Pages

Most Popular

ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

یسوع کا دعویٰ المسیح اوروجوہات تصلیب کا تحقیقی وتاریخی جائزہ


یسوع کا دعویٰ المسیح اور وجوہات تصلیب کا تاریخی وتحقیقی جائزہ


تحریر وتحقیق: عبداللہ غازیؔ


کہا یہ جا رہا ہے کہ ﮨﯿﺮﻭﺩﯾﺲ ﻧﮯ ﯾﺴﻮﻉ ﺍﻟﻤﺴﯿﺢ ﮐﻮ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺎﻧﮕﺎ، ﯾﮩﻮﺩﯼ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﮯ. محترم آفتاب انور صاحب نے اس ضمن میں مندرجہ ذیل آیات سے استشہاد کیا :
"ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺎﺋﻔﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﯾﮏ ﺷَﺨﺺ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺍُﺱ ﺳﺎﻝ ﺳَﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨِﻦ ﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺗُﻢ ﮐُﭽﮫ ﻧﮩِﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮﮐﮧ ﺗُﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟِﺌﮯ ﯾﮩﯽ ﺑﮩُﺘﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣِﯽ ﺍُﻣّﺖ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﻣﺮﮮ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﻗَﻮﻡ ﮨﻼﮎ ﮨﻮ ‏( ﯾﻮﺣﻨﺎ 49:11 50- ‏)" ۔ ان آیات سے ان کا استدلال یہ ہے کہ 
"اکثر ﻣﺴﯿﺤﯽ حضرات ﺍِﻥ ﺩﻭ انجیلی فقرات ﺳﮯ ﯾﮧ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺎﺋﻔﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨﻦ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﯽ ﻧﺠﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑِﻦ ﮐﺎﺋﻔﺎ ﮐﺎﮨﻦ ﺗﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﺗﻮ ﻭﮦ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﮐﻔﺎﺭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮔﺎ؟ ﮐﺎﺋﻔﺎ ﮐﺎﮨﻦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺟﻤﻠﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﺍﻟﻤﺴﯿﺢ ﮐﮯ ﮐﻔﺎﺭﮦ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺗﺎﺭﯾﺦ اور اُس وقت کے فلسطین کے سیاسی حالات ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺑﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﯾﻮﺳﯿﻔﺘﺎ ﺗﺮﻭﻣﻮﺕ 7:20 ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﻟِﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ : ﺍ۔ ﺍﮔﺮ ﻏﯿﺮﯾﮩﻮﺩﯼ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﺮﻭﮦ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﮭﯿﺮ ﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺍُﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻢ ﺗُﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﺩﯾﻨﮕﮯ، ﺗﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍُﻧﮑﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮ ﺩِﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ 2 ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮ ﺩِﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺍُﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﺍُﻧﮑﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﻧﮧ ﮐِﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رومیوں نے یسوع کو مصلوب کرنے کے لئے طلب کیا تھا یا پھر یہودی یسوع کے خون کے پیاسے ہورہے تھے؟ مقدمہ یسوع کی انجیلی تصویر میں ﺗﻤﺎﻡ معاصرین یسوع یہودیوں کی منظر کشی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ﮐﺎﮨﻦ ﺍﻋﻈﻢ، ﺻﺪﻭﻗﯽ، ﻓﺮﯾﺴﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺘﺒﻌﯿﻦ ﺳﻤﯿﺖ،ﺍﻧﻘﻼﺑﯽ ﺷﺪﺕ ﭘﺴﻨﺪ،ﮨﯿﺮﻭﺩﺋﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮﺗﻌﺪﺍﺩ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﺐ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﻣﯿﮟ باہم ﻣﺘﺤﺪ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﺎﺋﻔﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨﻦ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮨﯽ ﮐﺎ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﺩہ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨﻦ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﻻﻭﯼ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑِﻦ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍِﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺑُﻠﻮﺍ ﮐﺮ اس لئے ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺎﮐﮧ فلسطین ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯽ ﻣﻔﺎﺩﺍﺕ کی نگرانی ﺍﻭﺭ ﺣُﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮈﯾﮉ ﺳﯽ ﺳﮑﺮﻭﻟﺰ ﮐﮯ ﺳﮑﺎﻟﺮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻻﺭﯾﻨﺲ ﺍﯾﭻ ﺷﯿﻔﻤﯿﻦ ﺍِﺱ ﺿﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻟِﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺎﺋﻔﺎ 18 ﺑﺮﺱ ﺗﮏ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎﮨﻦ ﺭﮨﺎ۔"
کیا صورتحال ایسی ہی جیسا کہ دعویٰ کیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب اناجیل نفی میں دیتی ہیں. اناجیل بتاتی ہیں کہ رومیوں میں سے کسی نے بھی یسوع کو نام لے کر طلب نہیں کیا تھا بلکہ یہودی خود ہی یسوع کو صلیب دلوانے حاکم کے پاس لے کر گئے( لوقا باب 23 ورس 1-3). پیلاطوس تو یسوع کو بے گناہ پاتا تھا اور انہیں چھوڑنے کا خواہاں تھا ( ورس 4 باب 23 ). انجیل یوحنا واضح بتاتی ہے کہ پیلاطوس تو اس بات سے لاعلم تھا کہ یسوع کو اس کے پاس کیوں لایا گیا( باب 23 ورس 29).اس نے انہیں خود سزا دینے کے لیے کہا تھا( ورس 31 ). لیکن بدنہاد یہودی چیخ چیخ کر پیلاطوس سے یسوع کو صلیب دینے کا مطالبہ کرتے رہے( متی باب 27 ورس 23 )( مرقس باب 13 ورس 14 )معاملہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہودیوں نے پیلاطوس کو دھمکی بھی دی تھی کہ اگر وہ یسوع کو مصلوب نہیں کرتا تو وہ قیصر کا خیر خواہ نہیں.( یوحنا باب 19 ). 
ان انجیلی حقائق کو پس پشت ڈال کر یہ اصرار کرنا کہ رومی سلطنت نے یسوع کو نام لے کر طلب کیا تھا ہر گز درست نہیں مانا جا سکتا اور اگر محترم آفتاب انور صاحب کو اب بھی اصرار ہے تو پھر انہیں واضح طور پر اناجیل کی تغلیط کرنی چاہئے اور یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے کہ ہیرودیس یا پیلاطوس نے کبھی بھی یسوع مسیح کو نام لے کر طلب نہیں کیا تھا. اناجیل اس بارے میں مکمل خاموش ہیں اور تاریخ کی گواہی محترم تلاش نہیں کر پائے. ہیرودیس تو یہودیوں سے کسی کو نام لے کر طلب کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھا کیونکہ یروشلم، جہاں سنہڈرین تھی، اس کے دائرہ اختیار سے باہر تھا.
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہودی از خود کیوں یسوع کو پکڑ کر رومی سلطنت کے حوالے کر کے سرخرو ہونا چاہتے تھے؟اس کی واحد وجہ یسوع کا ایسا مسیح ہونے کا دعویٰ تھا جو یہودی توقعات پوری نہیں کرتا تھا . انجیل نویس اگرچہ یسوع کو بحیثیت المسیح ایک الوہی ہستی کے پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ یہودی کسی بھی ایسے المسیح کے ہرگز منتظر نہیں تھے جو الہی تائید یافتہ ہونے کے بجائے خود الوہی حیثیت رکھتا ہو. ان کی توقعات المسیح سے یہ ہی تھیں کہ اس نے آکر بنی اسرائیل کو رومی غلامی سے نجات دلا کر داؤد کا تخت بحال کرکے بنی اسرائیل کی عظمت گم گشتہ کو واپس لانا تھا،جیسا کہ فرشتہ بھی مقدسہ مریم کو نویدِ یسوع سناتے وقت یہی کہتا ہے جسے بعد میں انجیل نویسوں اور مقدس پولس نے کچھ اور معانی کا جامہ پہنا دیا جو سراسر یہودی عقائد اور کتاب مقدس کے خلاف تھا. 
ایسا نہیں ہے کہ اس وقت المسیح ہونے کا دعوٰی یسوع نے ہی تنہا کیا تھا بلکہ ان کے متصلہ ایام میں ایسی بہت سی شخصیات کا ظہور ہوا جو المسیح ہونے کے مدعی تھیں . خود عہد جدید میں ایسے تین اشخاص کا تذکرہ موجود ہے. ان سبھی مدعیان المسیح نے جنگ کا راستہ اختیار کیا اور رومی حکومت کے خلاف اپنی شمشیریں بے نیام کرکے علم بغاوت بلند کیا. یہوداہ گلیلی ، تھیوداس اور خنجر بردار مصری (اعمال 21:36) اور یسوع کے سو سال بعد بار کوکبا. ان سب نے عسکری قوت کے زریعے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور کسی کو بھی یہودیوں نے رومیوں کے حوالے نہیں کیا جبکہ اس کے برعکس یسوع نے جنگ کی بجائے خدا کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایک ایسے زبردست معجزے کا انتظار کیا جس کی مدد سے رومی حکومت سے باوقار سمجھوتہ کیا جا سکے جو بہرحال یہود کو من حیث القوم قبول نہیں تھا( متی 21:22).
اگرچہ ﯾﺴﻮﻉ کی انجیلی تصویر کچھ اس طرح سے پیش کی گئی ہے کہ وہ ﺑﻨﯽ ﺍِﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ مسایاہ،مجسم خدا ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ کی حیثیت سے مبعوث ہوئے ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ، ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﺭﺗﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ لیکن اس کے باوجود یہودیوں کے لئے یہ سب کچھ تسلی بخش ثابت نہ ہوا. انہیں تو ایک ایسے جنگجو مسیح کا انتظار تھا جس نے آکر الہی تائید سے معاملات کو حل کر دینا تھا لیکن مصنفین عہد جدید نے تو یسوع سے کثرت معجزات منسوب کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا یہودیوں کو غلامی سے نجات کی بجائے بیماروں کی شفاء یابی اور کرتب دیکھنے کی زیادہ ضرورت تھی حالانکہ المسیح سے منسلک اس یہودی تیقن کے آگے یہ معجزات یہودی نظر میں بے وقعت رہے جو اخبار انبیاء کرام علیہم السلام کے باعث یہودی خون میں رچ بس گیا تھا . یہودیوں کو ایسے مسیح کی قطعاً ضرورت نہ تھی جو فقط تکثیر معجزات کے بنا پر المسیح ہونے کا دعوٰی کرے. ایسے برگزیدہ اشخاص کی یہودیوں میں کوئی کمی نہ تھی جو بے انتہا معجزات نہ دکھا سکتے ہوں . یسوع سے تقرب زمانی رکھنے والے ایسے کئی راستباز یہودی بزرگ معروف رہے ہیں مثلاً حننیاہ بن دوسا اور دائرہ کش ہونی، مناہم وغیرہ. مبینہ وقتی معجزات کے ظہور کا تماشہ دیکھنے کے بجائے یہودی اپنے المسیح سے رومی استبداد سے زور آزمائی کرنے اور دنیا بھر کی قیادت سنبھالنے کے لئے عملی اقدامات کے چینی سے منتظر تھے جبکہ یسوع ایسی کوئی بھی نظیر قائم کرنے سے قاصر رہے. ایسا گمان کرنا حقیقت سے خارج ہے کہ یسوع کی تحریک میں عسکریت پسند موجود نہیں تھے. انکے ساتھیوں میں یہوداہ اسکریوطی جیسے بہادر اسکریوٹ اور شمعون غیور( زیلوتیس)جیسے زبردست جنگجو و شدت پسند موجود تھے. ان کا یسوع کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہوئے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ یسوع کی تحریک شدت پسندی کے عناصر سے مبرا تھی بلکہ یہ عنصر اس سے کہیں زیادہ انجیل میں موجود ہے جتنا انجیل نویسوں نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے. خود انجیل میں یسوع پوشاک بیچ کر تلوار خریدنے کی تعلیم دیتے ہیں (لوقا 22:36) جو کہ اسی بات کا غماز ہے کہ یسوع ان عناصر کو ان کی حدود میں رکھنا چاہتے تھے لیکن ان کا انحصار کلی فقط تلوار پر ہی نہیں تھا بلکہ ان کی امیدوں کا اصل محور ایک زبردست خدائی معجزہ کا ظہور تھا جس کی مدد سے رومی حکومت سے معاملات سلجھ جاتے . یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی گرفتاری کے وقت بھی اپنے شاگردوں کو تلوار بازی سے گریز کرنے کا حکم دیا.
یہ یسوع کے مشن کی ناکامی ہی تھی کہ وہ ممکنہ طور پر خدا سے صادر ہونے والے ایک عظیم معجزے کی مدد سے رومیوں سے ایسے قابل قبول مذاکرات کرنے میں میں کامیاب نہ ہو سکے جو کہ ان کی ساری امیدوں کا محور تھا اور ان کی مایوسی صلیب پر چیختے چلاتے صاف ظاہر ہوتی ہے. یسوع کی اسی ناکامی کے باعث وہ مجمع بھی غائب ہو چکا تھا جو فقط تین دن قبل ہی کھجور کی ٹہنیاں اٹھا کر اور چادریں بچھا بچھا کر یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرکے اس کا استقبال کر رہا تھا. المسیح کا دعوٰی کرنے والا ہر شخص یہودی ہمدردی کا حامل ہوتا تھا کیونکہ یہودی ہر اک مدعی مسیح کو اپنی امید کی آخری کرن سمجھتے تھے لیکن یسوع کی گرفتاری سے اس کے مقدمہ، پھر تعذیب و تصلیب جیسے تمام مراحل میں ان افراد کا عنقا ہونا اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ یہودی یسوع کو بحیثیت مسیح موعود اسی وقت رد کر چکے تھے جب اس نے پیلاطوس کے سامنے یہ کہا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں. ازروئے کتاب مقدس یہودی ہر اس مسیح کو رد کرنے میں حق بجانب تھے جو داؤد علیہ السلام کی طرز کی بادشاہت قائم کرنے کے بجائے ایک ایسی جدید بادشاہت کا اعلان کرے جو داؤد کی سلطنت و حکومت سے بالکل ہی متبائن اور متضاد ہو. 
انجیل لوقا میں مندرج سائرین عمواس (لوقا 24:13) کی گفتگو سے جھلکنے والی مایوسی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی المسیح کا دعوی کرنے والوں سے کس قدر توقعات وابستہ کر لیتے تھے . یہ کیسے ممکن ہوا کہ مبینہ طور پر لوگوں نے یسوع کو بحیثیت المسیح اور اپنا بادشاہ قبول کر بھی لیا اور اس کے باوجود وہ اپنے واحد منجی کو بچانے کے لئے کوئی مزاحمت نہیں کی یہاں تک کہ گرفتاری، مقدمہ و تعذیب سے گزر کر یسوع صلیب پر پہنچ جاتے ہیں؟ یہودی مجمع کی یہ بے رخی و بے اعتنائی کا بنیادی سبب یسوع کا پیلاطوس کی عدالت میں "میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں" کا اقرار ہی ہوا جو یسوع کے تمام معتقدین کی یسوع سے" بحیثیت المسیح "وابستہ امیدوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف تھا تبھی یہودی عوام کا جم غفیر اس قدر برانگیختہ ہو گیا کہ انہوں نے یسوع کا خون اپنی اور اپنی اولادوں کی گردن پر لے کر صلیب کی سزا کا مطالبہ کردیا.
کسی کا بھی ادعا المسیح دراصل حکومت وقت کے خلاف اعلان جنگ تھا، یہودیوں کے نزدیک المسیح ہونے کا مطلب ہی یہودی بادشاہت کی بحالی کا اعلان کرنا تھا اسی وجہ سے یہودی اناجیل میں جابجا یسوع سے استفسار کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر تو المسیح ہے تو ہم سے کہہ دے. اگر مسیح ہونے کا مطلب یہودی بادشاہ ہونا نہیں تھا تو ﯾﺴﻮﻉ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﯼ و شدت پسندی ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ؟ اگر یسوع بحیثیت نبی اپنی منادی کررہے ہوتے تو اس سےبت پرست رومیوں کو کچھ سروکار نہ تھا. آخر یوحنا اصطباغی بھی تو اسی معاشرے میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے جس سے رومیوں اور یہودیوں دونوں نے ہی کبھی خطرہ محسوس نہیں کیا (یوحنا نبی کی شہادت مذہبی وجہ سے نہیں تھی جیسا کہ انجیل نویس کا دعوٰی ہے بلکہ اس کے اصل محرکات پر دبیز پردہ ڈالا گیا ہے ) لیکن یسوع کی منادی میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ کاہن و فریسی دونوں ہی سنہڈرین میں اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ "اگر ہم اسے یونہی چھوڑ دیں گے تو سب اس پر ایمان لے آئیں گے اور اہل روما آکر ہمیں ختم کر دیں گے". 
یہودی تفکرات تو اس وقت بھی دم توڑ دیتے ہیں جب یسوع پیلاطوس کے سامنے کھڑا تھا. وہ تو اسے برابر چھوڑنے کی کوشش میں لگا رہا تو پھر فریسی اور دیگر ارکان سنہڈرین کیوں خوفزدہ تھے جبکہ ہم پیلاطوس کا دل یسوع مسیح کی طرف سے صاف دیکھتے ہیں؟ صاف صاف بات یہ ہے انجیل نویسوں نے سچائی کا گلا گھونٹ کر یہ خلاف حقیقت بات لکھ کر یہود دشمنی کی فضا قائم کی ہے. 
اگر اس منادی پر ایمان لانا رومی حکومت کے لئے خطرہ تھا تو اس فتنہ کی سرکوبی اسی وقت ہی کیوں نہ کردی گئی جب یوحنا نبی نے کھلے عام حکومتی ہرکاروں کے سامنے وہی اعلان کرنا شروع کیا جو مابعد یسوع کررہے تھے.
اگر یسوع اسرائیل میں بحیثیت المسیح و نبی معروف تھے تو پھر انہیں گرفتار کرنے کے لئے نشاندہی کرنے والا اجرت پر لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ سپاہی خود ہی یسوع کو پہچان لیتے. آخر ایک ایسا شخص جو ہر دلپذیر عوامی مقبولیت رکھتا ہو وہ بھلا کیسے حکومت وقت کی نگاہ سے پوشیدہ رہ سکتا ہے اور یہ صورت حال اس وقت تو نہایت گھمبیر ہو جاتی ہے جب اس مقبولیت کی وجوہات سیاسی ہوں اور وہ شخص بطور ایک سیاسی مذہبی لیڈر سامنے آئے. لیکن حقیقت حال انجیل نویسوں کے ایسے بلند آہنگ دعاوی کی پول کھول دیتی ہے کہ "زمانہ اس کا معترف ہو چلا تھا" جبکہ اندرونی حقائق اور یسوع کی معرفتِ غریبہ کا یہ حال ہے کہ یسوع کو پہچاننے کے لئے بھی ایک اجرتی کی ضرورت پڑتی ہے.
یسوع کی گرفتاری کے وقت عید فصح قریب تھی. اناجیل متوافقہ کے مطابق یسوع کی گرفتاری فصح کا بھنا ہوا برہ کھانے کے بعد ہوئی جبکہ انجیل یوحنا اسی واقعہ کو عید فصح کی صبح، جبکہ فصح کے برے بھی ذبح نہیں کئے گئے تھے، کا وقت بتلاتی ہے. یہاں ایک دلچسپ نقطہ یہ بھی اٹھتا ہے کہ عید فصح کے موقع پر دور دور سے یہودی فصح منانے یروشلم پہنچتے تھے اور اس موقع پر یروشلم میں انسانی اژدہام اس قدر ہوتا تھا کہ رومیوں کو بغاوت ہو جانے کا اندیشہ رہتا تھا اور اسی فکر کے باعث رومی سپاہیوں کی بڑی تعداد کو یروشلم میں تعینات کیا جاتا تھا کہ ممکنہ بغاوت کے سر اٹھاتے ہی اس کی سرکوبی کر دی جائے. اس قدر یہودی انبوہ کثیر میں رومیوں کے لئے ایسے شخص کو گرفتار کرنا جو یہودی امیدوں کا مرکز و محور ہو، آسان نہ تھا. یہ تو خود یہودیوں کو اشتعال دلانے والا امر تھا اور رومی اتنے بے وقوف ہرگز نہیں تھے کہ ایسے نازک موقع پر یسوع کو گرفتار کرکے یکے بعد دیگرے اٹھنے والی یہودی بغاوتوں کے سلسلے کو ہوا دیتے. رومیوں کے ساتھ بلوہ ہونے کا خوف معاندین یسوع یہودیوں کو بھی لاحق تھا تبھی وہ قوم کے بزرگ اور سردار کاہن، عید کے موقع پر یسوع کے قتل کا منصوبہ تو تیار کرتے ہیں مگر بلوہ ہو جانے کا خوف انہیں اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے باز رکھتا ہے. (متی 26 5)
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﯿﺴﺎﯾﺎﮦ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﭘﺮ ﮐِﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺻِﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻِﺮﻑ ﯾﮩﻮﺩﯼ مسیاح اور خدا ﮨﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ اسی وجہ سے یہودیوں نے قیصر کو خراج ادا کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہوداہ گلیلی کی تحریک وجود میں آئی. انجیل نویس بھی یسوع سے منسوب ایسا ہی ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جب فریسی یسوع کو پھانسنے کے لئے ایک منصوبہ تیار کرتے ہیں اور آکر یسوع سے جزیہ کے متعلق سوال کرتے ہیں. اگر اس موقع پر یسوع جزیہ کی ادائیگی قیصر کے لئے روا قرار دیتے تو یہودی الزام سب سے پہلا یہی ہوتا کہ یہ خدا کے بجائے قیصر کو اپنا معبود سمجھتا ہے . اسکے برعکس اگر یسوع جزیہ کی ادائیگی خدا کو کرنے کا حکم دیتے تو یہ حکومت وقت کے قانون سے انحراف و بغاوت کا اعلان تھا. ایسے نازک موقع پر یسوع نے بھی یہودیوں کو ذو معنی جواب دے کر فارغ کردیا کہ قیصر کا حق قیصر کو اور خدا کا حق خدا کو دو (متی 22:21)
ابتدائی صدی عیسوی میں وہ یہودی جنہوں نے یسوع کو المسیح کی حیثیت سے قبول کیا، حکومت وقت کی تعذیب کا نشانہ بنے کیونکہ یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنا دراصل سلطان وقت کا رد کرنا تھا اور رومی دور حکومت میں قیصر وقت نہ صرف بادشاہ بلکہ خدا بھی کہلاتا تھا. 
ﺭﻭﻣﯽ حکومت ﯾﺴﻮﻉ ﮐﮯ ﺩﻋﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺍِﺱ امر کو ممکنات میں سمجھ رہے تھے ﮐﮧ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﺴﻮﻉ ﺍﻟﻤﺴﯿﺢ ﮐِﺴﯽ ﺑﺎﻏﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ کی ﺍﯾﮏ دن قیادت ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ لیکن جب یسوع کا عمل ان کے خود ہی کئے گئے دعاوی کے برعکس نکلا تو پیلاطوس جیسے ظالم و جابر حکمران بھی انہیں معصوم اور بے گناہ پایا لیکن یہودی توقعات کے برعکس ایک نئی بادشاہت کا دعوٰی کرکے یسوع نے جو ٹھیس یہودیوں کے جذبات کو پہنچائی تھی اسے یہودی کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں تھے بالاخر یہود کی یہی منتقم مزاجی یسوع کو صلیب پر لے گئی.
انجیل نویس نے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ رومی ہیرودیس نے کائفا اور اسکے یہودی ہمراہیوں کو ساتھ ملا کر ایک سازش تیار کی اور اس سازش کی اطلاع یسوع کو بھی بر وقت دے دی گئی (لوقا 13:31).یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فریسی جو اناجیل میں یسوع کے بدترین حریف ہیں یہاں تک کہ یسوع کے قتل کا منصوبہ تک تیار کرتے ہیں، انہیں یکدم یسوع سے ایسی کیا ہمدردی پیدا ہو گئی تھی جس کے باعث وہ یسوع کی جان بچانے کے لئے اسے فرار ہونے کا مشورہ دیتے ہیں؟(لوقا 13:31)
پے درپے پیدا ہو جانے والی بغاوتوں کے نتیجے میں رومی کسی بھی ایسے شخص کو زندہ رکھنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے جو یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا مدعی ہو تبھی رومیوں نے المسیح کے دعوے کے ساتھ اٹھنے والی ہر بغاوت کا سر کچلنے میں زرا بھی تامل نہیں کیا. المسیح کا دعوٰی کرنے والا ہر فرد رومیوں کے نزدیک سیاسی باغی تھا جو کہ کسی بھی وقت حکومت کا تختہ الٹ سکتا تھا. اسی وجہ سے حکومت وقت یہودی مذہبی پیشوا سردار کاہن کا تقرر خود کرتی تھی تاکہ وہ رومی مفادات کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے.اسی لیے اناجیل متوافقہ سردار کاہن کو ہی مقدمہ کی کاروائی کے وقت یسوع کا سب سے زیادہ مخالف بنا کر پیش کرتی ہیں. اگر یسوع کا دعوی المسیح کا چرچا اگر عام ہوتا تو یہودی عدالت عالیہ میں سردار کاہن کو جھوٹی گواہیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی. فریسیوں کے بارہا اصرار پر مبنی استفسار کے باوجود یسوع کبھی اپنی لسان مبارک سے المسیح ہونے کا دعوٰی نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی اس بابت تلقین کرتے کہ میرے المسیح ہونے کی بابت کسی کو کچھ کہنا مت. (مرقس 8:30)
اگر المسیح کا دعوی بے ضرر اور روحانی معنوں پر مشتمل تھا "جیسا کہ مسیحی باور کراتے ہیں" تو اسے چھپانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس دعوی کی تشہیر سے یسوع کا اپنے متبعین کو منع کرنا ہی اصل معاملے کا غماز ہے کہ یہ سارا قضیہ ہی سیاسی تھا. یسوع اپنے تحریک کو لاحق ہونے والے ممکنہ خطرات سے بخوبی واقف تھے اور ممانعت کا یہ اقدام دراصل حفظ ماتقدم کے طور پر تھا جو کہ یسوع کی دور اندیش طبیعت کی علامت ہے. اسی باعث یہودی یسوع کے خلاف ایک بھی مضبوط گواہی پیش نہ کر سکے. 
سردار کاہن کے بار بار سوال کرنے پر یسوع ایک ہی جواب دیتے ہیں. 
یِسُوع نے کہا ہاں مَیں ہُوں اور تُم ابِن آدم کو قادِرِ مُطلَق کی دہنی طرف بَیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے۔ (مرقس 14:62).
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہودی معاشرت میں خود کو مسیاہ یا خدا کا بیٹا کہنا، ابن آدم کبریا کی دہنی طرف بیٹھے گا اور بادلوں پر واپس آئے گا، واجب القتل جرم تھا ہی نہیں. المسیح کا دعوٰی ہی رومی قابضین کے خلاف تخریب کارانہ اعلان تھا مگر انجیل نویسوں نے اس مقام پر ان سارے معاملات کو سیاسی کے بجائے مذہبی رنگ دے کر پیش کیا ہے اور سردار کاہن کی ایسے رومی آلہ کار کے طور پر تصویر کشی کی ہے جو بغاوت کے بجائے کفر گوئی کے لئے زیادہ فکرمند تھا حالانکہ اگر یہ کفر گوئی کا معاملہ ہوتا تو رومیوں کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا تبھی پیلاطوس نے بھی یہودیوں کو اس قضیہ کا شرع کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا. (یوحنا 18:31). یہودی اس نوعیت کے مذہبی معاملات شرعی عدالت میں ہی فیصلہ کرکے نمٹا سکتے تھے. اگر یہودی کفر گوئی کے سبب سے اسٹیفن کو سنگسار کر سکتے تھے تو پھر یسوع کے معاملے میں وہ اسے رومی حاکم کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوئے؟ 
یہودیوں کو روا نہیں تھا کہ وہ یسوع کو جان سے ماریں کیونکہ وہ مذہبی لحاظ سے بالکل بے قصور تھے اور رومی حکومت نے یہودی عدالتوں کو سیاسی لحاظ سے سزائے موت سنانے کا اختیار تفویض نہیں کیا تھا دونوں صورتوں میں ہی یہودی یسوع کے خون میں ہاتھ نہیں رنگ سکتے تھے تبھی انہوں نے یسوع کا معاملہ حاکم وقت سے حل کروایا اور رومی حاکم سے یسوع کو صلیب کی سزا دلوائی جو اس وقت سیاسی باغیوں کے لئے مروج تھی اور رومی سیاسی باغیوں کو اذیت ناک موت دے کر باقیوں کے لئے نشانہ عبرت بنا دیتے تھے۔
فیس بک پر جوائن کرنے کےلیےیہاں کلک کریں

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔