Pages

Most Popular

جمعہ، 8 جولائی، 2022

قدیم مصری تہذیب میں تصورِ نجات بذریعہ صلیب

 














قدیم مصری تہذیب میں تصورِ نجات بذریعہ صلیب

تحقیق و تحریر: ڈاکٹر عبداللہ غازیؔ        

انسانیت کی نجات کے لیے صلیب پر جان دینے والے دیوتاؤں کاتصور قدیم مشرک مذاہب میں موجود رہاہے۔ مصر بھی ازمنہ قدیم میں شرک اور گمراہیت کا مرکز رہاہے لہذا وہاں بھی ایسےہی لایعنی اور خرافات پر مبنی عقائد موجود تھے جن میں الوہی حیثیت کے حامل دیوتا کاانسانیت کی نجات کے لیے اپنی جان دے کر کفارہ اداکرنے کا عقیدہ بھی موجود تھا۔ اس عقیدے نے ازلی گناہ کے نظریے سے جنم لیاجس کےمطابق زمین پر پیداہونے والا ہر شخص گناہ گار تھا۔اس گناہ کی معافی خون بہائے بغیر ملنا ناممکن تھی لہذا خدا نے مجسم ہوکر اس گناہ کی معافی کےلیے اپنا خون بہایا تاکہ انسانیت کو بچایا جاسکے۔اس طرح کے عقائد جہاں دیگر مشرک اقوام میں تھے وہیں مصر میں بھی راسخ تھے۔ مصر میں اس قسم کے نجات دہندہ اور سورج دیوتا کے اکلوتےبیٹے کے متعلق نظریات عام تھے  کیونکہ  ہورس دیوتاکے متعلق مصلوب ہونے کانظریہ تھاکہ اس نے صلیب پر اپنی جان دے کر انسانیت کو گناہ سے آزاد کیا۔

مصری مصلوب دیوتاہورس

مصر میں ایسے دیوتاؤں کے قصے عام تھے جو انسانیت کی نجات کے لیے مر گئے اور پھر زندہ ہوگئے۔ان میں سب سے مشہور کہانی ہورس دیوتاکی ہے جوکہ اوسائیرس اورآئسس(نورکادیوتا اور دنیاکی نجات دہندہ) کا بیٹا تھااورسورج کی پیدائش کاشخصی مظہر تھا۔خداکے بیٹے کے تجسم اختیار کرنے اور موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی کہانی سب سے پہلے قدیم مصر میں موجود تھی بعدازاں اسی عقیدے کو غناسطیوں اور یونانیوں سے اختیار کیا۔ان سے یہ عقیدہ عبرانیوں میں منتقل ہوا اور بالآخر ناواقفیت کی بناء پر مسیحیوں نے اس عقیدے کو اپنے مسلمہ عقائد کاجز بنادیا۔[1]

قدیم مصری دیوتاؤں میں ہورس ایک خاص اہمیت کاحامل ہے۔ماقبل تاریخ کے مصر سے لے کر رومی مصر تک اس  کی بطور دیوتا تعظیم کی جاتی تھی۔ہورس دیوتاکی شخصیت تین جہات کی تثلیث پر مشتمل ہے جس میں بچہ،جوان اوربوڑھاشامل ہیں۔ یہ مختلف جہات ہورس کی متعددخدائی حیثیتوں کے اظہار کے  لیے تھیں  کیونکہ قدیم مصر کے لوگ  حقیقت کے مختلف چہروں کودیکھا کرتے تھے۔[2]

الاقصور(Luxor)کےمقام پر قدیم مصری آثارقدیمہ کی دریافتوں میں ملنے والے ہزاروں سال پرانے معبد کی اندرونی دیواروں پر مصری بادشاہ آمن حوتب سوم کے حکم پرکی جانے والی ہورس کی تصویرکشی میں اس کی پیدائش کامنظر دکھایاگیاہے۔ان قدیم تصاویرمیں نومولودہورس کو دیوتاؤں کی طرف سے تعظیم دی جارہی ہےاورپس منظر میں صلیب کی علامت واضح طورپر موجود ہے۔[3]

                اناجیل میں پیش کردہ عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر قدیم مصری دیوتاہورس سے حیرت انگیز مماثلت رکھتی ہے۔ہورس کی پیدائش سے لےکر موت تک کے تمام واقعات انجیلی بیانات سے قدرے مشابہہ ہیں حتی کہ ہورس کی طرف منسوب اقوال وتعلیمات بھی اناجیل میں موجود عیسیٰ علیہ السلام کی مبینہ تعلیمات سے اس قدر ہم آہنگ دکھائی دیتی ہیں کہ علما نے اسے مسیحیت سے قبل مسیحیت کانام دے دیاہے۔[4]ٹوم ہاربر لکھتے ہیں۔

"انسانیت کی نجات کے لیے مصائب برداشت کرنے والے منجی کی داستان کسی تاریخی یسوع کےظہور سے بہت پہلے لکھی گئی۔اناجیل میں موجود یسوع کی زندگی کے واقعات دراصل مسیحیت سے قبل کسی مصیبت زدہ مسیح کی کہانی ہے جسے دستیاب شواہد کے مطابق زخم خوردہ اورمصلوب ہورس کی کہانی سے تعبیر کیاجاتاہے۔"[5]

محققین کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کے صلیبی واقعات ہورس کی موت کے وقت پیش آنے والے واقعات سے اس قدر کلی مطابقت رکھتے ہیں کہ گمان ہوتاہے کہ ایک ہی واقعہ کو دواشخاص پر چسپاں کیاگیاہے۔اناجیل کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کو دوچوروں کے ساتھ مصلوب  کیاگیااوربعدازاں مقبرے میں دفن کیاگیاجہاں تین دن بعد وہ دوبارہ زندہ ہوگئے۔دوسری طرف ہورس دیوتاکوبھی دوچوروں کے ساتھ مصلوب کیاگیا،مقبرے میں دفن کیااورپھروہ بھی  دوبارہ سے زندہ ہوگیا۔[6]

                مسیحی مذہبی ادب پر مصری اثرات کےحوالے سے لکھی گئی ہزاروں کتب کو تیسری صدی عیسوی میں مسیحیوں نے نذرِآتش کیا جس میں غناسطی علم الٰہیات کے ماہرباسلیدس(Basiliders) کی چوبیس جلدوں پرمشتمل عہد نامہ جدید کی تفسیر بھی شامل تھی۔یہ کتاب نہ صرف باسلیدس کے بائبلی مطالعہ کانچوڑ تھی بلکہ کسی مسیحی مفکر کی انجیل پر لکھی جانے والی پہلی تفسیر بھی تھی۔اپنی اس تفسیر میں اس نے قدیم مصری ،عبرانی اور یونانی معاشروں میں مروج روایات کی روشنی میں اناجیل  کاجائزہ لیااور اناجیل پرپڑنے والے قدیم مصری اثرات پر روشنی ڈالی تھی۔باسلیدس وہ مفکر تھاجس نے گمشدہ حکمتوں کے سراغ پانے اور قدیم پراسرار معموں کے حل کے لیے اپنی زندگی وقت کردی تھی۔ اسکندریہ کے کلیمنٹ  نے باسلیدس کوالوہی معاملات کے تفکر میں مستغرق فلسفی قرار دیاتھا۔[7]

قدیم مصری نشانِ صلیب انخ

مسیحیت سے ماقبل زمانوں میں صلیب کو مذہبی نشان کے طور پر استعمال کیاجاتارہاہے ۔بعض جگہ اسے شناختی علامت کے طورپر توکچھ مواقع پر عبادت اور ایمان کی اہمیت کےظہور  کی علامت بنایا گیا۔ مسیحیت سے قبل مشرک معاشروں میں مستعمل دوقسم کی صلیبی علامتیں ابتدائی مسیحیوں میں مروج رہی ہیں۔ قدیم مصرکی دریافتوں میں سےایک زندگی کانشان 'انخ'(ankh)ہے جوکہ یونانی حرف تہجیtauکی شکل کی طرح ہے۔قدیم قبطی مسیحیوں نے اسی نشان کو مستعار لےکر وسیع پیمانے پر استعمال کیا اورآج بھی اسی نشان کی باقیات قبطی مسیحیوں کی باقیات پر موجود ہیں۔صلیب کی دوسری شکلswastikaہے جوکہ نازی پارٹی کانشان بھی رہی ہے۔یہ صلیبی نشان کثیرابتدائی مسیحیوں کے مقبروں پر صلیب کےپوشیدہ نشان کےطورپرپایاگیاہے۔چوتھی صدی عیسوی میں قسطنطین بادشاہ سے قبل مسیحی صلیب کے نشان کی تصویرکشی کرنے میں انتہائی محتاط تھے کیونکہ موت کی علامت کے اس نشان کو استعمال کرنے پر معاشرہ انہیں پاگل اور خطرناک قرار دے سکتاتھا۔ قسطنطین نے مسیحیت قبول کرکے صلیبی سزائے موت کو ختم کردیااورصلیب کے نشان کو مسیحی ایمان کی علامت ٹھہرایا تو350 ء سے یہ نشان مسیحی آرٹ اورقبروں پرکنندہ کیاجانے لگا۔[8]

انخ کی صلیبی علامت

                قدیم مصری عقائد کےمطابق زندگی ایسی قوت تھی جو زمین کے گردچکرلگاتی تھی۔انسان سمیت ہرجاندار شےاسی قوت کامظہر اوراسی سے بندھی ہوئی تھیں۔[9]ان کانظریہ تھا کہ دنیاکی تخلیق کے ساتھ ہی زندگی وجود میں آئی اورسورج کے نکلنے اور غروب ہونے جیسے واقعات تخلیق کے اصل واقعات کی تجدید تھے جو زندگی کو کائنات میں اصل حالت کےساتھ ازسرنو حیات بخشتے تھے۔زندگی کاپھیلنا دیوتاؤں کی بنیادی قوت تھی جو اس قدرتی پھیلاؤں پر حکومت کرتے تھے۔اسی لیے قدیم مصری دریافتوں میں انخ کی علامت متعددمواقع پر مختلف دیوتاؤں کے ہاتھ میں نظرآتی ہے جوکہ "حیات بخش اختیار"کی طرف اشارہ کرتی ہے۔انخ کاعلامتی نقش جسمانی وروحانی دونوں قسم کی زندگی کی ابدیت کو ظاہر کرتاہے۔انخ درحقیقت ایک صلیب ہے جس کے ساتھ ملحق حلقہ کے ذریعہ دیوتااسے تھام لیا کرتے تھے۔مشہور فرعون مصرتوتن خامن(Tutankhamen) کے خزانے سے بھی کلیدی شکل میں انخ کی صلیبی علامت برآمد ہوئی ہے۔[10]

قدیم مصری اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ جب وہ مرجائیں گے تواس کے بعدانہیں اسی طرح دوبارہ سے پھر زندہ کیا جائے گا۔[11]اسی وجہ سے اکثر قدیم مقبروں میں دیوتاؤں کو مختلف انسانوں بالخصوص فرعونوں کو انخ کی علامت دیتے ہوئے دکھایاگیاہے۔[12] مصر کی درمیانی سلطنت کے اختتام سےقبل دیگرانسانوں کی نسبت فراعینِ مصر کو شاذونادر ہی انخ کی صلیبی علامت تھامے یاہبہ کرتے ہوئے دکھایاگیاہے۔اس وقت تک مصرکوفرعون کانمائندہ سمجھا جاتا تھا لہذا فرعونوں کو انخ کی صلیبی علامت تفویض کرنے کامطلب دراصل مصری قوم کو دیوتاؤں کی طرف سے زندگی عطا کرنا تھا۔[13]

وقت کے ساتھ ساتھ تصورِحیات کے مفہوم میں وسعت آگئی اور انخ کی صلیبی علامت ہوا اورپانی پر بھی دلالت کرنے لگی۔ قدیم مصری آرٹ میں دیوتاؤں کو فرعونوں کی ناک کے پاس انخ کی علامت اٹھائے زندگی کا سانس عطاکرتے دکھایا گیاہے۔[14]قدیم مصری مذہبی آرٹس سے زیادہ آئینوں،مختلف غلافوں اور پھولوں کے گلدستوں میں بطور تزئین وآرائش انخ کا نشان استعمال کیا گیاہے۔انخ کی علامت سب سے زیادہ عمومی انداز میں عمارتوں،مقبروں اور مختلف معبدوں کی دیواروں پر کنندہ نظر آتی ہے۔[15]معبدوں کی دیواروں پر کی جانے والی سنگ تراشی میں وس(was)اورڈجیڈ(djed)جیسی علامات  کے ساتھ انخ کااشتراک 'حیات،حکومت،استحکام' کو ظاہر کرتاہے اور پتح (Ptah) اور اسائریسس(Osiris)کوان علامات کواٹھائے ہوئے دکھایاگیاہے۔[16]

                مصریو ں میں تعویز پہننے کا بھی رواج تھا اوروہ مختلف علامات کو بطورتعویز استعمال کرتے ہوئے گلے میں لٹکاتے تھے۔ مصریوں کی  زندگیوں میں ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی تعویز کااستعمال کیاجاتاتھا۔وہ اپنے مردوں کے گلے میں تعویز اس امر کویقینی بنانے کےلیے باندھتے تھے کہ اس کی برکت سے متوفی آخرت میں بہترین حالت پائے گا۔تعویزی علامتوں کایہ استعمال قدیم سلطنت کے آخر میں شروع ہوا تھا اور ایک ہزارقبل مسیح تک اس کی موجودگی کا ثبوت ملتاہے۔ ان تعویزوں پر کنندہ علامات کی اہمیت کے باوجود انہیں عجیب ہی سمجھا جاتاتھا۔تعویز کے طورپر گلے میں پہنی جانے والی علامات میں انخ کو خاص اہمیت حاصل تھی کیونکہ یہ حیات کانشان متصور کی جاتی تھی۔[17]

قبطی مسیحیوںمیں انخ کااستعمال

قدیم مصری امتیازی علامتوں میں سے ایک علامت 'انخ'کااستعمال مصرمیں مسیحیت کے پھیل جانے کے بعد  چوتھی اور پانچویں صدی تک جاری رہا۔[18]یہ نشان چونکہ مسیحی صلیب سے مشابہت رکھتاتھا لہذا دیگرمسیحیوں کی طرح قبطی مسیحیوں نے اسے عیسیٰ علیہ السلام  سے منسوب مبینہ نشان 'صلیب' کے طور پر استعمال کیا[19]انخ کی صلیبی علامت کے استعمال کا ثبوت تیسری یاچوتھی صدی عیسوی کے یہوداہ اسکریوطی کی انجیل کے نسخے سے بھی ملتاہے۔[20]

قسطنطنیہ کے سقراط کے مطابق جب مسیحی 391 عیسوی میں اسکندریہ کے عظیم ہیکل کو منہدم کررہے تھےتوانہوں نے پتھروں پر صلیب سے ملتا جلتا نشان کنندہ دیکھے۔ وہاں موجود بت پرستوں نے اس نشان کا مطلب 'زندگی بخشنا'قرار دیا جبکہ مسیحیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ نشان بت پرستوں کے بجائے ان کا ہے۔اس طرح سے انخ کانشان مصری مسیحیت میں مروج ہوگیا۔[21]

 



[1] Tom Harrpur, The Pagan Christ: Recovering The Lost Light, p 80.

[2] “The Two Babylons- The Sign of Cross,”

[3] جان جی جیکسن،انسان،خدااورتہذیب ،ص146-147۔

[4] Harrpur, The Pagan Christ: Recovering The Lost Light, 78–79.

[5] Harrpur, 112.

[6] Harrpur, 84.

[7] Harrpur, 113.

[8] Michael Levy, “Cross Religious Symbol,” in Encyclopædia Britannica, n.d., 

[9] Ragnhild Bjerre Finnestad, “Egyptian Thought about Life as a Problem of Translation,” in The Religion of the Ancient Egyptians : Cognitive Structures and Popular Expressions, p 29–38.

[10] Nur Ankh Amen, The Ankh: African Origen of Electromagnetism, p 19.

[11] Vincent Arieh Tobin, Theological Principles of Egyptian Religion, pp 197–198, 206–208.

[12] Tobin, 197–198.

[13] Jane A. Hill, “Window between Worlds: The Ankh as a Dominant Theme in Five Middle Kingdom Funerary Monuments,” in Millions of Jubilees : Studies in Honor of David P. Silverman, pp 240, 242.

[14] Richard H. Wilkinson, Reading Egyptian Art : A Hieroglyphic Guide to Ancient Egyptian Painting and Sculpture, pp 177–179.

[15] Wilkinson, 177.

[16] Wilkinson, 181, 199.

[17] Carol (Carol A. R.) Andrews, Amulets of Ancient Egypt, p 6, 86.

[18] Du Bourguet Pierre, “Art Survivals from Ancient Egypt,” in The Coptic Encyclopedia, 1991, 

[19] Larry W. Hurtado, The Earliest Christian Artifacts : Manuscripts and Christian Origins, p 136.

[20] Jonathan. Bardill, Constantine, Divine Emperor of the Christian Golden Age, p 166–67.

[21] Bardill, 167–68.


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔