مسیحی دعویٰ اور بائبلی لفظ "عمانویل" پر تحقیق
تحریر:سیدمحمدوقاص حیدر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر:سیدمحمدوقاص حیدر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"مسیحیت" ایک ایسا قدیم 'مسیحائی مذہب' ہے جس کی بنیاد اِس کے معماروں نے خدا کے تجسیمی اوّتار، نجاتیہ قربانی اور اُلوہی سلطنت کے ابدی قیام جیسے بُلند بانگ دعوؤں پر رکھی تھی۔ اِن دعوؤں کی حقانیت کے معیارِ تصدیق کے طور پر مستقبل کو بطور "پیمانہ" استعمال کیا گیا اور مختلف زمانوں کے متعلق پیشگوئیاں رقم کی گئیں، جن میں کہا گیا کہ کچھ مخصوص واقعات خدائی نشانی کے رُوپ میں رُونما ہوں گے۔ اِسی طرح پہلی صدی عیسوی میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو بھی ماضی کے الہامی صحائف میں موجود پیش گوئیوں کی منزل قرار دیا گیا۔ مثال کے طور پر مسیحیت کی پولوسی شکل، جو گہرے رُومی غناسطی اثرات رکھتی ہے، میں یہ دعویٰ بنیادی حیثیت کا حامل ہے کہ دینِ مسیح بنی اسرائیل کی حتمی شکل اور انبیائے بنی اسرائیل کے کشف والہام کی داستان کی تکمیل ہے۔ لہٰذا قومِ اسرائیل کی ہر مراد "یسوع" کی شخصیت پر پوری ہو چکی ہے۔
اگر تاریخ اُٹھا کر غیرجانبدار علمی ذرائع سے مسیحیت کے اِن دعوؤں کی تصدیق کرنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ عموماً مسیحیت کے دعاوی کے خلاف ہی نکلتا ہے۔ مسیحی صحیفہ "عہدنامہ جدید" (New Testament) کے مصنفین، علمائے سلف وخلف، پوپ اور پوادر کا مسیحیت کے حتمی ہونے کے متعلق انتہائی مرکزی نوعیت کا دعویٰ یہ ہے کہ یسوع مسیح کے ظہور کا اعلان یہودی صحائف "تناخ" (Tanakh)، جنہیں مسیحیت "عہدنامہ قدیم" (Old Testament) کے نام سے پکارتی ہے، میں جگہ جگہ پہلے ہی کیا جا چکا تھا، لہٰذا یسوع کی آمد کی پیش گوئیاں جابجا یہودی "تناخ" کے اندر بکھری پڑی ہیں۔
یہ دعویٰ نہ صرف جہالت اور خام خیالی پر مبنی ہے، بلکہ جذباتی عقیدت کی ایک مکمل ترین مثال ہے۔ درحقیقت ایسا دعویٰ خود اپنی تنکیر آپ ہے، کیونکہ عہدِ قدیم میں کہیں بھی ایسی کوئی پیش گوئی موجود نہیں ہے جس کا مطمعءِ نظر مسیحی مذہب کا بانی "مصلوب شدہ مسیح" ہو۔ لہٰذا اِس اہم ترین مسیحی دعویٰ کو ہم نے ذیل میں ناقابلِ تردید دلائل سے باطل ثابت کیا ہے، کسے پڑھ کر آپ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
چونکہ بحث ایک دعویٰ کے ابطال کے لئے دوسرے دعویٰ کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا نام ہے، لہٰذا ثبوتوں کے ساتھ نیچے ذیل میں دلائل کا ایک سلسلہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ قارئین پر واضح ہو جائے کہ ایک مسلمان کیوں محض "ترجمہءِ بائبل" پر اندھا اعتماد کر کے مسیحی دعوؤں کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کر سکتا۔ اِن شاءاللہ بائبل مقدس سے حاصل کردہ ایسے متنی ثبوتوں کے ساتھ ہی اِتمام حجت بھی ہو جائے گا۔
"کتابِ یسعیاہ" کے باب 7، فقرہ 14 میں درج ہے:
"خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک "کنواری" حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمانویل رکھے گی۔"
یہاں ایک لفظ سب سے منفرد نظر آتا ہے جس پر اِص فقرہ کے اندر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے، اور یہ لفظ ہے "کنواری" جو کہ "حاملہ ہو گی"۔ چونکہ کتابِ یسعیاہ عبرانی زُبان میں لکھی گئی تھی، لہٰذا معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لئے یہاں عبرانی سے استفادہ کرنا سُود مند رہے گا۔ مذکورہ بالا ترجمہءِ بائبل میں لفظ "کنواری" کا ترجمہ انگریزی کے لفظ "Virgin" سے لیا گیا ہے، کیونکہ اُردو تراجم انگریزی سے ہی کئے جاتے ہیں۔ انگریزی کا لفظ Virgin بنی اسرائیل کی زُبان عبرانی کے لفظ "بِطولہ" (בְּתוּלָה) کا ترجمہ ہے، جو کہ وہ لفظ نہیں ہے جو کتابِ یسعیاہ کی مذکورہ بالا عبارت کے عبرانی متن میں وارد ہوا ہے۔ یہاں جو عبرانی لفظ اصل عبارت میں مرقوم ہے وہ "علمہ" (עַלְמָ֗ה) ہے، جس کا معانی ہے "جوان لڑکی"۔ یعنی اِس لفظ کے ساتھ یہاں لڑکی کے کنوارا ہونے اور مرد کی قربت سے کلیۃً دور ہونے کی کوئی شرط موجود ہی نہیں ہے۔
مزید یاد رہے کہ لفظ "علمہ" کے ساتھ انگریزی کے Definite Article یعنی "The" کے متوازی عبرانی کا آرٹیکل "حا" (חָ) واقع ہوا ہے، جس سے مراد اہلِ زُبان جانتے ہیں کہ اِس بات پر مزید زورڈالا گیا ہے کہ لڑکی کو محض "جوان" ہی سمجھا جائے چاہے وہ شادی شدہ ہو۔ لہٰذا "علمہ" یعنی جوان لڑکی اِس آیت کے مطابق بچے کی پیدائش کے لیے مرد سے نطفہ قبول کرے گی اور یہ عمل یقیناً سبھی عام جوان لڑکیوں کے ماں بننے کی طرح فطری طریقے پر واقع ہو گا۔
تاہم، امر واقع یہ ہوا کہ "متی" صاحب (Matthew) نے اپنی انجیل کے باب 1 فقرہ 23 میں یہ آیت یسوع کے متعلق عہدِ قدیم کی پیشگوئی کے طور پر پیش کی اور اُن کی بابت یہ بتایا کہ یسوع وہی "مسیح" ہیں جن کا آلِ اسرائیل صدیوں سے انتظار کر رہے تھے۔ چونکہ انجیلِ متی کا مصنف براہِ راست عہدِ قدیم کے یونانی ترجمہ، جو کہ Septuagint کہلاتا تھا، سے استفادہ کر رہا تھا، جس میں مترجمین کی جانب سے "علمہ" کے ترجمہ کے طور پر "یونانی لفظ "παρθένος" (انگریزی Parthenos) ڈال دیا گیا تھا، جس کا مطلب "کنواری لڑکی" ہے، لہٰذا انجیلِ متی کے مصنف نے وہی غلط لفظ "کلامِ خدا" میں داخل کر دیا۔ اِس طرح انجیلِ متی کے مصنف نے مسیحی دینیات و الہٰیات کا رُخ ہمیشہ کے لئے تبدیل کر ڈالا اور "کنواری پیدائش" پر ایمان تصورِ مسیح کا پہلا اصول ٹھہرا۔ یوں مستقبل کی اُس سمت کا تعین ہوا جو پہلے پولوس رسول پیش کر چکا تھا۔ اِس کے بعد سے مسیحی الہٰیات محض اِس ایک تحریف شدہ نقطہ پر کھڑی نظر آتی ہے، جس کا دُور دُور تک یہودی صحائف میں پیش کردہ تصورِ مسیح سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ اِس خلط کاری میں قصور عہدِ قدیم کو یونانی زُبان میں ترجمہ کرنے والے یہودی علماء کا بھی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انجیلِ متی کا مصنف "رُوح القدس" کے زیرِ سایہ کلام خدا لکھ رہا تھا تو اُس پر یہ کشف واقع ہو جانا چاہیے تھا کہ اصل متن "کنواری" کی جگہ "جوان لڑکی" ہے تاکہ وہ "بطولہ" یعنی 'کنواری طاہر لڑکی' کی جگہ "علمہ" یعنی 'جواں سال لڑکی' رقم کرتا اور یوں لسانی جُھول کی تاریخ رقم کرنے سے باز رہتا۔ تاہم، افسوس صد افسوس، ایسا نہ ہو سکا۔
عہدِ قدیم کی مبہم و غیر مبہم پیشگوئیوں کے اُوپر مسیحی مذہب کی بنیادیں کھڑی کرنے اور مسیحی الہٰیات کو مضبوطی سے قائم کرنے کے خبط میں انجیلِ متی کا مصنف اُن اسرائیلی پیشگوئیوں کی مسیحی تطبیق کے لئے تاریخ سازی کرتا رہا جسے علمِ تنقید میں Prophecy Historicization کہتے ہیں۔ اِس عمل کے دوران فاضل مصنف نت نئی کہانیاں، قصے، تاویلیں، اور کرامات گھڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا یہ سب تاریخ کی واضح روشنی میں ہو چکا ہے، لہٰذا مصدقہ تاریخ کی سند رکھتا ہے، (مثال کے طور پر تصلیبِ یسوع کے بعد Saints کا اپنے مقبروں سے نکل بھاگنا اور جگہ جگہ گشت کرنا)۔ تاہم یہ سب قصے کہانیاں، کہاوتیں، اور کرامات پہلے سے ہی لوک داستانوں کا حصہ بن چکے تھے اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے کے سبب پہلی صدی عیسوی میں زُبان زدِ عام تھے۔ لہٰذا ایسی کسی چیز کی کوئی تاریخی سند نہ تو کبھی متی کو دستیاب ہو سکی اور نہ ہی یہودی صحیفے کا حقیقی معنوں میں مسیحی صحیفے سے کوئی 'اندرونی' تعلق ظاہر کیا جا سکا۔ مزید برآں، متی کے مصنف کو علمِ لسانیات پر بھی کوئی خاص عبور حاصل نہیں تھا اور نہ ہی وہ عبرانی زُبان سے واقف تھا۔ اِسی طرح اُس کا یونانی زُبان کا علم بھی واجبی نوعیت کا تھا، جو کہ انجیلِ متی کا یونانی متن دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے۔ (یونانی پر ایسا عبور صرف لوقا کی انجیل کے مصنف کو ہی حاصل تھا)۔
آپ خود ہی تنقیدی جائزہ کے بعد بتائیے کہ کیا ایسی بنیادی تاریخی و لسانی غلطی کو بجائے غلطی سمجھنے کے، عین ایمان کا حصہ مان کر مسیحیت کا اصولی ستون قرار دے دینا کہاں کا اُلوہی کشف و وحی ہے؟ اِسی ایک تحریف کو ہی سامنے رکھ کر پوری کی پوری عہدِ جدید پر نگاہِ شک دوڑائی جا سکتی ہے اور دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ دیگر بے شمار جگہوں پر بھی ایسی "ڈنڈی" ماری گئی ہو گی۔
وہ کسی نے ایسے ہی بُلند بانگ مگر بے بنیاد دعوؤں کے موقع کے لئے کیا خوب بات کہی تھی کہ "کجا رام رام، کجا ٹیں ٹیں!
فیس بک پر جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
فیس بک پر جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔