Pages

Most Popular

اتوار، 25 دسمبر، 2016

کیا یسوع فریسی تھے؟ Was Jesus a Pharisee?

کیا یسوع فریسی تھے؟

مترجمین: صبا خان، عبداللہ غازیؔ


 یہودی و مسیحی علمی حلقوں میں پروفیسر ہائم مکابی جیسے اسکالر کا نام تعارف کا محتاج نہیں، برطانیہ میں یہودی و مسیحی روایات پر انہیں اتھارٹی اسکالرز کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے حتی کہ ڈاکٹر ہیوجے شون فیلڈ جیسے چوٹی کے اسکالرز بھی ان کے علم کے متعلق لکھتے ہیں کہ "مجھے یقین ہے کہ ہائم مکابی کے مقدس پولس کے متعلق نظریات قابل فکر ہیں"۔ زیر نظر تحریر بھی ہائم مکابی کی کتاب The myth maker Paul and The Invention of Christianity کے باب Was Jesus a Pharisee? کا سلیس ترجمہ ہے جس میں انہوں نے یسوع کی انجیلی تصویر کا ایک انوکھے اور دلچسپ انداز سے جائزہ لے کر مستور حقائق کو معروف کروایا ہے۔ اس طویل مضمون کا ترجمہ محترمہ صبا خان صاحبہ(جھنگ)اور بندہ ناچیز کی مشترکہ کاوش ہےاوراس ادنی سی کاوش کو میں اپنے محسن، مرشد اور مربی محترم جناب ظفر اقبال صاحب مدظلہ کی طرف منسوب کرتا ہوں جن کی رہنمائی اورمحبت و شفقت کے باعث ہم یہ ترجمہ کرنے اور آپ کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوئےاور اسکے ساتھ ساتھ اپنے چند مخلصین دوستوں بھائی محمد مسلم صاحب(رحیم یارخان)اورمحترمہ اسمارہ رفیق صاحبہ (رحیم یار خان)کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے اس ترجمہ کرنے میں رہنمائی ومعاونت فرمائی۔اللہ تعالیٰ انہیں خوب خوب جزائے خیر عطا فرمائے۔
آپ کا رفیق
عبداللہ غازیؔ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے
گذشتہ مضمون کی روشنی میں یہ سوال بہتر انداز میں پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر فریسی حق شناس اور ترقی پذیر تحریک تھی تو یسوع کیوں شدت سے ان پر تنقید کررہے تھے؟ اس درپیش صورت کا جواب پہلے ہی تجویز کیا جاچکا ہے کہ یسوع نے فریسیوں کو اس طرح سے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جیسا کہ اناجیل میں پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ بذات خود ایک فریسی تھا.یسوع کی مکمل تصویر جو فریسیوں کے ساتھ تراشی گئی ہے یسوع کی موت کے بعد والے اس زمانے کی تخلیق ہے جب مسیحی کلیسیاء فریسیوں کے خلاف تھی کیونکہ ان کا دعوٰی اصل یہودیت کے علمبردار ہونے کا تھا. اناجیل بھج اسی زمانے یا پھر اس سے متصل زمانے کی ہی پیداوار ہیں جو کہ ایسے مواد پر مشتمل ہیں جن کا کچھ حصہ اس ابتدائی زمانے کی فریسی مخالفت میں مرتب ہونے والی تحاریر سے لیا گیا تھا. اگرچہ خود اناجیل میں شامل فریسی مخالف تصویر کا ابطال ممکن ہے جن میں نظرثانی کرنے کے بعد کافی معلومات و ابتدائی واقعات یہ ظاہر کرنے کے لیے داخل کئے گئے ہیں کہ یسوع فریسیوں کا مخالف نہیں تھا بلکہ خود بھی ایک فریسی ہی تھا.
اناجیل میں نظرثانی کا عمل مفروضہ نہیں ہے بلکہ مختلف اناجیل میں یکساں مبینہ واقعات کے تقابل کے ذریعے واضح دیکھا جا سکتا ہے. یہ حقیقت ہے کہ تجدید کے عمل سے ایک کے بجائے چار اناجیل کی اصل کہانی کی تسہیل مقصود تھی بالخصوص جب کوئی اناجیل کے مرتب کے وقت کے اسلوب میں جدید علماء کی آراء و نتائج کو مستحضر رکھے. مرقس کی انجیل سب سے مستحکم و مستند ہے کیونکہ اناجیل میں سب سے قدیم یہی انجیل ہے لہٰذا ہم دیگر متاخرین اناجیل کے ساتھ مرقس کے تقابل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم متعددبار اس انجیل سے حوالہ دے سکتے ہیں۔
ابتدائی مثال کے طور پر ہم مرقس کی کہانی میں یسوع اور فقیہ (فریسی کی متبادل اصطلاح جوکہ متاخرمسیحی دستاویزات اور اناجیل دونوں میں ہی استعمال کی گئی ہے)کے درمیان ایک مکالمہ پاتے ہیں۔
اور فقِیہوں میں سے ایک نے اُن کو بحث کرتے سُن کر جان لِیا کہ اُس نے اُن کو خُوب جواب دِیا ہے۔ وہ پاس آیا اور اُس سے پوُچھا کہ سب حُکموں میں اوّل کَون سا ہے؟ یِسُوع نے جواب دِیا کہ اوّل یہ ہے اَے اِسرائیل سُن۔ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ اور تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبّت رکھ۔ دُوسرا یہ ہے کہ تُو اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔ اِن سے بڑا اَور کوئی حُکم نہِیں۔ فِقیہ نے اُس سے کہا اَے اُستاد بہُت خُوب!تُو نے سَچ کہا کہ وہ ایک ہی ہے اور اُس کے سِوا اَور کوئی نہِیں۔ اور اُس سے سارے دِل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے محبّت رکھنا اور اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھنا سب سوختنی قُربانِیوں اور ذبِیحوں سے بڑھ کر ہے۔ جب یِسُوع نے دیکھا کہ اُس نے دانائی سے جواب دِیا تو اُس سے کہا تُو خُدا کی بادشاہی سے دُور نہِیں اور پِھر کِسی نے اُس سے سوال کرنے کی جُراَت نہ کی۔
(مرقس باب ٢٨ :٢٨تا٣٤)
اسی کہانی کا ترجمہ دوسری انجیل میں بھی پایاگیا ہے،جیساکہ مذکور ہے۔
اور جب فرِیسِیوں نے سُنا کہ اُس نے صدُوقِیوں کا مُنہ بند کر دِیا تو وہ جمع ہوگئے۔ اور اُن میں سے ایک عالمِ شرع نے آزمانے کے لِئے اُس سے پُوچھا۔ اَے اُستاد توریت میں کون سا حُکم بڑا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا کہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔ بڑا اور پہلا حُکم یِہی ہے۔ اور دُوسرا اِس کی مانِند یہ ہے کہ اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔ اِنہی دو حُکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحِیفوں کا مدار ہے۔
(متی٢٢: ٣٤ تا ٤٠)
واقعہ کے دوسرے انداز بیاں میں مکالمہ کا منصفانہ طریقہ بالکل ہی نیست ونابودہوگیاہے۔ فریسی کسی حیرت وتعجب کی وجہ سے یسوع سے سوال پوچھنے نہیں آیا تھاجیساکہ پہلے اندراج میں ذکر ہے(کہ کس طرح اس نے صدوقیوں کا منہ بندکردیا) لیکن اس نے فقط یسوع کا امتحان لینا چاہا تھا۔ پہلے قضیہ میں فریسی سائل یسوع کی تعریف کرتے ہوئے ایک طویل جواب یسوع کو دیتا ہے اور اپنے خود کے تبصرے میں محبت کاقربانی پر فوقیت کے متعلق اضافہ کرتا ہے جبکہ یسوع کی طرف اضافہ کرتا ہے کہ وہ عزت وتہذیب سے جواب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سائل خدا کی بادشاہت سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ سب دوسری اشاعت سے خارج کردیئے گئے ہیں جوکہ یسوع کی اعلیٰ دانش مندی کے ذریعے حاس فریسی کو لاجواب کرنے کی فقط ایک اضافی داستان ہے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تنہا یسوع ہی ان دوفقرات کاعبرانی بائبل سے بطور عظیم احکام انتخاب کرتا ہے (ایک تثنیہ شرع کی کتاب سے جبکہ دوسرا احبار سے) جوکہ درحقیقت خود اس کا نظریہ نہ تھا بلکہ فریسی افکار کا مرکزی حصہ تھا۔فریسیوں نے بنیادی مذہبی قائدے کے اصول جو تخلیق کیے تھے اس میں اس کو ”شمع“ کہا گیا ہے(اورآج تک یہودیوں میں استعمال کیاجاتا ہے) جوکہ تثنیہ شرع سے یسوع نے اقتباس کیا ہے۔سُن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تُو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ ۔ یہ حکم فریسیوں میں اس قدر اہم شمار کیا جاتا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ عبادت کی اساسی ذمہ داریوں کی بجاآوری کے لیے ان آیات کو دن میں فقط دوبار ادا کرنا ہی کافی تھا۔(۱) یہ بھی دلچسپ ہے کہ یسوع کے پیش نظر جو آخری جواب فقیہ کو دیا گیا وہ یسوع کی ایجاد نہیں بلکہ فریسی طرز کلام کا حصہ ہے اور ربائی ان آیات کو خدا کی بادشاہت کے ساتھ ایک مضبوط ربط کے طور پر شمار کرتے تھے.
ان کا کہنا تھا کہ ان آیات کی تلاوت خود کو خدا کی بادشاہت میں حلقہ بدوش ہونے کے لیے قبول کرنا ہے. یہ یاد رہے کہ فریسی مکتب فکر میں خدا کی بادشاہت کے دو معنی تھے. اول یہ کہ موجودہ سلطنت یا خدا کی سلطنت یا پھر مستقبل کی خدائی سلطنت جو کہ المسیح کے زمانے میں پوری دنیا میں ہوگی. یسوع کے اس کلام کو سمجھنا قدرے آسان ہے کیونکہ وہ اکثر اس محاورے کو ذومعنی استعمال کرتا تھا. کبھی اس محاورے سے اس کا مطمع نظر مستقبل کے ملکی معاملات تھے جن کی پیشگوئی کے لیے اس کی آمد ہوئی تھی (جیسا کہ توبہ کرو کیونکہ خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے) اور بعض اوقات اِس محاورے سے اُس کی مراد موجودہ خدا کی سلطنت ہوتی تھی جسے ہر بشر نے مجبوراً قبول کیا ہوا تھا (جیسا کہ خدا کی بادشاہت تمہارے درمیان موجود ہے). موجودہ انتخاب میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مؤخر الذکر معانی ہی راجح ہے.
دوسری آیت جو احبار کی کتاب سے یسوع منقول کرتے ہیں وہ " اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جیسے اپنے آپ سے کر تے ہو" ہے. یہ آیت بھی فریسی افکار میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی اور فریسی ازم کے دو عظیم ترین بزرگوں ربائی ہللیل اور اور ربائی اکوبا نے اسے یہودیت کے ایسے اصول قرار دیا ہے جس پر ہر شے منحصر ہے. بےشک اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دیگر قوانین کو یکسر نظرانداز کردیا جائے یا مکمل طور پر ختم کردیا جائے کیونکہ یہ شریعت کا ایک اہم اصول تھا اسکے برعکس شریعت کو بطور مسائل کا حل اور پڑوسی سے محنت کی عملی بجاآوری، روزمرہ زندگی کی پیچیدگیوں میں پڑوسی سے محبت کی کیفیت، کے متعلق رہنمائی دینے والی کے طور سمجھی جاتی تھی. ایسی وضاحت کے بغیر اصول بنا لینا ایسا ہی ہے جیسا کہ فیثا غورث کے مسلمہ اصول کا استعمال ہو جو کسی قوائد متعارفہ کا محتاج ہو. متاخر مسیحی تحاریر اس مقام کی غلط عکاسی کرتی ہیں کہ جب یسوع نے خدا اور پڑوسی کی محبت کا انتخاب کیا تو اس طرح سے اس نے باقی مکمل تورات کو مسترد کردیا تھا. یہاں ایسی فکر کی بظاہر کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ یہاں یسوع کی یہی مراد تھی بالخصوص کہ جب وہ فریسی فقیہ کے ساتھ ایک خوشگوار مکالمہ کررہا تھا. (کم از کم ابتدائی اور کچھ مستند مرقس کی انجیل اسی طرح بیان کرتی ہے).
قربانی کے متعلق فقیہ کی بظاہر تحقیرانہ رائے کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے. اُس کا خیال یہ نہیں تھا کہ قربانیاں یا ہیکل کی عبادت کلی طور پر منسوخ ہو جائے گی بلکہ عبرانی نبیوں کے الفاظ کفارے کی قربانی کے بارے میں اس کے ذہن میں مستحضر تھے کہ یہ قربانیاں خدا کے ساتھ سچی توبہ اور تصفیہ نفس کا نشان تھیں. یہودی سال کا سب سے پر جلال دن یوم کفارہ ہوا کرتا تھا، جب ہیکل میں قربانیاں ادا کی جاتیں اور کفارے کا برہ بیاباں میں بھیجا جاتا. ابھی تک یہ فریسی نظریات تھے کہ ان میں سے کوئی بھی حیات بخش رسومات کا اثر بغیر سچی توبہ کے واقع نہیں ہوتا اور پڑوسی کے نقصان کو ادا کئے بغیر بحالی توبہ ممکن نہیں. لہذا فریسی قربانیوں کی ادائیگی کے مخالف نہ تھے (جو کہ مقدس نوشتوں میں مقرر کی گئی تھیں) لیکن وہ ان قربانیوں کو کماحقہ جگہ رکھتے تھے جیسا کہ فریسی ہیکل کی عبادت اور کاہنانہ ذمہ داریوں میں عمومی تعاون کرتے تھے لیکن یہودی مذہب کے تمام تر خاتمے کے لئے اس کے حق میں پائے جانے والے کسی بھی رجحان کے سخت مخالف تھے جبکہ صدوقی اس کا رجحان رکھتے تھے. یہاں یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ یسوع کا رویہ ہیکل کے لیے مختلف تھا.
یسوع اور فریسی کے متعلق واقعے کا تجزیہ دو چیزیں ظاہر کرتا ہے کہ یسوع اور فریسیوں کے درمیان بے ربطگی نہ تھی اور انجیل مرتب کرنے میں تسلسل کے ساتھ نظر ثانی کا عمل اس لیے جاری ہوا تاکہ متاخر اناجیل میں موجود ایک دوستانہ گفتگو کو معاندانہ مکالمے میں تبدیل کیا جائے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک غیر متعصب فریسی عکس کے لیے ہمیں ابتدائی انجیل مرقس کی طرف رجوع کرنا پڑے گا. اسکے برعکس انجیل مرقس فریسیوں کے خلاف تعصبانہ رویہ رکھتی ہے لیکن بعد میں آنے والی اناجیل کی نسبت یہ قدیم انجیل مرقس فریسی مخالفت کو ظاہر کرنے کی خاطر کی جانے والی نظر ثانی کا عنصر کم رکھتی ہے.
یہاں ہم انجیلی تفسیر کے ایک اہم اصول پر نقد کریں گے. جب ہم اصل روایت کے خلاف جانے والے حصے کو مدنظر رکھتے ہیں تو احتساب کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے پر اعتماد ہو جاتے ہیں کہ یہ اصل اور مستند روایت کا حصہ ہے کیونکہ اناجیل میں عمومی رجحان فریسی مخالفت کا ہے لہذا وہ روایت یکے بعد دیگرے کی جانے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں مزید سے مزید تر فریسی مخالف ہو جاتی ہے کیونکہ فریسیانہ دوستی پر مبنی کوئی بھی واقعہ بعد کے متون میں شامل نہیں کیا گیا. (تصرف کرنے والوں کا رجحان رہا ہے کہ کچھ جزئیات کو خارج کر دیتے ہیں اور شامل نہیں کرتے) اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعد کی اناجیل ہر واقعہ سے متعلق ہوں کیونکہ مختلف اناجیل بعینہ وہی مواد پیش نہیں کرتیں جو کہ ایک ہی ماخذ سے مستعار ہو. (٣) اسی وجہ سے جب آزادانہ ماخذات سوال میں اٹھائے جاتے ہیں تو مابعد انجیل وہ مواد بھی محفوظ رکھتی ہیں جو کہ ابتدائی انجیل سے مفقود ہے. جب ہم مؤخر انجیل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں ایک ہی ذریعے سے حاصل کئے گئے مواد کو محفوظ رکھتی ہیں. یہ صورتحال اوپر دی گئی ہے جہاں یہ واضح ہے کہ فقیہ اور یسوع کے واقعے کی خبر مرقس (جو کہ متی سے قبل ہی اپنی انجیل لکھ چکا تھا) میں پہلے اور متی اس کا ذکر بعد میں کرتا ہے. یہ متی کے مصنف کے ذریعے مرقس میں دی جانے والی خبر کی بنیاد پر ایک موافق تبدیلی ہے.
یہ ابتدائی مثال ان وسیع دلائل کی پیروی کرتی ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ یسوع فریسی ازم کا مخالف نہ تھا بلکہ خود ایک فریسی تھا. یہ بیان اس کتاب کے مرکزی خیال پولس کے موضوع سے متبائن نہیں ہے کیونکہ یسوع کے فریسی ہونے یا نہ ہونا اس سوال سے زبردست تعلق رکھتا ہے کہ کیا پولس فریسی تھا؟
یسوع کی وہ تصویر جو انجیل میں ہے اس کے مطابق فریسی یسوع کو ایذاء پہنچاتے اور اس کو تنگ کرتے تھے. یہ تصویر اعمال میں پولس کی عکاسی کو تقویت دیتی ہے کہ فریسی (مبینہ طور پر پولس بھی فریسی تھا) یروشلم چرچ اور یسوع کے پیروکاروں کو تکلیف دیتے تھے. اگر یہ نظریہ درست ہے کہ فریسیوں نے کبھی بھی یسوع کا تعاقب نہیں کیا اور یسوع خود بھر فریسی تھے تو یہ دعوٰی ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے کہ یروشلم چرچ کو ستانے والا پولس دراصل فریسی تھا. پولس کے ہمعصر فریسی سربراہ گملیل کا یروشلم چرچ کے ساتھ رویہ رحمدل اور بردباری کا تھا جس کی معقولی وجہ یہی ہے کہ فریسیوں کے یسوع ساتھ دوستانہ معاملات کا تسلسل تھا. اس کتاب کا تنازع یہ ہے کہ یسوع کو اناجیل میں جس طرح بھی پیش کیا گیا مگر اسکے باوجود وہ ایک فریسی ہی تھا جبکہ مبینہ طور پر ہدایت پانے سے قبل پولس کو ہمیشہ بحیثیت فریسی ہی پیش کیا گیا جو کہ وہ کبھی تھا ہی نہیں. دلائل کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح عہدنامہ جدید کے مصنفین کی طرف سے حقائق میں تبدیلی کی گئی ہے. انجیل کے مطابق فریسیوں اور یسوع کے درمیان تنازع کی اہم وجہ یسوع کا سبت کے دن شفاء دینے کا عمل تھا جو کہ مبینہ طور پر فریسی قوانین کے خلاف تھا. انجیل یہ دعوی کرتی ہے کہ سبت کے دن علاج کرنے پر فریسیوں نے یسوع پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس کے باعث یسوع کے قتل کی سازش تک کی. (متی 3:6،متی 12:14) یسوع نے سبت کے دن علاج کرنے کے دفاع میں فریسیوں کے سامنے کچھ دلائل بھی رکھے مثلاً سبت کے دن ختنہ کرنے کی اجازت تھی تو علاج کرنے سے یسوع روکا جاتا ہے. (یوحنا 7:23) یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اگر ہم فریسی قانون کی کتاب سے مدد لیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت سبت کے دن شفاء دینے کی تعلیم دیا کرتے تھے،ہم پاتے ہیں کہ انہوں نے اسے ممنوع قرار نہیں کیا تھا اور وہ یہی دلائل استعمال کرتے تھے جو یسوع نے اس کے جواز کے لیے استعمال کی. یسوع نے کہا کہ "سبت آدمی کے لیے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کے لیے"، انہیں ایک نئی عہد ساز معرفت کی تشبیہ کے طور پر بہت مرتبہ یسوع نے ذکر کیا اور بعینہ یہی لفظ فریسی ماخذات میں پائے جاتے ہیں جہاں اسے انسانی زندگی کے سبت پر فوقیت رکھنے کے فریسی نظریات کی تائید کے لیے کام میں لایا جاتا تھا. انجیل نویس نے یہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یسوع جب ان فریسیوں سے مباحثہ کررہا تھا تو بذات خود فریسی نہ تھا اور اپنے سبت کے دن شفاء دینے کا دفاع کررہا تھا.
سبت کے مخالفین کے اثرات حقیقتاً سبت کے متعلق کہانیوں کی داستانوں میں پائے جاتے ہیں. یہاں یہ بیان ہے کہ سبت کے دن صحتیابی کرنے پر یسوع پر برہم و نالاں فریسی ہیرودیوں کے حامیوں کے حامیوں کے ہمراہ مل کر مخالف چالیں چلنے لگے کہ وہ یسوع کو کس طرح لوگوں سے دور کریں (مرقس 3:6) ہیرودیس کے ساتھی (ہیرودیس اینٹی پاس، جو کہ رومی حکومت کی طرف سے گلیل کا حاکم تھا)سب کے سب سیاسی اور یونانیت زدہ یہودی تھے، ان کا رجحان مذہب میں بالکل کم اور طاقت حاصل کرنے کی طرف زیادہ تھا. فریسی (جو کہ رومی قابضین کی مخالفت کے علمبردار تھے) اور ہیرودیوں کے ساتھیوں میں اتحاد ناممکن تھا لیکن ہیرودیوں اور صدوقیوں میں اتحاد ممکن بلکہ یقینی تھا. جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے کہ صدوقی اگرچہ ایک مذہبی جماعت تھی جو کہ جمود کا شکار اور رومی وزارت کے حصول کے خواہاں تھے. ان کا سربراہ سردار کاہن رومی قابضین کے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تھا. اس امر کا زبردست امکان موجود ہے کہ اناجیل کی تصحیح کرنے والوں کی مداخلت کی وجہ سے اصل صدوقی نام کو فریسی نام سے تبدیل کردیا گیا ہو، غالباً ایسا دیگر وقائع میں بھی ہوا ہے جہاں یسوع فریسیوں کے خلاف فریسیانہ نقطہ نظر سے سبت پر ناقابل فہم بحث کررہے تھے. ہم جانتے ہیں کہ فریسیوں کی نسبت صدوقی سبت کے متعلق سخت نظریہ رکھتے تھے. (اگرچہ کوئی صدوقی دستاویز محفوظ نہیں رہی) یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ فریسیوں کے برعکس انہوں نے یسوع کو سبت کے دن علاج سے روکا. ایسے مفروضات جو کہانیاں تشکیل دیتے ہیں وہ ماوراء تفہیم ہیں کہ فریسی یسوع کو فریسی عقائد ہی کی ترویج کرنے کے باعث قتل کرنا چاہتے تھے.
اگرچہ یسوع ان ایام کے سردار کاہن کے مخالف کے طور پر سامنے آتا ہے جو کہ صدوقی تھا لہذا ضروری ہے کہ ان تمام کہانیوں کو محفوظ کیا جائے جس میں یسوع کی تصویر صدوقی مذہبی نظریات کے مخالف کی طرح پیش کی ہے اسکے باوجود یہ واضح ہے کہ یسوع اور صدوقیوں کے مابین تنازع کی اہم وجہ مذہبی کے بجائے سیاسی اختلافات تھے. فریسی دستاویزات میں ان فریسی معلمین کے متعلق متعدد کہانیاں پائی جاتی ہیں جو صدوقیوں کے ساتھ مناظروں میں مصروف رہے. ان مناظروں کا مرکزی عنوان مردوں کی قیامت کا سوال تھا جس پر فریسی یقین رکھتے تھے اور صدوقی اس کے منکر تھے. اسی طرح کی ایک کہانی انجیل میں بھی پیش کی گئی ہے (مرقس باب 12 فقرات 18 تا 27) یسوع کی طرف سے صدوقیوں کو دیئے جانے والے جوابات ان سے کئی گنا زیادہ پیچیدہ ہیں جو فریسی اپنے مباحثوں میں دیا کرتے تھے. غیر یہودی لوگ بھی مردوں کی قیامت کے متعلق فریسیانہ عقیدے کا علم رکھتے تھے اور یہ کہانیاں یسوع اور فریسیوں کو باہم مخالف ظاہر کرنے کے انداز میں مرتب کی گئی ہیں لہٰذا عہد جدید میں تصرف کرنے والوں نے یہاں تبدیلی کیے بغیر یسوع کے فریسی ہونے کی ایک واضح و دلچسپ گواہی چھوڑ دی ہے اگرچہ اناجیل میں اسے اس طرح مباحثہ کرتے دکھایا گیا ہے جیسے وہ فریسی کے بجائے ایسا شخص ہو جس کے خیالات کبھی فریسیوں سے موافق تھے.
ان کہانیوں میں تصرف کرنے والوں کے یسوع اور صدوقیوں کے درمیان مخاصمت کے کیا محرکات تھے کہ انہوں نے صدوقیوں کے بجائے فریسیوں کو مخالف یسوع کے طور پر پیش کیا؟ اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے، فریسی یہودیت میں اعلی بالادستی رکھنے والوں کی حیثیت سے معروف تھے جبکہ صدوقی ایسے نہ تھے. حقیقت یہ ہے کہ اناجیل کے لکھنے جانے کے وقت صدوقی اپنی ہر وہ معمولی سی بھی مذہبی شناخت کھو چکے تھے جو ان کے پاس تھی اور فریسی مذہبی اختیارات کے یکتا محافظ تھے. انجیل نویسوں کی حتی الامکان کوشش تھی کہ وہ یسوع کو رومی قابضین کے بجائے یہودی مذہب کے خلاف بطور باغی پیش کریں. اناجیل میں شامل مواد کی متعدد بار تبدیلی کی وجہ یہی ہے کہ مصنفین عہد جدید کا مافی الضمیر ایسی تصویر کی تشکیل دینا تھا جس میں یسوع اور فریسی باہم مخالف ہوں.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدوقی رومیوں کے ساتھ معاونت کرتے تھے، یسوع کی اصل مخالفت دراصل صدوقیوں سے تھی جبکہ خالص مذہبی پس منظر پر یسوع کا تاثر بطور رومی مخالف نظر آتا ہے جسے انجیل نویسوں نے چھپانے کی کوشش کی ہے.
درحقیقت یسوع اور فریسیوں کے درمیان کوئی مخالفت نہ تھی جو کہ ان خبر رساں نقوش سے ظاہر ہوتی ہیں جو کہ روایت میں ہی باقی رہ گئی ہے. ایک اہم مثال ہے کہ " اُسی گھڑی بعض فرِیسِیوں نے آ کر اُس سے کہا کہ نِکل کر یہاں سے چل دے کِیُونکہ ہیرودِیس تُجھے قتل کرنا چاہتا ہے" (لوقا13:31) یہ واقعہ تمام مفسرین کے لیے معمہ بن چکا ہے کہ وہ فریسی جنہیں گذشتہ واقعات میں یسوع کے شفائیہ کاموں کے باعث اس کی موت کی کوششیں کرتے پایا گیا ہے وہ اسے تنبیہ کرنے اس ارادے سے آتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی بچا لے؟
کچھ مسیحی مفسرین فریسیوں کی کینہ پرور تصویر محفوظ کرنے کے لیے بےچین نظر آتے ہیں اور ایک ایسا مشکل منظرنامہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں فریسی دہرا معیار کرتے نظر آئیں. وہ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ یسوع کے لیے گلیل سے زیادہ یروشلم میں خطرہ تھا اس لیے فریسی یسوع کو فرار کرانے کی غرض سے ہیرودیس کے متعلق ایک جعلی تنبیہ کرتے ہوئے راغب کرتے ہیں کہ وہ اپنی موت سے قبل یروشلم سے نکل جائے. حقیقت سے دور یہ تاویل ایک عجوبہ اور بمشکل ہی قابل اعتبار ہے کہ گذشتہ بیان کے مطابق اگر فریسی یسوع کے دشمن تھے تو وہ یہ کیسے امید رکھ سکتے تھے کہ یسوع ان کے ایسے پیغام کو قبول کرے گا جو وہ نیک نیتی کے ارادے سے یسوع کو دے رہے تھے؟
یہ بیان یسوع اور فریسیوں کے درمیان باہمی مواخات کی بیش قیمت شہادت ہے اور ان کا یسوع کو یہ تنبیہ کرنا ہی اس بات کی علامت ہے کہ فریسی یسوع کو اپنی ہی جماعت کا ایک فرد شمار کرتے تھے. زبردست حقیقت یہ ہے کہ یسوع کے ساتھ فریسیوں کے تعلقات کی عمومی تصویر جو اناجیل میں پیش کی گئی ہے یہ کہانی اس کے بالکل برعکس ہے. تاریخی سچائی ہے کہ یہ کہانی اس ترمیمی مواد میں شامل نہیں تھی جو متاخر زمانہ میں انجیل میں داخل کیا گیا، بلکہ یہ شروع سے ہی انجیل میں چلی آرہی تھیں جن کی غلطی سے ترمیم نہیں کی جا سکی.
یہ ایک اہم اور ضروری اشارہ ہے کہ یسوع کی فریسی مخالفت کے متعلق روایات میں سبت کے دن شفاء دینے کا سوال کچھ معنی نہیں رکھتا، حقیقت یہ ہے کہ یسوع کے مقدمہ میں اس الزام کا کہیں ذکر نہیں ملتا. اگر انجیلی بیان کے مطابق یسوع کی سبت کے دن کی سرگرمیاں فریسیوں کی نظر میں بہت بڑا جرم تھا تو یہ فرد جرم اس کے خلاف کیوں شامل نہیں کی گئی جب وہ اپنی زندگی اور موت کے مقدمے میں کھڑا تھا؟ یسوع کے مقدمے میں فریسیوں کی طرف سے بالخصوص کوئی الزام کیوں عائد نہیں کیا گیا؟ جیسا کہ ہم اگلے حصے میں دیکھیں گے کہ یسوع پر کوئی بھی الزام مذہبی نہیں تھا بلکہ تمام الزامات سیاسی نوعیت کے تھے جبکہ اناجیل انہی سیاسی الزامات کو مذہبی رنگ دے کر پیش کرتی ہیں. اگر یسوع کا مقدمہ حقیقتاً مذہبی تھا تو فریسیوں کو اس مقدمہ کی کاروائی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنا تھا جو کہ مبینہ طور پر یسوع کے بدترین معاند تھے.
یہ سوال نہایت اہم ہے کہ فریسی یسوع کے مقدمے کے وقت یسوع کو اس طرح سے کیوں نہیں بچاتے ہیں جس طرح فریسی سردار گملیل نے یسوع کے شاگرد پطرس کو اس وقت بچایا جب اس پر مذہبی عدالت سے قبل ہی فرد جرم نافذ کر دی گئی تھی؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یسوع کے اس مقدمے میں فریسی حاضر نہ تھے جو خصوصی سیاسی عدالت سے قبل مذہبی عدالت یعنی سنہڈرین میں چلایا گیا تھا جس میں سردار کاہن رومیوں کا قائم مقام اور ہمدرد تھا اور اپنی ہی منظور نظر عدالت کی صدارت کررہا تھا.
سبت کو شفاء دینے کا معاملہ، یسوع اور فریسیوں کے درمیان مخالفت کے تناظر میں ہرگز اہم نہیں ہے. یسوع کی تعلیمات کے نقوش کو اناجیل ایسے انقلابی انداز میں کیوں پیش کرتی ہیں جو اس وقت کی یہودی مذہبی قیادت کے لیے ناقابل برداشت تھیں. یسوع کا دعوی مسیح ہونے سے متعلق کیا تھا؟ کیا یہ فریسیوں کی نظر میں کفر بکنا نہیں تھا؟ ہیکل کو تباہ کرنے کی یسوع کی دھمکی کو اس کے مخالفین نے اس کے خلاف مقدمہ میں بطور دلیل کیوں پیش نہیں کیا؟ موسی کی شریعت کی تجدید یا منسوخ کرنے کے متعلق یسوع کی خواہش کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فریسی مکتبہ فکر کے مطابق ان میں سے کوئی بھی مسئلہ دھمکی کے قائم مقام نہیں ہو سکتا اور بغور مشاہدہ کرنے پر ہم ان تمام معاملات میں یسوع کے نظریات کو خالصتا فریسی اعتقادات کے مطابق پاتے ہیں جو کہ اس بات کی واضح تصدیق ہے کہ یسوع خود بھی فریسی تحریک کے ہی ایک رکن تھے.
یسوع کا المسیح ہونے کا دعوٰی کسی بھی فریسی یا دیگر یہودیوں کی نظر میں کلمہ کفر نہیں تھا کیونکہ مسیح کا لقب خدائی دعوی یا الوہیت کے معنی میں نہیں تھا. مسیح کا سادہ معنی مسیح کیا ہوا ہے جو کہ بادشاہت کا لقب ہوا کرتا تھا. داؤد کے شاہی گھرانے کا ہر یہودی بادشاہ اس لقب کو اختیار کرتا تھا اور یہودی شریعت میں یہ بے ضرر تھا. اس کے برعکس تمام یہودی المسیح کی آمد کی امید پر زندہ تھے جس نے آکر انہیں بیرونی قابضین سے خلاصی دینی اور یہود کی قومی آزادی کو بحال کرنا تھا. ہر وہ شخص جو داؤد کے متبرک گھرانے کو بحال کرنے والے مسیح موعود (جس کی پیشگوئیاں بائبل کے عبرانی انبیاء کرتے رہے) ہونے کا دعوٰی کرتا وہ یقیناً بہت سے پیروکاروں کی ہمدردیاں حاصل کر لیتا. دعوی مسیح کرنے کے وقت یسوع ہرگز یہ دعوی کرنے والا تن تنہا واحد شخص نہیں تھا اور نہ ہی یہ دعوی ایسا تھا جس کی وجہ سے کفر گوئی کا الزام لگایا جاتا. المسیح ہونے کے سارے دعاوی ایک ہی نوعیت کے نہیں تھے، بعض مدعیان المسیح جنگجو تھے جیسا کہ بارکیوبا یا یہوداہ گلیلی جبکہ کچھ المسیح ہونے کا دعوی کرنے والے غیر عسکری ولولہ انگیز جذبہ رکھنے والے تھے جیسا کہ تھیوداس اور مصری (ان دونوں کا ذکر عہد جدید اور جوزیفس(4)نے کیا ہے) انہوں نے معتقدین کا گروہ جمع کرلیا تھا اور پر اعتماد ہو کر ایسے معجزے کے منتظر تھے جس کے ذریعے رومیوں کو زیر و زبر کیا جا سکے. یسوع اسی دوسری قسم کے مدعیان سے تعلق رکھتا تھا اور وہ کوہ زیتون پر ایک معجزے کے ظہور کے لیے پرامید تھا جس کی پیشگوئی زکریا نبی نے کی تھی. (5) کچھ مدعیان المسیح محدود مقاصد کو لے کر اٹھے جن کا مقصود فقط یہودیوں کو رومیوں سے نجات دلانا تھا، انکے برعکس مدعیان بشمول یسوع ایسی آزادی کے متمنی تھے جو پوری دنیا پر مشتمل ہو اور اس عہد میں یہ امن نقیب ہو جائیں جب نبیوں کے مطابق بھیڑیا برہ کے ساتھ آرام کرے گا، لیکن اس کے باوجود ان مدعیان کی کوئی بھی امید کفر گوئی کے رنگ میں نہیں تھی. وہ یہودیت کا ایک کامل حصہ تھے جس میں المسیح کی امید، خدا کی ذات پر یقین کا ایک معقولی نتیجہ تھی جس کی سلطنت ایک دن تمام انسانیت تک وسیع ہوگی.
بہرحال یسوع کی موت کے بعد متاخر مسیحیت میں عبرانی لفظ "مسیح" کا یونانی ترجمہ الوہیت یا خدائی وجود کے معنوں میں ہوگیا اسکے نتیجے میں مسیحیوں نے اس معنی کو قبول کرنے کے لیے آسان پایا کہ یسوع پر کفر گوئی کا الزام لگنے کی وجہ اسکا دعوی مسیح تھا اور اس کے ساتھی یہودی بھی اس دعوے پر حیران تھے. اناجیل یسوع کو ایک الگ ہی مسیانک شپ کے تصور کے ساتھ پیش کرتی ہیں جو کہ دیگر یہودی مدعیان مسیح سے مختلف تھی لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ جب وہ المسیح لفظ کو خود کے لیے استعمال کررہا تھا تو اسکے ساتھی یہودیوں کے پاس یہ یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس کا مطمع نظر اس (لفظ) سے خلاف دستور معنی ہے، خصوصاً جیسا کہ اناجیل کے مطابق وہ اس لفظ کے معانی متعارف کرانے میں بھی محتاط و کم گو تھا لہذا جب اس نے اس لفظ کو سمجھایا تو اس کے شاگرد سمجھ نہ سکے. اس وجہ سے کفر گوئی کا کوئی بھی الزام اس نظریہ پر قائم نہیں ہو سکتا جسے کبھی ظاہر ہی نہیں کیا گیا. بہرحال تاریخ میں ایک خفیہ مسییاح تصور کا اعتقاد کا یسوع کی طرف انتساب فقط بعد میں آنے والے مسیحیوں کی کوشش ہے جس کا یسوع کی موت کے بعد تک کوئی وجود نہیں تھا. یہ بات مزید دلچسپی رکھتی ہے کہ اناجیل متواقفہ میں فریسیوں کے بجائے فقط سردار کاہن کو ہی دعوی مسیح کی بنیاد پر یسوع کو کفر گوئی کا مرتکب قرار دیتے دکھایا گیا ہے. یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یسوع پر لگنے والا الزام کسی طرح بھی مذہبی نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا. المسیح ہونے کا دعوٰی کرنا فریسی قانون کی خلاف ورزی نہ تھا بلکہ اس کے معنی بادشاہ ہونا تھا. رومی قابضین یہودی حکومت تہس نہس کر چکے تھے ایسے میں کسی کا بھی المسیح کا دعوٰی کرنا رومی قابضین کے خلاف تخریب کارانہ عمل تھا. سردار کاہن کا تقرر رومی حکومت کی طرف سے ہوا تھا جس کا مقصد روم کے خلاف کسی بھی طرح کی برپا ہونے والی تحریک سے رومی مفادات کی حفاظت کرنا تھا اور یہ اس کے فرائض میں شامل تھا کہ کسی بھی مدعی المسیح کو سزا دینے کے لیے گرفتار کرکے رومی حکومت کے حوالے کرے. اناجیل نے یسوع کو یہودی مذہب کے خلاف بطور باغی پیش کرنے کے طریقہ کار کی پیروی کی ہے اور سردار کاہن کی منظر کشی اس طرح کی یے کہ وہ بغاوت کے بجائے کفر گوئی کے لیے زیادہ فکر مند تھا.
اسی طرح یہ الزام بھی صرف یسوع کے مقدمہ کے وقت فریسیوں کی عدم موجودگی میں ہی سامنے لایا گیا کہ یسوع نے ہیکل کو ڈھانے اور دوبارہ تعمیر کرنے کی دھمکی دی ہے. یہ یقیناً ایک سیاسی الزام تھا نہ کہ مذہبی، کیونکہ فریسی یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ہیرودیس کا تعمیر کردہ ہیکل آنے والے مسیح کے ایام تک باقی رہے گا. یسوع نے اپنی ساری توجہ ہیکل کی تباہی اور اس کی تعمیر نو پر لگا دی تھی کیونکہ المسیح کا ادعا کرنے والے فرد نے سب سے بنیادی کام جو کرنا تھا وہ یہی تھا. فریسی جو ہیکل کے لیے والہانہ تعظیم نہ رکھتے تھے اور نہ ہی وہ یسوع کے اس ارادے سے خوفزدہ تھے کہ یسوع کا مقصود موجودہ ہیکل کے بانی اول کے طرز کی ایک جدید ہیکل کی تعمیر ہے. وہ لوگ جن سے اس طرح کے ارادے کی وجہ سے پریشانی کی توقع رکھی جا سکتی تھی وہ سردار کاہن اور اس کے ہمراہی ہی ہو سکتے تھے جو مسیح کی سلطنت کی حفاظت کے ذریعے خود کے لیے مکمل کامیابی کی توقع لگائے بیٹھے تھے. یقیناً 66 عیسوی میں برپا ہونے والی یہودی جنگ میں رومی مخالف باغیوں نے سردار کاہن کو برطرف کیا اور رومی اشتراک سے لاوی کے مقدس خاندان سے نئے سردار کاہن کو مقرر کیا. یاد رہے کہ مذہبی کفر گوئی کا جو الزام اناجیل میں پیش کیا گیا ہے یقیناً جمود کے خلاف بغاوت کا ایک سیاسی الزام تھا جس میں حریف ہیکل اور سردار کاہن روم کے آلہ کار تھے.
اناجیل میں یہودیت کی مبینہ تجدید کے حمایتی کے طور پر یسوع کی عکاسی، تجزیہ کرنے پر کسی بھی طرح فریسی نظریات کے خلاف ثابت نہیں ہوتی. اگرچہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ یسوع عبرانی بائبل کی قانونی تعزیرات کے قانون "آنکھ کے بدلے آنکھ" کا مخالف تھا اور وہ خون بہا کے قانون کے بدلے محبت کے قانون کو اس کے قائم مقام کرتا ہے. یہ فریسی ازم میں صورتحال کی بگڑی ہوئی شکل ہے. فریسی آنکھ کے بدلے آنکھ کے بیان کو حرف بحرف شرعی دستور العمل کی طرح نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اس قانون کو ایسا اصول سمجھتے تھے جو کسی کو ضرر پہنچانے یا زخمی کرنے کے مرتکب کے خلاف مجروح کی تلافی نقصان کے لیے ہو. یقیناً عبرانی بائبل کی شرعی تعزیرات خود ایسے نقصانات کا خون بہا فراہم کرتی ہیں جب صورتحال یہ ہو کہ مضروب کا ہرجانہ اور دوائی کے اخراجات وہ شخص ادا کرے جو اسے زخمی کرنے کا ذمہ دار ہو (خروج 21:19) لہذا یہ واضح ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا نقدی معاوضہ کے بجائے غیر مہذب تلافی کی طرف رجوع کا رجحان رکھنے کے باوجود فریسی عبرانی بائبل کی خودساختہ تفسیر نہیں کرتے تھے. یسوع کہتے ہیں کہ اگر کوئی مضروب ہو تو بدلہ طلب نہ کرے بلکہ دوسرا گال بھی پیش کردے. اس نے بالکل بھی آزادی کے اس خیال کو زخموں کے معاوضہ کی زمہ داری سے اخذ نہیں کیا جو کہ کوئی عام فرد کر سکتا ہے. معاوضہ وصول کرنے کا تصور فریسی افکار کا بھی حصہ تھا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے علاج معالجہ کے بغیر نقصان کے ساتھ شریعت کی رو سے تکالیف کو درگزر کردیا جائے. اس کے برعکس اعلی شخص وہ ہے جو معاف کرنے کے لیے دوسروں کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے قانونی حق کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو بالخصوص اس وقت جب وہ خود بھی زخمی ہوا ہو. یہ وہ مقام ہے جہاں خیالات کے الجھاؤ کا تصادم زوروں پر ہے جس میں یسوع کی تعریف ایک محبت کے قانون کو برقرار رکھنے والے شخص کی حیثیت سے کی ہے جو کہ محض فضول گوئی ہے جس کا نتیجہ ایک متشدد اور جبری سماج کا قیام ہے جو کہ ہرگز قابل عمل قرار دیا نہیں جا سکتا. فریسی بھی محبت کے اس قانون پر یقین رکھتے تھے جیسا کہ انکے نظریہ سے جھلکتا ہے کہ خدا اور پڑوسی کی محبت، تورات کے بنیادی اصول ہیں لیکن تمام حقوق کی منسوخی کی بنسبت اس کے حقوق کی حفاظت کے فیصلے سے ایک پڑوسی کی محبت زیادہ ظاہر ہوتی ہے. یہاں یہ فرض کر لینے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ یسوع نے ایک احمقانہ نظریہ پیش کیا یا اسکے نظریات دیگر فریسیوں سے مختلف تھے.
یہودی شریعت کی اصلاح کا یسوع سے تعلق، عدم موجود ہے. مرقس 7:19 میں ہم یسوع کو تمام غذاؤں کو پاک قرار دیتے ہوئے پاتے ہیں، لیکن اس مقام کا ترجمہ بہت زیادہ اختلافات رکھتا ہے اور اکثر علماء کا اس حصے کے متعلق خیال ہے کہ یہ مرتبین نے اضافہ کیا ہے. ایک اور مقام پر ہم طہارت کے یہودی قانون کی یسوع سے تصدیق وضاحت کے ساتھ پاتے ہیں جہاں وہ کوڑھی کو شفاء یاب ہونے کی خبر دیتا ہے " جا کراپنے تِئیں کاِہن کو دِکھا اور اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت اُن چِیزوں کو جو مُوسی نے مُقرّر کِیں نذرگُزران تاکہ اُن کے لئِے گواہی ہو" (مرقس 1:43)
پہاڑی وعظ میں ہم یسوع کو ایک مصلح کی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے پاتے ہیں جب وہ کہتا ہے "تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا....... مگر میں تم سے کہتا ہوں" یہاں وہ ایک صاحب اختیار کی آواز میں سابقہ تعلیمات کی خود مختاری کو ایک مصلح کی تصریحات کا جواز فراہم کرتا ہے. بہرحال پہاڑی وعظ کا مکمل قصہ متی کی ایجاد ہے (یہ بیان مختلف اقساط کی صورت میں دیگر اناجیل میں بکھرا ہوا ہے سوائے لوقا کے، کہ جہاں یہ خطبہ ایک سادہ اسلوب دھار لیتا ہے جس میں پر شکوہ بلند مرتبت کا اختیار مفقود ہے) سادہ تشریح یہ ہے کہ مصلح کی آواز اس کہانی میں متاخرین مسیحی مرتبین کے ذریعے داخل کی گئی ہے جن کے نزدیک یہ خیال کرنا ناپسندیدہ تھا کہ یسوع نے دیگر فریسی فقہاء کی مانند تعلیم دی ہے.
گندم کی بالیاں توڑنے کا واقعہ ایک دلچسپ قصہ ہے جو ایک بے رحم تورات کے مصلح اور شریعت کی تعمیل سے لاتعلقی رکھنے والی یسوع کی عکاسی کو تقویت دیتا ہے. سب سے پہلے مرقس باب ثانی میں یہ پیش کیا گیا ہے.
اوریوں ہُؤاکہ وہ سَبت کے دِن کھیتوں میں ہوکرجارہاتھا اور اُس کے شاگِردراہ میں چلتے ہُوئے بالیں توڑنے لگے اورفرِیسِیوں نے اُس سے کہا دیکھ یہ سَبت کے دِن وہ کام کِیُوں کرتے ہیں جو روا نہِیں؟ اس نے اُن سے کہا کیا تُم نے کبھی نہِیں پڑھا کہ داؤد نے کیا کِیا جب اُس کو اور اُس کے ساتھیوں کو ضرُورت ہوئی اور وہ بھُوکے ہُوئے؟ وہ کیونکر ابیاترسَردار کاہِن کے دِنوں میں خُداکے گھرمیں گیا اوراس نے نذر کی روٹِیاں کھاہیں جِن کوکھانا کاہِنوں کے سِوا اور کِسی کو روانہِیں اور اپنے ساتھیوں کا بھی دیں؟ اور اُس نے اُن سے کہا سَبت آدمِی کے لیے بنا ہے نہ آدمِی سَبت کے لیے۔ پَس اِبنِ آدم سَبت کا بھی مالِک ہے۔
یہ واقعہ صدوقیوں کے ساتھ ایک حقیقی تکرار کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ زرعی مزدوروں کی تمام اقسام کے بشمول سبت کے دن بالیاں توڑنے سے بھی فریسی منع کرتے تھے لہذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے شاگردوں کو سبت کے دن گندم کی بالیاں توڑنے کی اجازت دے کر یسوع یقیناً فریسی قانون کی توہین کررہا تھا. بظاہر نظر آنے والا یہ واقعہ ایسا نہیں جیسا ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ یسوع آخر میں کہتا ہے کہ " سَبت آدمِی کے لیے بنا ہے نہ آدمِی سَبت کے لیے" جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا ہے کہ یہ ایک فریسی محاورہ ہے اور یہی سارے واقعے کی تفہیم کے لیے کلید ہے کیونکہ فریسی اس محاورے کو یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ انسانی زندگی کے لیے پر خطر حالات میں سبت کے قوانین کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے. اس پورے مبینہ واقعے میں انسانی زندگی کے لیے ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ سبت کے قانون کو نظرانداز کرکے شاگردوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے لیکن ہم یہاں ایسے کچھ اشارے پاتے ہیں کہ یہ واقعہ انتہائی خطرناک حالات میں پیش آیا تھا.
یسوع خالصتاً فریسی انداز میں فریسیوں کو وضاحت دیتے ہوئے گندم کی بالیاں توڑنے کے عمل کے پس منظر میں کتاب مقدس کا حوالہ دیتا ہے جو کہ داؤد اور نذر کی روٹی کی تقدیس کی خلاف ورزی کی صورتحال ہے اور فریسی دستاویزات میں اس واقعہ کو زندگی کے لیے انتہائی خطرناک حالات میں سے ایک حالت قرار دیا ہے کیونکہ داؤد اور انکے ساتھی بادشاہ ساؤل سے بھاگ رہے تھے اور فاقہ کشی میں قریب المرگ تھے. یہی وجہ ہے کہ فریسی نظریہ کے مطابق داؤد اور انکے ساتھی مقدس روٹی کھانے میں حق بجانب تھے جبکہ ایسے حالات میں جہاں انسانی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو اسے انتہائی قبیح فعل سمجھا جاتا تھا. غرض کہ داؤد اور انکے ساتھیوں کا واقعہ انتہائی کٹھن حالات میں سے ایک تھا مگر کسی مایوس اور پریشان کن حالات کے بغیر گندم کی بالیاں توڑنے کے واقعہ کی مثال یسوع اور اس کے شاگردوں کے لیے دینا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے جیسا کہ روایت کے مطابق وہ سبت کے دن گندم کے کھیت میں اطمینان سے گشت کررہے تھے اور اسکے شاگرد گندم کی بالیاں توڑنے کو فارغ رہنے سے بہتر سمجھ رہے تھے اور سستی سے اسے چبا رہے تھے. داؤد کا واقعہ بالکل ہی بےجوڑ (سبت کے دن کچھ کرنے سے بالکل جدا) ہے لیکن اگر ہم سخت اور ہنگامی حالات کا عنصر روایت کی طرف پھیر دیں تو یہ ایک بالکل درست اور قابل تفہیم مضمون بن جاتا ہے.
یسوع اور اس کے شاگرد ہیرودیس اینٹی پاس اور رومیوں کی حدود سے مفرور تھے یہاں تک کہ بھوک اور تھکاوٹ کی انتہا انہیں سبت کے دن گندم کے کھیت میں پہنچا دیتی ہے لیکن یسوع اس درپیش صورتحال کا موازنہ داؤد کے واقعہ سے کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اطمینان سے کھیت میں سے اپنی بھوک مٹا لیں کیونکہ یہ ایسی ہنگامی صورتحال تھی جس میں خواہ سبت ہو یاہیکل دونوں کی ہی تمام رسمی تعمیل فریسی قانون کے مطابق منسوخ ہو جاتی ہے،بعد میں جب اسکے فریسی دوست سوال کرتے ہیں تو وہ وضاحت کرتا ہے کہ وہ اس مقام پر آگیا ہے کہ جہاں سبت کا قانون ٹوٹ جاتا ہے. یہ وضاحت ایک گھمبیر مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے کہ کھیت سے گندم توڑنا فقط سبت کا قانون توڑنا نہیں تھا بلکہ چور کے مخالف قانون کی بھی خلاف ورزی تھا. کچھ مسیحی علماء نے استثناء 23:25 کا حوالہ دے کر اس نقطہ کو چھپانے کی کوشش کی ہے. "جب تو اپنے ہمسائے کے تاکستان میں جائے تو اپنی بھوک کی خواہش کے مطابق انگور کھا لیکن اپنی ٹوکری میں ہرگز نہ لے جانا اور اگر تو اپنے ہمسائے کے کھیت میں جائے تو تو ہاتھ سے بالیں توڑ لے مگر اپنے ہمسائے کے کھیت کو درانتی نہ لگانا"تاہم جیسا کہ فریسی مذہبی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے(e.g Mishnah Bava Metzia 7:2) اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنے مالک کے لیے کھیتوں میں کام کرتے ہوں کیونکہ اگر ہر راہگیر کو کھیت سے فصل توڑنے کی اجازت دے دی جاتی تو کسانوں کے لیے زندگی گزارنا ہی ناممکن ہو جاتا لیکن وہ حالات جس میں زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوں تو چوری کے قوانین درحقیقت کالعدم اور باطل ہو جاتے ہیں. درحقیقت فریسی قانون اسے زندگی بچانے کے لیے فرائض کے معنوں میں لیتا تھا. (9) اس لیے ایسے حالات میں چوری اور سبت کے قوانین پر متفق نہ ہونے پر یسوع قطعی طور پر فریسیوں کا ہم خیال تھا.
پھر کیوں ان ہنگامی حالات کے عنصر کو اس کہانی سے نکال دیا گیا جو کہ اس پورے قضیہ کو مہمل اور بے معنی بنا دیتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ وجوہات کے سبب ہنگامی حالات کا عنصر اناجیل سے عنقا کردیا گیا ہے جو کہ مہربان رومی حکومت کے ماتحت یہودیہ اور گلیل کو پرسکون علاقے کی طرح پیش کرتی ہے. اس کے برعکس اُس وقت کے تاریخی حقائق میں یہ رومیوں کی ظالم اور پرتشدد حکومت کے خلاف مستقل بغاوت، محصولات کی ادائیگی کے منکرین اور غارت گردی کا دور تھا. اگر کہانی میں مشکل صورتحال کا جز برقرار رکھا جاتا تو نہ صرف یہ ظاہر ہو جاتا کہ یسوع فریسی قوانین کی توہین نہیں کررہا تھا بلکہ یہ بھی واضح ہو جاتا کہ وہ ستم رسیدہ اور رومی حکومت کے مطلوب شخص تھے کیونکہ وہ انکے خلاف بغاوت کرنے والوں میں سے تھے.
لہذا گندم توڑنے کا واقعہ یسوع کے فریسی ہونے کی بابت معلومات فراہم کرنے والے حقائق کا مخالف ہے اور مفروضہ قائم کئے بغیر یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ یسوع انہی میں سے تھے. فریسی محاورے اور بائبل کے متقدمین شراح میں اس کا استعمال یہ تاثر دینے کے لیے تھا کہ غیر معمولی حالات میں شریعت کی خلاف ورزی کا اختیار ہے جو کہ مکمل طور پر فریسی تعامل اور اصولوں کے عین مطابق ہے اور تفسیر میں شریعت کے خلاف بغاوت کی اصطلاح کا جواز نہیں ملتا. اسی طرح یسوع کا آخری تبصرہ " اِبنِ آدم سَبت کا بھی مالِک ہے" کا عام مطلب یہی نکلتا ہے کہ یسوع یہودی شریعت سے برات کا اظہار اور اس کی دفعات کو اپنی مرضی سے منسوخ کرنے کے حق کا اعلان کررہے تھے. تاہم ضروری نہیں کہ اس جملے کا مفہوم یہی ہو. آرامی محاورے میں "ابن آدم" کا مطلب انسان یا آدمی ہی ہے، لہذا اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ انسان سبت سے زیادہ اہم ہے اور یہ ایسا بیان ہے جس سے تمام فریسی متفق ہو سکتے تھے. عہد نامہ جدید میں وارد بہت سے پیچیدہ مقامات جہاں "ابن آدم" استعمال ہوا ہے ان کی وضاحت انہی سطور پر کی جا سکتی ہے تاہم پھر بھی کچھ مقامات باقی رہ جاتے ہیں جہاں یسوع نے اپنے کردار کی ترجمانی کے لیے "ابن آدم" کا خطاب استعمال کیا ہے. جیسا کہ لقب سے ہی ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم الوہی ہستی نہیں بلکہ ایک رسولی درجہ ہے اور حزقیل کی پوری کتاب میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.
گنہگاروں اور محصول لینے والوں کے ساتھ تعلق رکھنے رکھنے کے سوال پر یسوع اور فریسیوں کے درمیان منسوب کردہ مخالفت بھی تبصرہ کی متقاضی ہے. عام طور پر جو رائے پیش کی جاتی ہے وہ یہ کہ یہ لوگ درحقیقت کسی معتبر معنوں میں گنہگار نہیں تھے بلکہ لوگ ان کو عزت کم دیتے تھے اور یہ رسم طہارت کے قوانین نظر انداز کرتے تھے. حقیقت تو یہ ہے کہ رسم طہارت اور نہ ہی عزت و توقیر کوئی مسائل تھے بلکہ محصول لینے والے ڈاکو، ایذارساں اور قاتل تھے جو حکومت روم کی طرف سے محصول وصول کرنے والوں کی معاونت کرتے تھے اور اپنے ہی ہم قوم یہودیوں سے جبرا کھانا اور پیسے چھیننے کے معاملے میں کافی بدنام تھے. یہ لوگ غلامی اور مفلسی کا سامنا کرنے کے بجائے باغی ہو گئے تھے تاہم یسوع اپنی ملک گیر توبہ کی مہم سے بہت پراعتماد تھے اور رومی غلامی سے قوم کو نکالنے کے لیے ایک مسیحیانہ معجزے کی تیاری کررہے تھے. وہ حالات سے مایوس گنہگاروں کے پاس فقط اس امید پر پہنچے تھے کہ ان کو برے طور طریقوں سے نکال سکیں. وہ محصول لینے والا جن کا یسوع سے سابقہ پڑا انہوں نے اپنے فعل سے رجوع کر لیا تھا ان میں سے ایک کی مثال زکائی کی ہے (لوقا 19) جس نے اپنی زندگی کے تمام برے کام ترک کر دیئے اور تمام لوٹا ہوا مال واپس کر دیا اور اپنی آدھی جائیداد خیرات کر دی. یہ رجوع کرنے کا صرف ایک طریقہ تھا جو فریسی عمل Tosefta میں محصول لینے والوں کی توبہ کے لیے مقرر کیا گیا تھا. کچھ علماء نے یہ دعوی قائم کیا ہے کہ فریسیوں کو محصول لینے والوں سے توبہ کی کوئی امید نہیں تھی. یہ حقیقت نہیں ہے لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ ندامت اور رجوع کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا. (10) اس موقع پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یسوع اور فریسیوں میں اختلاف کی یہی اصل وجہ ہو، یسوع محصول لینے والوں کی توبہ کے ذریعے واپسی کے لیے پرامید تھے جبکہ فریسی استادوں کی سوچ یہ تھی کہ ڈاکوؤں کے ساتھ تعلقات انہیں راہ راست پر لانے کے بجائے رجوع کرنے والوں کو خراب کرنے میں زیادہ اثر دکھائیں گے.
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یسوع نے دیگر فریسیوں سے اختلاف نہیں کیا تھا تو یسوع کو متشدد فریسی ہونا چاہیے تھا. جیسا کہ پہلے ہی وضاحت کی گئی کہ دوستانہ اختلافات فریسیوں اور فریسی ازم کا حصہ تھے اور فریسی ادبی دستاویزات میں تحریک کے بزرگوں کے درمیان اختلافات بھرے ہوئے ہیں. کچھ حالات میں عہد نامہ جدید فریسی اور یسوع کے درمیان مخالفت کو بے جا تراشتا ہے، صدوقیوں کو فریسیوں کی جگہ رکھنے کے بجائے یا پھر واقعہ کے بعض حصے حذف کرکے یسوع اور فریسیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جو دوستانہ بیانات تھے اسے بآسانی مخالفانہ مباحثے میں تبدیل کردیا.
اس طرح بہت سے طریقوں سے اناجیل میں یسوع کو اس تحریک سے جدا کردیا گیا جس کا وہ باقاعدہ حصہ تھے مگر اسکے باوجود ان کی شناخت پر ان کا انداز تبلیغ ایک فریسی ہونے کی مہر ثبت کردیتا ہے. ان کا تمثیلیں استعمال کرنا دراصل فریسی طریقہ تبلیغ تھا (فریسی ادب کے ناواقف لوگوں کو یہ انوکھا نظر آتا ہے) اور ان کے عجیب بیانات "سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا" یا "اپنی آنکھ کا شہتیر نکالنا" تلمود میں پائے جانے والے فریسی محاورے ہیں. بلاشبہ یہ سچ ہے کہ یسوع صرف اناجیل متوافقہ (متی، مرقس، لوقا) میں پائے جاتے ہیں. چوتھی انجیل میں یسوع ناقابل شناخت ہو جاتے ہیں جہاں وہ کوئی تمثیل استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی خاص انداز کے حامل ربائی خیالات کا اظہار کرتا ہے. اس کے بجائے وہ زبردست یونانی تصوف کا جابجا اظہار کرتے ہیں اور خود کو ایک الوہی ہستی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں. یسوع کے مابعد اساطیر میں اصل یسوع گم ہو چکا ہے. یہاں ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اصل یسوع کو اس وقت کے یہودی مذہب میں پا لیا ہے جو ان مقاصد کی ترغیب دے رہے تھے جو انکے رفقاء کے نزدیک قابل فہم تھے.

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

ایک پادری کے اسلام پر اعتراضات کا جواب




ایک پادری کے اسلام پر اعتراضات کا جواب

تحریر:عبداللہ غازیؔ




(۱) سورہ بنی اسرائیل آیت ۱ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا۔ یہ مسجدِ اقصیٰ تو 691 مین بنی تھی ۔
 الجواب : یہ اعتراض ہی فضول ہے اور ہمارے دیسی عیسائی بھائیوں کی "علمیت" کی بہترین عکاسی کرتا ہے. واقعہ معراج کی آپ جو اہم ترین بات نظر انداز کر رہے ہیں وہ ہے ہم عصر لوگوں کی گواہی. فتح مکہ تک مسلمان اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اپنی ہر بات پر اصرار کر سکتے. پیغمبر اسلام کے بدترین دشمن خود ان کے قبیلے قریش کے ہی لوگ تھے جنہوں نے کم از کم پانچ مشہور جنگیں لڑیں. ان میں سے کسی ایک نے بھی کبھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ ہمیں قرآن مجید کی اس آیت پر شک ہے کہ اِس وقت مسجد اقصٰی موجود نہیں.مسجد اقصٰی سے مراد عمارت نہیں بلکہ مقام ہے اب ایسا بھی نہیں تھا کہ قرآن مجید ان کی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں تھا جسے سمجھنے سے قاصر تھے. انہی کی صفوں میں وہ لوگ زندہ موجود تھے جنہوں نے متعدد بار تجارتی اغراض سے بلاد شام کے اسفار کئے تھے اور یروشلم میں واقع بیت اللہ کی زیارت بھی کر چکے تھے .جسے رومیوں نے مسیحیت کو قبول کرنے کے بعد بھی آلائشیں اور غلاظت پھینک کر متعفن کررکھا تھا. مسلمانوں نے تو اس کو صاف کرکے اس کا کماحقہ مقام اس کو واپس لوٹایا . پیغمبر اسلام کے بعد کوئی فرد اس وجہ سے مرتد نہیں ہوا کہ مسجد اقصٰی کا وجود نہیں اور یہ جھوٹ ہے بلکہ ارتداد کی وجوہات دوسری تھیں. اس آیت کے نزول کے بعد وہ صحابہ کرام جو مکہ میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں پیغمبر اسلام کا ساتھ دے رہے تھے کیوں ایک ایسے شخص سے چمٹے رہے جو خدا کے نام سے صریحاً ایسا جھوٹ بول رہا تھا جس کی کوئی تاویل بھی ممکن نہیں تھی اور نہ ہی کبھی اس کی تاویل کی گئی. انہیں کیا مفاد عزیز تھا جس کی وہ حفاظت کرتے رہے اور جھوٹ سے چمٹے رہے؟ شعب بنی ہاشم کے مصائب، جو تین برسوں تک ممتد رہے، ان لوگوں کو ایک غیر صادق شخصیت سے کس طرح منسلک رکھ سکتے تھے جس کا جھوٹا ہونا اظہر من الشمس ہو گیا تھا؟ لیکن اب یہ آپ ہی بتائیں کہ قیصر طبریاس کی حکومت کے پندرہویں برس (٢٩ عیسوی) میں لسانیات ابلینے کا حاکم کیسے بن گیا؟ جبکہ تاریخی شواہد کے مطابق اس کا دور حکمرانی تو چالیس قبل مسیح ہے.
(۲) سورہ طہٰ آیت نمبر ۹۰ سے ۱۰۰ بچھڑا سامری نے بنایا تھا۔ یہ سامری قوم تو اس واقعے سے ۱۰۰۰ سال بعد وجود میں آئے۔
الجواب :  مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے محترم بھائی ایسی کچی بات کریں گے. یہودیوں شروع سے ہی مخلوط اقوام کو سامری کا لقب دیا کرتے تھے زرا خروج باب ١٢ ورس ٣٨ تو ملاحظہ فرمائیں جہاں بنی اسرائیل کے خروج کے وقت ان کے ساتھ ملی جلی جماعت کے ہمراہ ہونے کا ذکر ہے. یہ ملے جلے افراد کون تھے؟یہی لوگ ہی سامری تھے جو غیر اقوام سے آمدہ شریعت موسوی کے پیروکار تھے اور انہی کے لیے ہیکل میں غیر اقوام کا برآمدہ بنایا گیا تھا. اب اگر قرآن کریم نے ان لوگوں میں سے کسی کو سامری کہہ دیا تو ہماری دیسی عیسائی بھائیوں کے پیٹ میں کیوں درد؟ یقیناً بغض اسلام کی وجہ سے.
(٣) سورہ الاعراف ۱۲۰ سے ۱۲۵ فرعون نے جادوگروں کو صلیب دینے کا حکم دیا ۔ مصرمیں صلیب دنے کا رواج تھا ؟
الجواب : بھائی صاحب اگر آپ کچھ قدیم مصر کی تاریخ کا علم بھی رکھتے تو ایسا بونگا اعتراض کبھی نہ کرتے لیکن کیا کریں اگر آپ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں تو مسیحیت کی اصل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ الہام کے نام پر قدیم بت پرستی کا ہی تسلسل ہے. John G. Jekson نے اپنی مایہ ناز کتاب Man, God & civilization میں Gerald Mesi کی کتاب Ancient Egypt سے اخذ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ قدیم مصری دیوتا ہورس (جس کی باقیات بھی اہرام سے دریافت ہو چکی ہیں) کی جو منظر کشی کی گئی ہے اس میں صلیب کی علامت نظر آتی ہے. اس کے علاوہ آپ کی اطلاع کے لئے عرض کرتا چلوں کہ مصر کے قدیم دیوتا اوسائی رس کو بھی مصلوب ہی کیا گیا تھا بلکہ اس کی زندگی کے بڑے واقعات اناجیل میں موجود یسوع کی حیات سے مماثلت رکھتے ہیں صرف یہی نہیں سکاٹ لینڈ کے ممتاز محقق آرتھر فنڈلے تو یسوع سے قبل تیس ایسے دیومالائی منجی دیوتاؤں کی خبر دیتے ہیں جن کی کہانی بعینہ وہی ہے جو اناجیل میں یسوع کی ہے اور یہ سب تیس دیوتا یسوع سے قبل گزرتے ہیں زرا "روح القدس" سے خبر پا کر اس پر بھی روشنی ڈالیں.
(۴) سورہ یوسف ۲۰ حضرت یوسف کو درھم کے عوض بیچ دیا گیا ثبوت دیں کہ اس وقت سکہ رائج الوقت درھم ہی تھا۔
 الجواب : بھائی صاحب اگر آپ کو اپنی کتاب کی خبر ہوتی تو ایسی فضول بات کبھی نہیں کرتے. اب پیدائش کی کتاب باب ١٤ ورس ١٤ ملاحظہ فرمائیں جہاں لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے دان تک اپنے دشمنوں کا تعاقب کیا اب دان تو یعقوب علیہ السلام کے صاحبزادے کا نام تھا جس کے نام پر گلیل کے شمالی علاقے لیس کا نام "دان" رکھا گیا (قضاۃ 18:29)جب ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں دان کا وجود ہی نہیں تھا پھر کیسے ابراہیم علیہ السلام نے دان تک اپنے دشمنوں کا تعاقب کر لیا؟پیدائش کے مصنف نے دان کیوں لکھا لیس کیوں نہیں لکھا؟ اسی طرح پیدائش 23:2 میں سارہ کی وفات قریت اربع میں ہونے کا ذکر ہے جبکہ اس وقت قریت اربع کا نام حبرون تھا(پیدایش 35:27)اور قریت اربع یشوع کے زمانے میں رکھا گیا (یشوع 14:15)تو پھر کیسے ابراہیم علیہ السلام نے قریت اربع میں سارہ کی تدفین کر لی؟ بالکل اسی طرح قرآن مجید نے قدیم غیر معروف نقدی اصطلاح کو مروجہ اصطلاح میں استعمال کر لیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر آپ کے نزدیک فرق پڑتا ہے تو پہلے بائبل کی خبر لیں اور اس کا انکار کریں پھر ہم بھی قرآن کے متعلق آپ کے مؤقف کی تائید کریں گے۔
فیس بک پر جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے!
مکمل تحریر >>

یسوع مسیح اورمذہبی شدت پسندی!

یسوع  مسیح اور مذہبی شدت پسندی

تحریر:ظفراقبال

مذھبی شدت پسندی نہ تو نئی چیز ہے اور نہ ھی اور انوکھی. یہ تو ھر دَور میں موجود رھی ھے حتی کہ اس کے قدموں کے نشان خود یسوع علیہ السلام مسیح کی تحریک کے بالکل آغاز میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ھیں. یہ الگ بات ھے کہ ھر دَور میں اس کا نام مختلف رھا ھے. آج یہ لوگ اگر مذھبی جنونی یا شدت پسند کہلاتے ھیں تو کسی دَور میں انہیں غیور (Zealot) کہا جاتا تھا. خود یسوع علیہ السلام مسیح کے شاگردوں میں یہ غیور شامل تھے جن کا لیڈر شمعون غیور تھا. یہ غیور کون تھے؟ وھی آج کے دَور کے مذہبی شدت پسند جنہیں غیر ملکی استبداد قبول نہیں تھا. یہاں یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ یسوع علیہ السلام مسیح کا زمانہ یہودی تاریخ میں مغلوبیت کا زمانہ تھا. اس دَور میں شدت پسندی کی کئی تحریکوں نے جنم لیا. خود یسوع علیہ السلام مسیح کے لڑکپن میں یہوداہ گلیلی کی پر تشدد تحریک بڑی شدت سے اٹھی تھی. یہودیوں نے جنہیں غیرت مندوں کا لقب دیا رومنوں نے فسادی قرار دے کر ان کی سرکوبی کر دی. کل کے یہی غیور آج کے شدت پسند ھیں. اصل بات جسے سمجھنے کی ضرورت ھے اور جس سے عمداً نظریں چرا لی جاتی ھیں وہ یہ ھے کہ جب بھی کسی گروہ کو سیاسی کشمکش میں بقا کا سوال دامنگیر ھوتا ھے اور فوجی مغلوبیت کی تلوار اس کے سر پر لٹک رہی ھوتی ھے تو وہ ھمیشہ اپنی تسلی کا سامان اپنے مذھب میں تلاش کرتا ھے اور اسی کا سہارا لے کر جدوجہد کرتا ھے. یہ فطری عمل ھے. یسوع علیہ السلام مسیح کے دَور میں خود ان کے ھم قوم یہودیوں کے غیوروں اور خنجر برداروں (سکارائی) کی تحریکیں اس کی گواہ ھیں. یسوع علیہ السلام مسیح سے قبل مکابین کی تحریک کیا تھی؟ جس کے نتیجے میں پورا علاقہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ خون سے رنگین رہا. تفصیل قاموس الکتاب میں دیکھ سکتے ھیں. اب یہ بات بھی فراموش کر دی جاتی ھے کہ غلبہ حاصل کرنے والے گروہ کو مذھب کاسہارا لینے کی اتنی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جبکہ مقہور ومجبور گروہ کا واحد سہارا مذھب ھی ھوتا ھے. اسی لئے غالب گروہ ھمیشہ مغلوب جماعت کے مضبوط فکری محور پر حملہ آور ھوتا ھے جیسا کہ تاریخ میں بت پرستوں نے یہودی ھیکل کو بار بار تباہ کر کے اور کبھی اس میں مجسمے رکھ کر اس کی بے حرمتی کر کے کیا. اس سارے عمل کے پس پردہ مقصد وحید یہی ھوتا ھے کہ محکوم کا ناتا اس کے فکری محور سے منقطع کر دیا جائے. بخت نصر کو کیا خطرہ لاحق تھا جو اس نے یروشلم تباہ کیا؟ ایپی فینس نے کیوں اپنا مجسمہ قدس الاقداس میں رکھوایا؟ رومن شہنشاہ کیلی گولا کے اقدامات کس چیز کے غماز ھیں؟ طیطس نے کیوں ھیکل جلا ڈالا؟ کبھی یہودیوں کو مغلوبیت کا سامنا تھا، کبھی عیسائیوں کو اور موجودہ دَور میں مسلمانوں کو. یہودیوں کو تو تا حال اس مغلوبیت کا سامنا تھا. حتی کہ موجودہ اسرائیل کا ایک وزیراعظم بیگن برطانوی حکومت کا مسلمہ(declaredl) دہشت گرد تھا. یہ بات البتہ کہی جا سکتی ہے کہ ھر دَور میں آلات حرب وضرب اور مقامی حالات کے لحاظ سے شدت پسندی کے طریقہ کار اور اس کی شدت میں فرق رہا ہے. سیاسی لحاظ سے غالب گروہ یا اس کے ھمدرد ھمیشہ ان مذھبی جنونیوں کو اپنا دشمن تصور کرتے ھیں اور مجبور ومقہور انہیں اپنا نجات دہندہ. یہ فرق دراصل اپنے اپنے زاویہ نگاہ اور مقاصد کے لحاظ سے ھوتا ھے افعال کے لحاظ سے نہیں. یہی بات آج کی شدت پسندی پر بھی صادق آتی ھے. اس کا علاج نہ تو تاریخ میں کبھی کیا گیا ھے اور نہ ھی آئندہ کئے جانے کا امکان ھے کیوں کہ ھر شدت پسند تحریک یا تو تشدد آمیز خاتمے پر منتج ھوئی ھے یا پھر کامیاب رہی. مثال کے لئے یہودی تاریخ کا حوالہ دیتا ہوں. کامیاب تحریکوں کے لیے مکابین اور موجودہ اسرائیل کی مثالیں موجود ہیں اور تشدد آمیز خاتمے کے لئے 70ء میں رومن طیطس کے ھاتھوں ھیکل کی تباہی اور 135ء میں بارکوچبا کی بغاوت. یہ مثالیں میں نے قصداً دی ھیں تا کہ کچھ مخصوص فکر کےحامل لوگوں کو میری بات سمجھ میں آ سکے. تفصیل کا موقع نہیں ورنہ اس موضوع پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ھے۔
فیس بک پر جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے
مکمل تحریر >>

یہوداہ اسکریوطی ایک مظلوم انجیلی کردار


یہوداہ اسکریوطی ایک مظلوم انجیلی کردار

تحریر:عبداللہ غازیؔ


 میں تم سے سچ کہتا ہوں جس کے کان ہوں وہ سن لے کہ فقط انجیلی بیانات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہوداہ اسکریوطی کو موجب لعن طعن قرار نہیں دیا جا سکتا.یسوع کا ساتھی یہودا ایک ایسا مظلوم اور مقدس تاریخی کردار ہے جنہیں یسوع نے اپنی لسان مبارک سے اسرائیل کے قبیلوں کا منصف ہونے کی نوید سنائی اور انہوں نے یسوع کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ تک پیش کیا مگر ان سب اعزازات کے باوجود یہوداہ اسکریوطی عہد جدید کے اُن مظلوم ترین کرداروں میں سے ایک کردار ہے جن کی انجیل نویسوں کے باطل اقلام نے بدترین تصویر کشی کرکے خوش عقیدگی پسند عوام سے یہوداہ کے متعلق حقائق و سچائی کو بری طرح مستور کردیا ہے اور یہوداہ کی کہانی انجیلی واقعات میں داخل کر کے یسوع کی گرفتاری، تعذیب و تصلیب کے افسانے میں مظلومیت کا رنگ بھرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے.
اگر ہم اس سارے وقائع کا تحلیلی تجزیہ کریں جہاں یہوداہ اسکریوطی کا ذکر ہوا ہے تو سیدھی سادی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اولین مسیحی تحاریر میں اس کا ذکر ہی غائب ہے. پولس کے خطوط عہد جدید کی اولین تحریریں ہیں لیکن ان میں بھی یہوداہ اسکریوطی کے متعلق فقط ایک مبہم حوالے کے سوا کچھ نہیں ملتا اور نہ ہی مقدس پولس یہوداہ اسکریوطی کے کسی بھی ایسے مبینہ گھناؤنے فعل سے واقف نظر آتے ہیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا توں توں تفصیلات کی بھرمار ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ سارا قضیہ ایک دیومالائی مقدس داستان کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے . اولین انجیل یعنی انجیل مرقس اس کے متعلق بہت کم تفصیلات مہیا کرتی ہے لیکن بعد کی اناجیل میں تفصیلی بریفنگ پڑھنے کو ملتی ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں تفصیلات اختراع کرکے داخل کی گئی ہیں جو کہ اس داستان کے ارتقاء کو ظاہر کرتی ہیں جو کہ فقط ان مقاصد کے تحت کیا گیا تا کہ یہودیوں کی تصویر کو بطور شیطانی گروہ کے افراد کے طور پر پیش کیا جائے اور تصلیب یسوع کا مرکزی ملزم یہودیوں کو قرار دیا جائے.
گو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں بہت سے شاخ و برگ لگا کر اضافہ کیا گیا ہے لیکن پھر بھی اس داستان کا درست ادراک یسوع کے وقت فلسطین کے سیاسی حالات کا مطالعہ کرکے کیا جا سکتا ہے.
 یسوع مسیح کے حین حیات فلسطین کا سارا علاقہ حریت پسند یہودی تنظیموں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا جہاں وقتا فوقتاً رومی جبر و استبداد کے خلاف یہودی عسکریت پسند علم بغاوت بلند کرتے رہتے تھے، جس کا نتیجہ خون ریز لڑائیوں کی صورت میں نکلتا اور باغیوں کی سرکوبی کرکے انہیں عبرت ناک سزا دی جاتی. اس وقت کی عکاسی کرتے ہوئے ممتاز یہودی النسل کیتھولک اسکالر ہائم مکابی لکھتے ہیں.
جس وقت یسوع فقط ایک چھوٹے لڑکے تھے، گلیل کے بہت سے یہودی اس دوران صلیب دے کر قتل کر دیئے گئے. یہوداہ گلیلی ایک قوم پرست یہودی تھا جو رومیوں کے خلاف ایک مسلح بغاوت کی قیادت کررہا تھا، اس کے نجانے کتنے ہی حمایتیوں کو رومیوں نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا. یہ سب یسوع کی صغیر سنی کے واقعات ہیں. چار سو یہودیوں کو رومی محصولات (ٹیکسز) کی ادائیگی کے خلاف تحریک کی وجہ سے رومیوں نے صلیب دے کر قتل کر ڈالا. اپنے قوانین کے مخالف باغیوں کے لئے رومی مقتدر صلیب جیسی تعذیبی ظالمانہ کاروائی کیا کرتے تھے. گلیل کسی نہ کسی طرح ہمیشہ باغیوں کا مرکز رہا کیونکہ یہ براہ راست رومی سلطنت کے ماتحت علاقہ نہ تھا.
 ایسے ماحول میں کہ جہاں ایک طرف عسکریت پسند حصول آزادی کے لئے اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے تھے اور دوسری طرف حریت پسندوں کی حکومت وقت کے خلاف خفیہ تحاریک بھی سرگرم تھیں، ایسے وقت میں یسوع کی تحریک شروع ہوئی جس میں مرور وقت کے ساتھ یہوداہ اسکریوطی جیسے کٹرحریت پسند یہودی بھی شامل ہوتے گئے. یہوداہ اسکریوطی کا تعلق گلیل میں برپا ہونے والی تحریکوں میں شامل ایک خنجر بردار گروہ تھا جو کہ اسکریوٹ کے نام سے معروف تھے. اس قبیل سے تعلق رکھنے والے حر مجاہدین اس قدر سخت جان ہوتے تھے کہ ان پر ظلم کے پہاڑ ہی کیوں نہ توڑ لیے جائیں یہ اپنے مخالفین پر اپنا راز ہرگز ظاہر نہ کرتے تھے اور اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے. ابتدائی عیسوی صدی کی یہودی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے حضرات ایسے جفاکش یہودی باغیوں کا بخوبی علم رکھتے ہیں.
بہت سے ہم عصر تاریخی وقائع کو انجیل نویسوں نے حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے یکسر نظر انداز کر دیا. چونکہ ان کا مقصد مقدس متون کی تشکیل کے بجائےمخصوص نظریات کو خاص انداز میں پیش کرنا تھا، اسی وجہ سے انجیلی وقائع سے متصل ان مفقود واقعات کی غیر موجودگی ایک قاری کو محسوس نہیں ہوتی ہے مگر اس کے باوجود کچھ اشارے عہد جدید میں ملتے ہیں جن کا تاریخی موازنہ سچائی کے ادراک میں کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے. اسکریوٹ جماعت کے ہونے کا سب سے بڑا ثبوت تو خود یہوداہ اسکریوطی ہے جو یسوع کی جماعت کے خزانہ کا امین بھی تھا اور ہمہ وقت یسوع کا ہمرکاب بھی. ان حریت پسند اسکریوطیوں کا یسوع کی تحریک سے تعلق اس قدر مضبوط و معروف تھا کہ انہیں اپنی بات جابجا پھیلے ہوئے رومی جاسوسوں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے تمثیلوں (کوڈ ورڈز) میں بات کرنا پڑتی تھی یہی وجہ ہے کہ یسوع بھی انجیل میں تمثیلی کلام کرتے نظر آتے ہیں. اسکریوطیوں کا یسوع سے گہرے تعلق کی ایک اور شہادت اعمال کی کتاب میں بھی ملتی ہے جب یہودیوں نے مقدس پولس نذر کے ایام پورے کرنے کے لئے ہیکل میں جاتے ہیں اور ان کو ہیکل میں دیکھ کر یہودی بلوہ کر دیتے ہیں تو قیام امن کے لئے آنے والا رومی صوبیدار بھی پولس کو انہی "اسکریوٹ" سے آمدہ خیال کرتا ہے (اعمال 21:38).
ایسے جفاکش اور سخت جان گروہ سے تعلق رکھنے والا ہرگز ایسا بزدل نہیں ہو سکتا کہ ایک لغزش و خطا کی وجہ سے خود کشی جیسے فعل قبیح کا ارتکاب کرے. ایسے باہمت افراد جو جسم کا ریشہ ادھیڑ دینے پر بھی اپنا راز فاش نہ کریں، وہ خود کشی جیسے فعل قبیح کی طرف کبھی قدم نہیں اٹھاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ مفروضہ قائم کیا جاتا ہے کہ یسوع کی غیر معروفی کی وجہ سے یسوع کی جگہ یہوداہ اسکریوطی نے لے کر ایک مقصد عظیم کی خاطر صلیبی مصائب کو گلے لگا لیا اور یسوع کو خدائے واحد نے اس مصیبت سے نجات دے کر اور ان کی گتسمنی کے باغ میں کی جانے والی دعا تو شرف قبولیت بخش کر اپنے پاس بلا لیا.
فقط انجیلی روایات میں موجود یہوداہ اسکریوطی کی خودکشی والا واقعہ تضاد بیانی اپنے دامن میں لئے اس قضیہ میں تدریجا کی جانے والی کتر و بیونت کا غماز مبین ہے جس سے اس سچائی کا ادراک کیا جا سکتا ہے کہ مرتبین عہد جدید نے وقت کی ضرورت کے ساتھ اس واقعہ میں شاخ و برگ لگا کر پیش کیا ہے.
 انجیلی بیان کے مطابق واقعہ تصلیب کے بعد یہوداہ اسکریوطی نے خود کشی کر لی تھی. یہوداہ یسوع نے چنیدہ ان بارہ افراد میں شامل تھا تو ہمہ وقت یسوع کے ہمرکاب رہے تھے حتی کہ مبینہ قیامت مسیح کے بعد بھی بشہادت مقدس پولس یسوع انہی شاگردوں پر ظاہر ہوئے.
کیفا کو اور اُس کے بعد اُن بارہ کو دِکھائی دِیا۔ (1 کرنتھیوں 15:5)
 یہوداہ اسکریوطی کی مبینہ موت کے بعد شاگردوں نے بارہ کی تعداد پوری کرنے کے لئے متیاس کو شاگردوں میں شامل کیا تھا لیکن اس کا انتخاب بھی رفع آسمانی کے بعد ہی ہوا تھا. اب اگر یہوداہ اسکریوطی ازروئے انجیل نویس خود کشی کر چکا تھا تو پھر روح القدس کی تحریک سے ضبط تحریر میں لائے جانا والا کرنتھیوں کا نوشتہ کیسے بارہ شاگردوں پر یسوع کے ظاہر ہونے کی خبر دے سکتا ہے؟ مقدس پولس کے خطوط یہوداہ کے متعلق ان جمیع اخبار سے مبرا ہیں جنہوں نے بعد میں مسیحی نوشتوں میں جگہ پاکر مقدس شاگرد یہوداہ اسکریوطی کے کردار کو داغدار کر دیا. اس پیچیدہ صورتحال میں یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ انجیل نویسوں نے ایک ایسے واقعہ کو پیش کیا ہے جس کا وقوع ہی نہیں ہوا بصورت دیگر مقدس پولس یسوع کی بابت ایسی خبر کس طرح سے دے سکتے ہیں جو کہ حقیقت حال سے خالی ہو؟ مسیحی برادری کا دعوٰی کے مطابق انجیل نویس روح القدس کی تحریک سے لکھ رہے تھے تو مقدس پولس کا دعوی تو براہ راست یسوع سے تعلیم پا کر خبر دینے کا ہے. اگر انجیل نویس کی بات کا اعتبار کیا جائے تو نہ صرف مقدس پولس کے دعاوی و اخبار مشکوک ہو جاتے ہیں بلکہ یسوع کی صداقت پر بھی حرف آنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے جو براہ راست مقدس پولس کی رہنمائی فرما رہے تھے.
اگر یہوداہ اسکریوطی کے متعلق انجیل نویسوں کے دعاوی کو کسی درجہ سند قبولیت دی جائے تو نفس واقعہ خود تضاد بیانی کا شکار ہو جاتا ہے.
متی کا دعوٰی یہاں یہوداہ کا خود کو پھانسی دے دینے کا ہے. (متی 27:55) جبکہ لوقا اس دعوے کی فورا ہی تردید کر دیتے ہیں.
 اُس نے بدکاری کی کمائی سے ایک کھیت حاصِل کِیا اور سر کے بل گِرا اور اُساکا پیٹ پھٹ گیا اور اُس کی سب انتڑیاں نِکل پڑیں (اعمال 1:18)
 اگر تضاد بیانی کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص دو انداز میں بیک وقت کس طرح موت کا شکار ہو سکتا ہے؟ مرقس 14:54 میں یسوع کی بے گناہی کا سبب شواہد کا عدم اتفاق اور یسوع کے متعلق مبینہ واقعات میں اختلاف تھا. یہوداہ اسکریوطی کی داستان بھی فقط عہد جدید میں پائی جاتی ہے جو اپنی ذات میں خود متضاد ہے، اگر یسوع شواہد کے عدم اتفاق کی وجہ سے مقدمہ میں معصوم عن الخطا ثابت ہوتے ہیں تو پھر یہ حق یہوداہ اسکریوطی کو کیوں حاصل نہیں؟
 بفرض محال اگر یہوداہ کا جرم ناقابل معافی اور قابل گردن زنی تھا تو پھر یسوع کا انکار کرنے والے اور ان پر لعنت ملامت کرنے والے مقدس پطرس کیسے کسی جرم سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟ مسیحی برادری کے نزدیک الہی حیثیت کے حامل جناب یسوع پر لعنت کرنے کی سزا ازروئے شریعت مقدس پطرس کو کیوں نہیں دی گئی؟ اگر یہوداہ اپنی لغزش و خطا کے باعث موجب طعن ہے تو پطرس تو اپنی یاوہ گوئی کے سبب یہوداہ سے زیادہ عتاب کا حقدار ہے؟ مسیحی برادری کی جانب سے پیش کی جانے والی یہ تاویل یہاں کچھ معنی نہیں رکھتی کہ مقدس پطرس نے بعد میں توبہ کرلی تھی اور بعد میں وہ خداوند کے سچے خادم بنے، یسوع فرماتے ہیں کہ جو میری خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اسے پائے گا (متی 16:25) یہوداہ اسکریوطی نے انجیل نویس کے مبینہ بیان کے مطابق اگر اس جرم کا ارتکاب کیا بھی تھا تو بعد میں اس نے نادم ہو کر خود کو یسوع کی خاطر ہی ختم کیا تھا تو پھر اسے ہمیشہ کی زندگی پانے کی نوید تو یسوع خود اپنی لسان مبارک سے سنا گئے تھے پھر کیسے اسے اس جرم کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے؟ جناب یسوع کا قول تو ایک لمحے میں مسیحی برادری کی ان تمام خرافات و الزامات سے مقدس یہوداہ اسکریوطی شہید کو بری قرار دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر یسوع کا عام معافی نامہ ہے جو صلیب پر انہوں نے اس انداز سے یہوداہ کو دیا کہ اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ یہ نہیں جانتے. (لوقا 23:34) یسوع کی اس عام معافی کے باوجود مقدس یہوداہ اسکریوطی (جو کہ مسیحی تاریخ کے اول شہید ہیں) کو مسیحی برادری نے معاف نہیں کیا ہے حالانکہ خود کشی جیسا فعل کسی طرح بھی ازروئے بائبل حرام نہیں ہے مگر اسکے باوجود دو ہزار سال سے یہ مظلوم عالی وقار ہستی عیسائیوں کے عتاب کا شکار ہے جس نے خداوند کے مہیب دن کو تخت پر بیٹھ کر انصاف بھی کرنا ہے. نجانے ہمارے عیسائی بھائی کس منہ سے خداوند کے دن جناب مقدس یہوداہ اسکریوطی کے سامنے کھڑے ہونگے؟
فیس بک پر جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے
مکمل تحریر >>

یسوع کی تحریک! سیاسی یا مذہبی؟




یسوع کی تحریک! سیاسی یا مذہبی؟

تحریر: جناب ظفراقبال صاحب

محکوم کی آزادی حاصل کرنے کی کوششوں کو استبدادی قوتوں نے سراسر خلاف انسانیت فعل قرار دے کر اس کی سرکوبی کی ھے اور کسی حقدار کےجائز حقوق کی پاسداری کو اس لیے جوتے کی نوک پر رکھا کہ ان کی نظر میں وہ مجبور اس کے اھل ھی نہ تھے. سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی شدید خواہش نے ھر اصول اور ھراخلاق کو پاؤں تلے روند ڈالا. یسوع علیہ السلام مسیح کا صلیب پر لٹکایا جانا بھی اسی مذموم خواھش کا شاخسانہ تھا. اناجیل منورہ کا بغور مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یسوع علیہ السلام مسیح پر لگائے گئے الزامات ھر لحاظ سے سیاسی نوعیت کے تھے. آج تک مسیحی دنیا یسوع علیہ السلام مسیح کو بادشاہ قرار دیتی چلی آئی ہے. گو کہ یہ بادشاہت مسیحی دنیا میں روحانی متصور ھوتی ھے مگر کلیسیائی عمائدین جانتے ہیں کہ مسیح ھو نے کا دعویٰ کرنا دراصل یہودیوں کا بادشاہ ھونے کا دعویٰ تھا. خود رومن گورنر پیلاطوس کے سامنے اس لفظ مسیح کا ترجمہ بادشاہ کیا گیا. یہودی بھی ایک ایسی ھستی کے منتظر تھے جو انہیں سیاسی غلامی کے گڑھے سے نجات دلا کر شوکتِ رفتہ واپس دلاتی. لیکن یسوع علیہ السلام مسیح کی تحریک کو حسبِ منشاء نہ پا کر انہوں نے رومن گورنر کے حضور شکایت پیش کر دی کہ یہ شخص اپنے آپ کو یہودیوں کا بادشاہ کہتا ہے اور قیصر کے سوا کوئی بادشاہ نہیں.اس الزام کے پس پردہ سیاسیات کا عمل دخل تھا. دینیات کہیں بھی موجود نہیں ہیں. رومیوں نے بھی صلیب پر الزام کا جو کتبہ لگایا وہ سیاسی الزامات پر مبنی تھا. یہودیوں کی نظر میں یہ سیاسی مسئلہ تھا اور انہوں نے اسے سیاسی میدان میں نمٹایا. یہ بات غلط ہے کہ یہودی اپنے مجرم کو سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتے تھے. اس لئے وہ یسوع علیہ السلام مسیح کو رومی عدالت میں لے گئے. اگر یہی اربابِ ھیکل یسوع علیہ السلام مسیح کے فوراً بعد سٹیفن کو سنگسار کرنے کا فیصلہ کر سکتے تھے تو پھر یسوع علیہ السلام مسیح کے معاملے میں ان کے ھاتھ کیوں بندھے ہوئے تھے؟ صاف ظاہر ہے کہ یسوع علیہ السلام کے شاگردوں میں بھی اس وقت کے زیلوتیس(zealots) اور آج کے دھشت گرد افراد موجود ھونے کی بنا پر معاملہ سیاسی بن گیا تھا. رومی سلطنت سے وفاداری دکھانا یہودیوں کے لیے لازم ھو گیا تھا. وگرنہ ایک سیاسی معاملہ کو دبانے کا الزام ان کے سر آتا. رومی سلطنت سیاسی بغاوت برداشت نہیں کرتی تھی. یہود کے اندرونی معاملات سے اسے کوئی بھی تعلق نہیں تھا. رومی جاسوس ھر جگہ موجود تھے. اسی لئے یہودیوں نے اس سیاسی معاملہ کو سیاسی انداز سے حل کرنے کی ضرورت سمجھی. یسوع علیہ السلام مسیح کے دو بڑے جرم تھے. اولاً یہودی حقوق کے لئے آواز بلند کرنا. مسیح کا لقب اختیار کرنا ھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یہ کام کر رہے ہیں. یہ رومی نظر میں جرم تھا. دوم اس شدت سے آواز بلند نہ کرنا جس کے یہود متمنی تھے اور الگ انداز کی حکمت عملی اختیار کرنا. یہ یہودی نظر میں ناقابل برداشت تھا. چنانچہ یسوع علیہ السلام مسیح کو سیاسی نوعیت کے الزام لگا کر یہودیوں اور رومیوں دونوں نے اپنے اپنے مقاصد حاصل کر لئے.۔
فیس بک پر جوائن کرنے کےلیے یہاں کلک کیجئےفیس بک پر جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے
مکمل تحریر >>

یسوع کا دعویٰ المسیح اوروجوہات تصلیب کا تحقیقی وتاریخی جائزہ


یسوع کا دعویٰ المسیح اور وجوہات تصلیب کا تاریخی وتحقیقی جائزہ


تحریر وتحقیق: عبداللہ غازیؔ


کہا یہ جا رہا ہے کہ ﮨﯿﺮﻭﺩﯾﺲ ﻧﮯ ﯾﺴﻮﻉ ﺍﻟﻤﺴﯿﺢ ﮐﻮ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺎﻧﮕﺎ، ﯾﮩﻮﺩﯼ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﮯ. محترم آفتاب انور صاحب نے اس ضمن میں مندرجہ ذیل آیات سے استشہاد کیا :
"ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺎﺋﻔﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﯾﮏ ﺷَﺨﺺ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺍُﺱ ﺳﺎﻝ ﺳَﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨِﻦ ﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺗُﻢ ﮐُﭽﮫ ﻧﮩِﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮﮐﮧ ﺗُﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟِﺌﮯ ﯾﮩﯽ ﺑﮩُﺘﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣِﯽ ﺍُﻣّﺖ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﻣﺮﮮ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﻗَﻮﻡ ﮨﻼﮎ ﮨﻮ ‏( ﯾﻮﺣﻨﺎ 49:11 50- ‏)" ۔ ان آیات سے ان کا استدلال یہ ہے کہ 
"اکثر ﻣﺴﯿﺤﯽ حضرات ﺍِﻥ ﺩﻭ انجیلی فقرات ﺳﮯ ﯾﮧ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺎﺋﻔﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨﻦ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﯽ ﻧﺠﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑِﻦ ﮐﺎﺋﻔﺎ ﮐﺎﮨﻦ ﺗﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﺗﻮ ﻭﮦ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﮐﻔﺎﺭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮔﺎ؟ ﮐﺎﺋﻔﺎ ﮐﺎﮨﻦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺟﻤﻠﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﺍﻟﻤﺴﯿﺢ ﮐﮯ ﮐﻔﺎﺭﮦ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺗﺎﺭﯾﺦ اور اُس وقت کے فلسطین کے سیاسی حالات ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺑﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﯾﻮﺳﯿﻔﺘﺎ ﺗﺮﻭﻣﻮﺕ 7:20 ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﻟِﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ : ﺍ۔ ﺍﮔﺮ ﻏﯿﺮﯾﮩﻮﺩﯼ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﮭﯿﺮ ﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺍُﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻢ ﺗُﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﺩﯾﻨﮕﮯ، ﺗﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍُﻧﮑﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮ ﺩِﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ 2 ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮ ﺩِﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺍُﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﺍُﻧﮑﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﻧﮧ ﮐِﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رومیوں نے یسوع کو مصلوب کرنے کے لئے طلب کیا تھا یا پھر یہودی یسوع کے خون کے پیاسے ہورہے تھے؟ مقدمہ یسوع کی انجیلی تصویر میں ﺗﻤﺎﻡ معاصرین یسوع یہودیوں کی منظر کشی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ﮐﺎﮨﻦ ﺍﻋﻈﻢ، ﺻﺪﻭﻗﯽ، ﻓﺮﯾﺴﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺘﺒﻌﯿﻦ ﺳﻤﯿﺖ،ﺍﻧﻘﻼﺑﯽ ﺷﺪﺕ ﭘﺴﻨﺪ،ﮨﯿﺮﻭﺩﺋﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮﺗﻌﺪﺍﺩ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﺐ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﻣﯿﮟ باہم ﻣﺘﺤﺪ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﺎﺋﻔﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨﻦ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮨﯽ ﮐﺎ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﺩہ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨﻦ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﻻﻭﯼ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑِﻦ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍِﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺑُﻠﻮﺍ ﮐﺮ اس لئے ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺎﮐﮧ فلسطین ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯽ ﻣﻔﺎﺩﺍﺕ کی نگرانی ﺍﻭﺭ ﺣُﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮈﯾﮉ ﺳﯽ ﺳﮑﺮﻭﻟﺰ ﮐﮯ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻻﺭﯾﻨﺲ ﺍﯾﭻ ﺷﯿﻔﻤﯿﻦ ﺍِﺱ ﺿﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻟِﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺎﺋﻔﺎ 18 ﺑﺮﺱ ﺗﮏ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨﻦ ﺭﮨﺎ۔"
کیا صورتحال ایسی ہی جیسا کہ دعویٰ کیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب اناجیل نفی میں دیتی ہیں. اناجیل بتاتی ہیں کہ رومیوں میں سے کسی نے بھی یسوع کو نام لے کر طلب نہیں کیا تھا بلکہ یہودی خود ہی یسوع کو صلیب دلوانے حاکم کے پاس لے کر گئے( لوقا باب 23 ورس 1-3). پیلاطوس تو یسوع کو بے گناہ پاتا تھا اور انہیں چھوڑنے کا خواہاں تھا ( ورس 4 باب 23 ). انجیل یوحنا واضح بتاتی ہے کہ پیلاطوس تو اس بات سے لاعلم تھا کہ یسوع کو اس کے پاس کیوں لایا گیا( باب 23 ورس 29).اس نے انہیں خود سزا دینے کے لیے کہا تھا( ورس 31 ). لیکن بدنہاد یہودی چیخ چیخ کر پیلاطوس سے یسوع کو صلیب دینے کا مطالبہ کرتے رہے( متی باب 27 ورس 23 )( مرقس باب 13 ورس 14 )معاملہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہودیوں نے پیلاطوس کو دھمکی بھی دی تھی کہ اگر وہ یسوع کو مصلوب نہیں کرتا تو وہ قیصر کا خیر خواہ نہیں.( یوحنا باب 19 ). 
ان انجیلی حقائق کو پس پشت ڈال کر یہ اصرار کرنا کہ رومی سلطنت نے یسوع کو نام لے کر طلب کیا تھا ہر گز درست نہیں مانا جا سکتا اور اگر محترم آفتاب انور صاحب کو اب بھی اصرار ہے تو پھر انہیں واضح طور پر اناجیل کی تغلیط کرنی چاہئے اور یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے کہ ہیرودیس یا پیلاطوس نے کبھی بھی یسوع مسیح کو نام لے کر طلب نہیں کیا تھا. اناجیل اس بارے میں مکمل خاموش ہیں اور تاریخ کی گواہی محترم تلاش نہیں کر پائے. ہیرودیس تو یہودیوں سے کسی کو نام لے کر طلب کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھا کیونکہ یروشلم، جہاں سنہڈرین تھی، اس کے دائرہ اختیار سے باہر تھا.
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہودی از خود کیوں یسوع کو پکڑ کر رومی سلطنت کے حوالے کر کے سرخرو ہونا چاہتے تھے؟اس کی واحد وجہ یسوع کا ایسا مسیح ہونے کا دعویٰ تھا جو یہودی توقعات پوری نہیں کرتا تھا . انجیل نویس اگرچہ یسوع کو بحیثیت المسیح ایک الوہی ہستی کے پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ یہودی کسی بھی ایسے المسیح کے ہرگز منتظر نہیں تھے جو الہی تائید یافتہ ہونے کے بجائے خود الوہی حیثیت رکھتا ہو. ان کی توقعات المسیح سے یہ ہی تھیں کہ اس نے آکر بنی اسرائیل کو رومی غلامی سے نجات دلا کر داؤد کا تخت بحال کرکے بنی اسرائیل کی عظمت گم گشتہ کو واپس لانا تھا،جیسا کہ فرشتہ بھی مقدسہ مریم کو نویدِ یسوع سناتے وقت یہی کہتا ہے جسے بعد میں انجیل نویسوں اور مقدس پولس نے کچھ اور معانی کا جامہ پہنا دیا جو سراسر یہودی عقائد اور کتاب مقدس کے خلاف تھا. 
ایسا نہیں ہے کہ اس وقت المسیح ہونے کا دعوٰی یسوع نے ہی تنہا کیا تھا بلکہ ان کے متصلہ ایام میں ایسی بہت سی شخصیات کا ظہور ہوا جو المسیح ہونے کے مدعی تھیں . خود عہد جدید میں ایسے تین اشخاص کا تذکرہ موجود ہے. ان سبھی مدعیان المسیح نے جنگ کا راستہ اختیار کیا اور رومی حکومت کے خلاف اپنی شمشیریں بے نیام کرکے علم بغاوت بلند کیا. یہوداہ گلیلی ، تھیوداس اور خنجر بردار مصری (اعمال 21:36) اور یسوع کے سو سال بعد بار کوکبا. ان سب نے عسکری قوت کے زریعے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور کسی کو بھی یہودیوں نے رومیوں کے حوالے نہیں کیا جبکہ اس کے برعکس یسوع نے جنگ کی بجائے خدا کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایک ایسے زبردست معجزے کا انتظار کیا جس کی مدد سے رومی حکومت سے باوقار سمجھوتہ کیا جا سکے جو بہرحال یہود کو من حیث القوم قبول نہیں تھا( متی 21:22).
اگرچہ ﯾﺴﻮﻉ کی انجیلی تصویر کچھ اس طرح سے پیش کی گئی ہے کہ وہ ﺑﻨﯽ ﺍِﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ مسایاہ،مجسم خدا ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ کی حیثیت سے مبعوث ہوئے ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ، ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﺭﺗﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ لیکن اس کے باوجود یہودیوں کے لئے یہ سب کچھ تسلی بخش ثابت نہ ہوا. انہیں تو ایک ایسے جنگجو مسیح کا انتظار تھا جس نے آکر الہی تائید سے معاملات کو حل کر دینا تھا لیکن مصنفین عہد جدید نے تو یسوع سے کثرت معجزات منسوب کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا یہودیوں کو غلامی سے نجات کی بجائے بیماروں کی شفاء یابی اور کرتب دیکھنے کی زیادہ ضرورت تھی حالانکہ المسیح سے منسلک اس یہودی تیقن کے آگے یہ معجزات یہودی نظر میں بے وقعت رہے جو اخبار انبیاء کرام علیہم السلام کے باعث یہودی خون میں رچ بس گیا تھا . یہودیوں کو ایسے مسیح کی قطعاً ضرورت نہ تھی جو فقط تکثیر معجزات کے بنا پر المسیح ہونے کا دعوٰی کرے. ایسے برگزیدہ اشخاص کی یہودیوں میں کوئی کمی نہ تھی جو بے انتہا معجزات نہ دکھا سکتے ہوں . یسوع سے تقرب زمانی رکھنے والے ایسے کئی راستباز یہودی بزرگ معروف رہے ہیں مثلاً حننیاہ بن دوسا اور دائرہ کش ہونی، مناہم وغیرہ. مبینہ وقتی معجزات کے ظہور کا تماشہ دیکھنے کے بجائے یہودی اپنے المسیح سے رومی استبداد سے زور آزمائی کرنے اور دنیا بھر کی قیادت سنبھالنے کے لئے عملی اقدامات کے چینی سے منتظر تھے جبکہ یسوع ایسی کوئی بھی نظیر قائم کرنے سے قاصر رہے. ایسا گمان کرنا حقیقت سے خارج ہے کہ یسوع کی تحریک میں عسکریت پسند موجود نہیں تھے. انکے ساتھیوں میں یہوداہ اسکریوطی جیسے بہادر اسکریوٹ اور شمعون غیور( زیلوتیس)جیسے زبردست جنگجو و شدت پسند موجود تھے. ان کا یسوع کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہوئے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ یسوع کی تحریک شدت پسندی کے عناصر سے مبرا تھی بلکہ یہ عنصر اس سے کہیں زیادہ انجیل میں موجود ہے جتنا انجیل نویسوں نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے. خود انجیل میں یسوع پوشاک بیچ کر تلوار خریدنے کی تعلیم دیتے ہیں (لوقا 22:36) جو کہ اسی بات کا غماز ہے کہ یسوع ان عناصر کو ان کی حدود میں رکھنا چاہتے تھے لیکن ان کا انحصار کلی فقط تلوار پر ہی نہیں تھا بلکہ ان کی امیدوں کا اصل محور ایک زبردست خدائی معجزہ کا ظہور تھا جس کی مدد سے رومی حکومت سے معاملات سلجھ جاتے . یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی گرفتاری کے وقت بھی اپنے شاگردوں کو تلوار بازی سے گریز کرنے کا حکم دیا.
یہ یسوع کے مشن کی ناکامی ہی تھی کہ وہ ممکنہ طور پر خدا سے صادر ہونے والے ایک عظیم معجزے کی مدد سے رومیوں سے ایسے قابل قبول مذاکرات کرنے میں میں کامیاب نہ ہو سکے جو کہ ان کی ساری امیدوں کا محور تھا اور ان کی مایوسی صلیب پر چیختے چلاتے صاف ظاہر ہوتی ہے. یسوع کی اسی ناکامی کے باعث وہ مجمع بھی غائب ہو چکا تھا جو فقط تین دن قبل ہی کھجور کی ٹہنیاں اٹھا کر اور چادریں بچھا بچھا کر یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرکے اس کا استقبال کر رہا تھا. المسیح کا دعوٰی کرنے والا ہر شخص یہودی ہمدردی کا حامل ہوتا تھا کیونکہ یہودی ہر اک مدعی مسیح کو اپنی امید کی آخری کرن سمجھتے تھے لیکن یسوع کی گرفتاری سے اس کے مقدمہ، پھر تعذیب و تصلیب جیسے تمام مراحل میں ان افراد کا عنقا ہونا اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ یہودی یسوع کو بحیثیت مسیح موعود اسی وقت رد کر چکے تھے جب اس نے پیلاطوس کے سامنے یہ کہا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں. ازروئے کتاب مقدس یہودی ہر اس مسیح کو رد کرنے میں حق بجانب تھے جو داؤد علیہ السلام کی طرز کی بادشاہت قائم کرنے کے بجائے ایک ایسی جدید بادشاہت کا اعلان کرے جو داؤد کی سلطنت و حکومت سے بالکل ہی متبائن اور متضاد ہو. 
انجیل لوقا میں مندرج سائرین عمواس (لوقا 24:13) کی گفتگو سے جھلکنے والی مایوسی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی المسیح کا دعوی کرنے والوں سے کس قدر توقعات وابستہ کر لیتے تھے . یہ کیسے ممکن ہوا کہ مبینہ طور پر لوگوں نے یسوع کو بحیثیت المسیح اور اپنا بادشاہ قبول کر بھی لیا اور اس کے باوجود وہ اپنے واحد منجی کو بچانے کے لئے کوئی مزاحمت نہیں کی یہاں تک کہ گرفتاری، مقدمہ و تعذیب سے گزر کر یسوع صلیب پر پہنچ جاتے ہیں؟ یہودی مجمع کی یہ بے رخی و بے اعتنائی کا بنیادی سبب یسوع کا پیلاطوس کی عدالت میں "میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں" کا اقرار ہی ہوا جو یسوع کے تمام معتقدین کی یسوع سے" بحیثیت المسیح "وابستہ امیدوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف تھا تبھی یہودی عوام کا جم غفیر اس قدر برانگیختہ ہو گیا کہ انہوں نے یسوع کا خون اپنی اور اپنی اولادوں کی گردن پر لے کر صلیب کی سزا کا مطالبہ کردیا.
کسی کا بھی ادعا المسیح دراصل حکومت وقت کے خلاف اعلان جنگ تھا، یہودیوں کے نزدیک المسیح ہونے کا مطلب ہی یہودی بادشاہت کی بحالی کا اعلان کرنا تھا اسی وجہ سے یہودی اناجیل میں جابجا یسوع سے استفسار کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر تو المسیح ہے تو ہم سے کہہ دے. اگر مسیح ہونے کا مطلب یہودی بادشاہ ہونا نہیں تھا تو ﯾﺴﻮﻉ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﯼ و شدت پسندی ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ؟ اگر یسوع بحیثیت نبی اپنی منادی کررہے ہوتے تو اس سےبت پرست رومیوں کو کچھ سروکار نہ تھا. آخر یوحنا اصطباغی بھی تو اسی معاشرے میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے جس سے رومیوں اور یہودیوں دونوں نے ہی کبھی خطرہ محسوس نہیں کیا (یوحنا نبی کی شہادت مذہبی وجہ سے نہیں تھی جیسا کہ انجیل نویس کا دعوٰی ہے بلکہ اس کے اصل محرکات پر دبیز پردہ ڈالا گیا ہے ) لیکن یسوع کی منادی میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ کاہن و فریسی دونوں ہی سنہڈرین میں اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ "اگر ہم اسے یونہی چھوڑ دیں گے تو سب اس پر ایمان لے آئیں گے اور اہل روما آکر ہمیں ختم کر دیں گے". 
یہودی تفکرات تو اس وقت بھی دم توڑ دیتے ہیں جب یسوع پیلاطوس کے سامنے کھڑا تھا. وہ تو اسے برابر چھوڑنے کی کوشش میں لگا رہا تو پھر فریسی اور دیگر ارکان سنہڈرین کیوں خوفزدہ تھے جبکہ ہم پیلاطوس کا دل یسوع مسیح کی طرف سے صاف دیکھتے ہیں؟ صاف صاف بات یہ ہے انجیل نویسوں نے سچائی کا گلا گھونٹ کر یہ خلاف حقیقت بات لکھ کر یہود دشمنی کی فضا قائم کی ہے. 
اگر اس منادی پر ایمان لانا رومی حکومت کے لئے خطرہ تھا تو اس فتنہ کی سرکوبی اسی وقت ہی کیوں نہ کردی گئی جب یوحنا نبی نے کھلے عام حکومتی ہرکاروں کے سامنے وہی اعلان کرنا شروع کیا جو مابعد یسوع کررہے تھے.
اگر یسوع اسرائیل میں بحیثیت المسیح و نبی معروف تھے تو پھر انہیں گرفتار کرنے کے لئے نشاندہی کرنے والا اجرت پر لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ سپاہی خود ہی یسوع کو پہچان لیتے. آخر ایک ایسا شخص جو ہر دلپذیر عوامی مقبولیت رکھتا ہو وہ بھلا کیسے حکومت وقت کی نگاہ سے پوشیدہ رہ سکتا ہے اور یہ صورت حال اس وقت تو نہایت گھمبیر ہو جاتی ہے جب اس مقبولیت کی وجوہات سیاسی ہوں اور وہ شخص بطور ایک سیاسی مذہبی لیڈر سامنے آئے. لیکن حقیقت حال انجیل نویسوں کے ایسے بلند آہنگ دعاوی کی پول کھول دیتی ہے کہ "زمانہ اس کا معترف ہو چلا تھا" جبکہ اندرونی حقائق اور یسوع کی معرفتِ غریبہ کا یہ حال ہے کہ یسوع کو پہچاننے کے لئے بھی ایک اجرتی کی ضرورت پڑتی ہے.
یسوع کی گرفتاری کے وقت عید فصح قریب تھی. اناجیل متوافقہ کے مطابق یسوع کی گرفتاری فصح کا بھنا ہوا برہ کھانے کے بعد ہوئی جبکہ انجیل یوحنا اسی واقعہ کو عید فصح کی صبح، جبکہ فصح کے برے بھی ذبح نہیں کئے گئے تھے، کا وقت بتلاتی ہے. یہاں ایک دلچسپ نقطہ یہ بھی اٹھتا ہے کہ عید فصح کے موقع پر دور دور سے یہودی فصح منانے یروشلم پہنچتے تھے اور اس موقع پر یروشلم میں انسانی اژدہام اس قدر ہوتا تھا کہ رومیوں کو بغاوت ہو جانے کا اندیشہ رہتا تھا اور اسی فکر کے باعث رومی سپاہیوں کی بڑی تعداد کو یروشلم میں تعینات کیا جاتا تھا کہ ممکنہ بغاوت کے سر اٹھاتے ہی اس کی سرکوبی کر دی جائے. اس قدر یہودی انبوہ کثیر میں رومیوں کے لئے ایسے شخص کو گرفتار کرنا جو یہودی امیدوں کا مرکز و محور ہو، آسان نہ تھا. یہ تو خود یہودیوں کو اشتعال دلانے والا امر تھا اور رومی اتنے بے وقوف ہرگز نہیں تھے کہ ایسے نازک موقع پر یسوع کو گرفتار کرکے یکے بعد دیگرے اٹھنے والی یہودی بغاوتوں کے سلسلے کو ہوا دیتے. رومیوں کے ساتھ بلوہ ہونے کا خوف معاندین یسوع یہودیوں کو بھی لاحق تھا تبھی وہ قوم کے بزرگ اور سردار کاہن، عید کے موقع پر یسوع کے قتل کا منصوبہ تو تیار کرتے ہیں مگر بلوہ ہو جانے کا خوف انہیں اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے باز رکھتا ہے. (متی 26 5)
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﯿﺴﺎﯾﺎﮦ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﭘﺮ ﮐِﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺻِﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻِﺮﻑ ﯾﮩﻮﺩﯼ مسیاح اور خدا ﮨﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ اسی وجہ سے یہودیوں نے قیصر کو خراج ادا کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہوداہ گلیلی کی تحریک وجود میں آئی. انجیل نویس بھی یسوع سے منسوب ایسا ہی ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جب فریسی یسوع کو پھانسنے کے لئے ایک منصوبہ تیار کرتے ہیں اور آکر یسوع سے جزیہ کے متعلق سوال کرتے ہیں. اگر اس موقع پر یسوع جزیہ کی ادائیگی قیصر کے لئے روا قرار دیتے تو یہودی الزام سب سے پہلا یہی ہوتا کہ یہ خدا کے بجائے قیصر کو اپنا معبود سمجھتا ہے . اسکے برعکس اگر یسوع جزیہ کی ادائیگی خدا کو کرنے کا حکم دیتے تو یہ حکومت وقت کے قانون سے انحراف و بغاوت کا اعلان تھا. ایسے نازک موقع پر یسوع نے بھی یہودیوں کو ذو معنی جواب دے کر فارغ کردیا کہ قیصر کا حق قیصر کو اور خدا کا حق خدا کو دو (متی 22:21)
ابتدائی صدی عیسوی میں وہ یہودی جنہوں نے یسوع کو المسیح کی حیثیت سے قبول کیا، حکومت وقت کی تعذیب کا نشانہ بنے کیونکہ یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنا دراصل سلطان وقت کا رد کرنا تھا اور رومی دور حکومت میں قیصر وقت نہ صرف بادشاہ بلکہ خدا بھی کہلاتا تھا. 
ﺭﻭﻣﯽ حکومت ﯾﺴﻮﻉ ﮐﮯ ﺩﻋﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺍِﺱ امر کو ممکنات میں سمجھ رہے تھے ﮐﮧ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﺴﻮﻉ ﺍﻟﻤﺴﯿﺢ ﮐِﺴﯽ ﺑﺎﻏﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ کی ﺍﯾﮏ دن قیادت ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ لیکن جب یسوع کا عمل ان کے خود ہی کئے گئے دعاوی کے برعکس نکلا تو پیلاطوس جیسے ظالم و جابر حکمران بھی انہیں معصوم اور بے گناہ پایا لیکن یہودی توقعات کے برعکس ایک نئی بادشاہت کا دعوٰی کرکے یسوع نے جو ٹھیس یہودیوں کے جذبات کو پہنچائی تھی اسے یہودی کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں تھے بالاخر یہود کی یہی منتقم مزاجی یسوع کو صلیب پر لے گئی.
انجیل نویس نے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ رومی ہیرودیس نے کائفا اور اسکے یہودی ہمراہیوں کو ساتھ ملا کر ایک سازش تیار کی اور اس سازش کی اطلاع یسوع کو بھی بر وقت دے دی گئی (لوقا 13:31).یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فریسی جو اناجیل میں یسوع کے بدترین حریف ہیں یہاں تک کہ یسوع کے قتل کا منصوبہ تک تیار کرتے ہیں، انہیں یکدم یسوع سے ایسی کیا ہمدردی پیدا ہو گئی تھی جس کے باعث وہ یسوع کی جان بچانے کے لئے اسے فرار ہونے کا مشورہ دیتے ہیں؟(لوقا 13:31)
پے درپے پیدا ہو جانے والی بغاوتوں کے نتیجے میں رومی کسی بھی ایسے شخص کو زندہ رکھنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے جو یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا مدعی ہو تبھی رومیوں نے المسیح کے دعوے کے ساتھ اٹھنے والی ہر بغاوت کا سر کچلنے میں زرا بھی تامل نہیں کیا. المسیح کا دعوٰی کرنے والا ہر فرد رومیوں کے نزدیک سیاسی باغی تھا جو کہ کسی بھی وقت حکومت کا تختہ الٹ سکتا تھا. اسی وجہ سے حکومت وقت یہودی مذہبی پیشوا سردار کاہن کا تقرر خود کرتی تھی تاکہ وہ رومی مفادات کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے.اسی لیے اناجیل متوافقہ سردار کاہن کو ہی مقدمہ کی کاروائی کے وقت یسوع کا سب سے زیادہ مخالف بنا کر پیش کرتی ہیں. اگر یسوع کا دعوی المسیح کا چرچا اگر عام ہوتا تو یہودی عدالت عالیہ میں سردار کاہن کو جھوٹی گواہیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی. فریسیوں کے بارہا اصرار پر مبنی استفسار کے باوجود یسوع کبھی اپنی لسان مبارک سے المسیح ہونے کا دعوٰی نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی اس بابت تلقین کرتے کہ میرے المسیح ہونے کی بابت کسی کو کچھ کہنا مت. (مرقس 8:30)
اگر المسیح کا دعوی بے ضرر اور روحانی معنوں پر مشتمل تھا "جیسا کہ مسیحی باور کراتے ہیں" تو اسے چھپانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس دعوی کی تشہیر سے یسوع کا اپنے متبعین کو منع کرنا ہی اصل معاملے کا غماز ہے کہ یہ سارا قضیہ ہی سیاسی تھا. یسوع اپنے تحریک کو لاحق ہونے والے ممکنہ خطرات سے بخوبی واقف تھے اور ممانعت کا یہ اقدام دراصل حفظ ماتقدم کے طور پر تھا جو کہ یسوع کی دور اندیش طبیعت کی علامت ہے. اسی باعث یہودی یسوع کے خلاف ایک بھی مضبوط گواہی پیش نہ کر سکے. 
سردار کاہن کے بار بار سوال کرنے پر یسوع ایک ہی جواب دیتے ہیں. 
یِسُوع نے کہا ہاں مَیں ہُوں اور تُم ابِن آدم کو قادِرِ مُطلَق کی دہنی طرف بَیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے۔ (مرقس 14:62).
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہودی معاشرت میں خود کو مسیاہ یا خدا کا بیٹا کہنا، ابن آدم کبریا کی دہنی طرف بیٹھے گا اور بادلوں پر واپس آئے گا، واجب القتل جرم تھا ہی نہیں. المسیح کا دعوٰی ہی رومی قابضین کے خلاف تخریب کارانہ اعلان تھا مگر انجیل نویسوں نے اس مقام پر ان سارے معاملات کو سیاسی کے بجائے مذہبی رنگ دے کر پیش کیا ہے اور سردار کاہن کی ایسے رومی آلہ کار کے طور پر تصویر کشی کی ہے جو بغاوت کے بجائے کفر گوئی کے لئے زیادہ فکرمند تھا حالانکہ اگر یہ کفر گوئی کا معاملہ ہوتا تو رومیوں کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا تبھی پیلاطوس نے بھی یہودیوں کو اس قضیہ کا شرع کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا. (یوحنا 18:31). یہودی اس نوعیت کے مذہبی معاملات شرعی عدالت میں ہی فیصلہ کرکے نمٹا سکتے تھے. اگر یہودی کفر گوئی کے سبب سے اسٹیفن کو سنگسار کر سکتے تھے تو پھر یسوع کے معاملے میں وہ اسے رومی حاکم کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوئے؟ 
یہودیوں کو روا نہیں تھا کہ وہ یسوع کو جان سے ماریں کیونکہ وہ مذہبی لحاظ سے بالکل بے قصور تھے اور رومی حکومت نے یہودی عدالتوں کو سیاسی لحاظ سے سزائے موت سنانے کا اختیار تفویض نہیں کیا تھا دونوں صورتوں میں ہی یہودی یسوع کے خون میں ہاتھ نہیں رنگ سکتے تھے تبھی انہوں نے یسوع کا معاملہ حاکم وقت سے حل کروایا اور رومی حاکم سے یسوع کو صلیب کی سزا دلوائی جو اس وقت سیاسی باغیوں کے لئے مروج تھی اور رومی سیاسی باغیوں کو اذیت ناک موت دے کر باقیوں کے لئے نشانہ عبرت بنا دیتے تھے۔
فیس بک پر جوائن کرنے کےلیےیہاں کلک کریں
مکمل تحریر >>

طوفان نوح کے متعلق بائبلی وقائع نگاری کا تحقیقی جائزہ

طوفان نوح کے متعلق بائبلی وقائع نگاری کا تحقیقی مطالعہ
تحریر حکیم عمران ثاقب صاحب
۔ حضرت نوح علیہ السلام اور بایبل ۔ ۔ بایبل میں حضرت نوح کا ذکر کتاب پیدائش کے باب 6 سے شروع ہوتا ہے باب 7 اور 8 میں طوفان کا ذکر ہے اور باب 9 میں بعد طوفان کے حضرت نوح کا اور باب 10 میں اولاد نوح کا ذکر ہے میں اسے بار بار پڑھ چکا ہوں مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس داستان کو الہامی درجہ کیسے دیا گیا ہے یا کیسے دیا جا سکتا ہے ? وجوہات میں ابھی لکھنے والا ہوں جو کوئی شخص بایبل کو پڑھ اور سمجھ سکتا ہے وہ اسے پڑھے اور دیکھے اس پوری داستان میں ایک فقرہ بھی نوح کے پند و نصیحت کے بارے میں نہیں ، اس کہانی میں کہیں ایک جگہ بھی نہیں بتایا گیا کہ جو لوگ غرق طوفان ہوئے ان کا خاص گناہ کیا تھا جس کے سبب شامت اعمال میں گرفتار ہوئے ?اس میں نہیں بتایا گیا کہ کیوں ہلاکت ہی بطور آخری علاج کے اختیار کی گئی ? اس میں نہیں بتایا گیا کہ نوح کن لوگوں میں مبعوث کیے گئے ? اور کون لوگ غرق طوفان ہوئے تھے ?(جبکہ قران کریم ان سب امور کو بیان کرتا ہے جس سے بصائر و عبر حاصل ہوتے ہیں )ان ضروری امور کا تو بایبل میں کہیں اتا پتہ نہیں اور جو قران کریم سے بایبل نے زاید بیان کیا ہے وہ سوا خرافات کے کچھ نہیں اور یہی باتیں بایبل کے الہامی نہ ہونے پر شاہد ہیں یہاں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے بایبل میں یہ ذکر انسان کی بدی سے شروع کیا جاتا ہے اور وہ خاص بدی کیا تھی بایبل کو بھی اس کا علم نہیں ?1 ۔۔۔۔ خدا کے بیٹوں نے آدمیوں کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو انہوں نے چنا ان سے بیاہ کر لیا ،، پیدائش 6۔۔3) یہ خدا کے بیٹے کون تھے ?یہ بایبل پر سوالیہ نشان ہے جب خدا کے بیٹوں اور آدمیوں کی بیٹیوں میں رشتہ ازدواج ہو جاتا ہے تو پاس رشتہ داری میں خدا کہتا ہے ،، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے تو بھی اس کی عمر ایک سو بیس برس کی ہوگی پیدائش 6۔۔3) مگر خدا اس عہد پر قائم نہ رہا پیدائش کے گیارہویں باب میں ہے سم پانچ سو برس جیتا رہا ارفکسد چار سو برس سلح چار سو تین برس اور آج انسان کی اوسط عمر تقریبا ستر سال ہے لہذا یہ کھلا ہوا جھوٹ اور ناحق خدا پر بہتان ہے اسے کوئی الہامی کس طرح مان سکتا ہے ? 2۔۔۔۔۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کاکہ خدا انسان کو پیدا کرنے سے پچھتاتا ہے اب خدا ملول ہوتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ کل مخلوق کو مٹا ڈالوں گا اور نوح راست باز تھا ،، پیدایش 6۔۔6تا8) یہ کونسا خدا ہے جو اپنے فیصلوں پر پچھتاتا ہے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کوئی نکتہ بین ہو تو جواب دے ? اس فیصلہ کے بعد نوح کو ایک کشتی بنانے کا حکم ہوتا ہے کشتی کی تفصیلات یہ ہیں ، کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ اس کی چوڑائی پچاس ہاتھ اور اس کی اونچائی تیس ہاتھ ، (پیدائش 6۔۔16) اس کشتی سے کام کیا لینا ہے کل جنگلی جانور گھریلو چوپائے پرندے حشرات الارض ان سب کے سات سات جوڑے یا دو دو جوڑے اس معاملہ میں بھی تضاد ہے اس کشتی میں رکھنے ہیں تاکہ ان کی نسل باقی رہے خاندان نوح بھی اس کشتی میں ہے ظاہر ہے ان جانوروں کی خوراک بھی اسی کشتی میں رکھنا لازم ہے جو اس طویل مدت طوفان میں ان کے کام آئے اس چھوٹی کشتی میں کل جانوروں اور ان کی خوراک اور خاندان نوح ان سب کا سما جانا ممکن نہیں ٹائٹینک جہاز اس کشتی نوح سے کئی گنا بڑا ہے باوجود اس کے کل قسم جانوروں کی اپنے اندر رکھنے سے قاصر ہے لہٰذا یہ کھلا ہوا جھوٹ کسی داستان گو کا ہے نہ کہ خدا کا کلام 3۔۔۔۔ اس داستان میں ایک جگہ بتایا گیا ہے ،، ان جانوروں کی ہر قسم میں سے دو دو اپنے ساتھ کشتی میں لینا وہ تیرے ساتھ جیتے بچیں وہ نر و مادہ ہوں ،، (پیدائش 6۔۔۔20) جبکہ ساتویں باب میں اس کے برعکس یہ خبر دی گئ ہے ،، کہ کل پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور ان کی مادہ اور ان میں سے جو پاک نہیں دو دو نر اور ان کی مادہ اپنے ساتھ لے لینا ،، پیدائش 7۔۔2 , ان میں سے ایک بات جھوٹی ہے پہلے حوالہ میں لفظ ہر قسم قابل غور ہے لہٰذا اس کی کوئی توضیح پیش نہیں کی جاسکتی اور سوال برقرار رہتا ہے دو دو یا سات سات ? 4۔۔ یہ بات خاص توجہ چاہتی ہے ,,متوسلح ایک سو ستاسی برس کا تھا جب اس سے لمک پیدا ہوا اور لمک کی پیدائش کے بعد متوسلح سات سو بیاسی برس جیتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ متوسلح کی کل عمر نو سو انہتر برس کی ہوئی تب وہ مرا اور لمک ایک سو بیاسی برس کا تھا جب اس سے ایک بیٹا پیدا ہوا اس کا نام اس نے نوح رکھا ۔ ۔ ۔ نوح کی پیدائش کے بعد لمک پانچ سو پچانوے برس جیتا رہا اور لمک کی کل عمر سات سو ستتر برس کی ہوئی تب وہ مرا اور نوح پانچ سو برس کا تھا جب اس سے سم حام اور یافت پیدا ہوئے ،( پیدائش 5۔۔۔25تا 32) ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ نوح کی پیدائش کے وقت لمک کی عمر ہے ایک سو بیاسی سال اور دادا متوسلح کی عمر ہے 369 سال اور لمک کی کل عمر ہے 777 برس جبکہ دادا متوسلح کی کل عمر ہے 969سال اس سے لازم آیا کہ جب نوح کے دادا ابھی زندہ تھے اور انکی عمر تھی 964 سال تو نوح کے باپ لمک کی وفات ہوگئ مگر دادا ابھی تک زندہ ہیں اور ان کی کل عمر ہے نو سو انہتر برس اب اس بات کو یاد رکھیے اور اس کے بعد یہ دیکھیے ,, نوح کی عمر کا چھ سواں سال تھا کہ اس کے دوسرے مہینے کی سترہویں تاریخ کو سمندر کے سوتے پھوٹ نکلے ،، (پیدائش 7۔۔11) یعنی بغیر کسی مفر کے لازم آیا کہ طوفان نوح کے وقت نوح کا دادا زندہ تھا اور ،، چھ سو پہلے برس کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ کو یوں ہوا کہ زمین پر سے پانی سوکھ گیا اور نوح نے کشتی کی چھت کھولی ،، (پیدائش 8۔۔13)لہٰذا لازم ہے کہ نوح کے دادا متوسلح بھی اس کشتی میں سوار ہوتے حالانکہ بایبل بتاتی ہے کشتی میں جو سوار ہوئے نوح ان کی بیوی ان کے تین بیٹے اور ان کی بیویاں اس کے سوا کوئی سوار نہ تھا اور جو سوار نہ تھا،، پیدائش 7۔۔۔13) اور یہ بھی قطعی اور یقینی ہے کہ جو آدمی یا جانور کشتی میں سوار نہ تھا زندہ نہ بچا ،،( پیدائش 7۔23) حالانکہ نص توریت واضح ہے کہ متوسلح نے 969 برس کی زندگی پائی اگر وہ کشتی میں سوار نہ تھا تو باقی زندگی کیسے پوری کی ? یہ بایبل پر سوالیہ نشان ہے ایک سو پچاس دن یعنی پانچ مہینے تک تو پانی بڑھتا رہا اور پھر آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوا ساتویں مہینے کے سترہویں دن کشتی پہاڑ پر ٹکی اور دسویں مہینے کے پہلے دن چوٹیاں نظر آنا شروع ہو گئییں اس کے بھی چالیس دن گزرنے پر پرندہ چھوڑا مگر وہ واپس آگیا اور جب نوح کشتی سے اترا اس دن پہلے سال کا پہلا مہینہ تھا گویا پورا سال لگ گیا لہٰذا لازم ہے کہ ان لوگوں کے کشتی سے اترنے کے تین دن کم دو مہینے پیشتر کشتی میں ان کی وفات ہو مگر وہ سوار ہی نہیں حالانکہ راست باز تھے لہٰذا یہ بہت بڑا فساد ہے پھر یہ خدا کا کلام کیسے ہو سکتا ہے ? 5۔۔۔ساتویں مہینے کی سترھویں تاریخ کو کشتی اراراط کے پہاڑوں پر ٹک گئی اور پانی دسویں مہینے تک برابر گھٹتا رہا اور دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑ کی چوٹیاں نظر آئیں ،، (پیدائش 8۔۔4 ،5) پانچویں آیت چوتھی آیت کی تکذیب کر رہی ہے کیونکہ جب چوٹیاں دسویں مہینے نظر آئیں تو تین مہینے پہلے کشتی پہاڑ پر کیسے ٹک گئی ? 6۔۔۔۔ پہلے کہا کہ نوح راست باز اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا پیدائش اور نوح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ،، (پیدائش 6۔۔۔9) اور پھر کہا اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اور انگوروں کی مئے پی اور اسے نشہ آیا اور اپنے ڈیرے پر ننگا ہوگیا ،، (پیدائش 9۔۔18تا 24) میں کہتا ہوں یہ جھوٹ ہے اور یہود کی افتراع اس کے جھوٹ ہونے کی دلیل تو میں ابھی بیان کروں گا قبل ازیں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ مریم اور یسوع نے بھی کانائے گلیل میں انگوری مئے پی تھی یسوع تو مئے پیتے تھے ان کے مئے پینے کے ذکر سے مسیحی کیوں نالاں ہوتے ہیں اور نوح اور لوط کے مےء پینے کو کیوں چسکے لیکر بیان کرتے ہیں اور پھر یہ واقعہ جھوٹا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب اس کے چھوٹے بیٹے حام نے نوح کی حالت نشہ میں برہنگی دیکھی تو نوح نے کہا حام کا بیٹا ,, کنعان ملعون ہو وہ اپنے سب بھائیوں کے غلاموں کا غلام ہو گا پھر کہا خداوند سم کا خدا مبارک ہو اور کنعان سم کا غلام ہو (پیدائش 9۔۔25تا 27) حالانکہ یہ غلط ثابت ہوا کنعان کبھی ان کا غلام نہیں ہوا بلکہ کنعان کی اولاد سے نمرود پیدا ہوا اور سم اور یافث کی اولاد اور روئے زمین کا بادشاہ ہوا جسے خود توریت نے بیان کیا ہے اور تعجب ہے ابھی تو پہلے الفاظ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی ہوگی تو اس کے خلاف یہ لکھا ، اور بنی حام یہ ہیں کوش اور مصر اور فوط اور کنعان ۔ ۔ ۔ ۔ اور کوش سے نمرود پیدا ہوا وہ روئے زمین پر ایک سورما ہوا ہے ۔ ۔ اور اس کی بادشاہی کی ابتدا ملک سنعار میں بابل اور ارک اور اکاد اور کلنہ سے ہوئی ،( پیدائش 10۔۔۔6تا 11) اس واقعہ سے توریت کی مبینہ الہامی پیش گوئی کی تکذیب ہوگئی حالانکہ نوح بھی زندہ تھے اور سام بن نوح بھی اب کیا کہا جائے کیا اب بھی یہ خدا کا کلام ہے ?کیا باوجود اس کے نوح کا شراب پینا اور کنعان کو بد دعا دینا صیح ہے ? واللہ یہ جھوٹ ہے جو کسی کمینے کی اختراع ہے ہرگز ہرگز خدا کا کلام نہیں 7۔۔۔۔ نوح نے خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا اور سوختنی قربانیاں چڑھائیں اور خداوند نے ان کی راحت انگیز خوشبو لی ،، (پیدائش 8۔۔۔۔21) یہ کونسا اور کیسا خدا ہے جو ملول بھی ہوتا ہے اور قربانیوں کی راحت انگیز خوشبو بھی لیتا ہے ? ایسا خدا بابلیوں کا تصوراتی خدا تو ہو سکتا ہے ، واحد لاشریک قدوس خدا کے ہرگز یہ شایان شان نہیں بایبل کا یہ جملہ چغلی کھاتا ہے کہ بایبل کے مصنف نے یہ داستان بابلیوں کے قصہ طوفان سے چوری کی ہے 1929ء میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران اور کی سر زمین کے نیچیے سے طوفان نوح کے آثار کی شہادت ملی ہے اور وہاں سے دیگر شواہد کے علاوہ پتھرکی ایک بڑی لوح برآمد ہوئی جس پر بابل کی ,, گلگامش بہادرانہ نظم ،، کندہ ہے جس کے اخبار کی طرح چھ کالم یہ نظم تین ہزار قبل مسیح لکھی گئی جبکہ طوفان نوح مورخین کے مطابق 3500سال قبل مسیح آیا تھا اسی طرح بوغز کیوئی کے مقام اس کہانی کا ایک حصہ ملا ہے جس میں طوفان کا حال مندرج ہے ہیرو کا نام نحمولی ایل بتایا گیا ہے ممکن ہے کہ اس کا اختصار نوح ہوبایبل کی یہ ساری داستان بابلی کہانی سے چربہ ہے جسے الہام کا نام دیا گیا ہے اسی لیے اس میں مبینہ خامیوں کا وجود پایا جاتا ہے جن کی موجودگی میں اسے کسی صورت الہامی نہیں کہا جا سکتا یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمگیر عذاب سے اور کل مخلوقات کی تباہی سے آدم کے ازلی گناہ کا بھی ازالہ ہوا کہ نہیں اگر نہیں تو کیوں ?کیا خدا کے لیے یہی بہتر نہ تھا کہ بچنے والے ان چند افراد کو بھی غرق طوفان کرتا تاکہ ازلی گناہ کا بھی ازالہ ہوجاتا اور نئ نسل پیدا کرتا اگر نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ کل گناہگارں کو تو مار دیا مگر راست بازوں کو بچا لیابچنے والوں کی جبلت میں گناہ نہیں تھا لہٰذا اس واقعہ سے کفارہ بھی کافور ہوا ،، قران کریم اس واقعہ کو نہایت احسن انداز میں بیان کرتا ہے قران مجید نے بتایا ، انا ارسلنا نوحا الی قومہ ،، کہ نوح علیہ الاسلام اپنی ہی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے ، قران کریم نے بتایا کہ ان کی تباہی ہی مقدر بنی کیونکہ نوح 950 سال تک برابر تبلیغ و نصیحت کرتے رہے 29۔۔۔14، بتایا ہے کہ قوم شرک کے گندے گناہ میں آلودہ تھی ود سواع یغوث یعوق نسر کو معبود بنا رکھا تھا 71۔۔23 ، ساری قوم ہی بت پرستی میں مبتلا ہوچکی تھی اور بتایا ہے کہ ان کی آئندہ نسلوں کی صلاحیت پذیر ہونے کی امید بھی منقطع ہوگئ تھی ولا یلد الا فاجرا کفارا 71۔۔۔۔27 قران کریم نے بتایا ہے کہ وہی قوم غرق کی گئی جس نے شرک و طغیانی اختیار کی گئی مثلاً ، نوح عاد فرعون ذولاوتاد اور ثمود اور قوم لوط اور اصحاب ایکہ کی جماعتوں نے ان سے پہلے تکذیب کی ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا اور اس لیے ان پر عذاب کا آنا ٹھیک ہے ،، 38۔۔12تا14 ،، قران مجید نے جو کچھ نوح کی بابت بتایا ہے اور جس سے بایبل خاموش ہے وہ بہت سے امور ہیں نوح کے ایک نافرمان بیٹٙے کا قصہ جو نافرمان اور مشرک تھا اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ خدا کے سامنے اولاد کی محبت کو چھوڑ دینا چاہئے نیز یہ کہ عالی نسب ہونا اس شخص کے لیے زرا بھی مفید نہیں جس کے اپنے اعمال اچھے نہ ہوں انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح ،11۔۔۔46، اور یہ کہ نیک باپ بری اولاد سے کیونکر علیحدہ ہو جاتے ہیں 11۔۔47،، قران کریم بتاتا ہے کہ نوح کے ساتھ ایک راست بازوں کی جماعت تھی جو ایمان لائے اور محفوظ ہوئے ، وما امن معہ الا قلیلا ،، 11۔۔۔48،، اے نوح کشتی سے اتر ہماری سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیری امت پر جو تیرے ساتھ ہیں، 11۔۔48 ، قران مجید بتاتا ہے کہ حضرت نوح کی اولاد کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ،، 37۔۔77،، کہاں یہ نور مبین اور کہاں وہ بابلی قصے اور نوح ایسے جلیل القدر نبی کی توہین
مکمل تحریر >>