کیا
مسیحیوں کا علمی ورثہ درست منتقل ہوا؟
مترجم :ظفراقبال
مسئلہ ابھی تک حل ہونے سے انکاری ہے۔ تثلیثی تعلیمات نے
مغرب میں جڑ پکڑی، کیونکہ کاسینٹ باسل اور انطاکیہ کےسینٹ تھیوفیلس ہی وہ ہستیاں
ہیں جنہوں نے لفظ تثلیث یا ثالوث برتا۔ نقائیہ کی کونسل کے وقت بھی اِس نظریے کی
وہ شکل نہیں تھی جو اب ہمارے سامنے ہے کیونکہ اِس مرحلے پر روح القدس الگ اقنوم نہیں سمجھا
جاتا تھا۔ وہ لوگ جو اِس نظریے کے حمایتی تھے کہ یسوعؑ خدا کے برابر نہیں ہے، وہ
کچھ عرصہ تک اس کے مؤید رہے لیکن شہنشاہ تھیوس ڈپئس نے بعد میں ان کے خلاف اپنا
فیصلہ صادر کر دیا۔ اُس نے اپنے زیر حکومت تمام علاقوں میں عقیدہ ِنقایہ جبراً مسلط
کیا اور اس وضع شدہ نظریے کی توثیق کےلئے ۳۸۱ء میں قسطنطنیہ کی کونسل کا انعقاد
کروایا، اور اِس کونسل نے خدا کے اقانیم ثلاثہ میں روح القدس نامی اقنوم کی شمولیت
کا فیصلہ صادر کردیا۔ بجائے اس کے کہ اسے خدا کا فعل تسلیم کیا جاتا اسے خدا اور
مسیح کا مسادی درجہ عطا کردیا گیا۔ یوں۳۸۱ء میں پہلی بار تثلیث کو شرعی حیثیت میسر
آئی۔
۳۸۱ء میں مسئلہ تثلیث پر لچک دار مؤقف رکھنے والے جیروم نے
بیت لحم کے غاروں میں سکونت اختیار کرلی اور اپنی مرضی سے چند مخصوص صحائف کو
لاطینی زبان میں ڈھالنا شروع کرد یا۔ بعدازاں یہ ترجمہ" ولگیٹ" کے نام
سے اس قدر مشہور ہوا کہ مقدس نوشتے کی
حیثیت اختیار کر گیا۔ ایک بار جب جیروم کے مجموعے کو مقبولیت عامہ حاصل ہوئی تو وہ
کتب جو اُس انتخاب میں شامل نہیں تھیں، درجہ کمتر قرار پائیں۔ اِس کے باوجود تثلیث
کو قبولیت عام میسر نہیں آسکی صورتِ حال یہاں تک گھمیر ہوگئی کہ تثلیث کی مخالفت
کا مطلب تعذیر کو دعوت دینا تھا۔
بہت سا مواد، جس کے بارے میں باور کیا گیا کہ یہ صحیح
العقیدہ نہیں تھے، قصدًا تلف کردیا گیا یا پھر عیسائیوں کے احتسابی نظام کا شکار ہوکر جعلی یا غیرمستند قرار پایا۔
احتسابی عمل قسطنطین اول کے زمانے میں مسلط کیا گیا اور تھیوڈوسیٹس دوم اور
ویلیطپئس سوم کے عہد میں پوری شدت سے کام دکھاتا رہا۔ ہمارے پاس موجودہ صورت میں
عہد جدید 397ء ،میں سامنے آیا جب کارتعج کی کونسل نے بےحد بحث و تکرار اور عدم
اتفاق کے بعد چھبیس کتب کی فہرست کا حتمی حکم نامہ صادر کیا۔ ]مکاشفہ کی کتاب اِس کونسل میں زیرِ بحث نہیں آئی تھی۔ از مترجم[
قدیم مصری عیسائی جماعت کی لائبریری 1945ء میں مصر میں ناگ
حمادی کی ریت میں دبی ہوئی ملی۔ یہ تیرہ جلدوں میں انچاس کتابوں پر مشتمل کاوش
تھے۔ اور قدیم قاہرہ کے قبطی میوزیم کا سب سے بڑا خزانہ بن گئی۔ متون واضع طور پر
یہ آشکار کرتے ہیں کہ اِس گروہ کے ہاں کیا کیا قابلِ قبول تھا۔ یوحنا کے تین
نسخے(اسفار محرفہ)، یعقوب کے مکاشفے کے تین نسخے، پولوس کے مکاشفہ کا ایک نسخہ،
پطرس کے مکاشفہ کا ایک نسخہ اور تین اناجیل جو موجودہ عہد جدید میں شامل نہیں
ہیں۔ویلنٹہنئس کی انجیل صداقت، انجیل قلب اور انجیلِ توما حواری۔
ایک وقت وہ بھی تھا جب عہد جدید میں برنباس کا خط، مکیمنٹ
کا خط، ہرمس کا چرواہا، پطرس کی منادی، ددخے (تعلیم دوازدہ رسول)، رسولوں کی سیرت،
حتٰی کہ کشف سبلین جیسی کتب بھی شامل تھیں
جنہیں بعدازاں ترک کردیا گیا۔
پہلی چھ صدیوں تک شامی کلیسیا موجودہ خطوط میں سے چار خطوط
اور کتاب مکاشفہ کو اپنے مجموعہ کتب سے باہر رکھتی رہی۔ چوتھی صدی عیسوی میں شامی
اور ارمینی کلیسیائیں قرنتیوں کے نام پولس کے تیسرے خط کو قبول کرتی تھی۔ اب بھی
حبشی کلیسیا یا ابتھوپیائی کلیسیا موجودہ عہد جدید کی نسبت آٹھ مزید کتب اپنے
مجموعہ کتب میں شامل کرتی تھی۔ یہ بات بہت واضح تھی کہ کتابوں کے انتخاب کا عمل
ایک عیسائی گروہ کے دوسرے عیسائی گروہ پر فتح یابی کا مرہونِ منت تھا۔ اگر مخالف
گروہ غالب آجاتا تو پھر کتب عہدجدید کی فہرست بھی مختلف ہوجاتی۔
انطاکیہ میں وہ اِس نظریے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب رہے
کہ مسیح ایک منفرد انسانی ذات ہے جسے حکم الٰہی ودیعت کیا گیا۔ وہ ایسا انسانی جسم
تھا جس کا مخزن الٰہی تھا۔ مسیح انسان میں سے ہوکر خدا تھا اور کنواری مریم اس کی
ماں تھی جوکہ انسانی بدن کے توسط سے تھی اور مسیح کی بحثیت خدا ماں نہیں تھی۔
سکندریہ میں مسیح میں مافوق الفطرت ہستی کے مجسم ہونے پر سوچ و بچار کی گئی۔
انطاکیہ میں اُن کی رہنمائی میسوپتامیہ کے تھپوڈور نے کی۔
انہوں نے مسیح کی دو ذاتوں/ذوہستی ہونے پر زور دیا جو باہم
مختلف تھیں، اور چونکہ انسانی والٰہی ذاتیں لاذماً جدا جدا تھیں اِس لئے وہ اِن کے
ادنمام کے بارے کوئی تسلی بخش بیان جاری کرنے سے قاصر رہے۔ سکندریہ میں الٰہی اور
انسانی ذوات کے مابین تمیز کرنے کے معاملے میں اُن میں مفاہمت ہوگئی، اور یسوع کی
الوہیت پر اُس کی بشری نوعیت کے لحاظ سے زور دیا گیا۔ اپاتھوس اہاتھین نامی ضابطہ
زیرِ بحث لایا گیا جس کی رد سے " وہ مصائب اٹھائے بغیر مصائب میں
متبعدہوا۔" (یعنی کہ اُس کے جسم نے دکھ اٹھایا، اور کلام/کلمہ نے محض اِس
ہمدردی میں مصیبت برداشت کی کہ وہ اُس کا جِسم تھا)
بڑے مفکرین میں سے ایک اپالی نیریس تھا( جو 80-360 کے عرصے
میں سرگرم عمل رہا تھا) جِس نے یہ سبق پڑھایا کہ یسوع کے جسم کی طبیعات بانوعیت
الٰہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مسیح جوکہ خدا تھا انسانی شکل میں نمودار ہوا۔ اس لئے عیسائی ہر لحاظ سے اس کے مستحق ہیں
کہ کنواری مریم کو تھیوٹوکوس باخدا کی ماں کہیں۔ اور شفاعت طلب دعائیں اُس سے
کریں، یہ نظریہ مونوفائی سائٹ کہلایا، جوکہ یک ذاتی نوعیت پر دلالت کرتا تھا۔
حقیقت میں دونوں نظریات (یک ذاتی و ذوذاتی) تثلیثی تعلیم پر
مفاہمت رکھتے ہیں، کیونکہ اگر کوئی یہ تسلیم کرے کہ مسیح بشری لبادے میں خدا تھا
تو اُسے لاذماً یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا
کہ وہ حقیقی بشر کے طور پر ہمارے لئے دکھ اٹھانے اور مرنے کے لئے قطعی طور پر بے
بس لاچار تھا اور یہی عقیدہ نجات کا جوہر تھے۔ جبکہ اِس کے برعکس اگر کوئی شخص اِس
کی دو ذاتی حیثیت کو تسلیم کرے تو یہ اِس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صلیب پر مرنے
والی ہستی مسیح کی انسانی ذات تھی نہ کی خدا کی ہستی جس سے دوبارہ نجات کے نظریہ
سے مفاہمت ہوجاتی ہے۔
انطاکی الٰہی مکتبہ فکر کا
روح رواں نسطوریس تھا کہ میسوپتامیہ کا ارامی عرب تھا۔ جس نے کھلے بندوں
دونوں ہستیوں کے مسیح میں ادغام سے انکار کردیا تھا، نسطوریس کا نظریہ راسخ
العقیدہ اور مونوفائی سائٹس دونوں کے لئے یکساں لعنت ملامت تھا۔ نہ صرف یہ کہ مسیح
کی دو ذاتیں تھیں بشری اور الٰہی بلکہ دو
اقانیم مسیح میں باہم یکجا ہوگئے تھے۔ اس لئے مریم کی تھیوٹوکوس یا خدا کی ماں
نہیں پکارنا چاہیے۔ وہ ہرگز اس قسم کی کوئی ہستی نہیں تھی۔ وہ صرف انسانی یسوعؑ کی
والدہ تھی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس لئے اُسے کرائسٹوٹوکوس یا مسیح کی ماں ہی کہنا
چاہئے۔
نسطوریس کی شدت پسند مونوفائی سائٹ سرل آف سکندریہ
(412-444) نے مغلوب الغضب ہوکر مخالفت کی۔ نسطوری بدعت کا معاملہ نمٹانے کے لئے
431ء میں اُفسس کی کونسل منعقد ہوئی جس میں شامل بشپ حضرات نے کثرتِ رائے سے
کنواری مریم کے تھپوٹوکوس یعنی مادر خدا ہونے پر ہر تصدیق ثبت کی۔ دو ذاتی ہستی کو
متعین کردیا۔ باالفاظ دیگر نسطوری نظریہ کو بدعت قرار دے دیا اور نسطوریس کو
جلاوطنی کی حالت میں مرنے کے لئے مصر کے مشرقی صحرا میں بھیج دیا۔ تاہم آج بھی اُس
کا نظریہ بڑی پختگی سے شاہی کلیسیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ البتہ سرل کی کامیابی
نے روم میں خطرے کی گھنٹی بجادی اور پوپ لیو اول (440-461) نے مونوفائی سائٹس کے
اِس مقام و مرتبہ ہر 449ء میں ایک اور کونسل طلب کرکے پرزور دھاوا بول دیا۔ سرل کا
جانشین ڈائیوسکورس (444-454) اپنے محافظ کے ہمراہ آن پہنچا، اور مخالفین کو مونوفائی سائٹس کے حق میں فیصلہ
دینے کے لئے بہت زیادہ دھمکایا یہی وجہ ہے کہ یہ مجلس قزاقوں کی مجلس کہلائی۔
451ء میں خلقیدون کی مجلس عام دوبارہ مونوفائی سائٹس کے
یسوع کی یکجہتی ذات کے بارے مجتمع ہوئی۔ اِس مجلس عام اِن تعلیمات پر بحث کی کہ
یسوع کی بشریت اُس کی الوہیت میں کلیتا جذب ہوگئی تھی (یہ ایرلیس کی تعلیمات کے
ضدف تھا)۔ تاہم یہ نقطہ نظر ابھی تک مصری، ایتھوپیائی قبطی اور آرمینٹسن اور
لعقبولی کلیسیاؤں میں ابھی تک قابلِ لحاظ گردانا جاتا ہے۔ شہنشاہ مرقیون کی وجہ
خلقیدون کی اس کونسل نے جس فارمولے پر پسپائی اختیار کی دوحقیقت ایک مفاہمت سے
زیادہ کچھ نہ تھا۔ اِس نے نہ تو کوئی حل پیش کیا اور نہ ہی اِس کا حاصل کئی ایک
رقہیانہ آرا پر لعنت مروت سے سوا کچھ اور
تھا۔
اِس بات پر زور دیا
گیا کہ الوہیت میں یسوع خدا باپ کا ہم مادہ و ہم ذات ہے اور بشریت میں ہمارا ہم
جنس و ہم مادہ۔ وہ ہر لحاظ سے ہمارے مماثل ہے سوائے گناہ کے۔ ازل سے خدا باپ سا
صادر ہوا اور آخری ایام میں ہمارے لئے پیدا ہوا کنواری مریم سے تاکہ ہمیں نجات
بخشے۔ مریم مادر خدا ہے یسوع بشریت میں دونوں انواع کا حاصل ہے اور بغیر کسی اخلاط
کے بغیر کسی تبدیلی کے، بغیر جوہر کی تفہیم کے، بغیر ایک جوہر دوسرے سے الگ ہونے کے، اور ہر ذات یا جنس امتیازی وصف محفوظ
ہے اور ہراگندہ یا خلط ملط نہیں ہوا۔"اخلاط" سے مراد اُن کی یہ تھی کہ
دونوں انواع باہم یکجا ہوکر کام کررہی ہیں بالکل ایسے جیسےکہ پانی میں نمک گھل
جاتا ہے یہ علما کی ذہنی ایچ کا نتیجہ نہیں ہے؟۔ ہر نوح اپنے آپ میں کامل ہے اور
دونوں ایک دوسرے سے قطعا ممیز نہیں لیکن اِس کے باوجود نہایت کاملیت سے ایک ہی
شخصیت میں یکجا ہیں جو بیک وقت خدا بھی ہے اور انسان بھی۔
494ء میں پوپ گلاسپئس اول نے پچھلی دونوں صدیوں ہونے والی
کاوشوں کی جانچ پڑتال کو حتمی شکل دے دی۔ پوپ کا فرمان ممنوعہ کتب کی فہرست پر
مبنی تھا۔ اس میں اکسٹھ کتب اور چھتیس سے
کم مصنفین کے نام نہیں تھے جن کا حمایتی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہ ٹوٹنے والا
لعنت ملامت کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔
ممنوعہ کتب کا پاس رکھنا ایک سنگین جرم قرار پایا اور کئی
ہزار عیسائی اپنے ہی ہم مذہبیوں کے ہاتھوں
ممنوعہ کتب پاس رکھنے کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی
دشمن تحریریں یا وہ تاریخی مواد جو یسوع کو ایک انسانی رہنما کے روپ میں پیش کرتا
تھا اس کی باریک بینی سے چھان بین کی گئی اور نہایت منظم طریق سے تلف کردیا گیا۔
(لازم تھا کہ یہ مواد یسوع کو ایک شورش لیڈر یا سیاسی رہنما بتلائے)۔یہی وجہ ہے کہ
جوزلفیس کی کتاب میں اب کوئی مواد موجود نہیں ہے ٹیسیٹس کے متعلقہ مواد غائب ہے
اور سیلسس اور اس جیسا دوسرا نام روئے زمین سے مٹا کر دم لیا گیا۔
لیکن آثار سے واضح ہے کہ ان کے پاس بتانے کے لئے بہت کچھ باقی ہے۔ وہ خدا کے بیٹے
نجات دہندہ یسوع کی کہانی کو جانتے ہیں اور اسے رد کردیتے ہیں۔ ان آثار کا استرداد اس بنا پر نہیں ہے کہ یسوع کبھی رہا ہی
نہیں تھا بلکہ اس لحاظ سے کہ یسوع کی الوہیت کے عیسائی دعاوی کھٹ پٹ یا فریب خوردگی پر مبنی ہیں۔ اور یسوع
کی تعلیم اور حیات بارے عیسائی بیانات قطعاً جھوٹ ہیں۔
نسطوری فرقہ 498ء سے انطاکیہ قطع تعلق کر چکا ہے اور عراق
کے شہر کے طیسفون میں اپنے بڑے بشپ کے
ساتھ الگ کلیسیا بنا چکا ہے۔
506ء میں ارفی کونسل نے خلقیدونی کو نسل کے فیصلوں کو مسترد
کردیا، اور خود کو کھلے بندوں مونو فائی ساٹئس کہلوایا۔ 512ء میں انطاکیہ کا
مونوفائی ساٹئس بطریق سورس (Severus) کو نکال باہر پھینکا گیا اور جلا وطن کردیا
گیا۔ مونوفائی سائٹس نے اپنے اوپر مسلط شدہ بشپ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور
خود ہی اپنا نیا بطریق چن لیا جو ٹیلر کا رہنے والا سرجئیس تھا۔ سورس کو شہزادی
تھیو ڈورا نے تحفظ اور حمایت فراہم کی وہ جیٹنین کی بیوی تھی اور ملکہ تھی۔ یوں
شامی مونوفائی ساٹئس ایک اور خودمختار کلیسیا بن گئے۔ 553ء میں قسطنطنیہ میں دوسری
مجلسِ عام نے ایک مرتبہ پھر نظریہ تثلیث کی تائید و توثیق کردی اور کنواری مریم کی
مادرِ خدا ہونے کی بھی۔ اور 680ء میں قسطنطنیہ میں منعقد ہونے والی تیسری مجلسِ
عام نے اس بات کی توثیق کی کہ مسیح کی ذات میں دو ارادے ہیں اور دو طریق سے ہی
پورے ہوتے ہیں۔
تھیوڈورا سے عنسانی قبیلے کے بادشاہ شیخ الحارث حیلہ نے
ملاقات کی جو اپنے عرب عیسائیوں کی حالتِ زار اسے بتانے آیا تھا۔ انہوں نے ان شاہی
کارندوں کے ہاتھ ہولناک مظالم سہے تھے جنہیں مشرقی صوبوں میں بدعتوں کی بیخ کی کے
لئے متعین کیا گیا تھا۔ شیخ نے ملکہ کو بتایا کہ انہیں ایک نئے بشپ کی ضرورت ہے جو
ان پادریوں کی جگہ پر افراد متعین کرے جو کہ "صحیح العقیدہ" ظالم و جابر
کارندوں کے ہاتھوں یا تو گرفتار ہیں یا پھر موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں۔ وہ
ایسی بھیڑیں تھیں جن کا کوئی چوپان نہ ہو۔ وہ (بشپ) غیر معمولی شخص ہونا چاہیئے۔
جفاکش صندی اور چاک و چوبند جسے شامی اور یونانی زبانوں پر عبور حاصل ہو بھلے عربی نہ بول سکتا
ہو۔ اور اس بات کو قبول کرنے پر رجامند ہو کہ وہ
ہمہ وقت ایک جنگی درندے کی مانند شکار کرنے پر کمربستہ رہے گا۔ ملکہ کا
"روح القدس کا تائید یافتہ" انتخاب باردیس تھا۔ ایک تارک الوہنار اسیب جسے ایڈیسہ کا بشپ مقرر کیا گیا
تھا اس کے نام میں شامل باردیس اصل میں اس کا عرف تھا جس کا مطلب تھا خستہ حال اور
ریزہ ریزہ۔ بہ عرف اس وجہ سے پڑ گیا تھا کہ
اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ایک گداگر کے روپ میں بسر کیا تھا۔
باردیس ایک حیرت
انگیز صناد تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے ہزاروں میل طویل سفر طے کر رہا تھا جس میں زیادہ تر سفر اس نے پیدل
ہی کیا تھا۔
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ہزاروں پادریوں کو
متعین کیا اور نواسی بشپ تعینات کئے اور دو بطریق مقرر کئے اس نے اپنی کلیسیا کی
خشت اس قدر مضبوطی سے رکھی تھی کہ وہ آج تک شام میں موجود ہے یعنی یعقوبی کلیسیا۔
عیسائی تثلیثی تعلیم اصلاً مغرب میں پھلی پھولی جس کے ڈانڈے
ہزاروں برس قدیم مشرک اقوام کے افکار و نظریات سے ملتے ہیں اور حقیقت میں یہ مشرک
اقوام کا ہی ورثہ ہے جوقرونِ وسطیٰ میں
مسیحی عقائد کا حصہ بنا۔ یہ اثنا سیی عقیدہ
کہ "ہم تالوث میں ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ باپ خدا ہے بیٹا خدا ہے
اور روح القدس خدا ہے اور یہ مل کر تین خدا نہیں بلکہ ایک ہی خدا بنے"۔
بارہویں صدی عیسوی تک مشرقی کلیسیا اس سے لاعلم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی کلیسیا
ئیں اب تک نقایہ عقیدے کے مطابق بدعتی
سمجھی جاتی ہیں۔ جس کے مطابق روح القدس ، باپ اور بیٹے دونوں سے صادر ہوتا ہے۔
موجودہ صدی کی بابت کیا خیال ہے؟ لورڈز کے مقام پر 1958ء
میں منعقدہ میریولوجیکل کانگریس نے تجویز کیا کہ مریم کے بارے میں یہ منادی کی جائے کہ وہ "کاسا
افیشنس " ہیں مطلب یہ کہ "وہ اس بات کی مظہر یا سبب ہیں جس سے نجات نے
جنم لیا جس کی سفارش اور وسیلے کے بغیر ایمان پرفضل نہیں ہوتا"۔ یہ تجویز
ناکام رہی لیکن محظ عارضی طور پر کیونکہ 1964ء میں پوپ پال ششم نے مریم کو "مٹیرایلکلیسیا"یعنی
"مادرِ کلیسیا" کا مرتبہ عطا کردیا اور یوں وہ خود بخود ہی "کاسا افیشنس"
کے مقام پر ممکن ہوگئیں۔ یوں وہ مقامِ الوبیت سے سرفراز ہوگئیں جیسا کہ بہت سے
پروٹیسٹینٹ حضرات اس بات کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ یہ نقطہ ذہن نشین رہنا چاہیئے کہ
پوپ پال ششم کا یہ فیصلہ ذاتی اور کسی حد تک تنہا ہے کیونکہ ویٹیکن کی دوسری کونسل
کی کلیسیا مخالفت پر مبنی ہے جس نے امید کی ہلکی سی کرن آئندہ آنے والے وقتوں میں
پروٹیسٹینٹ چرچ کے ساتھ اتحاد کی کسی تحریک میں اس شرط کے ساتھ دیکھی کہ اگر مریم
کو مزید مرتبہ بخشا تو پھر دونوں فریق مل کر اس مسئلے کا حل نکال لیں گے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ عیسائی دنیا میں تثلیث نے قبولیتِ عام
پانے کے لئے سیکڑوں برس لئے ۔ سوال یہ ہے کہ ان فیصلوں کے پس پردہ کسی رہنمائی کار
فرما ہے؟ خدا کا کلام یا پھر پودارانہ اور
سیاسی تفہیم و اغراض و مقالبہ؟
یہ بات ہر لحاظ سے درست ہے کہ یہ معاملہ چرچ کی اندرونی
سیاست کا ہی ہے۔ تمام پودارانہ الہٰیات معاصر سیاسی حالات اور فلسفے کے اندر رہ کر
بروئے کار لائی گئیں اور ثقافتی لحاظ سے ان (پودارانہ الہٰیات) کی راہ متعین کردی
گئی۔ نظریاتی تضادات صرف دلائل کے ذریعے دور نہیں کئے گئے بلکہ اس میں شخصیات اور
سیاسیات کا عمل دخل بھی حاوی رہا۔ سرل، نسطوریس، ایریس، یوطی کس اور اتضاسیس کی
شخصیات اس ضمن میں کافی مثالی شخصیات ہیں۔
گہرے جذبات اور عمیق تعصب نے مجالسِ عام، کلیسیاؤں اور
راہبوں کی افواج کو ایک دوسرے پر تابڑ توڑ خطرناک حملے یا پھر کلیسیا کے راست باز اور
محض قائدین کو کلیسیا کے اخراج یا انہیں جلا وطن کردینے کے لئے مسلسل ایک ہیجانی
کیفیت میں مبتلا رکھا۔ یہ سارا معاملہ انسانی سرگرمیوں کی المناک کہانی ہے اور اس
میں روح القدس سے رہنمائی کے ذریعے طلوعِ صداقت کا کچھ حصہ نہیں۔ شہنشاہ ہرقل (610ء -641ء) میں کلیسیاؤں کے اتحاد کی
ایک اور نہم دلانہ کوشش تو کی مگر اسے فارسی حملہ آوروں سے نمٹنا پڑا۔ فارسیو ں کو
مونوفائی ساٹئس کی تائید حاصل تھی۔ بازنطینی سلطنت فارسیوں کو 628ء میں شکست دینے
میں کامیاب تو رہی مگر اس کے جنوب میں عرب قبائل اسلام کے پرچم تلے متحد ہوچکے تھے۔
مونوفائی ساٹئس سے ایک نئے طریقہ سے
مصالحت کی کوشش کی جس کے مطابق انسانی اور الہیٰ جسم کے اتحاد سے ایک ہی ارادہ اور
قوت صادر ہوتی ہے۔ اس نئے خیال کو حونی تھی لائٹ (یک ارادی) عیسائیت کہا گیا۔
ہرقل بیس برس تک تو اپنی تجویز کے بارے میں پُر اعتماد رہا
اور بالآخر ایک فرمان جاری کرکے لاگو کردیا۔ یہ فرمان ہر لحاظ سے بے معنی رہا
کیونکہ ہر دو فریق نے ایسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ بالآخر اسے چھٹی کونسل نے 680ء میں یکتاً رد کردیا اور
بدعت ٹھرایا۔ اس وقت تک مونوفائل ساٹئس، قطبی، یعقوبی، آرمینی، میردنائٹ اور
لنتوری چرچ قسطنطنیہ کے شہنشاہ کے لئے کسی بھی قسم کا خطرہ پیدا کرنے کے ماورہ
ہوچکے۔
یوں ہم یقینی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ تثلیثی الہٰیات کی
تعلیم قطعی طور پر الہٰی تعلیم نہیں تھی
بلکہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ تعلیم بھی دیگر پاپائی توصیحات و توجیحات کے عین مماثل ہے اور ایسا کوئی
استحقاق نہیں رکھتی کہ ایسے انسانی "خوش قسمتی " کے لئے رہنمائی
شدہ یا پھر مذہبی پیشوائیت کے مسلط کردہ دوسرے عام احکامات سے ماوراء قسم کی کوئی
شے تصور کیا جائے جو اپنے اندر دائمی صداقت کے لئے ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔
بہت افسوس اور المیے کی بات یہ ہے کہ یہ ہماری سرگرمی تاریخ
کے صفحات میں ایک فونچکاں داستان کے طور پر محفوظ و موجود ہے۔ مثال کے طور پر
شارلیمان نے کافر عوام کو عیسائیت کی معقولیت و سچائی کے لئے یوں قائل کیا کہ ایک
ہی دن میں چار ہزار افراد کے لئے سر تن سے جدا کردیا۔ باقی ماندہ افراد اس مسیحی
معقولیت اور ازلی صداقت پر فی الفور
بلاتامل ایمان لے آئے۔ اس کے اس فعل کو 1164ء میں کلیسیا نے جائز قرار دے دیا۔
1215ء میں پوپ انوسنٹ سوم نے غیر تثلیثی
بدعت کی بیخ کنی کے لئے منظوری عطا کردی۔ 1252ء میں پوپ انوسنٹ چہارم نے بدعتی
معاملات کی تفتیش کے دوران کئے گئے تشدد کو قانونی جواز مہیا کردیا۔ یوں باقاعدہ
تفتیش کے لئے محکمہ احتساب کے نام سے ادارہ وجود میں آگیا۔ تاہم گمراہی کی تفتیش
کی جائے اور اسے عیسائیت سے الگ کردیا جائے۔
1563ء میں ٹرینٹ کی کونسل نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ مقدس
نوشتوں کی مختار کل تنہا چرچ ہی ہے اور بائبل کی تشریخ و توضیح صرف "صحیح
العقیدہ" چرچ فادرز کی رائے کے مطابق ہی کی جا سکے گی۔ بدعتوں پر مکمل طور پر
پھٹکار ڈال دی گئی اور تمام ایسی کتابیں جو مقدس نظر آئی تھیں لیکن ان کی منظوری
مقدس دفتر نے نہیں دی ممنوع قرار پائیں۔ 1572ء میں سینٹ برتلمائی کی یاد میں منائے
جانے والے دن صرف ایک بلوے میں فرانس میں دس ہزار افراد (جو پروٹیسٹنٹ عقیدہ رکھتے
تھے) بے رحمی سے ذبح کردیئے گئے تاکہ فرانس میں کیتھولک ازم کو گریز پہنچنے سے
بچایا جاسکے۔ اس خوفناک واقعہ کے بعد پوپ گریگوری (xiii) نے حمد باری
کے ترانے گائے اور خاص قسم کا گولڈ میڈل
(تحفہ) ڈھلوایا۔
پروٹیسٹنٹ بھی کچھ کم ظالم نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ چرچ کی
تمام شاخوں نے بلا امتیاز قابلِ تفریق تشدد ظلم و بربریت اور عدم برداشت کی وہ
مثالیں قائم کیں کہ یہ بتانا مشکل ہے کون بازی لے گیا۔ گزشتہ صدیوں میں وحدانیت پر
یقین رکھنے والے دس لاکھ سے زیادہ عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اور یہ
نتیجہ تھا مذہبی پیشوائیت کے اس یقین کا کہ وہی تنہا الوہی اختیار و سند کی مالک
ہے۔ یہ خیال بہت دلچسپ ہے کہ اگر اس کتاب کی مصنفہ صرف دو صدیاں قبل اسپین میں
رہائش پذیر ہوتی تو یہ کتاب اپنی جان کی قیمت پر ہی لکھوا پاتی یہ بات بالکل صحیح
ہے کہ سزا کے طور پر کسی لکڑی کے کھمبے پر لٹکا دی جاتی۔
اگرچہ تشکیک اُن علاقوں میں سر اٹھارہی تھی جہاں محکمہ
احتساب کا شکنجہ ذرا ڈھیلا ہوا تھا پھر بھی وہ لوگ انجیل کی صحت پر انگلی اٹھاتے
تھے اب بھی محتاط رہنے کی ازحد ضرورت تھی۔
اسپین میں خدا کے عظیم المرتبت بندے اب بھی نہایت سخت عقوبت
خانہ (ٹارچر سیل) 1816ء تک رواں دواں رکھے ہوئے تھے جبکہ پوپ نے بدعتوں سے اقبالِ
جرم کروانے کے لئے تشدد کا راستہ ممنوع قرار دیا تھا۔ اٹھارہ سال بعد تقدس مآب پوپ
نے محکمہ احتساب برخاست کردیا۔ چھ سو سال کے طویل عرصے بعد یورپ عقوبت زدہ لاشوں
کے جلائے جانے کی آلودہ متعفن اور سڑاند سے پاک ہوا میں سانس لے پایا۔ پھر بھی
بیشمار جگہوں پر وہ منحوس چپچپے داغ اب بھی لوگوں کے دلوں پر خوف طاری کر رہے ہیں
جہاں بدعتی لوگ سزا کے کھمبوں پر خداوند یسوع مسیح کے جلال کے لئے تڑپ تڑپ کر جان
دیتے رہتے تھے۔ اور پورے یورپ میں سوچنے سمجھنے والے لوگ حیرت زدہ ہو کر رہ جاتے
ہیں کہ کیا انجیل کی بیان شدہ سچائی واقعی ایک تاریخی سچائی ہے۔
ایک مخصوص کلیسیا میں شامل ہونے والے افراد کے لئے لازم ہے
کہ وہ اس عقیدت کو تسلیم کرے کہ چرچ کا گماشتہ کوئی فرد یا گروہ اس کے لئے کسی خاص
نقطہ نظر کا چناؤ کر چکا ہے یا اس بارے کوئی نہ کوئی فیصلہ صادر کر چکا ہے اور ایک
ایسا راسخ العقیدگی کا راستہ اس کے لئے متعین کردیا گیا ہے جو اس گماشتہ یا گروہ
کے اپنے نظریات کے حسبِ حال ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
باوجود عہدِ جدید
کے ماہر ترین علماء کے بار بار نظرِ ثانی کرنے کے، بہت سے چرچ جانے والے
عام لوگ اب بھی یہ تسلیم کرتے ہیں اور اپنی دعاؤں میں بار بار دہراتے ہیں کہ
دعائیہ کتب میں عقائد کے پیش کیا جانے کا عمل شفاف ترین اور قابلِ بھروسہ ہے مسلمان
جو ان عقائد سے آشنہ نہیں اور نہ ہی وہ ان کے وضع کرنے کی تاریخ سے آگاہ ہوتے ہیں،
باآسانی صاف صاف اس وقت دھوکہ کھا جاتے ہیں جب وہ پہلی بار مسیحی عقائد کے
کلیسیائی بیان کو سنتے ہیں۔
ایک سادہ مسلمان، اگرچہ وہ اتفاق نہ بھی کرے تب بھی وہ
بخوبی سمجھتا ہے کہ پیروکاروں کی عقیدت اسی طرح انہیں گمراہی کے راستے پر ڈال کر
خدا کے خدام اور پیغمبروں کو الوہیت کے منصب پر بٹھانے کے لئے سیڑھی کا کام دیتی
ہے۔ بہت سے مسلمان نہایت ہی سادہ لوحی سے یہ تصور کر بیٹھتے ہیں کہ اگر وہ
عیسائیوں کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے اور سکون و اطمینان سے معقولیت کے ساتھ معاملات
زیرِ بحث لائیں گے تو عیسائی جلد ہی اپنی غلطی پر متنبع ہوجائیں گے۔ اور خدا کے
قادر و مطلق ہونے کے منطقی عقیدے کی طرف پلٹ آئیں گے۔
جب کوئی مسلم عیسائی تھیالوجین کے روبرو ہوتا ہے تواسے زبان
و گرامر کی موشگافیوں کی دلیل میں پھنسایا جاتا ہے جس میں غیر منطقی بے دلیل دعاوی
اور پادریوں کے وقتاً فوقتاً وضع کردہ عقائد کا جواز پیش کرنے پر خاصی محنت اور
کوشش صرف کی جاتی ہے۔
پولوس فتح یاب ہوا
اور تثلیثی عیسائیت روئے زمین پر پھیل گئی۔ لیکن کیا یہ درست ہے؟ کیا یہ سب کچھ
دیتی ہے جو یسوع کا مطمع نظر تھا؟ کیا تثلیثی عیسائی حقیقتا پر تقین ہے؟ یا پھر
عیسائیوں نے یہ سب کچھ غلط حاصل کیا؟
آئیں ہم اپنا ذہن سادہ سوالات پوچھ کر تازہ کریں۔ کیوں
ہزاروں سالوں پر محیط خدائی تعلیمات کے دور میں کسی بھی خدا کے نبی نے تثلیث کا
سبق نہیں دیا؟ کیوں یسوع نے اسے بذاتِ خود واضح نہیں کیا؟ اگر تثلیث پر ایمان
انسانی نجات کے لئے اتنا ہی ضروری ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا نے سیکڑوں صفحات پر
مشتمل وحی بھیجی لیکن تثلیث کی تعلیم کے لئے ایک جملہ بھی ارشاد نہیں فرمایا؟ کیا
وجہ ہے کہ عہدِ قدیم کے انبیاء اپنی بعثت کے دوران بعلیم اور عشتاروت پر ایمان
رکھنے کے خلاف انتھک جدوجہد میں مصروف رہے؟ اور یہ کیسے ہوگیا کہ بائبل کے الحام
کے لکھے جانے اور یسوع کے صدیوں بعد خدا نے ایسی تعلیم تشکیل دے دی جس سے خدا کے
اپنے خادم ہزاروں سال تک بے خبر و نا آشنا رہے اور انسانی ہاتھوں کے لائے جانے کے
سبب ناقابلِ فہم چیتان بنا دیئے جس کا سارے کا سارا پسِ منظر یکسر مشرکانہ عقائد
کا حاصل ہواور جس کی فتح شہنشاہیت اور کلیسیائی سیاسی مفادات کی مرہونِ منت ہو؟
یقیناً اب وقت آگیا ہے کہ اس امکان کو تسلیم کرلیا جائے کہ
حقیقت میں یہ سچائی نہیں ہے بلکہ ارتداد ہے خدا ابتری یا زد لیدہ خیال کا خدا نہیں
ہے۔ 1۔ قرنتیوں 33:14 اب وقت آن پہنچا ہے کہ اس پیچیدہ اور غیر ضروری تعلیم
کو اس کے اصل مقام تک پہنچا دیا جائے جسے
زمانہ حال یا ماضی کا کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی کسی معقول و موزوں تشریح کے ذریعے آج تک ثابت نہیں کر
پایا یا پھر کم از کم اس عام آدمی کے لئے قابلِ فہم نہیں بنا سکا۔ جب چرچ توحید
پرست یونی ٹیرپن کو بدعتی کا ٹھپہ لگا کر اسے کاٹ پھینکنے میں بری طرح مصروف تھا۔
اسلام بہت تیزی سے ان مخرفین کو اپنے اندر سمو رہا تھا۔ ان توحید پرست یونی ٹیرپن
سے نفرت رکھنے اور زہریلی خار کھانے والے عیسائی مسلم دشمنی کی طرف پلٹ گئے۔
اس تناظر میں صلیبی جنگیں آرپنوسی قتلِ
عام کا وسیعت پذیر معاملہ ہیں۔
یہ حقیقت کہ موجودہ دور میں ہزاروں عیسائی اپنے عقیدے کو
خیر باد کہہ رہے ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ تثلیثی مذہب اتنا مؤثر اور تشقی بخش
نہیں ہے جتنا کہ اس بارے دعویٰ کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی نظریہ یا عقیدہ جس کی بنیاد
کمزور اندھے اعتقاد پر کھڑی ہو کبھی بھی دیرپا نہیں ہو سکتا اور جلد یا بدیر اس سے
چمٹے ہوئے لوگ حیرت کا اظہار کرنا شروع کردیں گے اور اسے کسی زیادہ ٹھوس اور عقلی
ترغیب ملنے پر ترک کردیں گے۔ اعتقاد/عقیدہ وہم و گمان کی چکاچوند میں تخلیق کیا
جاسکتا ہے اور مایوسی کے عالم میں لمحہ بھر میں تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔
ایمان کا تقاضہ ہوسکتا ہے کہ بائبل کی کلیتاً اطاعت و
فرمانبرداری کی جائے اس کے تمام تر نقائص اور خرافات اور بسا اوقات غیر اخلاقی چال
چلن اور اس کی غیر یقینی بنیاوں کے باوجود۔ اس کے برعکس دوسری طرف معقولیت معاملات
کو قبول کرنے سے گریزاں ہے کہ انسانی فہم و ذکاوت کے غلط استعمال کے نتیجے میں
تشکیل پائے ہیں۔ دماغ سوچتا ہے اور دل ایمان لاتا ہے۔ اگر ایمان جلد سوچے سمجھے
لایا جائے تو یہ حقیقتا اندھا اعتقاد ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم خدا کے وریعت کردہ
سوچنے سمجھنے اور معقولیت کے عمل سے گزر کر ایمان لائیں تو پھر اسے نہ تو کوئی ہٹا
سکتا ہے اور نہ ہی تباہ کر سکتا ہے۔
ایمان و اعتقاد ایک لازم فعل ہے اور اس زمین پر انسانی
زندگی کا جز ولاینفک اور قدرتی حصہ ہے۔ لیکن ہمارے لئے یہ جاننا اور سمجھنا ہر
لحاظ سے ہے کہ یہ کہاں سے ہمیں موصول ہوا۔ اگر ہمارے ایمان کے متعلق علمی تحقیقات
سے یہ ثابت ہوجائے کہ یہ محض ایک دھوکہ اور القباس ہے ، انسانی ساختہ ہے، نری جعل
سازی اور گھوٹ ہے اور تجربہ سے ہمارا
اعتقاد محض ایک عکس ہی ثابت ہو تو پھر ہمیں لازماً اس پر نظرِ ثانی اور اپنے دل کی
دور اندیشی سے تشخیصِ نو کرنی پڑے گی اور
روحانی طور پر کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے کی بنیاد پر اپنی سمت کا ازسر نو یقین
کرنا ہوگا۔
ہم ایک نئے عہد میں داخل ہورہے ہیں جو ان لوگوں کیلئے بہت
ہی تکلیف دہ ہوسکتا ہے جنہوں نے اپنا ایمان و اعتاد نئے عہدنامہ کی عیسائیت ماہیت
کی صداقت کے نفی کردہ ہے۔ انہیں بہت کچھ دوبارہ از سر نو تشکیل دینا ہوگا اور اس
کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا اس کی پیشن گوئی کسی یقین سے نہیں کی جاسکتی۔ پھر بھی
لازماً بہتر ہوگا کہ تصورات کو جاری رکھنے کی بجائے اصلاح و ترمیم سے ہم آہنگ
کرلیا جائے اگر یہ بات نہایت تکلیف دہ ہوگی تاہم یہ بات بیش قیمت ہے کہ وہ سب کچھ
ترک کردیا جائے جس کا سچائی تقاضا کرتی ہے۔
آیئے ہم دوبارہ گلیلی کی پہاڑیوں پر دوبارہ چلیں یا صحرا کی
اس ریت پر جہاں دن کو سورج جھلستا ہے اور رات کو تازہ صحرائی ہوا میں تاروں کی
روشنی مسافروں کی رہنمائی کرتی ہے۔ آئیں ہم ایک کوشش کریں، اگر کر سکے تو کہ چند
ساعتوں کے لئے خانہ بدوش گلہ بانِ ابراہیم، چرواہے داؤد ، ٹری ٹینڈر عاموس، بڑھئی یسوع اور دیانت
دار تاجر محمد کے ساتھ رہیں۔ اور ان کے شاگردوں کے ساتھ قرابت محسوس کریں۔ مشترکہ
اہم قبیلہ لوگ جو سادگی، سچائی، منطق و دلیل، راست بازی، جس کی تعلیم پیغمبروں نے
دی اور جسے باآسانی دلیروں میں بانٹا جاسکتا ہے۔