گلیل اور اس کے گرد و نواح میں یسوعؑ کی منادی
تحقیق و تحریر:ڈاکٹر عبداللہ غازیؔ
گلیل
یسوعؑ کا گلیل میں اپنی منادی کا آغاز کرنا ایک حیران کن
امر ہے اسی لیے کچھ مفکرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ عہدنامہ عتیق
میں گلیل کو کوئی ایسا اختصاص حاصل نہیں کہ موعود المسیح کا ظہور یہاں سے ہوگا یا
پھر وہ اپنی منادی اور مساعی کا آغاز اس خطے سے کرے گا اس لیے یہ سوال اہمیت
اختیار کر جاتا ہے کہ یسوعؑ نے اپنی منادی گلیل سے ہی کیوں شروع کی؟ ممکن ہے کہ یسوعؑ
کا گلیل سے منادی شروع کرنے کا فیصلہ اس وجہ سے ہو کہ یہ خطہ مکمل طور پر یہودی نہ
تھا بلکہ یہاں دیگر اقوام بھی آباد تھیں۔ اس کے علاوہ اہم ترین بات یہ بھی تھی
کہ گلیل اُن یہودی قوم پرستوں کی آماج گاہ
تھا جنہوں نے رومی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا تھا۔([1]) یسوعؑ
مسیح کے شاگردوں میں شمعون غیور اور یہوداہ اسکریوطی جیسے حریت وعسکریت پسندوں کی
موجودگی دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کا انتخاب بھی یسوعؑ نے اسی علاقے
سے کیا گیا تھا۔
یہودی مذہبی مرکز”یروشلم“ سے کافی فاصلے پر واقع ہونے کی
وجہ سے گلیل میں قوم پرستوں اور حریت پسندوں کے لیے روپوش ہونے کے بڑے آسان مواقع
تھے اور گلیل کے دوردراز علاقے ان کے چھپنے کے لیے بے حد معاون ثابت ہوتے تھے جہاں رہ کر وہ
یہودیہ سے تعلق برقرار رکھ سکتے تھے۔ گلیل کے اہم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ
یہ علاقہ براہ راست رومی عمل داری سے باہر تھا اور یہاں ہیرودیئن خاندان قابض
افواج کے ذریعے اپنا اقتدار برقرار رکھے
ہوئے تھا۔ ان ہیرودیوں کے مخالف قوم پرست یہودیوں کے لیے آسان تھا کہ وہ
گلیل کے پہاڑوں اور دوردراز علاقوں میں آسانی سے چھپ جائیں۔ یہاں کے یہودی اپنی
سخت دلی کے باعث مشہور تھےاسی لیے یہاں سے عسکریت پسندوں کو افرادی قوت بھی فراہم
کی جاتی تھی۔ قدیم یہودی مؤرخ یوسفیس (جوکہ گلیل کے انتظامی حکومتی عہدے پر بھی
فائز رہا تھا) گلیلی یہودیوں کی جارحانہ فطرت کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ لوگ ماں
کی گود سے ہی جنگجو ہیں اور ہر دور میں ان
کی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ ([2])
کفرنحوم
کفرنحوم کی نسبت ناصرت
کے بارے میں ہماری معلومات نہایت محدود ہیں کیونکہ یہ اس قدر چھوٹا سا گاؤں تھا کہ
عہدنامہ عتیق، یوسفیس اور دیگر ربائی تحاریر میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
نیز کفرنحوم کسی مرکزی شاہ راہ پر نہیں
بلکہ یہ سفورس نامی گلیلی شہر کے مشرق میں چند میل کے فاصلے پر واقع تھا جس کی وجہ
سے اسے اتنی مقبولیت حاصل نہ تھی۔ اناجیل اربعہ کے مطابق یسوعؑ نے اپنی منادی کا
آغاز گلیل کے قصبے کفر نحوم سے کیا جو گلیل کے سمندر کے جنوب میں واقع مچھیروں کا
ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یسوعؑ مسیح کی منادی کے بیشتر واقعات اسی قصبے کے ارد گرد
گھومتے نظر آتے ہیں۔ کفرنحوم کے قریب سے ہی یسوعؑ نے اپنے بڑے شاگردوں پطرس و
اندریاس، یعقوب و یوحنا کو جمع کیا تھا۔ مرقس کے مطابق کفر نحوم میں پطرس کا گھر
بھی تھا جہاں یسوعؑ نے اس کی ساس کو شفاء بخشی تھی۔ اس کے علاوہ کفرنحوم کے ہی ایک
یہودی عبادت خانے (سینگاگ) میں یسوعؑ نے ایک مفلوج کو تندرست کیا تھا۔([3])یہ
کفرنحوم ہی تھا جہاں یسوعؑ نے محصول لینے والے لاوی کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔
اناجیل اربعہ میں بظاہر یہ ابہام نظر آتا ہے کہ اپنی منادی
کے دوران یسوعؑ مسیح گلیل میں کہاں رہے ؟ تاہم اس حوالے سے انجیل مرقس سے ایک خفیف
اشارہ ملتا ہے کہ کفرنحوم میں یسوعؑ کا
گھر بھی تھا۔ اس بات کا استدلال محققین نے مرقس کی عبارت”وہ اس کے گھر میں کھانا
کھانے بیٹھا“([4])
سے کیا ہےکہ ”اس کے گھر“ سے مراد یسوعؑ کا گھر ہے ۔ دوسرے لفظوں میں کفرنحوم میں
یسوعؑ کا گھر ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔مرقس۲ :۱ سے بھی اس بات
کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفرنحوم میں یسوعؑ کا گھر موجود تھا اور مختلف جگہ منادی کرنے
کے بعد یسوعؑ وہاں لوٹ جاتے تھے۔ مرقس کے مطابق ”سب سے بڑا کون ہے؟“ کے متعلق
شاگردوں میں بحث بھی کفر نحوم میں ہی ہوئی تھی([5])اور
اسی قصبے میں شاگردوں نے ہیکل میں نصف
شیکل دینے کی بابت تکرار کی۔([6]) کفر
نحوم میں اس قدر واقعات ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر کفر نحوم کوئی غیرمعمولی
علاقہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کا تعلق کسی مسیحیانہ پیش گوئی سے تھا۔
عبادت خانے(سینگاگ)
یسوعؑ مسیح کی زندگی کا تصوراتی خاکہ کھینچنا ہمارے لیے اس
وقت نہایت سہل ہوگا جب ہم انجیلی واقعات کو تشکیل دیں کہ یہ کب اور کہاں رونما
ہوئے؟ اس حوالے سے یہودی عبادت خانوں(سینگاگس) اور چند دیگر مقامات کا جائزہ لینا
ضروری ہوگا جہاں انجیل کے مطابق یسوعؑ نے پہلی مرتبہ لوگوں کو جمع کیا۔ اگرچہ بہت
سے علما کا خیال ہے کہ پہلی صدی عیسوی کے فلسطین میں عبادت خانوں کا کوئی وجود نہ
تھا۔(اس کا مطلب یہ ہے کہ اناجیل میں جن چند عبادت خانوں کا ذکر ملتا ہے وہ اُس
وقت تک وجود میں آچکے تھے جب اناجیل کامتن تشکیل دیا جا رہا تھا تاہم یہ عبادت
خانے یسوعؑ کے وقت میں موجود نہیں تھے وگرنہ ہیکل کا وجود بےمعنی ہو جاتا ہے)
ہمارا فی الوقت موضوع بحث یہ ہے کہ یسوعؑ نے کس وقت اور کن
حالات میں لوگوں کو خدا کی بادشاہت کےمتعلق اپنے نظریات سے آگا ہ کرنا شروع کیا؟
کیا یہ درست ہے کہ وہ ہرقصبے میں داخل
ہوتے اور بآسانی کسی بھی عبادت خانے
(سینگاگ) میں داخل ہوکر لوگوں کو تعلیم دینے لگتے؟ کیا واقعی انہوں نے عبادت خانے
کے برآمدے میں کھڑے ہو کریسعیاہ کے طومار کی تشریح کی؟ کیا معاشرتی طور پر قابل
قبول تھا کہ ایک اجنبی شخص سینگاگ میں داخل ہو کر وعظ دینے پر اصرار کرے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے یہ جاننا ضروری ہے
کہ یہودی عبادت خانے(سینگاگ )کیسے تھے اور
وہاں لوگ کیا کرتے تھے؟ اگرچہ اس بارے میں بالوثوق کہنا مشکل ہے کہ یہ
عبادت خانے کب اور کہاں منظم ہوئے تاہم ہیکل کے زمانے میں سینگاگ نہیں تھے۔
قدیم زمانے میں ہیکل وہ جگہ ہوا کرتی تھی جہاں لوگ جانوروں
کی قربانی کر کے عبادت کرتے تھے اور ہیکل کو سب سے مقدس جگہ سمجھا جاتا تھا۔ دیگر
قدیم مذاہب میں بہت سے ہیکل ہوا کرتے تھے جہاں مختلف دیوتاؤں کے مجسمے رکھے جاتے
تھے مگر یہودیت میں صرف ایک ہی ہیکل تھا جو یروشلم میں تھا۔ اس کا اندرونی پاک
مقام خالی تھا جسے اَن دیکھے خدا کی پرستش سے تعبیر کیا جاتا تھا۔
اس کے برعکس سینگاگس کو وہ تقدس و مرتبہ حاصل نہ تھا جو
ہیکل کو تھا۔ ہیکل یہودی قربانی کا مرکز تھا اور یہودی زائرین دور دراز سے سفر کر
کے یروشلم آتے تھے تاکہ ہیکل میں اپنی قربانی ادا کر سکیں جب کہ سینگاگس میں
قربانی کی رسم ادا نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسی طرح ہیکل میں داخلے کے لیے رسمی
پاکیزگی و طہارت ضروری تھی اور اس پاکیزگی کے بغیر ہیکل میں داخل ہونا گستاخی اور
بےادبی سمجھا جاتا تھا مگر سینگاگس میں داخلے کےلیے رسمی پاکیزگی کی شرط ضروری
نہیں تھی بلکہ وہاں ہر شخص جا سکتا تھا۔
یہودی ان سینگاگس میں
وہ سب کچھ کر سکتے تھے جو عموماً لوگ کسی تقریب میں جمع ہو کر کرتے ہیں۔ سینگاگ
میں کھانا، پینا، گانا، عبادت ، تقریر و
مباحثے سب کچھ کیا جا سکتا تھا جب کہ ہیکل
میں داخلے کے مخصوص آداب تھے جن کی پاسداری ہر زائر کے لیے ضروری تھی مگر سینگاگس
کے بارے میں بائبل میں ایسے قوانین موجود نہیں۔
عام طور پر یہودی سبت کے دن عبادت خانوں میں جمع ہوتے اور مقدس صحیفوں کی
تلاوت کرتے اور ان پر عمل کرنے کے لیے آپس میں بحث مباحثہ کرتے۔ بعض اوقات ایسا
بھی ہوتا کہ ایک مخصوص استاد عبادت خانے میں کھڑا ہو کر تعلیم دیتا اور دیگر لوگ
اسے بغور سنتے اور سیکھتے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کفرنحوم کے عبادت خانے
میں یہودیوں نے کیسے یسوعؑ کو وعظ کرنے کی اجازت دے دی حالانکہ یسوعؑ کا تعلق
کفرنحوم کے بجائے ناصرہ سے تھا؟ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کفرنحوم میں یسوعؑ
کاگھر تھا جہاں وہ رہائش پذیر تھے تو بظاہر یہ اعتراض ہی ختم ہو جاتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل متی کے مطابق
یسوعؑ کا ناصرہ سے تعلق ہی ان کی پہچان تھا اور ان کا ناصری ہونا ایک نہیں بلکہ
متعدد انبیاء کرامؑ کے نوشتوں اور پیش گوئیوں کے عین مطابق تھا۔([7]) ایسے
حالات میں کیسے کفر نحوم کے لوگ اپنے عبادت خانے میں ایک دوسرے علاقے کے اجنبی شخص
کوگفتگو کرنے کی اجازت دے سکتے تھے؟یسوعؑ
کا سینگاگ میں یسعیاہ نبی کا طومار پڑھنا سینگاگ کے اصولوں اور اغراض کے
عین مطابق تھا تاہم سینگاگس کے اغراض و مقاصد میں دعا کرنا بھی شامل تھا اسی لیے یونانی
زبان میں ان عبادت خانوں کو ”بیت الدعا“ یعنی دعا کا گھر کہا جاتا تھا۔([8])
جب تک ارض فلسطین پر
یہودی ہیکل موجود تھا، تب تک یہودیوں نے منظم انداز میں عبادت خانے بنانے کا سوچا
بھی نہیں تھا۔ عین ممکن ہے کہ بابلی اسیری کے بعد عبادت خانے وجود میں آئے ہوں
لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور اس کی تعمیر کا سبب ہیکل یروشلم سے
بُعد تھا ۔ ۶۶ء میں برپا ہونے والی یہودی بغاوت کے نتیجے میں رومیوں نے یروشلم کے
ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اسے صفحہ ہستی سے معدوم کردیا۔ ہیکل کا انہدام
بڑے پیمانے پر عبادت خانوں (سینگاگس ) کے آغاز کا سبب بنا۔ بعض اسکالرز کے مطابق
یہ عبادت خانے بابل کی اسیری کے دوران وجود میں آئے جب کہ کچھ علما کا خیال ہے کہ
یہ ان کی شروع یونانی عہد میں ہوئی، تاہم حقیقت کچھ بھی ہو مگر پہلی صدی عیسوی میں
انہدام ہیکل کے بعد یہ عبادت خانے ہیکل کی عبادت کی متبادل جگہ کے طور پر موجود
تھے۔ آثارِ قدیمہ کی دریافتوں میں جو عبادت خانے دریافت ہوئے ان کا تعلق تیسری اور
چوتھی صدی عیسوی سے ہے۔۱۹۶۰ء میں گلیل کے سمندر کے کنارے کفرنحوم میں کھدائی کے
نتیجے میں ایک عبادت خانہ اور چند گھر دریافت ہوئے جن کا تعلق پہلی صدی عیسوی کے
مچھیروں کے زمانے سے تھا۔ ان گھروں میں سے ایک گھر پر پانچویں صدی عیسوی میں یعنی
یسوعؑ کے چار سو سال بعد مسیحی گرجا گھر تعمیر کیا گیا تھا۔ محققین کے مطابق اس
گرجا گھر کے عبادت گزاروں کا خیال تھا کہ یہ گرجا مقدس پطرس کے گھر کے اوپر بنایا
گیا تھا جو کہ یسوعؑ مسیح کا سب سے قریبی ساتھی تھا۔([9])انجیل
کے مطابق مقدس پطرس کا گھر سینگاگ کے قریب تھا لہذا پانچویں صدی عیسوی میں مسیحیوں نے اس گھر کو مقدس پطرس سے منسوب کر دیا
۔
گلیل کے لوگ
گلیل کے عبادت خانوں
میں جمع ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق اس طبقہ سے تھا جو زمینوں پر کھیتی باڑی
کرتے یا گلیل کے سمندر کے کنارے مچھلیاں پکڑتے۔ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں میں
رہنے والوں کی زندگی میں مزید پیشے بھی شامل تھے۔ کشتیاں سمندر کے ایک کنارے سے
دوسری طرف اشیائے خورد و نوش کی ترسیل و
تجارت کے لیے سفر کرتی تھیں یا پھر ان کشتیوں کے ذریعے مچھلیاں پکڑی جاتیں۔ مختلف
غذائی اشیاء کی ترسیل بنیادی روزگار ِ زندگی تھا۔ گلیل بےحد زرخیز علاقہ تھا اور
اس کا ماحول زراعت کے لیے بے حد مفید تھا۔ یوسفیس کے مطابق گلیل کے گرد و نواح میں
اخروٹ، کھجور، زیتون اور انجیر کے درخت تھے جو قدرے نرم موسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔
گلیل کا موسم اس قدر سازگار تھا کہ یہاں انگور و انجیر کو سکھا کر مہینوں کے لیے
محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ ([10])
کفرنحوم بھی گلیل کے ساحل پر واقع تھا۔ گلیل کے سمندر کو گناسرت بھی کہا
جاتاتھا تاہم قدیم مؤرخین لوقا،یوسفیس اور پلینی بزرگ نے اپنی تحاریر میں اسے
”جھیل“ لکھا ہے۔ یہ تیرہ میل طویل اور آٹھ
میل چوڑا ایک چھوٹا سمندر ہے جس میں چھوٹی کشتیاں چلتی تھیں۔ سمندر سے مچھلیاں
پکڑنے کے لیے جال استعمال کیے جاتے تھے ۔ بعض جال ایسے بھی تھے جو خشکی اور کشتی
دونوں جگہ سے ہی سمندر میں ڈالے جا سکتے تھے۔ اس قسم کا جال انجیل مرقس میں شمعون
اور اندریاس کی کہانی میں نظر آتا ہے جو کنارے سے ہی سمندر میں ڈالا جاتا تھا۔
”اور گلیل کی جھیل کے کنارے کنارے جاتے ہوئے اس نے شمعون
اور شمعون کے بھائی اندریاس کو جھیل میں جال ڈالتے دیکھا کیونکہ وہ ماہی گیر تھے۔“([11])
شمعون اور اندریاس دونوں ہی اپنے جال کو سمندر میں چھوڑ کر یسوعؑ مسیح کے
پیچھے چل پڑے۔ یہاں کسی کشتی کا ذکر نہیں ملتا ہے جب کہ جب یسوعؑ نے یعقوب اور
یوحنا کو شاگرد بنایا تو وہ کشتی میں تھے اور اپنے جالوں کی مرمت کر رہے تھے۔([12])اس
سے ایک معاشرتی تفریق معلوم ہوتی ہے کہ معاشرے میں دو قسم کے مچھیرے لوگ تھے جن
میں سے ایک ساحل سے ہی مچھلیاں پکڑتے تھے جب کہ دوسرے وہ لوگ تھے جن کے پاس کشتیاں
اور بڑے جال تھے۔ مچھلیاں پکڑنا اس وقت منافع بخش کاروبار تھا اسی لیے یسوعؑ بھی
اپنے شاگردوں کو خدا کی بادشاہت کی تمثیل بیان کرتے ہوئے ایسے جال سے تشبیہ دیتے ہیں جسے سمندر میں ڈالا
گیا ہو۔([13])
یسوع کی مقبولیت یا اجنبیت؟
متی اور مرقس میں یسوعؑ خرازین اور بیت صیدا پر افسوس کرتے
ہیں کہ اتنے بڑے معجزات دیکھنے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے۔ ”جو معجزے تم میں
ظاہر ہوئے اگر صور اور صیدا میں ہوتے تو وہ ٹاٹ اوڑھ کر اور خاک میں بیٹھ کر کب کے
توبہ کر لیتے۔“([14])ان
شہروں پر یسوعؑ کا افسوس کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ان شہروں اور یسوعؑ کے درمیان شدید
تنازع موجود تھا جب کہ دوسری طرف مرقس ان علاقوں میں یسوعؑ کو مشہور و معروف ظاہر
کرتا ہے۔ یسوعؑ کا ان علاقوں پر افسوس کرنا واضح کرتا ہے کہ یسوعؑ کو ان علاقوں سے
ایسا ردعمل نہیں ملا جس کی انہیں توقع تھی۔ یہی صورت حال انہیں اپنے آبائی علاقے
ناصرت میں درپیش تھی جہاں ان کا پیغام مسترد کر دیا گیا تھا۔ انجیل مرقس کے مطابق
یسوعؑ نے وہاں کوئی معجزہ نہیں دکھایا ماسوائے یہ کہ صرف تھوڑے سے بیماروں پر ہاتھ
رکھ کر انہیں اچھا کردیا اور ا ن کی بےاعتقادی پر تعجب کیا۔([15])
گلیلی علاقہ سفورس
انجیل نویس کفرنحوم
جیسے غیر معروف اور چھوٹے سے گاؤں کا تو ذکر کرتے ہیں مگر حیرت انگیز طور پر سفورس
نامی گلیل کے شہر کے بارے میں کچھ بیان نہیں کرتے جو یونانی و رومی تہذیب (Graeco-Roman Civilization)کا شاندار امتزاج رکھتا تھا۔یسوعؑ مسیح کے آبائی گاؤں ناصرت کے
لوگ بڑی تعداد میں سفورس کی طرف تجارتی غرض سے سفر کرتے اور اپنا تجارتی سامان
یہاں فروخت کرتے تھے۔اس سامان تجارت میں زیادہ تر کھانے پینے کی اشیاء شامل تھیں
جنہیں یہ لوگ سفورس میں فروخت کر دیتے اور سورج غروب ہونے سے قبل ہی اپنا سامان
سمیٹ کر واپس ناصرت کی طرف لوٹ جاتے تاکہ اندھیرا ہونے کے بعد راستے میں کوئی شے
انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ لوگوں کا رہن سہن زیادہ تر دیہاتی تھا اور یہ لوگ اتنا
نہیں کماتے تھے کہ سفورس جیسے شہر میں رکتے ، رومی تھیٹروں میں ڈرامے دیکھتے،
خریداری کرتے اور یہاں بےجا پیسے خرچ کرتے۔([16])
کئی سالوں تک سفورس
گلیل کا مرکزی شہر رہا تھا تاہم ہیرودیس اعظم کی موت کے بعد ۴ قبل مسیح میں یہودیوں
نے بغاوت کردی جس کے نتیجے میں یہ شہر تباہ ہو گیا اور رومیوں نے اسے نہ صرف آگ
لگا کر راکھ کر دیا بلکہ اس کے باشندوں کو غلام بنا کر فروخت کر دیا حالانکہ
اکثریت کا تعلق یہودی باغیوں سے نہیں تھا۔([17])/([18])ہیرودیس
اینٹی پاس نےکچھ ہی عرصے بعد اس شہر کی پھر سے تعمیر نو کی اور اسے اس طرح سجایا
کہ یہ شہر ”گلیل کا جھومر“ کہلایا جانے لگا۔۶۶ عیسوی میں ہونے والی یہودی بغاوت
میں یہ علاقہ رومیوں کا حامی رہا اور یہاں رومی فوجیوں کی چھاؤنی بنائی گئی۔([19])
طبریاس
یہ شہر ہیرودیس اینٹی پاس کےعہد میں ۲۵ء میں گلیل کے سمندر کے کنارے بطور دارالحکومت
تعمیر کیا جار ہا تھا جب کہ اسی دوران یسوعؑ مسیح بھی ناصرہ میں نشوونما پا رہے
تھے۔ اس کی آبادی کی اکثریت یہودیوں پر
مشتمل تھی تاہم راسخ العقیدہ یہودی یہاں جانے سے پرہیز کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ
تھی کہ یہ شہر قبرستان پر تعمیر کیا گیا تھا اور یہودی شریعت میں کسی قبر یا لاش
کو چھو لینے کے نتیجے میں ناپاکی لاحق ہو جاتی تھی جسے ختم کرنے کے لیے چھ دن تک
رسمی طہارت کے ایام پورے کرنے پڑتے تھے۔ اسی لیے راسخ العقیدہ یہودی اس شہر کا رخ
کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ البتہ یسوعؑ مسیح یقینا اس شہر سے گزرتے ہوں گے کیونکہ جب
بھی انہوں نے کفرنحوم سے جنوبی گلیل یا یہودیہ کی طرف سفر کیا ہوگا تو انہیں لازمی
اسی شہر سے گزرنا ہوا ہوگا کیونکہ یہ شہر اسی راستے میں آتا ہے۔([20])
یہودی دیکاپولس
گلیل کے سمندر کے مشرقی ساحل پر مقدونیہ اور جدید یونان کے
دس شہر آباد تھے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم نے کئی بڑے شہروں کو آ باد
کیا اور انہیں سیاسی آزادی دی۔ یہاں کی اکثر آبادی سابقہ فوجیوں پر مشتمل تھی
جنہیں حکومت کی طرف سے یہاں زمینیں عطا کی گئیں۔ ان میں سے بعض لوگ یہاں زمیندار و
کسان بن گئے جب کہ بعض ہنرمندوں نے مختلف پیشے اختیار کر لیے تاہم یہ لوگ پوری طرح
سلطنت کے وفادار رہے۔ یہ شہر رومیوں کے لیے دفاعی حصار کا کام دیتے تھے اور اس منصوبہ بندی کے تحت آباد کیے گئے تھے
کہ صحرا کی جانب سے کسی بیرونی مداخلت کو یہاں سے روکا جا سکے۔حشمونی بادشاہ سکندر
یونیاس نے ان میں سے کئی شہروں پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا تھا مگر جب جنرل پومپائی
نے فلسطین پر حملہ کیا تو ان شہروں پر پھر سے قبضہ کرلیا اور یہودی حکومت ختم کرکے
یہاں اپنے سکے جاری کر دیئے۔ مرقس کے مطابق یسوعؑ دو مرتبہ دیکاپولس کے علاقے میں گئے مگر کسی شہر میں
داخل نہیں ہوئے۔ ([21])اسی
طرح وہ ایک بار صور اور صیدا کے شہروں کی طرف گئے جو دو بڑے ساحلی شہر تھے جہاں
اکثریتی آبادی یہودیوں کی تھی مگر یسوعؑ ان شہروں میں داخل نہ ہوئے۔([22])
([9])
Jean-Yves Leloup, The Gospel of
Philip: Jesus, Mary Magdalene, and the Gnosis of Sacred Union, p 7.

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔