تورات کے متن میں یہودی تحریفات
مترجم:عبداللہ غازیؔ
زیرنظر تحریر محمداشرف چھینا صاحب کی کتاب Hagar The Princess: The Mother of the Arabs And Ishmael کے ایک باب Interpolation in the Text کا اردو ترجمہ ہے۔جس قاری کو انگریزی کتاب سے رجوع کرنا ہو تو محولہ بالا کتاب سے استفادہ کرسکتا ہے۔از مترجم
کاتبین اور مؤلفین نے اسرائیل کے ساتھ مطابقت و موانست پیدا کرنے کے لیے عہد نامہ قدیم کے متن میں بہت سی تحاریف کی تھیں. اگر پیدائش باب 15 کی ورس 4-5 اور 16:10 کو دیکھا جائے پیدایش کی کتاب کے باب 16 کے ایک تا نو فقرات نمایاں اضافہ ہیں کیونکہ یہ (تحریف) روایت کے متن کی ترتیب کو متاثر کرتی ہے اور اس کا کوئی معقول مقصد سمجھ نہیں آتا بجز یہ کہ اسرائیلیوں کی انا اور خوپسندی کی خاطر ہاجرہ بی بی کو سارہ کی باندی ظاہر کرنا جو کہ بالکل بھی درست نہیں ہے. یہ ظاہری ترتیب کسی اسرائیلی کاتب نے دی ہے جس نے مختلف روایات و ماخذات کو یکجا کرکے متن کے تسلسل میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا ہے. ہاجرہ کے عنوان کے تحت جوڈیکا انسائیکلوپیڈیا لکھتا ہے.
"ہاجرہ، سارہ کی مصری خادمہ تھی. روایت ہاجرہ کو دو مبینہ حدود میں پیش کرتی ہے. پیدایش باب 16 ورس 1 تا 16 بتاتی ہیں کہ سارہ کے شوہر ابراہیم علیہ السلام کو کس طرح سے ھاجرہ دی گئیں تاکہ ان کے حرم میں داخل ہوں(1-13) جب ہاجرہ حاملہ ہوئیں تو وہ سارہ کو حقارت سے دیکھنے لگی جس کے ردعمل میں سارہ نے اس پر اس قدر سختی کی کہ وہ بھاگ کر صحرا کی طرف چلی گئی(4-6) جہاں ایک غیبی آواز کے ذریعے اس کا سامنا ایک فرشتے سے ہوا جس نے اسے واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا (7-9) اور ساتھ ہی اسے ایک زبردست کشف بھی سنایا جو کہ اس کے مستقبل کے فرزند اسماعیل سے تعلق رکھتا تھا(10-12) بالآخر اس نے اسماعیل کو جنم دیا. (15) دوسری روایت (?پیدائش 21:8-21)بیان کرتی ہے کہ سارہ نے بھی اسحاق کو جنم دیا اور اس نے ہاجرہ اور اسکے بیٹے کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کردیا. صحیفے کے مطابق اسے سخت تکلیف ہوئی جب اس نے اسماعیل کو اپنے بیٹے اسحاق کو پیار کرتے دیکھا اور اسے اس متعلق ایک الہامی تسلی بھی موصول ہوئی(12-13) ابراہیم علیہ السلام نے بے دلی سے ہاجرہ کو گھر سےنکال کر صحرا کی طرف بے دخل کردیا (14)جہاں وہ اور اسماعیل الہی مداخلت کے ذریعے موت سے بچ گئے.(17)" (1)
انسائیکلوپیڈیا آف جوڈیکا میں یہ بھی مرقوم ہے.
"معاصر نقاد علماء سمجھتے ہیں کہ ہاجرہ کے متعلق پہلی روایت میں زیادتی کے طور پر 1، 3، 15 - 16 ورسز داخل کی گئی ہیں جبکہ دوسری روایت کا اضافہ ہونے کے بارے میں سب کا اتفاق ہے. تاہم مجموعی طور پر ان بیانات کا ادبی انتقال طویل مشکلات کا سامنا کرتا ہے. یہ مسائل تاریخی اور ادبی دونوں ہی ہیں. ادبی مسائل اس رخ سے سر اٹھاتے ہیں کہ دونوں واقعات ہی ہاجرہ کی جلاوطنی کو شامل کرتے ہیں(16:6 ، 21:14) جہاں ایک فرشتہ سامنے آتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے اور خوشخبری سناتا ہے. یہ بھی مذکور ہے کہ ہاجرہ کی بے دخلی کے دو آزاد ترجمے شروع سے ہی موجود ہیں جن میں سے پہلا اس کے حمل اور دوسرا اسحاق کی پیدائش کے بعد کے وقت کی طرف منسوب ہیں. لہذا کچھ علماء حل پیش کرتے ہیں اور پیدائش 16:9 کا موازنہ کرتے ہوئے مخلوط عبارت کو تسلیم کرتے ہیں جو کہ مابعد کی جانے والی نظرثانی میں روایات کو ترتیب دینے کی غرض سے داخل متن کی گئیں. دیگر علماء نے تسلیم کیا ہے کہ اسماعیل کا مذکور نام دوسری روایت سے حذف کردیا گیا ہے. " (2)
"انسائیکلوپیڈیا آف جوڈیکا کے یہ اقتباسات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ممتاز یہودی علماء کی اکثریت اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ پیدائش کی کتاب کے زیر بحث کچھ حصے خدا کا کلام نہیں ہے اور اسی وجہ سے بائبلی بیانات میں تضادات ہیں اور کچھ ایسی مشکلات درپیش ہیں جو حل نہیں کی جا سکتی ہیں.اسرائیل کے اعلی علماء کا یہ بالواسطہ اعتراف واضح کرتا ہے کہ متن میں موجود مشکلات و تضادات انسانی ہاتھ کی بدولت ہیں کیونکہ خدا کا کام تمام اغلاط اور متضاد باتوں سے پاک ہوتا ہے.
پیدایش 21:12 کے آخری حصہ "تیری نسل اسحاق سے کہلائے گی" کو بھی ایک الحاق کے طور پر پہچانا جا سکتا ہے. اس زیادتی پر اس تضاد کے ذریعے روشنی پڑتی ہے جو بالکل اگلی ہی ورس میں بیان ہوا ہے.
"مگر میں لونڈی کے بیٹے کو بھی ایک بڑی قوم بناؤں گا کیونکہ وہ بھی تیری نسل ہے. " (پیدائش 21:13)
اس سے قبل خدا نے خود اسماعیل علیہ السلام کی تصدیق ابراہیم علیہ السلام کی نسل کی حیثیت سے کی اور اسماعیل علیہ السلام کو تین مرتبہ ابراہیم علیہ السلام کا فرزند کہا. (پیدائش 17:23، 17:25، 17:26) اس وجہ سے یہ فقرہ " تیری نسل اسحاق سے کہلائے گی" متن میں ایک فضول جعل سازی ہے. یہ حصہ متن میں صریح اضافہ ہے جو کہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل کے ساتھ خدا کے عہد کو محدود کرنے کے لیے بعد میں کیا گیا ہے جیسا کہ ہم لکھا پاتے ہیں
" اورمَیں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان اُنکی سب پُشتوں* کے لئے اپنا عہد جو ابدی عہد ہوگا باندھُونگا تاکہ مَیں تیرا* اور تیرے بعد تیری نسل* کا خُدا رہوں اور مَیں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنؔعان* کا تمام مُلک جِس میں تُو پردیسی ہے اَیسا دُونگا کہ وہ دائمی مِلکیت* ہو جائے اور مَیں اُنکا خُدا ہُونگا۔ پِھر خُدانے ابرؔہام سے کہا کہ تُو میرے عہد کو ماننا اور تیرے بعد تیری نسل پُشت در پُشت اُسے مانے اور میرا عہد* جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جِسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تُم میں سے ہر ایک فرزند ِ نرینہ کا ختنہ کِیا جائے" (پیدائش 17 فقرات 7 تا 10)
اس عبارت سے مستنبط یہ نقاط قابل غور ہیں.
*1* یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ نسلوں کے بجائے جمع کا صیغہ "سب پشتوں" لایا گیا ہے. (یعنی عہد خداوندی محدود نہیں تھا از مترجم)
*2* عہد میں ابراہیم علیہ السلام کی تمام نسلیں شامل ہیں نہ کہ صرف اسحاق علیہ السلام.
*3* خدا کا عہد چند چنیدہ نسلوں کے بجائے مکمل طور پر ابراہیم علیہ السلام کی تمام نسلوں کے ساتھ تھا.
*4* یہ قابل ذکر ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کو بھی غیر مبہم انداز میں ابراہیم علیہ السلام کی نسل کہا گیا ہے. (پیدائش 21:13)
*5* متن سے فاران کا نام نکال دیا گیا ہے اور "کنعان کا تمام ملک" کو بعد میں اضافہ کیا تاکہ عہد کو اسرائیلیوں کے حق میں مختص کیا جا سکے.
*6* تاریخی وقائع واضح شہادت دیتے ہیں کہ کنعان کبھی بھی اسرائیلیوں کے قبضہ میں "ابدی" نہیں رہا. بیسویں صدی کے وسط میں یہودی کنعان میں داخل ہوئے جن کا داخلہ انیس صدیوں تک ممنوع رہا تھا. موسی علیہ السلام کی وفات سے موجودہ وقت تک سات صدیاں تو یہودی کنعان میں داخل ہونے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے تھے. اس سرزمین پر نامکمل قبضہ کے دوران بھی یہ "ابدی ملکیت"کا تسلسل وقتا فوقتاً ٹوٹتا رہا جو عہد کے اس حصے کی تکمیل کرنے میں معاہد کی معذوری و لاچاری کی طرف یا پھر اسرائیلیوں کے جھوٹے دعوے کی طرف اشارہ کرتا ہے.
*7* یہ بھی یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ ختنہ کا عمل مسلمانوں اور عربوں میں تواتر کے ساتھ بالکل اسی طرح چلا آرہا ہے جس طرح یہودیوں میں پایا جاتا ہے اور اس بارے میں یہودی کسی خصوصی استحقاق کا دعوی نہیں کر سکتے ہیں.
یہ مبینہ الحاق اور بھی واضح ہو جاتا ہے جب یہ پیدائش باب 17 ورس 2 تا 14 کے متن سے باہم ٹکراتا ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام کو یقین دلایا گیا تھا کہ وہ بہت سی قوموں کے باپ ہونگے. اس وقت عہد تمام نسل تک محیط ہوگیا تھا جس میں گھر میں پیدا ہونے والا یا زر خرید دونوں طرح کے غلام، "جو تیری نسل کا نہیں" بھی شامل تھے. (پیدائش 17:12) اس کا مطلب یہ کہ ہر وہ انسان جو ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ خون اور تخم کے رشتوں کو قطع نظر کرتے ہوئے کسی بھی طرح کا تعلق رکھتا ہو، ان سب کا بغیر کسی تفریق ضرور ختنہ کیا جائے. اس کی خصوصی ہدایت دی گئی تھیں.
" پُشت در پُشت ہر لڑکے کا ختنہ جب وہ آٹھ روز کا ہو کِیا جائےخواہ وہ گھر میں پیدا ہو خواہ اُسے کِسی پردیسی سے خریدا ہو جو تیری نسل سے نہیں۔ لازم ہے کہ تیرے خانہ زاد اور تیرے زر خرید کا ختنہ کِیا جائے اور میرا عہد تمہارے جِسم میں ابدی عہد ہوگا اور وہ فرزندِ نرینہ جِسکا ختنہ نہ ہُوا جِسکا ختنہ نہ ہُوا ہو اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اُس نے میرا عہد توڑا" (پیدائش 17 فقرہ 12 تا 14)
اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام کے تمام پیروکاروں کے لیے یہ ایک ابدی عہد تھا اسی وجہ سے مسیحی برادری ختنہ کو ترک کرکے خدا کے ساتھ اس عہد کو توڑ چکے ہیں.
ابراہیم علیہ السلام 90 برس کے تھے اور ان کے فرزند اسماعیل علیہ السلام 13 برس کے تھے جب انہوں نے خود کا اور اپنے فرزند کا ختنہ کیا. ابراہیم علیہ السلام کے تمام متعلقین کا عہد میں شریک ہونے کے لیے ختنہ کیا گیا. اسی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی تمام آل اولاد و پیروکار نسل درنسل اسی الہی حکم کی تعمیل میں ختنہ کرتے چلے آرہے ہیں.
ابراہیم علیہ السلام کو حاران سے کنعان کی طرف کوچ کا حکم ملا تو خدا نے ان سے وعدہ کیا تھا.
" میں تجھے ایک بڑی قَوم بناؤنگا اور برکت دُونگا اور تیرا نام سرفراز کرونگا۔ سو تُو باعثِ برکت ہوا جو تجھے مبارک کہیں اُنکو میں برکت دُونگا اور جو تُجھ پر لعنت کرے اُس پر مَیں لعنت کرونگا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائینگے۔" (پیدائش باب 12 فقرات 2-3)
خدا کا ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کہ انہیں ایک بڑی قوم بنائے گا اور ان کے نام سے زمین کے تمام خاندانوں کو برکت دینا درحقیقت برکت کو اسحاق علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ساتھ محدود کرنے کے کسی بھی امکان کو خارج کرنا تھا. اگرچہ یا تو خدا نے ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے برکت پھیلانے کی غلطی کی تھی یا پھر پیدائش کی کتاب کے دوسرے حصے 17:19 اور 17:21 بائبل کے متن میں مختلف الحاقات ہیں. کسی بھی صورت میں ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے تمام لوگوں کو دی جانے والی خدائی برکات کے ساتھ مذکورہ فقرات انتہائی ناموافق ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ ختنہ کا عہد ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ پہلے ہی بطور ضابطہ قائم کیا جا چکا تھا اور ابراہیم علیہ السلام نے بشمول اسماعیل علیہ السلام اور دیگر متبعین کے ساتھ اس حکم کی تعمیل بھی کی تھی جیسا کہ پیدائش 17 فقرات 23-27 میں مرقوم ہے. بہت بعد میں اسرائیلیوں نے اسے اپنے حق میں ترمیم کر لیا. ختنہ کے عہد کی تکمیل کے ساتھ ہی خدا نے زوجہ ابراہیم علیہ السلام کا نام سارائی سے بدل کر سارہ کردیا اور مزید کہا.
" اورمَیں اُسے برکت دُونگا اور اُس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا اور میں اسے برکت دوں گا کہ وہ قوموں کی ماں ہوگی اور گروہوں کے بادشاہ اس سے نکلیں گے"(پیدائش 17:16)
"وہ قوموں کی ماں ہوگی "بظاہر متن میں مرتبین کی طرف سے الحاق ہے تاکہ ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے سارہ کا رتبہ برقرار رکھا جائے جیسا کہ خدا نے ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا.
" اِسؔمعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دُعا سُنی ۔ دیکھ مَیں اُسے برکت دُونگا اور اُسے برومند کرونگا اور اُسے بڑھاؤنگا اور اُس سے بارہ سردار پیَدا ہونگے اورمَیں اُسے بڑی قوم بناؤنگا"(پیدائش 17:20)
اوپر مذکور بیان کے مطابق "قوموں کی ماں" فقط دو قوموں کی ماں بن سکی، اول اسرائیلی اور دوم ادومی "جبکہ ابراہیم علیہ السلام کے چھ دیگر فرزند اور اسماعیل علیہ السلام کی آل اولاد ایک بہت بڑی قوم بنیں. یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ خدا ایسے وعدے کا اعلان بھی کر سکتا ہے جو پورا ہی نہ ہوا ہو.
" اس سے بھی تجھے ایک بیٹا دوں گا "اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس دوسری بیوی سے ایک فرزند پہلے ہی موجود تھا. اسی وجہ سے خدا نے سارہ کو بھی برکت دی. یہ آراء کہ پیدائش 17:19 اور 17:21 مختلف الحاق ہیں جو خدا کے کلام میں تبدیل کرکے حقائق کو موڑنے کی غرض سے کیے گئے ہیں. یہ سچ بات ہے کہ سارہ کو بیٹے کی خبر سنائے جانے سے قبل ہی خدا کا عہد قائم ہو چکا تھا.
ان فقرات کی نشاندہی الحاق و اضافہ جات کے طور پر کی جا سکتی ہے کیونکہ خدا کی طرف سے بار بار یقین دہانی کے باوجود عہد اسحاق علیہ السلام اور انکی آل سے بندھ جاتا ہے (پیدائش 17:19, 17:21)جبکہ اسحاق علیہ السلام سے کوئی نیا عہد قائم نہیں کیا گیا تھا. ایسے ہی خدا نے اسحاق اور اس کی آل سے کیے گئے اپنے دعوے کو پورا نہیں کیا یا پھر پیدائش 19 اور 21 کے کچھ حصے میں پیدائش کی کتاب پر نظر ثانی کرنے والوں نے بعد میں اضافے کیے ہیں.
کیونکہ یہ سچ بات ہے کہ خدا کا کلام کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا اسی لیے بلاخوف و جھجک یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ پیدائش 17:19 اور 17:21 متن میں فضول اضافے ہیں.
حواشی وحوالہ جات
1. Enc. Judaica 2nd Edn., ed. Fred Skolnik (NY : Thomson Gale, nd.) 8:205 s.v 'Hagar', by Maurice Friedberg / S. David Sperling (2nd ed.)
2. Enc. Judaica 2nd Edn, 8:205f
ہمیں فیس بک پر جوائن کیجئے!
مترجم:عبداللہ غازیؔ
زیرنظر تحریر محمداشرف چھینا صاحب کی کتاب Hagar The Princess: The Mother of the Arabs And Ishmael کے ایک باب Interpolation in the Text کا اردو ترجمہ ہے۔جس قاری کو انگریزی کتاب سے رجوع کرنا ہو تو محولہ بالا کتاب سے استفادہ کرسکتا ہے۔از مترجم
کاتبین اور مؤلفین نے اسرائیل کے ساتھ مطابقت و موانست پیدا کرنے کے لیے عہد نامہ قدیم کے متن میں بہت سی تحاریف کی تھیں. اگر پیدائش باب 15 کی ورس 4-5 اور 16:10 کو دیکھا جائے پیدایش کی کتاب کے باب 16 کے ایک تا نو فقرات نمایاں اضافہ ہیں کیونکہ یہ (تحریف) روایت کے متن کی ترتیب کو متاثر کرتی ہے اور اس کا کوئی معقول مقصد سمجھ نہیں آتا بجز یہ کہ اسرائیلیوں کی انا اور خوپسندی کی خاطر ہاجرہ بی بی کو سارہ کی باندی ظاہر کرنا جو کہ بالکل بھی درست نہیں ہے. یہ ظاہری ترتیب کسی اسرائیلی کاتب نے دی ہے جس نے مختلف روایات و ماخذات کو یکجا کرکے متن کے تسلسل میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا ہے. ہاجرہ کے عنوان کے تحت جوڈیکا انسائیکلوپیڈیا لکھتا ہے.
"ہاجرہ، سارہ کی مصری خادمہ تھی. روایت ہاجرہ کو دو مبینہ حدود میں پیش کرتی ہے. پیدایش باب 16 ورس 1 تا 16 بتاتی ہیں کہ سارہ کے شوہر ابراہیم علیہ السلام کو کس طرح سے ھاجرہ دی گئیں تاکہ ان کے حرم میں داخل ہوں(1-13) جب ہاجرہ حاملہ ہوئیں تو وہ سارہ کو حقارت سے دیکھنے لگی جس کے ردعمل میں سارہ نے اس پر اس قدر سختی کی کہ وہ بھاگ کر صحرا کی طرف چلی گئی(4-6) جہاں ایک غیبی آواز کے ذریعے اس کا سامنا ایک فرشتے سے ہوا جس نے اسے واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا (7-9) اور ساتھ ہی اسے ایک زبردست کشف بھی سنایا جو کہ اس کے مستقبل کے فرزند اسماعیل سے تعلق رکھتا تھا(10-12) بالآخر اس نے اسماعیل کو جنم دیا. (15) دوسری روایت (?پیدائش 21:8-21)بیان کرتی ہے کہ سارہ نے بھی اسحاق کو جنم دیا اور اس نے ہاجرہ اور اسکے بیٹے کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کردیا. صحیفے کے مطابق اسے سخت تکلیف ہوئی جب اس نے اسماعیل کو اپنے بیٹے اسحاق کو پیار کرتے دیکھا اور اسے اس متعلق ایک الہامی تسلی بھی موصول ہوئی(12-13) ابراہیم علیہ السلام نے بے دلی سے ہاجرہ کو گھر سےنکال کر صحرا کی طرف بے دخل کردیا (14)جہاں وہ اور اسماعیل الہی مداخلت کے ذریعے موت سے بچ گئے.(17)" (1)
انسائیکلوپیڈیا آف جوڈیکا میں یہ بھی مرقوم ہے.
"معاصر نقاد علماء سمجھتے ہیں کہ ہاجرہ کے متعلق پہلی روایت میں زیادتی کے طور پر 1، 3، 15 - 16 ورسز داخل کی گئی ہیں جبکہ دوسری روایت کا اضافہ ہونے کے بارے میں سب کا اتفاق ہے. تاہم مجموعی طور پر ان بیانات کا ادبی انتقال طویل مشکلات کا سامنا کرتا ہے. یہ مسائل تاریخی اور ادبی دونوں ہی ہیں. ادبی مسائل اس رخ سے سر اٹھاتے ہیں کہ دونوں واقعات ہی ہاجرہ کی جلاوطنی کو شامل کرتے ہیں(16:6 ، 21:14) جہاں ایک فرشتہ سامنے آتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے اور خوشخبری سناتا ہے. یہ بھی مذکور ہے کہ ہاجرہ کی بے دخلی کے دو آزاد ترجمے شروع سے ہی موجود ہیں جن میں سے پہلا اس کے حمل اور دوسرا اسحاق کی پیدائش کے بعد کے وقت کی طرف منسوب ہیں. لہذا کچھ علماء حل پیش کرتے ہیں اور پیدائش 16:9 کا موازنہ کرتے ہوئے مخلوط عبارت کو تسلیم کرتے ہیں جو کہ مابعد کی جانے والی نظرثانی میں روایات کو ترتیب دینے کی غرض سے داخل متن کی گئیں. دیگر علماء نے تسلیم کیا ہے کہ اسماعیل کا مذکور نام دوسری روایت سے حذف کردیا گیا ہے. " (2)
"انسائیکلوپیڈیا آف جوڈیکا کے یہ اقتباسات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ممتاز یہودی علماء کی اکثریت اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ پیدائش کی کتاب کے زیر بحث کچھ حصے خدا کا کلام نہیں ہے اور اسی وجہ سے بائبلی بیانات میں تضادات ہیں اور کچھ ایسی مشکلات درپیش ہیں جو حل نہیں کی جا سکتی ہیں.اسرائیل کے اعلی علماء کا یہ بالواسطہ اعتراف واضح کرتا ہے کہ متن میں موجود مشکلات و تضادات انسانی ہاتھ کی بدولت ہیں کیونکہ خدا کا کام تمام اغلاط اور متضاد باتوں سے پاک ہوتا ہے.
پیدایش 21:12 کے آخری حصہ "تیری نسل اسحاق سے کہلائے گی" کو بھی ایک الحاق کے طور پر پہچانا جا سکتا ہے. اس زیادتی پر اس تضاد کے ذریعے روشنی پڑتی ہے جو بالکل اگلی ہی ورس میں بیان ہوا ہے.
"مگر میں لونڈی کے بیٹے کو بھی ایک بڑی قوم بناؤں گا کیونکہ وہ بھی تیری نسل ہے. " (پیدائش 21:13)
اس سے قبل خدا نے خود اسماعیل علیہ السلام کی تصدیق ابراہیم علیہ السلام کی نسل کی حیثیت سے کی اور اسماعیل علیہ السلام کو تین مرتبہ ابراہیم علیہ السلام کا فرزند کہا. (پیدائش 17:23، 17:25، 17:26) اس وجہ سے یہ فقرہ " تیری نسل اسحاق سے کہلائے گی" متن میں ایک فضول جعل سازی ہے. یہ حصہ متن میں صریح اضافہ ہے جو کہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل کے ساتھ خدا کے عہد کو محدود کرنے کے لیے بعد میں کیا گیا ہے جیسا کہ ہم لکھا پاتے ہیں
" اورمَیں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان اُنکی سب پُشتوں* کے لئے اپنا عہد جو ابدی عہد ہوگا باندھُونگا تاکہ مَیں تیرا* اور تیرے بعد تیری نسل* کا خُدا رہوں اور مَیں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنؔعان* کا تمام مُلک جِس میں تُو پردیسی ہے اَیسا دُونگا کہ وہ دائمی مِلکیت* ہو جائے اور مَیں اُنکا خُدا ہُونگا۔ پِھر خُدانے ابرؔہام سے کہا کہ تُو میرے عہد کو ماننا اور تیرے بعد تیری نسل پُشت در پُشت اُسے مانے اور میرا عہد* جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جِسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تُم میں سے ہر ایک فرزند ِ نرینہ کا ختنہ کِیا جائے" (پیدائش 17 فقرات 7 تا 10)
اس عبارت سے مستنبط یہ نقاط قابل غور ہیں.
*1* یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ نسلوں کے بجائے جمع کا صیغہ "سب پشتوں" لایا گیا ہے. (یعنی عہد خداوندی محدود نہیں تھا از مترجم)
*2* عہد میں ابراہیم علیہ السلام کی تمام نسلیں شامل ہیں نہ کہ صرف اسحاق علیہ السلام.
*3* خدا کا عہد چند چنیدہ نسلوں کے بجائے مکمل طور پر ابراہیم علیہ السلام کی تمام نسلوں کے ساتھ تھا.
*4* یہ قابل ذکر ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کو بھی غیر مبہم انداز میں ابراہیم علیہ السلام کی نسل کہا گیا ہے. (پیدائش 21:13)
*5* متن سے فاران کا نام نکال دیا گیا ہے اور "کنعان کا تمام ملک" کو بعد میں اضافہ کیا تاکہ عہد کو اسرائیلیوں کے حق میں مختص کیا جا سکے.
*6* تاریخی وقائع واضح شہادت دیتے ہیں کہ کنعان کبھی بھی اسرائیلیوں کے قبضہ میں "ابدی" نہیں رہا. بیسویں صدی کے وسط میں یہودی کنعان میں داخل ہوئے جن کا داخلہ انیس صدیوں تک ممنوع رہا تھا. موسی علیہ السلام کی وفات سے موجودہ وقت تک سات صدیاں تو یہودی کنعان میں داخل ہونے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے تھے. اس سرزمین پر نامکمل قبضہ کے دوران بھی یہ "ابدی ملکیت"کا تسلسل وقتا فوقتاً ٹوٹتا رہا جو عہد کے اس حصے کی تکمیل کرنے میں معاہد کی معذوری و لاچاری کی طرف یا پھر اسرائیلیوں کے جھوٹے دعوے کی طرف اشارہ کرتا ہے.
*7* یہ بھی یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ ختنہ کا عمل مسلمانوں اور عربوں میں تواتر کے ساتھ بالکل اسی طرح چلا آرہا ہے جس طرح یہودیوں میں پایا جاتا ہے اور اس بارے میں یہودی کسی خصوصی استحقاق کا دعوی نہیں کر سکتے ہیں.
یہ مبینہ الحاق اور بھی واضح ہو جاتا ہے جب یہ پیدائش باب 17 ورس 2 تا 14 کے متن سے باہم ٹکراتا ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام کو یقین دلایا گیا تھا کہ وہ بہت سی قوموں کے باپ ہونگے. اس وقت عہد تمام نسل تک محیط ہوگیا تھا جس میں گھر میں پیدا ہونے والا یا زر خرید دونوں طرح کے غلام، "جو تیری نسل کا نہیں" بھی شامل تھے. (پیدائش 17:12) اس کا مطلب یہ کہ ہر وہ انسان جو ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ خون اور تخم کے رشتوں کو قطع نظر کرتے ہوئے کسی بھی طرح کا تعلق رکھتا ہو، ان سب کا بغیر کسی تفریق ضرور ختنہ کیا جائے. اس کی خصوصی ہدایت دی گئی تھیں.
" پُشت در پُشت ہر لڑکے کا ختنہ جب وہ آٹھ روز کا ہو کِیا جائےخواہ وہ گھر میں پیدا ہو خواہ اُسے کِسی پردیسی سے خریدا ہو جو تیری نسل سے نہیں۔ لازم ہے کہ تیرے خانہ زاد اور تیرے زر خرید کا ختنہ کِیا جائے اور میرا عہد تمہارے جِسم میں ابدی عہد ہوگا اور وہ فرزندِ نرینہ جِسکا ختنہ نہ ہُوا جِسکا ختنہ نہ ہُوا ہو اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اُس نے میرا عہد توڑا" (پیدائش 17 فقرہ 12 تا 14)
اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام کے تمام پیروکاروں کے لیے یہ ایک ابدی عہد تھا اسی وجہ سے مسیحی برادری ختنہ کو ترک کرکے خدا کے ساتھ اس عہد کو توڑ چکے ہیں.
ابراہیم علیہ السلام 90 برس کے تھے اور ان کے فرزند اسماعیل علیہ السلام 13 برس کے تھے جب انہوں نے خود کا اور اپنے فرزند کا ختنہ کیا. ابراہیم علیہ السلام کے تمام متعلقین کا عہد میں شریک ہونے کے لیے ختنہ کیا گیا. اسی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی تمام آل اولاد و پیروکار نسل درنسل اسی الہی حکم کی تعمیل میں ختنہ کرتے چلے آرہے ہیں.
ابراہیم علیہ السلام کو حاران سے کنعان کی طرف کوچ کا حکم ملا تو خدا نے ان سے وعدہ کیا تھا.
" میں تجھے ایک بڑی قَوم بناؤنگا اور برکت دُونگا اور تیرا نام سرفراز کرونگا۔ سو تُو باعثِ برکت ہوا جو تجھے مبارک کہیں اُنکو میں برکت دُونگا اور جو تُجھ پر لعنت کرے اُس پر مَیں لعنت کرونگا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائینگے۔" (پیدائش باب 12 فقرات 2-3)
خدا کا ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کہ انہیں ایک بڑی قوم بنائے گا اور ان کے نام سے زمین کے تمام خاندانوں کو برکت دینا درحقیقت برکت کو اسحاق علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ساتھ محدود کرنے کے کسی بھی امکان کو خارج کرنا تھا. اگرچہ یا تو خدا نے ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے برکت پھیلانے کی غلطی کی تھی یا پھر پیدائش کی کتاب کے دوسرے حصے 17:19 اور 17:21 بائبل کے متن میں مختلف الحاقات ہیں. کسی بھی صورت میں ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے تمام لوگوں کو دی جانے والی خدائی برکات کے ساتھ مذکورہ فقرات انتہائی ناموافق ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ ختنہ کا عہد ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ پہلے ہی بطور ضابطہ قائم کیا جا چکا تھا اور ابراہیم علیہ السلام نے بشمول اسماعیل علیہ السلام اور دیگر متبعین کے ساتھ اس حکم کی تعمیل بھی کی تھی جیسا کہ پیدائش 17 فقرات 23-27 میں مرقوم ہے. بہت بعد میں اسرائیلیوں نے اسے اپنے حق میں ترمیم کر لیا. ختنہ کے عہد کی تکمیل کے ساتھ ہی خدا نے زوجہ ابراہیم علیہ السلام کا نام سارائی سے بدل کر سارہ کردیا اور مزید کہا.
" اورمَیں اُسے برکت دُونگا اور اُس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا اور میں اسے برکت دوں گا کہ وہ قوموں کی ماں ہوگی اور گروہوں کے بادشاہ اس سے نکلیں گے"(پیدائش 17:16)
"وہ قوموں کی ماں ہوگی "بظاہر متن میں مرتبین کی طرف سے الحاق ہے تاکہ ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے سارہ کا رتبہ برقرار رکھا جائے جیسا کہ خدا نے ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا.
" اِسؔمعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دُعا سُنی ۔ دیکھ مَیں اُسے برکت دُونگا اور اُسے برومند کرونگا اور اُسے بڑھاؤنگا اور اُس سے بارہ سردار پیَدا ہونگے اورمَیں اُسے بڑی قوم بناؤنگا"(پیدائش 17:20)
اوپر مذکور بیان کے مطابق "قوموں کی ماں" فقط دو قوموں کی ماں بن سکی، اول اسرائیلی اور دوم ادومی "جبکہ ابراہیم علیہ السلام کے چھ دیگر فرزند اور اسماعیل علیہ السلام کی آل اولاد ایک بہت بڑی قوم بنیں. یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ خدا ایسے وعدے کا اعلان بھی کر سکتا ہے جو پورا ہی نہ ہوا ہو.
" اس سے بھی تجھے ایک بیٹا دوں گا "اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس دوسری بیوی سے ایک فرزند پہلے ہی موجود تھا. اسی وجہ سے خدا نے سارہ کو بھی برکت دی. یہ آراء کہ پیدائش 17:19 اور 17:21 مختلف الحاق ہیں جو خدا کے کلام میں تبدیل کرکے حقائق کو موڑنے کی غرض سے کیے گئے ہیں. یہ سچ بات ہے کہ سارہ کو بیٹے کی خبر سنائے جانے سے قبل ہی خدا کا عہد قائم ہو چکا تھا.
ان فقرات کی نشاندہی الحاق و اضافہ جات کے طور پر کی جا سکتی ہے کیونکہ خدا کی طرف سے بار بار یقین دہانی کے باوجود عہد اسحاق علیہ السلام اور انکی آل سے بندھ جاتا ہے (پیدائش 17:19, 17:21)جبکہ اسحاق علیہ السلام سے کوئی نیا عہد قائم نہیں کیا گیا تھا. ایسے ہی خدا نے اسحاق اور اس کی آل سے کیے گئے اپنے دعوے کو پورا نہیں کیا یا پھر پیدائش 19 اور 21 کے کچھ حصے میں پیدائش کی کتاب پر نظر ثانی کرنے والوں نے بعد میں اضافے کیے ہیں.
کیونکہ یہ سچ بات ہے کہ خدا کا کلام کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا اسی لیے بلاخوف و جھجک یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ پیدائش 17:19 اور 17:21 متن میں فضول اضافے ہیں.
حواشی وحوالہ جات
1. Enc. Judaica 2nd Edn., ed. Fred Skolnik (NY : Thomson Gale, nd.) 8:205 s.v 'Hagar', by Maurice Friedberg / S. David Sperling (2nd ed.)
2. Enc. Judaica 2nd Edn, 8:205f
ہمیں فیس بک پر جوائن کیجئے!
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔