Pages

Most Popular

جمعہ، 20 فروری، 2015

مسیحیت مجھے یسوع کے خون کے سوا کیا فراہم کرتی ہے؟؟

ازقلم ظفر اقبال صاحب

میں کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ مسیحیت نجات اور دنیاوی زندگی بسر کرنے کی خاطر میرے لئے کیا پیش کر سکتی ہے؟ میں نے ایسا کیوں سوچا؟ اس لئے کہ مجھ سے باقاعدہ مشنری صاحب نے کہا کہ مجھے مسیح کے خون کی اشد ضرورت ہے اور اس کے سوا میری نجات نا ممکن ہے. بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مسیحیت میرے لئے مسیح کے بہتے خون کے سوا کچھ نہیں فراہم کرتی. یہاں میرے ذہن میں چھ سوال بیک وقت جنم لیتے ہیں. پہلا سوال یہ ہے کہ نجات کا معاملہ تو حیات بعد الموت سے ہے. دنیا میں زندگی کن اصولوں کے مطابق بسر کرنی چاہئیے اور جو اصول مسیحیت بیان کرتی ہے کیا وہ میرے لئے قابل عمل بھی ہیں یا نہیں یا وہ محض خوش کن الفاظ ہی ہیں ؟دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مسیح کا بہا ہوا خون مجھے اخروی زندگی میں نجات دلا سکتا ہے اگرچہ میرے اعمال اس زندگی میں قابل تعریف نہ رہے ہوں؟ تیسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے مجھے نجات حاصل کرنے کے لیے خود کیا ارشاد فرمایا ہے؟ یعنی کہ نجات حاصل کرنے کے لیے فقط اپنے صلیب پر بہے خون پر اکتفا کرنے کی تاکید کی ہے یا پھر کچھ اور ارشاد فرمایا ہے؟ چوتھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسیح نے اپنی زندگی میں نجات حاصل کرنے کا طریقہ کچھ اور بتایا تھا تو پھر کیا صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد مُردوں میں سے جی اٹھ کر کیا اس میں کوئی تبدیلی کردی تھی؟ پانچواں سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اگر تو انہوں نے زندگی میں تو نجات کے حصول کا فارمولا کچھ اور دیا تھا تو پھر اپنے صلیب پر بہے خون کو کب اور کہاں تبدیل کیا تھا اور کن الفاظ میں بیان کیا تھا اور وہ الفاظ انجیل میں کہاں موجود ہیں؟ چھٹا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نجات حاصل کرنے کے لیے موجودہ مسیحی فارمولا خود مسیح کا دیا ہوا ہی نہ ہو بلکہ مسیح کا نام لے کر تعلیم کسی اور نے دی ہو؟ یعنی کہ یہ مسیح کی تعلیم ہی نہیں بلکہ فقط مسیح کے نام پر ہی تعلیم ہو جس کا خود مسیح سے دور کا تعلق بھی نہ ہو؟ 
میں نے جب ان سوالات کے جوابات کے حصول کے لئے انجیل سے رجوع کیا تو معاملہ کچھ اور ہی نظر آیا. یسوع علیہ السلام بنفس نفیس یہ تعلیم دیتے نظر آئے کہ نیک کام اور توبہ ہی انسان کو نجات دلانے کا باعث ہوں گے نا کہ مسیح کا اپنا خون. دیکھئے زکائی محصل کی توبہ اور لوٹ کا مال واپس کرنے کا فیصلہ سنتے ہی مسیح اسے نجات کی نوید سنا دیتے ہیں. اسی طرح ایک نوجوان نے ابدی زندگی یعنی نجات حاصل کرنے کی بابت یسوع علیہ السلام مسیح سے پوچھا تو آپ نے پہلے اسے شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا. اس کے اس استفسار پر کہ وہ مزید کامل ہونے کا خواہشمند ہے، اسے اپنا سب کچھ بیچ باچ کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا لیکن اسے یہ نہیں فرمایا کہ بیٹا صبر کر میری صلیبی موت پر ایمان رکھنا اور میں تمھارے گناہوں کی معافی کے لیے بس صلیب پر لٹکا ہی چاہتا ہوں. لیکن پولس کہتے ہیں کہ جو شریعت سے نجات حاصل کرنے کے خواہاں ہیں وہ فضل سے محروم ہیں یعنی کہ مسیح سے دور ہیں.(غلاطیوں کے نام خط باب پنجم ). وہ تیموتاؤس کے نام اپنے دوسرے خط کے دوسرے باب میں لکھتے ہیں کہ "یاد رکھ کہ یسوع مسیح جو داؤد کی نسل سے ہے میری انجیل کے موافق مُردوں میں سے زندہ کیا گیا ہے". یہاں وہ اپنی انجیل کی بات کرتے ہیں یعنی کہ اس خوش خبری کی جسے وہ سناتے ہیں نہ کہ خود مسیح. اب مسیحی دوستوں سے ہی رہنمائی کی درخواست ہے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔