زیرنظر مترجمہ تحقیق یہودی النسل ڈاکٹر ہائم مکابی کی کتاب "The Myth maker Paul & the Invention of Christianity"
کے باب نمبر3"The Pharisee"
کا ترجمہ ہے ۔اس باب میں ڈاکٹرہائم مکابی نے یسوع کے وقت موجود فریسی جماعت کی
ابتداء،ان کے مقاصد، اعتقادات ونظریات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس کی مدد سے
اناجیل میں پیش کی گئی فریسیوں کی تصویر کا حقیقی رخ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ڈاکٹرہائم
مکابی کاخاندان یہودی ربائیوں کاخاندان
ہے۔ان کے دادا مشہور ربائی رہ چکے ہیں۔ہائم مکابی تالمودی روایات اوریہودی ومسیحی
مذاہب کی تواریخ پر ہائی پروفائل اسکالر سمجھے جاتے ہیں اور یہودی تاریخ اور
عہدجدیدکے تاریخی پس منظر پر کئی کتب بھی تحریر کرچکے ہیں۔
یہ ترجمہ
میری اور محترمہ صباخان صاحبہ کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ہم اپنی اس کوشش میں
کس حد تک کامیاب ہوئے یہ تو بعدازمطالعہ آنے والی آپ کی قیمتی آرا ء سے ہی علم
ہوسکے گا۔آپ کی رائے کا منتظر۔عبداللہ غازیؔ
The
Pharisees
اگر ہم اس سوال کا جواب دیں کہ پولس فریسی تھا یا نہیں
یا پھر پولس کے دعوے کی حیثیت سمجھنے کے لیے ہمیں فریسیوں کے متعلق مکمل تفصیل جاننا ضروری ہے کہ وہ کون تھے
اور کس مقصد کے لیے سرگرم عمل تھے؟ یہاں ہم فقط فریسیوں کے مخالفت انگیز رویہ پر
مبنی انجیلی تصویر پر اکتفا نہیں کریں گے۔ اناجیل فریسیوں کا خاکہ کچھ اس طرح سے
پیش کرتی ہیں گویا کہ وہ یسوع کے اولین مخالف، سبت کے دن یسوع کی شفاء یابی کے عمل
پر تنقید کرتے اور اس شفاءیابی کی وجہ سے یسوع کے قتل کی سازش کرتے ہوئے نظر آتے
ہیں۔ انجیل یسوع کو بھی فریسیوں پر شدیدتنقید کرنے والا اور انہیں ریاکار و ظالم
کہنے والے شخص کے طور پر پیش کرتی ہیں،کیونکہ اس انجیلی نقش کالفظ فریسی، مغربی سوچ کے مطابق ریاکار کے مترادف
معنی میں ہیں جس کے ساتھ خودپسندی، حقارت، سخت گیری، آمریت پسندی اور علیحدگی پسند
جیسے نقائض منسوب کر دیئے گئے ہیں اور قوم یہود کو عمومی طور پر ایک دقیانوسی
کردار سونپ دیا گیا ہے۔
موجودہ سالوں میں بہت سے مسیحی علماء یہ صاف سمجھ چکے
ہیں کہ فریسیوں کی یہ انجیلی تصویر حقیقت کے بجائے فقط پروپگنڈا ہے۔فریسیوں کے
متعلق مستند معلومات کا ہمارا بنیادی ذریعہ خود انکی ضخیم دستاویزات، دعائیں،
مناجات، حکمت کی کتابیں، قانون کی کتابیں، خطبات، بائبل کی تفاسیر، پوشیدہ صحف
تاریخی کتب اور اس طرح کی دیگر کتابیں شامل ہیں۔ رسومات پسندی سے دور وہ لوگ تاریخ
میں ایک زبردست تخلیقی صلاحیتوں کی حامل جماعت کی حیثیت رکھتے تھے۔بہرحال فریسی
مذہبی قوانین کے نفاذ میں سختی اور شدت پسندی سے دور تھے (جیسا کہ پہلی صدی عیسوی
کا مؤرخ جوزفیس بیان کرتا ہے اور فریسی کتب کی کثرت سے تصدیق کرتا ہے) اور مروجہ
قوانین اور انسانیت کے ساتھ روادار، حالات کی تبدیل ہونے پر بائبل کے قوانین میں
اجتہاد کرنے میں لچکدار رویہ رکھنے والے اور اخلاقی تصور کی اصلاح کرنے والوں کی
حیثیت سے معروف تھے۔وہ ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے کیونکہ بائبل کو خداکاالہام
سمجھنے کے باوجود وہ بائبل کی تفسیر کے لفظ پرست نظریہ کے تارک تھے۔
مذہبی تعلیم کے لیے ان کے پاس تورات تھی اور وہ مکتوب
تورات کی طرح زبانی تورات پر بھی یقین رکھتے تھے جس نے مکتوب تورات کو بنیاد بنا
کر اس کی تفسیر، سوالات، توضیحات اس طرح سے کی کہ یہ (زبانی تورات) بھی ایک حقیقت
بن گئی۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ تحریری احکامات کی طرح زبانی احکامات بھی خدا کی طرف
سے موسی علیہ السلام کو دیئےگئے تھے۔ان میں سے بہت کچھ نئے تاریخی حالات کے ردعمل
کے وقت کے دوران وقوع پذیر ہوئے، مثال کے طور پر یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ کلیسیائی
عبادت کی دعائیں جیسا کہ اٹھارہ کلمات برکات، موسی علیہ السلام یا عبرانی بائبل کے
کسی نبی نے تشکیل دیئے ہوں۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ یہ دعائیں فریسی بزرگوں نے
مرتب کی تھیں، جنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ عبادات، تہواروں اور عید روزہ کی جنتریوں
(کلینڈر) میں بھی ہروہ کمی بیشی کی جو انہوں
نے مناسب سمجھی۔
اگرچہ فریسیوں نے مذہبی تعلیمات میں ایسے انسانی عنصر کی
موجودگی کا اقرار کیا جس کے متعلق خدا کی طرف سے ملہم ہونے کا دعوٰی نہیں کیا گیا
تھالیکن وہ اختلاف آراء یا مخالفت کرنے کے حق کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ فریسی تحاریر
اس وجہ سے بھی غیر معمولی ہیں کہ وہ مشنا اور تلمود کے ذخیرہ میں شامل ایک ہی چھت
کے نیچے کیے جانے والے ہر شرعی مسئلے پر اختلاف آراء کو محفوظ رکھتی ہیں۔بطور مثال
ایک مسئلے کو لیتے ہوئے ہم سنہڈرین کی کتاب کو دیکھتے ہیں کہ وہ معاملات جو ان
جرائم سے متعلق ہیں جن کی سزا کوڑوں سے دی جاتی ہے ، اس کا فیصلہ تین افراد کے ایک
ٹریبنل سے کیا جاتا ہے۔ربی اشماعیل کی طرف منسوب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ تکمیل
ماہ یا سال کے پورا ہونے کو تین افراد کے ٹریبنل کے ذریعے طے کیا جاتا ہے لیکن
ربائی سائمن بن گملیل کہتے ہیں : معاملہ تین افراد سے شروع ہوتا ہے ، پانچ افراد
کے ذریعے بحث کیا جاتا اور سات افراد کی رائے پر فیصلہ کیا جاتا ہے،لیکن اگر یہ
تین افراد کے ذریعے ہی طے ہو جاتا ہے تو بھی یہ فیصلہ درست ہے۔
ان تجاویز و آراء کا تبادلہ خیال کرنے والوں میں جو لوگ
شامل تھے وہ یسوع سے تقریباً سو سال بعد کے زمانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی
تحریک پولس اور یسوع کے معاصرین ان فریسیوں سے ہی چلی آرہی تھی۔ ان افراد میں کچھ
تو پشت در پشت اُس گملیل کی اولاد میں سے تھے جس کا ذکرعہد نامہ جدید میں شامل
اعمال کی کتاب میں موجوددہے کہ وہ پولس کے زمانہ میں فریسی جماعت کا سربراہ تھا۔
فریسی علماء مذہبی شرعی معاملات کے ساتھ ساتھ
علم عقائد میں بھی باہمی مباحثہ کیا کرتے تھے۔ جن معاملات میں فیصلہ کرنے کے لیے
ان کے پاس بحث کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں
بچتا تھا تو ایسے فیصلے اتفاق رائے سے منظور کیے جاتے تھے۔ ایک بار جب کثرت رائے
سے فیصلہ کر لیا جاتا تو اختلاف رائے رکھنے والے ربائی اس نتیجے کو تسلیم و قبول
کرنے کے لیے بلائے جاتے تھے اور وہ ان فیصلوں کو شریعت کے اصولوں کے عین مطابق
ہونے کی وجہ سے قبول کرتے تھے۔یہ انہی معنی میں متصور کیا جاتا تھا جنہیں آج
جمہوریت پسندی کی معنی میں سمجھا جاتا ہے جہاں ووٹ کے بعد مخالف جماعت بھی فیصلے
کو قانون کے طور پر قبول کرتی ہے۔فریسی کثرتِ آراء کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ان میں
ایک داستان مشہور تھی کہ ایک مرتبہ خدا نے مداخلت کرکے ایک اکثریتی فیصلہ کو تبدیل
کرنے کی کوشش کی (ایک آسمانی آواز کے ذریعے انہیں بتایا کہ اقلیت کا فیصلہ درست
ہے) لیکن یہ بتایا جا چکا تھا کہ وہ (خدا) صحیح نہیں تھا اگرچہ وہ خود ہی بزرگوں
کو کثرت آراء سے فیصلہ کرنے کا اختیار دے چکا تھا اور اس نے خود ہی تورات میں
فرمایا ہے کہ وہ (شریعت) آسمان پر نہیں ہے (استثناء 31:12) جس سے بزرگوں نے یہ
نتیجہ اخذ کیا تھا کہ معجزات و الہامی مداخلت کے بجائے تفہیم انسانی کے عمل کے
ذریعے تورات کا نفاذ کرنا تھا۔ یہ داستان جاری رہتی ہے اور خدا اس پر مسکراتا ہے
اور کہتا ہے "میرے بچوں نے مجھے مات دی"۔
اگرچہ بزرگوں کی مجلس فیصلے کرتی تھی لیکن ان فیصلوں کو
الٰہی اختیارات پر مبنی سمجھ کر قبول نہ
کیا جاتا تھا ۔ اختلاف رکھنے والی اقلیتوں کی رائے کو احتیاط سے قلمبند کیا جاتا
اور انہیں مشنا میں محفوظ کیا جاتا تاکہ مستقبل میں یہ نئے فیصلوں کی بنیاد بن سکے۔
(جیسا کہ خود مشنا
Eduyot 1:5 میں وضاحت کرتی ہے) جیسا کہ آج کل عدالت
عظمی میں اختلاف رائے کے حامل مصنفین کی آراء کو محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل
قریب میں بنائے جانے والے قوانین کی کوشش میں انہیں استعمال کیا جائے۔
تاہم فریسی الہامی سمجھے جانے والے صحف کی بنیاد پر بننے
والے تمام مذاہب کو قطعیت کی حامل کلیسیاء کے ساتھ جوڑنے سے پرہیز کرتے تھے۔ اس کے
بجائے انہوں نے اُن شرعی صحف کا تصور قائم کیا جو انسانی توجہ کا مرکز تھے اور
مسلسل انسانی توجہ اور فہم و فراست کی روشنی میں ان کی جانچ پڑتال جاری تھی۔ اس سے
زیادہ اہم بات یہ تھی کہ ان کے یہاں یہ تصور موجود تھا کہ خدا چاہتا تھا کہ اس کی
مداخلت کے بغیر انسانی استدلات کا عمل جاری رہے خواہ یہ کوشش غلطیوں سے پاک نہ بھی
ہو۔ اس لیے فریسی ایک دوسرے سے مخالفت اور تشدد کیے بغیر اختلاف رائے رکھتے تھے
کیونکہ یہ خطرے کے بجائے ان کی زندگی کا اہم جز تھا۔تاہم وہ کبھی کبھی ربائیوں کے
خلاف تادیبانہ رویہ اختیار کرتے تھے (جیسا کہ ربی العزر) جو کہ ان کے اختلافی مؤقف
کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی آراء کی منظوری کو قبول کرتا تھا جو کہ کثرت رائے کے
خلاف ہوتی تھی۔
یہ سب صرف مذہبی گفتگو میں ہوا کرتا تھا لیکن پھر بھی
ایسے تادیبانہ رویے اختیار کیے جاتے تھے۔علم الہیات کے دائرہ کار میں ایسی تدبیر اختیارنہیں
کی جاتی تھی کیونکہ وہاں عملی فیصلے کی ہنگامی ضرورت نہ تھی۔ بزرگ اور ان کے
جانشین ربائیوں کی طرف سے بغیر کسی بدعت کا فتوی لگائے وسیع اقسام کے نظریات رواں
رکھے گئے تھے۔اگرچہ المسیح پر ایمان کے بارے میں ایمان یا اس کی حکومت کے مسئلے کے
متعلق، ایک معزز ربی کے لیے ممکن تھا کہ وہ یہ نتیجہ اخذ کرے کہ مستقبل میں کبھی
بھی کوئی ذاتی مسیح نہیں ہو سکتا اگرچہ بائبلی مسیح کی پیشگوئیاں حزقیاہ کی ذات
میں پوری ہو چکی ہیں۔یہ ایک غیر معمولی بلکہ انوکھی رائے تھی لیکن سوال یہ ہے کہ
ربی اس سوال کی وجہ سے ہرگز بدعتی نہیں سمجھا گیا۔ مسیحیت کی ناقابل برداشت گروہ
پرستی جیسی بدعتوں سے یہ یہودی انداز بہت مختلف ہے جبکہ مسیحی عدم برداشت نے مسیح
سے متعلق اختلافی رائے رکھنے والوں کو سولی پر چڑھا دیا۔
فریسیوں نے متعدد گروہوں کو بدعتی سمجھا کیونکہ ان کی
حریف جماعتیں روایات پر مشتمل شریعت (Oral Traditions)کے نظریہ کو قبول
نہیں کرتی تھیں۔ فریسیوں کے خیال کے مطابق صدوقی بدعتی تھے جو کہ ایک طاقتور یہودی
گروہ تھا اور اناجیل میں بھی بکثرت ان کا ذکر پایا جاتا ہے جہاں انہیں بغیر کسی
واضح وجوہات بتائے فریسیوں کے مخالفین کی حیثیت سے متعارف کیا گیا ہے۔یسوع، پولس
اور ان کو درپیش حالات کی تفہیم کے لیے فریسیوں اور صدوقیوں کے مابین تعلق کو
سمجھنا نہایت ضروری ہے۔فریسیوں اور صدوقیوں کے درمیان،مخالفت کا اہم مسئلہ زبانی
شریعت کا جواز تھا۔زبانی شریعت کو رد کرکے صدوقیوں نے شارحین، بزرگوں، ربائیوں کی
کوئی ضرورت محسوس نہ کی جو نئے نظریات و واقعات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوئے صحف کی
تشریح میں مصروف تھے۔اسی طرح فریسیوں اور صدوقیوں کے درمیان فرق کو واضح طور پر
مذہبی پیشواؤں کے طور پر لایا گیا اور بعد میں ان کی تعظیم کی گئی۔ صدوقی پیشوا
بننے کے لیے کاہنوں اور بالخصوص سردار کاہن میں تبدیل ہو گئے جبکہ فریسیوں کا بہت ہی
مختلف شخصیت کے طور پر ظہورہوا جن کے کردار یہودیوں کے زبانی منتقل ہونے والے
قانون کے مطابق تھے۔ کہانت کا عہدہ مورثی تھا جو موسیٰ کے بھائی ہارون کی نسل سے
چل رہا تھا۔ ہیکل کی خدمت میں ان کے کام مخصوص تھے اور ان کی مدد اس رقم سے ہوتی
تھی جو عام آبادی کی آمدنی کے دسویں حصہ کو لے کر جمع کی جاتی تھی، مگر وہ رقم
دینا فرض نہیں تھا۔ کاہنوں کو مذہبی پیشواؤں کے طور پر دیکھنے کا مطلب یہ تھا کہ
ہیکل مذہبی زندگی کا مرکز ہو۔ اس وقت تین ادارے صدوقی مذہب میں توجہ کا مرکز تھے،
بائبل، ہیکل اور کہانت۔
دوسری طرف فریسیوں کے لیے کہانت اور ہیکل ثانوی اہمیت کے
حامل تھے۔ وہ کاہن کو پیشوا یا روحانی رہنماء کی حیثیت نہیں دیتے تھے بلکہ ان کو
محض رسوماتی عامل سمجھتے تھے جن کا کام ہیکل کے اندر قربانیوں کا عمل جاری رکھنا
اور ہیکل کی عمومی دیکھ بھال کرنا تھا۔ یہاں تک کہ سردار کاہن کو بھی محض ایک عامل
سمجھتے تھے جس کے پاس مذہبی امور پر بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ فریسیوں کی
ایک کہاوت تھی '' ایک عالم حرامی کو ایک جاہل کاہن پر سبقت حاصل ہے''، اور درحقیقت
فریسی ذیادہ تر کاہنوں کو جاہل سمجھتے تھے۔
فریسی رہنمائی کے لیے کاہنوں کے بجائے اپنے رہنماؤں ،
ربیوں کی طرف دیکھتے تھے، جو کہ ایک مورثی عہدہ نہ تھا، بلکہ اس میں ہر معاشرتی
طبقہ کے لوگ شامل تھے، یہاں تک کہ غریب ترین لوگوں میں سے بھی بڑی تعداد ان کی
جماعت کا حصہ تھی۔ ربائی درحقیقت عام رہنماء تھے جنہوں نے اپنے اختیارات ( یہودیت
کے) فریسیوں کی تعلیم پر مشتمل وسیع و عریض مواد پر عبور پا لینے کے بعد حاصل کیے۔
اس میں نہ صرف پوری عبرانی بائبل تعلیم کے پہلے قدم کے طور پر شامل تھی ، بلکہ
مکمل قانون کی ساخت، تاریخ ، سائنس، اور تبلیغی تفسیر (مدراش) بھی تھے، جن کو
فریسی تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔ ایک فریسی فقیہ کے لیے بیک وقت ایک ماہر
قانون دان اور ایک متاثر کن مبلغ ہونا ضروری تھا۔کیونکہ بائبل میں بھی ان دونوں
طرز کی تعلیمات موجود تھیں، مکمل آئینی قانون اور تاریخ کا خاکہ ، یہودیوں کے
روحانی مشن کے نظریہ کے ساتھ اور اس کی حیثیت خدا کے انسانیت کے مقاصد کے لیے۔ اس
لیے یہ ممکن تھا کہ ایک دن ایک فریسی ربی ایک جج کا کردار ادا کر رہا ہو جس نے ایک
ایسے مشکل کیس کا فیصلہ کرنا ہو جس میں ہرجانے کے قوانین مداخل ہوں، اور دوسرے دن
وہ سینیگاگ میں خدا سے استغفار کرنے والے گنہگار بندوں سے محبت کا پرچار ،ان مختلف
مثالوں کو بیان کرتے ہوئے کر رہا ہو جو نہ صرف بائیبل سے اخذ کی گئی ہوں بلکہ اس
کے اپنے تصورات سے بنائی گئی سادہ تمثلات بھی ہوں یا پھر فریسی تبلیغی مواد سے لی
گئی ہوں۔ تاریخ کے اس مقام تک فریسی ربی ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے ایک پیشہ
ور طبقہ نہیں بنے تھے ، عمومی طریقہ یہ تھا کہ ہر فریسی عالم کا اپنا پیشہ ہوتا
تھا جس سے وہ اپنی گزر اوقات کرتا تھا۔ان کے پیشوں میں سے کچھ اپنی حیثیت میں
ادنیٰ تھے۔ وہ معاشرے کو بغیر کسی معاوضے کے اپنی خدمات دیتے تھے یا زیادہ سے
زیادہ ان اوقات کا معاوضہ لیتے تھےجو ان کے اپنے کمانے کے اوقات میں سے چھوٹ جاتے۔
کاہنوں سے فریسی ربیوں کی طرف اختیار منتقل ہونے کے
نتیجے میں ہیکل کی حیثیت بھی ان کی نظر میں اس سے مختلف ہو گئی جو صدوقیوں کی
مقبوضہ تھی۔(ان کے نزدیک) ہیکل تعلیم کی جگہ نہ تھی بلکہ صرف مذہبی رسومات کی
ادائیگی اور قربانی کی جگہ تھی، اور جب تک فریسیوں نے جانوروں اور سبزیوں کی
قربانی کی اہمیت کو تسلیم نہ کیا تھا ( جبکہ بائبل نے انہیں قائم کیا تھا ) وہ ان
رسومات کو اپنی مذہبی زندگی کا مرکز نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس بات پر زور دیتے تھے
کہ لوگ آپس میں اچھے طریقے سے مل جل کر رہنے کا علم حاصل کریں اور اس بات پر کہ
محبت اور عدل کے اصولوں پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔ جس ادارے میں اس فرقہ کی
تعلیم کا عمل ہوتا تھا وہ عبادت گاہ ہیکل نہیں بلکہ سینیگاگ تھا ۔فریسی خود مختیار
گروہ یعنی مقامی مذہبی برادری کو فروغ دینے کے بانی تھے۔
مذہب کی مرکزیت کا خاتمہ اور اس کا کئی مقامی مراکز میں
تقسیم ہونا ہی فریسیت کی روایتی شکل تھی اور ایسا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ یروشلم
میں لوگ کہانت کو مقامی فریسی علماء کے مقابلے میں بے واسطہ اور غیر حقیقی سمجھنے
لگے تھے، جن(فریسی علماء) کے پاس وہ اپنے مسائل لے کر آ سکتے تھے اور جو سینیگاگ
میں ان کو باقائدہ ہدایات دیا کرتے تھے۔ ایسا فریسی عالم ان کی اپنی صفوں میں سے
ہوتا تھا، جو ان پر کسی قسم کی شاہانہ فضیلت کا دعویٰ دار نہیں تھا، اور نہ ہی کسی
جادوئی یا بعید از فہم اختیارات کا دعویٰ کرتا تھا بلکہ ان کو محض وسیع حدود میں
علم حاصل کرنے پر زور دیتا تھا اس لیے کہ حصولِ علم کو ہر یہودی کی ذمہ داری اور
ہر نیک اور مفید زندگی کی اساس سمجھا گیا تھا ۔ اس طرح فریسی نہ صرف خود مختیار
جماعت کے بانی تھے بلکہ وہ تعلیم کے عالمگیر ہونے کے خیال اور عمل کے بھی بانی
تھے۔ اگرچہ یہاں بھی وہ اس بات کے دعویٰ دار تھے کہ وہ صرف بائیبل کے احکام کو
پورا کر رہے ہیں جو کئی جگہوں پر علم کی فرضیت پر زور دیتی ہے۔
کہانت کے ساتھ اختیارات کے اس معرکہ کے دوران فریسوں نے
کبھی خود کو نئی بدعات ایجادکرنے
والا یا انقلابی نہیں گردانا، بلکہ خالص یہودیت کو قائم کرنے والا ہی کہا۔بائبل کے
مطابق سب سے بڑی تدریس کی ذمہ داری کاہنوں کے بجائے انبیاء کو دی گئی تھی جو
موروثیت کے دعویٰ دار نہیں تھے اور کسی بھی معاشرتی طبقہ میں سے ہو سکتے
تھے۔اسرائیلی مذہب کے بانی موسیٰ نے خود کو سردار کاہن نہیں بنایا تھا بلکہ اپنا
منصب اپنے بھائی کو دیا جو کہ ایک فرضی رشتہ تھا ۔ اسی لیے ربائی اپنے آپ کو
انبیاء کا مورث سمجھتے تھے، خاص طور پر موسیٰ کا، اور اسی طرح تعلیم و تعلم کی ذمہ
داری کا مورث بھی سمجھتے تھے جس کو ہمیشہ سے عملی اور مذہبی یہودیت میں کاہنوں کے
منصب سے بہت احتیاط سے ممیز رکھا گیا تھا۔ تاہم ربائی اپنے لیے نبوت کے دعویٰ دار
بھی نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبوت بائبل کے آخری علماء کے ساتھ ختم ہو گئی ہے،
اور اب صرف دورِ مسیاح میں ہی دوبارہ شروع ہوگی۔ان کے خیال کے مطابق ان کا کام
اجتماعی کوشش کے ساتھ جدید سائنسی طریقہِ کار کی طرح بائبل کے الہامی الفاظ کی
توضیح کرنا تھا، جس میں ہر ربائی اپنے زخیرہِ خیالات اور توضیحات کو باقی سب کے
پاس پیش کرتا۔ نتیجتاْ انہوں نے منطقی تجزیہ اور مناظرہ کو مطابقت کے ذریعہ پروان
چڑھایا۔ جس نے تالمود کی صورت میں انسانی عقل و دانش کی ایک عظیم کامیابی کو ظاہر
کیا، جس میں انتہائی دانشمندی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ اخلاقیات ،
کاروباری اخلاقیات ، اور قانونی انتظامیہ پر ایسے طریقوں سے بحث کی گئی جو اس دور
کے لحاظ سے کہیں ترقی یافتہ تھے۔
دوسری طرف صدوقی یہ سمجھتے تھے کہ وہ نت نئی بدعتوں کے
خلاف پرانے نظام کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک بائبل ، کہانت اور ہیکل قابلِ
تعظیم تھے۔ان کے نزدیک بائبل کو توضیح کے لیے کسی قسم کے پیچیدہ مواد کی ضرورت نہ
تھی، کہانت کو اس کے تکملہ کے طور پر بلاوجہ دخل انداز ہونے والے عام علماء کے ضرورت
نہ تھی، اور ہیکل میں ہر طرح کا کفارہ دیا جا سکتا تھا ، بغیر اس کے کہ سینیگاگ کو
عبادت ، تعلیم یا تبلیغ کے لیے بلاوجہ اہمیت کا حامل بنایا جائے۔بہت سے جدید محقق
صدوقیوں کو قدیم یہودیت کے نمائندوں کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن اس تصور میں سنگین
نقائص ہیں۔صدوقی پرانے نظام کو تو بچا رہے تھے لیکن یہ قدیم نظام بھی قدرے نئے
زمانے کا تھا، جو تیسری صدی قبلِ مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ جب یہود پر مصر کے یونانی
بطلموسیوں کی حکومت تھی۔ اس دورِ حکومت میں اس خطہ کے اندر کہانت کو یونانی فرماں
روا اور اس کے جانشینوں کے ذریعہ مرکزی درجہ اور طاقت ملی، سکندر ِ اعظم کی طاقت
سے(to the power of
Alexander the great) اس دور میں کہانت کو غیر
ملکیوں کے حکومت کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ یہ اس طرز کا کردار تھا جو رومیوں کے
دور میں حکومت کو قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا. غیر ملکی حکومت ( جو کہ اس وقت
مصر کے بطلموسی یونانیوں سے شام کے سلوقی یونانیوں سے بدل چکی تھی) کے خلاف یہود
کے دور ِ بغاوت میں (160 قبل مسیح)جب فریسی ایک امتیازی تحریک کے طور پر ظاہر ہوئے
تو ان کا مقابلہ کاہنوں سے نہ صرف مذہبی وجوہات کی بناپربلکہ سیاسی وجاہات کی وجہ
سے بھی ہوا۔ وہ یہودیوں کو کاہنوں کے چنگل سے آزاد کرنا چاہتے تھے ، نہ صرف اس
لیے کہ ان کو پیغمبرانہ طریقہ کے مطابق عام علماء کی طرف لوٹایا جائے بلکہ اس لیے
بھی کہ کہانت کو اس کے حقیقی ، بائبل والے کردار تک محدود کیا جائے ، یعنی وہ
سیاسی طاقت کے مرکز کے بجائے صرف رسومات ادا کرنے والی جماعت ہوں۔
فریسیوں اور کاہنوں کی یہ سیاسی کشمکش یہود کے غیر ملکی
یونانیوں سے آزادی کے بعد بھی جاری رہی جو کہ پھر بعد میں اپنے ساتھی یہودیوں پر
سلطنت اور اعلی کہانت کے ہمراہ برسرِ اقتدار ہوئے اور بادشاہت کو کہانت کے ساتھ
لازم و ملزوم کر دیا تاکہ سردار کاہن کے سیاسی اختیارات میں مزیداضافہ ہوتا رہے۔اگرچہ
فریسیوں نے آئینی ترقی کی سخت مخالفت کی جس کے نتیجے میں حشمونی بادشاہوں کی طرف
سے سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ لوگ جو فریسیوں کا ناکافی اور متعصب تصور پیش
کرتے ہیں ان کے پاس فریسیوں کا بطور "طاقت مخالف" کے کوئی حوالہ نہیں
پایا جاتا۔ ظالم کی بجائے وہ تو مخالف جماعت کی صورت میں تھے۔ سیاسی پہلو سے فریسیوں
کی ایک بہتر تصویر جوزیفس سے حاصل کی جاسکتی ہے جس نے درحقیقت اس تصور کی مخالفت
کی ہے کہ فریسی سیاسی اختیارات کے حاملین کے لیے فسادی اور پریشانی کا باعث تھے۔
یہ واضح رہے کہ صدوقیوں کے مذہبی مقام کی وجہ سے کاہنوں
کو اونچے اختیارات کا مرتبہ حاصل ہوا، پھر بھی یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ کہانت کا
نظام مکمل طور پر صدوقیوں کے نظریات کا حامی رہا۔ زیادہ تر عوامی طبقے کے کاہن
فریسیوں کے حامی تھے اس لیے وہ مذہبی اور سیاسی طور پر بد چلن "سردار کاہن
" کے مخالف تھے۔ یہودی عوام کی طرح عام کاہنوں نے بھی فریسیوں کو بطور
راہنما، بزرگ اور روحانی پیشوا کے قبول کیا اور محض اس وجہ سے کہ ان کا تعلق
ہارونی شریعت سے تھا،اور انہوں نے خود کو بطورِ حریف پیش نہیں کیا۔ انہیں قبول تھا
کہ مذہبی استاد کے بجائے بطور کاہن وہ ہیکل کے مالک تھے. ان میں سے کچھ تو باقاعدہ
فریسیوں کی درسگاہوں کا حصہ بنے۔ کیونکہ وہاں کسی پر بھی عالم بننے پر پابندی نہیں
تھی یہاں تک کہ کاہنوں پر بھی نہیں۔
کاہنوں میں کچھ خاندان امیر اور سیاسی طور پر بااثر اور حکومت کی طاقت رکھنے والے بھی تھے جو کہ صدوقی تھے۔ صدوقی جماعت یہودیوں کے درمیان ایک اقلیت تھی جو کہ امیروں، زمینداروں اور کاہنوں پر مشتمل تھی۔ ان جیسے لوگ در اصل ابن الوقت تھے اور جس کے پاس طاقت اور اقتدار ہو ان کے ساتھ اتحاد میں آجاتے تھے۔ چاہے وہ بطلیموسی یونانی ہوں، سلوکسی یونانی ہوں، حشمونی، ہیرودیسی ہوں یا رومی۔ اس لیے صدوقیوں کو عام بد امنی اور اضطرابی کیفیات سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ہیکل جو کہ یہودیت کا خاص مرکز تھا کسی بھی حکومت کے قبضے میں آسکتا تھا اور اس پران کے شرکاء کی حکمرانی ہو سکتی تھی۔ لیکن یہودیوں کے حقیقی مراکز جو کہ سینیگاگ تھے وہ فریسیوں کے زیر اہتمام تھے۔ وہ ایسے غیر نمایاں اوربظاہر ناقابلِ ذکر تھے کہ ان کی جانب کسی کو قبضے کا خیال نہیں تھا۔ اگر چہ رومی اقتدار کے علم میں تھا کہ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے یہودیوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ پولس اور یسوع کے دور میں رومیوں کی حکمرانی تھی جنہوں نے سردار کاہن کا تقرر کیا، جیسا کہ رومیوں سے پہلے ہیرودیوں نے بھی کیا تھا۔ رومیوں نے سوچا تھا کہ اپنے آدمیوں کو سردار کاہن کے منصب پر فائز کرکے یہودی مذہب پر انکی حکومت قائم ہوگئی، جبکہ انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ یہودی مذہب میں ظاہری طور پر روحانی پیشوا سردار کاہن کی کوئی وقعت نہیں تھی اور وہ ذاتی طور پر یہودیوں کی اکثریت کے نزدیک بہت ناپسندیدہ شخصیت تو تھی ہی، ساتھ ہی خواص کے نزدیک بھی سردار کاہن مذہبیات میں کوئی اختیار نہ رکھتا تھا۔
کاہنوں میں کچھ خاندان امیر اور سیاسی طور پر بااثر اور حکومت کی طاقت رکھنے والے بھی تھے جو کہ صدوقی تھے۔ صدوقی جماعت یہودیوں کے درمیان ایک اقلیت تھی جو کہ امیروں، زمینداروں اور کاہنوں پر مشتمل تھی۔ ان جیسے لوگ در اصل ابن الوقت تھے اور جس کے پاس طاقت اور اقتدار ہو ان کے ساتھ اتحاد میں آجاتے تھے۔ چاہے وہ بطلیموسی یونانی ہوں، سلوکسی یونانی ہوں، حشمونی، ہیرودیسی ہوں یا رومی۔ اس لیے صدوقیوں کو عام بد امنی اور اضطرابی کیفیات سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ہیکل جو کہ یہودیت کا خاص مرکز تھا کسی بھی حکومت کے قبضے میں آسکتا تھا اور اس پران کے شرکاء کی حکمرانی ہو سکتی تھی۔ لیکن یہودیوں کے حقیقی مراکز جو کہ سینیگاگ تھے وہ فریسیوں کے زیر اہتمام تھے۔ وہ ایسے غیر نمایاں اوربظاہر ناقابلِ ذکر تھے کہ ان کی جانب کسی کو قبضے کا خیال نہیں تھا۔ اگر چہ رومی اقتدار کے علم میں تھا کہ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے یہودیوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ پولس اور یسوع کے دور میں رومیوں کی حکمرانی تھی جنہوں نے سردار کاہن کا تقرر کیا، جیسا کہ رومیوں سے پہلے ہیرودیوں نے بھی کیا تھا۔ رومیوں نے سوچا تھا کہ اپنے آدمیوں کو سردار کاہن کے منصب پر فائز کرکے یہودی مذہب پر انکی حکومت قائم ہوگئی، جبکہ انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ یہودی مذہب میں ظاہری طور پر روحانی پیشوا سردار کاہن کی کوئی وقعت نہیں تھی اور وہ ذاتی طور پر یہودیوں کی اکثریت کے نزدیک بہت ناپسندیدہ شخصیت تو تھی ہی، ساتھ ہی خواص کے نزدیک بھی سردار کاہن مذہبیات میں کوئی اختیار نہ رکھتا تھا۔
یہودی معاشرے میں سرکارکاہن کے مشکوک کرداراورمقام کو سمجھے
بغیریسوع اور پولس کے دورکےواقعات کو سمجھنا ناممکن ہے۔ایک طرف وہ ہیکل کی عظیم
رسومات کی قیادت کرنے والی ایک عمدہ اور شاندار شخصیت کے طور پرآتا ہے تودوسری طرف
وہ ایسا شخص ہے جس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔انجیل کا عام قاری اس سے یہی تاثر لیتا
ہے کہ یہودیت میں کاہن اعظم کاوہی مقام ہے جو کیتھولک چرچ میں پوپ یا انگلینڈ کے
چرچ آف کانٹبری میں آرچ بشپ کا ہے۔یہ غلطی اس حقیقت سےنمایاں ہوتی ہے کہ مسیحیت
میں رسومات کی ادائیگی کاقانون ہمیشہ سے
ہی تعلیم دینے کے قانون سے جڑا رہاہے،مسیحی پادری عبادات ادا کرتے اور لوگوں کو
خطبوں اور درس کے ذریعے تعلیم دیتے ہیں۔اس لیے مسیحی اس بات سے ناواقف ہیں کہ یہودیت
میں یہ دونوں کردارہمیشہ جدارہے ہیں۔ قربانیاں اداکرنے والا شخص مذہبی اعتقادات و
احکام شرائع کو بیان نہیں کرتا ہے اور نہ ہی برانگیختہ کرنے والے مقرر یانبی کا
کرداراداکرسکتاہے۔ان کرداروں کی لانظیر تقسیم نے یہودی مذہب کی بقا کوبےشمار فائدے
دیئے ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ مخصوص مذہبی مراکز کی خرابی وتباہی نے اس کے
تسلسل پر بہت کم اثر ڈالاہے۔کہانت اکثرمایوس کن حدتک خرابی کا شکارہوئی لیکن جب تک
فریسیت جیسی تحاریک کاوجود رہا مذہب پر ان خرافات کا زیادہ اثر نہ پڑا۔حتی کہ ہیکل
کی تباہی(جسے غیریہودی افراد نے انہدام یہودیت سے تعبیر کیا)سےبھی ایسے نتائج نہ
نکلے کیونکہ بقاء مذہب کا انحصار ہیکل کی موجودگی اوررسومات کی ادائیگی پر موقوف
نہ تھا۔
یسوع اور پولس کے زمانے میں کہانت عظمی کی بددیانتی کی تصدیق بحیرہ مردار سے ملنے والے صحیفوں کے
گروہ اور اسینیوں سے بھی ہوتی ہے۔تاہم یہ فرقہ ہیکل اور منصب کہانت میں ہونے والی
خیانت کے متعلق اپنے ردعمل میں فریسیوں سے بہت مختلف تھا۔فریسی کاہنوں کےساتھ
تعاون کے قائل تھے کیونکہ وہ انہیں اس قدر اہم خیال نہیں کرتے تھے۔ان کے نزدیک
کہانت چونکہ روحانی طاقت کی علامت کے بجائے محض رسومات کی ادائیگی کرنے کا عہدہ
تھا اس لیے جب تک وہ اپنی کم قابلیت کے
ساتھ رسومات اداکرنے کا فریضہ سرانجام دیتا رہتاان کو اس سے کوئی سروکار نہیں
تھاکہ وہ شخصیت کے لحاظ سے کتناناقص ہے۔شریعت کو نظرانداز کردینے کے ساتھ ساتھ
ہیکل کی خدمات کی ادائیگی میں صدوقی عملیات کو متعارف کروانےکی کوشش کے معاملے میں
بھی فریسیوں کو تحفظات لاحق تھے جس کی وجہ سے وہ سردارکاہن کے فرائض کی تکمیل
کاجائزہ لیتے تھے۔ایک بار یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جاتیں تو وہ مطمئن ہوجاتے
تھے تاکہ ہیل کی خدمات سرانجام دینے والوں کی علمی وخلاقی کمی کوتاہی کے باوجودہیکل کی خدمات درست رہیں۔
بحیرہ مردارکے صحائف کاہنوں کے معاملے کو اس سے کئی
گنازیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ منصب کہانت مایوس کن
حد تک بدعنوان ہوچکاہے لہٰذا انہوں نے خود
کومکمل طور پر یہودی معاشرے سے نکال لیا اور ایک الگ سے راہبانہ جماعت تشکیل دی جس
کی امیدوں اور دعاؤں کا محور وہ ایام تھے جب اصل ہیکل کی خدمات بحال ہوجائیں گی۔فریسیوں
کی نسبت بحیرہ مردار کے صحائف ہیکل اور کاہنوں کے کردار کا صحیح جائزہ پیش کرتے
ہیں ۔جدید علماء کے مطابق وہ صدوقیوں کا ایک علیحدگی پسند گروہ تھا جنہوں نے خود
کو "راستی کے فرزند"کے نام سے موسوم کرلیاتھا۔انہوں نے سیاست اور خرافات
کے جڑپکڑنے سے قبل کے خالصتاًصدوقی نظریات کو متعارف کروایا جوکہ بائبل،ہیکل اور
کہانت کی مرکزی اہمیت پر مشتمل اور فریسی تحریک کامخالف تھے۔
جب ہم عہدجدیدکے واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں جہاں سردارکاہن
کی شخصیت یسوع اور نہ ہی پولس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے،ہمیں سردارکاہن کے کردار کے
متعلق تصورات سےخودکوآزاد اورتاریخی حقائق کی روشنی میں ان معاملات کوسمجھنا پڑتا
ہے۔فریسی تحریک اور اس وقت کے سردارکاہنوں کے درمیان شدید مخاصمت کوذہن میں لاکر
عہدجدید پر گہری روشنی ڈالی جاسکتی ہے کہ وہ (کاہن)صرف صدوقی ہی نہیں تھے بلکہ رومیوں کی طرف سے مقرر کردہ ایجنٹ تھے
اور رومی قوت کے ساتھ دشمن کی جاسوسی پر مامور تھے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔