Pages

Most Popular

بدھ، 29 اپریل، 2020

عہدنامہ جدید اور صدوقی






عہدنامہ جدید اور صدوقی

تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
یسوع مسیح نے جب اپنی منادی شروع کی تو اس وقت ارض فلسطین پر مختلف یہودی فرقے آباد تھے جن میں بڑی حد تک مذہبی، معاشرتی اور اعتقادی اختلافات موجود تھے۔ان فرقوں کی موجودگی کا ثبوت عہدنامہ جدید میں بھی موجود ہے۔ اناجیل کے مطابق فریسی،صدوقی اور سامری وغیرہ یہود کے وہ مذہبی فرقے تھے جن کا وجود پہلی صدی عیسوی میں پایا جاتا تھا۔سیاسی فرقے اس کے علاوہ تھے جن میں غیور،زائیلوٹ،اسکریوٹ جیسے متعدد حریت پسند سیاسی فرقے شامل تھے۔انجیل نویس نے اپنی تصنیف میں ان لوگوں کااحاطہ کرنے میں بخل سے کام لیا ہے یا کتمان حق سے؟اس بارے میں یقینی طور پر کہنا کچھ مشکل ہوگا تاہم انجیل نویسوں کا طرزِ تحریر اور دیگر مواد کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کا مطمع نظر فقط مخصوص نظریات کا پرچار تھا اور انہی نظریات کی تائید وتوثیق کےلئے انہوں نے اپنی اپنی اناجیل کو مرتب کیا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت انجیل نویسوں کا یہودیوں کے تیسرے اہم فرقے اسینیوں کو مسلسل نظرانداز کرنا ہے جن کے عقائد ونظریات پولوسی نظریات سے متبائن اور یسوع کے حقیقی پیروکار"ناصریوں" سے کسی حد تک مماثل تھے۔ وادی قمران کے صحائف پر تحقیق کرنے والے علماء کے مطابق اسینی درحقیقت مسیحیت سے قبل مسیحیت کا دوسرا نام ہے کیونکہ یسوع کے ابتدائی پیروکاروں کے طرزِحیات ،گفتگو اور عقائد غیرمعمولی طور پر ان سے مشابہت رکھتے ہیں۔
انجیل نویسوں نے اسینیوں کو نظرانداز کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہی معاملہ انہوں نے صدوقی فرقے کے ساتھ بھی اختیار کیا کہ اُس فرقےکے نام کے علاوہ مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ اناجیل میں متعدد مقامات پر صدوقیوں کا ذکر ملتا ہے لیکن کسی مقام پر انجیل نویس نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ یہ صدوقی کاہن تھے اور سردارکاہن بھی صدوقی تھا۔اناجیل متوافقہ نے صدوقیوں کے متعلق ان کے نام کی حد تک تو معلومات فراہم کیں ہیں مگر اس معاملے میں سب سے زیادہ شدت پسند انجیل نویس جناب یوحنا ہیں جنہوں نے اسینی اور صدوقی دونوں کے بارے میں ایک لفظ تک شاملِ تحریر کرنا گوارا نہ کیا حالانکہ یہ دونوں گروہ یسوع مسیحؑ کی بعثت کے وقت نہ صرف موجود تھے بلکہ ان کا سامنا روزانہ یسوع مسیح سے ہوا کرتا تھا کیونکہ سب ایک ہی زمین اور علاقے کے باسی تھے۔
انجیل نویسوں کے برعکس اعمال کی کتاب میں صدوقیوں کے متعلق کچھ جزوی معلومات فراہم کی گئی ہیں تاہم وہ معلومات ناکافی بھی ہیں اور مشکوک بھی کیونکہ اُس وقت سردارکاہن کا عہدہ ایک سیاسی عہدہ بن چکاتھا اور سردارکاہن کا تقرر رومیوں کی طرف سے ہوتا تھا ۔ فریسیوں کی نسبت صدوقی اقلیت میں تھے مگر طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے کے باعث سردارکاہن صدوقی فرقے سے ہوا کرتا تھا لیکن اعمال کی کتاب میں سردارکاہن کے صدوقیوں سے تعلق کو مکمل طورپر دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔اعمال کی کتاب میں مذکور ہے۔
“جب وہ لوگوں سے یہ کہہ رہا تھا تو کاہِن اور ہَیکل کا سَردار اورصُدوقی اُن پر چڑھ آئے۔ وہ سخت اور رنجِیدہ ہُوئے کِیُونکہ یہ لوگوں کو تعلِیم دیتے اور یِسُوع کی نظِیر دے کر مُردوں کے جی اُٹھنے کی منادی کرتے تھے اور اُنہوں نے اُن کو پکڑ کر دُوسرے دِن تک حوالات میں رکھّا کِیُونکہ شام ہوگئی تھی مگر کلام کے سُننے والوں میں بہُتیرے اِیمان لائے۔ یہاں تک کے مردوں کی تعداد پانچ ھزار ہوگئی۔ دُوسرے دِن یُوں ہُؤا کہ اُن کے سَردار اور بُزُرگ اور فقِیہ۔اور سَردار کاہِن حنّا اور کائِفا اور یُوحنّا اور اِسکندر اور جِتنے اور جِتنے سَردار کاہِن کے گھرانے کے تھے یروشلِیم میں جمع ہُوئے۔اور اُن کو بِیچ میں کھڑا کر کے پُوچھنے لگے کہ تُم نے یہ کام کِس قُدرت اور کِس نام سے کِیا؟۔" (اعمال ۴:۱-۷)
اس پورے قضیہ کا تحلیل جائزہ لیاجائے تو پہلی ورس میں ہی"کاہن اور ہیکل کا سرداراور صدوقی"کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تینوں مختلف قسم کے لوگ تھے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہیکل کے تمام انتظامی معاملات صدوقیوں کے ہاتھ میں تھے اور ہیکل کے اکثر کاہن صدوقی تھے۔ دوسری ورس میں ان کے غم و غصے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ انہیں یہ بات سخت ناگوار گزری کہ شاگرد یسوع کی نظیر دے کر مردوں کے جی اٹھنے کی منادی کرتے تھے۔یادرہے کہ صدوقی اس بات کے منکر تھے کہ مردوں کی قیامت ہوگی ۔ مذکورہ بالا قضیہ میں مردوں کی قیامت کے عقیدے کاپرچار کرنے کے باعث شاگردوں کو گرفتار کرنے کے بعد جب مقدمہ چلانے کا وقت آیا تو سردار،بزرگ،فقیہ،سردارکاہن حنا اور کائفا اور سکندر اور سردار کاہن کے گھرانے کے افراد آئے۔یہ تمام افراد بھی صدوقی تھے کیونکہ یہ مقدمہ سنہڈرین میں نہیں چلایا جارہاتھا بلکہ صدوقیوں کی عدالت میں کاروائی ہورہی تھی۔ اگریہ معاملہ سنہڈرین میں حل کےلئے پیش ہوتا تو سنہڈرین میں بلوہ ہوجاتا(کیونکہ جب پولس کو سنہڈرین میں پیش کیا گیا تھا تو اس نے بھی فریسیوں کو مخاطب کرکے یہی دہائی دی تھی کہ مردوں کی قیامت کے سبب سے مجھ پر مقدمہ چلایا جارہا ہے اس پر پوری عدالت عالیہ میں فساد مچ گیا اور فریسیوں نے صدوقیوں سے جھگڑا کرلیا۔اعمال باب23) انجیل نویس نے مقدمہ کی کاروائی کے لئے آنے والے ان تمام افراد کی مذہبی شناخت کو جان بوجھ کر چھپا لیا اور زرا سابھی اشارہ نہیں دیا کہ یہ تمام لوگ صدوقی تھی۔
اعمال کی کتاب کے اس بیانئے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدوقیوں نے یسوع کے شاگردوں کو اس لئے گرفتار کیا تھا کہ وہ مردوں کی قیامت کی منادی کررہے تھے لیکن جب صدوقی جب شاگرودں کا مقدمہ چلاتے ہیں تو یکایک ان کے جرم کو بھول جاتے ہیں اور مردوں کی قیامت کے متعلق کوئی سوال نہیں کرتے بلکہ شاگردوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ "تم نے یہ کام کس کی قدرت اور نام سے کیا؟"
اعمال کی کتاب میں ہی ایک اور موقع پر سردارکاہن کی مذہبی شناخت کو ایک بار پھر چھپایا گیا ہے۔جیسا کہ مذکور ہے۔
"پِھر سَردار کاہِن اور اُس کے سب ساتھی جو صُدوقیوں کے فِرقہ کے تھے حسد کے مارے اُٹھے اور رَسُولوں کو پکڑکر عام حوالات میں رکھ دِیا ۔"(اعمال ۵:۱۷-۱۸)
مزید وضاحت کےلئے اعمال کی کتاب کے انگریزی متن کو بھی دیکھ لیا جائے تو بات مزید واضح ہوجائے گی۔
“But the High Priest rose up and all who were with him, this is, the party of the Sadducess.”
دونوں عباراتِ بالا سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس مقام پر بھی انجیل نویس نے سردارکاہن کو صدوقیوں سے الگ شخص ظاہر کیا ہے۔ اور "all who were with him" کے الفاظ صراحتاً اس کا تعلق صدوقیوں سے کاٹ رہے ہیں حالانکہ سردارکاہن خود بھی صدوقی ہی تھا۔
جیساکہ گزر چکا کہ سردارکاہن ایک سیاسی عہدہ تھا اور اس کی تقرری رومیوں کی طرف سے ہوتی تھی ،ایسے میں انجیل نویسوں کا سردارکاہن کی شناخت کوچھپانا ماورائے تفہیم ہے کیونکہ یہی وہ سردارکاہن تھا جو یسوع کے مقدمے میں پیش پیش تھا اور یسوع کو سزادلوانے میں کلیدی کردار ادا کررہاتھا۔ قاتلین ِ یسوع سے انجیل نویسوں کی ہمدردی اناجیل اربعہ کی استنادی حیثیت اور وقائع نگاری پر سوالیہ نشانات لگا دیتی ہے۔ایک سارے معاملے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ انجیل نویسوں نے اسینیوں سے ترک تعلق کرتے ہوئے ان کے متعلق کسی قسم کی معلومات فراہم نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے اپنی کتب کو مرتب کیا جبکہ صدوقیوں کے بارے میں قلیل معلومات فراہم کیں۔تیسری طرف فریسیوں کی جماعت تھی جن کو اناجیل میں بھرپورانداز میں یسوع کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہ فریسی ہی تھے جو یسوع مسیحؑ کے سچے خیرخواہ اور ہمدرد تھے اور انہوں نے ہی عین موقع پر آکر یسوع مسیح ؑ کو خبردار کیا تھا کہ آپ فورا یہاں سے نکل جائیں کیونکہ ہیرودیس آپ کو قتل کرنے کی سازشیں کررہا ہے۔(لوقا ۱۳:۳۱) یہ فریسی ہی تھےجنہوں نے یسوع مسیح اور ان کی جماعت کو نہ صرف خدا کی طرف سے قرار دیا بلکہ انہیں صدوقیوں کے چنگل سے بھی چھڑایا جو ان کی جان لینے کے درپے ہورہے تھے۔(اعمال ۵:۳۹)
مخلصین ِیسوع فریسیوں سے عداوت،معاندین ِ یسوع صدوقیوں سے محبت اور متبعینِ یسوع اسینیوں سے ترک تعلق کی روش اختیار کرنے کی انجیل نویسوں کی روش سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ان کا مطمع نظر پولوسی نظریات کی ترویج تھی اور اسی مقصد کےحصول کےلئے انہوں نے اپنی اناجیل کو مرتب کیا اور دیگر تاریخی حقائق کو عمداً وسہواً چھوڑ دیا پھر خلطِ مبحث کردیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔