Pages

Most Popular

جمعرات، 26 فروری، 2015

یہودی مسیحی تعلقات اور بائبل کی تعلیمات


کچھ عرصہ سے ایک مسیحی گروہ پاکستان میں یہودیوں کے خدا کی چنیدہ قوم ھونے کے ترانے گا رہا ہے. وہ یہودی قوم پر اس قدر فریفتہ نظر آتا ہے کہ فرامین یسوع علیہ السلام مسیح کو بھی پس پشت ڈالنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا. ان کے سیاسی مفادات کا تقاضا انہیں بائبل مقدس کی آیات کو علی الاعلان جھٹلانے پر مجبور کرتا ہے. بائبل مقدس اور یسوع مسیح کے اقوال کو تاویل کی قینچی سے کترنا ان کے ضمیر پر بوجھ نہیں ڈالتا. ہمیں یہ ماننے میں کوئی ھچکچاھٹ نہیں ہے کہ ایک وقت میں وہ قوم واقعی خدا کی محبوب قوم تھی. لیکن بار بار کی الہی تنبیہات بھی اس قوم کو راہ راست پر نہیں لا سکیں. بار بار سزا دہی کے عمل سے گذرنے کے باوجود وہ کجروی اختیار کرنے سے باز و ممنوع نہیں ھوئے. ان کے پاس آخری موقع اس وقت تھا جب یسوع علیہ السلام مسیح مبعوث ہوئے. اس وقت یسوع علیہ السلام مسیح پر ایمان لا کر ان کی سربراہی میں دنیا کی قیادت کرنے اور دیگر قوموں کو الہی دائرے میں داخل کرنے کا سنہری موقع ان کے ھاتھ میں تھا. لیکن انہوں نے یہ موقع بھی اپنی باغیانہ جبلت کے ھاتھوں مجبور ہو کر گنوا دیا. یسوع علیہ السلام مسیح نے انہیں بار بار ان کی کجروی کی طرف متوجہ کیا لیکن بے سود رہا. اپنے اس سفر میں جس میں انہیں از روئے اناجیل مصلوب ھونا پڑا، صاف صاف یہودی قوم پر واضح کر دیا کہ "خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو دے دی جائے گی جو اس کے پھل ادا کرے" (متی 21:43).انجیل واضح طور پر بتاتی ہے کہ وہ لوگ یسوع کی بات کو بخوبی سمجھ گئے تھے لیکن حسبِ عادت اپنی اصلاح کرنے کی بجائے الٹا یسوع علیہ السلام کے قتل کی تدابیر سوچنے لگے. یہ یسوع علیہ السلام مسیح کی طرف سے انہیں آخری تنبیہہ تھی. اس کے بعد اناجیل کے مطابق یسوع مصلوب کر دئیے گئے. یسوع علیہ السلام کی مصلوبیت کے بعد ان کے شاگردوں نے یہودیوں کو ان کے ناروا روئیے پر علی الاعلان ملامت کی. (اعمال 2:36)و (14:3 تا 18)(باب ہفتم اعمال) لیکن ان یہودیوں نے (جن کی بابت خدا کی چنیدہ قوم ھونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے) شاگردوں کے خلاف بھی ریشہ دوانیاں شروع کر دیں. (باب چہارم و پنجم کتاب اعمال). عہد جدید میں اپنے خطوط میں پولس رسول برملا یہودیت سے صداقت کا جدا ھو جانا بیان کرتے ہیں(رومیوں باب دوم) . وہ یہودی قوم کو دنیا کے سردار یعنی شیطان قرار دیتے ہیں (1-قرنتیوں 2:8) و (1-تسالونیکیوں 2:15) و عبرانیوں 6:8. اسی طرح یوحنا رسول بھی یسوع کے بیٹے کے انکار کرنے والوں کو مخالف مسیح قرار دیتے ہیں. (1-یوحنا2:22). اسی طرح مکاشفہ کی کتاب میں بھی یہودی قوم کو شیطان کی جماعت کہا گیا ہے. 2:9 اور 3:9. نتیجہ :ان حوالہ جات سے یہ بات بخوبی ثابت ہو جاتی ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت مجموعی اس قوم سے سیادت چھن جانے کی تنبیہہ دے دی تھی جس پر کان نہیں دھرا گیا تھا. یسوع کے انکار و تصلیب کا جرم پوری قوم کا تھا نہ کہ چند اوباش افراد کا فعل تھا (جیسا کہ اب تاویل کی قینچی چلا کر یہودی جرم کی شناعت کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے). یہودی اپنے ان جرائم کی بنا پر دوہزار برس تک مسیحی قوم کے مبغوض رہے مگر سیاسی مفادات کی یکجہتی نے کتاب مقدس کے اقوال اور دو ہزار سالہ تعامل کلیسیا کو یوں کوڑے دان میں ڈالا کہ مذھبی دیانت کا خون کسی کو نظر نہیں آیا. اور ضمیر سر پٹخ پٹخ کر دم توڑ گیا. اگر کتاب مقدس کی موجودہ تشریح و تعبیر درست ہے تو پھر ان دو ہزار سالہ مظالم کا حساب کون دے گا جو مذھب کے نام پر کئے گئے؟ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا یسوع علیہ السلام مسیح کے انکار کے باوجود یہودی قوم خدائی برکات و سیادت برقرار رہ سکتی تھی؟ اگر جواب ھاں ھے تو پھر بعثت مسیح کے بے فائدہ اور بلاجواز ھونے میں کیا شک باقی رہتا ہے؟ اس سوال کا دیانتداری سے جواب دینا یہودی قوم کی فضیلت کے گن گانے والوں کی بہرحال ذمہ داری ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔