Pages

Most Popular

ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

یہوداہ اسکریوطی ایک مظلوم انجیلی کردار


یہوداہ اسکریوطی ایک مظلوم انجیلی کردار

تحریر:عبداللہ غازیؔ


 میں تم سے سچ کہتا ہوں جس کے کان ہوں وہ سن لے کہ فقط انجیلی بیانات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہوداہ اسکریوطی کو موجب لعن طعن قرار نہیں دیا جا سکتا.یسوع کا ساتھی یہودا ایک ایسا مظلوم اور مقدس تاریخی کردار ہے جنہیں یسوع نے اپنی لسان مبارک سے اسرائیل کے قبیلوں کا منصف ہونے کی نوید سنائی اور انہوں نے یسوع کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ تک پیش کیا مگر ان سب اعزازات کے باوجود یہوداہ اسکریوطی عہد جدید کے اُن مظلوم ترین کرداروں میں سے ایک کردار ہے جن کی انجیل نویسوں کے باطل اقلام نے بدترین تصویر کشی کرکے خوش عقیدگی پسند عوام سے یہوداہ کے متعلق حقائق و سچائی کو بری طرح مستور کردیا ہے اور یہوداہ کی کہانی انجیلی واقعات میں داخل کر کے یسوع کی گرفتاری، تعذیب و تصلیب کے افسانے میں مظلومیت کا رنگ بھرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے.
اگر ہم اس سارے وقائع کا تحلیلی تجزیہ کریں جہاں یہوداہ اسکریوطی کا ذکر ہوا ہے تو سیدھی سادی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اولین مسیحی تحاریر میں اس کا ذکر ہی غائب ہے. پولس کے خطوط عہد جدید کی اولین تحریریں ہیں لیکن ان میں بھی یہوداہ اسکریوطی کے متعلق فقط ایک مبہم حوالے کے سوا کچھ نہیں ملتا اور نہ ہی مقدس پولس یہوداہ اسکریوطی کے کسی بھی ایسے مبینہ گھناؤنے فعل سے واقف نظر آتے ہیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا توں توں تفصیلات کی بھرمار ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ سارا قضیہ ایک دیومالائی مقدس داستان کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے . اولین انجیل یعنی انجیل مرقس اس کے متعلق بہت کم تفصیلات مہیا کرتی ہے لیکن بعد کی اناجیل میں تفصیلی بریفنگ پڑھنے کو ملتی ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں تفصیلات اختراع کرکے داخل کی گئی ہیں جو کہ اس داستان کے ارتقاء کو ظاہر کرتی ہیں جو کہ فقط ان مقاصد کے تحت کیا گیا تا کہ یہودیوں کی تصویر کو بطور شیطانی گروہ کے افراد کے طور پر پیش کیا جائے اور تصلیب یسوع کا مرکزی ملزم یہودیوں کو قرار دیا جائے.
گو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں بہت سے شاخ و برگ لگا کر اضافہ کیا گیا ہے لیکن پھر بھی اس داستان کا درست ادراک یسوع کے وقت فلسطین کے سیاسی حالات کا مطالعہ کرکے کیا جا سکتا ہے.
 یسوع مسیح کے حین حیات فلسطین کا سارا علاقہ حریت پسند یہودی تنظیموں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا جہاں وقتا فوقتاً رومی جبر و استبداد کے خلاف یہودی عسکریت پسند علم بغاوت بلند کرتے رہتے تھے، جس کا نتیجہ خون ریز لڑائیوں کی صورت میں نکلتا اور باغیوں کی سرکوبی کرکے انہیں عبرت ناک سزا دی جاتی. اس وقت کی عکاسی کرتے ہوئے ممتاز یہودی النسل کیتھولک اسکالر ہائم مکابی لکھتے ہیں.
جس وقت یسوع فقط ایک چھوٹے لڑکے تھے، گلیل کے بہت سے یہودی اس دوران صلیب دے کر قتل کر دیئے گئے. یہوداہ گلیلی ایک قوم پرست یہودی تھا جو رومیوں کے خلاف ایک مسلح بغاوت کی قیادت کررہا تھا، اس کے نجانے کتنے ہی حمایتیوں کو رومیوں نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا. یہ سب یسوع کی صغیر سنی کے واقعات ہیں. چار سو یہودیوں کو رومی محصولات (ٹیکسز) کی ادائیگی کے خلاف تحریک کی وجہ سے رومیوں نے صلیب دے کر قتل کر ڈالا. اپنے قوانین کے مخالف باغیوں کے لئے رومی مقتدر صلیب جیسی تعذیبی ظالمانہ کاروائی کیا کرتے تھے. گلیل کسی نہ کسی طرح ہمیشہ باغیوں کا مرکز رہا کیونکہ یہ براہ راست رومی سلطنت کے ماتحت علاقہ نہ تھا.
 ایسے ماحول میں کہ جہاں ایک طرف عسکریت پسند حصول آزادی کے لئے اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے تھے اور دوسری طرف حریت پسندوں کی حکومت وقت کے خلاف خفیہ تحاریک بھی سرگرم تھیں، ایسے وقت میں یسوع کی تحریک شروع ہوئی جس میں مرور وقت کے ساتھ یہوداہ اسکریوطی جیسے کٹرحریت پسند یہودی بھی شامل ہوتے گئے. یہوداہ اسکریوطی کا تعلق گلیل میں برپا ہونے والی تحریکوں میں شامل ایک خنجر بردار گروہ تھا جو کہ اسکریوٹ کے نام سے معروف تھے. اس قبیل سے تعلق رکھنے والے حر مجاہدین اس قدر سخت جان ہوتے تھے کہ ان پر ظلم کے پہاڑ ہی کیوں نہ توڑ لیے جائیں یہ اپنے مخالفین پر اپنا راز ہرگز ظاہر نہ کرتے تھے اور اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے. ابتدائی عیسوی صدی کی یہودی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے حضرات ایسے جفاکش یہودی باغیوں کا بخوبی علم رکھتے ہیں.
بہت سے ہم عصر تاریخی وقائع کو انجیل نویسوں نے حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے یکسر نظر انداز کر دیا. چونکہ ان کا مقصد مقدس متون کی تشکیل کے بجائےمخصوص نظریات کو خاص انداز میں پیش کرنا تھا، اسی وجہ سے انجیلی وقائع سے متصل ان مفقود واقعات کی غیر موجودگی ایک قاری کو محسوس نہیں ہوتی ہے مگر اس کے باوجود کچھ اشارے عہد جدید میں ملتے ہیں جن کا تاریخی موازنہ سچائی کے ادراک میں کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے. اسکریوٹ جماعت کے ہونے کا سب سے بڑا ثبوت تو خود یہوداہ اسکریوطی ہے جو یسوع کی جماعت کے خزانہ کا امین بھی تھا اور ہمہ وقت یسوع کا ہمرکاب بھی. ان حریت پسند اسکریوطیوں کا یسوع کی تحریک سے تعلق اس قدر مضبوط و معروف تھا کہ انہیں اپنی بات جابجا پھیلے ہوئے رومی جاسوسوں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے تمثیلوں (کوڈ ورڈز) میں بات کرنا پڑتی تھی یہی وجہ ہے کہ یسوع بھی انجیل میں تمثیلی کلام کرتے نظر آتے ہیں. اسکریوطیوں کا یسوع سے گہرے تعلق کی ایک اور شہادت اعمال کی کتاب میں بھی ملتی ہے جب یہودیوں نے مقدس پولس نذر کے ایام پورے کرنے کے لئے ہیکل میں جاتے ہیں اور ان کو ہیکل میں دیکھ کر یہودی بلوہ کر دیتے ہیں تو قیام امن کے لئے آنے والا رومی صوبیدار بھی پولس کو انہی "اسکریوٹ" سے آمدہ خیال کرتا ہے (اعمال 21:38).
ایسے جفاکش اور سخت جان گروہ سے تعلق رکھنے والا ہرگز ایسا بزدل نہیں ہو سکتا کہ ایک لغزش و خطا کی وجہ سے خود کشی جیسے فعل قبیح کا ارتکاب کرے. ایسے باہمت افراد جو جسم کا ریشہ ادھیڑ دینے پر بھی اپنا راز فاش نہ کریں، وہ خود کشی جیسے فعل قبیح کی طرف کبھی قدم نہیں اٹھاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ مفروضہ قائم کیا جاتا ہے کہ یسوع کی غیر معروفی کی وجہ سے یسوع کی جگہ یہوداہ اسکریوطی نے لے کر ایک مقصد عظیم کی خاطر صلیبی مصائب کو گلے لگا لیا اور یسوع کو خدائے واحد نے اس مصیبت سے نجات دے کر اور ان کی گتسمنی کے باغ میں کی جانے والی دعا تو شرف قبولیت بخش کر اپنے پاس بلا لیا.
فقط انجیلی روایات میں موجود یہوداہ اسکریوطی کی خودکشی والا واقعہ تضاد بیانی اپنے دامن میں لئے اس قضیہ میں تدریجا کی جانے والی کتر و بیونت کا غماز مبین ہے جس سے اس سچائی کا ادراک کیا جا سکتا ہے کہ مرتبین عہد جدید نے وقت کی ضرورت کے ساتھ اس واقعہ میں شاخ و برگ لگا کر پیش کیا ہے.
 انجیلی بیان کے مطابق واقعہ تصلیب کے بعد یہوداہ اسکریوطی نے خود کشی کر لی تھی. یہوداہ یسوع نے چنیدہ ان بارہ افراد میں شامل تھا تو ہمہ وقت یسوع کے ہمرکاب رہے تھے حتی کہ مبینہ قیامت مسیح کے بعد بھی بشہادت مقدس پولس یسوع انہی شاگردوں پر ظاہر ہوئے.
کیفا کو اور اُس کے بعد اُن بارہ کو دِکھائی دِیا۔ (1 کرنتھیوں 15:5)
 یہوداہ اسکریوطی کی مبینہ موت کے بعد شاگردوں نے بارہ کی تعداد پوری کرنے کے لئے متیاس کو شاگردوں میں شامل کیا تھا لیکن اس کا انتخاب بھی رفع آسمانی کے بعد ہی ہوا تھا. اب اگر یہوداہ اسکریوطی ازروئے انجیل نویس خود کشی کر چکا تھا تو پھر روح القدس کی تحریک سے ضبط تحریر میں لائے جانا والا کرنتھیوں کا نوشتہ کیسے بارہ شاگردوں پر یسوع کے ظاہر ہونے کی خبر دے سکتا ہے؟ مقدس پولس کے خطوط یہوداہ کے متعلق ان جمیع اخبار سے مبرا ہیں جنہوں نے بعد میں مسیحی نوشتوں میں جگہ پاکر مقدس شاگرد یہوداہ اسکریوطی کے کردار کو داغدار کر دیا. اس پیچیدہ صورتحال میں یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ انجیل نویسوں نے ایک ایسے واقعہ کو پیش کیا ہے جس کا وقوع ہی نہیں ہوا بصورت دیگر مقدس پولس یسوع کی بابت ایسی خبر کس طرح سے دے سکتے ہیں جو کہ حقیقت حال سے خالی ہو؟ مسیحی برادری کا دعوٰی کے مطابق انجیل نویس روح القدس کی تحریک سے لکھ رہے تھے تو مقدس پولس کا دعوی تو براہ راست یسوع سے تعلیم پا کر خبر دینے کا ہے. اگر انجیل نویس کی بات کا اعتبار کیا جائے تو نہ صرف مقدس پولس کے دعاوی و اخبار مشکوک ہو جاتے ہیں بلکہ یسوع کی صداقت پر بھی حرف آنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے جو براہ راست مقدس پولس کی رہنمائی فرما رہے تھے.
اگر یہوداہ اسکریوطی کے متعلق انجیل نویسوں کے دعاوی کو کسی درجہ سند قبولیت دی جائے تو نفس واقعہ خود تضاد بیانی کا شکار ہو جاتا ہے.
متی کا دعوٰی یہاں یہوداہ کا خود کو پھانسی دے دینے کا ہے. (متی 27:55) جبکہ لوقا اس دعوے کی فورا ہی تردید کر دیتے ہیں.
 اُس نے بدکاری کی کمائی سے ایک کھیت حاصِل کِیا اور سر کے بل گِرا اور اُساکا پیٹ پھٹ گیا اور اُس کی سب انتڑیاں نِکل پڑیں (اعمال 1:18)
 اگر تضاد بیانی کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص دو انداز میں بیک وقت کس طرح موت کا شکار ہو سکتا ہے؟ مرقس 14:54 میں یسوع کی بے گناہی کا سبب شواہد کا عدم اتفاق اور یسوع کے متعلق مبینہ واقعات میں اختلاف تھا. یہوداہ اسکریوطی کی داستان بھی فقط عہد جدید میں پائی جاتی ہے جو اپنی ذات میں خود متضاد ہے، اگر یسوع شواہد کے عدم اتفاق کی وجہ سے مقدمہ میں معصوم عن الخطا ثابت ہوتے ہیں تو پھر یہ حق یہوداہ اسکریوطی کو کیوں حاصل نہیں؟
 بفرض محال اگر یہوداہ کا جرم ناقابل معافی اور قابل گردن زنی تھا تو پھر یسوع کا انکار کرنے والے اور ان پر لعنت ملامت کرنے والے مقدس پطرس کیسے کسی جرم سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟ مسیحی برادری کے نزدیک الہی حیثیت کے حامل جناب یسوع پر لعنت کرنے کی سزا ازروئے شریعت مقدس پطرس کو کیوں نہیں دی گئی؟ اگر یہوداہ اپنی لغزش و خطا کے باعث موجب طعن ہے تو پطرس تو اپنی یاوہ گوئی کے سبب یہوداہ سے زیادہ عتاب کا حقدار ہے؟ مسیحی برادری کی جانب سے پیش کی جانے والی یہ تاویل یہاں کچھ معنی نہیں رکھتی کہ مقدس پطرس نے بعد میں توبہ کرلی تھی اور بعد میں وہ خداوند کے سچے خادم بنے، یسوع فرماتے ہیں کہ جو میری خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اسے پائے گا (متی 16:25) یہوداہ اسکریوطی نے انجیل نویس کے مبینہ بیان کے مطابق اگر اس جرم کا ارتکاب کیا بھی تھا تو بعد میں اس نے نادم ہو کر خود کو یسوع کی خاطر ہی ختم کیا تھا تو پھر اسے ہمیشہ کی زندگی پانے کی نوید تو یسوع خود اپنی لسان مبارک سے سنا گئے تھے پھر کیسے اسے اس جرم کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے؟ جناب یسوع کا قول تو ایک لمحے میں مسیحی برادری کی ان تمام خرافات و الزامات سے مقدس یہوداہ اسکریوطی شہید کو بری قرار دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر یسوع کا عام معافی نامہ ہے جو صلیب پر انہوں نے اس انداز سے یہوداہ کو دیا کہ اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ یہ نہیں جانتے. (لوقا 23:34) یسوع کی اس عام معافی کے باوجود مقدس یہوداہ اسکریوطی (جو کہ مسیحی تاریخ کے اول شہید ہیں) کو مسیحی برادری نے معاف نہیں کیا ہے حالانکہ خود کشی جیسا فعل کسی طرح بھی ازروئے بائبل حرام نہیں ہے مگر اسکے باوجود دو ہزار سال سے یہ مظلوم عالی وقار ہستی عیسائیوں کے عتاب کا شکار ہے جس نے خداوند کے مہیب دن کو تخت پر بیٹھ کر انصاف بھی کرنا ہے. نجانے ہمارے عیسائی بھائی کس منہ سے خداوند کے دن جناب مقدس یہوداہ اسکریوطی کے سامنے کھڑے ہونگے؟
فیس بک پر جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے

1 comments:

Owner نے لکھا ہے کہ

Kaafi faidaamand hai .
Nice

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔