Pages

Most Popular

جمعرات، 8 فروری، 2018

پولس کے خطوط کا مبینہ ربائی انداز

پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
زیرنظر مترجمہ تحقیق یہودی النسل  ڈاکٹر ہائم مکابی کی کتاب "
The Myth maker Paul & the Invention of Christianity" کے باب نمبر7"Alleged Rabbanical Style in Poul’s Epistles" کا ترجمہ ہے ۔اس باب میں ڈاکٹرہائم مکابی نے  مقدس پولس کے دعویٰ فریسی تربیت کاتحقیقی جائزہ مقدس پولس کے انداز تحریر کومدنظر رکھتے ہوئے لیا ہے کہ آیا ان کا طرزکلام ایک باعمل یہودی ربائی کے طرزتحریر سے مماثلت رکھتا ہے یا نہیں۔ڈاکٹرہائم مکابی کاخاندان یہودی ربائیوں  کاخانددان ہے۔ان کے دادا مشہور ربی رہ چکے ہیں۔ہائم مکابی تالمودی روایات اوریہودی ومسیحی مذاہب کی تواریخ پر ہائی پروفائل اسکالر سمجھے جاتے ہیں اور یہودی تاریخ اور عہدجدیدکے تاریخی پس منظر پر کئی کتب بھی تحریر کرچکے ہیں۔
            یہ ترجمہ میری اور محترمہ صباخان صاحبہ کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ہم اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوئے یہ تو بعدازمطالعہ آنے والی آپ کی قیمتی آرا ء سے ہی علم ہوسکے گا۔آپ کی رائے کا منتظر۔عبداللہ غازیؔ
پولس کے خطوط کامبینہ ربائی اندازتحریر
فریسی اور دوسرے یہودیوں کے لیے یسوع کو خدائی مرتبہ سے منسوب کرنا بت پرستی جیساتھا۔یہودیت نے ہمیشہ انسانوں کے خدائی مرتبہ کا انکار کیاحتی کہ اپنے عظیم ترین نبی موسیٰ کو بھی کسی خدائی مرتبہ سے نہیں نوازا،بلکہ ان کی انسانی کمزوریوں اور خامیوں کو صحائف مقدسہ میں زوردے کر بیان کیا۔ یہودیت کو اپنی پوری تاریخ میں خدائی مرتبہ کی حامل انسانی شخصیات سے پالاپڑتارہا،کبھی فرنوعوں کی خدائی کی صورت میں توکبھی یونان اورروم کے خدائی بادشاہوں کی شکل میں۔انہوں نے اس قسم کے انسانوں کے پوجنے کوظلم وناانصافی اور غلامانہ ذہنیت سے جوڑا۔یہودیوں نے اپنے ممسوح بادشاہوں کو ہمیشہ ایسے انسان سمجھاجن کے اعمال وافعال نہ صرف پرکھے جاسکتے تھے بلکہ ان پر تنقید واعتراض بھی کیاجاسکتا تھا۔ لہٰذا کسی"مسیح"کو خدائی درجے سے نوازنے  کےنظریہ نے نہ صرف بت پرستی ہونے کی وجہ سے ان یہودیوں میں غصہ کو ابھارا بلکہ ادارتی مخالفت اورتنقیدواعتراض کے ممکنہ حدف بن  جانے کے پیش نظر ،ان میں گہرے سیاسی غم وغصہ کو بھی پروان چڑھایا۔جبکہ یہود ایک مسیح کے منتظر تھے تاہم ان کا خیال یہ نہ تھا کہ وہ مسیح کوئی خدائی درجہ بھی رکھنے کے ساتھ ساتھ تنقید سے بالاتربھی ہوگا،بلکہ اس کے مقابلے میں مسیح ایک نبی کے ساتھ نمودار ہوگایاایلیاہ جیسے کسی نبی کے ساتھ جو اس مسیح کو اس کی کوتاہیوں پر اس وقت سرزنش بھی کرسکے گا جب وہ "استثناء "کے ان الفاظ کو نظرانداز کردے گا "کہ اس کادل اپنے بھائیوں کے دلو ں سے زیادہ فوقیت نہ رکھتا ہوگا"(استثناء 17:20)
            غرض پولس نےخدائی درجہ کے مفہوم کے لیے جو لفظ"کرائسٹ"(عبرانی کے "مسیح" کا یونانی ترجمہ)استعمال کیاتو یہودیت میں اس کی پہلے کوئی مثال نہ تھی اور کسی بھی یہودی کو یہ محسوس کروانے کے لیے بالکل کافی تھا کہ یہ "مسیح" کے بارے میں یہودی فکر سے بالکل الگ استعمال تھا۔اسی طرح پولس کے خطوط میں"مسیح میں ہونے" کے تصورکاباربار ذکر آیا ہے،اس کی یہودی ادب میں کوئی مثال نہیں ملتی،خواہ وہ فریسی ہو یا کسی دوسرے فرقے کا یہودی ادب ہو۔اس سے مراد، یسوع کی خدائی شخصیت سے،ایک قسم کا وصل واتحاد ہے،یا انفرادیت کا اس میں ڈوب جانا ہے،اور صلیب پانے اور دوبارہ جی اٹھنے کے تجربہ میں عام انسان کی شراکت داری ہے۔ یسوع کو خدائی مرتبہ تفویض کیے جانے سے ہٹ کر ،یہ تصور خداسے ایک ایسے ربط کا وتعلق کااظہار کرتا ہے جس کا یہودیت میں نام ونشان نہیں ، جس میں انفرادی انسان کی شخصیت کی خودمختیاری کو پیش کیا گیا اور اسکے قائم رہنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ "مسیح میں ہونے" کاتصور بہرحال"پراسرار عبادتوں" کے قدیم مسالک میں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔
            مذہبی طورپرمحتاط یہودی کے لیے مزیدچونکادینے والی بات،پولس کا ،خدائی درجہ پانے والے یسوع کے لیے "لارڈ"(یونانی کیوریس) کا لفظ استعمال کرنا ہے۔ یہی لفظ عبرانی بائبل کے یونانی اور ہفتادی تراجم میں ،خدائے عظیم،زمین وآسمان کے خالق کے مقدس نام کے لیے استعمال کیا گیاہے۔لہٰذا کیوریس یالارڈ کے نام کو اس کے خدائی مفہوم میں کسی ایسے انسان کے لیے استعمال کرنا جو ابھی زندہ تھا اور پھر زمین پر اس کی وفات بھی واقع ہوگئی ہو،کسی بھی فریسی یایہودی کے لیے انتہائی گستاخانہ تھا۔ جبکہ پولس کے خطوط پانے والوں کے نزدیک یسوع کے لیے لارڈ(خداوند) کالفظ استعمال کرنا بالکل بھی ہلادینے والا نہ تھا،کیونکہ دیومائی (یونانی قبائل) رسوم وعبادات کی خدائی ہستیوں کےلیے یہ عام لفظ تھا، جن کے نجات دہندہ  خداؤں کے ساتھ ان کے معتقدین،خیالی وفات اور دوبارہ جی اٹھنے کی رسومات میں اپنی روحوں کو یکجاومتحد کرلیتے تھے۔
            غرض پولس کے خطوط کا مذہبی طرزوانداز یہودیوں کے لیے چونکادینے والا تھا لیکن یونانی ہیلینی ثقافت کے غیریہودی لوگوں کے لیے بالکل نامانوس تھا۔ اس کے باوجود پولس نے نے جب اس قسم کے تصورات کو ایک ایسے شخص(یسوع) پر منطبق کیا جو یہودی سیاق وسباق میں زندہ رہاتھا،تواسے اچھی طرح علم تھا کہ وہ سب کو چونکادینے والا ایک انوکھاسامان کررہاہے، جبکہ اس نے بالکل واضح انداز میں اس بات کا ایک جگہ اظہار بھی کردیا ہے۔ لیکن یہ چیز بھی بعض علماء کو،پولس کے نہایت غیریہودی تصورات کو قبول کرنے کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش سے باز نہ رکھ پائی اور انہوں نے یہودیت اور پولس کے تصورات کے درمیان تسلسل کو اس حل کے لیے تلاش کیا۔حتی کہ وہ علماء بھی جوپولس کے تصورات اور یہودیت کے درمیان ایک ناقابل قبول خلیج کا اعتراف کرتے،وہ بھی اس کے باوجود اصرار کرتے ہیں کہ پولس نے اپنی مذہبی زندگی ایک فریسی کی حیثیت سے شروع کی تھی۔ چنانچہ اس کی وجہ سے انہیں ایک اور مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ پھرآخرکیسے ایک تربیت یافتہ اوراعلانیہ فریسی پولس نےفریسی ازم سے اس قددر دورپرے کے تصورات تک رسائی حاصل کی۔اس کا حل دمشق کے راستہ پر پولس کے تبدیلی مذہب کی نوعیت میں  پایا جاتا ہے۔یہ کوئی تدریجی ترقی وارتقاء نہ تھا بلکہ ایسا شدیدمکاشفہ تھا جس نے پچھلے تمام تصورات اورعقائد پر جھاڑوپھیر دیا،نتیجہ یہ ہوا کہ پولس کےعلم وعرفان مسیح میں اور  اس کے پچھلے مذہبی مؤقف کے درمیان ،جوبالکل مخالف سمت میں واقع تھے، کسی تسلسل وتعلق کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
            اب یہ نقطہ نظر بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اپنی تبدیلی کے بعد بھی پولس ویسا ہی تھا جیسا کہ تبدیلی سے قبل تھا اور وہ اپنی تعلیم وتربیت کی تمام علامات نہیں چھپا سکتا تھا،لہٰذا اس کو مسلمہ سمجھا گیا کہ پولس کی تحاریر اس کی تعلیم کے پختہ نقوش ظاہر کریں گی ،کہ پولس(اس کے فریسی ہونے کے دعویٰ کے بالکل مخالف سوچتے ہوئے) فریسی ازم کے مخصوص دلائل وطریقہ اظہار کی پیچیدگیوں کو مستقل استعمال کرسکے گایا نہیں بصورت دیگر مزید کوئی اور شخص اس کے خود کے نقوش کو چھپاسکتا ہے۔پھر پولس کےمبینہ  خطوط ،پولس کی ابتدائی زندگی کے عہدجدید کے قصے کی تصدیق کرتے ہوئے غیرفریسی نظریات کو فریسی انداز میں ظاہر کرتے ہیں ۔
             بہت سے مصنفین پراعتماد بیان کرتے ہیں کہ پولس کے خطوط فریسی دلائل اور تاثرات سے لبریز ہیں اور پولس کی دی گئی مثالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کرچکے ہیں ۔ان کا اس طرح کرنا کتناناقابل یقین اور بظاہر  چونکا دینے والا ہے۔درحقیقت بلاخوف وخطر کہاجاسکتا ہے کہ اگر لوگوں کو پہلے ہی یقین نہیں دلایاجاچکا ہو کہ پولس فریسی تھا(جیساکہ اس کا خود کا دعویٰ ہے اور اسی کو اعمال کی کتاب میں بھی گھڑا گیا ہے)اس کے خطوط کے مطالعہ کے بعد کوئی شخص بھی اسے فریسی نہیں کہے گا نہ ہی ایسا شخص سمجھے گا جسے ربائی دماغ کا ذرا بھی ادراک ہو۔اس کے بجائے وہ  فریسی رببائیوں کے نظریات کی خصوصیات سے ناواقف فلو کی مانند ایک ہیلینی مصنف سمجھا جائے گاجس کی تحاریر میں بائبل کے یونانی ترجمے کا گہراا ثر ہو۔
            اگر ہم خود کو اس مفروضے سے آزاد کر لیں کہ پولس ایک فریسی تھا تو پھر ہمیں یہ شناخت کرنے کے لیےمجبور نہیں کیاجاسکتا کہ پولس کے خطوط کاانداز وہی ہے جو فریسی ازم کا ہے، اور ہم ان (خطوط)کو ان کی ہیلی نیازم  کے ادب کی مقررہ جگہ متعین کرسکتے ہیں ۔یہودی اور مسیحی دونوں  اسکالرز کی طرف سے خطوط میں فریسی نقوش تلاش کرنے کی کوشش  کو علماء کی ایک غیریقینی صورتحال کے طور پر کیاجاسکتا ہے جو ہمیشہ متن میں وہ  تلاش کرنے کی کوشش کریں گےجس پر خارجی وجوہات کی موجودگی کے سبب اعتقاد کیاگیا ہے خواہ متن خود اسے سہارادینے کا ارادہ کرتا ہویانہیں۔
            چنانچہ ہمیں عام طور پر ان لوگوں کی طرف سے دی جانے والی  چند مثالوں کا تجزیہ کرنے دیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے ہر طرح سے  زحمت کرتے  ہوئے مثالیں پیش کرتے ہیں کہ پولس کا فریسیانہ دماغ کیسا تھا۔فریسی افکار کی بنیادی  تشریحانہ منطق کی  ایک مثال کے ساتھ ہم اس امر کی ابتداء کرسکتے ہیں۔
            فریسیانہ دلائل کا ایک  اہم ہتھیار کال واہومر(qal va-homer)دلیل کے طور پر شناخت کیا جاتا تھا ۔مغربی تہذیب میں یہ  فورتوری(fortiori)دلیل کی حیثیت سے معروف ہے،لیکن یہ ارسٹاٹل کی منطق پر قائم مغربی افکار میں تالمود اورفریسی سوچ سے زیادہ کم اہمیت کاکردارکرتی ہے۔قل ہوامیر(لغوی معنیٰ ہلکااوربھاری) کامطلب کچھ یوں بنتاہے اگر کسی ایسی چیز کے بارے میں کچھ معلوم ہوجو اپنی مخصوص نوعیت میں لطیف شکل رکھتی ہو تویہ ایک دوسری مشابہ ہیئت یاچیز کے بارے میں بھی بعینہ درست ہوگا جووہی قدرکثافت میں رکھتی ہو۔ایک پیچیدہ مثال بائبل میں پائی جاتی ہے جہاں مریم کوتنقید کرنے کے باعث گناہگار قرار دے کرکوڑھ کے مرض کی سزا دی جاتی ہے جہاں خدا موسیٰ سے کہتا ہے اور موسیٰ خداسے دعاکرتا ہے کہ وہ شفاء یاب ہو۔اگر اس کے باپ نے اسے چہرے پر تھوک دیاتھا توکیا اسے سات دن تک شرمسار نہ ہوناچاہیے تھا؟سووہ سات دن تک لشکرگاہ کے باہر بند رہے اس کے بعد وہ پھراندرآپائے۔(گنتی12:14) یہ مثال دراصل ربائی تحاریروں میں بطورایک نمونے کے اس وجہ سے حوالہ دی گئی ہے جو پولس کے بارے میں  ہمارے دلائل میں اہمیت ثابت کرے گی۔اگرایک باپ کےگناہگارقرار دینے (نسبتاًلطیف شے ہے)پرسات دن کی بےدخلی کی سزا دی جاتی ہے ،توخداکا کسی کو گناہگارقرار دینے(نسبتاًکثیف شے )پر اس طرح کی سزا سے زیادہ سزاملنی چاہیے۔(اسی وجہ سے مریم کو فی الفورشفاء نہیں دی گئی)جدیدزندگی سے مزیدآسان قابل تفہیم مثال یہ ہے :اگر ایک شخص ہلکی شراب کی کچھ مقدار پینے کے بعد کار چلانانہیں چاہتا توپھر سب سے زیادہ اسے کار نہ چلانا چاہیے جس نے نشہ آورشراب کی اتنی ہی مقدار پی رکھی ہو۔
            اب پولس اپنے خطوط میں،بالکل یہی فورتوری دلیل استعمال کرنے کا شوقین ہے اور اسے پولس کی فریسیانہ تربیت کا ناقابل تردید ثبوت سمجھا جاتا ہے جواسے دلیل کے لیے اس طرح کا ایک انداز فراہم کرتا ہے اُس وقت بھی جب وہ ایسے نظریہ کے لیے بحث کررہاتھا جس کو فریسی شدت سے رد کر چکے تھے۔پولس کا 'قل ہوامیر'استعمال کرنے کی مثال درج ذیل ہے۔
            کِیُونکہ جب باوُجُود دُشمن ہونے کے خُدا سے اُس کے بَیٹے کی مَوت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہوگیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زِندگی کے سبب سے ضرُور ہی بچیں گے۔ (رومیوں5:10)
کِیُونکہ جب ایک شَخص گُناہ کے سبب سے مَوت نے اُس ایک کے زرِیعہ سے بادشاہی کی تو جو لوگ فضل اور راستبازی کی بخشش اِفراط سے حاصِل کرتے ہیں وہ ایک شَخص یعنی یِسُوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زِندگی میں ضرُور ہی بادشاہی کریں گے۔ (رومیوں5:17)
            کِیُونکہ جب اُن کا خارِج ہوجانا دُنیا کے آ مِلنے کا باعِث ہُؤا تو کیا اُن کا مقبُول ہونا مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے برابر نہ ہوگا؟۔ (رومیوں11:15)
            اِس لِئے کہ جب تُو زَیتُون کے اُس دَرخت سے کٹ کر جِس کی اصل جنگلی ہے اصل کے برخِلاف اچھّے زَیتُون میں پیَوند ہوگیا تو وہ جو اصل ڈالِیاں ہیں اپنے زَیتُون میں ضرُور ہی پیَوند ہوجائے گی۔ (رومیوں11:24)
            رومیوں کے خط میں شامل ان چار 'قل ہوامیر'دلائل سے باہر،تین ،فریسی منطق کے کینن کی روشنی میں بےبنیاد ہیں۔کیونکہ اُس منطق کا بنیادی یہ ہے جو 'قل ہوامیر'دلیل میں ہے۔ اور اختتامیہ درستگی سے اس سے آگے نہیں جاسکتا ہے جو مقدمہ میں شامل ہے۔(اسے ڈایو کا اصول بھی کہاجاتا ہے)اس اصول کی توضیح کرتے ہوئے ہم اپنی پہلی مثال کی طرف رجوع کرسکتے ہیں جہاں بائبلی دلیل مریم کے لیے استعمال کی گئی ہے۔فریسی منطق میں اس طرح دلیل دینا ناقابل قبول شمار ہوگا۔"اگرباپ کو ناراض کردینے سے سات دن کی بےدخلی مقدر بنتی ہے تو خدا کو ناراض کرنے پر چودہ دن کی بےدخلی کامستحق ہوگا۔"اس طرح کابیان اپنے بارے میں کوئی دلیل نہیں رکھتا کیونکہ نتیجہ تک پہنچنے کے لیے ہم کیسے معلوم کرسکتے ہیں کہ مقدمہ میں دیئے گئے مواد میں کتنا اضافہ کرناہے؟اس بیان کی صحیح شکل صرف یہی ہے کہ "اگروالد کو ناراض کردینے سے سات دن کی بےدخلی کا مستحق ہوجاتا ہے تووہ سب جو اس  طرح خدا کا ناراض کرتے ہیں وہ سات دن کی بےدخلی کے حقدار ہیں۔"یہ اس بیان کی وہ شکل ہے جو بائبل میں پائی جاتی ہےجس کی طرف فریسیوں نے اپنی تشریح کو سہارادینے کے لیے نشاندہی کی ہے۔
            چاروں بیانات جو اوپر رومیوں کے خط سے پیش کیے گئے ہیں ان میں سے فقط چوتھا قل ہوامیر کے صحیح نمونے کی تصدیق کرتا ہےجبکہ دوسرے اپنے مقدمہ سے ثابت شدہ نتائج سے بالکل الگ ہیں۔ایک شخص کو نتیجہ اخذ کرلینا چاہیے کہ پولس اس طرح کے دلائل کی صحت کی شرائط سے واقف نہیں تھا ،چار میں سے  فقط ایک بیان کی درستگی اتفاقی کامیابی کو ظاہر کرتی ہے۔
            'قل ہوامیر'بیان تمثیل کی ہی ایک شکل ہے۔ یونانی منطق میں تمثیل منطقی شکل کے قابل یا درست کبھی نہیں سمجھی گئی۔نتیجتاً یونانی منطق نے خود کوفقط اس چیز تک محدود رکھاجسے آج کل set-theory کہاجاتاہےاور اس وجہ سے انہوں نے منطقی قیاس کو باضابطہ بنایا۔یہ سائنس میں مفید ہے جہاں انسانی تعلق کے بجائے گروہ بندی کی فکر کی جاتی ہے جہاں اکثر منطق کی شکل تمثیل کو استعمال کیاجاتاہے۔
            فریسی،جنہیں انسانی تعلق کے ان تانے بانوں کی فکرلاحق تھی جسے شریعت کہاجاتا تھا،کوتمثیل کی منطق کی ضرورت محسوس ہوئی۔پس انہوں نے ایک قانونی منطق کو ترقی دی جس کی بنیادفورتوری دلیل پر قائم تھی۔ڈایوکااصول بنیادی ذریعہ ہے جس کے ذریعے رسمی درستگی حاصل کی گئی مگر اس نے انہیں مزیدآگے جانے اور یہ سمجھنے کے قائل بنایا کہ قل ہوامیردلیل کے لیے کس طرح کے اعتراضات پیش کیے جاسکتے ہیں اور اس طرح کے اعتراضات کےکس طرح جواب دیئے جاسکتے ہیں۔ قانونی منطق کا طاقتور ہتھیار صرف یہی ہے جسے مغربی مفکروں اورمناطقہ کی جانب سے سراہاجارہاہے۔
            دوسری طرف یونانی مصنف اکثر فورتوری دلیل استعمال کرتے تھےلیکن ان کایہ استعمال رسمی صحت کوسمجھے بغیر پریشان کن اور مبالغہ آمیز طریقے سے ہوا کرتاتھا۔یہ وہی طریقہ ہے جس میں پولس دلائل دیتا ہے اورخودپر ایسے شخص کی مہرلگاتا ہے جس نے کبھی فریسیوں سے تربیت حاصل ہی نہیں کی۔ایک تربیت یافتہ فریسی اپنی تعلیم اس حد تک نہیں بھول سکتاتھا کہ اس میدان میں پیچید ہ اور غیر صحیح استدلات کرے جہاں ایک فریسی کسی بھی یونانی دان سے زیادہ اپنے اصولوں پر تکبر کرے۔پولس کی طرف سے فورتوری دلائل کااستعمال اکثراس لیے استعمال ہوتا ہے کہ پولس کو تعلیم کے لحاظ سے فریسی ظاہرکیاجاسکے لیکن درحقیقت یہ ثابت کرنے کی کوشش اسی پر الٹ جاتی ہے۔فورتوری دلیل کے استعمال کے سوا کوئی بھی چیز اس کی فریسی تعلیم کی کمی کوظاہر نہیں کرسکتی جسے وہ مبالغہ آمیزانداز میں بیان کرتاہے اوروہ یونانی دنیاکے منادوں کے مماثل توہوسکتا ہے مگر لیکن ربائیوں کے مشابہ نہیں۔
            اب اپنے دلائل کی مضبوطی کےلیے پولس کے عہدعتیق کی تفسیر کے استعمال کی طرف آتے ہیں۔پولس کے ربائی انداز کو ظاہر کرنے کےلیے ایک مثال اکثر بیان کی جاتی ہے جوکہ درج ذیل ہے:"مسیح جو ہمارے لیے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایاکیونکہ لکھا ہے کہ جوکوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے۔"(گلتیوں3:13) یہاں پولس استثناء کی کتا ب سے ایک آیت لے کر یسوع کی قربانی کو عظیم ثابت کرنے کے لیے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی موت کے ذریعے  اپنے اوپر لعنت لے لیتا ہےتاکہ انسان گناہوں کی لعنت سے چھٹکارا پاسکے۔
            بہت سے علماء نے یہ قبول کیا ہے کہ پولس کی استثناء کی آیت کی تشریح اس کے ہم عصر فریسیوں کی اس آیت کی تفسیر کا حصہ تھی لہٰذا پولس نے اس کو فریسی ذخیرہ ادب سے دلیل کی بنیاد کے طور پر لیا اگرچہ اس نے اس خیال کا اظہار  اپنے انداز سے کیا۔تاہم یہ ایک غلطی ہے۔لکڑی پر لٹکائے جانے والے شخص کےملعون ہونے کا خیال فریسی افکار کے لیے اجنبی تھااورفریسی استاد استثناء کی اس آیت کی تشریح اس طرح سے نہیں کیا کرتے تھے۔فریسی تحریک کے بہت سے معزز ارکان یسوع کی طرح مصلوب کیے گئے تھے اور انہیں اس طرح کی موت کے باعث کبھی بھی ملعون خیال نہیں کیاگیابلکہ وہ شہید وں میں شمار کیے جاتے تھے۔یہ خیال کہ ایک بے گناہ آدمی فقط اس لیے خدا کی طرف سے لعنت  مول لیتا ہے کہ وہ اتنا بدقسمت تھا کہ صلیب پر اذیت ناک موت مرا،کبھی بھی فریسیانہ خیالات کا حصہ نہ رہا تھا ۔فریسیوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ خدا بےوقوف یابےانصاف ہوسکتاہے اور اسے بےقصور مظلوم پر لعنت ڈالنے کے لیے بے وقوف اور بےانصاف ہونا پڑے گا۔
            حتی کہ مصلوب شخص کتنے ہی کبیرہ جرائم کامرتکب ہوتوبھی وہ کبھی بھی لعنت ذدہ نہیں سمجھا جاتاتھا۔(استثناء 21:23) کی آیت کی تشریح ربیوں کی طرف سے اس طرح کی گئی "شریعت کے  حکم کی تعمیل کے بعدمجرم کی لاش تھوڑی دیر کے لیے اونچی جگہ لٹکائی جاتی تھی لیکن پھر لاش کونیچے اتار لیاجاتاتھا اور بلاضرورت اونچا لٹکنے نہیں دیاجاتاتھا کیونکہ دوسرے الفا ظ میں لعنت متاثرہ شخص پر نہیں پڑتی تھی بلکہ ان لوگوں  پر پڑتی تھی جو لاش کی توہین اور بے قدری کے ذمہ دار ہوتے تھے۔ایک تشریح یہ تھی کہ مجرم کی لاش کو لٹکانے کی اجازت دیناکفرتھایالعنت تھی کیونکہ انسانی جسم خداکی صورت پر بنایاگیاتھا۔انگلش بائبل میں اس آیت کا ترجمہ کچھ اس  طرح سے ہے"اوراگرکسی نے کوئی ایسا گناہ کیا ہو جس سے اس کا قتل واجب ہو تواُسے مار کر درخت پر لٹکا دے تو اس کی لاش رات بھر درخت پر لٹکی نہ رہے تواسے اسی دن دفنائے گا کیونکہ خدا کی نظر میں لٹکاہواآدمی ناپسند ہوتاہے۔" یہ اس قضیہ کی فریسی تشریح کے مطابق ہے جوکہ اصل عبرانی کے مفہوم کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔
            پولس کی تشریح کسی بھی فریسی  ذرائع سے ماخوذ نہ تھی بلکہ یونانی صحیفے میں دیئے  گئے مبہم ترجمہ کے برعکس اس کا ذاتی ردعمل تھا۔فریسی مدراش کی ایک مثال مہیا کرنے کے لیے پولس گلتیوں کے خط کے اس مقام پر خود کو مدراشی تشریح کے مفہوم سے دورنکلا ہوا ظاہر کرتاہے۔مبہم تصورات، جیساکہ کسی کی موت کا طریقہ مہلک جادوکےاثر کی وجہ سے بعدازموت لعنت کے ماتحت ہونا ،یہودیت کے بجائے بت پرستی سے تعلق رکھتا ہے ۔ جہاں تک یہ تصور کہ یسوع نے خود پر لعنت لے کر دوسرے لوگوں سے لعنت کو دور کیا ،یہ بھی یہودی تصور میں ایک انوکھی اور اجنبی بات تھی لیکن بےشک یہ پولس کے دلائل کے انداز کے بجائے اس کےمرکزی علوم الٰہیات سے تعلق رکھتا ہے اور یہ مابعد کے اسباق میں زیربحث ہوگا۔
            پولس کے خطوط کے کچھ حصے علامتی طور پر فریسی خیال کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کوقانون پرستانہ ہوادی گئی ہے۔لیکن جب ان مقامات کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے تو بظاہر تشریعی رنگ فورا ظاہر ہوجاتا ہے اور یہ واضح ہے کہ شریعت سے تشریح کا استعمال بغیر کسی حقیقی شرعی باضابطگی کے فقط ایک بےسروپا ،مبالغہ آمیز دھوکہ ہے۔جیساکہ فریسی تحاریر میں اُس وقت بھی پایا جاتا ہے جب شرعی انداز بائبل کی واعظانہ تشریح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔رومیوں کے خط میں اس کی مثال موجود ہے۔
اَے بھائِیو! کیا تُم نہِیں جانتے(مَیں اُن سے کہتا ہُوں جو شَرِیعت سے واقِف ہیں) کہ جب تک آدمِی جیتا ہے اُسی وقت تک شَرِیعت اُس پر اِختیّار رکھتی ہے؟۔ چُنانچہ جِس عَورت کا شَوہر مَوجُود ہے وہ شَرِیعت کے مُوافق اپنے شَوہر کی زِندگی تک اُس کے بند میں ہے لیکِن اگر شوہر شوہر مرگیا تو وہ شَوہر کی شَرِیعت سے چھُوٹ گئی۔ پَس اگر شَوہر کے جیتے جی دُوسرے مرد کی ہوجائے تو زانِیہ کہلائے گی لیکِن اگر شَوہر مرجائے تو وہ اُس شَرِیعت سے آزاد ہے۔ یہاں تک کہ اگر دُوسرے مرد کی ہو بھی جائے تو زانِیہ نہ ٹھہریگی۔  پَس اَے میرے بھائِیو! تُم بھی مسِیح کے بَدَن کے وسیلہ سے شَرِیعت کے اِعتبار سے اِس لِئے مُردہ بن گئے کہ اُس دُوسرے کے ہوجاؤ جو مُردوں میں سے جلایا گیا تاکہ ہم سب خُدا کے لِئے پھل پَیدا کریں۔ کِیُونکہ جب ہم جسمانی تھے تو گُناہ کی رغبتیں جو شَرِیعت کے باعِث پَیدا ہوتی تھِیں مَوت کا پھل کرنے کے لِئے ہمارے اعضا میں تاثِیر کرتی تھیں۔  لیکِن جِس چِیز کی قَید میں تھے اُس کے اِعتبار سے مر کر اَب ہم شَرِیعت سے اَیسے چھُوٹ گئے کہ رُوح کے نِئے طَور پر نہ کہ لفظوں کے پُرانے طَور پر خِدمت کرتے ہیں۔ (رومیوں کاخط باب7فقرہ1تا6)
            اوپر بیان کردہ قضیہ حیرت انگیز طور پر ایسے ہاتھ سے گڈمڈ کیا گیا ہے جو کسی خاص صفت سے متصف تھا۔ پولس بیوہ کی دوسری شادی کے بارے میں تورات کی منسوخی اور مسیحیت کے نئے عہد کی آمد کا موازنہ کرنے کی کوشش کررہاہے۔لیکن وہ اپنے ذہن میں یہ بات واضح کرنے کے قابل نہیں کہ کون ہے جو بیوی کے برابر ہے اور کون شوہر کے مساوی ہے؟حتی کہ شوہریابیوی میں سے کسی ایک کی موت کاتعین کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہے۔بظاہر خظ وکتابت کا مقصد یہ لگتا ہے کہ "عورت کلیساء ہے،پہلا شوہر تورات ہے  اور دوسرا شوہر مسیح ہے۔"پولس ہمیں بتاتاہے کہ پہلے شوہر کے مرنے سے دوسری شوہر سے شادی کرنے کے لیے آزاد ہوگئی ہے۔اس لیے موازنے میں ،  تورات کی موت کے بعدکلیسیاء مسیح سے شادی کے لیے آزاد تھی،پڑھنا چاہیے ۔اس کے بجائے بیوی چرچ ہے جو مرتی ہے (اے میرے بھائیوں اور بہنوں!تم بھی مسیح کے بدن کے وسیلے سے شریعت کے اعتبار سے مرچکے ہو)اور  یہاں پر اس خیال کے ساتھ کہ،نیاشوہرمسیح مرچکا ہے ،کچھ کھیل کھیلا گیا ہے۔ صرف نام جوموازنے میں موت کے لیے استعمال نہیں کیا گیا وہ تورات ہے۔اس کے باوجود صرف یہی چیز ہے جو موازنے کودرست بناسکتی ہے۔
            دوسری طرف اس قضیہ میں بالکل ہی مختلف خیال پیش کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس موت کے بعد شرعی ذمہ داریوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ یہ وہی موضوع ہے جو پہلے بیان کیاگیاتھا کہ ایک شخص جب تک زندہ رہتاہے شریعت کاپابند رہتاہے اورموت کے بعد پابند نہیں رہتا۔بیوہ کااپنے شوہر کی وفات کے بعد شادی کے لیے آزاد ہونے کاتصور اس کے بالکل متضاد ہے،اس کے باوجود پولس مکمل طورپر اس حدتک دونوں معاملات کوالجھا دیتا ہے کہ  کچھ مقامات پر وہ ایسی بیوہ  اورشوہر کے بارے میں بات کرتا نظر آتا ہے جو ایک دوسرے سے شادی کرنے کے لیے آزاد ہیں اور قابل قبول بچے رکھتے ہیں کیونکہ نیاشوہر اور بیوہ دونوں ہی مردہ ہیں۔ الجھن اس سے زیادہ بدتر اور پرلے درجے کی نہیں ہوسکتی ہے۔
            ہمارے پاس ایک ایسےشخص کا معاملہ ہے جو شرعی تمثیل قائم کرنے کی کوشش کررہاہے مگر منطقی انداز میں سوچنے کی نااہلی کی وجہ سے بری طرح ناکام ہوتا ہے ۔یہ مقام ظاہر نہیں کرتا کہ پولس نے کبھی فریسی تربیت حاصل کی تھی بلکہ وہ اس کےخلاف تھا۔تاہم ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پولس یہاں ایک تربیت یافتہ فریسی کی طرح نظرآنے کی کوشش کررہاہے ۔وہ کسی حد تک متکبرانہ (مصنوعی) اندازمیں اعلان کرتا ہے کہ وہ جوکہنے جارہاہے اس کو وہی سمجھ سکیں گے جوشریعت کاعلم رکھتے ہیں اور وہ واضح طور پر شرعی مہارت دکھانے کی کوشش کرتاہے ۔یہ فطری بات ہے کہ کثرت سے فریسی تربیت کادعویٰ کرتے ہوئے پولس خاص مواقع پر اپناکرداراداکرنے کی کوشش کرنے چاہیے بالخصوص اُن لوگوں سے بات کرتے اور لکھتے وقت جو اس کی کارکردگی میں کسی قسم کی کوتاہی پہچاننے سے قاصر تھے۔اصل میں اس نے  فریسی فکر کی تمسخرانہ بگڑی ہوئی شکل کو پیش کیا ہے۔تمام فریسی دستاویزات میں لولے لنگڑے دلائل کی نمائش کے سواکچھ موجود نہیں ہے۔
            عمومی انداز میں کیا پولس کہتاہےکہ موت شرعی پابندیوں کو ختم کردیتی ہے۔اسی لیےیسوع کی موت اورکلیساء کے اراکین کی علامتی موت،یسوع کی قربانی کے ساتھ پرانے عہد سے منسلک پابندیوں سے آزادی میں سب کے سب شریک ہیں۔یہ عام خیال کافی واضح ہے،یہ فقط اتناہے کہ جب پولس ایک خودساختہ قانون بنانے کی کوشش کرتاہے،جس کی بنیاد شادی یادوبارہ شادی کے اس اصول پر قائم ہے کہ وہ خود کو پابندی میں باندھ لیتاہے۔چنانچہ وہ اپنی معقولیت کھو دیتاہےجہاں ایک فریسی تربیت اپنی موجودگی کوخود ہی بیان کردیتی ہے اگروہ کبھی فریسی رہاہو۔ایک مرتبہ پھر وہ ربائیوں کی واضح منطق استعمال کرنے کے بجائے روایت کے مشہور یونانی مبلغین کاانداز اپناتاہوادکھائی دیتاہے۔
            اسلوب ِبیاں کے نقطہ نظر سے پولس کی تحاریر کے متعلق مزیدیقینی سوچ کی طرف یہ چیز واپس لے آتی ہے کہ یہ سب یونانی میں لکھی گئی ہیں۔یقیناً ایسا لگتاہے کہ یہ حقیقت ان لوگوں کی طرف سے نظرانداز کردی جاتی ہے جو یہ ثابت کرنے کی پرزورکوشش کرتے ہیں کہ پولس نے ایک ربائی کی مانند سوچتااور لکھتاتھا۔پولس کی یونانی زبان ایسی ہی ہے جیسے کسی زبان بولنے والے مقامی کی ہو۔بےشک یہ کلاسیکل اور ادبی یونانی زبان نہیں ہے لیکن پھر بھی لغت اور انتخاب الفاظ کے لحاظ سے اس دور کی بولے جانے والی زبان(کوئنے کے نام سے معروف) ہے۔وہ فطری طورپریونانیت ذدہ دنیاسے اس قدر متاثر ہے کہ وہ ایک طرف مینڈر(ایک یونانی مسخرہ)کو تودوسری طرف معاصرغمگین شاعر کونقل کرتاہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولوس عبرانی زبان پر اتنی گرفت رکھتا تھا تو اسے فریسی درسگاہوں میں دی جانے والی تعلیم میں مصروف ہوجانا چاہیے تھا۔ہم جانتے ہیں کہ وہ آرامی زبان بول سکتا تھا (اعمال 21:40) لیکن اس کے لیے کسی تعلیم کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ زبان اس کے آبائی شہر ترسس میں مقامی زبان کے طور پر بولی جاتی تھی جہاں تجارتی اور مقامی زبان یونانی تھی۔ لیکن عبرانی کا معاملہ مختلف ہے۔یہ عبرانی بائبل کی زبان اور مشناح میں نظر آنے والی جدید عبرانی زبان دونوں شائستہ حالتوں میں علوم و فنون کی زبان تھی۔اصل ابتدائی عبرانی زبان میں بائبل کا مطالعہ تمام فریسی علوم وتعلیم کے لیے بنیاد تھا۔ بائبل کی عبرانی زبان کا سیکھنا پولس کے وقت میں ایک غیرمعمولی  امرتھا،جیساکہ تارگوم (بائبل کاآرامی ترجمہ)کی موجودگی سے ظاہرہوتاہے جسے ان عام یہودیوں کے فائدے کے لیے ترجمہ کیا گیا تھا جو بائبل کو عبرانی زبان میں سمجھ نہیں سکتے تھے۔
پولوس کی تحاریر سے اس بات کے بھی اشارے ملتے ہیں کہ وہ عبرانی زبان کا معمولی علم رکھتا تھا۔ پولوس کے بائبل سے لیے جانےوا لے اقتباسات (جو تقریباً 160 کے قریب ہیں) اصل عبرانی زبان کے بجائے تورات کے یونانی ترجمہ سے لیے گئے ہیں۔اس کا ادراک اس حقیقت سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ عبرانی بائبل کے جو اقتباسات یونانی بائبل سے مختلف ہیں عبرانی بائبل میں موجود نہیں ہیں۔مثال کے طور پر پولوس کا ایک بہت مشہور قول ہے (1کرنتھیوں 15:55) اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنگ کہاں رہا؟ یہ قول ہوسیع کے یونانی ترجمے سے اقتباس کیا گیا ہے (ہوسیع 13:14) لیکن عبرانی متن یہاں مختلف ہے۔ اے موت تیری وبا کہاں پر ہے؟ اے پاتال تیری ہلاکت کہاں ہے؟فریسی تحریک کاقانون بائبل چھوڑ کر کسی فریسی کا تورات کے یونانی ترجمے سے کسی قول کو اقتباس کرنا ناممکن اور خلاف قیاس بات سمجھاجاتاتھا۔

اگرچہ پولوس کی تحاریر میں  ایسی کوئی بات نظرنہیں آتی جو یہ ثابت کرےکہ پولس فریسی تھا ، لیکن ایسی بہت سی باتیں دیکھی جا سکتی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ وہ فریسی نہیں تھا۔ پولوس کے خطوط کے افسانوی مواد کا فریسی ذرائع سے تعلق جوڑنے کی خاطر بہت کھیل کھیلے گئے لیکن درحقیقت یہ افسانوی مواد فلسطین سے باہر یونانی زبان بولنے والے یہودی علاقوں سمیت تمام یہودی دنیا میں بہت مشہور تھا، جس سے کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مقام پر پولوس ایک معجزاتی کنوئیں کا افسانہ بیان کرتا ہے جو بیاباں میں بھٹکنے والے یہودیوں کے پیچھے پیچھے تھا (1 کرنتھیوں 10:4) لیکن اس قصے کا عہد عتیق کی ترتیب میں ملنے والے فریسی علوم کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں تھا، یہ اقتباس اب صرف لاطینی ترجمے میں ملتا ہے لیکن اس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پہلی صدی کے یونانی نسخے میں موجود تھا۔کسی بھی یونانی کتاب کے افسانوں تک رسائی حاصل کرنا پولوس کے لیے انتہائی آسان تھا اور وہ کسی کم علم شخص سے گفتگو کے ذریعے بھی ان داستانوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتا تھا جیسے قدیم یونانی کہانیوں کا مطالعہ کیے بغیر کسی بچے کو یونانی مصنف کی لکھی مافوق الفطرت کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔پس ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پولوس کی تحاریر کے ساتھ فریسی انداز و اطوار منسوب کرنا بذات خود ایک افسانہ ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔