عیسیٰ علیہ السلام اور تالمود
تحقیق و تحریر:
ڈاکٹر عبداللہ غازیؔ
عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت
ابتدائی صدی عیسوی کے یہودیوں میں کبھی معتبر نہیں رہی۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہودی مسیحیوں کوایک بدعتی جماعت
خیال کرتے تھے ۔وہ مسیح علیہ السلام کوایک بدعتی استاد سمجھتے تھے اسی وجہ سے
انہوں نے اپنے مذہبی ادب میں عیسیٰ علیہ السلام کاذکر اگرکیابھی تونہایت حقارت اور
ذلت آمیز القابات کے ساتھ کیاہے۔یہودی ادب میں مسیح علیہ السلام کو 'Ben Stada'،'Balaam'
اور'ایک مخصوص شخص' کہاگیا[1]
جبکہ ان کی والدہ پر طرح طرح کی تہمتیں
لگائی گئیں ہیں۔یہودیوں کایہ رویہ اناجیل اربعہ میں اگرچہ مفقود ہے مگر یہودی
مذہبی ادب میں یہ رویہ پوری طرح عیاں ہے۔ اس مذہبی ادبی ذخیرے کی سب سے بڑی کتاب
تالمود ہے ۔تالمود میں چندمقامات ایسے ہیں جس کے بارے میں علما کویقین ہے کہ وہ
عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں ہیں ۔انہی میں سے ایک مقام پر ایک شخص کے لیے
'یشوع'(Yeshu)نام استعمال کیاہےجوکہ عبرانی نام یشوعا(Yeshua)کاآرامی
تلفظ ہے۔[2]بعض
مقامات پر بغضِ قلبی کی وجہ سے (Jeschu) لفظ بھی
لکھاگیاہے جوکہ یہود کے نزدیک تین الفاظ کے ابتدائی حروف کامجموعہ ہے،وہ تین لفظ (ummorch)(schemo)(wazhkio)ہیں
جن کامفہوم ہے"خداکرے کہ اس کانام اوراس کاذکر مٹ جائے"۔[3]اس
کے علاوہ بابلی تالمود کی کتنی ہی روایات ہیں جوایک 'مخصوص شخص 'کاذکر کرتی ہیں
جومصرسے جادوگری سیکھ کرآیاتھا۔اس شخص کو'Son of Pandera'یا'Son of Stada'
کے نام سے شناخت کیاجاتاہے۔یشوع نام کے ساتھ 'son of pedera'کا
واضح تعلق بابلی تالمود کے بجائے یروشلمی تالمود میں پایاجاتاہے۔یروشلمی تالمود
میں پائے جانے والا یہ واضح تعلق علما کے
اندر باعث نزاع صرف اس وجہ سے رہاکہ اس میں 'یشوع'نام کچھ صحیفوں میں متن کے بجائے
حاشیوں پر لکھاگیاتھا لیکن بہت سے علماکے مطابق یہ یروشلمی تالمود کاہی حصہ ہے۔[4]
ایک قدیم یہودی
کتاب'Toledot Jeshu'میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق روایات پائی جاتی ہیں۔
اس کتاب کے مطابق یہودی سرداروں نے انہیں ولدالزنا(نعوذباللہ) اس وقت قراردیاجب وہ
ان کے سامنے کھلے سر گھوم رہے تھے۔نیزاسی کتاب میں عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے
بارے میں کچھ اس طرح وارد ہواہے۔
ایک مرتبہ چندبزرگ شہرکے دروازے پربیٹھے
تھے کہ دونوجوان وہاں سے گزرےجن میں سے ایک کاسر کپڑے سے چھپاہواتھا جبکہ دوسرے
کاسرکھلاہواتھا۔ ربائی العزر نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ جس کاسرننگاہے یہ
ولدالزناہے۔ربائی جوشوانے کہاکہ وہ ایام حیض کے دوران حمل میں آیاتھا۔تاہم ربائی
عقیبہ نے کہاکہ یہ شخص ولدالزنابھی ہے اوریہ حالت حیض میں حمل میں آیا۔ دوسرے
لوگوں نے ربائی عقیبہ سے پوچھاکہ توکیسے اپنے ساتھیوں سے اختلاف کررہاہے؟اس نے
جواب دیاکہ وہ اپنی بات کاثبوت دے سکتاہے۔ چنانچہ وہ اس لڑکے کی ماں کی طرف گیا
جسے اس نے بازار میں سبزیاں فروخت کرتے ہوئے دیکھاتھا۔اس نے اس سے کہا کہ اے میری
بیٹی اگرتومیری بات کادرست جواب دے گی تو میں وعدہ کرتاہوں کہ تو اگلے جہاں میں
محفوظ ہوگی۔ اُس عورت نے کہاکہ توقسم اٹھا
چنانچہ ربائی عقیبہ نے قسم اٹھائی پھراس نے کہا کہ بتایہ لڑکاتیراہےیانہیں؟
اس عورت نے کہا کہ جس دن میری شادی ہوئی میں حالت حیض میں تھی چنانچہ میراشوہر
مجھے چھوڑگیالیکن ایک شیطانی روح آئی اور میرے ساتھ سوگئی اس کے جنسی عمل کی وجہ
سے میں اس لڑکے کے ساتھ حاملہ ہوئی۔ چنانچہ یہ
ثابت ہوگیاکہ وہ نوجوان لڑکانہ صرف ولدالزناتھا بلکہ حالت حیض میں حمل میں
آیاتھا۔[5]
ایک تالمودی
روایت کے مطابق ربائی العزر نےبزرگوں سے کہاکہ کیابن ستادا'Ben Stada'اپناجسم
گدواکرمصرسے جادونہیں لے کرآیا؟انہوں نے کہاکہ وہ ایک بےوقوف ہے اور ایک بےوقوف کی
حرکتوں پرکوئی توجہ نہیں دینی چاہیے۔'Ben Stada'ہی 'Ben Pandera'ہے
۔ربائی حسدا نے کہاکہ شوہر ستاداتھا اورعاشق panderaتھا۔ماں مریم
تھی جوکہ عورتوں کے بال تراشنے والی نائن تھی۔وہ اپنے شوہرکے ساتھ خیانت کرتی رہی
تھی۔[6]کچھ
مؤرخین نے تعیین کی ہے کہ ‘ben stada’کہہ کر عیسیٰ'ben pandera'
کوہی مراد لیاگیاہے۔اسی کی ماں کانام مریم تھا جوکہ میری(Mary)
کے مشابہ ہے۔[7]
اسی طرح ایک اور
روایات میں آتاہے کہ ربائی العزر نے جسم گدوانے کی ممانعت کی اور دیگر بزرگوں نے
ایسا کرنے کی اجازت دےدی۔العزر نے ان سے کہاکہ کیابن ستادااسی طرح سے جسم
گدواکراوراپنی کھال میں مصر سے جادو چھپاکرنہیں آیا؟بزرگوں نے العزر سے کہا کہ
کیاایک احمق کی وجہ سے ہم اپنے عقلمند لوگوں کو تباہ کردیں؟[8]
بالام نامی
حقارت آمیزنام کے ساتھ تلمود میں روایت پائی جاتی ہے
“Three kings and four commoners
have no part in the world to come. The three kings are Jeroboam, Ahab, and
Manasseh. . . the four commoners are Balaam, Doeg, Ahitophel, and Gehazi.”
تین بادشاہوں اور چار عام انسانوں کاآنے
والی دنیامیں کوئی حصہ نہیں۔ تین بادشاہ یہ ہیں۔یروبام،اہاب اورمناسیح، چارعام
آدمی یہ ہیں۔بالام،دویگ،احتی فیل اورگیہازی۔[9]
ابتدائی صدی عیسوی میں
شخصیت مسیحؑ
یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام
پرجہاں طرح طرح کے الزامات لگائے وہاں ان پر جادوگر اوربت پرست ہونے کابھی الزام
لگایا۔اناجیل کے مطابق بھی عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر یہودیوں نے یہی
کہاکہ یہ بعل زبول دیوتاکی مدد سے بدروحیں نکال دیتاہے۔[10]یہودیوں کے
مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے ملک مصر جاکر جاددسیکھا۔ابتدائی صدی عیسوی کایہودی
مؤرخ جوزیفس کابیان ہے کہ ایک خلافِ عقل افعال دکھانے والا شخص انجیل متی کی روایت
کی وجہ سے یہودی ربائیوں کی مخالفت کا شکار ہوگیا[11]کیونکہ
چاروں اناجیل میں سے صرف انجیل نویس متی
ہی عیسیٰ علیہ السلام کاشیرخوارگی کی عمر میں ملک مصر جانابیان کرتاہے۔[12]
تالمود کے مطابق
عیسیٰ علیہ السلام نے اپنابچپن مصر میں گزارااور وہاں سے اپناجسم گدواکراپنی کھال
میں مصر سے جادو چھپاکر لائے اوراس کوبروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کوطرح طرح کے
معجزات دکھائے۔[13]اس
طرح کے نظریات ابتدائی صدی عیسوی میں عوام الناس کےدرمیان پھیلے ہوئے تھے۔ابتدائی
صدی عیسوی سےتعلق رکھنے والامشہور یونانی فلسفی سیلوسس (Celsus)بھی
اسی قسم کے نظریات رکھتاتھا۔دوسری صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے معروف عیسائی بزرگ
مقدس اوریجن(C. 184 – C. 253)نے
سیلوسس کے نظریات بیان کیے ہیں۔ سیلوسس کے مطابق یسوع (عیسیٰ علیہ السلام) ایک
یہودی گاؤں سے آیا۔وہ ایک دیہاتی عورت کابیٹاتھاجوچرخہ کاٹ کرزندگی بسرکررہی
تھی۔اس کی ماں کو اس کے شوہر نے بدکاری کے باعث گھرسے نکال دیاتھا۔وہ کہتاہے کہ
شوہرکی طرف سے نکال دیئے جانے کے بعد وہ بےراہ روی کاشکارہوگئی اوراسی دوران
بےسروسامانی کی حالت میں اس نے خفیہ طورپریسوع کوجنم دیاجوکہ ایک پنڈارا(Panthera)نامی
سپاہی کابیٹاتھا۔یسوع گلیل میں پرورش پاکر بڑاہوامگر غربت کے باعث بحیثیت مزدورمصر
چلاگیا جہاں اس نے وہ مخصوص جادو سیکھے جن پر مصریوں کوناز تھا۔ان جادوئی طاقتوں
سے لیس ہوکر وہ مصر سے واپس آیا۔[14]
ایک اور مشہور
مسیحی بزرگ جسٹن مارٹن دوسری صدی کے نصف آخر میں لکھتےہیں کہ یہودیوں نے سلطنت کے
ہرطرف مخصوص ہرکارے بھیجے جنہوں نے جگہ جگہ جاکر باقاعدہ اعلان کیاکہ ایک
بےدین،بدکار اورخلاف شرع گلیلی جادوگریسوع کے نام سے ظاہر ہواتھاجسے ہم نے مصلوب
کرکے مار ڈالا۔اسے صلیب سے اتار کر ایک قبر میں دفن کردیاگیامگر اس کے شاگرد رات
کوآکر اس کی لاش چراکر لے گئے اور لوگوں کودھوکہ دین کے لئے مشہورکردیاکہ وہ زندہ
ہوگیاہے اورآسمان پراٹھا لیاگیاہے۔[15]
وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے عیسائیت پھیلی تویہودیوں کی عیسیٰ
علیہ السلام سے دشمنی بھی بڑھتی ہی گئی حتی کہ تیسری صدی عیسوی میں فلسطین میں
رہنے والے یہودی ربائیوں کامقولہ مشہور تھا کہ افسوس ہے اس پر جس نےخداکامقدس نام
لے کر خود کوجِلایا۔یہ مقولہ عیسیٰ علیہ السلام کی بابت عوام الناس میں پھیلے ہوئے
اس نظریہ کی طرف اشارہ کرتاہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے بہت سے معجزات کیے یہاں تک
کہ خداکی مرضی سے خود کو جِلایا۔یہودیوں کے مطابق یہ سب جادوتھاجو کہ خداکامقدس
نام استعمال کرکے کیاگیا۔اسی زمانے میں کچھ اورربائی اپنے شاگردوں کو سکھاتے تھے
کہ اگرکسبی کابیٹاتم کو بتائے کہ دوخداہیں تودوسراخدایسوع ہے۔[16]اس
طرح کی مختلف تعلیمات یہودی ربائی عوام
الناس کو سکھاتے رہے تھے۔
تولیدت یشوع(Toledot Jeshu)نامی
قدیم یہودی کتاب میں مسیح علیہ السلام کو صلیب دیئے جانےکی بابت مذکور ہے کہ انہیں
عیدفصح سے قبل دن کے چھٹے گھنٹے میں صلیب دےکرقتل کردیاگیا۔جب اسےدرخت پر لٹکائے
جانے کی کوشش کی جاتی تووہ درخت ٹوٹ جاتا کیونکہ وہ مخصوص غیبی کلمات کے ذریعے
حاصل کی گئی ایک قوت کاحامل تھا اسی سبب سے کوئی درخت بھی اسے لٹکانے کے لیے قبول
نہیں کررہاتھا۔ایک مخصوص پودے کےڈنٹھل پر اسے لٹکایاگیا کیونکہ صحیفوں میں لکھاہے
کہ اس کی لاش رات بھر درخت پر نہیں لٹکائی جائے گی۔انہوں نے اسے شہر سےباہر دفن
کردیا۔ ہفتے کے پہلے دن اس کے پیروکار ملکہ ہالینی کے پاس آئے اوراسے بتایاکہ
مقتول سچامسیح تھااوروہ اب اپنی قبر میں موجود نہیں ہے بلکہ وہ پیشگوئیوں کے مطابق
آسمان پر چڑھ گیاہے۔ زبردست تلاش کے باوجود بھی وہ اس قبر میں نہیں پایاگیاجدھر اسے دفن کیاگیاتھا۔ایک
باغبان اسے قبر سے نکال کر لے گیااوراپنے باغ میں لےجاکرریت کے نیچے اسے دفن
کردیا۔[17]
مسیح علیہ
السلام سے متعلق اس طرح کی بےشمار روایات
یہودی معاشرے میں گردش کرتی رہیں اور بعدازاں تالمود میں بھی شامل ہوگئیں تاہم جب
مسیحیت روم کاسرکاری مذہب بنا تویہودیوں کی حکمت عملی کی وجہ سے ان روایات
کاانطباق یسوع پر علی الاعلان کرنابند کردیاگیا۔ایسی روایات یہود کے عنادوبغض سے
بھرے رویے کوواضح کردیتی ہیں جوانہوں نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیاتھا۔
[1] Robert E. Van Voorst, Jesus Outside the New Testament: An
Introduction to the Ancient Evidence, p 105–6.
[2] David Stern, Jewish New Testament Commentary, p 4–5.
[3]
قاضی محمدسعید،رموزِ تالمود(لاہور:اسلامی مشن سنت نگر،س ن)،ص16۔
[4] Peter Schäfer, Jesus in the Talmud, p.
138–139, 187–188 .
[5] Rev. I. B. Pranaitis, “The Life of Christ,” THe Talmud Unmasked, accessed May 4, 2019,
[6] Van Voorst, Jesus Outside the New Testament: An Introduction to the Ancient
Evidence, 109.
[7] Gil Student, “The Jesus Narrative in
the Talmud,” accessed May 4, 2019,
http://www.angelfire.com/mt/talmud/jesusnarr.html.
[8] Van Voorst, Jesus Outside the New Testament: An Introduction to the Ancient
Evidence, 109.
[9]Babylonian Talmud, Sanhedrin 10.2
[10] کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،لوقا
۱۵:۱۱۔
[11] Geza Vermes, The Nativity: History and Legend, p 126.
[12] کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،متی
۱۴:۲۔
[13] Babylonian Talmud, Tractate
Shabbath, Daf 104b
[14] Schäfer, Jesus in the Talmud, 19.
[15] Morton Smith, Jesus The Magician, p 54.
[16] Smith, p 49.
[17] Van Voorst, Jesus Outside the New Testament: An Introduction to the Ancient
Evidence, p 126.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔