Pages

Most Popular

جمعرات، 23 اپریل، 2020

یسوع سامری اور سامریہ



یسوع مسیح ،سامریہ اور  سامری
 تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ         
یسوع مسیح یہودیت کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں جنہوں نے پہلی صدی عیسوی میں اپنی تعلیمات سے ارض گلیل  پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اناجیل متوافقہ کےمطابق ارض گلیل سے یسوع کا تعلق خاصہ گہرا رہا ہے کیونکہ اپنی ساری زندگی ان کی منادی کا مرکز یہی علاقہ رہا اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں صرف ایک مرتبہ وہ یروشلم گئے لیکن اناجیل متوافقہ کے برخلاف  یوحنا کی انجیل یہ خبر دیتی ہے کہ یسوع نے متعدد بار یروشلم کا دورہ کیا لیکن چونکہ یہودیہ کے لوگ یسوع کو قتل کرنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے اپنے یہ تمام دورے خفیہ رکھے۔ کتاب مقدس کے جغرافیہ سے واقف کسی طالب علم پر یہ مخفی نہیں ہوگا کہ گلیل اور یروشلم کے درمیان ایک طویل فاصلہ تھا اور درمیان میں سامریوں کا ملک پڑتا تھا جن کی یہودیوں سے سخت ترین عداوت ودشمنی تھی۔ گلیل اور یروشلم میں اکثریتی آبادی یہودیوں کی تھی لیکن سامریہ اور دیکا پولس ایسے دور دراز علاقے تھے جو یہودی نہیں سمجھے جاتے تھے کیونکہ یہاں سامری آباد تھے۔یسوع کی منادی کو اگر فلسطین کے جغرافیہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انجیل یوحنا کے مطابق یسوع نے واقعی یروشلم کے متعدد دورے کیے تو کیا انہوں نے سامریہ میں کلام کی منادی کی جو گلیل اور یروشلم کے وسط میں واقع تھا اور گلیل سے آنے والے زائرین یروشلم کو سامریہ سے گزر کر ہی یروشلم پہنچنا پڑتا تھا۔
اس حوالے سے انجیل نویسوں کا رویہ مختلف فیہ اور باہم متضاد ہے۔ سب سے پہلی انجیل ،مرقس کا مصنف مختلف شہروں "یروشلم، ادومیہ، یردن کے پار، صور اور صیدا کے آس پاس کے علاقوں[1]"میں یسوع کی منادی پہنچنے کی خبر دیتا ہے لیکن ان علاقوں سے سامریہ کا ذکر ہی حذف کر دیتا ہے۔ایسے میں انجیل کی صداقت پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یسوع واقعی سامریہ گئے یا مرقس اور یوحنا کی انجیلیں اس حوالے سے باہم متضاد ہیں؟ مرقس یسوع کی سامریہ میں منادی سے یکسر بے خبر ہے تو دوسری طرف یوحنا کی انجیل دیکھنے پر  معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ انجیل کسی سامری مسیحی معاشرے (Samaritan Christian Community)کےلیے لکھی گئی ہے کیونکہ یوحنا نےسامریوں کے ساتھ یسوع کا خاص تعلق ظاہر کیا ہے۔یوحنا کے مطابق یسوع نے گلیل سے یروشلم کی طرف متعدد بار سفر کیا اور ہر بار وہ سامریہ کے علاقے سے گزر کر یروشلم گئے تو پھر کیسے باقی انجیل نویس اس اہم نکتے کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟ یوحنا کے مطابق یسوع سامریہ میں قیام بھی کیا کرتے تھے۔ [2]
           یسوع کا سامریہ سے کیا تعلق تھا،اس سوال کا جواب ہر انجیل میں مختلف ملتا ہے۔مرقس کے برخلاف لوقا صرف ایک واقعہ نقل کرتا ہے جس کے مطابق یسوع گلیل سے یروشلم کی طرف اپنا آخری سفر شرو ع کرتے ہیں۔
"اُس نے یروشلِیم جانے کو کمر باندھی اور اپنے آگے قاصِد بھیجے۔ وہ جا کر سامرِیوں کے ایک گاؤں میں داخِل ہُوئے تاکہ اُس کے لِئے تیّاری کریں لیکِن اُنہوں نے اُس کو ٹِکنے نہ دِیا کِیُونکہ اُس کا رُخ یروشلِیم کی طرف تھا۔یہ دیکھ کر اُس کے شاگِردیعقوب اور یُوحنّا نے کہا اَے خُداوند کیا تُو چاہتا ہے کہ ہم حُکم دیں کہ آسمان سے آگ نازِل ہو کر اُنہِیں بھسم کردے [جَیسا ایلِیاہ نے کِیا]مگر اُس نے پھِر کر اُنہِیں جھِڑکا [تُم نہِیں جانتے کہ تُم کَیسی رُوح کے ہوکِیُونکہ اِبنِ آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہِیں بلکہ بَچانے آیا] پھِر وہ کِسی اور گاؤں میں چلے گئے۔"[3]
          لوقا نے اپنی تصنیف میں یہ واقعہ اس لیے پیش کیا تاکہ یسوع اور سامریہ کے درمیان عداوت اور دشمنی ظاہر کی جائے(ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوقا کے نزدیک سامریہ صرف ایک گاؤں پر مشتمل تھا)۔ اگر فی نفسہ واقعہ ایسا ہی ہے جیسا لوقا لکھتا ہے تو بھی اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ سامریہ کے صرف ایک گاؤں نے یسوع کا انکار کیا تھا جبکہ دوسرے گاؤں والوں نے پہلے جیسوں کی طرح برتاؤ نہ کیا کیونکہ سامریہ کے علاقے سے گزرنے کے لیے ایک دن سے زیادہ وقت لگتا تھا لہذا راستے میں ٹھہرنا ایک لازمی امر تھا۔ لوقا نے یہ تو نقل کردیا کہ سامریہ کے ایک گاؤں نے یسوع کا انکار کیا  لیکن اس واقعہ کے دوسرے پہلو کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا کہ دوسرے سامریوں نے یقیناً یسوع مسیح کی مدد کی ہوگی۔
          لوقا کی انجیل میں ہی ایک دوسرے مقام پر ایک معلم شرع یسوع سے پڑوسی کے متعلق سوال کرتا ہے تو یسوع ایک تمثیل بیان کرتے ہیں جس میں ایک زخمی شخص راستے میں پڑا ہوتا ہے اور کاہن و لاوی اسے دیکھ کر منہ پھیر کرچلے جاتے ہیں مگر سامری آکر اس پر ترس کھاتا ہے اور اس کا علاج معالجہ کرتا ہے ۔[4]اس واقعہ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سامریہ من حیث القوم اچھے نہیں تھے بلکہ ان میں اکا دکا افراد ایسے تھے جنہیں راست باز کہا جاسکتا تھا اور مذکورہ تمثیل میں موجود سامری بھی انہی میں سے ایک تھا جسے برےسامریوں سے استثنا حاصل تھا۔ اس بات کی تائید و توثیق انجیل لوقا  میں موجود ایک اور واقعہ سے ہوتی ہے جہاں تیسری بار لوقا سامریوں  کا ذکر کرتا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب یسوع گلیل اور سامریہ کی سرحد سے  گزرتے ہوئے کوڑھیوں کے ایک جتھے کو شفا بخشتے ہیں۔ یقیناً یہ تمام افراد سامری ہی تھےجنہیں یسوع نے اپنے قریب بلائے بغیر ہی دور سے شفا بخش دی مگر انجیل نویس لکھتا ہے کہ ان دس میں سے صرف بندہ پلٹ کر آیا جو سامری تھا اور اس نے خداوند کی تمجید کی جس پر یسوع  نے فرمایا کہ "کیااس پردیسی کے سوا ور نہ نکلے جو لوٹ کر خدا کی تمجید کرتے؟" گویا کہ یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ ان لوگوں میں صرف ہی بندہ اچھا تھا اور باقی سامری عام طورپر اچھے لوگ نہیں تھے۔[5]
مرقس اور لوقا کے برعکس متی  لکھتاہے  کہ جب یسوع نے شاگردوں کو منادی کے لیے روانہ کیا تو انہیں نصیحت کی کہ
"غَیر قَوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کِسی شہر میں داخِل نہ ہونابلکہ اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہُوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔"[6]
حالانکہ یسوع کا سامریہ جانا دیگر اناجیل سے ثابت ہے اور یسوع کے صعود آسمانی کے بعد شاگرد بھی سامریہ کی طرف گئے تھے جس کا واضح ثبوت اعمال کی کتاب سے ملتا ہے ۔[7]یسوع کے سامریہ جانے کے ٹھوس ثبوتوں کی موجودگی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاگردوں کو سامریہ جانے سے منع کرنا خالص متی کی اختراع ہے  جو اس نے سامریوں کےلیے منفی تاثر قائم کرنے کےلیے کی ہے۔ جب یسوع خود متعدد بار سامریہ تشریف لے گئے تو پھر شاگردوں کو روکنے میں کون سا امر مانع تھا؟
اناجیل متوافقہ  میں سامریوں کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم چوتھی اور آخری انجیل یوحنا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جسے پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ سامری مسیحیوں کے لیے لکھی گئی ہو۔ اس انجیل میں یسوع کو ایسے پیش کیا گیا ہے کہ جیسے ان کا سامریوں سے نہایت گہرا تعلق ہو اور وہ کثرت سے وہاں جاتے رہتے ہوں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ یہودیوں نے ان پر الزام لگا یا تھا کہ "تو سامری ہے اور تجھ میں بدروح ہے؟"[8]حیرت انگیز طور پر یسوع اس الزام کی کوئی تردید نہیں کرتے حالانکہ اناجیل میں دیکھا جائے تو یہودیوں کی طرف سے لگائے گئے ہر الزام کا یسوع نے فی الفور جواب دے کر انہیں لاجواب کیا لیکن اس معاملے میں وہ سکوت اختیار کر لیتے ہیں۔
یوحنا کی انجیل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سامری ہی تھے جنہوں نے شاگردوں کے بعد سب سے پہلے یسوع کو المسیح جان کر قبول کیا تھا۔ انجیل یوحنا کے مطابق سامریہ میں ہی عہد نامہ جدید کا سب سے عجیب واقعہ رونما ہوا جس پر سب سے پہلے تعجب خود شاگردان یسوع نے کیا۔[9]جب یسوع فریسیوں کی عداوت کی وجہ سے یہودیہ چھوڑ کر گلیل کی طرف جا رہے تھے تو سامریہ میں سوخار کے ایک قصبے میں یعقوبؑ کے کنویں پر ان کا سامنا ایک سامری عورت سے  ہوتا ہے۔
"وہ سامریہ کے ایک شہر تک آیا جو سوخار کہلاتا ہے۔ وہ اُس قطہ کے نزدیک ہے جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دِیا تھااور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ چنانچہ یسوع سفر سے تھکاماندہ ہو کر اُس کنوئیں پر یونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا مجھے پانی پِلاکیونکہ اُس کے شاگرد شہر میں کھانا مول لینے کو گئے تھے۔اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تُو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟(کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے۔۔۔۔الخ"[10]
یوحنا کا یہ واقعہ اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ یہ عہدنامہ عتیق کے دو عظیم الشان واقعات سے بڑی حد تک مماثلت رکھتا ہے اور دلچسپ بات ہے کہ دونوں واقعات کا انجام منگنی اور شادی پر ہوا۔ ان میں سے پہلا واقعہ بزرگ یعقوبؑ اور راخیل کا ہے جو سینکڑوں برس پہلے ٹھیک اسی کنویں پر پیش آیا تھا جہاں اس وقت یسوع بیٹھے تھے۔ عہد نامہ عتیق کے مطابق اس کنویں پر بزرگ یعقوب اور راخل کی ملاقات ہوتی ہے جو بعدازاں منگنی اور بالآخر نکاح پر منتج ہوتی ہے۔[11] جبکہ دوسرا واقعہ والد یعقوب جناب مقدس اصحاقؑ سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نوکر ان کےلیے بیوی کی تلاش میں نکلتا ہے تو نحور شہر کے ایک  کنویں پر اس کی ملاقات بی بی ربقہ سے ہوتی ہے جنہیں وہ حضرت اصحاق کے لیے پسند کرلیتا ہے اور ان کے وارثین سے بات کرکے انہیں اس شادی پر راضی کر لیتا ہے۔ بالآخر حضرت اصحاقؑ کی غائبانہ منگنی کروا کر رخصتی لے لیتا ہے اور پھر اپنے گھر پہنچ کر دونوں کا نکاح ہو جاتا ہے۔[12] کنواں، کنویں پر خاتون سے ملاقات، ملاقات  کے بعد منگنی اور پھر بالآخر شادی ہونا دونوں واقعات میں یکساں طور پر  موجود ہے۔
بہت سے ناقد علما کا خیال ہے کہ انجیل نویس یوحنا نے یہ واقعہ عہدنامہ عتیق کی انہی کہانیوں سے مستعار لے کر کچھ رنگ آمیزی کے ساتھ شامل تصنیف کیا ہے وگرنہ یسوع اور اس عورت کی ملاقات کے وقت کوئی تیسرا فرد وہاں موجود نہیں تھا جو اس ساری گفتگو کو سن کر محفوظ کرتا اور پھر روایت کرتا۔ عینی شاہد کی غیر دستیابی کی صورت میں یہ نتیجہ سو فیصد درست معلوم ہوتا ہے نیز بعض علما کے نزدیک اس بات کا امکان بھی موجود ہے  کہ اس ملاقا  ت کے بعد یسوع مسیح نے بھی اس عورت سے نکاح کر لیا ہو۔ اس نظریہ کو تقویت انجیل یوحنا کے اس واقعہ سے بھی ملتی ہے جہاں یہودی کثرت اختلاط کی وجہ سے یسوع پر سامری ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور وہ یہودیوں کی اس بات کی کوئی تردید نہیں کرتے۔ اگر یہ نظریہ غلط ہے تو پھر سامریوں کے ساتھ یسوع کا کثرت سےاٹھنا بیٹھنا اور بار بار سامریہ آنا کیا معنی رکھتا ہے؟
اگر کوئی یہودی یا سامری پیدائش کی کتاب  میں موجود دونوں واقعات کے ساتھ اگر اس تیسرے "واقعہ یسوع "کو ساتھ رکھ کر پڑھے تو وہ یہی نتیجہ نکالے گا کہ انہوں نے فی الفور شادی کر لی ہوگی کیونکہ سابقہ دونوں قضیوں میں بھی نبیوں نے ایسا ہی کیا تھا لہذا عہد نامہ عتیق کی روشنی میں یسوع اور سامری عورت کی اس گفتگو کے بعد منگنی اور پھر شادی کے امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتا  کیونکہ اناجیل میں یسوع کی زندگی کے مختلف واقعات کو عہدنامہ عتیق کی ہی تکمیل قرار دیا گیا ہے۔ ولادت یسوع کے وقت مقدسہ مریم کا گیت اور والدہ سموئیلؑ حنہ کے گیت کی باہم مماثلت اس کی بہترین مثال ہے اور اس قسم کی بہت سی مثالیں ہم عہد نامہ جدید میں پاتے ہیں لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے لہذا ہم صرف ایک مثال پر ہی اکتفا کریں گے کہ جب یسوع کی زندگی کے انجیلی واقعات پر عہد نامہ عتیق کاگہرا رنگ غالب ہے تو پھر اس مقام پر آکر عہد نامہ عتیق کا عکس کیوں ماند پڑ جاتا ہے؟ دیگر تاریخی شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے تو کچھ علما نے یہ توجیح بھی کی ہے کہ یسوع مسیح نے شادی کی تھی کیونکہ یہودی معاشرے میں تیس سال کی عمر تک تجرد کی زندگی گزارنا بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اُس وقت کم عمری میں ہی بچوں کی شادی کر دی جاتی تھی۔ خود والدہ ِیسوع مقدسہ مریم کی منگنی بھی بارہ برس کی عمر میں یوسف نجار کے ساتھ طے پا گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ شادی کرنا انبیا کرامؑ کی سنت ہے اور یسوع مسیح کے جد امجد تمام انبیا کرام نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں تو پھر یسوع مسیح کیسے اس معاملے میں اپنے اسلاف کی سنت کے تارک ہو سکتے ہیں؟ انجیل نویسوں نے یسوع مسیح کی زندگی کے بارے میں بمشکل ایک سے ڈیڑھ مہینےکا ریکارڈ فراہم کیا ہے لہذا ان کا یسوع کی زندگی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دینے سے یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی کہ انہوں نے کبھی شادی ہی نہیں کی کیونکہ تجرد کی تعلیم پولس کی تعلیم ہے اور انجیل نویس پولوسی نظریات کی تقویت و تائید دکے لیے ہی اپنی  کتب مدون کر رہے تھے۔ بہرحال یہ ایک اضافی بات ہے جس پر مزید کلام بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ہم دوبارہ اپنے اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں کہ اگر یسوع نے وہاں شادی نہ کی ہوتی تو ان کا بار بار سامریہ آنا اور وہاں وقت گزارنا کیا معنی رکھتا ہے؟
یوحنااس واقعہ میں آگے چل کر شادی کا ذکر بھی کرتا ہے  لیکن اس مقام پر وہ یسوع ؑ کی شادی کے بجائے کہانی کو فی الفور اس عورت کی شادی اور اس کے جنسی کردار کی طرف موڑ دیتا ہے تاکہ واقعہ میں موجود اس مشترکہ عنصر کو دبایا جا سکے۔ اس واقعہ میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پورے عہد نامہ عتیق میں واحد یہی ایک موقع ہے جہاں یسوع اس عورت  کو اپنا راز دار بناتے ہوئے اس کے سامنے  نہایت صاف الفاظ میں اپنے المسیح ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔[13]اگر یسوع مسیح کا اس سے واجبی سا تعلق تھا تو اس پر وہ راز مکشف کرنے کی کیا توجیح کی جائے گی جو یسوع نے اپنے خاص الخاص شاگردوں پر بھی نہیں کیا تھا؟
           بعض لوگوں نے یہاں حد سے تجاوز کرتے ہوئے یہ نظریہ بھی پیش کیا ہے کہ اس ملاقا ت کے فورا بعد یسوع اور اس سامری عورت نے جسمانی تعلق بھی قائم کرلیا کیونکہ کنویں پر اس وقت کوئی موجود نہیں تھا لیکن اس قسم کے نظریات نہایت گھٹیا اور فضول ہیں اور ہرگز کسی نبی کے شایان شان نہیں۔
اس کہانی کا اگلا حصہ مزید واضح ہے  جس میں یسوع یہودیوں اور سامریوں کے بیچ قدیم تنازعہ کا  مستقل حل بھی  یہ کہتے ہوئے پیش کرتے ہیں کہ "میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلم میں۔۔۔۔۔۔مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اور سچائی سے کریں گے "۔[14]
اس عبارت سے انجیل نویس کا مقصود یہ پیغام دینا ہے کہ یسوع کی مبینہ صلیبی موت اور جی اٹھنے نے تمام اصولوں کو بدل دیا ہے  لہذا ایسی کوئی مخصوص جگہ باقی نہیں جہاں خدا کی عبادت کی جائے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوحنا نے یہی پیغام دینے کے لیے اس پوری کہانی کو تخلیق کیا ہے؟ انجیل نویس نے اس پورے واقعہ میں بہت سی ایسی باتیں بھی یسوع سے منسوب کر دی ہیں جو حقیقت سے بالکل خالی ہیں۔ ان میں اول یسوع کا خود کو واضح الفاظ میں المسیح قرار دینا ہے حالانکہ اپنی پوری زندگی وہ ایسے دعوے سے اجتناب کرتے رہے اور جہاں کہیں بھی وہ معجزانہ انداز میں کسی کو شفا دیتے تو اسے تاکید سے کہتے کہ اس بابت کسی کو نہ بتانا۔ اس احتیاط کا مقصد یہی تھا کہ وہ خود کو پوشیدہ ہی رکھنا چاہتے تھے مگر اس مقام پر ان کا اس راز کو فاش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
اس واقعہ کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ سامری بھی "تہاب " نامی  موعود نجات ہندہ کے منتظر تھے لیکن اس نجات دہندہ کا تصور داؤدی المسیح کے تصور سے بالکل ہٹ کر تھا۔ تہاب کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ وہ سامریوں کو یہودیوں پر برتری دلائے گا اور سامریوں کے جد امجد افراہیم کے قبیلے سے ہو گا جبکہ دوسری طرف یسوع کا معاملہ اس سے یکسر مختلف تھا۔ اناجیل کے مطابق وہ داؤدی المسیح تھے تو پھر کیسے سامریوں نے سامری تورات کے مطابق انہیں نجات دہندہ قبول کر لیا؟ حالانکہ سامری شریعت کے معاملے میں سخت متشدد تھے ۔انجیل نویس ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کرتا کہ یسوع نے کون سے دلائل پیش کر کے انہیں اپنے روایتی مؤقف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ اگر یسوع کے قول کو دیکھا جائے تو وہ یروشلم اور کوہ گرزیم دونوں کی تباہی کی بابت گفتگو فرما رہے تھے حالانکہ یہودیوں اور سامریوں کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یسوع یروشلم کو مقام ہیکل جبکہ سامری کوہ گرزیم کو حقیقی مقام ہیکل قرار دیتے تھے۔ اگر یسوع کوہ گرزیم کے ڈھائے جانے کے متعلق ارشاد فرما رہے تھے تو ان کی اس بات پر کسی سامری نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ ہم دیکھتےہیں کہ اناجیل میں  جب بھی یسوع ہیکل کے ڈھانے کے متعلق گفتگو کرتے ہین تو فی الفور یہودی یسوع سے سوال کرتے ہیں۔ جب یہودی ہیکل کے بارے میں ایسی گفتگو برداشت نہیں کر پا رہے تھے تو سامریوں نے کیسے اس بات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا۔
اناجیل اربعہ میں سامریہ اور سامریوں کی کھوج لگانے پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دیگر معاملات کی طرح سامریوں کا معاملہ بھی مسیحی مقدس متون میں  ایک ارتقائی مرحلے سے گزر کر حتمی شکل میں آیا ہے۔ سب سے پہلا انجیل نویس مرقس تو سرے سے اس بات کا ہی منکر ہے کہ  یسوع کی منادی سامریہ پہنچی ۔لوقا کی یہی روش متی نے بھی اختیار کیے رکھی بلکہ متی نے اس معاملے میں مزید شدت اختیار کرلی۔ متی کےمطابق یسوع نے اپنے شاگردوں کو سختی سے منع کررکھا تھا کہ وہ سامریہ کے علاقوں کی طرف بھی نہ جائیں۔ متی کے بعد لکھی جانے والی لوقا کی انجیل میں متی اور مرقس کے برخلاف سامریوں کے حوالے سے مختلف واقعات نقل کرتی ہے مگر اس واقعات سے سامریوں کے لیے کوئی مثبت تاثر قائم نہیں ہوتا لیکن جب ہم انجیل یوحنا میں پہنچتے ہیں جس کا زمانہ تالیف دوسری صدی عیسوی کا نصف اول ہے تو یکا یک منظرنامہ تبدیل ہو جاتا ہے اور جن سامریوں سے دیگر انجیل نویس مجتنب رہے،وہی سامری انجیل یوحنا میں یسوع کے منظور نظر بن جاتے ہیں اور یسوع نہ صرف ان کی دعوتیں قبول کرتے ہیں بلکہ کئی کئی ایام ان کے یہاں قیام بھی کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنامہ جدید سے سامریوں کے متعلق معلومات نکالنا نقش برآب بنانے کے مثل ہے۔




[1] مرقس۳ :۸
[2] یوحنا۴ :۴۰
[3] لوقا۹ :۵۱-۵۶
[4] لوقا۱۰ :۲۵-۳۷
[5] لوقا۱۷ :۱۱-۱۹
[6] متی۱۰ :۵-۶
[7] اعمال۸ :۱، ۹ :۳۱
[8] یوحنا۸ :۴۸
[9] یوحنا۴ :۲۷
[10] یوحنا۴ :۵-۴۲
[11] پیدائش باب۲۹
[12] پیدائش باب۲۴
[13] یوحنا۴ :۲۶
[14] یوحنا۴ :۲۱-۲۴

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔