Pages

Most Popular

منگل، 21 جون، 2022

حقیقی مسیح اور انجیلی مسیح تحریر ڈاکٹرعبداللہ غازیؔ


 

انجیلی مسیح اور حقیقی مسیح

      تحریر:ڈاکٹرعبداللہ غازیؔ          

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسی مبارک ہستی ہیں جنہوں نے تاریخ کے اوراق پر گہرے اثرات مرتب کیے مگر بدقسمتی سے ان کی حقیقی تعلیمات تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوگئیں۔ان کی مصدقہ تعلیمات کے بارے میں ہمیں وحی جدید یعنی قرآن مجید سے ہی پتہ چلتاہے کیونکہ ان کے رفع آسمانی کے بعد انہدام یروشلم کاواقعہ ہوا جس میں ان کے شاگردوں،پیروکاروں اور عوام الناس کی بہت بڑی تعداد ماری گئی جو کہ ان کے اقوال کی سامع اور اعمال کی شاہد تھی۔یوں ان کے افعال واقوال کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع ہوگیااوربعدازاں لوگوں نے مسیح علیہ السلام کی طرف انتساب کرکے ان کے اقوال کو پیش کرناشروع کردیا۔[1]ایسے لوگوں میں پیش پیش وہ لوگ تھے جو پولوسی نظریات کے حاملین تھے جبکہ ان کے دوسری طرف مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کی زبانی روایات پر عمل کرنے والے تھے ۔ابتدائی صدی عیسوی میں ان دونوں گروہوں میں باہمی کشمکش ہی رہی تاہم چوتھی صدی عیسوی میں نقائیہ کونسل کے بعد پولوسی نظریات کوحکومت وقت کی طرف سے سند قبولیت عطا کی گئی یوں یہ گروہ غالب ہوا ۔ بعد میں یہی لوگ  مسیح کی حقیقی تعلیمات کے اصل علمبردارٹھہرےاوراسی فریق کے عقائد کی ترجمان کتب کو مسیحیت کی مسلمہ کتب کادرجہ دیاگیا۔غیریہودی اشخاص کی لکھی گئی ان کتب کی بدولت مسیح علیہ السلام کاتعلق یہودیت سے اجنبی ہوا اور ان کی ذات کے متعلق طرح طرح کے نظریات،عقائد اور تشریحات وجود میں آئیں جن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے حالانکہ اگر مسیح علیہ السلام کی ذات مبارکہ  کو یہودی تناظر میں دیکھا جائے تووہ ایک نبی سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھے۔

                مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش  کومسیحیت نے ان کی ابنیت کی تائید میں پیش کیاحالانکہ یہودی معاشرے میں اس طرح کی پیدائش کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ بائبل میں کئی ایسی خواتین موجود ہیں جو کہ بالکل بانجھ تھیں اور اپنی انتہائی عمر میں خدائے تعالیٰ نے ان کو معجزانہ طریقے سے اولاد عطا کی۔ان خواتین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ بی بی سارہ، حضرت یعقوب علیہ السلام کی دو اہلیائیں ربقہ اور راحیل اور حضرت سموئیل علیہ السلام کی والدہ بی بی حناہ شامل ہیں جو کہ بانجھ تھیں اور خداتعالیٰ نے عمر کے آخری حصے میں انہیں اولاد ودیعت کی۔عیسیٰ علیہ السلام کے ہی ایک معاصر نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی اس وقت ہوئی جب ان کےوالد حضرت زکریا علیہ السلام اور والدہ انتہائی عمررسیدہ اور بوڑھے ہوچکے تھے۔نیز یہودی معاشرےمیں اِس قسم کے تصورات بھی عام تھے کہ کوئی جن بھی عورت کو حاملہ کرسکتاہے۔ان عقائد کی بنیاد تورات کی روایات،وادی قمران کے صحائف اور دیگر یہودی ادب  ہیں ، جہاں اس قسم کی پیدائش  کی مختلف نظائر موجود ہیں ۔مگر ان کےلیے مسیح کی بن باپ پیدائش باعث عار اس لیے تھی کہ بی بی مریم یہودی ہیکل کی خدمت کے لیے وقف تھیں اور اسی میں رہا کرتی تھیں۔اسی وجہ سے انہوں نے بی بی مریم کو ملامت کانشانہ بنایاجس کاذکر ایک اپاکریفل صحیفہ(Protevangelion) میں بھی ملتاہے۔[2]مسیحیوں نے ولادت مسیح کے معاملے کو یہودی تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس کی تشریحات مشرکانہ افکار کی روشنی میں کی اور اسے مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور ابنیت کی دلیل قرار دے کر انہیں خدا کاحقیقی بیٹا قرار دے دیا۔

                انجیلی روایات کے مطابق مسیح علیہ السلام کا پیشہ بڑھئی تھا۔ایک یہودی عبادت خانے میں جب انہوں نے پہلی بار خطبہ دیا لوگ ان کاکلام سن کر حیران رہ گئے کہ ایک بڑھئی کابیٹا کیسے ایسی حکمت بھری باتیں کرسکتاہے؟[3]تلمودی روایات کے مطابق آرامی لفظ بڑھئی ایک 'عالم'یا'ماہراستاد'کے لیے استعمال کیاجاتاتھا۔ایک برگزیدہ نبی کاکلام یقیناً حکمت سے بھرا ہی ہوتاہے مگر عالم مسیحیت نے اس لفظ کے یہودی معنیٰ کو ترک کرکے اس قضیہ سے مسیح علیہ السلام کو عالم الغیب ہستی بناکر پیش کردیاتاکہ ان کی الوہیت کو منوایاجاسکے یوں مسیح علیہ السلام کے ایک دلکش عکس کو تاریخ کے اوراق سے محو کردیاگیا اور آج اس انجیلی مقام کا مطلب اس کے حقیقی معانی سے ہٹ کر برآمد کیاجاتاہے۔[4]

                اسی طرح سے عیسیٰ علیہ السلام کے مختلف معجزات بالخصوص مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ کودیکھتے ہوئے مسیحیوں نے انہیں خدا قرار دے دیا حالانکہ اس طرح کے معجزات یہودی معاشرے میں عام تھے اور عیسیٰ علیہ السلام کی ہی کئی معاصر یہودی بزرگ شخصیات ہیں جومردوں کو زندہ کرنے سمیت کئی کرامات و خرق عادات افعال صادر کرتے تھے۔ایسے لوگوں میں حننیاہ بن دوسا،ہونی وغیرہ شامل ہیں۔[5]

                مسیح علیہ السلام اپنی ساری زندگی گلیل کے علاقے میں بنی اسرائیل کے درمیان تبلیغ کرتے رہےاورکبھی یہاں سے باہر نہیں نکلے۔اگر کسی غیر قوم کے فرد نےآکر ان سے سوال بھی کیا تو بھی انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ میں صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لیے بھیجا گیاہوں۔[6]انہوں نے جب کبھی اپنے شاگردوں کو تبلیغی مشن کے لیے روانہ کیاتوان کو بھی تاکید کی کہ اسرائیل کے گھرانوں کے علاوہ کہیں بھی مت جانا۔[7]ان کی ساری محنت کا رخ صرف یہودیوں کی طرف ہی تھا اور رفع آسمانی کے بعد بھی مسیح علیہ السلام کے ابتدائی ساتھی اس بات کا تصور بھی نہیں کرتے تھے کہ کوئی غیر قوم کاشخص ان کا ساتھی بنے گا۔[8]لیکن مقدس پولس کی آمد کے بعد سارا منظرنامہ بدل جاتاہے اور پولوسی نظریات پر مشتمل مسیحیت غیراقوام میں پھیلنا شروع ہوجاتی ہےجس کی تعلیم یہودیت سے بالکل ہٹ کر تھی۔جب ان غیریہودیوں نے زور پکڑا تودیگر فرقوں کو انحراف یاکفر کاالزام لگاکر بزورختم بھی کیاگیا اور ان کے صحائف کو تلف بھی کیاگیا۔آج بھی مسیحیت کے سینکڑوں فرقے موجود ہیں جوایک دوسرے پر بدعتی ہونے کاالزامات لگاتے رہتے ہیں۔[9]

 



[1] John P. Meier, A Marginal Jew, Vol I, p 22.

[2] Vermes, The Nativity: History and Legend, p 49–52.

[3] کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،مرقس ۳:۶۔

[4] Vermes, Jesus The Jew: A Historian’s Reading of the Gospels, p 21–22.

[5] Vermes, p 69–72.

[6] کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،متی ۲۴:۱۵۔

[7] کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت، متی ۱۵:۱۰۔

[8] Vermes, Christian Beginning: From Nazareth to Nicaea (AD 30-325), p XIV.

[9] عبدالمجید،چوہدری،مسیحیت مغربی مفکرین کی نظر میں، ص113-114۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔