اس کتاب کو پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
والسلام
صباخان
یہوداہ اسکریوطی
لوقا اور اعمال کی کتاب میں
ہم دو ابتدائی اناجیل مرقس اور متی کے موازنے سے دیکھ
چکے ہیں کہ یہودا کی کہانی میں مستقل ٹھہراؤ نہیں ہے بلکہ یروشلم چرچ اور یہود کی مخالفت کے
نتیجے میں پولوسی چرچ کی ضروریات کے تحت اس میں مسلسل بڑھتی ہوئی واضح تبدیلیوں کا
رجحان پایا جاتا ہے۔ جب ہم تیسری مرتب شدہ انجیل لوقا کی طرف آتے ہیں تو ہم اس میں
نئی تفصیلات ملنے کی توقع کر سکتے ہیں۔چونکہ عام طور پر لوقا اور اعمال کی کتاب کے
مصنف کے متعلق یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ان دونوں کا مصنف ایک ہی شخص ہے لہذا لوقا
کی انجیل اور اعمال کی کتاب پر ایک ساتھ متفقہ طور پر غور و فکر کرنا چاہئے۔
چرچ کی روایات
کے مطابق لوقا کی انجیل اور اعمال کی کتاب کا مصنف ایک غیر یہودی تھا جو پولس کا
ساتھی اور شاگرد تھا جسے کلسیوں (4:14) میں لوقا کہا گیا ہے جو پولوس کا چہیتا طبیب
تھا(حوالہ جات فلیمون 24،ٹھموتی دوم 4:11)۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ لوقا کی انجیل اور
اعمال کی کتاب دونوں ہی میں لوقا کے متعلق کوئی تذکرہ موجود نہیں۔اعمال کی کتاب کے
بعد کے ابواب میں اسم ضمیر 'ہم' کے استعمال سے (مصنف کا پولوس کے ساتھ شریک سفر
ہونے نشان دہی کی جاتی ہے) پولوس کے ساتھی کے متعلق مصنف ہونے کا قیاس کیا جاتا ہے،لیکن
یہ اعمال کی کتاب کے ابتدائی مواد میں مصنف کی طرف سے کیا گیا اضافہ ہوسکتا ہے اور
کسی دوسری صورت میں غالباً اعمال کا مصنف لوقا کے بجائے پولوس کا کوئی دوسرا ساتھی
ہو سکتا ہے۔ دور جدید کے بہت سے علماء اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لوقا یا پولوس
کا کوئی بھی ساتھی لوقا کی انجیل اور اعمال کی کتاب کا مصنف نہیں ہے۔اس دعوی کے حق
میں درج ذیل دلائل دئیے جاتے ہیں (1)لوقا کی انجیل اور اعمال کا مصنف پولوس کے
برعکس یسوع کی موت کوحقیقی قربانی قرار دینے کے متعلق خفیف اشارہ دیتا ہے (2)اعمال کی کتاب میں بیان کی گئی
پولوس کی سوانح حیات کی تفصیلات اور پولوس کے اپنے خطوط میں اس کے بیانات کے
درمیان شدید تضادات پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ تصور درست ہے تو ہم لوقا کی انجیل اور
اور اعمال کی کتاب کے مصنف کے بارے میں غیر یہودی ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں
جانتے (جیسا کہ فلسطین کے جغرافیہ اور سامیت سے متعلق اس کی لاعلمی سے ظاہر ہوتا
ہے)۔ جبکہ دوسری طرف لوقا کی انجیل اور اعمال کی کتاب کی تالیف کے متعلق انتہائی
مشکوک آراء پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے اور پولوس کے ساتھی لوقاطبیب کی بابت لوقا
انجیل اور اعمال کی کتاب کا مصنف ہونے کا نظریہ اب بھی مستحکم ہے۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ لوقا کی انجیل 80 تا 90
عیسوی کے درمیان لکھی گئی ہے اور اس کا تسلسل اعمال الرسل کتاب 90 تا 100 عیسوی کے
درمیان لکھی گئی ہے۔بہت سوچ بچار کے بعد ہم اس فیصلے تک پہنچتے ہیں (مثال کے طور
پر یروشلم کی تباہی کی تفصیلی معلومات لوقا باب 21 فقرہ 20 تا 24 میں بیان کی گئی
ہیں اور لوقا 1:1 کے دعاوی کے مطابق انجیلی تحاریر پہلے سے موجود تھیں)کہ متی کی
طرح لوقا بھی مرقس کی انجیل کا بہت سا مواد خاص تبدیلیوں کے ساتھ اپنی انجیل میں
شامل کرتا ہے۔ تاہم وہ یوحنا اصطباغی کی پیدائش جیسا قصہ، مریم کا گیت، مبالغہ
آرائی (خدا کی تعریف میں کہی گئی حنہ کی نظم کے انداز میں سموئیل اول باب دوم فقرہ
1 تا 10) اور یروشلم میں یسوع کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک بڑا حصہ اپنے طور پر خود
سےشامل کرلیتا ہے۔ لوقا کی یونانی زبان پہلی دو اناجیل کی نسبت زیادہ شائستہ ہے،
وہ اپنی انجیل کے آغاز میں بطور سابقہ ایک تعارفی تقریر شامل کرتا ہے اور اپنے
زمانے کا ادبی انداز اختیار کرتا ہے۔یسوع کی زندگی کے واقعات کو دنیا کی تاریخ میں
ضم کرنا اور مسیحی چرچ کے تاریخی کردار کو جائز قرار دینا لوقا کا الٰہیاتی مقصد
تھا، کیونکہ وہ (متی اور مرقس کی طرح) مستقبل قریب میں یسوع کی واپسی کی توقع نہیں
رکھتا۔ متی اور مرقس کی اناجیل کی طرح لوقا کی انجیل میں بھی یہودا اسکریوتی کو
بارہ رسولوں میں شامل رسول کے طور پر بیان کیا گیا ہے :
"جب دن
نکلا تو اس نے اپنے شاگردوں کو پاس بلایا اور ان میں سے بارہ کو چن کر انہیں رسول
کا لقب دیا، یعنی شمعون جس کا نام اس نے پطرس بھی رکھا اور اس کا بھائی اندریاس
اور یعقوب اور یوحنا اور فلپس اور برتلمائی، اور متی اور توما اور حلفئی کا بیٹا
یعقوب اور شمعون جو زیلوتیس کہلاتا تھا اور یعقوب کا بیٹا یہودا اور یہودا
اسکریوتی جو غدار ثابت ہوا (لوقا باب 6 فقرہ 13 تا 16)۔
یہاں ہم پہلی بار یہودا نام کی دو شخصیات کو دیکھتے ہیں
ان میں سے ایک یعقوب کا بیٹا یہودا ہے جبکہ دوسرا یہودا اسکریوتی ہے۔یہ قضیہ ایک
جدید ارتقاء ہے جو عہدجدید کی دستیاب روایات میں دو یہوداہوں کے متعلق معمولی
توضیحات کا متقاضی رہا ہے۔
متی اور مرقس کی اناجیل میں غدار یہوداکو رسول کے طور پر
دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ان دونوں اناجیل
میں رسولوں کے درمیان ایک سے زیادہ یہودا نام کی شخصیت ہونے کے متعلق کوئی اشارہ
نہیں ملتا۔تاہم اس صورتحال پر بالوثوق کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ یہودا نام کے شخص
کی یسوع سے وفاداری کے متعلق مستحکم روایات موجود ہیں۔اختلافات کے باوجود ایسی
روایات بھی ملتی ہیں جن میں وفادار یہوداہ کو یسوع کا بھائی کہا گیا ہے۔اس الجھن
سے بچنے کے لیے وفادار اور غدار یہودا نام کی دو شخصیات موجود ہونے کا دعوٰی کر
دیا گیا۔دوسرا یہودا پہلے یہودا کی خیالی (جھوٹی) کہانی کی ضمنی پیداوار ہے۔تاریخی
حقائق میں
ایک ہی وفادار یہودا رسول کی موجودگی ثابت
کرنے کے لیے ہمارے پاس بہترین دلائل موجود ہیں۔ دوسرا یہوداہ درحقیقت پہلے
یہوداہ کی واپسی ہے جسے بعد میں مکمل طور پر قلم زد نہیں کیا جا سکا۔
لوقا کے قصے میں سردار کاہنوں کے ساتھ یہوداہ کی گفتگو
میں کچھ نئی باتیں بھی شامل ہیں:
" اور شیطان یہودا میں سما گیا اسے یہودا اسکریوتی
بھی کہتے ہیں اور وہ یسوع کے بارہ شاگردوں میں شمار کیا جاتا تھا، وہ سردا رکاہنوں
اور ہیکل کے پاسبانوں کے سرداروں کے پاس گیا اور ان سے مشورہ کرنے لگا کہ وہ کس
طرح یسوع کو ان کے حوالے کرے، وہ بڑے خوش ہوئے اور اسے روپیہ دینے کا وعدہ کیا، اس
نے ان کی بات مان لی اور موقع ڈھونڈنے لگا کہ یسوع کو کس طرح ان کے حوالے کرے کہ
لوگوں کو خبر تک نہ ہو (لوقا باب 22 فقرہ 3 تا 6)۔
متی کے قصے کی طرح اس قصے کاماخذبھی مرقس باب 14 فقرہ 10
تا 11 کی مختصر سی عبارت ہے،لیکن لوقا اسی اختصاراخبر کوتقریری انداز میں بڑھتی
ہوئی پیچیدگیوں کے ثبوت ظاہر کرتا ہے۔متی اور مرقس میں شیطان کے متعلق کوئی ذکر
نہیں کیا گیا ہے جبکہ لوقا میں یہودا شیطان سے بھری ہوئی شخصیت کے طور پر سامنے
آتا ہے جس کا فریب نیکی اور بدی کی قوتوں کے درمیان ازلی تصادم کا حصہ بن جاتا ہے۔لوقا
کہانی کو خوش نما ظاہر کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور یہودا کے فریب کے عمل کرنے کی
بابت کچھ بیانات شامل کرتا ہے۔ایک غدار اس حد تک ضروری کیوں ہے؟ ایک غدار کی خدمات
حاصل کیے بغیر سردار کاہن یسوع کو گرفتار کیوں نہیں کر سکتے تھے؟ اس پیچیدگی کو
متی اور مرقس نے بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔لوقا آگے چل کر مزید اس مسئلے کی عقدہ
کشائی کرتا ہے۔سردار
کاہن یسوع کو سر عام گرفتار کروا کر یہودی عوام کی دشمنی کو ہوا دینے پر
رضامند نہیں تھے اس لیے "ہجوم کو جمع کئے بغیر" خفیہ طور پر گرفتار
کروانے کا بندوبست کرنا ضروری تھا۔ تاہم روایت کی ایک پیچیدگی دوسری پیچیدگی کو
جنم دیتی ہے۔ ایک جگہ یسوع کی حمایت کرتا ہوا ہجوم کسی دوسری جگہ اس کی مخالفت
کرتا ہوا دکھایا گیا ہے۔یہ تمام مصنفین اناجیل کے لیے ایک مشکل مقام ہے جبکہ متی اور لوقا نے اس میں صرف معمولی
وسعت پیدا کی ہے۔
متی کے برعکس لوقا کی انجیل میں یہودا کے لالچ کے قصے کو
زیادہ پرزور انداز میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔انجیل مرقس (14:11)میں یہودا کے بجائے
سردارکاہن رقم کی ادائیگی کی تجویز پیش کرتے ہیں جبکہ انجیل لوقا میں مرقس کے
برعکس یک طرفہ معاہدے کے بجائے یہودا کی رضامندی سے معاہدہ طے پاتا ہے۔ لوقا مکمل
طور پر متی کے عبارتی متن پر انحصار نہیں کرتا بلکہ متی کے متن میں اپنے طور پر
براہ راست اضافے کرتا ہے چونکہ وہ یہودا کی غداری کو شیطان کی دخل اندازی کے ساتھ
منسوب کرتا ہے لہذا لالچ کے معنوں میں یہودا کی رغبت کے بارے میں وضاحت کرنے سے
اسے کوئی غرض نہیں ہے۔شیطان سے بھرے ہوئے شخص کے طور پر یہودا کو مادی ترغیب کی
کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہم آغاز میں ہی علم الہیات کےاس مسئلے کا ادراک
کر سکتے ہیں جسے مکمل طور پر بعد میں وضع کیا گیا ہے : یہودا کو کس قدر ملامت کرنی
چاہیے؟ شیطانی طاقت میں جکڑے جانا اسے بے یارو مددگار بنا دیتا ہے اس لیے یہودا
قابل ملامت نہیں ہے۔ اس کے باوجود بحیثیت غدار اس کی بدی اس پورےافسانے کو
اثرانگیز بنانے کے لیے ضروری ہے۔یہودا جیسی کہانی میں اس طرح کی دگنی پیچیدگی کا
پیدا ہونا یقینی بات ہے اس پر مزید بحث درکار ہے۔
مرقس کی طرح لوقا بھی آخری کھانے کے قصے میں یہودا کا
نام لے کر تذکرہ نہیں کرتا اس کے باوجود اس کے کردار کی طرف بطور غدار سختی سے
اشارہ کیا گیا ہے۔الہامی اور عشائے ربانی کے الفاظ کے بعد یسوع اعلان کرتا ہے ۔
"مگر دیکھو میرے گرفتار کروانے والے کا نام میرے
دسترخوان پر ہے کیونکہ ابن آدم تو جا ہی رہا ہے جیسا کہ اس کے لیے پہلے سے مقرر ہے
لیکن اس آدمی پر افسوس ہے جس کے ہاتھوں وہ گرفتار کروایا جاتا ہے، یہ سن کر وہ آپس
میں پوچھنے لگے کہ ہم میں ایسا کون ہے جو یہ کام کرے گا (لوقا باب 22 فقرہ 21 تا
23)۔
شاگردوں کے درمیان بدگمانی اور بحث چھڑ جاتی ہے کہ یسوع
کی بادشاہت میں کون اعلی مرتبے پر فائز ہوگا۔ یسوع انہیں یہ کہہ کر ملامت کرتا ہے
کہ انہیں ذاتی عزت و وقار سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے پھر وہ ان سب سے وعدہ کرتا
ہے کہ "وہ بارہ تختوں پربیٹھ کر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کریں
گے"۔پھر یسوع کہتا ہے :
"شمعون، شمعون! شیطان نے گڑگڑا کر اجازت چاہی کہ
تمہیں گندم کی طرح پھٹکے، لیکن میں نے تیرے لیے دعا کی کہ تیرا ایمان جاتا نہ رہے
اور جب تو توبہ کر چکے تو اپنے بھائیوں کے ایمان کو مضبوط کرنا (لوقا باب 22 فقرہ
31 تا 32)
پس اس لحاظ سے لوقا غداری کے معاملے میں خاص نقطہ نظر
رکھتا ہے جبکہ متی اور مرقس گستمنی کے باغ میں یسوع کو چھوڑ جانے پر دوسرے شاگردوں
کی غداری خاص طور پر کاہنوں کے گھر پر پطرس کا اپنے استاد کے بارے میں انکار کرنے
کے متعلق بیان کرتے ہیں اور صرف لوقا آخری کھانے کے قصے میں اس موضوع کو ترتیب
دیتا ہے۔متی اور مرقس میں یسوع شاگردوں کے ارتداد (مرقس 14:27، متی 26:37) اور
پطرس کی غداری (مرقس 14:30، متی 24:34) کی پیش گوئی پورا ہونے سے پہلے زیتون کے
پہاڑ تک پہنچنے کا انتظار کرتا ہے۔متی اور مرقس آخری کھانے کے موقع پر صرف یہودا
کی غداری کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں جو اسے سب سے الگ تھلگ بنا دیتی ہے جبکہ
لوقا کی نظر میں صرف یہودا کے معاملے کو ہی انتہائی غداری کا معاملہ قرار نہیں دیا
جاسکتا ہے۔اس وضاحت سے تمام شاگردوں کی اخلاقی حالت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ لوقا
دوبارہ شیطانی اصلاحات کا تذکرہ کرتا ہے لیکن اس کے قصے میں یہودا کے بجائے تمام
شاگرد اخلاقی گراوٹ کی شیطانی مہم کا شکار ہوتے ہیں جیسا کہ یسوع کے بیان سے ظاہر
ہوتا ہے "شیطان نے گڑگڑا کر اجازت چاہی کہ تمہیں گندم کی طرح پھٹکے"
(لوقا 22 :31)۔یہ حقیقت ہے کہ آخری کھانے کے قصے میں یہودا کا نام لے کر تذکرہ نہ
کرنے سے اس بات کا تاثر ملتا ہے کہ کہ اس کی دغابازی محض عام بےچینی کا نتیجہ ہے۔
لوقا عہد جدید کی کتاب اعمال کا بھی مصنف ہے جو چرچ کی
ابتدائی تاریخ اور خاص طور پر پولوس اور یروشلم چرچ کے درمیان اختلافات پر بحث
کرتی ہے اس تصادم میں پولوس ابتداء میں معاند اور دشمن کے روپ میں سامنے آتا ہےجبکہ
پطرس یہاں یہودی قوانین سے گہری وابستگی رکھنے والے شخص کے بجائے پولوس کے نجات کے عقیدے میں تبدیل ہونے والے شخص
کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ اس کہانی کی سب سے بڑی مشکل پولوس کی یسوع سے غیر واقفیت
ہے جو یسوع کو کبھی جانتا بھی نہیں تھا جبکہ یروشلم چرچ کے بزرگ یسوع کے روز مرہ
کے دوست اور پیروکار تھے جو کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ یسوع کی خواہشات کو جانتے
تھے۔اس کے باوجود شاگردوں کی تصویرکشی اس انداز میں کی گئی ہے جس میں وہ یسوع کو
کبھی سمجھ نہ سکے ہوں اور اس کے مشن کے ساتھ وفادار نہ رہے ہوں۔
آخری کھانے کی بابت لوقا کا قصہ اعمال کی کتاب
میں یروشلم چرچ کی کوتاہیوں کا واجبی سا تعارف ہے۔یہ انداز متی اور مرقس کی
امتیازی خصوصیت ہے لیکن لوقا آخری کھانے کے قصے کو اس لحاظ سے تفصیل سے بیان کرتا
ہے۔ایسا کرنے کے لیے وہ یہودا ہ کے گناہ کے ذریعے یروشلم چرچ کو داغدار کرتا ہے،
تاہم وہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ پولوسیت میں پطرس کی تعلیم کی کامیابی کے ذریعے
یروشلم چرچ اس داغ کو اکھاڑ پھینکے گا۔تاریخی حقائق کے اعتبار سے
یروشلم چرچ نے کبھی بھی پولوسی نظریات کو قبول نہیں کیا
تھا لیکن اعمال کی کتاب کا سرکاری افسانہ اور بعدازاں پولوسی مسیحیت پولوس اور
پطرس کے درمیان ایک مفاہمت تھی، اسی لئے لوقا یسوع سے پطرس کے بارے میں اقرار
کرواتا ہے کہ "اور جب تو توبہ کر چکے تو اپنے بھائیوں کے ایمان کو مضبوط کرنا"
(لوقا 22:32)۔یہ پطرس کے انکار کے فوراً بعد کی مدت میں احسان کے بجائے ایک
پیشگوئی تھی جسے یروشلم چرچ میں پطرس کے کردار کے ساتھ منسوب کر دیا گیا۔اب ہم اصل
غداری کی بابت لوقا کے قصے کی طرف آتے ہیں:
" ابھی وہ یہ بات کہہ ہی رہا تھا کہ آدمیوں کا ایک
ہجوم آ پہنچا اور ان بارہ میں سے ایک جس کا نام یہودا ہ تھا، ان کے آگے آگے تھا.
وہ یسوع کو چومنے کے لیے آگے بڑھا لیکن یسوع نے اس سے کہا :یہوداہ کیا تو ایک بوسے
سے ابن آدم کو پکڑواتا ہے" (لوقا باب 22 فقرہ 47 تا 48)۔
مرقس اور متی کی طرح لوقا بھی یہوداہ اسکریوتی کی
موجودگی کو ظاہر کرنے کے لیے کوئی ترکیب فراہم نہیں کرتاباوجودیکہ وہ ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں
کرتا کہ یہودا دوسرے شاگردوں سے کب الگ ہوا تھا۔سردار کاہن، وکلاء اور بزرگوں کی
طرف سے بھیجے جانے کے بجائے (مرقس 14:43، متی 27:47) یہودا ہ کے ساتھ ہجوم میں سردار
کاہن، ہیکل کے اعلی افسران، سپاہی اور بزرگ بھی شامل تھے (v. 52)۔ متی اور مرقس میں واضح طور پر بیان
نہیں کیا گیا کہ بوسہ پہلے سے طے شدہ ایک نشانی تھی جس کے ذریعے یہوداہ نے یسوع کی
نشاندہی کرنی تھی،لیکن یہ یسوع کے بیان کا مفہوم نظر آتا ہے(جوکہ متی اور مرقس میں
نہیں پایاجاتا)۔مرقس کے قصوں کو لوقا نے کسی جگہ مختصراً بیان کیا ہے جبکہ کسی
دوسری جگہ تفصیل شامل کرکے درج کیا ہے۔لوقا آخری کھانے کے موقع پر شاگردوں بارے
میں حقارت آمیز مواد کا اضافہ کرتا ہے جبکہ گرفتاری کے وقت کے قصے کو مختصر کرتا
ہے اور کچھ مزاحمت کرنے کے بعد حواریوں کو فرار ہوتے ہوئے نہیں دکھاتا۔لوقا (خاص
طور پر کٹے ہوئے کان کو شفا دیتے ہوئے5:51 ) افسانوی رنگ بھرتا ہے لیکن یہودا کی
کہانی میں وہ ایسا نہیں کرتا۔اس کے قصے میں کی گئی واضح تبدیلی ان حقائق کا اضافہ
ہے جن کے مطابق گرفتار کرنے والے لوگوں میں ہیکل کے اعلی حکام اور سپاہی بھی شامل
تھے۔یہ حقائق متی اور مرقس کے بجائے کسی دوسرے ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں،اور یہ
مصنف کی ذہنی اختراع بھی معلوم نہیں ہوتے کیونکہ اس اختراع کے پیچھے مصنف کا کوئی
واضح مقصد نظر نہیں آتا۔اس بات کو تاریخی طور پر سچ تسلیم کرنا چاہیے، جبکہ ہجوم
میں سردار کاہنوں اور بزرگوں کو شامل کرنا انتہائی نامعقول بات ہے کیونکہ اس طرح
کی اعلی شخصیات ذاتی طور پر گرفتاریاں نہیں کرتی تھیں۔ہیکل کے سپاہیوں کا یسوع کو
گرفتار کرنا (جو قابض رومی حکومت کے ماتحت کام کرتے تھے) تاریخی حقائق کے مطابق ہے
جبکہ یہودا ہ سمیت تمام دوسرے اشخاص کو گرفتاری میں حصہ لینے والوں کے طور پر شامل
کرنا ایک افسانوی اضافہ ہے۔
لوقا کی انجیل یہوداہ کے متعلق زیادہ معلومات فراہم نہیں
کرتی،لیکن مصنف اپنے اس سلسلے کواعمال کی کتاب کے پہلے باب میں اپنی بیان کیے گئے
افسانے کے ایک حصے میں مکمل کرتا ہے:
"ان ہی دنوں میں پطرس ان بھائیوں کی جماعت میں میں
جن کی تعداد ایک سو بیس کے قریب تھی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے بھائیو! پاک کلام کی
اس بات کا جو پاک روح نے داؤد کی زبان سے پہلے ہی کہلوا دی تھی ،پورا ہونا ضروری
تھا. وہ بات یہوداہ کے بارے میں تھی جس نے یسوع کے پکڑوانے والوں کی رہنمائی کی
تھی۔وہ ہمارا ہم خدمت تھا اور ہم لوگوں میں گنا جاتا تھا. اس نے اپنی بدکاری سے
کمائی ہوئی رقم سے کھیت خریدا، جہاں وہ سر کے بل گرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا اور
ساری انتڑیاں باہر نکل پڑی۔یروشلم کے سارے باشندوں کو یہ بات معلوم ہو گئی، یہاں
تک کہ انہوں نے اپنی زبان میں اس کھیت کا نام ہی ہقل دما رکھ دیا جس کا مطلب ہے
خون کا کھیت۔کیونکہ زبور کی کتاب میں لکھا ہے : اس کا گھر اجڑ جائے اس میں کوئی بسنے
نہ پائے اور اس کا عہدہ کوئی اور حاصل کر لے لہذا یہ ضروری ہے کہ یسوع کے ہمارے
ساتھ آنے جانے کے وقت تک یعنی یوحنا کے بپتسمہ سے لے کر اس کے ہمارے پاس سے اوپر
اٹھائے جانے تک جو لوگ برابر ہمارے ساتھ رہے ان میں سے ایک شخص چن لیا جائے جو
ہمارے ساتھ اس کے جی اٹھنے کا گواہ بنے " (لوقا باب 1 فقرہ 15 تا 22)۔
یہودا کے متعلق جو افسانہ متی بیان کرتا ہے، ان دو افسانوں
میں اس قدر تضاد ہونا نہایت عجیب بات ہے۔متی کی انجیل میں یہودا ہ پچھتاتا ہے اور
رشوت کی رقم اعلی کاہنوں کو واپس کر دیتا ہے (جو اس رقم سے خون کا کھیت خریدتے
ہیں) اور پھر یہودا کسی نامعلوم کھیت میں پھانسی لے لیتا ہے۔متی کے افسانے میں یہ
کھیت پردیسیوں کے قبرستان کی زمین ہے جبکہ اعمال کی کتاب میں ایسا نہیں ہے۔متی کی
انجیل میں خونی کھیت کا نام یہودا کی بے رحم موت سے اخذ کیا گیا ہے۔ابتدا میں کھیت
کو کمہار کا کھیت کہنے کی بابت متی کا بیان لوقا کی انجیل میں کہیں بھی بیان نہیں
کیا گیا جس کا عبرانی بائبل کے ساتھ تعلق بالکل مختلف قسم کا ہے۔ان دونوں قصوں میں
کھیت کی موجودگی کی صرف ایک بات مشترک ہے جسے خون کا کھیت کہا جاتا ہے، پھر بھی
صرف اعمال کی کتاب اس کے آرامی تاثر کو ظاہر کرتی ہے۔
مضبوط مطابقت پیدا کرنے والوں کی قابلیت کو آخری حد تک
استعمال کرنے کے باوجود دونوں کہانیوں کے درمیان تضادات اس قدر شدید ہیں۔واضح طور
پر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک وضع کی گئی داستان ہے جو دو متضاد سمتوں میں سفر کر رہی
ہے۔اس کے باوجود منطقی اور نفسیاتی لحاظ سے دونوں کہانیاں ناقابل مصالحت ہیں اس
لیے دونوں کہانیاں ایک سوال "غدار کے ساتھ کیا ہوا؟" کے جواب میں ممکنات
کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے باوجود یسوع کی قربانی سے نجات کی امید لگانے والے پجاری
یہودا کی کہانی میں تحریف کرنے سے خود کو مستثنٰی کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ان کو
یہودا کی شخصیت کے ساتھ تمام ممکنہ گناہوں کو چسپاں کرنے کی ضرورت ہے۔یسوع سے غداری
کے نتیجے میں یہودا کی کہانی کے موضوع کو عملی طور پر ترتیب دینے کے لیے ممکنہ
نتائج(مرقس اور یوحنا اس معاملے کو نظر انداز کرتے ہیں) درج ذیل ہیں:
1. یہوداہ کا گناہ اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ خودکشی کر
لیتا ہے۔
2. بے ندامت یہودا کو سزا اور موت کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔
3. یہوداہ کو شاگردوں سے خارج دیا جاتا ہے اور
وہ قابیل کی طرح اپنی غداری کے گناہ کا بوجھ اٹھائے خانہ بدوشی کا سامنا کرتا ہے۔
عہد نامہ جدید کی کتب متی اور اعمال پہلے دو امکانات پر
بحث کرتی ہیں جبکہ تیسری ممکنہ صورت کا جواب یہودی قوم سے متعلق بعد کی مسیحیت میں
دیکھا جا سکتا ہے جہاں اسے یسوع کی تصلیب میں مدد کرنے کے باعث اس کی جلا وطنی اور
خانہ بدوشی کو سزا کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ یہودا کے مذہب سے ہونے کی وجہ سے
یہودی قوم، یہودی آزمائش کی بابت یہودا کا افسانہ گھڑنے کے لیے مسیحی توضیحات میں
شامل ہیں۔ایک یہودی کے در بدر پھرنے کی بابت مسیحی لوک داستان اس نظریہ کو بھی
ظاہر کرتی ہے جس کے مطابق یہودیوں کا در بدر پھرنا ان کے گناہوں کی سزا ہے۔اس کے
باوجود اس کہانی سے اس ممکنہ صورت کا گمان ہوتا ہے کہ آخری وقت میں ایک یہودی
تکالیف برداشت کر کے اپنے گناہوں کی تلافی کر کے معافی حاصل کر سکتا ہے۔پہلی ممکنہ
صورت متی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جو یہودا کی معافی کی امید لیے ہوئے ہے۔اس کی
خودکشی مایوسی میں کئے گئے عمل کے بجائے اس کی خود عائد کردہ سزا کے طور پر ظاہر
ہوتی ہے۔وہ اپنی رشوت کی رقم سے فائدہ حاصل کرنے سے انکار کردیتا ہے اور وصول کی
ہوئی رقم واپس کر دیتا ہے۔یہ بالکل ایسی ہی صورتحال ہے جب وہ شدید غضب کے دورہ کے
بعد اپنے حواس میں واپس آتا ہے تو اسے اپنے کیےہوئے عمل کے متعلق کچھ سمجھ نہیں
آتی۔لوقا کے برعکس متی یہودا کے چال چلن کی وضاحت کے لیے شیطانی اصلاحات کا واضح
تذکرہ نہیں کرتا لیکن اس کی دستاویزات میں یہودا کی داستان سے اسی طرح کی وضاحت
ظاہر ہوتی ہے۔
یہودا کی آخری تلافی کا نظریہ غیر اقوام میں مروج قربانی سے متعلق افسانوں کے مشابہ ہے۔مثال
کے طور پر یونانی اور رومی افسانوں میں ہم اکثر مجرم کے ناقابل بیان عمل کی آخری
تلافی اور کفارے کی بابت سنتے ہیں۔مسیحی افسانہ نگاری میں یہوداہ کے لوگوں یا
یہودیوں کی آخری تلافی اس قدر اہم ہے کہ ان کی تبدیلی کو مسیح کی دوسری آمد کا
ناگزیر تعارف سمجھا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ناگزیر قربانی میں غدار نجات کے لئے اس
قدر ضروری ہے کہ اس کی آخری تلافی اس کی خدمات کے اعتراف کی ایک صورت مانی جاتی ہے۔اس
کے کیے گئے عمل سے ناپسندیدگی اور خوف میں ڈوبے احساسات میں اس کے مقدس شخصیت ہونے
کے تاثرات کو دیکھا جاسکتا ہے۔درحقیقت وہ خود ظلم کا شکار ہوا ہے کیونکہ بالضرور
قتل کو انجام دینے کے لیے اسے اپنی خوشیوں اور معصومیت کی قربانی دینا پڑی۔اعمال
کی کتاب میں بیان کیا گیا یہوداہ کی موت کا قصہ متی کے بیان کیے گئے افسانے سے
زیادہ پیچیدہ ہے اور اس قسم کے متضاد بیانات پر تحقیق کرنا نہایت دلچسپ کام ہے۔اس
کہانی میں یہودا صرف ایک مجرم نہیں ہے بلکہ وہ خود کو قربانی سے متعلقہ ٹھیک ٹھیک
شخصیت ظاہر کرتا ہے۔"خون کے کھیت" میں اس کی موت اور انتڑیوں کا باہر
نکل آنا جیسے بیانات قربانی سے متعلق مذہبی رسومات اور اور بت پرستی کے افسانوں
میں کچھ خاص شخصیات کی موت کی یاد تازہ کرتے ہیں جو زمین کو اپنے خون سے زرخیز
کرتے تھے۔ کھیت میں یہودا کی المناک موت (متی کے افسانے کے غیر تصریح کھیت کے
بجائے) کا انحصار قربانی کی زرعی روایات
سے تعلق قائم کرنے والے ان افسانوی پہلوؤں پر ہے جو افسانوی مذاہب کی بنیاد ڈالتے
ہیں۔"خون کا کھیت" جہاں یہودا کی موت واقع ہوتی ہے" کھوپڑی کی
زمین" جہاں یسوع کی موت واقع ہوتی ہے، کی مضحکہ خیز نقل معلوم ہوتی ہے۔جب
کوئی شخص یسوع کی موت سے متصل قربانی سے متعلقہ منظر کشی میں خون کو اہم تصور کرتا
ہے تو عشائے ربانی سے یسوع کے خون تک ترسیمیاتی فقرہ" خون کا کھیت" میں
ہم آہنگی ضرور سمجھنی چاہیے۔یہ فقرہ احساس جرم اور سزا کے طور پر قربانی کے مقام
کو آسانی سے بیان کرسکتا ہے۔
یہودا کی موت بذات خود کم از کم سیاہ مسیح کی موت ہے جس
کے جذبات انسان کو اس کے بدترین گناہ سے الگ کرنے کے لیے اس پر غالب آ جاتے ہیں جو
وہ ان کی طرف سے انجام دیتا ہے جبکہ متی کے قصے کی نسبت اعمال کے بیان کی گئی
کہانی میں افسانوی رنگ زیادہ جھلکتا ہے، مؤخر الذکر میں تمثیلی انداز بھی پایاجاتا
ہے۔متی کے بیان کیے گئے قصے میں یہودا پھانسی لے لیتا ہے اور پھندے سے لٹکے ہوئے
شخص کی تصویر اتس دیوتا سے یسوع تک قربانی سے متعلقہ بہت سی افسانوی شخصیات کی یاد
تازہ کرتی ہے۔اعمال کی کتاب میں یہودا کی موت خدائی مداخلت سے واقع ہوتی ہے (یہ
قربانی سے متعلق اس کے افسانے کا عام مرکزی خیال ہے)، جبکہ متی میں یہودا کی موت
اس کے اپنے ہاتھوں ہوتی ہے جو کہ بڑے دیوتا (Odin) کی خود عائد کردہ قربانی سے
متعلقہ موت کے افسانے کے مشابہ ایک کہانی ہے۔
جب تک ہم تاریخی واقعہ کے طور پر یہودا کی موت کی بابت
غلط نظریہ رکھتے ہیں ہم ثبوتوں میں صرف تضادات ہی دیکھ سکتے ہیں۔اگر یہودا کی موت
انتڑیاں پھٹنے کی وجہ سے واقع ہوئی تھی تو یہودا نے یقیناً خود پھانسی نہیں لی تھی
اور وہ کھیت میں یا کسی بھی دوسری جگہ نہیں مر سکتا تھا، اسی لیے متی اور اعمال کی
کتاب میں بیان کی گئی وجوہات کی بنیاد پر کھیت کو "خون کا کھیت" نہیں
کہا جا سکتا ہے۔لیکن جیسے ہی ہم اس واقعے کو تاریخی قرار دینے کے دعوے سے دستبردار
ہوتے ہیں اور کہانی کو ایک افسانہ خیال کرتے ہیں تو سارے تضادات غائب ہوکر موضوع
کے گھٹتے بڑھتے تغیرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔جیسا کہ لیوی اسٹراس نے کلیت سے ایک
افسانے کی مختلف صورتیں دکھائی ہیں جہاں ایک جواز فراہم کرنے کے لیے دوسرا ترک
کرنا پڑتا ہے۔خودکشی کرنے اور انتڑیاں باہر نکل آنے کی وجہ سے یہودا کی موت، اور
دونوں اموات میں خدائی عمل کادخل اور اس کے اپنے ہاتھوں سے اس کی موت ہونا وغیرہ
جیسی تبدیلیاں بطور غدار، احساس جرم سے بھرپور، قربانی سے متعلقہ ظلم کا شکار شخص
اور سیاہ مسیح کے طور پر اس کے کردار و اعمال میں اضافی تبدیلیاں ہیں۔متی کی انجیل
کے مصنف کی طرح اعمال کا مصنف بھی یہودا کی موت کی بابت اپنی تاویلات کو عبرانی
بائبل کے ساتھ منسلک کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے وہ مختلف نصوص استعمال کرتا ہے۔مثال
کے طور پر وہ کہتا ہے کہ صحیفے نے داؤد کے منہ سے یہودا کی سزا کی بابت نبوت کی ہے (v. 20)، وہ زبور کا حوالہ
بیان کرتا ہے جو اس کے ذہن میں تھا۔یہ پیشگوئیاں (زبور 69:25 اور 109:8) مشکل ہی
قائل کرنے والی ہیں کیونکہ یہ داؤد بادشاہ کے دشمنوں کے خلاف محض عمومی تحریک تھی۔کوئی
بھی پیشگوئی یہودا کی طرف کوئی خاص اشارہ نہیں کرتی اور نہ ہی اس کے اپنے دن پر زبور
نویس فیصلہ عدالت کے بجائے کسی نبوت کی نشاندہی کرتا ہے۔اس کے باوجود ہم دیکھتے
ہیں کہ متی کا بیان کردہ افسانہ عبرانی بائبل کے کچھ خاص پہلوؤں سے اخذ کیا گیا ہے
حالانکہ قدیم فرسودہ نقط نظر کے باعث عبرانی بائبل سے جداگانہ نظر آتا ہے۔اعمال کے
متعلق بھی ایسا ہی نقطہ اٹھایا جاسکتا ہے۔یہودا کا خون اور کھلے میدان میں کچی
زمین پر انتڑیوں کا نکل کر گرنا ہابیل اور قابیل کی کہانی کی یاد تازہ کرتا ہے،
کیونکہ ہابیل کا خون بھی کھیت میں گرا تھا (پیدائش 4 :8)۔ خدا نے قابیل سے کہا
"تو نے کیا کیا؟ تیرے بھائی کا خون زمین سے مجھ کو پکارتا ہے، اب تو زمین کی
طرف سے لعنتی ہوا جس نے ایسا منہ پسارا کہ تیرے ہاتھ سے تیرے بھائی کا خون لے
(پیدائش باب 4 فقرہ 10 تا 11)۔عبرانی بائبل کا نظریہ خون، جوزمین کو بنجر کردیتا
ہے، انسانی تاریخ میں بہت بعد میں وضع کیا گیا ہے جبکہ اس کے پیچھے بالکل مخالف
نظریہ کار فرما تھا کہ قربانی کا انسانی خون زمین کو ذرخیز کرتا تھا۔زمین کی بابت
اپنا منہ کھول کر خون پینے کا نظریہ انتہائی قدیم ہے۔درحقیقت یہ زمین کی دیوی اپنے
حق کے طور پر اس سے اپنی بھوک مٹاتی تھی۔عبرانی بائبل میں ملنے والا ہابیل اور
قابیل کا قصہ ایک عام قتل کا معاملہ ہے لیکن بہت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ یہ
انسانی قربانی کے متعلق وہ تبدیل شدہ قصہ ہے جس میں زمین ملعون نہیں ٹھہرتی بلکہ
ہابیل کے خون سے مقدس ٹھہرتی ہے۔
عہد نامہ جدید اکثر انسانی قربانی سے متعلق آثارِ قدیمہ
کی باقیات کی یاد دلاتا ہے جو عبرانی بائبل کی شائستہ اور ثقیف کہانیوں کے نیچے
آثاریاتی فریب کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں، کیونکہ یسوع کی موت کے ذریعے (اور یہودا
کی موت کے ذریعے) نجات کی بابت عہد جدید کی کہانی لاپرواہی کا اعادہ ہے جس میں
ماقبل تاریخ واقعات کو دہرایا گیا ہے۔کہانی کی ظاہری بساط پر یہوداہ نجات دہندہ
نہیں ہے بلکہ براہ راست مخالف، ایک قاتل اور قربانی دینے والا ہے۔لیکن جیسا کہ ہم
قربانی سے متعلقہ افسانوں کے مطالعے میں دیکھتے ہیں کہ مظلوم اور قربانی دینے والے
کردار خلط ملط ہو جاتے ہیں۔اکثر قربانی دینے والا مظلوم کا بھائی ہوتا ہے (قابیل،
ہابیل. رومولس، ریمس، اوزائرس اور سیت) اور بعض اوقات وہ جڑواں بھائی بھی ہوتا ہے
جو شناخت کا تعین کرتا ہے۔یہ بات قابل غور ہے
خاص طور پر اعمال کی کتاب کی پیچیدہ تاویلات میں یہودا کی موت قربانی کی
خصوصیات سے بھرپور ہے اور کسی بھی وجوہات کی بنا پر یہ یسوع کی موت کی ہیبت ناک
مضحکہ خیز نقل ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔