اپاکریفل ادب کیا ہے؟
تحقیق و تحریر:ڈاکٹرعبداللہ غازیؔ
عہد نامہ جدیدکااپاکریفا وہ کثیر تحاریر ہیں جو کہ پہلی صدی
عیسوی تانویں صدی عیسوی تک لکھی گئیں۔روایات کے مطابق یہ کتب عیسیٰ علیہ السلام کے
شاگردوں یاان کے قریبی رفقاء نے لکھیں اور وسیع پیمانے پر کلیسا میں ملہم نوشتوں
کے طورپر پڑھی جاتی رہیں بعدازاں تقریبا پانچویں صدی میں غالب کلیسا کیتھولک چرچ
نے ان کی قانونی حیثیت کو مسترد قراردے دیا جبکہ 27کتب کو متفقہ طورپر الہامی کتب
کی فہرست میں شامل کردیاگیا۔[1] اس
طرح مختلف کلیساؤں میں مروج یہ تحاریر 'اپاکریفل'بن کر زمانے کی نظر سے مستور
ہوگئیں ۔عہدقدیم کی اپاکریفل کتب کوبہت سے مسیحیو ں نے قانونی کتب(Canonical)کے طورپر تسلیم
کیا مگر عہد نامہ جدید کی اپاکریفل کتب کی قانونی حیثیت ماننے سے انکار کردیا۔[2]
ابتدائی
مسیحیوں میں تصلیب عیسوی ؑ کے بارے میں
درجنوں روایات موجود تھیں اور معاشرے میں گردش کررہی تھیں مگراس کے باوجود چوتھی
صدی عیسوی کے اختتام تک مسیحیوں میں مصلوبِ مسیح کے بارے میں متفقہ نظریہ موجود نہ
تھا۔آج اس معاملے سے متعلق جو بھی بظاہر متفق علیہ نظریہ موجود ہے وہ قانونی کتب
کی تشکیل(Canon of Scripture)کے بعد کا ہے۔اس کینن کو مرتب کرنے کے دوران
بہت سی کتب خارج کردی گئیں جو آج اگر اس میں شامل ہوتیں تو صورتحال مختلف ہوتی۔[3]
چوتھی
صدی عیسوی کے بعد واقعہ تصلیب کی وہی تشریح وتعبیر درست تسلیم کی گئی جو کلیسا کی
طرف سے رائج کردہ اناجیل کی روایات کے عین مطابق ہوں۔اس کے علاوہ ہرتعبیر وتوجیح کو
بدعت سمجھا گیا حالانکہ اپاکریفل کہہ کر ردکی جانے والی کتب میں سے بہت سی کتابیں
انجیل کے نام پر لکھی گئی تھیں اور ان میں شامل روایات واقعہ تصلیب کے بارے میں
کئی مقامات پر اناجیل اربعہ سے مختلف الگ ہی داستان کے بارے میں خبر دیتی ہیں تاہم
کچھ اناجیل مصلوبیت کے معاملے کو اہمیت ہی نہیں دیتیں اور اس سے پہلےہی مسکوت
ہوجاتی ہیں۔ اس کی مثال یہوداہ اسکریوطی کی انجیل
ہےجس کا مصنف مصلوبیت کے واقعہ کواہمیت نہ دیتے ہوئے ذکر نہیں کرتا۔[4]
اگران سب کتب کی استنادی حیثیت
کاجائزہ لیاجائے توتاریخی لحاظ سے انہیں مستند قرا ردیناممکن نہیں جس کی سب سے بڑی
وجہ رومی سلطنت کاریکارڈ ہے جو اس متعلق کوئی خبر نہیں دیتا۔[5]اس
معاملے میں بھی کوئی تاریخی معلومات دستیاب نہیں کہ ایک ہی واقعہ کے متعلق بیسیوں تفصیلات
میں سے عالمی کونسلز(Ecumenical
Counsels)نے کس معیار کے
تحت منتخب کی جانے والی کتب کی صحت کاجائزہ لیا اور انہیں الہامی مسلمہ کتب کے طور
پر منتخب کرلیا۔محققین کی نظر میں وہی کتب منتخب کی گئیں جو غالب پولوسی گروہ کے
نظریات کی مؤید تھیں اس کے برعکس ہر وہ کتاب مسترد کردی گئی جو پولوسی نظریات سے
میل نہیں کھاتی تھی اس کی ایک مثال بائبل کے قدیم نسخوں (Ancient Codex) میں موجود
نسخہ سینائی میں میں شامل دو کتب ہرمس کاچرواہا اور برنباس کاخط ہیں جنہیں مدتوں
تک الہامی کتب کے طور پر کلیسا میں پڑھا جاتا رہا اور بعدازاں ان کااخراج
کردیاگیا۔[6]
[1]
Frans Van Liere, An Introduction to the Medieval Bible, p. 68–69.
[2] Van Voorst, Jesus Outside the New Testament: An Introduction to the Ancient
Evidence, 203.
[3] Van Voorst, p 178–79.
[4] Elaine Pagels and Karen L. King,
“English Translation of the Gospel of Judas,” in Reading Judas: The Gospel of Judas and the Shaping of the Christianity,
p. 122.
[5] E. P. Sanders, The Historical Figure of Jesus, p. 49.
[6]
قسیس معظم آرچ ڈیکن برکت اللہ ،صحت کتب مقدسہ،ص215-216۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔