بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ کا رفیق
عبداللہ غازیؔ
اس تحریر کو پی ڈی ایف میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے
یقیناً ہم یہاں فریسی ازم کی ابتدائی کلیسیاء میں امتیازی حیثیت پر مزید توجہ دیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ رکھیں گے کہ خود یسوع نے اس بارے میں کیا بتایا ہے؟
اعمال کی کتاب اس بات کی گواہ ہے کہ ابتدائی کلیسیاء خود بھی ایک نئے مذہب کے بجائے یہودیت ہی کی ایک شاخ کی حیثیت سے شناخت رکھتا تھا۔ اس کے جمیع ارکان مکمل سرگرم یہودی ہی تھے جو شریعت کے تمام قوانین بشمول ختنہ، خوراکی پاکیزگی کا نظام، سالانہ عبادتی تہواروں کی مکمل پاسداری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ قربانی ادا کرنے کی غرض سے کثرت سے ہیکل میں حاضر ہوتے (اعمال 2:46) اور ہیکل کے احاطے میں داخلے سے قبل غسل کرنے کی ہدایت کے ذریعے مذہبی ارکان کی پاکیزگی کے ضابطے پورے کرنے میں احتیاط برتتے ہوئے ہیکل کی رسومات کی بہت زیادہ تعظیم کرتے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت ان کی ہیکل کی رسومات کی ادائیگی بالکل فریسیوں کی طرح دیگر سرگرم یہودیوں سے بہت اوپر جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب فقط اعمال کی کتاب کے متن سے ہی ظاہر نہیں ہے بلکہ کلیسیائی روایات میں بھی موجود ہے اور خصوصی طور پر یعقوب برادر یسوع کی طرف منسوب کی گئی ہیں جو کہ ہیکل میں حاضر ہونے کے معاملات میں یروشلم چرچ کے سربراہ تھے۔ (Hegesippus, quoted by Eusebius, Ecclesiastical history, 2.23) کچھ علماء اس شہادت کو خلل ڈالتے ہوئے پاتے ہیں کہ یہ نتیجہ اعمال کی کتاب کی سادہ سی وضاحت میں شک ڈالنے کی کوشش ہے۔ یہ زوردار مثال ہے اس غیر تعصبانہ مظاہرہ کی جو عہد جدید کے نئے دور کے علماء میں بہت عام ہے۔ ایک مقدس تشکیک جو اپنے علم کے متعلق ان کے ذہن میں جگہ بنا چکی ہے جہاں متن کی قبولیت عیسائیت کے مقررہ عقائد کے خلاف چلتی ہے۔ مسیحی علماء متن کے بارے میں شکوک و شبہات میں جانے اور زیرِ بحث متن کی تاریخی حقیقت کو جھٹلانے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ کبھی کبھی غیر مسیحی عالم عہد نامہ ِ جدید کے متن کو قبول کر لیتے ہیں اور یہ پچھلی نسلوں میں ہونے والی حیران کن تبدیلی ہے۔
ہیکل کے لیے عقیدت اور خلوص کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی تھا کہ ابتدائی کلیسیاء کے زعماء نے خود کو کبھی کاہن نہیں گردانا تھا، نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کی ایک نشانی نئی کہانت کی زیرِ نگرانی ادا کی جانے والی رسومات (ساکرامنٹ) بھی ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسیحیت میں عشائے ربانی کی بنیاد رکھی گئی اور اس رسم کا انتظام کرنے کے لیے ایک نئی کہانت کی بنیاد بھی رکھی گئی، جس کے نتیجہ میں مسیحیت یہودیت سے بالکل الگ ایک نیا مذہب بن گیا۔ لیکن ابتدائی کلیسیاء میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ اعمال کی کتاب اس کا ثبوت ہے کہ یروشلم کے چرچ میں عشائے ربانی کی رسم کا کوئی تصور نہ تھا۔ اور اعمال کی کتاب کے اس ثبوت کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے جو Didach( یروشلم چرچ کی ابتدائی دستاویز کا ایک بڑا حصہ) میں آیا ہے اور شراب اور روٹی کی ایک رسم کے بارے میں تفصیل فراہم کرتا ہے (یہ عشائے ربانی سے بالکل مختلف رسم ہے) لیکن اس میں شراب اور روٹی کو یسوع کے خون اور جسم سے تشبیہ نہیں دی جاتی تھی۔اور یوں جو رسم بیان کی گئی ہے وہ سادہ یہودی قدوش Qiddush ہی ہے جو کہ سبت یا تہوار کے کھانوں سے پہلے ادا کی جاتی ہے۔ عشائے ربانی کا سب سے پہلا بیان پولس کے (cor.11.23.30 (کرنتھیوں کے نام خطوط میں آتا ہے۔ اور اس کے الفاظ اس بات کی واضح طور پر تشریح کرتے ہیں کہ اس نے عشائے ربانی کے بارے میں ہدایات یروشلم چرچ کی روایات سے نہیں لیں بلکہ آسمانی یسوع سے الہامی صورت میں براہِ راست گفتگو کر کے لی ہیں،جس الہام میں عشائے ربانی کا قیام یسوع کےزریعہ ان کے آخری کھانے کے وقت ہوا۔ پولس کا یہ غیر مادی صورت کا الہام مختصر انجیل کے لکھنے والوں نے یسوع کے آخری کھانے کے عنوان کے تحت بہت سے متضاد طریقوں سے بیان کیا ہے۔ انجیل کے آخری کھانے کے بارے میں سب سے طویل بیان یوحنا انجیل نویس کا ہے جس نے عشائے ربانی کے بارے میں سب کچھ حذف کر دیا ہے۔
مندرجہ بالا بحث کا واضح نتیجہ یہ ہے عشائے ربانی کی رسم تاریخی حقائق کے اعتبار سے یسوع کی قائم کردہ نہیں ہے اس لیے یسوع مسیحیت کو یہودیت سے الگ مذہب بنانے والے نہیں ہیں۔یسوع کے مطابق یہودی ہیکل کی رسمیں ہی، جو خاندانِ ہارون کے کاہنوں کی زیر نگرانی ادا کی جاتی تھیں، قابلِ عمل تھیں اور کسی نئی رسم کے زریعے ان کاہنوں کی کہانت یا ہیکل کو منسوخ نہیں کیا گیا تھا۔( اس کوڑھی کو ہیکل میں شرع کے مطابق قربانی ادا کرنے کے لیے کہتا ہے جسے اس نے شفاء دی تھی ، متی 8:4'' جب انہوں نے عبادت گاہ کی اصلاح کی کوشش کی تو ہیکل سے صرافوں کا خاتمہ کیا ، ان کا یہ عمل فقط اس لیے تھا کہ وہ (صرافے) اس عمل سے خدا کے گھر کی بے حرمتی کر رہے تھے۔ اس سے یسوع کی ہیکل کے لیے احترام کے وضاحت ہوتی ہے نہ کہ بے ادبی کی، جیسا کہ اس واقعہ سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا ہے۔)
عشائے ربانی کے مؤسس یسوع نہ تھے بلکہ پولس تھا اور یہ عمل اس الہام پر مبنی تھا جس میں آسمانی یسوع نے اسے اس رسم کے بارے میں ایک نئے مذہب کے بانی کے طور پر ہدایات دیں، اور پولس اپنے آپ کو یروشلم چرچ کے ان قائدین سے بدرجہا بہتر سمجھتا تھا جن کا زمینی یسوع کے ساتھ قریبی تعلق رہا تھا لیکن پولس کی طرح ان کو آسمانی یسوع سے مسلسل ہدایات نہیں ملتی تھیں۔ پال اپنے خط میں اپنے مقام کو واضح کرتا ہے لیکن اعمال کی کتاب بھی یروشلم چرچ اور پولوسی چرچ کے درمیان تسلسل کے تحفظ کے لیے مضطرب نظر آتی ہے، اور رسولوں کے ساتھ برابری دینے کے لیے پولس کے مقام کو گھٹاتی ہے اور رسولوں، خاص طور پر پطرس کی تصویر کشی ، یسوع کے ارادوں کو سمجھنے کی کمی پر آہستہ آہستہ قابو پانے والے اور پولس کے مقام تک ترقی پانے والے کے طور پر کرتی ہے۔
پطرس کی پولس کے مقام تک پہنچنے کی مبینہ تعلیم کی کلید پطرس کے خواب کی ایک قسط اعمال باب 10میں بیان ہوئی ہے جس میں وہ دیکھتا ہے کہ
جِس میں زمِین کے سب قِسم کے چَوپائے اور کِیڑے مکوڑے اور ہوا کے پرِندے ہیں۔ اور اُسے ایک آواز آئی کہ اَے پطرس اُٹھ! ذبح کر اور کھا۔ مگر پطرس نے کہا اَے خُداوند! ہرگِز نہِیں کِیُونکہ مَیں نے کبھی کوئی حرام یا ناپاک چِیز نہِیں کھائی۔ پھِر دُوسری بار اُسے آواز آئی کہ جِن کو خُدا نے پاک ٹھہرایا ہے تُو اُنہِیں حرام نہ کہہ۔
اعمال باب 10 فقرات 12 تا 15
اس کہانی کا نتیجہ یہ نہیں ہے کہ غذا کے بارے میں قوانین ختم ہو گئے ہیں، کیونکہ اس بات کو تو بہت محتاط طریقہ سے واضح کر دیا گیا ہے کہ ناپاک جانور مشرکوں کا استعارہ ہیں، جن کو بغیر امتیاز کے مسیحیت کی تحریک میں داخل کیا جانا ہے۔ بلکہ زیادہ دلچسپ امرتو وہ ہے جس کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے ، اور وہ یہ کہ پطرس ایک مکمل باعمل یہودی ہے، جس کا یسوع کے ساتھ تعلق ایسا مضبوط تھا کہ اس رابطہ نے اس کو پاک اور ناپاک جانوروں کے قوانین سے کبھی لاپرواہ ہونے نہیں دیا۔ اگر یسوع نے تورات کو منسوخ کر دیا تھا تو پطرس اس سے اتنا بے خبر کیسے رہا ؟ یا ( اگر اس کہانی کو غیر تاریخی سمجھا گیا ہے) اعمال کے لکھنے والے نے کیسے اس بات کو غیر اہم سمجھا ہے کہ اس مقام پر پطرس شریعت کی منسوخی کے کسی بھی عقیدے سے لاعلم ہے ؟ اگرچہ اعمال کا مصنف پطرس کے رویے میں بتدریج تبدیلی کو بیان کرنا چاہتا ہے ، لیکن وہ کسی بھی ایسی تبدیلی کو بیان کرنے کی جرات نہیں کرتا جو اس میں یسوع کے ساتھ تعلق کی وجہ سے آئی اور جس نے (ان کی سوچ کے) برخلاف اس کو ایک مکمل باعمل یہودی بنا دیا۔
لیکن کیا یسوع نے یہودیت کے غذا سے متعلق قوانین کو صراحتاْ منسوخ نہیں کیا؟ جب ان کا فریسی علماء کے ساتھ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے معاملے کے بارے میں تصادم ہوا(متی۔15 مرقس 7) انہوں نے کہا کہ نجاست اس سے آتی ہے جو منہ سے باہر آتا ہے نہ کہ اس سے جو منہ کے اندر جائے۔اور مرقس کی انجیل کے مصنف نے اس میں اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ اس طرح انہوں نے ہر کھانے کی چیز پر پاک ہونے کا حکم لگایا ہے (مرقس7،19)( یونانی کےاس، کسی قدر دقیق جملےkatharizon panta ta bromata'' کا یہ ترجمہ RV اور NEB اور دوسرے تراجم میں ملتا ہے، جو کہ چرچ کی روایات پر مشتمل ہے) یہ الفاظ متی کے اسی کے متوازی متن میں مفقود ہیں، اور زیادہ تر علماء اس کو مرقس کی انجیل کی تشریحاتی اشاعت تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس جملے کا NEB ترجمہ شاید غلط ہے. یسوع کا مذاکرہ اس کے بجائے یہ ترجمہ بتاتا ہے ۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جو بھی ہم کھاتے ہیں وہ پاک ہوتا ہے جو کہ جسمانی صفائی کے پچھلے موضوع کو تسلسل دیتا ہے اور خود یسوع کے ہی سابقہ خیالات کا خلاصہ ہے۔ اگر یہ ترجمہ درست ہے تو ان سب کے بعد یہ جملہ شاید بعد میں آنے والی تشریحی ادارتی اشاعت نہ ہو۔ تب اس متن کو اس بات کے ثبوت کے حوالے کے طور پر نہیں دیا جا سکتا کہ یسوع نے یہودیت کے غذا کے متعلق قوانین کو منسوخ کر دیا تھا۔ اور یہ کسی بھی صورت میں متعلقہ مواد کے ساتھ مطابقت کی کمی کی وجہ سے بھی مشکوک ہو سکتا ہے، اس لیے کہ یہ مضمون کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے بارے میں ہے نہ کہ خود طعام کے بارے میں۔ جو تشریح اس جملے کی کی گئی ہے وہ اس کے بعد صرف اسی بات کی گواہی دیتی ہے کہ پولس کے چرچ کے اراکین خود ہی تورات کے قوانین کومسترد کر کے اس کو یسوع کے ساتھ منسوب کرنے کے متمنی ہیں۔ پطرس کے خواب والا واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یسوع نے اس کو اپنے قواعد کے بارے میں کوئی ایسی ہدایات نہیں دیں، اور اس نے ہمیشہ غذا کے متعلق قوانین پر اس قدر احتیاط سے عمل جاری رکھا ہے کہ پطرس خواب میں بھی اس خیال سے خوفزدہ ہے کہ اس کو ان قوانین کی خلاف ورزی کا کہا جا رہا ہے۔
لیکن بلا شبہ تمام انجیلوں میں ایک مشہور واقعہ مذکور ہے جو اس دعویٰ کی مخالفت کرتا ہے کہ یسوع نے کسی نئے چرچ کی بنیاد نہیں رکھی، اور ان کا یہودیت، اس کے شعائر ِ مقدسہ، اور اس کی کہانت کو چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہ تھا؟ عیسائی کہانت کا مکمل شعبہ خاص طور پر پاپائیت، کی بنیاد اس واقعہ کی سند پر ہے (متی باب 16 فقرات 15 تا 19) جس میں یسوع پطرس کا تقرر ایسی چٹان کی مانند کرتے ہیں جس پر انہوں نے کلیسیاء کی بنیاد رکھی. پطرس ہارونی کاہن نہیں تھا اس لیے اس کے نامزد ہونے سے وہ سابقہ کہانت منسوخ ہو گئی جو موسی کے بھائی ہارون کی اولاد میں موروثیت کی طرز پر قائم تھی۔ درحقیقت یہ واقعہ عشائے ربانی کا ایسی رسم کے مثل ذکر نہیں کرتا جس نے اُن رسومات کی جگہ لے لی جو ہارونیوں کو تفویض کی گئی تھیں،لیکن یقینی طور پر یہ ایک نئی کہانت کا اعلان تھا جو موروثی نہیں بلکہ رسولی جانشینی کی بنیاد پر تھی۔
کچھ علماء کی رائے ہے کہ یہ واقعہ جعلی ہے جس کا مقصد رومی کلیسیاء کو پہلے پوپ پطرس کا قانونی جانشین ظاہر کرنا ہے۔ میں (مصنف) اسکے برخلاف یہ سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ کو انتہائی مستند اور تاریخی بنیادوں پر بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون کی اہم وجہ اس بات کا اعتماد بھی ہے کیونکہ یہاں مکمل طور پر یہودی رنگ غالب ہے۔ اس میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہیں جو یہود دشمنی کو ظاہر کرتی ہے (وہ یہ کہ بظاہر یونانی کے بجائے عبرانی و آرامی محاوروں کو خصوصیت سے شامل کیا ہے) یہ انتہائی ناپسندیدہ امر ہے کہ یہ واقعہ غیر یہودی متصرفین کے ذریعے داخل کیا گیا ہو۔
اس کے باوجود اس مضمون کے ذریعے مکمل طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ یسوع کسی مسیحی کلیسیاء کی بنیاد نہیں رکھ رہے تھے اور نہ ہی پطرس کو پہلا پوپ مقرر کررہے تھے۔
عہد جدید میں شامل ایک لفظ ecclesia کا ترجمہ عموما "کلیسیاء" کیا جاتا ہے. یہ لفظ ایک سے زائد مرتبہ عہد جدید میں مذکور ہے جہاں اس کے معنی "فرقہ" کے ہیں۔ بہت بعد میں مترجمین عہد جدید نے اس کا مخصوص ترجمہ کیا جو کہ مخصوص مسیحی تنظیم کے معنوں میں تھا. لیکن جب یسوع مقدس پطرس سے یہ کلمات (تُو پطرس ہے اور میں اِس پتھّر پراپنی کلیسیا بناؤں گا ) کہہ رہے تو ان کے مافی الضمیر ایسا کوئی مقصود معنی نہ تھا۔ ان الفاظ سے یسوع کا مطمع نظر کوئی نیا مذہب قائم کرنے کے بجائے عمومی معنوں میں فقط ایک مذہبی فرقے کی تشکیل تھی۔ چونکہ یہودیت میں بہت سے فرقوں کا وجود تھا جن کا یہودیت سے کسی خاص نوعیت کا تعلق نہ تھا۔ لہٰذا پاپائیت کے نظام کی تائید کے لیے مفسرین نے اس لفظ "کلیسیاء" کا ایسا معنی لوگوں کے ذہن میں منتقل کیا جو یسوع کے وقت میں ہرگز نہ تھا۔
لیکن یسوع کےمافی الضمیر "کلیسیاء" سے کیا مراد تھی؟ اور انہوں نے چٹان کی اصطلاح کیوں استعمال کی؟ یہ واضح طور پر قیادت سونپنے کا بیان ہے لیکن کیا یہودی تہذیب و روایات میں ہم ایسے کوئی تمثیل پا سکتے ہیں؟
بہرحال یہاں مزید ضروری اور پیچیدہ سوال ہے جو اس سارے واقعے کو انتہائی مشکوک بنا دیتا ہے۔ اگر یسوع یہاں تمثیلی انداز میں پطرس کا تقرر اس "کلیسیاء" کے سربراہ کے طور پر سے کررہے تھے تو ایسا کیوں ہے کہ ابتدا میں چرچ کی قیادت پطرس کے بجائے یعقوب برادر یسوع کو ملتی ہے؟ اس سوال کا جواب جہاں مکمل اولین کلیسیاء اور اس کا یسوع سے تعلق پر روشنی ڈالے گا وہیں یہ یسوع کے مقاصد اور اس کا یہودیت سے برتاؤ کی بھی وضاحت کرے گا.
وہ پورا واقعہ فقط متی کی انجیل (متی باب 16 فقرات 15 تا 19) میں ہی پایا جاتا ہے جہاں یسوع پطرس کا تقرر بطور چٹان کرتے ہیں.
اُس نے اُن سے کہا مگر تُم مُجھے کیا کہتے ہو؟ شمعُون پطرس نے جواب میں کہا تُو زِندہ خُدا کا بَیٹا مسِیح ہے۔ یِسُوع نے جواب میں اُس سے کہا مُبارک ہے تُو شمعُون بریوناہ کِیُونکہ یہ بات گوشت اور خُون نے نہِیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تُجھ پر ظاہِر کی ہے۔ اور مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ تُو پطرس ہے اور میں اِس پتھّر پراپنی کلیسیا بناؤں گا اور عالمِ ارواح کے دروازے اُس پر غالِب نہ آئیں گے۔ میں آسمان کی بادشاہی کی کُنجیاں تُجھے دُوں گا اور جو کُچھ تُو زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھیگا اور جو کُچھ تُو زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُولے گا۔
(متی باب 16 فقرات 15 تا 19)
اس واقعہ کا عبرانی بائبل میں موجود واقعہ سے موازنہ کافی معلومات فراہم کرتا ہے جہاں یسعیاہ نبی شنباہ کو نبوت کرتے ہیں کہ الیاقیم نامی ایک شخص عنقریب حزقیاہ بادشاہ کی جگہ مقرر ہوگا۔
اور اس روز میں اپنے بندے الیاقیم بن حلقیاہ کو بلاؤں گا اور تیری پوشاک پہناؤں گا اور تیرا کمربند اسے باندھوں گا اور تیرا عہد اس کے ہاتھ میں دوں گا اور وہ یروشلم کے باشندوں اور یہودہ کے گھرانے کا باپ ہوگا اور میں داؤد کے گھر کی کنجی اس کے کندھے پر رکھوں گا اور وہ کھولے گا تو کوئی بند نہ کرے گا اور وہ بند کرے گا تو کوئی نہ کھولے گا۔
یسعیاہ باب 22 فقرات 20 تا 23)
یہ پورا واقعہ پطرس کے انجیلی تقرر میں چند غیرمعمولی مشابہتیں ظاہر کرتا ہے جہاں چٹان ہونے کے بجائے الیاقیم کیل کی طرح مضبوط جگہ میں قائم ہے، لیکن مضبوطی کی تشبیہ یکساں ہے۔ "آسمان کی بادشاہت کی کنجیاں" دینے کے بجائے الیاقیم کو "داؤد کے گھرانے کی کنجیاں" دی گئیں۔ یہ آخری بیان مشابہت سے زیادہ ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ آسمان کی بادشاہت دراصل داؤد کے گھرانے کے متماثل ہی تھی۔ یسوع نے یہاں وہی اسلوب بیان استعمال کیا ہے جو وہ تمثیلی انداز میں آزاد اسرائیل کے لیے استعمال کرتے تھے، یسوع کو اسرائیل کی آزادی جو کہ درحقیقت خدا کی بادشاہت تھی، کی امید تھی کہ آزاد اسرائیل کی سرزمین رومی قانون کے زیرتسلط ہونے کے بجائے خدا کے قانون (خدا کی بادشاہی) کے ماتحت ہوگی۔ یسوع پطرس کو اس ملک کے بادشاہ کی حیثیت سے مقرر کررہے تھے جس کا سربراہ دوسرا داؤد ہوگا. یسوع خود بھی اپنے باپ داؤد کے تخت کا وارث ہونے کا جواز رکھتے تھے۔ یہ معاملہ وضاحت طلب ہے کہ یروشلم چرچ کے سربراہ یسوع کے جانشین پطرس کے بجائے یعقوب کیسے بن گئے؟ ایک بادشاہ کا جانشین وزیر اعظم کے بجائے اس کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، اگرچہ وزیراعظم بھی نئے بادشاہ کے ماتحت اپنی خدمات سرانجام دے سکتا ہے۔ یہ نقطہ اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ یروشلم چرچ کی قیادت میں یعقوب کے بعد آنے والے بھی یسوع کے قریبی رشتہ دار ہی تھے۔ یسوع کی تحریک ایک نئے مذہب کے بجائے بادشاہی تحریک تھی جس کا مقصد قدیم یہودی بادشاہت کی بحالی تھا، یہودیت سے الگ تھلگ بطور نئے مذہب کے، مسیحیت کا بانی یسوع کے بجائے پولس تھا۔
الیاقیم اور پطرس کو دیئے گئے عہدوں کے درمیان مشابہت بہت نمایاں ہے. ایک طرف پطرس سے کہا گیا کہ " جو کُچھ تُو زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھیگا اور جو کُچھ تُو زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُولے گا۔ " تو دوسری طرف الیاقیم سے کہا گیا کہ" وہ کھولے گا تو کوئی بند نہ کرے گا اور وہ بند کرے گا تو کوئی نہ کھولے گا۔باندھنے کی اصطلاح ربائی تمثیلی بیان میں منع کرنے کے لیے اور کھولنا کا معنی اجازت دینا ہے۔ یہ ایک بےحد واضح سامی اصطلاح ہے جو اس قضیہ میں موجود ہے۔
یسوع کی کیا مراد تھی جب وہ پطرس سے کہہ رہے تھے کہ جو کچھ وہ زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کُچھ وہ زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُولے گا؟یہاں آسمان کی اصطلاح خدا کے ہم معنی میں نہیں ہے (جیسا کہ ایک عمومی ربائی بیان میں پیچھے آسمان کی بادشاہی کے لیے استعمال ہوا ہے) یہاں اس کا مطلب خدا کا گھر ہے. آسمان کی بادشاہت کی کنجیوں کا پطرس کو جانشین بنانے کے معنی مسیحی قارئین خلط مبحث کرتے ہوئے یہ اخذ کرتے ہیں کہ پطرس ایک نگہبان فرشتے کی حیثیت سے جنت کے دروازے پر یہ فیصلہ کرنے کے لیے مامور ہے کہ کون اس میں داخل ہوگا اور کسے رد کردیا جائے گا). لیکن یسوع پطرس کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار کیسے دے سکتے تھے کہ جس کو خدا کو بھی قبول کرنا پڑے؟ کیا یہ پطرس خدا سے بڑھ کر بلند مرتبت اور مافوق الفطرت ہستی ہے؟
ہم اس معاملے کو ربائی تصنیفات کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک ربائی تحریر یسوع کا پطرس کو عہدہ دینے کے معاملے سے تعلق رکھتی ہے مشہور ربی جوشوا بن حننیاہ جس نے اس تاریخ کے بارے میں جو انہوں نے اس سال کفارے کے دن کے لیے مقرر کی تھی، اس مسئلہ پر گملیل ثانی کی عدالت کے فیصلے سے شدید اختلاف کیا۔ (یہ اس دور میں ہوا جب وہاں کوئی خاص کلینڈر مقرر نہ تھا اور مہینوں کے آغاز کا فیصلہ چاند دیکھ کر کیا جاتا تھا)
ربی گملیل نے ربی جوشوا کو بھیجا اور کہا کہ میں تمہیں کفارے کے دن اپنے ہرکاروں اور نذرانوں کے ساتھ میرے پاس آنے کے لیے مقرر کرتا ہوں۔ ربی عقیبہ، ربی جوشوا کے پاس گیا تو اسے حیران و پریشان پایا۔ اس نے اسے کہا :میں تمہیں کتاب مقدس سے سمجھا سکتا ہوں کہ جو کچھ گملیل نے فرمایا بالکل درست کہا ہے کیونکہ ایسا ہی لکھا ہے خداوند کی عیدیں جن کا اعلان تم کو مقدس مجمعوں کے لیے وقت مقرر پر کرنا ہوگا وہ یہ ہیں (احبار 23:4) خواہ ان کی آمد خاص موسموں میں ہو یا نہ ہو۔ میں جانتا ہوں کہ ان کے علاوہ کوئی بھی عید محفوظ نہیں رہی ہے۔ ربی جوشوا اسکے بعد ربی دوسا بن ہرکیناس کے پاس کیا (جو پہلے ہی ربی گملیل کے فیصلوں سے اختلاف رکھتا تھا) اور اسے کہا : اگر ہم ربی گملیل کی عدالت کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کی جانچ پڑتال کریں گے تو پھر ہمیں ہر اس عدالت کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کی تفتیش کرنی پڑے گی جو موسی کے دور سے اب تک قائم ہوئی ہیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں اور اپنے نذرانے ساتھ لیے اور جبناہ کی طرف ربی گملیل سے ملنے اس وقت روانہ ہوا جو کہ اس کے حساب سے کفارے کا دن تھا۔ ربی گملیل نے کھڑے ہوکر اسکے سر کا بوسہ لیا اور کہا : سلامتی میں رہو میرے استاد، میرے شاگرد میرے استاد تم دانائی و حکمت میں ہو اور میرے شاگرد اس لیے کہ تم نے میری بات کو قبول کیا۔ (m. Roz. Hash. 2.9,Danby's translation )
یہاں ہم یہ نظریہ دیکھتے ہیں کہ خدا نے ربائی عدالت کا فیصلہ خارجی طور پر درست یا غلط ہونے کے امکان کے باوجود قبول کر لیا۔ جب یسوع نے پطرس کے بارے میں یہ اعلان کیا کہ جو کُچھ تُو زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھیگا اور جو کُچھ تُو زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُولے گا، تو یسوع کے مافی الضمیر مراد یہ نہیں تھی کہ پطرس کو انفرادی حیثیت سے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے بلکہ اسے ربائی گملیل کی طرح ایسی عدالت کا سربراہ مقرر کرنا تھا جس کے فیصلے کثرت رائے سے منظور کیے جاتے تھے۔ عصرحاضر کا کثرت رائے کا جمہوری اصول تلمود کے واقعات میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اس واقعے میں سب سے حیرت انگیز بات ربائی العزر کا شرعی عدالت کے فیصلوں سے انحراف کی کوشش اور اس کے رائے کے برخلاف کثرت رائے سے ہونے والے فیصلوں کی منسوخی کا خواہاں ہونا دراصل خدا کو اپنی مدد کے لیے پکارنا تھا۔ ایک ہاتف غیبی کی آواز آتی کہ ربائی العزر درست ہے۔ ندائے غیب خلاف قائدہ قانون تھا کیونکہ اکثریت رائے کا اصول خود خدا کی طرف سے قائم کیا گیا تھا جس کو کسی معقولی اختلاف کے بغیر منسوخ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس پورے قصے (جو کہ قرون وسطی میں ہونے والے مسیحی و یہودی مناظروں میں مسیحی دلیلیوں کی طرف سے ملعون قرار دیا گیا) کا نتیجہ یہ تھا کہ خدا ہنسا اور کہا! میرے بچوں نے مجھے مات دے دی ہے۔ اس مبینہ کہانی کے مطابق خدا خوش تھا کہ انسانی عدالت میں اسکے خلاف اسکے حقوق کا حق جتایا ہے۔
اگرچہ انسانی عدالتوں کے فیصلوں میں انسانی اور مغالطہ انگیزی کا امکان موجود رہتا تھا مگر اسکے باوجود بھی یہ خدا کی طرف سے خاص معنوں میں سمجھے جاتے تھے کیونکہ کثرت رائے سے فیصلہ کرنے کا اختیار خدا کی طرف سے ہی دیا گیا تھا۔ اس طرح کے فیصلے غلط ہونے کے باعث بوقت ضرورت اعلی عدالتوں کی طرف سے بدل دیئے جاتے تھے۔ یہ ضابطہ دستور کی ربیانہ اور تخیل پروازی کی صورت ہے جس نے بعد میں مسیحی چرچ کے تیر بہدف نظریات کی ادھوری بنیاد فراہم کی. تاہم یہ بیسویں صدی تک عقیدہ نہ بن سکی۔
پس ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یسوع کے پطرس کے لیے کہے گئے الفاظ ربائی گملیل ثانی (اعمال میں مذکور گملیل کا پوتا) کی طرح ایک عہدے کی تقرری کے لیے تھے جو کہ اس مجلس کا سربراہ تھا جس میں قانون سازی کی جاتی تھی۔ ربائی گملیل نے بھی اسی عدالت کی صدارت کی جس کے فیصلے خدا کی طرف سے قبول کیے جاتے تھے "جو زمین پر باندھو گے آسمان پر بندھے گا اور جو زمین پر کھولو گے آسمان پر کھلے گا"۔ جب ربائی گملیل کی عدالت نے کفارے کے دن کی مخصوص تاریخ کے تعین کا فیصلہ کیا تو خدا نے بھی بظاہر اس کے غلط ہونے کے باوجود آسمان پر اپنے کلینڈر پر اسی تاریخ پر نشان لگا دیا۔
لہٰذا یسوع کی جانب سے پطرس کی تقرری نہ صرف ایک لسانیاتی (جیسا کہ کھولنے اور باندھنے کے عبرانی اصطلاحی لفظ جو کہ اجازت دینے اور منع کرنے کے معنی میں ہیں) نمایاں خصوصیت کو ظاہر کرتی اور اسے مستند بناتی ہیں بلکہ نظریاتی خصوصیت کو بھی ظاہر کرتی ہے (وہ تصور جس کے مطابق خدا بزرگوں کی انسانی مجلس کے فیصلوں کی پابندی کرنے کا ذمہ دار تھا) جو کہ پطرس کے واقعہ کو ربائی گملیل کی طرح قابل قبول بناتی ہے۔ یہودیوں کے مذہبی رجحانات میں صرف ربائی تحریک اور ان سے قبل فریسی تحریک میں ہی یہ جرات مندانہ تصور موجود تھا کہ خدا نے ان کو خطا پر مبنی فیصلے کرنے کا اختیار دیا تھا۔ وادی قمران کے صحائف جس یہودی فرقہ سے متعلق ہیں ان کے یہاں بھی ایسا کوئی تصور موجود نہیں تھا جیسا کہ ان کے لکھنے والوں کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے جو کہ ربائی مشنا اور تلمود سے مختلف ہے اور فیصلہ کرنے یا ووٹ دینے کا کوئی ماحول اپنے اندر نہیں رکھتے بلکہ وہاں قابل توجیح خیالات کا اظہار مقصود ہے جسے ناقابل تغیر اور مذہبی قائدہ سمجھا جاتا تھا۔
ربائی العزر کے قصے کے بارے میں قرون وسطی کے مسیحیوں کی ملامت کچھ تبصروں کا تقاضہ کرتی ہے یہ واقعہ مسیحیوں کے اس الزام کی توثیق کرتا ہے جس میں ربیوں نے خود ہی صحائف کو منسوخ کرنے کے اپنے حق کو رد کردیا تھا۔ یہاں ربیوں کی اس طرح عکاسی ہوتی ہے جیسا کہ انہوں نے خود خدا کو ہی رد کردیا ہو۔ یہ بالکل کفر تھا اور عہد جدید کے اس بیان کی تصدیق ہے جس میں یسوع فریسیوں کو مجرم ٹھہراتے ہیں کہ " تُم نے اپنی رِوایَت کے سبب سے خُدا کے حُکم کو باطل کردیا ہے"۔ (متی 15:6)
اسکے باوجود عہد نامہ جدید میں نظر آتا ہے کہ فریسیوں اپنی دعاوی میں عاجزی رکھتے تھے کیونکہ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ یسوع نے ایک خاص قسم کے اختیار کو اپنا کر تعلیم دی جس کے لوگ پہلے سے عادی نہ تھے۔ "
وہ اُن کے فقِیہوں کی طرح نہِیں بلکہ صاحبِ اِختیّار کی طرح اُن کو تعلِیم دیتا تھا" (متی 7:29) یہاں ایک تضاد یہ ہے کہ فریسی پراعتماد ہوکر صحف کو منسوخ کرتے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اختیار کا دعوی کئے بغیر تعلیم دی۔ یہ غیر معقول بیان دراصل اس بات پر ایک خفیف عکس ڈالتا ہے۔ ربائیوں کی تحریک نے قانون سازی کا دعوی کیا یا اسلاف کے بنائے گئے قوانین کو بطور روایت منتقل کیا جن میں سے کچھ بظاہر اصل تعلیمات کے خلاف نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ "آنکھ کے بدلے آنکھ" کے حکم کو لغوی معنی میں نہ لیا جائے بلکہ اسے زخمی کے زخموں کا زر سے ہرجانہ لینے کے معنی میں استعمال کیا جائے۔ اس وقت تک ان کے قوانین بعینہ انسانی سطح پر بنتے تھے اور اگر اتفاق رائے کا ثابت ہونا اکثریت رائے سے ناممکن ہوتا تو بحث و یقین کے ساتھ قبول کیے جاتے تھے۔ یہ اختیار کا طریقہ نہیں تھا اور وہ یہ اعتبار ظاہر کرتے تھے کہ ان کی غیر معتبر طریقہ کار کی روش خدا کی طرف سے منظور شدہ ہے۔ تاہم یہ غیر معمولی بات اتنی باریک تھی کہ مخالفین کی طرف سے اس انداز میں وقعت پا گئی کہ انہوں نے فریسیوں کو خدا کے خلاف اپنے اختیار سے منصوبہ بنانے والا قرار دے دیا۔ اس معاملے میں ان کے سب سے بڑے مخالف صدوقی تھے جنہوں نے روایات کی پیروی کرنے اور کتاب مقدس سے عنقا قوانین وضع کرنے پر فریسیوں پر شدید تنقید کی۔
لیکن یسوع یقیناً صدوقی نہیں تھے ان کا بظاہر صدوقی ہونا متاخرین علماء کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ وہی روایات ہیں جو کتاب مقدس کے لغوی معنی پر زیادہ زور دیتیں، اس کی سزاؤں میں تخفیف کرتیں، خواتین کی حالت میں ارتقاء لاتیں اور ہر قسم کی جدت کو قائم کرتی ہیں جیسا کہ جوزفیس نے لغوی معنی کی طرف محتاج صدوقیوں کی سخت مزاجی کا فریسیوں کی رحمدلی کے ساتھ موازنہ کیا ہے (antiquities 13.10.294).
کلیسیائے یروشلم،پطرس ،پولس اور یعقوب
مترجمین: صبا خان، عبداللہ غازیؔ
یہودی و مسیحی علمی حلقوں میں پروفیسر ہائم مکابی جیسے اسکالر کا نام تعارف کا محتاج نہیں، برطانیہ میں یہودی و مسیحی روایات پر انہیں اتھارٹی اسکالرز کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے حتی کہ ڈاکٹر ہیوجے شون فیلڈ جیسے چوٹی کے اسکالرز بھی ان کے علم کے متعلق لکھتے ہیں کہ "مجھے یقین ہے کہ ہائم مکابی کے مقدس پولس کے متعلق نظریات قابل فکر ہیں"۔ زیر نظر تحریر بھی ہائم مکابی کی کتاب The myth maker Paul and The Invention of Christianity کے باب Jerusalem Church, Peter, Paul & Jamesکا سلیس ترجمہ ہے جس میں انہوں نے یسوع کے مقدس پطرس کے ساتھ کیے گئے وعدے اور اس کی تکمیل کی صورتحال کی غیرروایتی دلچسپ تصویر پیش کی ہے اور عہدجدید کے اس پہلو کا اس انداز سے جائزہ لے کر حقائق کو متعارف کروایا ہے جس سے اس سے قبل قارئین عہدجدید روشناس نہ تھے۔ اس طویل مضمون کا ترجمہ محترمہ صبا خان صاحبہ(جھنگ)اور بندہ ناچیز کی مشترکہ کاوش ہےاوراس ادنی سی کاوش کو میں اپنے محسن، مرشد اور مربی محترم جناب ظفر اقبال صاحب مدظلہ کی طرف منسوب کرتا ہوں جن کی رہنمائی اورمحبت و شفقت کے باعث ہم یہ ترجمہ کرنے اور آپ کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوئے۔ترجمہ کرتے ہوئے اگر کوئی غلطی آپ کے سامنےآئے تو ضرور نشاندہی کیجئے گا۔آپ کا مشکور ہوںگا۔آپ کا رفیق
عبداللہ غازیؔ
اس تحریر کو پی ڈی ایف میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے
یقیناً ہم یہاں فریسی ازم کی ابتدائی کلیسیاء میں امتیازی حیثیت پر مزید توجہ دیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ رکھیں گے کہ خود یسوع نے اس بارے میں کیا بتایا ہے؟
اعمال کی کتاب اس بات کی گواہ ہے کہ ابتدائی کلیسیاء خود بھی ایک نئے مذہب کے بجائے یہودیت ہی کی ایک شاخ کی حیثیت سے شناخت رکھتا تھا۔ اس کے جمیع ارکان مکمل سرگرم یہودی ہی تھے جو شریعت کے تمام قوانین بشمول ختنہ، خوراکی پاکیزگی کا نظام، سالانہ عبادتی تہواروں کی مکمل پاسداری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ قربانی ادا کرنے کی غرض سے کثرت سے ہیکل میں حاضر ہوتے (اعمال 2:46) اور ہیکل کے احاطے میں داخلے سے قبل غسل کرنے کی ہدایت کے ذریعے مذہبی ارکان کی پاکیزگی کے ضابطے پورے کرنے میں احتیاط برتتے ہوئے ہیکل کی رسومات کی بہت زیادہ تعظیم کرتے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت ان کی ہیکل کی رسومات کی ادائیگی بالکل فریسیوں کی طرح دیگر سرگرم یہودیوں سے بہت اوپر جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب فقط اعمال کی کتاب کے متن سے ہی ظاہر نہیں ہے بلکہ کلیسیائی روایات میں بھی موجود ہے اور خصوصی طور پر یعقوب برادر یسوع کی طرف منسوب کی گئی ہیں جو کہ ہیکل میں حاضر ہونے کے معاملات میں یروشلم چرچ کے سربراہ تھے۔ (Hegesippus, quoted by Eusebius, Ecclesiastical history, 2.23) کچھ علماء اس شہادت کو خلل ڈالتے ہوئے پاتے ہیں کہ یہ نتیجہ اعمال کی کتاب کی سادہ سی وضاحت میں شک ڈالنے کی کوشش ہے۔ یہ زوردار مثال ہے اس غیر تعصبانہ مظاہرہ کی جو عہد جدید کے نئے دور کے علماء میں بہت عام ہے۔ ایک مقدس تشکیک جو اپنے علم کے متعلق ان کے ذہن میں جگہ بنا چکی ہے جہاں متن کی قبولیت عیسائیت کے مقررہ عقائد کے خلاف چلتی ہے۔ مسیحی علماء متن کے بارے میں شکوک و شبہات میں جانے اور زیرِ بحث متن کی تاریخی حقیقت کو جھٹلانے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ کبھی کبھی غیر مسیحی عالم عہد نامہ ِ جدید کے متن کو قبول کر لیتے ہیں اور یہ پچھلی نسلوں میں ہونے والی حیران کن تبدیلی ہے۔
ہیکل کے لیے عقیدت اور خلوص کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی تھا کہ ابتدائی کلیسیاء کے زعماء نے خود کو کبھی کاہن نہیں گردانا تھا، نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کی ایک نشانی نئی کہانت کی زیرِ نگرانی ادا کی جانے والی رسومات (ساکرامنٹ) بھی ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسیحیت میں عشائے ربانی کی بنیاد رکھی گئی اور اس رسم کا انتظام کرنے کے لیے ایک نئی کہانت کی بنیاد بھی رکھی گئی، جس کے نتیجہ میں مسیحیت یہودیت سے بالکل الگ ایک نیا مذہب بن گیا۔ لیکن ابتدائی کلیسیاء میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ اعمال کی کتاب اس کا ثبوت ہے کہ یروشلم کے چرچ میں عشائے ربانی کی رسم کا کوئی تصور نہ تھا۔ اور اعمال کی کتاب کے اس ثبوت کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے جو Didach( یروشلم چرچ کی ابتدائی دستاویز کا ایک بڑا حصہ) میں آیا ہے اور شراب اور روٹی کی ایک رسم کے بارے میں تفصیل فراہم کرتا ہے (یہ عشائے ربانی سے بالکل مختلف رسم ہے) لیکن اس میں شراب اور روٹی کو یسوع کے خون اور جسم سے تشبیہ نہیں دی جاتی تھی۔اور یوں جو رسم بیان کی گئی ہے وہ سادہ یہودی قدوش Qiddush ہی ہے جو کہ سبت یا تہوار کے کھانوں سے پہلے ادا کی جاتی ہے۔ عشائے ربانی کا سب سے پہلا بیان پولس کے (cor.11.23.30 (کرنتھیوں کے نام خطوط میں آتا ہے۔ اور اس کے الفاظ اس بات کی واضح طور پر تشریح کرتے ہیں کہ اس نے عشائے ربانی کے بارے میں ہدایات یروشلم چرچ کی روایات سے نہیں لیں بلکہ آسمانی یسوع سے الہامی صورت میں براہِ راست گفتگو کر کے لی ہیں،جس الہام میں عشائے ربانی کا قیام یسوع کےزریعہ ان کے آخری کھانے کے وقت ہوا۔ پولس کا یہ غیر مادی صورت کا الہام مختصر انجیل کے لکھنے والوں نے یسوع کے آخری کھانے کے عنوان کے تحت بہت سے متضاد طریقوں سے بیان کیا ہے۔ انجیل کے آخری کھانے کے بارے میں سب سے طویل بیان یوحنا انجیل نویس کا ہے جس نے عشائے ربانی کے بارے میں سب کچھ حذف کر دیا ہے۔
مندرجہ بالا بحث کا واضح نتیجہ یہ ہے عشائے ربانی کی رسم تاریخی حقائق کے اعتبار سے یسوع کی قائم کردہ نہیں ہے اس لیے یسوع مسیحیت کو یہودیت سے الگ مذہب بنانے والے نہیں ہیں۔یسوع کے مطابق یہودی ہیکل کی رسمیں ہی، جو خاندانِ ہارون کے کاہنوں کی زیر نگرانی ادا کی جاتی تھیں، قابلِ عمل تھیں اور کسی نئی رسم کے زریعے ان کاہنوں کی کہانت یا ہیکل کو منسوخ نہیں کیا گیا تھا۔( اس کوڑھی کو ہیکل میں شرع کے مطابق قربانی ادا کرنے کے لیے کہتا ہے جسے اس نے شفاء دی تھی ، متی 8:4'' جب انہوں نے عبادت گاہ کی اصلاح کی کوشش کی تو ہیکل سے صرافوں کا خاتمہ کیا ، ان کا یہ عمل فقط اس لیے تھا کہ وہ (صرافے) اس عمل سے خدا کے گھر کی بے حرمتی کر رہے تھے۔ اس سے یسوع کی ہیکل کے لیے احترام کے وضاحت ہوتی ہے نہ کہ بے ادبی کی، جیسا کہ اس واقعہ سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا ہے۔)
عشائے ربانی کے مؤسس یسوع نہ تھے بلکہ پولس تھا اور یہ عمل اس الہام پر مبنی تھا جس میں آسمانی یسوع نے اسے اس رسم کے بارے میں ایک نئے مذہب کے بانی کے طور پر ہدایات دیں، اور پولس اپنے آپ کو یروشلم چرچ کے ان قائدین سے بدرجہا بہتر سمجھتا تھا جن کا زمینی یسوع کے ساتھ قریبی تعلق رہا تھا لیکن پولس کی طرح ان کو آسمانی یسوع سے مسلسل ہدایات نہیں ملتی تھیں۔ پال اپنے خط میں اپنے مقام کو واضح کرتا ہے لیکن اعمال کی کتاب بھی یروشلم چرچ اور پولوسی چرچ کے درمیان تسلسل کے تحفظ کے لیے مضطرب نظر آتی ہے، اور رسولوں کے ساتھ برابری دینے کے لیے پولس کے مقام کو گھٹاتی ہے اور رسولوں، خاص طور پر پطرس کی تصویر کشی ، یسوع کے ارادوں کو سمجھنے کی کمی پر آہستہ آہستہ قابو پانے والے اور پولس کے مقام تک ترقی پانے والے کے طور پر کرتی ہے۔
پطرس کی پولس کے مقام تک پہنچنے کی مبینہ تعلیم کی کلید پطرس کے خواب کی ایک قسط اعمال باب 10میں بیان ہوئی ہے جس میں وہ دیکھتا ہے کہ
جِس میں زمِین کے سب قِسم کے چَوپائے اور کِیڑے مکوڑے اور ہوا کے پرِندے ہیں۔ اور اُسے ایک آواز آئی کہ اَے پطرس اُٹھ! ذبح کر اور کھا۔ مگر پطرس نے کہا اَے خُداوند! ہرگِز نہِیں کِیُونکہ مَیں نے کبھی کوئی حرام یا ناپاک چِیز نہِیں کھائی۔ پھِر دُوسری بار اُسے آواز آئی کہ جِن کو خُدا نے پاک ٹھہرایا ہے تُو اُنہِیں حرام نہ کہہ۔
اعمال باب 10 فقرات 12 تا 15
اس کہانی کا نتیجہ یہ نہیں ہے کہ غذا کے بارے میں قوانین ختم ہو گئے ہیں، کیونکہ اس بات کو تو بہت محتاط طریقہ سے واضح کر دیا گیا ہے کہ ناپاک جانور مشرکوں کا استعارہ ہیں، جن کو بغیر امتیاز کے مسیحیت کی تحریک میں داخل کیا جانا ہے۔ بلکہ زیادہ دلچسپ امرتو وہ ہے جس کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے ، اور وہ یہ کہ پطرس ایک مکمل باعمل یہودی ہے، جس کا یسوع کے ساتھ تعلق ایسا مضبوط تھا کہ اس رابطہ نے اس کو پاک اور ناپاک جانوروں کے قوانین سے کبھی لاپرواہ ہونے نہیں دیا۔ اگر یسوع نے تورات کو منسوخ کر دیا تھا تو پطرس اس سے اتنا بے خبر کیسے رہا ؟ یا ( اگر اس کہانی کو غیر تاریخی سمجھا گیا ہے) اعمال کے لکھنے والے نے کیسے اس بات کو غیر اہم سمجھا ہے کہ اس مقام پر پطرس شریعت کی منسوخی کے کسی بھی عقیدے سے لاعلم ہے ؟ اگرچہ اعمال کا مصنف پطرس کے رویے میں بتدریج تبدیلی کو بیان کرنا چاہتا ہے ، لیکن وہ کسی بھی ایسی تبدیلی کو بیان کرنے کی جرات نہیں کرتا جو اس میں یسوع کے ساتھ تعلق کی وجہ سے آئی اور جس نے (ان کی سوچ کے) برخلاف اس کو ایک مکمل باعمل یہودی بنا دیا۔
لیکن کیا یسوع نے یہودیت کے غذا سے متعلق قوانین کو صراحتاْ منسوخ نہیں کیا؟ جب ان کا فریسی علماء کے ساتھ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے معاملے کے بارے میں تصادم ہوا(متی۔15 مرقس 7) انہوں نے کہا کہ نجاست اس سے آتی ہے جو منہ سے باہر آتا ہے نہ کہ اس سے جو منہ کے اندر جائے۔اور مرقس کی انجیل کے مصنف نے اس میں اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ اس طرح انہوں نے ہر کھانے کی چیز پر پاک ہونے کا حکم لگایا ہے (مرقس7،19)( یونانی کےاس، کسی قدر دقیق جملےkatharizon panta ta bromata'' کا یہ ترجمہ RV اور NEB اور دوسرے تراجم میں ملتا ہے، جو کہ چرچ کی روایات پر مشتمل ہے) یہ الفاظ متی کے اسی کے متوازی متن میں مفقود ہیں، اور زیادہ تر علماء اس کو مرقس کی انجیل کی تشریحاتی اشاعت تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس جملے کا NEB ترجمہ شاید غلط ہے. یسوع کا مذاکرہ اس کے بجائے یہ ترجمہ بتاتا ہے ۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جو بھی ہم کھاتے ہیں وہ پاک ہوتا ہے جو کہ جسمانی صفائی کے پچھلے موضوع کو تسلسل دیتا ہے اور خود یسوع کے ہی سابقہ خیالات کا خلاصہ ہے۔ اگر یہ ترجمہ درست ہے تو ان سب کے بعد یہ جملہ شاید بعد میں آنے والی تشریحی ادارتی اشاعت نہ ہو۔ تب اس متن کو اس بات کے ثبوت کے حوالے کے طور پر نہیں دیا جا سکتا کہ یسوع نے یہودیت کے غذا کے متعلق قوانین کو منسوخ کر دیا تھا۔ اور یہ کسی بھی صورت میں متعلقہ مواد کے ساتھ مطابقت کی کمی کی وجہ سے بھی مشکوک ہو سکتا ہے، اس لیے کہ یہ مضمون کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے بارے میں ہے نہ کہ خود طعام کے بارے میں۔ جو تشریح اس جملے کی کی گئی ہے وہ اس کے بعد صرف اسی بات کی گواہی دیتی ہے کہ پولس کے چرچ کے اراکین خود ہی تورات کے قوانین کومسترد کر کے اس کو یسوع کے ساتھ منسوب کرنے کے متمنی ہیں۔ پطرس کے خواب والا واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یسوع نے اس کو اپنے قواعد کے بارے میں کوئی ایسی ہدایات نہیں دیں، اور اس نے ہمیشہ غذا کے متعلق قوانین پر اس قدر احتیاط سے عمل جاری رکھا ہے کہ پطرس خواب میں بھی اس خیال سے خوفزدہ ہے کہ اس کو ان قوانین کی خلاف ورزی کا کہا جا رہا ہے۔
لیکن بلا شبہ تمام انجیلوں میں ایک مشہور واقعہ مذکور ہے جو اس دعویٰ کی مخالفت کرتا ہے کہ یسوع نے کسی نئے چرچ کی بنیاد نہیں رکھی، اور ان کا یہودیت، اس کے شعائر ِ مقدسہ، اور اس کی کہانت کو چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہ تھا؟ عیسائی کہانت کا مکمل شعبہ خاص طور پر پاپائیت، کی بنیاد اس واقعہ کی سند پر ہے (متی باب 16 فقرات 15 تا 19) جس میں یسوع پطرس کا تقرر ایسی چٹان کی مانند کرتے ہیں جس پر انہوں نے کلیسیاء کی بنیاد رکھی. پطرس ہارونی کاہن نہیں تھا اس لیے اس کے نامزد ہونے سے وہ سابقہ کہانت منسوخ ہو گئی جو موسی کے بھائی ہارون کی اولاد میں موروثیت کی طرز پر قائم تھی۔ درحقیقت یہ واقعہ عشائے ربانی کا ایسی رسم کے مثل ذکر نہیں کرتا جس نے اُن رسومات کی جگہ لے لی جو ہارونیوں کو تفویض کی گئی تھیں،لیکن یقینی طور پر یہ ایک نئی کہانت کا اعلان تھا جو موروثی نہیں بلکہ رسولی جانشینی کی بنیاد پر تھی۔
کچھ علماء کی رائے ہے کہ یہ واقعہ جعلی ہے جس کا مقصد رومی کلیسیاء کو پہلے پوپ پطرس کا قانونی جانشین ظاہر کرنا ہے۔ میں (مصنف) اسکے برخلاف یہ سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ کو انتہائی مستند اور تاریخی بنیادوں پر بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون کی اہم وجہ اس بات کا اعتماد بھی ہے کیونکہ یہاں مکمل طور پر یہودی رنگ غالب ہے۔ اس میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہیں جو یہود دشمنی کو ظاہر کرتی ہے (وہ یہ کہ بظاہر یونانی کے بجائے عبرانی و آرامی محاوروں کو خصوصیت سے شامل کیا ہے) یہ انتہائی ناپسندیدہ امر ہے کہ یہ واقعہ غیر یہودی متصرفین کے ذریعے داخل کیا گیا ہو۔
اس کے باوجود اس مضمون کے ذریعے مکمل طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ یسوع کسی مسیحی کلیسیاء کی بنیاد نہیں رکھ رہے تھے اور نہ ہی پطرس کو پہلا پوپ مقرر کررہے تھے۔
عہد جدید میں شامل ایک لفظ ecclesia کا ترجمہ عموما "کلیسیاء" کیا جاتا ہے. یہ لفظ ایک سے زائد مرتبہ عہد جدید میں مذکور ہے جہاں اس کے معنی "فرقہ" کے ہیں۔ بہت بعد میں مترجمین عہد جدید نے اس کا مخصوص ترجمہ کیا جو کہ مخصوص مسیحی تنظیم کے معنوں میں تھا. لیکن جب یسوع مقدس پطرس سے یہ کلمات (تُو پطرس ہے اور میں اِس پتھّر پراپنی کلیسیا بناؤں گا ) کہہ رہے تو ان کے مافی الضمیر ایسا کوئی مقصود معنی نہ تھا۔ ان الفاظ سے یسوع کا مطمع نظر کوئی نیا مذہب قائم کرنے کے بجائے عمومی معنوں میں فقط ایک مذہبی فرقے کی تشکیل تھی۔ چونکہ یہودیت میں بہت سے فرقوں کا وجود تھا جن کا یہودیت سے کسی خاص نوعیت کا تعلق نہ تھا۔ لہٰذا پاپائیت کے نظام کی تائید کے لیے مفسرین نے اس لفظ "کلیسیاء" کا ایسا معنی لوگوں کے ذہن میں منتقل کیا جو یسوع کے وقت میں ہرگز نہ تھا۔
لیکن یسوع کےمافی الضمیر "کلیسیاء" سے کیا مراد تھی؟ اور انہوں نے چٹان کی اصطلاح کیوں استعمال کی؟ یہ واضح طور پر قیادت سونپنے کا بیان ہے لیکن کیا یہودی تہذیب و روایات میں ہم ایسے کوئی تمثیل پا سکتے ہیں؟
بہرحال یہاں مزید ضروری اور پیچیدہ سوال ہے جو اس سارے واقعے کو انتہائی مشکوک بنا دیتا ہے۔ اگر یسوع یہاں تمثیلی انداز میں پطرس کا تقرر اس "کلیسیاء" کے سربراہ کے طور پر سے کررہے تھے تو ایسا کیوں ہے کہ ابتدا میں چرچ کی قیادت پطرس کے بجائے یعقوب برادر یسوع کو ملتی ہے؟ اس سوال کا جواب جہاں مکمل اولین کلیسیاء اور اس کا یسوع سے تعلق پر روشنی ڈالے گا وہیں یہ یسوع کے مقاصد اور اس کا یہودیت سے برتاؤ کی بھی وضاحت کرے گا.
وہ پورا واقعہ فقط متی کی انجیل (متی باب 16 فقرات 15 تا 19) میں ہی پایا جاتا ہے جہاں یسوع پطرس کا تقرر بطور چٹان کرتے ہیں.
اُس نے اُن سے کہا مگر تُم مُجھے کیا کہتے ہو؟ شمعُون پطرس نے جواب میں کہا تُو زِندہ خُدا کا بَیٹا مسِیح ہے۔ یِسُوع نے جواب میں اُس سے کہا مُبارک ہے تُو شمعُون بریوناہ کِیُونکہ یہ بات گوشت اور خُون نے نہِیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تُجھ پر ظاہِر کی ہے۔ اور مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ تُو پطرس ہے اور میں اِس پتھّر پراپنی کلیسیا بناؤں گا اور عالمِ ارواح کے دروازے اُس پر غالِب نہ آئیں گے۔ میں آسمان کی بادشاہی کی کُنجیاں تُجھے دُوں گا اور جو کُچھ تُو زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھیگا اور جو کُچھ تُو زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُولے گا۔
(متی باب 16 فقرات 15 تا 19)
اس واقعہ کا عبرانی بائبل میں موجود واقعہ سے موازنہ کافی معلومات فراہم کرتا ہے جہاں یسعیاہ نبی شنباہ کو نبوت کرتے ہیں کہ الیاقیم نامی ایک شخص عنقریب حزقیاہ بادشاہ کی جگہ مقرر ہوگا۔
اور اس روز میں اپنے بندے الیاقیم بن حلقیاہ کو بلاؤں گا اور تیری پوشاک پہناؤں گا اور تیرا کمربند اسے باندھوں گا اور تیرا عہد اس کے ہاتھ میں دوں گا اور وہ یروشلم کے باشندوں اور یہودہ کے گھرانے کا باپ ہوگا اور میں داؤد کے گھر کی کنجی اس کے کندھے پر رکھوں گا اور وہ کھولے گا تو کوئی بند نہ کرے گا اور وہ بند کرے گا تو کوئی نہ کھولے گا۔
یسعیاہ باب 22 فقرات 20 تا 23)
یہ پورا واقعہ پطرس کے انجیلی تقرر میں چند غیرمعمولی مشابہتیں ظاہر کرتا ہے جہاں چٹان ہونے کے بجائے الیاقیم کیل کی طرح مضبوط جگہ میں قائم ہے، لیکن مضبوطی کی تشبیہ یکساں ہے۔ "آسمان کی بادشاہت کی کنجیاں" دینے کے بجائے الیاقیم کو "داؤد کے گھرانے کی کنجیاں" دی گئیں۔ یہ آخری بیان مشابہت سے زیادہ ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ آسمان کی بادشاہت دراصل داؤد کے گھرانے کے متماثل ہی تھی۔ یسوع نے یہاں وہی اسلوب بیان استعمال کیا ہے جو وہ تمثیلی انداز میں آزاد اسرائیل کے لیے استعمال کرتے تھے، یسوع کو اسرائیل کی آزادی جو کہ درحقیقت خدا کی بادشاہت تھی، کی امید تھی کہ آزاد اسرائیل کی سرزمین رومی قانون کے زیرتسلط ہونے کے بجائے خدا کے قانون (خدا کی بادشاہی) کے ماتحت ہوگی۔ یسوع پطرس کو اس ملک کے بادشاہ کی حیثیت سے مقرر کررہے تھے جس کا سربراہ دوسرا داؤد ہوگا. یسوع خود بھی اپنے باپ داؤد کے تخت کا وارث ہونے کا جواز رکھتے تھے۔ یہ معاملہ وضاحت طلب ہے کہ یروشلم چرچ کے سربراہ یسوع کے جانشین پطرس کے بجائے یعقوب کیسے بن گئے؟ ایک بادشاہ کا جانشین وزیر اعظم کے بجائے اس کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، اگرچہ وزیراعظم بھی نئے بادشاہ کے ماتحت اپنی خدمات سرانجام دے سکتا ہے۔ یہ نقطہ اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ یروشلم چرچ کی قیادت میں یعقوب کے بعد آنے والے بھی یسوع کے قریبی رشتہ دار ہی تھے۔ یسوع کی تحریک ایک نئے مذہب کے بجائے بادشاہی تحریک تھی جس کا مقصد قدیم یہودی بادشاہت کی بحالی تھا، یہودیت سے الگ تھلگ بطور نئے مذہب کے، مسیحیت کا بانی یسوع کے بجائے پولس تھا۔
الیاقیم اور پطرس کو دیئے گئے عہدوں کے درمیان مشابہت بہت نمایاں ہے. ایک طرف پطرس سے کہا گیا کہ " جو کُچھ تُو زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھیگا اور جو کُچھ تُو زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُولے گا۔ " تو دوسری طرف الیاقیم سے کہا گیا کہ" وہ کھولے گا تو کوئی بند نہ کرے گا اور وہ بند کرے گا تو کوئی نہ کھولے گا۔باندھنے کی اصطلاح ربائی تمثیلی بیان میں منع کرنے کے لیے اور کھولنا کا معنی اجازت دینا ہے۔ یہ ایک بےحد واضح سامی اصطلاح ہے جو اس قضیہ میں موجود ہے۔
یسوع کی کیا مراد تھی جب وہ پطرس سے کہہ رہے تھے کہ جو کچھ وہ زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کُچھ وہ زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُولے گا؟یہاں آسمان کی اصطلاح خدا کے ہم معنی میں نہیں ہے (جیسا کہ ایک عمومی ربائی بیان میں پیچھے آسمان کی بادشاہی کے لیے استعمال ہوا ہے) یہاں اس کا مطلب خدا کا گھر ہے. آسمان کی بادشاہت کی کنجیوں کا پطرس کو جانشین بنانے کے معنی مسیحی قارئین خلط مبحث کرتے ہوئے یہ اخذ کرتے ہیں کہ پطرس ایک نگہبان فرشتے کی حیثیت سے جنت کے دروازے پر یہ فیصلہ کرنے کے لیے مامور ہے کہ کون اس میں داخل ہوگا اور کسے رد کردیا جائے گا). لیکن یسوع پطرس کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار کیسے دے سکتے تھے کہ جس کو خدا کو بھی قبول کرنا پڑے؟ کیا یہ پطرس خدا سے بڑھ کر بلند مرتبت اور مافوق الفطرت ہستی ہے؟
ہم اس معاملے کو ربائی تصنیفات کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک ربائی تحریر یسوع کا پطرس کو عہدہ دینے کے معاملے سے تعلق رکھتی ہے مشہور ربی جوشوا بن حننیاہ جس نے اس تاریخ کے بارے میں جو انہوں نے اس سال کفارے کے دن کے لیے مقرر کی تھی، اس مسئلہ پر گملیل ثانی کی عدالت کے فیصلے سے شدید اختلاف کیا۔ (یہ اس دور میں ہوا جب وہاں کوئی خاص کلینڈر مقرر نہ تھا اور مہینوں کے آغاز کا فیصلہ چاند دیکھ کر کیا جاتا تھا)
ربی گملیل نے ربی جوشوا کو بھیجا اور کہا کہ میں تمہیں کفارے کے دن اپنے ہرکاروں اور نذرانوں کے ساتھ میرے پاس آنے کے لیے مقرر کرتا ہوں۔ ربی عقیبہ، ربی جوشوا کے پاس گیا تو اسے حیران و پریشان پایا۔ اس نے اسے کہا :میں تمہیں کتاب مقدس سے سمجھا سکتا ہوں کہ جو کچھ گملیل نے فرمایا بالکل درست کہا ہے کیونکہ ایسا ہی لکھا ہے خداوند کی عیدیں جن کا اعلان تم کو مقدس مجمعوں کے لیے وقت مقرر پر کرنا ہوگا وہ یہ ہیں (احبار 23:4) خواہ ان کی آمد خاص موسموں میں ہو یا نہ ہو۔ میں جانتا ہوں کہ ان کے علاوہ کوئی بھی عید محفوظ نہیں رہی ہے۔ ربی جوشوا اسکے بعد ربی دوسا بن ہرکیناس کے پاس کیا (جو پہلے ہی ربی گملیل کے فیصلوں سے اختلاف رکھتا تھا) اور اسے کہا : اگر ہم ربی گملیل کی عدالت کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کی جانچ پڑتال کریں گے تو پھر ہمیں ہر اس عدالت کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کی تفتیش کرنی پڑے گی جو موسی کے دور سے اب تک قائم ہوئی ہیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں اور اپنے نذرانے ساتھ لیے اور جبناہ کی طرف ربی گملیل سے ملنے اس وقت روانہ ہوا جو کہ اس کے حساب سے کفارے کا دن تھا۔ ربی گملیل نے کھڑے ہوکر اسکے سر کا بوسہ لیا اور کہا : سلامتی میں رہو میرے استاد، میرے شاگرد میرے استاد تم دانائی و حکمت میں ہو اور میرے شاگرد اس لیے کہ تم نے میری بات کو قبول کیا۔ (m. Roz. Hash. 2.9,Danby's translation )
یہاں ہم یہ نظریہ دیکھتے ہیں کہ خدا نے ربائی عدالت کا فیصلہ خارجی طور پر درست یا غلط ہونے کے امکان کے باوجود قبول کر لیا۔ جب یسوع نے پطرس کے بارے میں یہ اعلان کیا کہ جو کُچھ تُو زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھیگا اور جو کُچھ تُو زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُولے گا، تو یسوع کے مافی الضمیر مراد یہ نہیں تھی کہ پطرس کو انفرادی حیثیت سے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے بلکہ اسے ربائی گملیل کی طرح ایسی عدالت کا سربراہ مقرر کرنا تھا جس کے فیصلے کثرت رائے سے منظور کیے جاتے تھے۔ عصرحاضر کا کثرت رائے کا جمہوری اصول تلمود کے واقعات میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اس واقعے میں سب سے حیرت انگیز بات ربائی العزر کا شرعی عدالت کے فیصلوں سے انحراف کی کوشش اور اس کے رائے کے برخلاف کثرت رائے سے ہونے والے فیصلوں کی منسوخی کا خواہاں ہونا دراصل خدا کو اپنی مدد کے لیے پکارنا تھا۔ ایک ہاتف غیبی کی آواز آتی کہ ربائی العزر درست ہے۔ ندائے غیب خلاف قائدہ قانون تھا کیونکہ اکثریت رائے کا اصول خود خدا کی طرف سے قائم کیا گیا تھا جس کو کسی معقولی اختلاف کے بغیر منسوخ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس پورے قصے (جو کہ قرون وسطی میں ہونے والے مسیحی و یہودی مناظروں میں مسیحی دلیلیوں کی طرف سے ملعون قرار دیا گیا) کا نتیجہ یہ تھا کہ خدا ہنسا اور کہا! میرے بچوں نے مجھے مات دے دی ہے۔ اس مبینہ کہانی کے مطابق خدا خوش تھا کہ انسانی عدالت میں اسکے خلاف اسکے حقوق کا حق جتایا ہے۔
اگرچہ انسانی عدالتوں کے فیصلوں میں انسانی اور مغالطہ انگیزی کا امکان موجود رہتا تھا مگر اسکے باوجود بھی یہ خدا کی طرف سے خاص معنوں میں سمجھے جاتے تھے کیونکہ کثرت رائے سے فیصلہ کرنے کا اختیار خدا کی طرف سے ہی دیا گیا تھا۔ اس طرح کے فیصلے غلط ہونے کے باعث بوقت ضرورت اعلی عدالتوں کی طرف سے بدل دیئے جاتے تھے۔ یہ ضابطہ دستور کی ربیانہ اور تخیل پروازی کی صورت ہے جس نے بعد میں مسیحی چرچ کے تیر بہدف نظریات کی ادھوری بنیاد فراہم کی. تاہم یہ بیسویں صدی تک عقیدہ نہ بن سکی۔
پس ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یسوع کے پطرس کے لیے کہے گئے الفاظ ربائی گملیل ثانی (اعمال میں مذکور گملیل کا پوتا) کی طرح ایک عہدے کی تقرری کے لیے تھے جو کہ اس مجلس کا سربراہ تھا جس میں قانون سازی کی جاتی تھی۔ ربائی گملیل نے بھی اسی عدالت کی صدارت کی جس کے فیصلے خدا کی طرف سے قبول کیے جاتے تھے "جو زمین پر باندھو گے آسمان پر بندھے گا اور جو زمین پر کھولو گے آسمان پر کھلے گا"۔ جب ربائی گملیل کی عدالت نے کفارے کے دن کی مخصوص تاریخ کے تعین کا فیصلہ کیا تو خدا نے بھی بظاہر اس کے غلط ہونے کے باوجود آسمان پر اپنے کلینڈر پر اسی تاریخ پر نشان لگا دیا۔
لہٰذا یسوع کی جانب سے پطرس کی تقرری نہ صرف ایک لسانیاتی (جیسا کہ کھولنے اور باندھنے کے عبرانی اصطلاحی لفظ جو کہ اجازت دینے اور منع کرنے کے معنی میں ہیں) نمایاں خصوصیت کو ظاہر کرتی اور اسے مستند بناتی ہیں بلکہ نظریاتی خصوصیت کو بھی ظاہر کرتی ہے (وہ تصور جس کے مطابق خدا بزرگوں کی انسانی مجلس کے فیصلوں کی پابندی کرنے کا ذمہ دار تھا) جو کہ پطرس کے واقعہ کو ربائی گملیل کی طرح قابل قبول بناتی ہے۔ یہودیوں کے مذہبی رجحانات میں صرف ربائی تحریک اور ان سے قبل فریسی تحریک میں ہی یہ جرات مندانہ تصور موجود تھا کہ خدا نے ان کو خطا پر مبنی فیصلے کرنے کا اختیار دیا تھا۔ وادی قمران کے صحائف جس یہودی فرقہ سے متعلق ہیں ان کے یہاں بھی ایسا کوئی تصور موجود نہیں تھا جیسا کہ ان کے لکھنے والوں کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے جو کہ ربائی مشنا اور تلمود سے مختلف ہے اور فیصلہ کرنے یا ووٹ دینے کا کوئی ماحول اپنے اندر نہیں رکھتے بلکہ وہاں قابل توجیح خیالات کا اظہار مقصود ہے جسے ناقابل تغیر اور مذہبی قائدہ سمجھا جاتا تھا۔
ربائی العزر کے قصے کے بارے میں قرون وسطی کے مسیحیوں کی ملامت کچھ تبصروں کا تقاضہ کرتی ہے یہ واقعہ مسیحیوں کے اس الزام کی توثیق کرتا ہے جس میں ربیوں نے خود ہی صحائف کو منسوخ کرنے کے اپنے حق کو رد کردیا تھا۔ یہاں ربیوں کی اس طرح عکاسی ہوتی ہے جیسا کہ انہوں نے خود خدا کو ہی رد کردیا ہو۔ یہ بالکل کفر تھا اور عہد جدید کے اس بیان کی تصدیق ہے جس میں یسوع فریسیوں کو مجرم ٹھہراتے ہیں کہ " تُم نے اپنی رِوایَت کے سبب سے خُدا کے حُکم کو باطل کردیا ہے"۔ (متی 15:6)
اسکے باوجود عہد نامہ جدید میں نظر آتا ہے کہ فریسیوں اپنی دعاوی میں عاجزی رکھتے تھے کیونکہ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ یسوع نے ایک خاص قسم کے اختیار کو اپنا کر تعلیم دی جس کے لوگ پہلے سے عادی نہ تھے۔ "
وہ اُن کے فقِیہوں کی طرح نہِیں بلکہ صاحبِ اِختیّار کی طرح اُن کو تعلِیم دیتا تھا" (متی 7:29) یہاں ایک تضاد یہ ہے کہ فریسی پراعتماد ہوکر صحف کو منسوخ کرتے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اختیار کا دعوی کئے بغیر تعلیم دی۔ یہ غیر معقول بیان دراصل اس بات پر ایک خفیف عکس ڈالتا ہے۔ ربائیوں کی تحریک نے قانون سازی کا دعوی کیا یا اسلاف کے بنائے گئے قوانین کو بطور روایت منتقل کیا جن میں سے کچھ بظاہر اصل تعلیمات کے خلاف نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ "آنکھ کے بدلے آنکھ" کے حکم کو لغوی معنی میں نہ لیا جائے بلکہ اسے زخمی کے زخموں کا زر سے ہرجانہ لینے کے معنی میں استعمال کیا جائے۔ اس وقت تک ان کے قوانین بعینہ انسانی سطح پر بنتے تھے اور اگر اتفاق رائے کا ثابت ہونا اکثریت رائے سے ناممکن ہوتا تو بحث و یقین کے ساتھ قبول کیے جاتے تھے۔ یہ اختیار کا طریقہ نہیں تھا اور وہ یہ اعتبار ظاہر کرتے تھے کہ ان کی غیر معتبر طریقہ کار کی روش خدا کی طرف سے منظور شدہ ہے۔ تاہم یہ غیر معمولی بات اتنی باریک تھی کہ مخالفین کی طرف سے اس انداز میں وقعت پا گئی کہ انہوں نے فریسیوں کو خدا کے خلاف اپنے اختیار سے منصوبہ بنانے والا قرار دے دیا۔ اس معاملے میں ان کے سب سے بڑے مخالف صدوقی تھے جنہوں نے روایات کی پیروی کرنے اور کتاب مقدس سے عنقا قوانین وضع کرنے پر فریسیوں پر شدید تنقید کی۔
لیکن یسوع یقیناً صدوقی نہیں تھے ان کا بظاہر صدوقی ہونا متاخرین علماء کی روایات کے خلاف ہے۔ یہ وہی روایات ہیں جو کتاب مقدس کے لغوی معنی پر زیادہ زور دیتیں، اس کی سزاؤں میں تخفیف کرتیں، خواتین کی حالت میں ارتقاء لاتیں اور ہر قسم کی جدت کو قائم کرتی ہیں جیسا کہ جوزفیس نے لغوی معنی کی طرف محتاج صدوقیوں کی سخت مزاجی کا فریسیوں کی رحمدلی کے ساتھ موازنہ کیا ہے (antiquities 13.10.294).
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔