Pages

Most Popular

ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

طوفان نوح کے متعلق بائبلی وقائع نگاری کا تحقیقی جائزہ

طوفان نوح کے متعلق بائبلی وقائع نگاری کا تحقیقی مطالعہ
تحریر حکیم عمران ثاقب صاحب
۔ حضرت نوح علیہ السلام اور بایبل ۔ ۔ بایبل میں حضرت نوح کا ذکر کتاب پیدائش کے باب 6 سے شروع ہوتا ہے باب 7 اور 8 میں طوفان کا ذکر ہے اور باب 9 میں بعد طوفان کے حضرت نوح کا اور باب 10 میں اولاد نوح کا ذکر ہے میں اسے بار بار پڑھ چکا ہوں مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس داستان کو الہامی درجہ کیسے دیا گیا ہے یا کیسے دیا جا سکتا ہے ? وجوہات میں ابھی لکھنے والا ہوں جو کوئی شخص بایبل کو پڑھ اور سمجھ سکتا ہے وہ اسے پڑھے اور دیکھے اس پوری داستان میں ایک فقرہ بھی نوح کے پند و نصیحت کے بارے میں نہیں ، اس کہانی میں کہیں ایک جگہ بھی نہیں بتایا گیا کہ جو لوگ غرق طوفان ہوئے ان کا خاص گناہ کیا تھا جس کے سبب شامت اعمال میں گرفتار ہوئے ?اس میں نہیں بتایا گیا کہ کیوں ہلاکت ہی بطور آخری علاج کے اختیار کی گئی ? اس میں نہیں بتایا گیا کہ نوح کن لوگوں میں مبعوث کیے گئے ? اور کون لوگ غرق طوفان ہوئے تھے ?(جبکہ قران کریم ان سب امور کو بیان کرتا ہے جس سے بصائر و عبر حاصل ہوتے ہیں )ان ضروری امور کا تو بایبل میں کہیں اتا پتہ نہیں اور جو قران کریم سے بایبل نے زاید بیان کیا ہے وہ سوا خرافات کے کچھ نہیں اور یہی باتیں بایبل کے الہامی نہ ہونے پر شاہد ہیں یہاں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے بایبل میں یہ ذکر انسان کی بدی سے شروع کیا جاتا ہے اور وہ خاص بدی کیا تھی بایبل کو بھی اس کا علم نہیں ?1 ۔۔۔۔ خدا کے بیٹوں نے آدمیوں کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو انہوں نے چنا ان سے بیاہ کر لیا ،، پیدائش 6۔۔3) یہ خدا کے بیٹے کون تھے ?یہ بایبل پر سوالیہ نشان ہے جب خدا کے بیٹوں اور آدمیوں کی بیٹیوں میں رشتہ ازدواج ہو جاتا ہے تو پاس رشتہ داری میں خدا کہتا ہے ،، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے تو بھی اس کی عمر ایک سو بیس برس کی ہوگی پیدائش 6۔۔3) مگر خدا اس عہد پر قائم نہ رہا پیدائش کے گیارہویں باب میں ہے سم پانچ سو برس جیتا رہا ارفکسد چار سو برس سلح چار سو تین برس اور آج انسان کی اوسط عمر تقریبا ستر سال ہے لہذا یہ کھلا ہوا جھوٹ اور ناحق خدا پر بہتان ہے اسے کوئی الہامی کس طرح مان سکتا ہے ? 2۔۔۔۔۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کاکہ خدا انسان کو پیدا کرنے سے پچھتاتا ہے اب خدا ملول ہوتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ کل مخلوق کو مٹا ڈالوں گا اور نوح راست باز تھا ،، پیدایش 6۔۔6تا8) یہ کونسا خدا ہے جو اپنے فیصلوں پر پچھتاتا ہے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کوئی نکتہ بین ہو تو جواب دے ? اس فیصلہ کے بعد نوح کو ایک کشتی بنانے کا حکم ہوتا ہے کشتی کی تفصیلات یہ ہیں ، کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ اس کی چوڑائی پچاس ہاتھ اور اس کی اونچائی تیس ہاتھ ، (پیدائش 6۔۔16) اس کشتی سے کام کیا لینا ہے کل جنگلی جانور گھریلو چوپائے پرندے حشرات الارض ان سب کے سات سات جوڑے یا دو دو جوڑے اس معاملہ میں بھی تضاد ہے اس کشتی میں رکھنے ہیں تاکہ ان کی نسل باقی رہے خاندان نوح بھی اس کشتی میں ہے ظاہر ہے ان جانوروں کی خوراک بھی اسی کشتی میں رکھنا لازم ہے جو اس طویل مدت طوفان میں ان کے کام آئے اس چھوٹی کشتی میں کل جانوروں اور ان کی خوراک اور خاندان نوح ان سب کا سما جانا ممکن نہیں ٹائٹینک جہاز اس کشتی نوح سے کئی گنا بڑا ہے باوجود اس کے کل قسم جانوروں کی اپنے اندر رکھنے سے قاصر ہے لہٰذا یہ کھلا ہوا جھوٹ کسی داستان گو کا ہے نہ کہ خدا کا کلام 3۔۔۔۔ اس داستان میں ایک جگہ بتایا گیا ہے ،، ان جانوروں کی ہر قسم میں سے دو دو اپنے ساتھ کشتی میں لینا وہ تیرے ساتھ جیتے بچیں وہ نر و مادہ ہوں ،، (پیدائش 6۔۔۔20) جبکہ ساتویں باب میں اس کے برعکس یہ خبر دی گئ ہے ،، کہ کل پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور ان کی مادہ اور ان میں سے جو پاک نہیں دو دو نر اور ان کی مادہ اپنے ساتھ لے لینا ،، پیدائش 7۔۔2 , ان میں سے ایک بات جھوٹی ہے پہلے حوالہ میں لفظ ہر قسم قابل غور ہے لہٰذا اس کی کوئی توضیح پیش نہیں کی جاسکتی اور سوال برقرار رہتا ہے دو دو یا سات سات ? 4۔۔ یہ بات خاص توجہ چاہتی ہے ,,متوسلح ایک سو ستاسی برس کا تھا جب اس سے لمک پیدا ہوا اور لمک کی پیدائش کے بعد متوسلح سات سو بیاسی برس جیتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ متوسلح کی کل عمر نو سو انہتر برس کی ہوئی تب وہ مرا اور لمک ایک سو بیاسی برس کا تھا جب اس سے ایک بیٹا پیدا ہوا اس کا نام اس نے نوح رکھا ۔ ۔ ۔ نوح کی پیدائش کے بعد لمک پانچ سو پچانوے برس جیتا رہا اور لمک کی کل عمر سات سو ستتر برس کی ہوئی تب وہ مرا اور نوح پانچ سو برس کا تھا جب اس سے سم حام اور یافت پیدا ہوئے ،( پیدائش 5۔۔۔25تا 32) ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ نوح کی پیدائش کے وقت لمک کی عمر ہے ایک سو بیاسی سال اور دادا متوسلح کی عمر ہے 369 سال اور لمک کی کل عمر ہے 777 برس جبکہ دادا متوسلح کی کل عمر ہے 969سال اس سے لازم آیا کہ جب نوح کے دادا ابھی زندہ تھے اور انکی عمر تھی 964 سال تو نوح کے باپ لمک کی وفات ہوگئ مگر دادا ابھی تک زندہ ہیں اور ان کی کل عمر ہے نو سو انہتر برس اب اس بات کو یاد رکھیے اور اس کے بعد یہ دیکھیے ,, نوح کی عمر کا چھ سواں سال تھا کہ اس کے دوسرے مہینے کی سترہویں تاریخ کو سمندر کے سوتے پھوٹ نکلے ،، (پیدائش 7۔۔11) یعنی بغیر کسی مفر کے لازم آیا کہ طوفان نوح کے وقت نوح کا دادا زندہ تھا اور ،، چھ سو پہلے برس کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ کو یوں ہوا کہ زمین پر سے پانی سوکھ گیا اور نوح نے کشتی کی چھت کھولی ،، (پیدائش 8۔۔13)لہٰذا لازم ہے کہ نوح کے دادا متوسلح بھی اس کشتی میں سوار ہوتے حالانکہ بایبل بتاتی ہے کشتی میں جو سوار ہوئے نوح ان کی بیوی ان کے تین بیٹے اور ان کی بیویاں اس کے سوا کوئی سوار نہ تھا اور جو سوار نہ تھا،، پیدائش 7۔۔۔13) اور یہ بھی قطعی اور یقینی ہے کہ جو آدمی یا جانور کشتی میں سوار نہ تھا زندہ نہ بچا ،،( پیدائش 7۔23) حالانکہ نص توریت واضح ہے کہ متوسلح نے 969 برس کی زندگی پائی اگر وہ کشتی میں سوار نہ تھا تو باقی زندگی کیسے پوری کی ? یہ بایبل پر سوالیہ نشان ہے ایک سو پچاس دن یعنی پانچ مہینے تک تو پانی بڑھتا رہا اور پھر آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوا ساتویں مہینے کے سترہویں دن کشتی پہاڑ پر ٹکی اور دسویں مہینے کے پہلے دن چوٹیاں نظر آنا شروع ہو گئییں اس کے بھی چالیس دن گزرنے پر پرندہ چھوڑا مگر وہ واپس آگیا اور جب نوح کشتی سے اترا اس دن پہلے سال کا پہلا مہینہ تھا گویا پورا سال لگ گیا لہٰذا لازم ہے کہ ان لوگوں کے کشتی سے اترنے کے تین دن کم دو مہینے پیشتر کشتی میں ان کی وفات ہو مگر وہ سوار ہی نہیں حالانکہ راست باز تھے لہٰذا یہ بہت بڑا فساد ہے پھر یہ خدا کا کلام کیسے ہو سکتا ہے ? 5۔۔۔ساتویں مہینے کی سترھویں تاریخ کو کشتی اراراط کے پہاڑوں پر ٹک گئی اور پانی دسویں مہینے تک برابر گھٹتا رہا اور دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑ کی چوٹیاں نظر آئیں ،، (پیدائش 8۔۔4 ،5) پانچویں آیت چوتھی آیت کی تکذیب کر رہی ہے کیونکہ جب چوٹیاں دسویں مہینے نظر آئیں تو تین مہینے پہلے کشتی پہاڑ پر کیسے ٹک گئی ? 6۔۔۔۔ پہلے کہا کہ نوح راست باز اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا پیدائش اور نوح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ،، (پیدائش 6۔۔۔9) اور پھر کہا اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اور انگوروں کی مئے پی اور اسے نشہ آیا اور اپنے ڈیرے پر ننگا ہوگیا ،، (پیدائش 9۔۔18تا 24) میں کہتا ہوں یہ جھوٹ ہے اور یہود کی افتراع اس کے جھوٹ ہونے کی دلیل تو میں ابھی بیان کروں گا قبل ازیں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ مریم اور یسوع نے بھی کانائے گلیل میں انگوری مئے پی تھی یسوع تو مئے پیتے تھے ان کے مئے پینے کے ذکر سے مسیحی کیوں نالاں ہوتے ہیں اور نوح اور لوط کے مےء پینے کو کیوں چسکے لیکر بیان کرتے ہیں اور پھر یہ واقعہ جھوٹا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب اس کے چھوٹے بیٹے حام نے نوح کی حالت نشہ میں برہنگی دیکھی تو نوح نے کہا حام کا بیٹا ,, کنعان ملعون ہو وہ اپنے سب بھائیوں کے غلاموں کا غلام ہو گا پھر کہا خداوند سم کا خدا مبارک ہو اور کنعان سم کا غلام ہو (پیدائش 9۔۔25تا 27) حالانکہ یہ غلط ثابت ہوا کنعان کبھی ان کا غلام نہیں ہوا بلکہ کنعان کی اولاد سے نمرود پیدا ہوا اور سم اور یافث کی اولاد اور روئے زمین کا بادشاہ ہوا جسے خود توریت نے بیان کیا ہے اور تعجب ہے ابھی تو پہلے الفاظ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی ہوگی تو اس کے خلاف یہ لکھا ، اور بنی حام یہ ہیں کوش اور مصر اور فوط اور کنعان ۔ ۔ ۔ ۔ اور کوش سے نمرود پیدا ہوا وہ روئے زمین پر ایک سورما ہوا ہے ۔ ۔ اور اس کی بادشاہی کی ابتدا ملک سنعار میں بابل اور ارک اور اکاد اور کلنہ سے ہوئی ،( پیدائش 10۔۔۔6تا 11) اس واقعہ سے توریت کی مبینہ الہامی پیش گوئی کی تکذیب ہوگئی حالانکہ نوح بھی زندہ تھے اور سام بن نوح بھی اب کیا کہا جائے کیا اب بھی یہ خدا کا کلام ہے ?کیا باوجود اس کے نوح کا شراب پینا اور کنعان کو بد دعا دینا صیح ہے ? واللہ یہ جھوٹ ہے جو کسی کمینے کی اختراع ہے ہرگز ہرگز خدا کا کلام نہیں 7۔۔۔۔ نوح نے خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا اور سوختنی قربانیاں چڑھائیں اور خداوند نے ان کی راحت انگیز خوشبو لی ،، (پیدائش 8۔۔۔۔21) یہ کونسا اور کیسا خدا ہے جو ملول بھی ہوتا ہے اور قربانیوں کی راحت انگیز خوشبو بھی لیتا ہے ? ایسا خدا بابلیوں کا تصوراتی خدا تو ہو سکتا ہے ، واحد لاشریک قدوس خدا کے ہرگز یہ شایان شان نہیں بایبل کا یہ جملہ چغلی کھاتا ہے کہ بایبل کے مصنف نے یہ داستان بابلیوں کے قصہ طوفان سے چوری کی ہے 1929ء میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران اور کی سر زمین کے نیچیے سے طوفان نوح کے آثار کی شہادت ملی ہے اور وہاں سے دیگر شواہد کے علاوہ پتھرکی ایک بڑی لوح برآمد ہوئی جس پر بابل کی ,, گلگامش بہادرانہ نظم ،، کندہ ہے جس کے اخبار کی طرح چھ کالم یہ نظم تین ہزار قبل مسیح لکھی گئی جبکہ طوفان نوح مورخین کے مطابق 3500سال قبل مسیح آیا تھا اسی طرح بوغز کیوئی کے مقام اس کہانی کا ایک حصہ ملا ہے جس میں طوفان کا حال مندرج ہے ہیرو کا نام نحمولی ایل بتایا گیا ہے ممکن ہے کہ اس کا اختصار نوح ہوبایبل کی یہ ساری داستان بابلی کہانی سے چربہ ہے جسے الہام کا نام دیا گیا ہے اسی لیے اس میں مبینہ خامیوں کا وجود پایا جاتا ہے جن کی موجودگی میں اسے کسی صورت الہامی نہیں کہا جا سکتا یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمگیر عذاب سے اور کل مخلوقات کی تباہی سے آدم کے ازلی گناہ کا بھی ازالہ ہوا کہ نہیں اگر نہیں تو کیوں ?کیا خدا کے لیے یہی بہتر نہ تھا کہ بچنے والے ان چند افراد کو بھی غرق طوفان کرتا تاکہ ازلی گناہ کا بھی ازالہ ہوجاتا اور نئ نسل پیدا کرتا اگر نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ کل گناہگارں کو تو مار دیا مگر راست بازوں کو بچا لیابچنے والوں کی جبلت میں گناہ نہیں تھا لہٰذا اس واقعہ سے کفارہ بھی کافور ہوا ،، قران کریم اس واقعہ کو نہایت احسن انداز میں بیان کرتا ہے قران مجید نے بتایا ، انا ارسلنا نوحا الی قومہ ،، کہ نوح علیہ الاسلام اپنی ہی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے ، قران کریم نے بتایا کہ ان کی تباہی ہی مقدر بنی کیونکہ نوح 950 سال تک برابر تبلیغ و نصیحت کرتے رہے 29۔۔۔14، بتایا ہے کہ قوم شرک کے گندے گناہ میں آلودہ تھی ود سواع یغوث یعوق نسر کو معبود بنا رکھا تھا 71۔۔23 ، ساری قوم ہی بت پرستی میں مبتلا ہوچکی تھی اور بتایا ہے کہ ان کی آئندہ نسلوں کی صلاحیت پذیر ہونے کی امید بھی منقطع ہوگئ تھی ولا یلد الا فاجرا کفارا 71۔۔۔۔27 قران کریم نے بتایا ہے کہ وہی قوم غرق کی گئی جس نے شرک و طغیانی اختیار کی گئی مثلاً ، نوح عاد فرعون ذولاوتاد اور ثمود اور قوم لوط اور اصحاب ایکہ کی جماعتوں نے ان سے پہلے تکذیب کی ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا اور اس لیے ان پر عذاب کا آنا ٹھیک ہے ،، 38۔۔12تا14 ،، قران مجید نے جو کچھ نوح کی بابت بتایا ہے اور جس سے بایبل خاموش ہے وہ بہت سے امور ہیں نوح کے ایک نافرمان بیٹٙے کا قصہ جو نافرمان اور مشرک تھا اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ خدا کے سامنے اولاد کی محبت کو چھوڑ دینا چاہئے نیز یہ کہ عالی نسب ہونا اس شخص کے لیے زرا بھی مفید نہیں جس کے اپنے اعمال اچھے نہ ہوں انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح ،11۔۔۔46، اور یہ کہ نیک باپ بری اولاد سے کیونکر علیحدہ ہو جاتے ہیں 11۔۔47،، قران کریم بتاتا ہے کہ نوح کے ساتھ ایک راست بازوں کی جماعت تھی جو ایمان لائے اور محفوظ ہوئے ، وما امن معہ الا قلیلا ،، 11۔۔۔48،، اے نوح کشتی سے اتر ہماری سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیری امت پر جو تیرے ساتھ ہیں، 11۔۔48 ، قران مجید بتاتا ہے کہ حضرت نوح کی اولاد کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ،، 37۔۔77،، کہاں یہ نور مبین اور کہاں وہ بابلی قصے اور نوح ایسے جلیل القدر نبی کی توہین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔