Pages

Most Popular

جمعہ، 3 اپریل، 2020

عہدنامہ جدید میں یسوع کے بدلتے چہرے





عہدنامہ جدید میں یسوع کے بدلتے چہرے
تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
اس تحریر کو پی ڈی ایف کی شکل میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔          یسوع کے وقفاًفوقفابدلتے چہروں کی وضاحت کامقصد عہدجدید کے مختلف مقامات میں یسوع کے حیات کے تدریجی مراحل کوبیان کرناہے کہ کس طرح سے مصنفین عہدجدید نے یسوع کی ذات سے منسوب افکار کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر یسوع کی شخصیت کونبی سے لے کر مجسم خدا بناڈالا۔ غیر اقوام سے تعلق رکھنے والے ان مصنفین عہدجدید کی اس روش کامقصدا س کے سوا کچھ اور نہیں تھاکہ یسوع کی ہستی کو مشرک اقوال کے لیے زیادہ سے زیادہ قابل قبول اور پرکشش بنایاجاسکے۔ان کے اسی طرز عمل نے یسوع کو ایک متنازع شخصیت بناڈالا۔
عہدجدید کی اولین تحاریر مقدس پولس کے خطوط ہیں اس کےبعد سب سے پہلی انجیل مرقس،بعدازاں متی ولوقا،آخر میں یوحنااور سب سے آخر میں اعمال کی کتاب کانمبر آتاہے۔اس ترتیب سے اگر یسوع کی سوانح کامطالعہ کیاجائے تو قاری کواس امر کاادراک ہوتاہے کہ  مصنفین عہدجدید میں سے ہرایک نے یسوع کو یاتوایک نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی یاپھر مقدس پولس کے مؤقف کی تائید میں یسوع کی ذات میں مزید شاخ وبرگ کااضافہ کیاجس نے بیانات میں موافقت پیداکرنے کے بجائے انہیں مزید الجھادیااوریوں درست حقائق کاادراک مزید پیچیدگی کاشکارہوگیا۔
          اس مضمون کی شروعات ہم یوحناکی انجیل سے کریں گے جوکہ وقائع نگاری کی تاریخ (دوسری صدی کے ابتدائی سالوں میں)کے اعتبار سے نہ صرف سب سے جدید  انجیل ہے (کیونکہ یہی انجیل سب سے آخر میں لکھی گئی اور یسوع کے متعلق اُن نظریات کی خبر دیتی ہے جو دوسری صدی کے اوائل میں مسییحیت میں مروج تھے)بلکہ عہدجدید میں مسیح کو پیش کرنےکے اعتبار سے بھی نئی باتوں کی خبرد یتی ہے۔یوحناکی انجیل  بنیادی طورپر ابتدائی اناجیل متوافقہ سے مختلف بھی ہےاوران کے مذہبی رنگ سے بھی مشابہت نہیں رکھتی۔یوحنا کی بیان کردہ داستان میں مصلوبیت اوریسوع کی موت کے واقعات کے علادہ بمشکل ہی ایسا مواد ملتاہےجو دیگراناجیل متوافقہ سے مشابہ ہو۔ یوحناکی انجیل ،خداکی بادشاہت کےبارے میں یسوع کی باربار دی جانے والی تعلیم کے بڑے حصے کونظرانداز کردیتی ہے اوراس کے بجائے ذومعنی تماثیل اور یسوع کی ایسی بےترتیب تقاریرکو شامل کرتی ہے جس میں یسوع اپنی ذات کے بارے میں ہی وضاحتیں پیش کررہے ہیں۔انجیل نویس کے اس طرزتحریر سے معلوم ہوتاہے کہ یوحناکی انجیل کےلکھے جانے تک یسوع کی الوہیت کاعقیدہ اپنی جڑیں مضبوط کرچکاتھا۔
           اس چوتھی انجیل میں ہم یسوع کو ایک کرشماتی گلیلی  مردکے بجائےایک ایسی الوہی حیثیت رکھنے والی ہستی کے طورپر پاتے ہیں جسے اس زمین پر عارضی طورپربےدخل کیاگیا ہواوروہ عنقریب اپنے حقیقی گھر لوٹ جانے والاہو۔انجیل یوحنا کے ابتدائیہ میں موجود252شانداریونانی الفاظ  درا صل عہدجدید کےعلم الہیات کامنبع اوربنیادہیں کیونکہ بعدازاں مسیحی کلیسیاء کی بنیاد انہی عقائدپر استوار کی گئی جن کی تعلیم یوحنانے اپنی انجیل کی تمہید میں دی ہے۔اس تمہیدی بیان کے مطابق اس دنیاکی تخلیق میں اپناواحدکرداراداکرنے والا ،خداکاابدی اورالوہی کلمہ یسوع کی شکل میں مجسم ہواتاکہ ان دیکھے خداکوانسانی شکل میں ظاہر کرے۔
          انجیل یوحناکی تصنیف  تک مسیحیت کی یہودی مخالفت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی جس کی بنیادی وجہ مقدس پولس کے وہ مشرکانہ اقوام سے مستعار عقائد ونظریات تھے جو انہوں نے یسوع کانام لے کر پیش کیے تھےچنانچہ اس انجیل میں یہودی مخالف کاعنصر دیگراناجیل کی نسبت زیادہ نظرآتاہے۔اس انجیل کامصنف یسوع کواس کے یہود ی پس منظرسے جداکرکے ایک الگ ہستی کے روپ میں پیش کرتاہے ۔اس کی بہترین مثال یوحنا6:49 میں نظرآتی ہے جہاں یسوع یہودیوں سے دوران مکالمہ کہتے ہیں کہ "تمہارے باپ دادانے بیاباں میں من کھایااور مرگئے"۔اس مقام پر یہود کے جن آباء کے متعلق انجیل نویس نے یہ الفاظ یسوع کے منہ میں ڈالے ہیں وہ لوگ جس طرح یہودیوں کے اسلاف ہیں اسی طرح یسوع کے بھی آباء واجداد ہیں اور یسوع کاان کے متعلق اس طرح سے لاتعلقی کااظہار کرنااس امر کاغماز ہے کہ اس انجیل کی تصنیف کے وقت یہود ی ومسیحی مخاصمت نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی۔
یسوع کے متعلق یوحنا کاپیش کردہ خاکہ بعدمیں آنے والی مسیحیت کاخلاصہ اور پیش خیمہ ہے۔چرچ کے ابتدائی ہزارسالوں کےزبردست نظریاتی اختلافات اور اس کی تاریخ تقریباانہی نظریات کے گرد گھومتی ہے جوکہ چوتھی انجیل ،یوحناکےابتدائیہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ آرتھوڈکس کلیساء کے نظریات "ایک شخص میں دوفطرتوں کااجتماع"ہوں یانظریہ تثلیث وتجسیم ،سب کچھ یوحناکی اسی روحانی انجیل سے نکلتے ہیں۔اس حقیقت کومدنظررکھتے ہوئے اگریہ کہاجائے تو بےجانہ ہوگاکہ مشرقی مسیحیت کے علوم الہیات کابانی درحقیقت یوحناانجیل نویس ہے۔
پولس کے خطوط یوحنا سے ایک صدی قبل لکھے گئے چنانچہ اس لحاظ سے یہ انجیل یوحناپر تاریخی برتری رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان دونوں تحاریر میں مسیحیت کانظریاتی ارتقاء محسوس نہیں ہوتااور ایک قاری کو یوں گمان ہوتاہے کہ دونوں تحاریر ایک ہی زمان ومکان سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ بات مسلمہ ہے کہ پولس ہی مسیحیت کاحقیقی خالق اور مغربی مسیحیت کے عقیدہ کفارہ کابانی ہے۔ پولس کی یسوع سے اس کی حین حیات کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ،یہی وجہ ہے کہ پولس کے پاس یسوع سے نقل کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھامگر اس کے باوجود اُس(پولس)نے اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی نگاہ اس ہستی پر مرتکز کی جسے یہودی معاشرہ "المسیح"کی حیثیت سے جانتاتھا اور اسی نے دنیامیں آکر  یہودی اور غیریہودی دونوں کوہی نجات دینی تھی۔
چنانچہ پولس نے 'المسیح' کے متعلق ایسا تصور پیش کیاجس میں المسیح باقی ماندہ انسانوں سے ماوراءتھا لیکن کلی طورپر الوہی صفات وحیثیت کامالک نہ تھا۔ایسا 'تصورمسیح 'افسانوی مذاہب کے ہیروز کی یاد دلانے والاتھا جن کی داستانیں یونانیت ذدہ رومی معاشرے میں ہرخاص وعام کی زبان پر مشہور تھیں اور ان کے مطابق اسی'المسیح'نے آکرنجات کے خدائی منصوبے میں اپنامرکزی کرداراداکرناتھا۔
پولس کے مطابق آدم وہ پہلے انسان ہیں جن کی وجہ سے گناہ اور موت وجود میں آئی مگر آخری آدم(یسوع مسیح) تمام گناہگاروں کو زندگی اور نجات بخشتاہے۔ غیراقوام میں انجیل پہنچنے سے پہلے ہی یسوع کی آمد ثانی  (جوکہ نہیں ہوسکی)کے نظریے کو پولس اور قدیم کلیساء نے فوراً قبول کرلیاتھا اورپھر لوگوں کواسی کی تعلیم دی۔اس(پولس) نے یہ خیال کیا کہ مشرک اقوام میں اس کی ترقی اورشہرت یہودیوں کی حسد میں اضافہ کرے گی جنہوں نے یسوع کا بحیثیت المسیح انکار کردیاتھا۔پولس کے مطابق ایسے لوگ اپنے روحانی ورثے کو نہ صرف کھوچکے بلکہ (غیراقوام کی طرف سے یسوع کو قبول کیے جانے کے بعد)مشرک اقوام کے سامنے بھی مکمل طورپر ناکام ہوگئےتھے۔پولس سمجھتاتھاکہ اگر یہودی اس کی منادی یکے نتیجے میں یسوع کوقبول کرلیتے ہیں تووہ چھلانگیں اوردوڑ لگاکرعنقریب نجات کوحاصل کرلیں گے اوراس طرح سے تمام انسانیت بشمول یہود وغیریہود سب مسیح کے ذریعے نجات حاصل کرلیں گے۔
پولس کویقین تھاکہ فقط اسے ہی خداکی طرف سے یونان،ایشیائے کوچک اورملک شام سے شروع ہونے والے بحیرہ روم کے مشرقی اور شمالی ساحلوں پر تمام غیراقوام میں منادی کے لیے منتخب کیاگیاہے۔وہ روم جانےاور اٹلی کوتبدیل کرتےہوئے اسپین تک پہنچنے کامنصوبہ تیارکرتاہے کیونکہ مشرق میں فقط اسپین ہی  ایسا ملک تھاجہاں سے پولس کو کچھ امید تھی  کہ مسیح کی واپسی کے عقیدے کی منادی کو وہاں بآسانی قبول کرلیا جائے گا۔
جیساکہ مشہور ہے کہ خوبصورت خوابوں کے ساتھ کسی معاملے کااختتام اس کے انتہاء پر پہنچنے سے پہلے ہی ہوجاتاہے چنانچہ یہاں بھی ایساہی ہوا۔پولس کبھی اسپین نہیں پہنچ سکااوریہودی اور مسیحی تاحال دوٹکڑوں میں تقسیم ہیں جبکہ دوہزارسال گزر گئے ہیں  لیکن ابھی تک مسیح کی واپسی بھی نہیں ہوئی  ہے۔لیکن مسیحی دنیا کواب تک اس کی واپسی کایقین ہے  ۔عالم مسیحیت کے اس  ایقان کی وجہ یسوع کاوہ روحانی خاکہ ہے جوایک ایسے اجنبی اور غیرمتعلقہ شخص نے کھینچاجوکبھی بھی (روحانی اور نہ ہی جسمانی طوپر)کبھی یسوع سے ملاہی نہیں تھا۔
یسوع کے مجسم خداسمجھنا،اس کاکفارہ اوراس کی واپسی کاایقان وغیرہ یہ سب ایسے مور ہیں جوہمیں "رسولوں کے اعمال" کتاب کے نصف اول میں موجودیسوع کے تیسرے خاکے کی طرف لے جاتے ہیں جہاں یسوع کی منادی وہ یہودی مسیحی(Jewish Christians) کررہے تھے جنہوں نے اسے (یسوع کو)بذات خود دیکھا،سنااور چھواتھا۔اعمال کی کتاب کی یہ  تصویر پولس کے تصور نجات اور یوحناکے الوہی حیثیت کے حامل مسیح کے خاکے سے بہت دور ہے ۔اعمال کی کتاب کا یسوع ایک کرشماتی گلیلی شخص  ہے جسے خدانے عزت وتوقیر بخشی ہے۔ اعمال2:22 کے مطابق پطرس اپنے پہلے مسیحی خطاب میں یروشلم کے ایک بڑے مجمعے کے سامنے یسوع کو خداکے بجائے ایک عام انسان قرار دیتاہے جس کا خدا کی طرف سے ہونا معجزوں،عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا۔اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ فقط ایک نبی تھا۔
جب ہم اعمال کی کتاب کے چھٹے باب میں پہنچتے ہیں تو وہاں ہماری اس یسوع سے ملاقات ہوتی ہے جو مرقس،متی اور لوقا کی اناجیل متوافقہ میں موجود  ہے مگروہاں ان کو  اس انداز سے پیش کیا گیا  ہے کہ وہ اب تک زندہ ہے،گلیل کے دیہاتی گردآلود راستوں پر گھومتاپھررہاہےاور ایک خانہ بدوش شفاء دینے والے،بھوت بھگانے والے،منادی کرنے والے شخص کے طورپر اپنے افعال سرانجام دے رہاہے۔نیز یہ یسوع معاشرے کے دھتکارے ہوئے افراد "کسبیوں،محصول لینے والوں اورگناہگاروں"کی نظر میں نہایت معتبر اور ان کاممدوح ہےمگر عجیب بات ہے کہ ان افراد کایسوع کی تعریف کرناہیکل کے عہدیداروں،بزرگوں اور فقہاء کی نظر میں نہایت معتوب اور مبغوض ٹھہرتاہے۔اس (یسوع)کے ہمدردوں نے شروع سے ہی اس کی تعظیم ایک معجزات دکھانے والے نبی کی حیثیت سے کی اور وہ اپنے لوگوں میں المسیح ابن داؤد کے نام سے معروف ہوا۔اس کے مفیدکرشماتی کارناموں کو آنے والے اس دور کے قائم مقام دیکھا گیا جس میں المسیح کی حکومت قائم ہوگی اور اندھے دیکھیں گے،بہرے سنیں گے،لنگڑے چلیں گےاورکوڑھی شفاء یاب ہونگے۔
یسوع ایک جنگجو المسیح نہ تھا اور نہ ہی سیاسی قوت حاصل کرنے کاامید تھاجیساکہ اس کے معاصرین یہودیوں نے عبرانی نوشتوں کی تشریح کرتے ہوئے مسیح سے توقعات وابستہ کرلی تھیں،یسوع کسی بھی ایسی امید پر پورااترنے سے قاصر ہی رہا۔مسیحیت کے مطابق اس کے المسیح کادعوے کرنے کابنیادی مقصد ایک نئے عہدکی آمد کی نوید سناناتھااور اس نئے عہد میں یسوع کو خداکی طرف سے یہودیوں کی قیادت کی ذمہ داری دی گئی تھی تاکہ وہ توبہ کریں اور ارض موعود کودوبارہ حاصل کرسکیں۔
ہیکل میں کبوترفروشوں اور سوداگروں کی دکانوں کے ساتھ غلط سلوک اورہیکل کی اعلیٰ انتظامیہ جیسا رویہ اختیار کرنایسوع کے لیے ہرگزرواں نہ تھاکیونکہ یروشلم اُس وقت نہایت غیرمستحکم اور شورش زدہ علاقہ تھالہذا اس کاایسا طرزعمل غلط وقت پراورغلط جگہ پرانتہائی غلط قدم اٹھانے کے مترادف تھا۔قدس الاقداس میں پیش کیے جانے والے خالص چاندی کے سکوں کوبیچنے والوں،قربانی کے جانوروں کوبیچنے والوں اورسوداگروں کی دکانیں اور میزیں الٹادینااس کی سنگین غلطی تھی۔غلط مقام یروشلم کامقدس ہیکل تھا جہاں زائرین اور مقامی لوگوں کاایک بڑامجمع جمع ہوتااورکاہنوں کی طرف سے (جوکہ سردارکاہن کے حکومت کی طرف سے تقرر ہونے کے باعث رومی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے)اشتعال انگیز سرگرمیوں کے حوالے سے  لوگوں کونرمی کی تلقین کی جاتی تھی۔نیزعیدفصح کے آمدہ ایام ،آزادی کی عید اور مسیح کے ظہورکی متوقع تاریخ یہ سب ایساخطرناک وقت تھا کہ اس وقت قانونی انتظامیہ کی ہمت جواب دے جاتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ یسوع کی اِس کاروائی کوامن وامان کے لیے بڑاخطرہ سمجھاگیا۔اسے یہودی قائدین کے ذریعے گرفتار کیاگیا تاہم انہوں نے اس کی موت کی ذمہ داری خود پر لینے کے بجائے اسے سیاسی انتظامیہ کے حوالے کردیا چنانچہ یسوع کو یہودیہ کے گورنر پیلاطوس کے حکم پر رومی صلیب پر لٹکادیاگیا۔
یہ منظرنامہ اناجیل متوافقہ کے ایک ایسے یسوع کے بارے میں پیش کیاگیا جوکرشماتی،مسیحانہ شفاء دینے والا،بھوت بھگانے والااور خداکی بادشاہت کی منادی کرنے والاتھا لیکن شاید ہی کسی ایک انجیل نویس نے بھی اس کے متعلق کچھ سچ لکھاہو۔ لیکن اناجیل کی پیش کردہ یہ تصویراس امرکاتقاضہ کرتی ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں فلسطینی یہودیت اس کے سیاسی،سماجی اور مذہبی پس منظر پر غورکیاجائے۔ان تمام حقائق کا ادراک کرنے کا بہترین ذریعہ داوی قمران کے صحائف ،پہلی صدی عیسوی کےمؤرخین فلواور جوزیفس،قدیم بائبلی اورربائی دستاویزات ہیں جہاں دوران مطالعہ ہماراسامنا یسوع سے زیادہ معجزات دکھانے اور کرشماتی طاقتوں کے حاملین کرداروں سے ہوتاہے۔ایسےبرگذیدہ افراد میں ہونی دائرہ کش،حننیاہ بن دوسااور ارنیاس کابیٹایسوع سرفہرست ہیں۔
اناجیل متوافقہ کے مطابق یسوع کے کردارمیں عجیب تاثیر تھی جس نے  اس کے شاگردوں کے قلوب واذہان میں بھی گہرااثر ڈالااوراسی اثر کے باعث انہوں نے یسوع کے بعد بھی اس کے نام کے ساتھ اس کامشن  جیساکہ شفایابی، بھوت نکالنا اور خداکی بادشاہت کی منادی کرنا جاری رکھا۔لیکن اب جدیددنیا میں یسوع اور اس کی آمد ثانی سے متعلقہ ان عقائد کازوال شروع ہوگیاہے جنہیں انجیل نویس یوحنا،پولس کے انوکھے مکاشفے اور کلیسیاء کے خودساختہ عقائد نے مل کر تشکیل دیاتھا۔
پہلی صدی عیسوی کے اختتام تک،مسیحیت یسوع اور اس کے پیغام کے حقیقی معانی کے درست ادراک کی صلاحیت تقریباً کھوچکی تھی  کیونکہ پولس،یوحنااور ان کے نظریات کی بنیاد پر بننے والی کلیسیاؤں نے اس کو 'یسوع کے بجائے'مسیح کے ایمان سے بدل دیاتھا۔انتقال نظریات کایہ عمل  نہ صرف مذہبی تناظر میں ہوا بلکہ اس نے تہذیبی ساخت پر بھی گہرااثر ڈالاجس کے نتیجے میں فقط چنددہائیوں کے اندر اندر ہی تاریخی شناخت رکھنے والے یسوع کاپیغام آرامی عبرانی لسانیاتی سیاق وسباق  سے بالکل کٹ گیاجس کےباعث یہودیوں اصطلاحات کومشرکانہ معانی کالبادہ اڑھادیاگیا۔اس تبدیلی کااثر گلیلی فلسطینی جغرافیائی ترتیب   پربھی پڑا نیزیسوع اوران کا پیغام اپنے یہودی مذہبی تشخص سے نکل کر ابتدائی طورپر یونانی بولنے والے مشرکین اور وسط ایشیاء کی دنیاکے قدیم تہذیبی پس منظر میں تبدیل ہوگیا۔اس تبدیلی نے نہایت ہی کم وقت لیا کیونکہ کلیسیاء کی بنیادبننے والی مٹی ابھی تک نرم اور لچکدار ہی تھی اور اسے کمہار کی پسند کے مطابق کسی بھی وضع میں بآسانی ڈھالاجاسکتا تھا  چنانچہ ایساہی ہوا،پولس نظریات اور انہیں تقویت دینے کےلیے منصہ شہود پرآنے والی اناجیل نے اس ضمن میں مرکزی کرداراداکیاجس کے نتیجے میں مشرک اقوام کی طرف سے ایسا چرچ وجود میں آیا جواپنے یہودی ہونے کے احساس سے عاری ہوچکاتھااورآگے چل کر یہ بدترین یہودی مخالف ثابت ہوا۔
دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں چرچ کی قیادت کرنے والے استادوں نے  یونانی فلسفہ پرعبور حاصل کیا جیساکہ لیونس کا ارینیاس ،کلیمنٹ ،اوریجن اوراسکندریہ کا اثناسیس ۔انہوں نے خدا کے لیے توبہ اور خودکواشاعت مذہب کے لیے وقف کرتے ہوئے یسوع کی شناخت فلسفیانہ رو سے ظاہرکرتے ہوئے اُسے(یسوع کو)مافوق الفطرت ہستی،خداکے ابدی کلمے کاتجسم اور تثلیث کادوسرااقنوم ہونے کی تعلیم دی۔اس وقت چونکہ پولوسی نظریات رکھنےو الی کلیسیاء اپنی جڑیں مضبوط کرچکی تھی لہذاوہ ایسی مشرکانہ تعلیم دینے میں بالکل آزاد تھے کیونکہ اس بات کاکوئی خطرہ نہ تھا کہ ان مشرکانہ تعلیمات کے خلاف کوئی یہودی آواز اٹھ سکتی ہے ۔
یہ ایک یقینی سچ ہے کہ اگر مسیحیت اپنی جڑیں رومی سلطنت کے صوبوںمیں سیاسی قوت کے زور پر مضبوط نہ کرتی تو آج یہ فقط یہودیت کاایک حقیر سافرقہ ہوتی جس کے متعلق شاید ہی کسی کو علم ہوتا۔
 چرچ کا یہ طے کرناکہ  غیر یہودیوں کو بھی مسیحیت کے دامن میں لایاجاسکتاہے ،یہ دراصل  غیریہودی دنیاکے فائدے کے لیے مسیحی پیغام کے "منتقل ہونے"کی ایک منطقی کوشش تھی۔
یہودیت سے ناطہ توڑ کر غیریہودیوں کو مسیحی بنانے کی کلییسائی کوشش غیریہودی دنیاکے فائدے کے نام پر دراصل اپنی افرادی قوت مضبوط کرنے کی کوشش تھی کیونکہ یہودی معاشرے سے تعلق رکھنے والے یسو ع ،اس کے شاگرد اور ان کی خالصتاًیہودی تعلیمات  اورمعاشرت کو مشرکانہ لباس پہنایاجاچکاتھااور یہ سب جہدمسلسل ایک ایسی مشرک قوم کے ہاتھوں ہواجویسوع کے یہودی مذہب سے سرسری طورپرہی واقف تھی۔اس زبردست تبدیلی کے عمل کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں کوئی بھی یہودی ایسانہ تھا جو کلیسیاء کی طرف سے پیش کردہ یسوع سے متعلقہ نئے نظریات پرمشتمل پیغام کو قبول کرتا کیونکہ کلیسیائی تعلیمات کے زیراثر یسوع اور ان کاپیغام اپنی یہودی شناخت کھوکر مشرک اقوام کے افکار میں ڈھل چکاتھاجسے قبول کرنا کسی بھی مؤحد یہودی کے لیے اتناآسان  نہ تھا۔
اس کے بعد چرچ کی بڑھتی ہوئی یہودی مخالفت نے مسیحی تہذیب کو یسوع کی حقیقی دنیا (یعنی یہودیت)سے مزید دور کردیا۔پانچویں صدی کی ابتداء میں فقط مقدس جیروم  ہی ایساشخص تھاجو پوری مسیحیت میں اکلوتا عبرانی جانتاتھاجوکہ یہودیوں کی مقدس اور مذہبی زبان تھی۔اس نے یہودی عبادت خانوں (سینیگاگ)کے عبادت گزاروں کی تلاوت کی آوازوں  کا تقابل سور کی غراہٹ اور گدھوں کے رینکنے کی آواز سے کیا۔جیروم کے معاصر قسطنطنیہ کے بشپ سینٹ یوحناخرستوم نے یہودیوں کو قاتلین یسوع قرار دیتے ہوئے ان کی عبادت گاہوں(سینیگاگ) کو عصمت فروشی کے اڈے،شیطان کے قلعے اور جہنم کے گڑھے قرار دیا۔بعد میں نے آنے والے مسیحی مخالف مارٹن لوتھر نے بھی اپنے انہی آباء کی پیروی کی۔
          پروٹسٹنٹ تحریک کے نتیجے میں مسیحی اسکالرز نے کئی سوسال بعد پھر سے قدیم یہود ی بائبلی لٹریچر میں دلچسپی لیناشروع کیا اور بالآخر سترہویں صدی میں مسیحیوں کو ربائی لٹریچر پڑھنے کی ترغیبات دی جانے لگیں نیزاناجیل کے گہرے مطالعے کی خاطر تلمود ان مسیحی علماء کے لیے یکدم مفید بن گئی۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والے عہدجدید پر تنقیدکےعمل  نے مسلسل ترقی کی اور اس کی بدولت کافی قدیم یہود ی دستاویزات دریافت ہوئیں جیساکہ وادی قمران کے صحائف وناگ حمادی کتب خانہ وغیرہ۔ان دریافتوں نے تقابلی مطالعہ کے میدان کو وسعت دی اور مسیحیت کے حقیقی معنوں اوران پوشیدہ گوشوں کو دنیا کے سامنے لائیں جن پر مدت دراز سے تاریخ کی گرد جم چکی تھی۔گذشتہ صدی کے نصف آخرمیں درجنوں قدیم یہودی کتب  دریافت ہوچکی ہیں جنہوں نے یسوع کی زندگی کے مزیدپہلوؤں کو سامنے لاکھڑا کیاہے۔زندگی نے وفاکی تو ان شاءاللہ ان پر بھی روشنی ڈالیں گے۔

کتابیات
1.     Holy Bible
2.     Jesus the Jew, Geza Vermes, Fortress Press, Phildelphia, 1973
3.     The Missing Jesus, Jacob Neusner, Brill Academic Publisher, Boston. 2002.
4.     The Real Jesus, Then and Now, Geza Vermes, Fortress Press, Minneapolis, 2009.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔