہودیت کی مبینہ تجدید کے حمایتی کے طور پر یسوع کی عکاسی، تجزیہ کرنے پر کسی بھی طرح فریسی نظریات کے خلاف ثابت نہیں ہوتی. اگرچہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ یسوع عبرانی بائبل کی قانونی تعزیرات کے قانون "آنکھ کے بدلے آنکھ" کا مخالف تھا اور وہ خون بہا کے قانون کے بدلے محبت کے قانون کو اس کے قائم مقام کرتا ہے. یہ فریسی ازم میں صورتحال کی بگڑی ہوئی شکل ہے. فریسی آنکھ کے بدلے آنکھ کے بیان کو حرف بحرف شرعی دستور العمل کی طرح نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اس قانون کو ایسا اصول سمجھتے تھے جو کسی کو ضرر پہنچانے یا زخمی کرنے کے مرتکب کے خلاف مجروح کی تلافی نقصان کے لیے ہو. یقیناً عبرانی بائبل کی شرعی تعزیرات خود ایسے نقصانات کا خون بہا فراہم کرتی ہیں جب صورتحال یہ ہو کہ مضروب کا ہرجانہ اور دوائی کے اخراجات وہ شخص ادا کرے جو اسے زخمی کرنے کا ذمہ دار ہو (خروج 21:19) لہذا یہ واضح ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا نقدی معاوضہ کے بجائے غیر مہذب تلافی کی طرف رجوع کا رجحان رکھنے کے باوجود فریسی عبرانی بائبل کی خودساختہ تفسیر نہیں کرتے تھے. یسوع کہتے ہیں کہ اگر کوئی مضروب ہو تو بدلہ طلب نہ کرے بلکہ دوسرا گال بھی پیش کردے. اس نے بالکل بھی آزادی کے اس خیال کو زخموں کے معاوضہ کی زمہ داری سے اخذ نہیں کیا جو کہ کوئی عام فرد کر سکتا ہے. معاوضہ وصول کرنے کا تصور فریسی افکار کا بھی حصہ تھا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے علاج معالجہ کے بغیر نقصان کے ساتھ شریعت کی رو سے تکالیف کو درگزر کردیا جائے. اس کے برعکس اعلی شخص وہ ہے جو معاف کرنے کے لیے دوسروں کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے قانونی حق کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو بالخصوص اس وقت جب وہ خود بھی زخمی ہوا ہو. یہ وہ مقام ہے جہاں خیالات کے الجھاؤ کا تصادم زوروں پر ہے جس میں یسوع کی تعریف ایک محبت کے قانون کو برقرار رکھنے والے شخص کی حیثیت سے کی ہے جو کہ محض فضول گوئی ہے جس کا نتیجہ ایک متشدد اور جبری سماج کا قیام ہے جو کہ ہرگز قابل عمل قرار دیا نہیں جا سکتا. فریسی بھی محبت کے اس قانون پر یقین رکھتے تھے جیسا کہ انکے نظریہ سے جھلکتا ہے کہ خدا اور پڑوسی کی محبت، تورات کے بنیادی اصول ہیں لیکن تمام حقوق کی منسوخی کی بنسبت اس کے حقوق کی حفاظت کے فیصلے سے ایک پڑوسی کی محبت زیادہ ظاہر ہوتی ہے. یہاں یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ یسوع نے ایک احمقانہ نظریہ پیش کیا یا اسکے نظریات دیگر فریسیوں سے مختلف تھے.
یہودی شریعت کی اصلاح کا یسوع سے تعلق، عدم موجود ہے. مرقس 7:19 میں ہم یسوع کو تمام غذاؤں کو پاک قرار دیتے ہوئے پاتے ہیں، لیکن اس مقام کا ترجمہ بہت زیادہ اختلافات رکھتا ہے اور اکثر علماء کا اس حصے کے متعلق خیال ہے کہ یہ مرتبین نے اضافہ کیا ہے. ایک اور مقام پر ہم طہارت کے یہودی قانون کی یسوع سے تصدیق وضاحت کے ساتھ پاتے ہیں جہاں وہ کوڑھی کو شفاء یاب ہونے کی خبر دیتا ہے " جا کراپنے تِئیں کاِہن کو دِکھا اور اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت اُن چِیزوں کو جو مُوسی نے مُقرّر کِیں نذرگُزران تاکہ اُن کے لئِے گواہی ہو" (مرقس 1:43)
پہاڑی وعظ میں ہم یسوع کو ایک مصلح کی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے پاتے ہیں جب وہ کہتا ہے "تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا....... مگر میں تم سے کہتا ہوں" یہاں وہ ایک صاحب اختیار کی آواز میں سابقہ تعلیمات کی خود مختاری کو ایک مصلح کی تصریحات کا جواز فراہم کرتا ہے. بہرحال پہاڑی وعظ کا مکمل قصہ متی کی ایجاد ہے (یہ بیان مختلف اقساط کی صورت میں دیگر اناجیل میں بکھرا ہوا ہے سوائے لوقا کے، کہ جہاں یہ خطبہ ایک سادہ اسلوب دھار لیتا ہے جس میں پر شکوہ بلند مرتبت کا اختیار مفقود ہے) سادہ تشریح یہ ہے کہ مصلح کی آواز اس کہانی میں متاخرین مسیحی مرتبین کے ذریعے داخل کی گئی ہے جن کے نزدیک یہ خیال کرنا ناپسندیدہ تھا کہ یسوع نے دیگر فریسی فقہاء کی مانند تعلیم دی ہے.
گندم کی بالیاں توڑنے کا واقعہ ایک دلچسپ قصہ ہے جو ایک بے رحم تورات کے مصلح اور شریعت کی تعمیل سے لاتعلقی رکھنے والی یسوع کی عکاسی کو تقویت دیتا ہے. سب سے پہلے مرقس باب ثانی میں یہ پیش کیا گیا ہے.
اوریوں ہُؤاکہ وہ سَبت کے دِن کھیتوں میں ہوکرجارہاتھا اور اُس کے شاگِردراہ میں چلتے ہُوئے بالیں توڑنے لگے اورفرِیسِیوں نے اُس سے کہا دیکھ یہ سَبت کے دِن وہ کام کِیُوں کرتے ہیں جو روا نہِیں؟ اس نے اُن سے کہا کیا تُم نے کبھی نہِیں پڑھا کہ داؤد نے کیا کِیا جب اُس کو اور اُس کے ساتھیوں کو ضرُورت ہوئی اور وہ بھُوکے ہُوئے؟ وہ کیونکر ابیاترسَردار کاہِن کے دِنوں میں خُداکے گھرمیں گیا اوراس نے نذر کی روٹِیاں کھاہیں جِن کوکھانا کاہِنوں کے سِوا اور کِسی کو روانہِیں اور اپنے ساتھیوں کا بھی دیں؟ اور اُس نے اُن سے کہا سَبت آدمِی کے لیے بنا ہے نہ آدمِی سَبت کے لیے۔ پَس اِبنِ آدم سَبت کا بھی مالِک ہے۔
یہ واقعہ صدوقیوں کے ساتھ ایک حقیقی تکرار کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ زرعی مزدوروں کی تمام اقسام کے بشمول سبت کے دن بالیاں توڑنے سے بھی فریسی منع کرتے تھے لہذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے شاگردوں کو سبت کے دن گندم کی بالیاں توڑنے کی اجازت دے کر یسوع یقیناً فریسی قانون کی توہین کررہا تھا. بظاہر نظر آنے والا یہ واقعہ ایسا نہیں جیسا ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ یسوع آخر میں کہتا ہے کہ " سَبت آدمِی کے لیے بنا ہے نہ آدمِی سَبت کے لیے" جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا ہے کہ یہ ایک فریسی محاورہ ہے اور یہی سارے واقعے کی تفہیم کے لیے کلید ہے کیونکہ فریسی اس محاورے کو یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ انسانی زندگی کے لیے پر خطر حالات میں سبت کے قوانین کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے. اس پورے مبینہ واقعے میں انسانی زندگی کے لیے ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ سبت کے قانون کو نظرانداز کرکے شاگردوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے لیکن ہم یہاں ایسے کچھ اشارے پاتے ہیں کہ یہ واقعہ انتہائی خطرناک حالات میں پیش آیا تھا.
یسوع خالصتاً فریسی انداز میں فریسیوں کو وضاحت دیتے ہوئے گندم کی بالیاں توڑنے کے عمل کے پس منظر میں کتاب مقدس کا حوالہ دیتا ہے جو کہ داؤد اور نذر کی روٹی کی تقدیس کی خلاف ورزی کی صورتحال ہے اور فریسی دستاویزات میں اس واقعہ کو زندگی کے لیے انتہائی خطرناک حالات میں سے ایک حالت قرار دیا ہے کیونکہ داؤد اور انکے ساتھی بادشاہ ساؤل سے بھاگ رہے تھے اور فاقہ کشی میں قریب المرگ تھے. یہی وجہ ہے کہ فریسی نظریہ کے مطابق داؤد اور انکے ساتھی مقدس روٹی کھانے میں حق بجانب تھے جبکہ ایسے حالات میں جہاں انسانی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو اسے انتہائی قبیح فعل سمجھا جاتا تھا. غرض کہ داؤد اور انکے ساتھیوں کا واقعہ انتہائی کٹھن حالات میں سے ایک تھا مگر کسی مایوس اور پریشان کن حالات کے بغیر گندم کی بالیاں توڑنے کے واقعہ کی مثال یسوع اور اس کے شاگردوں کے لیے دینا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے جیسا کہ روایت کے مطابق وہ سبت کے دن گندم کے کھیت میں اطمینان سے گشت کررہے تھے اور اسکے شاگرد گندم کی بالیاں توڑنے کو فارغ رہنے سے بہتر سمجھ رہے تھے اور سستی سے اسے چبا رہے تھے. داؤد کا واقعہ بالکل ہی بےجوڑ (سبت کے دن کچھ کرنے سے بالکل جدا) ہے لیکن اگر ہم سخت اور ہنگامی حالات کا عنصر روایت کی طرف پھیر دیں تو یہ ایک بالکل درست اور قابل تفہیم مضمون بن جاتا ہے.
یسوع اور اس کے شاگرد ہیرودیس اینٹی پاس اور رومیوں کی حدود سے مفرور تھے یہاں تک کہ بھوک اور تھکاوٹ کی انتہا انہیں سبت کے دن گندم کے کھیت میں پہنچا دیتی ہے لیکن یسوع اس درپیش صورتحال کا موازنہ داؤد کے واقعہ سے کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اطمینان سے کھیت میں سے اپنی بھوک مٹا لیں کیونکہ یہ ایسی ہنگامی صورتحال تھی جس میں خواہ سبت ہو یاہیکل دونوں کی ہی تمام رسمی تعمیل فریسی قانون کے مطابق منسوخ ہو جاتی ہے،بعد میں جب اسکے فریسی دوست سوال کرتے ہیں تو وہ وضاحت کرتا ہے کہ وہ اس مقام پر آگیا ہے کہ جہاں سبت کا قانون ٹوٹ جاتا ہے. یہ وضاحت ایک گھمبیر مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے کہ کھیت سے گندم توڑنا فقط سبت کا قانون توڑنا نہیں تھا بلکہ چور کے مخالف قانون کی بھی خلاف ورزی تھا. کچھ مسیحی علماء نے استثناء 23:25 کا حوالہ دے کر اس نقطہ کو چھپانے کی کوشش کی ہے. "جب تو اپنے ہمسائے کے تاکستان میں جائے تو اپنی بھوک کی خواہش کے مطابق انگور کھا لیکن اپنی ٹوکری میں ہرگز نہ لے جانا اور اگر تو اپنے ہمسائے کے کھیت میں جائے تو تو ہاتھ سے بالیں توڑ لے مگر اپنے ہمسائے کے کھیت کو درانتی نہ لگانا"تاہم جیسا کہ فریسی مذہبی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے(e.g Mishnah Bava Metzia 7:2) اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنے مالک کے لیے کھیتوں میں کام کرتے ہوں کیونکہ اگر ہر راہگیر کو کھیت سے فصل توڑنے کی اجازت دے دی جاتی تو کسانوں کے لیے زندگی گزارنا ہی ناممکن ہو جاتا لیکن وہ حالات جس میں زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوں تو چوری کے قوانین درحقیقت کالعدم اور باطل ہو جاتے ہیں. درحقیقت فریسی قانون اسے زندگی بچانے کے لیے فرائض کے معنوں میں لیتا تھا. (9) اس لیے ایسے حالات میں چوری اور سبت کے قوانین پر متفق نہ ہونے پر یسوع قطعی طور پر فریسیوں کا ہم خیال تھا.
پھر کیوں ان ہنگامی حالات کے عنصر کو اس کہانی سے نکال دیا گیا جو کہ اس پورے قضیہ کو مہمل اور بے معنی بنا دیتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ وجوہات کے سبب ہنگامی حالات کا عنصر اناجیل سے عنقا کردیا گیا ہے جو کہ مہربان رومی حکومت کے ماتحت یہودیہ اور گلیل کو پرسکون علاقے کی طرح پیش کرتی ہے. اس کے برعکس اُس وقت کے تاریخی حقائق میں یہ رومیوں کی ظالم اور پرتشدد حکومت کے خلاف مستقل بغاوت، محصولات کی ادائیگی کے منکرین اور غارت گردی کا دور تھا. اگر کہانی میں مشکل صورتحال کا جز برقرار رکھا جاتا تو نہ صرف یہ ظاہر ہو جاتا کہ یسوع فریسی قوانین کی توہین نہیں کررہا تھا بلکہ یہ بھی واضح ہو جاتا کہ وہ ستم رسیدہ اور رومی حکومت کے مطلوب شخص تھے کیونکہ وہ انکے خلاف بغاوت کرنے والوں میں سے تھے.
لہذا گندم توڑنے کا واقعہ یسوع کے فریسی ہونے کی بابت معلومات فراہم کرنے والے حقائق کا مخالف ہے اور مفروضہ قائم کئے بغیر یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ یسوع انہی میں سے تھے. فریسی محاورے اور بائبل کے متقدمین شراح میں اس کا استعمال یہ تاثر دینے کے لیے تھا کہ غیر معمولی حالات میں شریعت کی خلاف ورزی کا اختیار ہے جو کہ مکمل طور پر فریسی تعامل اور اصولوں کے عین مطابق ہے اور تفسیر میں شریعت کے خلاف بغاوت کی اصطلاح کا جواز نہیں ملتا. اسی طرح یسوع کا آخری تبصرہ " اِبنِ آدم سَبت کا بھی مالِک ہے" کا عام مطلب یہی نکلتا ہے کہ یسوع یہودی شریعت سے برات کا اظہار اور اس کی دفعات کو اپنی مرضی سے منسوخ کرنے کے حق کا اعلان کررہے تھے. تاہم ضروری نہیں کہ اس جملے کا مفہوم یہی ہو. آرامی محاورے میں "ابن آدم" کا مطلب انسان یا آدمی ہی ہے، لہذا اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ انسان سبت سے زیادہ اہم ہے اور یہ ایسا بیان ہے جس سے تمام فریسی متفق ہو سکتے تھے. عہد نامہ جدید میں وارد بہت سے پیچیدہ مقامات جہاں "ابن آدم" استعمال ہوا ہے ان کی وضاحت انہی سطور پر کی جا سکتی ہے تاہم پھر بھی کچھ مقامات باقی رہ جاتے ہیں جہاں یسوع نے اپنے کردار کی ترجمانی کے لیے "ابن آدم" کا خطاب استعمال کیا ہے. جیسا کہ لقب سے ہی ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم الوہی ہستی نہیں بلکہ ایک رسولی درجہ ہے اور حزقیل کی پوری کتاب میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.
گنہگاروں اور محصول لینے والوں کے ساتھ تعلق رکھنے رکھنے کے سوال پر یسوع اور فریسیوں کے درمیان منسوب کردہ مخالفت بھی تبصرہ کی متقاضی ہے. عام طور پر جو رائے پیش کی جاتی ہے وہ یہ کہ یہ لوگ درحقیقت کسی معتبر معنوں میں گنہگار نہیں تھے بلکہ لوگ ان کو عزت کم دیتے تھے اور یہ رسم طہارت کے قوانین نظر انداز کرتے تھے. حقیقت تو یہ ہے کہ رسم طہارت اور نہ ہی عزت و توقیر کوئی مسائل تھے بلکہ محصول لینے والے ڈاکو، ایذارساں اور قاتل تھے جو حکومت روم کی طرف سے محصول وصول کرنے والوں کی معاونت کرتے تھے اور اپنے ہی ہم قوم یہودیوں سے جبرا کھانا اور پیسے چھیننے کے معاملے میں کافی بدنام تھے. یہ لوگ غلامی اور مفلسی کا سامنا کرنے کے بجائے باغی ہو گئے تھے تاہم یسوع اپنی ملک گیر توبہ کی مہم سے بہت پراعتماد تھے اور رومی غلامی سے قوم کو نکالنے کے لیے ایک مسیحیانہ معجزے کی تیاری کررہے تھے. وہ حالات سے مایوس گنہگاروں کے پاس فقط اس امید پر پہنچے تھے کہ ان کو برے طور طریقوں سے نکال سکیں. وہ محصول لینے والا جن کا یسوع سے سابقہ پڑا انہوں نے اپنے فعل سے رجوع کر لیا تھا ان میں سے ایک کی مثال زکائی کی ہے (لوقا 19) جس نے اپنی زندگی کے تمام برے کام ترک کر دیئے اور تمام لوٹا ہوا مال واپس کر دیا اور اپنی آدھی جائیداد خیرات کر دی. یہ رجوع کرنے کا صرف ایک طریقہ تھا جو فریسی عمل Tosefta میں محصول لینے والوں کی توبہ کے لیے مقرر کیا گیا تھا. کچھ علماء نے یہ دعوی قائم کیا ہے کہ فریسیوں کو محصول لینے والوں سے توبہ کی کوئی امید نہیں تھی. یہ حقیقت نہیں ہے لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ ندامت اور رجوع کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا. (10) اس موقع پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یسوع اور فریسیوں میں اختلاف کی یہی اصل وجہ ہو، یسوع محصول لینے والوں کی توبہ کے ذریعے واپسی کے لیے پرامید تھے جبکہ فریسی استادوں کی سوچ یہ تھی کہ ڈاکوؤں کے ساتھ تعلقات انہیں راہ راست پر لانے کے بجائے رجوع کرنے والوں کو خراب کرنے میں زیادہ اثر دکھائیں گے.
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یسوع نے دیگر فریسیوں سے اختلاف نہیں کیا تھا تو یسوع کو متشدد فریسی ہونا چاہیے تھا. جیسا کہ پہلے ہی وضاحت کی گئی کہ دوستانہ اختلافات فریسیوں اور فریسی ازم کا حصہ تھے اور فریسی ادبی دستاویزات میں تحریک کے بزرگوں کے درمیان اختلافات بھرے ہوئے ہیں. کچھ حالات میں عہد نامہ جدید فریسی اور یسوع کے درمیان مخالفت کو بے جا تراشتا ہے، صدوقیوں کو فریسیوں کی جگہ رکھنے کے بجائے یا پھر واقعہ کے بعض حصے حذف کرکے یسوع اور فریسیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جو دوستانہ بیانات تھے اسے بآسانی مخالفانہ مباحثے میں تبدیل کردیا.
اس طرح بہت سے طریقوں سے اناجیل میں یسوع کو اس تحریک سے جدا کردیا گیا جس کا وہ باقاعدہ حصہ تھے مگر اسکے باوجود ان کی شناخت پر ان کا انداز تبلیغ ایک فریسی ہونے کی مہر ثبت کردیتا ہے. ان کا تمثیلیں استعمال کرنا دراصل فریسی طریقہ تبلیغ تھا (فریسی ادب کے ناواقف لوگوں کو یہ انوکھا نظر آتا ہے) اور ان کے عجیب بیانات "سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا" یا "اپنی آنکھ کا شہتیر نکالنا" تلمود میں پائے جانے والے فریسی محاورے ہیں. بلاشبہ یہ سچ ہے کہ یسوع صرف اناجیل متوافقہ (متی، مرقس، لوقا) میں پائے جاتے ہیں. چوتھی انجیل میں یسوع ناقابل شناخت ہو جاتے ہیں جہاں وہ کوئی تمثیل استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی خاص انداز کے حامل ربائی خیالات کا اظہار کرتا ہے. اس کے بجائے وہ زبردست یونانی تصوف کا جابجا اظہار کرتے ہیں اور خود کو ایک الوہی ہستی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں. یسوع کے مابعد اساطیر میں اصل یسوع گم ہو چکا ہے. یہاں ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اصل یسوع کو اس وقت کے یہودی مذہب میں پا لیا ہے جو ان مقاصد کی ترغیب دے رہے تھے جو انکے رفقاء کے نزدیک قابل فہم تھے.
(متی٢٢: ٣٤ تا ٤٠)
واقعہ کے دوسرے انداز بیاں میں مکالمہ کا منصفانہ طریقہ بالکل ہی نیست ونابودہوگیاہے۔ فریسی کسی حیرت وتعجب کی وجہ سے یسوع سے سوال پوچھنے نہیں آیا تھاجیساکہ پہلے اندراج میں ذکر ہے(کہ کس طرح اس نے صدوقیوں کا منہ بندکردیا) لیکن اس نے فقط یسوع کا امتحان لینا چاہا تھا۔ پہلے قضیہ میں فریسی سائل یسوع کی تعریف کرتے ہوئے ایک طویل جواب یسوع کو دیتا ہے اور اپنے خود کے تبصرے میں محبت کاقربانی پر فوقیت کے متعلق اضافہ کرتا ہے جبکہ یسوع کی طرف اضافہ کرتا ہے کہ وہ عزت وتہذیب سے جواب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سائل خدا کی بادشاہت سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ سب دوسری اشاعت سے خارج کردیئے گئے ہیں جوکہ یسوع کی اعلیٰ دانش مندی کے ذریعے حاس فریسی کو لاجواب کرنے کی فقط ایک اضافی داستان ہے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تنہا یسوع ہی ان دوفقرات کاعبرانی بائبل سے بطور عظیم احکام انتخاب کرتا ہے (ایک تثنیہ شرع کی کتاب سے جبکہ دوسرا احبار سے) جوکہ درحقیقت خود اس کا نظریہ نہ تھا بلکہ فریسی افکار کا مرکزی حصہ تھا۔فریسیوں نے بنیادی مذہبی قائدے کے اصول جو تخلیق کیے تھے اس میں اس کو ”شمع“ کہا گیا ہے(اورآج تک یہودیوں میں استعمال کیاجاتا ہے) جوکہ تثنیہ شرع سے یسوع نے اقتباس کیا ہے۔سُن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تُو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ ۔ یہ حکم فریسیوں میں اس قدر اہم شمار کیا جاتا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ عبادت کی اساسی ذمہ داریوں کی بجاآوری کے لیے ان آیات کو دن میں فقط دوبار ادا کرنا ہی کافی تھا۔(۱) یہ بھی دلچسپ ہے کہ یسوع کے پیش نظر جو آخری جواب فقیہ کو دیا گیا وہ یسوع کی ایجاد نہیں بلکہ فریسی طرز کلام کا حصہ ہے اور ربائی ان آیات کو خدا کی بادشاہت کے ساتھ ایک مضبوط ربط کے طور پر شمار کرتے تھے.
ان کا کہنا تھا کہ ان آیات کی تلاوت خود کو خدا کی بادشاہت میں حلقہ بدوش ہونے کے لیے قبول کرنا ہے. یہ یاد رہے کہ فریسی مکتب فکر میں خدا کی بادشاہت کے دو معنی تھے. اول یہ کہ موجودہ سلطنت یا خدا کی سلطنت یا پھر مستقبل کی خدائی سلطنت جو کہ المسیح کے زمانے میں پوری دنیا میں ہوگی. یسوع کے اس کلام کو سمجھنا قدرے آسان ہے کیونکہ وہ اکثر اس محاورے کو ذومعنی استعمال کرتا تھا. کبھی اس محاورے سے اس کا مطمع نظر مستقبل کے ملکی معاملات تھے جن کی پیشگوئی کے لیے اس کی آمد ہوئی تھی (جیسا کہ توبہ کرو کیونکہ خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے) اور بعض اوقات اِس محاورے سے اُس کی مراد موجودہ خدا کی سلطنت ہوتی تھی جسے ہر بشر نے مجبوراً قبول کیا ہوا تھا (جیسا کہ خدا کی بادشاہت تمہارے درمیان موجود ہے). موجودہ انتخاب میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مؤخر الذکر معانی ہی راجح ہے.
دوسری آیت جو احبار کی کتاب سے یسوع منقول کرتے ہیں وہ " اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جیسے اپنے آپ سے کر تے ہو" ہے. یہ آیت بھی فریسی افکار میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی اور فریسی ازم کے دو عظیم ترین بزرگوں ربائی ہللیل اور اور ربائی اکوبا نے اسے یہودیت کے ایسے اصول قرار دیا ہے جس پر ہر شے منحصر ہے. بےشک اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دیگر قوانین کو یکسر نظرانداز کردیا جائے یا مکمل طور پر ختم کردیا جائے کیونکہ یہ شریعت کا ایک اہم اصول تھا اسکے برعکس شریعت کو بطور مسائل کا حل اور پڑوسی سے محنت کی عملی بجاآوری، روزمرہ زندگی کی پیچیدگیوں میں پڑوسی سے محبت کی کیفیت، کے متعلق رہنمائی دینے والی کے طور سمجھی جاتی تھی. ایسی وضاحت کے بغیر اصول بنا لینا ایسا ہی ہے جیسا کہ فیثا غورث کے مسلمہ اصول کا استعمال ہو جو کسی قوائد متعارفہ کا محتاج ہو. متاخر مسیحی تحاریر اس مقام کی غلط عکاسی کرتی ہیں کہ جب یسوع نے خدا اور پڑوسی کی محبت کا انتخاب کیا تو اس طرح سے اس نے باقی مکمل تورات کو مسترد کردیا تھا. یہاں ایسی فکر کی بظاہر کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ یہاں یسوع کی یہی مراد تھی بالخصوص کہ جب وہ فریسی فقیہ کے ساتھ ایک خوشگوار مکالمہ کررہا تھا. (کم از کم ابتدائی اور کچھ مستند مرقس کی انجیل اسی طرح بیان کرتی ہے).
قربانی کے متعلق فقیہ کی بظاہر تحقیرانہ رائے کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے. اُس کا خیال یہ نہیں تھا کہ قربانیاں یا ہیکل کی عبادت کلی طور پر منسوخ ہو جائے گی بلکہ عبرانی نبیوں کے الفاظ کفارے کی قربانی کے بارے میں اس کے ذہن میں مستحضر تھے کہ یہ قربانیاں خدا کے ساتھ سچی توبہ اور تصفیہ نفس کا نشان تھیں. یہودی سال کا سب سے پر جلال دن یوم کفارہ ہوا کرتا تھا، جب ہیکل میں قربانیاں ادا کی جاتیں اور کفارے کا برہ بیاباں میں بھیجا جاتا. ابھی تک یہ فریسی نظریات تھے کہ ان میں سے کوئی بھی حیات بخش رسومات کا اثر بغیر سچی توبہ کے واقع نہیں ہوتا اور پڑوسی کے نقصان کو ادا کئے بغیر بحالی توبہ ممکن نہیں. لہذا فریسی قربانیوں کی ادائیگی کے مخالف نہ تھے (جو کہ مقدس نوشتوں میں مقرر کی گئی تھیں) لیکن وہ ان قربانیوں کو کماحقہ جگہ رکھتے تھے جیسا کہ فریسی ہیکل کی عبادت اور کاہنانہ ذمہ داریوں میں عمومی تعاون کرتے تھے لیکن یہودی مذہب کے تمام تر خاتمے کے لئے اس کے حق میں پائے جانے والے کسی بھی رجحان کے سخت مخالف تھے جبکہ صدوقی اس کا رجحان رکھتے تھے. یہاں یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ یسوع کا رویہ ہیکل کے لیے مختلف تھا.
یسوع اور فریسی کے متعلق واقعے کا تجزیہ دو چیزیں ظاہر کرتا ہے کہ یسوع اور فریسیوں کے درمیان بے ربطگی نہ تھی اور انجیل مرتب کرنے میں تسلسل کے ساتھ نظر ثانی کا عمل اس لیے جاری ہوا تاکہ متاخر اناجیل میں موجود ایک دوستانہ گفتگو کو معاندانہ مکالمے میں تبدیل کیا جائے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک غیر متعصب فریسی عکس کے لیے ہمیں ابتدائی انجیل مرقس کی طرف رجوع کرنا پڑے گا. اسکے برعکس انجیل مرقس فریسیوں کے خلاف تعصبانہ رویہ رکھتی ہے لیکن بعد میں آنے والی اناجیل کی نسبت یہ قدیم انجیل مرقس فریسی مخالفت کو ظاہر کرنے کی خاطر کی جانے والی نظر ثانی کا عنصر کم رکھتی ہے.
یہاں ہم انجیلی تفسیر کے ایک اہم اصول پر نقد کریں گے. جب ہم اصل روایت کے خلاف جانے والے حصے کو مدنظر رکھتے ہیں تو احتساب کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے پر اعتماد ہو جاتے ہیں کہ یہ اصل اور مستند روایت کا حصہ ہے کیونکہ اناجیل میں عمومی رجحان فریسی مخالفت کا ہے لہذا وہ روایت یکے بعد دیگرے کی جانے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں مزید سے مزید تر فریسی مخالف ہو جاتی ہے کیونکہ فریسیانہ دوستی پر مبنی کوئی بھی واقعہ بعد کے متون میں شامل نہیں کیا گیا. (تصرف کرنے والوں کا رجحان رہا ہے کہ کچھ جزئیات کو خارج کر دیتے ہیں اور شامل نہیں کرتے) اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعد کی اناجیل ہر واقعہ سے متعلق ہوں کیونکہ مختلف اناجیل بعینہ وہی مواد پیش نہیں کرتیں جو کہ ایک ہی ماخذ سے مستعار ہو. (٣) اسی وجہ سے جب آزادانہ ماخذات سوال میں اٹھائے جاتے ہیں تو مابعد انجیل وہ مواد بھی محفوظ رکھتی ہیں جو کہ ابتدائی انجیل سے مفقود ہے. جب ہم مؤخر انجیل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں ایک ہی ذریعے سے حاصل کئے گئے مواد کو محفوظ رکھتی ہیں. یہ صورتحال اوپر دی گئی ہے جہاں یہ واضح ہے کہ فقیہ اور یسوع کے واقعے کی خبر مرقس (جو کہ متی سے قبل ہی اپنی انجیل لکھ چکا تھا) میں پہلے اور متی اس کا ذکر بعد میں کرتا ہے. یہ متی کے مصنف کے ذریعے مرقس میں دی جانے والی خبر کی بنیاد پر ایک موافق تبدیلی ہے.
یہ ابتدائی مثال ان وسیع دلائل کی پیروی کرتی ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ یسوع فریسی ازم کا مخالف نہ تھا بلکہ خود ایک فریسی تھا. یہ بیان اس کتاب کے مرکزی خیال پولس کے موضوع سے متبائن نہیں ہے کیونکہ یسوع کے فریسی ہونے یا نہ ہونا اس سوال سے زبردست تعلق رکھتا ہے کہ کیا پولس فریسی تھا؟
یسوع کی وہ تصویر جو انجیل میں ہے اس کے مطابق فریسی یسوع کو ایذاء پہنچاتے اور اس کو تنگ کرتے تھے. یہ تصویر اعمال میں پولس کی عکاسی کو تقویت دیتی ہے کہ فریسی (مبینہ طور پر پولس بھی فریسی تھا) یروشلم چرچ اور یسوع کے پیروکاروں کو تکلیف دیتے تھے. اگر یہ نظریہ درست ہے کہ فریسیوں نے کبھی بھی یسوع کا تعاقب نہیں کیا اور یسوع خود بھر فریسی تھے تو یہ دعوٰی ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے کہ یروشلم چرچ کو ستانے والا پولس دراصل فریسی تھا. پولس کے ہمعصر فریسی سربراہ گملیل کا یروشلم چرچ کے ساتھ رویہ رحمدل اور بردباری کا تھا جس کی معقولی وجہ یہی ہے کہ فریسیوں کے یسوع ساتھ دوستانہ معاملات کا تسلسل تھا. اس کتاب کا تنازع یہ ہے کہ یسوع کو اناجیل میں جس طرح بھی پیش کیا گیا مگر اسکے باوجود وہ ایک فریسی ہی تھا جبکہ مبینہ طور پر ہدایت پانے سے قبل پولس کو ہمیشہ بحیثیت فریسی ہی پیش کیا گیا جو کہ وہ کبھی تھا ہی نہیں. دلائل کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح عہدنامہ جدید کے مصنفین کی طرف سے حقائق میں تبدیلی کی گئی ہے. انجیل کے مطابق فریسیوں اور یسوع کے درمیان تنازع کی اہم وجہ یسوع کا سبت کے دن شفاء دینے کا عمل تھا جو کہ مبینہ طور پر فریسی قوانین کے خلاف تھا. انجیل یہ دعوی کرتی ہے کہ سبت کے دن علاج کرنے پر فریسیوں نے یسوع پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس کے باعث یسوع کے قتل کی سازش تک کی. (متی 3:6،متی 12:14) یسوع نے سبت کے دن علاج کرنے کے دفاع میں فریسیوں کے سامنے کچھ دلائل بھی رکھے مثلاً سبت کے دن ختنہ کرنے کی اجازت تھی تو علاج کرنے سے یسوع روکا جاتا ہے. (یوحنا 7:23) یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اگر ہم فریسی قانون کی کتاب سے مدد لیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت سبت کے دن شفاء دینے کی تعلیم دیا کرتے تھے،ہم پاتے ہیں کہ انہوں نے اسے ممنوع قرار نہیں کیا تھا اور وہ یہی دلائل استعمال کرتے تھے جو یسوع نے اس کے جواز کے لیے استعمال کی. یسوع نے کہا کہ "سبت آدمی کے لیے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کے لیے"، انہیں ایک نئی عہد ساز معرفت کی تشبیہ کے طور پر بہت مرتبہ یسوع نے ذکر کیا اور بعینہ یہی لفظ فریسی ماخذات میں پائے جاتے ہیں جہاں اسے انسانی زندگی کے سبت پر فوقیت رکھنے کے فریسی نظریات کی تائید کے لیے کام میں لایا جاتا تھا. انجیل نویس نے یہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یسوع جب ان فریسیوں سے مباحثہ کررہا تھا تو بذات خود فریسی نہ تھا اور اپنے سبت کے دن شفاء دینے کا دفاع کررہا تھا.
سبت کے مخالفین کے اثرات حقیقتاً سبت کے متعلق کہانیوں کی داستانوں میں پائے جاتے ہیں. یہاں یہ بیان ہے کہ سبت کے دن صحتیابی کرنے پر یسوع پر برہم و نالاں فریسی ہیرودیوں کے حامیوں کے حامیوں کے ہمراہ مل کر مخالف چالیں چلنے لگے کہ وہ یسوع کو کس طرح لوگوں سے دور کریں (مرقس 3:6) ہیرودیس کے ساتھی (ہیرودیس اینٹی پاس، جو کہ رومی حکومت کی طرف سے گلیل کا حاکم تھا)سب کے سب سیاسی اور یونانیت زدہ یہودی تھے، ان کا رجحان مذہب میں بالکل کم اور طاقت حاصل کرنے کی طرف زیادہ تھا. فریسی (جو کہ رومی قابضین کی مخالفت کے علمبردار تھے) اور ہیرودیوں کے ساتھیوں میں اتحاد ناممکن تھا لیکن ہیرودیوں اور صدوقیوں میں اتحاد ممکن بلکہ یقینی تھا. جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے کہ صدوقی اگرچہ ایک مذہبی جماعت تھی جو کہ جمود کا شکار اور رومی وزارت کے حصول کے خواہاں تھے. ان کا سربراہ سردار کاہن رومی قابضین کے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تھا. اس امر کا زبردست امکان موجود ہے کہ اناجیل کی تصحیح کرنے والوں کی مداخلت کی وجہ سے اصل صدوقی نام کو فریسی نام سے تبدیل کردیا گیا ہو، غالباً ایسا دیگر وقائع میں بھی ہوا ہے جہاں یسوع فریسیوں کے خلاف فریسیانہ نقطہ نظر سے سبت پر ناقابل فہم بحث کررہے تھے. ہم جانتے ہیں کہ فریسیوں کی نسبت صدوقی سبت کے متعلق سخت نظریہ رکھتے تھے. (اگرچہ کوئی صدوقی دستاویز محفوظ نہیں رہی) یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ فریسیوں کے برعکس انہوں نے یسوع کو سبت کے دن علاج سے روکا. ایسے مفروضات جو کہانیاں تشکیل دیتے ہیں وہ ماوراء تفہیم ہیں کہ فریسی یسوع کو فریسی عقائد ہی کی ترویج کرنے کے باعث قتل کرنا چاہتے تھے.
اگرچہ یسوع ان ایام کے سردار کاہن کے مخالف کے طور پر سامنے آتا ہے جو کہ صدوقی تھا لہذا ضروری ہے کہ ان تمام کہانیوں کو محفوظ کیا جائے جس میں یسوع کی تصویر صدوقی مذہبی نظریات کے مخالف کی طرح پیش کی ہے اسکے باوجود یہ واضح ہے کہ یسوع اور صدوقیوں کے مابین تنازع کی اہم وجہ مذہبی کے بجائے سیاسی اختلافات تھے. فریسی دستاویزات میں ان فریسی معلمین کے متعلق متعدد کہانیاں پائی جاتی ہیں جو صدوقیوں کے ساتھ مناظروں میں مصروف رہے. ان مناظروں کا مرکزی عنوان مردوں کی قیامت کا سوال تھا جس پر فریسی یقین رکھتے تھے اور صدوقی اس کے منکر تھے. اسی طرح کی ایک کہانی انجیل میں بھی پیش کی گئی ہے (مرقس باب 12 فقرات 18 تا 27) یسوع کی طرف سے صدوقیوں کو دیئے جانے والے جوابات ان سے کئی گنا زیادہ پیچیدہ ہیں جو فریسی اپنے مباحثوں میں دیا کرتے تھے. غیر یہودی لوگ بھی مردوں کی قیامت کے متعلق فریسیانہ عقیدے کا علم رکھتے تھے اور یہ کہانیاں یسوع اور فریسیوں کو باہم مخالف ظاہر کرنے کے انداز میں مرتب کی گئی ہیں لہٰذا عہد جدید میں تصرف کرنے والوں نے یہاں تبدیلی کیے بغیر یسوع کے فریسی ہونے کی ایک واضح و دلچسپ گواہی چھوڑ دی ہے اگرچہ اناجیل میں اسے اس طرح مباحثہ کرتے دکھایا گیا ہے جیسے وہ فریسی کے بجائے ایسا شخص ہو جس کے خیالات کبھی فریسیوں سے موافق تھے.
ان کہانیوں میں تصرف کرنے والوں کے یسوع اور صدوقیوں کے درمیان مخاصمت کے کیا محرکات تھے کہ انہوں نے صدوقیوں کے بجائے فریسیوں کو مخالف یسوع کے طور پر پیش کیا؟ اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے، فریسی یہودیت میں اعلی بالادستی رکھنے والوں کی حیثیت سے معروف تھے جبکہ صدوقی ایسے نہ تھے. حقیقت یہ ہے کہ اناجیل کے لکھنے جانے کے وقت صدوقی اپنی ہر وہ معمولی سی بھی مذہبی شناخت کھو چکے تھے جو ان کے پاس تھی اور فریسی مذہبی اختیارات کے یکتا محافظ تھے. انجیل نویسوں کی حتی الامکان کوشش تھی کہ وہ یسوع کو رومی قابضین کے بجائے یہودی مذہب کے خلاف بطور باغی پیش کریں. اناجیل میں شامل مواد کی متعدد بار تبدیلی کی وجہ یہی ہے کہ مصنفین عہد جدید کا مافی الضمیر ایسی تصویر کی تشکیل دینا تھا جس میں یسوع اور فریسی باہم مخالف ہوں.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدوقی رومیوں کے ساتھ معاونت کرتے تھے، یسوع کی اصل مخالفت دراصل صدوقیوں سے تھی جبکہ خالص مذہبی پس منظر پر یسوع کا تاثر بطور رومی مخالف نظر آتا ہے جسے انجیل نویسوں نے چھپانے کی کوشش کی ہے.
درحقیقت یسوع اور فریسیوں کے درمیان کوئی مخالفت نہ تھی جو کہ ان خبر رساں نقوش سے ظاہر ہوتی ہیں جو کہ روایت میں ہی باقی رہ گئی ہے. ایک اہم مثال ہے کہ " اُسی گھڑی بعض فرِیسِیوں نے آ کر اُس سے کہا کہ نِکل کر یہاں سے چل دے کِیُونکہ ہیرودِیس تُجھے قتل کرنا چاہتا ہے" (لوقا13:31) یہ واقعہ تمام مفسرین کے لیے معمہ بن چکا ہے کہ وہ فریسی جنہیں گذشتہ واقعات میں یسوع کے شفائیہ کاموں کے باعث اس کی موت کی کوششیں کرتے پایا گیا ہے وہ اسے تنبیہ کرنے اس ارادے سے آتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی بچا لے؟
کچھ مسیحی مفسرین فریسیوں کی کینہ پرور تصویر محفوظ کرنے کے لیے بےچین نظر آتے ہیں اور ایک ایسا مشکل منظرنامہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں فریسی دہرا معیار کرتے نظر آئیں. وہ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ یسوع کے لیے گلیل سے زیادہ یروشلم میں خطرہ تھا اس لیے فریسی یسوع کو فرار کرانے کی غرض سے ہیرودیس کے متعلق ایک جعلی تنبیہ کرتے ہوئے راغب کرتے ہیں کہ وہ اپنی موت سے قبل یروشلم سے نکل جائے. حقیقت سے دور یہ تاویل ایک عجوبہ اور بمشکل ہی قابل اعتبار ہے کہ گذشتہ بیان کے مطابق اگر فریسی یسوع کے دشمن تھے تو وہ یہ کیسے امید رکھ سکتے تھے کہ یسوع ان کے ایسے پیغام کو قبول کرے گا جو وہ نیک نیتی کے ارادے سے یسوع کو دے رہے تھے؟
یہ بیان یسوع اور فریسیوں کے درمیان باہمی مواخات کی بیش قیمت شہادت ہے اور ان کا یسوع کو یہ تنبیہ کرنا ہی اس بات کی علامت ہے کہ فریسی یسوع کو اپنی ہی جماعت کا ایک فرد شمار کرتے تھے. زبردست حقیقت یہ ہے کہ یسوع کے ساتھ فریسیوں کے تعلقات کی عمومی تصویر جو اناجیل میں پیش کی گئی ہے یہ کہانی اس کے بالکل برعکس ہے. تاریخی سچائی ہے کہ یہ کہانی اس ترمیمی مواد میں شامل نہیں تھی جو متاخر زمانہ میں انجیل میں داخل کیا گیا، بلکہ یہ شروع سے ہی انجیل میں چلی آرہی تھیں جن کی غلطی سے ترمیم نہیں کی جا سکی.
یہ ایک اہم اور ضروری اشارہ ہے کہ یسوع کی فریسی مخالفت کے متعلق روایات میں سبت کے دن شفاء دینے کا سوال کچھ معنی نہیں رکھتا، حقیقت یہ ہے کہ یسوع کے مقدمہ میں اس الزام کا کہیں ذکر نہیں ملتا. اگر انجیلی بیان کے مطابق یسوع کی سبت کے دن کی سرگرمیاں فریسیوں کی نظر میں بہت بڑا جرم تھا تو یہ فرد جرم اس کے خلاف کیوں شامل نہیں کی گئی جب وہ اپنی زندگی اور موت کے مقدمے میں کھڑا تھا؟ یسوع کے مقدمے میں فریسیوں کی طرف سے بالخصوص کوئی الزام کیوں عائد نہیں کیا گیا؟ جیسا کہ ہم اگلے حصے میں دیکھیں گے کہ یسوع پر کوئی بھی الزام مذہبی نہیں تھا بلکہ تمام الزامات سیاسی نوعیت کے تھے جبکہ اناجیل انہی سیاسی الزامات کو مذہبی رنگ دے کر پیش کرتی ہیں. اگر یسوع کا مقدمہ حقیقتاً مذہبی تھا تو فریسیوں کو اس مقدمہ کی کاروائی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنا تھا جو کہ مبینہ طور پر یسوع کے بدترین معاند تھے.
یہ سوال نہایت اہم ہے کہ فریسی یسوع کے مقدمے کے وقت یسوع کو اس طرح سے کیوں نہیں بچاتے ہیں جس طرح فریسی سردار گملیل نے یسوع کے شاگرد پطرس کو اس وقت بچایا جب اس پر مذہبی عدالت سے قبل ہی فرد جرم نافذ کر دی گئی تھی؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یسوع کے اس مقدمے میں فریسی حاضر نہ تھے جو خصوصی سیاسی عدالت سے قبل مذہبی عدالت یعنی سنہڈرین میں چلایا گیا تھا جس میں سردار کاہن رومیوں کا قائم مقام اور ہمدرد تھا اور اپنی ہی منظور نظر عدالت کی صدارت کررہا تھا.
سبت کو شفاء دینے کا معاملہ، یسوع اور فریسیوں کے درمیان مخالفت کے تناظر میں ہرگز اہم نہیں ہے. یسوع کی تعلیمات کے نقوش کو اناجیل ایسے انقلابی انداز میں کیوں پیش کرتی ہیں جو اس وقت کی یہودی مذہبی قیادت کے لیے ناقابل برداشت تھیں. یسوع کا دعوی مسیح ہونے سے متعلق کیا تھا؟ کیا یہ فریسیوں کی نظر میں کفر بکنا نہیں تھا؟ ہیکل کو تباہ کرنے کی یسوع کی دھمکی کو اس کے مخالفین نے اس کے خلاف مقدمہ میں بطور دلیل کیوں پیش نہیں کیا؟ موسی کی شریعت کی تجدید یا منسوخ کرنے کے متعلق یسوع کی خواہش کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فریسی مکتبہ فکر کے مطابق ان میں سے کوئی بھی مسئلہ دھمکی کے قائم مقام نہیں ہو سکتا اور بغور مشاہدہ کرنے پر ہم ان تمام معاملات میں یسوع کے نظریات کو خالصتا فریسی اعتقادات کے مطابق پاتے ہیں جو کہ اس بات کی واضح تصدیق ہے کہ یسوع خود بھی فریسی تحریک کے ہی ایک رکن تھے.
یسوع کا المسیح ہونے کا دعوٰی کسی بھی فریسی یا دیگر یہودیوں کی نظر میں کلمہ کفر نہیں تھا کیونکہ مسیح کا لقب خدائی دعوی یا الوہیت کے معنی میں نہیں تھا. مسیح کا سادہ معنی مسیح کیا ہوا ہے جو کہ بادشاہت کا لقب ہوا کرتا تھا. داؤد کے شاہی گھرانے کا ہر یہودی بادشاہ اس لقب کو اختیار کرتا تھا اور یہودی شریعت میں یہ بے ضرر تھا. اس کے برعکس تمام یہودی المسیح کی آمد کی امید پر زندہ تھے جس نے آکر انہیں بیرونی قابضین سے خلاصی دینی اور یہود کی قومی آزادی کو بحال کرنا تھا. ہر وہ شخص جو داؤد کے متبرک گھرانے کو بحال کرنے والے مسیح موعود (جس کی پیشگوئیاں بائبل کے عبرانی انبیاء کرتے رہے) ہونے کا دعوٰی کرتا وہ یقیناً بہت سے پیروکاروں کی ہمدردیاں حاصل کر لیتا. دعوی مسیح کرنے کے وقت یسوع ہرگز یہ دعوی کرنے والا تن تنہا واحد شخص نہیں تھا اور نہ ہی یہ دعوی ایسا تھا جس کی وجہ سے کفر گوئی کا الزام لگایا جاتا. المسیح ہونے کے سارے دعاوی ایک ہی نوعیت کے نہیں تھے، بعض مدعیان المسیح جنگجو تھے جیسا کہ بارکیوبا یا یہوداہ گلیلی جبکہ کچھ المسیح ہونے کا دعوی کرنے والے غیر عسکری ولولہ انگیز جذبہ رکھنے والے تھے جیسا کہ تھیوداس اور مصری (ان دونوں کا ذکر عہد جدید اور جوزیفس(4)نے کیا ہے) انہوں نے معتقدین کا گروہ جمع کرلیا تھا اور پر اعتماد ہو کر ایسے معجزے کے منتظر تھے جس کے ذریعے رومیوں کو زیر و زبر کیا جا سکے. یسوع اسی دوسری قسم کے مدعیان سے تعلق رکھتا تھا اور وہ کوہ زیتون پر ایک معجزے کے ظہور کے لیے پرامید تھا جس کی پیشگوئی زکریا نبی نے کی تھی. (5) کچھ مدعیان المسیح محدود مقاصد کو لے کر اٹھے جن کا مقصود فقط یہودیوں کو رومیوں سے نجات دلانا تھا، انکے برعکس مدعیان بشمول یسوع ایسی آزادی کے متمنی تھے جو پوری دنیا پر مشتمل ہو اور اس عہد میں یہ امن نقیب ہو جائیں جب نبیوں کے مطابق بھیڑیا برہ کے ساتھ آرام کرے گا، لیکن اس کے باوجود ان مدعیان کی کوئی بھی امید کفر گوئی کے رنگ میں نہیں تھی. وہ یہودیت کا ایک کامل حصہ تھے جس میں المسیح کی امید، خدا کی ذات پر یقین کا ایک معقولی نتیجہ تھی جس کی سلطنت ایک دن تمام انسانیت تک وسیع ہوگی.
بہرحال یسوع کی موت کے بعد متاخر مسیحیت میں عبرانی لفظ "مسیح" کا یونانی ترجمہ الوہیت یا خدائی وجود کے معنوں میں ہوگیا اسکے نتیجے میں مسیحیوں نے اس معنی کو قبول کرنے کے لیے آسان پایا کہ یسوع پر کفر گوئی کا الزام لگنے کی وجہ اسکا دعوی مسیح تھا اور اس کے ساتھی یہودی بھی اس دعوے پر حیران تھے. اناجیل یسوع کو ایک الگ ہی مسیانک شپ کے تصور کے ساتھ پیش کرتی ہیں جو کہ دیگر یہودی مدعیان مسیح سے مختلف تھی لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ جب وہ المسیح لفظ کو خود کے لیے استعمال کررہا تھا تو اسکے ساتھی یہودیوں کے پاس یہ یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس کا مطمع نظر اس (لفظ) سے خلاف دستور معنی ہے، خصوصاً جیسا کہ اناجیل کے مطابق وہ اس لفظ کے معانی متعارف کرانے میں بھی محتاط و کم گو تھا لہذا جب اس نے اس لفظ کو سمجھایا تو اس کے شاگرد سمجھ نہ سکے. اس وجہ سے کفر گوئی کا کوئی بھی الزام اس نظریہ پر قائم نہیں ہو سکتا جسے کبھی ظاہر ہی نہیں کیا گیا. بہرحال تاریخ میں ایک خفیہ مسییاح تصور کا اعتقاد کا یسوع کی طرف انتساب فقط بعد میں آنے والے مسیحیوں کی کوشش ہے جس کا یسوع کی موت کے بعد تک کوئی وجود نہیں تھا. یہ بات مزید دلچسپی رکھتی ہے کہ اناجیل متواقفہ میں فریسیوں کے بجائے فقط سردار کاہن کو ہی دعوی مسیح کی بنیاد پر یسوع کو کفر گوئی کا مرتکب قرار دیتے دکھایا گیا ہے. یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یسوع پر لگنے والا الزام کسی طرح بھی مذہبی نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا. المسیح ہونے کا دعوٰی کرنا فریسی قانون کی خلاف ورزی نہ تھا بلکہ اس کے معنی بادشاہ ہونا تھا. رومی قابضین یہودی حکومت تہس نہس کر چکے تھے ایسے میں کسی کا بھی المسیح کا دعوٰی کرنا رومی قابضین کے خلاف تخریب کارانہ عمل تھا. سردار کاہن کا تقرر رومی حکومت کی طرف سے ہوا تھا جس کا مقصد روم کے خلاف کسی بھی طرح کی برپا ہونے والی تحریک سے رومی مفادات کی حفاظت کرنا تھا اور یہ اس کے فرائض میں شامل تھا کہ کسی بھی مدعی المسیح کو سزا دینے کے لیے گرفتار کرکے رومی حکومت کے حوالے کرے. اناجیل نے یسوع کو یہودی مذہب کے خلاف بطور باغی پیش کرنے کے طریقہ کار کی پیروی کی ہے اور سردار کاہن کی منظر کشی اس طرح کی یے کہ وہ بغاوت کے بجائے کفر گوئی کے لیے زیادہ فکر مند تھا.
اسی طرح یہ الزام بھی صرف یسوع کے مقدمہ کے وقت فریسیوں کی عدم موجودگی میں ہی سامنے لایا گیا کہ یسوع نے ہیکل کو ڈھانے اور دوبارہ تعمیر کرنے کی دھمکی دی ہے. یہ یقیناً ایک سیاسی الزام تھا نہ کہ مذہبی، کیونکہ فریسی یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ہیرودیس کا تعمیر کردہ ہیکل آنے والے مسیح کے ایام تک باقی رہے گا. یسوع نے اپنی ساری توجہ ہیکل کی تباہی اور اس کی تعمیر نو پر لگا دی تھی کیونکہ المسیح کا ادعا کرنے والے فرد نے سب سے بنیادی کام جو کرنا تھا وہ یہی تھا. فریسی جو ہیکل کے لیے والہانہ تعظیم نہ رکھتے تھے اور نہ ہی وہ یسوع کے اس ارادے سے خوفزدہ تھے کہ یسوع کا مقصود موجودہ ہیکل کے بانی اول کے طرز کی ایک جدید ہیکل کی تعمیر ہے. وہ لوگ جن سے اس طرح کے ارادے کی وجہ سے پریشانی کی توقع رکھی جا سکتی تھی وہ سردار کاہن اور اس کے ہمراہی ہی ہو سکتے تھے جو مسیح کی سلطنت کی حفاظت کے ذریعے خود کے لیے مکمل کامیابی کی توقع لگائے بیٹھے تھے. یقیناً 66 عیسوی میں برپا ہونے والی یہودی جنگ میں رومی مخالف باغیوں نے سردار کاہن کو برطرف کیا اور رومی اشتراک سے لاوی کے مقدس خاندان سے نئے سردار کاہن کو مقرر کیا. یاد رہے کہ مذہبی کفر گوئی کا جو الزام اناجیل میں پیش کیا گیا ہے یقیناً جمود کے خلاف بغاوت کا ایک سیاسی الزام تھا جس میں حریف ہیکل اور سردار کاہن روم کے آلہ کار تھے.
اناجیل میں یہودیت کی مبینہ تجدید کے حمایتی کے طور پر یسوع کی عکاسی، تجزیہ کرنے پر کسی بھی طرح فریسی نظریات کے خلاف ثابت نہیں ہوتی. اگرچہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ یسوع عبرانی بائبل کی قانونی تعزیرات کے قانون "آنکھ کے بدلے آنکھ" کا مخالف تھا اور وہ خون بہا کے قانون کے بدلے محبت کے قانون کو اس کے قائم مقام کرتا ہے. یہ فریسی ازم میں صورتحال کی بگڑی ہوئی شکل ہے. فریسی آنکھ کے بدلے آنکھ کے بیان کو حرف بحرف شرعی دستور العمل کی طرح نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اس قانون کو ایسا اصول سمجھتے تھے جو کسی کو ضرر پہنچانے یا زخمی کرنے کے مرتکب کے خلاف مجروح کی تلافی نقصان کے لیے ہو. یقیناً عبرانی بائبل کی شرعی تعزیرات خود ایسے نقصانات کا خون بہا فراہم کرتی ہیں جب صورتحال یہ ہو کہ مضروب کا ہرجانہ اور دوائی کے اخراجات وہ شخص ادا کرے جو اسے زخمی کرنے کا ذمہ دار ہو (خروج 21:19) لہذا یہ واضح ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا نقدی معاوضہ کے بجائے غیر مہذب تلافی کی طرف رجوع کا رجحان رکھنے کے باوجود فریسی عبرانی بائبل کی خودساختہ تفسیر نہیں کرتے تھے. یسوع کہتے ہیں کہ اگر کوئی مضروب ہو تو بدلہ طلب نہ کرے بلکہ دوسرا گال بھی پیش کردے. اس نے بالکل بھی آزادی کے اس خیال کو زخموں کے معاوضہ کی زمہ داری سے اخذ نہیں کیا جو کہ کوئی عام فرد کر سکتا ہے. معاوضہ وصول کرنے کا تصور فریسی افکار کا بھی حصہ تھا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے علاج معالجہ کے بغیر نقصان کے ساتھ شریعت کی رو سے تکالیف کو درگزر کردیا جائے. اس کے برعکس اعلی شخص وہ ہے جو معاف کرنے کے لیے دوسروں کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے قانونی حق کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو بالخصوص اس وقت جب وہ خود بھی زخمی ہوا ہو. یہ وہ مقام ہے جہاں خیالات کے الجھاؤ کا تصادم زوروں پر ہے جس میں یسوع کی تعریف ایک محبت کے قانون کو برقرار رکھنے والے شخص کی حیثیت سے کی ہے جو کہ محض فضول گوئی ہے جس کا نتیجہ ایک متشدد اور جبری سماج کا قیام ہے جو کہ ہرگز قابل عمل قرار دیا نہیں جا سکتا. فریسی بھی محبت کے اس قانون پر یقین رکھتے تھے جیسا کہ انکے نظریہ سے جھلکتا ہے کہ خدا اور پڑوسی کی محبت، تورات کے بنیادی اصول ہیں لیکن تمام حقوق کی منسوخی کی بنسبت اس کے حقوق کی حفاظت کے فیصلے سے ایک پڑوسی کی محبت زیادہ ظاہر ہوتی ہے. یہاں یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ یسوع نے ایک احمقانہ نظریہ پیش کیا یا اسکے نظریات دیگر فریسیوں سے مختلف تھے.
یہودی شریعت کی اصلاح کا یسوع سے تعلق، عدم موجود ہے. مرقس 7:19 میں ہم یسوع کو تمام غذاؤں کو پاک قرار دیتے ہوئے پاتے ہیں، لیکن اس مقام کا ترجمہ بہت زیادہ اختلافات رکھتا ہے اور اکثر علماء کا اس حصے کے متعلق خیال ہے کہ یہ مرتبین نے اضافہ کیا ہے. ایک اور مقام پر ہم طہارت کے یہودی قانون کی یسوع سے تصدیق وضاحت کے ساتھ پاتے ہیں جہاں وہ کوڑھی کو شفاء یاب ہونے کی خبر دیتا ہے " جا کراپنے تِئیں کاِہن کو دِکھا اور اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت اُن چِیزوں کو جو مُوسی نے مُقرّر کِیں نذرگُزران تاکہ اُن کے لئِے گواہی ہو" (مرقس 1:43)
پہاڑی وعظ میں ہم یسوع کو ایک مصلح کی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے پاتے ہیں جب وہ کہتا ہے "تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا....... مگر میں تم سے کہتا ہوں" یہاں وہ ایک صاحب اختیار کی آواز میں سابقہ تعلیمات کی خود مختاری کو ایک مصلح کی تصریحات کا جواز فراہم کرتا ہے. بہرحال پہاڑی وعظ کا مکمل قصہ متی کی ایجاد ہے (یہ بیان مختلف اقساط کی صورت میں دیگر اناجیل میں بکھرا ہوا ہے سوائے لوقا کے، کہ جہاں یہ خطبہ ایک سادہ اسلوب دھار لیتا ہے جس میں پر شکوہ بلند مرتبت کا اختیار مفقود ہے) سادہ تشریح یہ ہے کہ مصلح کی آواز اس کہانی میں متاخرین مسیحی مرتبین کے ذریعے داخل کی گئی ہے جن کے نزدیک یہ خیال کرنا ناپسندیدہ تھا کہ یسوع نے دیگر فریسی فقہاء کی مانند تعلیم دی ہے.
گندم کی بالیاں توڑنے کا واقعہ ایک دلچسپ قصہ ہے جو ایک بے رحم تورات کے مصلح اور شریعت کی تعمیل سے لاتعلقی رکھنے والی یسوع کی عکاسی کو تقویت دیتا ہے. سب سے پہلے مرقس باب ثانی میں یہ پیش کیا گیا ہے.
اوریوں ہُؤاکہ وہ سَبت کے دِن کھیتوں میں ہوکرجارہاتھا اور اُس کے شاگِردراہ میں چلتے ہُوئے بالیں توڑنے لگے اورفرِیسِیوں نے اُس سے کہا دیکھ یہ سَبت کے دِن وہ کام کِیُوں کرتے ہیں جو روا نہِیں؟ اس نے اُن سے کہا کیا تُم نے کبھی نہِیں پڑھا کہ داؤد نے کیا کِیا جب اُس کو اور اُس کے ساتھیوں کو ضرُورت ہوئی اور وہ بھُوکے ہُوئے؟ وہ کیونکر ابیاترسَردار کاہِن کے دِنوں میں خُداکے گھرمیں گیا اوراس نے نذر کی روٹِیاں کھاہیں جِن کوکھانا کاہِنوں کے سِوا اور کِسی کو روانہِیں اور اپنے ساتھیوں کا بھی دیں؟ اور اُس نے اُن سے کہا سَبت آدمِی کے لیے بنا ہے نہ آدمِی سَبت کے لیے۔ پَس اِبنِ آدم سَبت کا بھی مالِک ہے۔
یہ واقعہ صدوقیوں کے ساتھ ایک حقیقی تکرار کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ زرعی مزدوروں کی تمام اقسام کے بشمول سبت کے دن بالیاں توڑنے سے بھی فریسی منع کرتے تھے لہذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے شاگردوں کو سبت کے دن گندم کی بالیاں توڑنے کی اجازت دے کر یسوع یقیناً فریسی قانون کی توہین کررہا تھا. بظاہر نظر آنے والا یہ واقعہ ایسا نہیں جیسا ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ یسوع آخر میں کہتا ہے کہ " سَبت آدمِی کے لیے بنا ہے نہ آدمِی سَبت کے لیے" جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا ہے کہ یہ ایک فریسی محاورہ ہے اور یہی سارے واقعے کی تفہیم کے لیے کلید ہے کیونکہ فریسی اس محاورے کو یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ انسانی زندگی کے لیے پر خطر حالات میں سبت کے قوانین کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے. اس پورے مبینہ واقعے میں انسانی زندگی کے لیے ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ سبت کے قانون کو نظرانداز کرکے شاگردوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے لیکن ہم یہاں ایسے کچھ اشارے پاتے ہیں کہ یہ واقعہ انتہائی خطرناک حالات میں پیش آیا تھا.
یسوع خالصتاً فریسی انداز میں فریسیوں کو وضاحت دیتے ہوئے گندم کی بالیاں توڑنے کے عمل کے پس منظر میں کتاب مقدس کا حوالہ دیتا ہے جو کہ داؤد اور نذر کی روٹی کی تقدیس کی خلاف ورزی کی صورتحال ہے اور فریسی دستاویزات میں اس واقعہ کو زندگی کے لیے انتہائی خطرناک حالات میں سے ایک حالت قرار دیا ہے کیونکہ داؤد اور انکے ساتھی بادشاہ ساؤل سے بھاگ رہے تھے اور فاقہ کشی میں قریب المرگ تھے. یہی وجہ ہے کہ فریسی نظریہ کے مطابق داؤد اور انکے ساتھی مقدس روٹی کھانے میں حق بجانب تھے جبکہ ایسے حالات میں جہاں انسانی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو اسے انتہائی قبیح فعل سمجھا جاتا تھا. غرض کہ داؤد اور انکے ساتھیوں کا واقعہ انتہائی کٹھن حالات میں سے ایک تھا مگر کسی مایوس اور پریشان کن حالات کے بغیر گندم کی بالیاں توڑنے کے واقعہ کی مثال یسوع اور اس کے شاگردوں کے لیے دینا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے جیسا کہ روایت کے مطابق وہ سبت کے دن گندم کے کھیت میں اطمینان سے گشت کررہے تھے اور اسکے شاگرد گندم کی بالیاں توڑنے کو فارغ رہنے سے بہتر سمجھ رہے تھے اور سستی سے اسے چبا رہے تھے. داؤد کا واقعہ بالکل ہی بےجوڑ (سبت کے دن کچھ کرنے سے بالکل جدا) ہے لیکن اگر ہم سخت اور ہنگامی حالات کا عنصر روایت کی طرف پھیر دیں تو یہ ایک بالکل درست اور قابل تفہیم مضمون بن جاتا ہے.
یسوع اور اس کے شاگرد ہیرودیس اینٹی پاس اور رومیوں کی حدود سے مفرور تھے یہاں تک کہ بھوک اور تھکاوٹ کی انتہا انہیں سبت کے دن گندم کے کھیت میں پہنچا دیتی ہے لیکن یسوع اس درپیش صورتحال کا موازنہ داؤد کے واقعہ سے کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اطمینان سے کھیت میں سے اپنی بھوک مٹا لیں کیونکہ یہ ایسی ہنگامی صورتحال تھی جس میں خواہ سبت ہو یاہیکل دونوں کی ہی تمام رسمی تعمیل فریسی قانون کے مطابق منسوخ ہو جاتی ہے،بعد میں جب اسکے فریسی دوست سوال کرتے ہیں تو وہ وضاحت کرتا ہے کہ وہ اس مقام پر آگیا ہے کہ جہاں سبت کا قانون ٹوٹ جاتا ہے. یہ وضاحت ایک گھمبیر مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے کہ کھیت سے گندم توڑنا فقط سبت کا قانون توڑنا نہیں تھا بلکہ چور کے مخالف قانون کی بھی خلاف ورزی تھا. کچھ مسیحی علماء نے استثناء 23:25 کا حوالہ دے کر اس نقطہ کو چھپانے کی کوشش کی ہے. "جب تو اپنے ہمسائے کے تاکستان میں جائے تو اپنی بھوک کی خواہش کے مطابق انگور کھا لیکن اپنی ٹوکری میں ہرگز نہ لے جانا اور اگر تو اپنے ہمسائے کے کھیت میں جائے تو تو ہاتھ سے بالیں توڑ لے مگر اپنے ہمسائے کے کھیت کو درانتی نہ لگانا"تاہم جیسا کہ فریسی مذہبی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے(e.g Mishnah Bava Metzia 7:2) اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنے مالک کے لیے کھیتوں میں کام کرتے ہوں کیونکہ اگر ہر راہگیر کو کھیت سے فصل توڑنے کی اجازت دے دی جاتی تو کسانوں کے لیے زندگی گزارنا ہی ناممکن ہو جاتا لیکن وہ حالات جس میں زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوں تو چوری کے قوانین درحقیقت کالعدم اور باطل ہو جاتے ہیں. درحقیقت فریسی قانون اسے زندگی بچانے کے لیے فرائض کے معنوں میں لیتا تھا. (9) اس لیے ایسے حالات میں چوری اور سبت کے قوانین پر متفق نہ ہونے پر یسوع قطعی طور پر فریسیوں کا ہم خیال تھا.
پھر کیوں ان ہنگامی حالات کے عنصر کو اس کہانی سے نکال دیا گیا جو کہ اس پورے قضیہ کو مہمل اور بے معنی بنا دیتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ وجوہات کے سبب ہنگامی حالات کا عنصر اناجیل سے عنقا کردیا گیا ہے جو کہ مہربان رومی حکومت کے ماتحت یہودیہ اور گلیل کو پرسکون علاقے کی طرح پیش کرتی ہے. اس کے برعکس اُس وقت کے تاریخی حقائق میں یہ رومیوں کی ظالم اور پرتشدد حکومت کے خلاف مستقل بغاوت، محصولات کی ادائیگی کے منکرین اور غارت گردی کا دور تھا. اگر کہانی میں مشکل صورتحال کا جز برقرار رکھا جاتا تو نہ صرف یہ ظاہر ہو جاتا کہ یسوع فریسی قوانین کی توہین نہیں کررہا تھا بلکہ یہ بھی واضح ہو جاتا کہ وہ ستم رسیدہ اور رومی حکومت کے مطلوب شخص تھے کیونکہ وہ انکے خلاف بغاوت کرنے والوں میں سے تھے.
لہذا گندم توڑنے کا واقعہ یسوع کے فریسی ہونے کی بابت معلومات فراہم کرنے والے حقائق کا مخالف ہے اور مفروضہ قائم کئے بغیر یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ یسوع انہی میں سے تھے. فریسی محاورے اور بائبل کے متقدمین شراح میں اس کا استعمال یہ تاثر دینے کے لیے تھا کہ غیر معمولی حالات میں شریعت کی خلاف ورزی کا اختیار ہے جو کہ مکمل طور پر فریسی تعامل اور اصولوں کے عین مطابق ہے اور تفسیر میں شریعت کے خلاف بغاوت کی اصطلاح کا جواز نہیں ملتا. اسی طرح یسوع کا آخری تبصرہ " اِبنِ آدم سَبت کا بھی مالِک ہے" کا عام مطلب یہی نکلتا ہے کہ یسوع یہودی شریعت سے برات کا اظہار اور اس کی دفعات کو اپنی مرضی سے منسوخ کرنے کے حق کا اعلان کررہے تھے. تاہم ضروری نہیں کہ اس جملے کا مفہوم یہی ہو. آرامی محاورے میں "ابن آدم" کا مطلب انسان یا آدمی ہی ہے، لہذا اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ انسان سبت سے زیادہ اہم ہے اور یہ ایسا بیان ہے جس سے تمام فریسی متفق ہو سکتے تھے. عہد نامہ جدید میں وارد بہت سے پیچیدہ مقامات جہاں "ابن آدم" استعمال ہوا ہے ان کی وضاحت انہی سطور پر کی جا سکتی ہے تاہم پھر بھی کچھ مقامات باقی رہ جاتے ہیں جہاں یسوع نے اپنے کردار کی ترجمانی کے لیے "ابن آدم" کا خطاب استعمال کیا ہے. جیسا کہ لقب سے ہی ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم الوہی ہستی نہیں بلکہ ایک رسولی درجہ ہے اور حزقیل کی پوری کتاب میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.
گنہگاروں اور محصول لینے والوں کے ساتھ تعلق رکھنے رکھنے کے سوال پر یسوع اور فریسیوں کے درمیان منسوب کردہ مخالفت بھی تبصرہ کی متقاضی ہے. عام طور پر جو رائے پیش کی جاتی ہے وہ یہ کہ یہ لوگ درحقیقت کسی معتبر معنوں میں گنہگار نہیں تھے بلکہ لوگ ان کو عزت کم دیتے تھے اور یہ رسم طہارت کے قوانین نظر انداز کرتے تھے. حقیقت تو یہ ہے کہ رسم طہارت اور نہ ہی عزت و توقیر کوئی مسائل تھے بلکہ محصول لینے والے ڈاکو، ایذارساں اور قاتل تھے جو حکومت روم کی طرف سے محصول وصول کرنے والوں کی معاونت کرتے تھے اور اپنے ہی ہم قوم یہودیوں سے جبرا کھانا اور پیسے چھیننے کے معاملے میں کافی بدنام تھے. یہ لوگ غلامی اور مفلسی کا سامنا کرنے کے بجائے باغی ہو گئے تھے تاہم یسوع اپنی ملک گیر توبہ کی مہم سے بہت پراعتماد تھے اور رومی غلامی سے قوم کو نکالنے کے لیے ایک مسیحیانہ معجزے کی تیاری کررہے تھے. وہ حالات سے مایوس گنہگاروں کے پاس فقط اس امید پر پہنچے تھے کہ ان کو برے طور طریقوں سے نکال سکیں. وہ محصول لینے والا جن کا یسوع سے سابقہ پڑا انہوں نے اپنے فعل سے رجوع کر لیا تھا ان میں سے ایک کی مثال زکائی کی ہے (لوقا 19) جس نے اپنی زندگی کے تمام برے کام ترک کر دیئے اور تمام لوٹا ہوا مال واپس کر دیا اور اپنی آدھی جائیداد خیرات کر دی. یہ رجوع کرنے کا صرف ایک طریقہ تھا جو فریسی عمل Tosefta میں محصول لینے والوں کی توبہ کے لیے مقرر کیا گیا تھا. کچھ علماء نے یہ دعوی قائم کیا ہے کہ فریسیوں کو محصول لینے والوں سے توبہ کی کوئی امید نہیں تھی. یہ حقیقت نہیں ہے لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ ندامت اور رجوع کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا. (10) اس موقع پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یسوع اور فریسیوں میں اختلاف کی یہی اصل وجہ ہو، یسوع محصول لینے والوں کی توبہ کے ذریعے واپسی کے لیے پرامید تھے جبکہ فریسی استادوں کی سوچ یہ تھی کہ ڈاکوؤں کے ساتھ تعلقات انہیں راہ راست پر لانے کے بجائے رجوع کرنے والوں کو خراب کرنے میں زیادہ اثر دکھائیں گے.
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یسوع نے دیگر فریسیوں سے اختلاف نہیں کیا تھا تو یسوع کو متشدد فریسی ہونا چاہیے تھا. جیسا کہ پہلے ہی وضاحت کی گئی کہ دوستانہ اختلافات فریسیوں اور فریسی ازم کا حصہ تھے اور فریسی ادبی دستاویزات میں تحریک کے بزرگوں کے درمیان اختلافات بھرے ہوئے ہیں. کچھ حالات میں عہد نامہ جدید فریسی اور یسوع کے درمیان مخالفت کو بے جا تراشتا ہے، صدوقیوں کو فریسیوں کی جگہ رکھنے کے بجائے یا پھر واقعہ کے بعض حصے حذف کرکے یسوع اور فریسیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جو دوستانہ بیانات تھے اسے بآسانی مخالفانہ مباحثے میں تبدیل کردیا.
اس طرح بہت سے طریقوں سے اناجیل میں یسوع کو اس تحریک سے جدا کردیا گیا جس کا وہ باقاعدہ حصہ تھے مگر اسکے باوجود ان کی شناخت پر ان کا انداز تبلیغ ایک فریسی ہونے کی مہر ثبت کردیتا ہے. ان کا تمثیلیں استعمال کرنا دراصل فریسی طریقہ تبلیغ تھا (فریسی ادب کے ناواقف لوگوں کو یہ انوکھا نظر آتا ہے) اور ان کے عجیب بیانات "سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا" یا "اپنی آنکھ کا شہتیر نکالنا" تلمود میں پائے جانے والے فریسی محاورے ہیں. بلاشبہ یہ سچ ہے کہ یسوع صرف اناجیل متوافقہ (متی، مرقس، لوقا) میں پائے جاتے ہیں. چوتھی انجیل میں یسوع ناقابل شناخت ہو جاتے ہیں جہاں وہ کوئی تمثیل استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی خاص انداز کے حامل ربائی خیالات کا اظہار کرتا ہے. اس کے بجائے وہ زبردست یونانی تصوف کا جابجا اظہار کرتے ہیں اور خود کو ایک الوہی ہستی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں. یسوع کے مابعد اساطیر میں اصل یسوع گم ہو چکا ہے. یہاں ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اصل یسوع کو اس وقت کے یہودی مذہب میں پا لیا ہے جو ان مقاصد کی ترغیب دے رہے تھے جو انکے رفقاء کے نزدیک قابل فہم تھے.
2 comments:
:-)
Great ...
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔