پطرس کی انجیل
پطرس
کی انجیل غیرقانونی(non-canonical)قراردی جانے والی اناجیل میں سے ایک ہے جسے کلیسا
نے اپاکریفا قرار دے کر رد کردیا۔[1]غیرقانونی
سمجھی جانے والی اناجیل میں یہ پہلی دریافت شدہ انجیل ہے جو 1886ء میں مصرکے شہر
قاہرہ کے قریب سے دریافت ہوئی۔[2]تیسری
صدی عیسوی کے ابتدا میں کلیسائی بزرگ اسے الہامی سمجھتے تھے اور اس سے اقتباسات
نقل کرتے تھے۔ایوسبوس (Eusebius) نے بھی اپنے خط (190ء-203ء) میں اس انجیل سے کچھ
مواد نقل کیاہے اس کے علاوہ اوریجن(Origen) نے بھی یعقو ب
کی انجیل کے ساتھ انجیلِ پطرس کاذکر کیاہے[3]اور
اسے شمعون پطرس کی تصنیف قراردیاہے۔[4]اس
انجیل کاایک بڑا حصہ عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام بالخصوصی مبینہ تعذیب کی
روایات پر مشتمل ہےجوکہ ان کی تصلیب کاذمہ دار پینتس پیلاطوس کے بجائے ہیرودیس
اینٹی پاس کو قرار دیتی ہیں۔علماکے مطابق اس انجیل کاماخذ وہی ہے جہاں سے اناجیل
اربعہ کے مصنفین نے تعذیب کی روایات نقل کی ہیں۔[5]پطرس
کی انجیل اس وقت تک کلیسا میں پڑھی جاتی رہی جب تک کہ اس کو پڑھنے اور رکھنے پر
پابندی نہ لگادی گئی۔ابتدائی مسیحی دور میں یہ انجیل نہ صرف سیریا بلکہ مصر تک بہت
سی کلیساؤں میں پڑھی جارہی تھی۔[6]
واقعہ تصلیب بمطابق انجیل پطرس
اس انجیل کے مطابق جب عیسیٰ علیہ السلام کو سزا سنائی گئی
تو قاضیوں اورہیرودیس سمیت کسی یہودی نے ہاتھ نہیں دھوئے کیونکہ وہ دھونا نہیں چاہتے تھے۔پیلاطوس کھڑا ہوا اور
ہیرودیس بادشاہ نے انہیں حکم دیتے ہوئے
کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو لے جائیں اور اس کے ساتھ وہی کریں جو کچھ انہیں
کہاگیاہے۔وہاں یوسف بھی کھڑا تھا جو کہ عیسیٰ علیہ السلام اور پیلاطوس دونوں کاہی
دوست تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دینے والے ہیں لہذا
وہ پیلاطوس کے پاس آیا اور اس سے لاش مانگی تاکہ اسے دفنادے۔ پیلاطوس نے ہیرودیس بادشاہ
کو پیغام بھیجا اور لاش طلب کی ۔ہیرودیس نے کہا کہ برادرم پیلاطوس اگرکوئی اس کی
لاش نہیں مانگتا تو ہم کو چاہیے کہ اس کو دفن کردیں کیونکہ سبت ہونے والاہے اور
شریعت میں لکھا ہے کہ کسی مقتول پر سورج طلوع نہیں ہونا چاہیے۔چنانچہ انہوں نے
بےخمیری روٹی کے پہلے دن سے قبل اسے(عیسیٰ علیہ السلام) لوگوں کے حوالہ کردیا اور
وہ انہیں تیزی سے دھکیلتے ہوئے لے گئے۔لوگوں نے انہیں قاضی کی کرسی پر بٹھایا اور
ارغونی جامہ پہنایا اوران میں سے ایک نے کانٹوں کاتاج ان کے سر پررکھا۔وہ سب کہہ
رہے تھے کہ یہ یہودیوں کابادشاہ ہے۔ وہاں کھڑے کچھ لوگوں نے ان کے چہرے پر تھوکا،
تھپڑ وسرکنڈےاور کوڑے مارے۔وہ کہتے جاتے تھے کہ ہمیں خداکے بیٹے کی تعظیم کرنے
دے۔اور انہوں نے دوبدکاروں کو لیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے درمیان صلیب پر
لٹکا دیا لیکن وہ بالکل خاموش تھے گویا کہ انہیں کوئی درد نہ ہو۔ جب لوگوں نے صلیب
کو سیدھا کھڑا کیا تواس پر لکھا کہ یہ اسرائیل کابادشاہ ہے۔ اورانہوں نے قرعہ ڈال
کر ان کے کپڑوں کو بھی آپس میں تقسیم کرلیا۔ ان کے ساتھ مصلوب ہونے والے دونوں
بدکار کہہ رہے تھے کہ ہم ان شیطان کاموں کی وجہ سے اس مصیبت میں مبتلاہوئے ہیں
جوہم نے کیے ہیں لیکن اس کے ساتھ کیا ہواہے جو انسانیت کا نجات دہندہ ہے۔ا س نے
تمہارے ساتھ کیا کیاہے۔کیونکہ وہ لوگ ان(عیسیٰؑ) پر سخت غضب ناک تھے لہذا انہوں نے
حکم دیا کہ اس کی ٹانگیں نہ توڑی جائیں تاکہ یہ صلیبی صعوبتیں سہہ کر مرے۔اورابھی
دن ہی تھا کہ سارے یہودیہ پر اندھیراچھا گیا۔ وہ سب گھبراگئے اور پریشان ہوگئےکہ
سورج غروب ہوگیا جبکہ وہ(عیسیؑ) ابھی تک زندہ تھے کیونکہ لکھا ہے کہ سورج مقتول پر
طلوع نہیں ہوگا۔ اور ان میں سے کسی نے کہا کہ اسے شراب ملا سیال پلاؤ۔ اورانہوں نے
شراب ملا کر اسے پینے کے لیے دی اور انہوں نے تمام چیزیں پوری کیں اور ان کے
گناہوں کو ان کے سروں پر پورا کیا۔۔۔بہت سے لوگ رات خیال کرکے لالٹین لے کر نکل
پڑے اور دھوکہ کھا گئے اور اسی وقت عیسیٰؑ نے بلند آواز نکالی کہ اے میری طاقت اے
میری طاقت تو نے مجھے چھوڑ دیا۔یہ کہہ کر وہ اٹھا لیے گئے اور اسی وقت ہیکل کاپردہ
دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔وہاں موجود لوگوں نے ان کےہاتھوں میں لگی میخیں نکالیں
اور ان کو زمین پر رکھا کہ اچانک ایک زلزلہ آیا۔اس وقت دن کا نواں گھنٹہ تھا۔[7]
[1] Patrick Halton Thomas, On Illustrious Men, p 5–7.
[2] Van Voorst, Jesus Outside the New Testament: An Introduction to the Ancient
Evidence, p 205.
[3] Origen of Alexandria, “‘The Brethren of Jesus’ Origen’s Commentary on Matthew in Ante-Nicene Fathers,” No Dated, vol. IX,
[4] Bart D. Ehrman and Zlatko Plese, eds.,
The Other Gospels: Accounts of Jesus from
Outside the New Testament, p 191.
[5] Van Voorst, Jesus Outside the New Testament: An Introduction to the Ancient
Evidence, p 205–6.
[6] Bart D Ehrman, Lost Christianities: The Battle for Scripture and the Faiths We Never
Knew, p 27.
[7] F. Neirynck, “The Apocryphal Gospels
and the Gospel of Mark,” in The New
Testament in Early Christianity, p 171–75.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔