Pages

Most Popular

منگل، 21 جون، 2022

کون ہے جو مجھ میں گناہ ثابت کرے؟ عیسائی دعوے کی پس پردہ حقیقت


کون ہے جو مجھ میں گنا ہ ثابت کرے؟ عیسائی دعوے کی حقیقت

تحریر عبداللہ غازیؔ

آج کل ہمارے فیس بکی دیسی عیسائی دوستوں کو ایک انجیلی ورس کا زوردار بخار چڑھا ہوا ہے اور وہ جگہ جگہ پوسٹ کررہے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح نے فرمایا کہ کون ہے جو مجھ میں گناہ ثابت کرے؟( اس حوالے سے رابرٹ فضل نامی صاحب نے تو ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ دیئے ہیں کہ دنیا کا کوئی شخص یسوع میں گناہ ثابت نہیں کر سکتا۔ ۔ بات صرف یہیں تک محدود رہتی تو ٹھیک تھا مگر اس بات کو بنیاد بنا کر پاکستانی دیسی عیسائی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کررہے ہیں جو کہ ایک مذموم اور قبیح فعل ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ و ایمان ہے کہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ہی نہیں بلکہ دنیا میں تشریف لانے والے تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہرقسم کی معصیت و گناہوں سے پاک ہیں۔ ہمیں یسوع میں گناہ ثابت کرنے کی ضرورت بھی نہیں اور کوئی مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی ہستیوں کی ذات میں گناہ تو درکنار کوئی نقص بھی تلاش کرنے کی جسارے کرے۔دوسری طرف عیسائی ہیں جن کی مذہبی کتب میں بدترین تحریفات ہو جانے کی وجہ سے عصمت انبیاء علیہم السلام کے عقیدے پر بدترین داغ آتا ہے اور دنیا کا ہر عیسائی انبیاء کرام علیہم السلام جیسی جلیل القدر اور راست باز ہستیوں کو بھی اپنی طرح ہی گناہ گار اور خطا کار سمجھتا ہے(نعوذباللہ من ذالک)

عیسائیوں کی یہ روش اس وجہ سے ہے کہ ان کو ملنے والے مقدس متون میں انسانی کلام کی آویزش ہو چکی ہے جس کا اقرار مسیحی علماء کو بھی ہے۔اس ضمن میں پادری جی ٹی مینلی لکھتے ہیں کہ

پاک نوشتوں میں ہر جگہ انسانی پہلو نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ بائبل میں ربانی اور انسانی عنصرناقابل جدا ہیں۔ "ہماری کتب مقدسہ" پادری جی ٹی مینلی،1998،مسیحی اشاعت خانہ،ص28"

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریف و تصریف ہوجانے کے بعد کسی بھی کتاب سے پیغمبر کی ذات کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ عیسائیوں کے پاس موجود اناجیل میں بھی تحریفات کی وجہ سے بہت سے الزامات یسوع مسیح پر بھی وارد ہو جاتے ہیں بالخصوص اس دعوے کی تو جڑ ہی کٹ جاتی ہے کہ کون ہے جو مجھ میں گناہ ثابت کرے گا۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ انجیل محرف خود یسوع مسیح ؑ کو گناہ گار ثابت کرتی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم ہرگز انہیں ایسا نہیں سمجھتے مگر انجیلی تحریفات کو عیاں کرنے اور عیسائیوں کا بخار اتارنے کے لیے کچھ گزارشات پیش ہیں۔

عالم عیسائیت کے نزدیک مقدس پولس کے فتوے کے بعد شریعت موسوی متروک اور ناقابل عمل ہو چکی ہے تاہم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تفویض شدہ احکامات عشرہ کو آج بھی عالم عیسائیت میں قابل عمل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اناجیل اربعہ کے مطابق یسوع مسیح اکثر مقامات پر ان احکامات عشرہ کی پابندی و پاسداری کرتے نظر نہیں آتے ہیں۔

دس احکام میں سبت کی تعظیم و توقیر کا حکم بھی شامل تھا جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اناجیل اربعہ میں یسوع کہیں بھی سبت کی پابندی و پاسداری کرتے نظر نہیں آتے۔ اب اگر عیسائی بضد ہیں اور تاویلات نکالتے ہیں کہ یسوع نے سبت کی پابندی کی تھی تو پھر آج عالم مسیحیت سبت کو کیوں چھوڑ چکی ہے؟ اگر یسوع سبت کے دن کو خداوند کے حکم کے مطابق مناتے تھے تو پھر آج کے عیسائی سبت کو چھوڑ کر اتوار کے دن کو کیوں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں؟

احکام عشرہ کا ایک حکم یہ بھی تھا کہ تو اپنے ماں باپ کی عزت کرنا۔جب کہ اناجیل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یسوع نوعمری سے ہی اس حکم پر عمل کرنے سے مجتنب رہے۔ بارہ سال کی عمر میں ہیکل میں حاضری کے وقت غائب ہو کر تین دن رات تک انہوں نے اپنے والدین کو شدید ترین ذہنی و جسمانی تعذیب میں مبتلا رکھا اور دوبارہ مل جانے کے بعد بھی وہ اپنے والدین کی کوئی دل جوئی کرتے نظر نہیں آتے۔ اس کے علاوہ اپنی منادی کے دوران بھی وہ اپنی والدہ کی بات پر کان دھرنے کے بجائے الٹا ان سے اعلان برات کر دیتے ہیں کہ "کون میری ماں اور کون میرا بھائی"(متی۱۲ :۴۸) اپنی والدہ کو اس طرح کا جواب دینا کون سی تعظیم کے زمرے میں آتا ہے؟

اسی طرح حکم عشرہ کا ایک حکم تھا کہ تو چوری نہ کرنا جب کہ اس حکم کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ یسوع اور ان کے شاگردسبت کے دن ،اس عظیم دن کی تعظیم کیے بغیر دھڑلے سے ایک کھیت میں گھس جاتے ہیں اور مالک کی اجازت کے بغیر گندم کی بالیاں توڑ توڑ کر پورے کھیت کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔ (متی۱۲ :۱) اگر کسی دیسی عیسائی کی دکا ن میں گھس کر لوگ دکان کا مال کھانا شروع کردیں تو کیا وہ اسے چوری اور ڈاکہ تو نہیں سمجھے گا؟

احکام عشرہ کا آخری حکم یہ تھا کہ تو اپنے پڑوسی کی کسی چیز کا لالچ نہ کرنا اور نہ اس کے گدھے کا لالچ کرنا مگر انجیل میں واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے کہ یروشلم میں داخلے کے وقت یسوع کے شاگرد شہر کے باہر بندھا گدھا چرا کر لے آتے ہیں اور دوہزار سال گزرنے کے باوجود آج تک وہ گدھا واپس نہیں کیا گیا۔ اپنے پڑوسی کا گدھا چرانا گناہ اور احکام عشرہ کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟

احکام عشرہ کے علاوہ انجیل یوحنا کے مطابق یسوع نے ایک مرتبہ جھوٹ بولنے کابھی ارتکاب کیا۔ انجیل کے مطابق یسوع کے بھائیوں نے ان سے کہا کہ آپ یہودیہ جا کر منادی کریں تاکہ وہاں کے لوگوں کو بھی علم ہو تو یسوع ان کو انکار کردیتے ہیں کہ میں یہودیہ نہیں جاؤں گا مگر جب ان کے بھائی یہودیہ چلے جاتے ہیں تو پھر یسوع بھی ان کے پیچھے یہودیہ پہنچ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یسوع کو یہودیہ جانا ہی تھا تو اپنے بھائیوں سے اس بارے میں غلط بیانی کی کیا ضرورت تھی؟یہ واضح جھوٹ نہیں تو پھر کیا ہے؟

اس کے علاوہ عہدنامہ جدید میں ہم دیکھتے ہیں کہ یسوع ایک مردے کو چھوتے ہیں جب کہ شریعت موسوی کے مطابق مردے کو چھونے سے انسان ناپاک ہو جاتا تھا اور پھر ایک خاص شرعی طریقے سے عمل تطہیر مکمل کرکے ہی وہ دوبارہ سے پاک ہوتا تھا اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو گناہ گار سمجھا جاتا تھا۔ عہدنامہ جدید میں ہم دیکھتے ہیں کہ یسوعؑ مسیح مردوں کو چھوتے تو ہیں مگر کسی بھی قسم کے شرعی عمل تطہیر سے گزرتے نظر نہین آتے۔ ان کے اس عمل کی کیا توجیح کی جائے ۔یہ بات ہم قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔

غرض کہ اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر ابھی صرف دیسی عیسائیوں کے قلوب و اذہان میں بنے بت کو توڑنا ضروری ہے جس کو پوجتے ہوئے وہ نبی مکرمﷺ پر دشنام طرازی کرتے اور گستاخیاں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ گستاخوں کو برباد کرے اور سلیم الفطرت لوگوں کوہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ سلام علی من اتبع الھدیٰ

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔