Pages

Most Popular

پیر، 10 مئی، 2021

شاگرد کہاں گئے؟ یروشلم یا گلیل؟

 

شاگرد کہاں گئے ؟گلیل یا یروشلم؟

تحریر:عبداللہ غازیؔ

اپنی زمینی زندگی کے آخری ہفتے میں یسوعؑ اپنے شاگردوں کے ساتھ اتوار کے دن یروشلم میں داخل ہوئے۔ اتوار تا جمعرات ان کے ایام یروشلم میں مصروف گزرے حتی کہ جمعرات کی جس شام یسوعؑ نے شاگردوں کے ساتھ فصح کھائی، اسی شام یسوعؑ گرفتار کر لئے گئے اور شاگرد انہیں چھوڑ  کر باغ سے فرار ہو گئے۔ گرفتاری کے اگلے دن بروز جمعہ اناجیل کے مطابق یسوعؑ کو مصلوب کر دیا گیا اور اتوار کے روز وہ مبینہ طور پر مردوں میں سے جِی اٹھے۔

                معاملہ یہاں تک تو بظاہر درست اور قابل تفہیم نظر آتا ہے مگر اس پورے قصے میں انجیل یوحنا کا بیان اناجیل متوافقہ سے شدید اختلاف رکھتا ہے۔ اول اختلاف تو یوم تصلیب کے تعین پر ہے کیوں کہ یوحنا کے مطابق یسوعؑ فصح کے برے ہیں لہذا ان کو صلیب عید فصح کے روز دی گئی جب کہ اناجیل متوافقہ پوری تفصیل کے ساتھ یسوعؑ کا اپنے شاگردوں کے ساتھ فصح کا کھانا کھانا بیان کرتی ہیں۔ اس لم ینحل تاریخی تضاد کے علاوہ  مزید ایک مقام پر انجیل یوحنا کا بیان  اعمال کی کتاب سے بھی شدید متبائن ہو جاتا ہے کہ اس کی توجیہ و تاویل نکالنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اعمال کے مطابق مبینہ واقعہ صلیب کے بعد  یسوعؑ چالیس دن تک شاگردوں کو نظر آتے رہے اور انہیں مختلف ہدایات دیتے رہے۔اس بات کی تصریح اعمال کی کتاب کے بیان سے ہوتی ہے کہ

"چنانچہ وہ چالیس دن تک انہیں نظر آتا اور خدا کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا۔ اور ان سے مل کر ان کو حکم دیا کہ یروشلم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اس وعدے کے پورا ہونے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو۔"(اعمال۱ :۳-۴)

                اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جی اٹھنے کے بعد شاگردان ِ مسیحؑ یروشلم سے گئے نہیں تھے بل کہ یروشلم میں ہی ٹھہرے رہے حتی کہ یسوعؑ مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ شاگردوں کا یروشلم میں ٹھہرنا بظاہر غیر منطقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ یروشلم وہ علاقہ تھا جہاں اپنی منادی کے کل دورانیہ میں یسوعؑ بمشکل ایک بار ہی تشریف لائے(اگرچہ یوحنا کے مطابق وہ تین بار مختلف تہواروں کے موقع پر یروشلم آئے تھے) لہذا یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ یہاں  شاگردان ِ یسوع کی کچھ تعداد موجود  تھی جنہوں نے شاگردوں کو پناہ دی۔ یہ بات یاد رہے کہ یسوعؑ کو حکومتِ وقت کا باغی ہونے کے جرم میں مبینہ طور پر مصلوب کیا گیا تھا لہذا رومیوں کے نزدیک ان کے شاگرد بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں تھے اور گرفتاری کی صورت میں بلاتاخیر انہیں بھی صلیب پر لٹکایا جا سکتا تھا۔ ایسے میں یہ عقدہ حل طلب ہی رہ جاتا ہے کہ یہ چالیس دن شاگردوں نے کیسے یروشلم میں گزارے باوجود یہ کہ وہ کھلے عام ہیکل یروشلم میں جاتے رہتے تھے؟ یہاں  یہ مفروضہ بھی درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا  کہ یروشلم میں یسوعؑ کے پیروکاروں کی بڑی  تعداد موجود تھی جنہوں  نے کھجور کی ڈالیں اٹھا کر اورچادریں بچھا بچھا کر یسوعؑ کا استقبال کیا تھا۔ اس بات کو تسلیم نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ مقدمہ یسوعؑ کی صورت حال ہے جہاں کھجور کی ڈالیں اٹھا کر استقبال کرنے والا یہی مجمع یسوعؑ کے خون کا اس قدر پیاسا ہو چکا تھا کہ صلیب سے کم سزا پر راضی نہ تھا اور یسوعؑ کا خون بھی خود پر اور اپنی اولادوں کی گردن پر لے چکا تھا۔ ایسے لوگوں سے شاگردوں کو کسی مؤدت و الفت کی توقع رکھنا عبث تھا لہذا انہوں نے ہرگز کسی ایسے شخص کی طرف رجوع نہیں کیا ہوگا۔ تو پھر وہ یروشلم میں کس طرح رہ رہے تھے؟ یہ تاریخی معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے۔

                دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اعمال کی کتاب خبر دیتی ہے کہ شاگردان ِیسوعؑ واقعہ صلیب کے بعد چالیس دن تک یروشلم میں ہی ٹھہرے رہے جب کہ دوسری طرف ہم انجیل یوحنا میں دیکھتے ہیں کہ  واقعہ تصلیب کے چند دن بعد ہی شاگرد واپس  گلیل کی طرف لوٹ گئے تھے اور اپنا سابقہ پیشہ اختیار کرتے ہوئے دوبارہ سے مچھلیاں پکڑنا شروع کر دی تھیں۔

"ان باتوں کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبریاس کی جھیل کے کنارے شاگردوں پر ظاہر کیا اور اس طرح ظاہر کیا ۔ شمعون پطرس اور توما جو توام کہلاتا ہے اور نتن ایل جو قانائے گلیل کا تھا اور زبدی کے بیٹے اور اس کے شاگردوں میں سے دو اور شخص جمع تھے۔ شمعون نے ان سے کہا میں مچھلی کے شکار کو جاتا ہوں"(یوحنا۲۱ :۱ -۳)

                یوحنا کے مطابق شاگردوں کی اکثر تعداد اس وقت وہاں موجود  تھی۔ دوسری طرف متی و مرقس بیان کرتے ہیں کہ یسوعؑ نے عورتوں کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یسوعؑ شاگردوں سے گلیل میں ملے گا تاہم لوقا ایسی کوئی بات نہیں کرتا اور شاگردوں کا ہنوز یروشلم میں ہی  ہونا بیان کرتا ہے۔  یاد رہے کہ یسوعؑ کا شاگردوں پر ظہور جیِ اٹھنے کے فورا بعد ہوا تھا لہذا یہ ظہور یروشلم میں ہی ہونا تھا کیونکہ فصح کے فورا بعد ہی بےخمیری روٹی کی عید شروع ہو چکی تھی جس کا دورانیہ سات دن پر مشتمل تھا۔  اس سات دنوں تک شاگرد یروشلم چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے جب کہ متی، مرقس و یوحنا بیان کرتے ہیں کہ یسوعؑ  اتوار یا پیر کے روز ہی شاگردوں پر ظاہر ہو گئے۔ اگر یہ مفروضہ درست تسلیم کر لیا  جائے  کہ واقعہ تصلیب کے فوراً بعد ہی شاگرد یروشلم سے گلیل چلے گئے تھے تو بھی بات بنتی نظر نہیں آتی ہے کیونکہ یروشلم سے گلیل کے درمیان کم و بیش ۱۲۶ کلومیٹر کا فاصلہ ہے جسے  دو تین روز میں عبور کرنا ناممکن تھا کیوں کہ درمیان میں سامریوں کا علاقہ تھا جو زائرین یروشلم کے خون کے پیاسے تھے اور انہیں یہاں سے گزرنے نہیں دیتے تھے۔  مگر یہ تاویل ایک اور وجہ سے بھی غلط ہے کہ اتوار کے روز جب عورتیں قبر پر آئیں اور انہوں نے قبر کو خالی پایا تو انہوں نے جا کر فی الفور شاگردوں کو ہی اطلاع دی تھی۔ اگر شاگرد یروشلم سے گلیل چلے گئے تھے تو پھر عورتوں نے کیسے انہیں قبر خالی ہونے کی اطلاع دی؟

                انجیلی بیانات میں تطبیق کی ایک ہی صورت ممکن ہے کہ انجیل لوقا کے بیان کا انکار کر دیا جائے جو صعودِ مسیح تک شاگردوں کو یروشلم میں ہی مقید رکھتی ہے۔ لوقا کے برعکس یوحنا و متی(مرقس گلیل جانے کےمتعلق کچھ نہیں لکھا) دونوں ہی یسوعؑ کے رفع آسمانی سے ناواقف ہیں اسی لئے انہوں نے اسے شامل تصنیف  نہیں کیا۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ وہ یسوع کے آسمان پر جانے سے واقف تھے تو بھی انہوں نے اس روایت کو اس قدر  معتمد دنہیں سمجھا کہ اسے نقل کرتے ۔ چناں چہ اگر لوقا کے بیان کو کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھ دیا جائے تو صورت حال واضح اور قابل تفہیم ہو جاتی ہے کہ واقعہ تصلیب کے بعد سات دن  تک شاگرد بےخمیری روٹی کی عید منانے یروشلم میں ہی ٹھہرے رہے  اور اس کے فوراً بعد گلیل لوٹ گئے ۔ گلیل تک پہنچنے کا عرصہ کم از کم پانچ ایام پر محیط ہوگا کیونکہ  درمیان میں سامریہ کا پہاڑی علاقہ تھا جہاں سے یہودیوں کا گزرنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے برابر تھا۔ بےخمیری روٹی کی عید کے سات ایام اور واپس لوٹنے کے پانچ ایام کو جمع کیا جائے تو یہ تقریباً ۱۲دن بنتے ہیں لہذا گلیل میں شاگردوں پر ظہورِ یسوعؑ واقعہ صلیب کے بھی بارہ دن بعد ہوا جب کہ اناجیل اس سارے منظر نامے کو کچھ اس طرح سے پیش کرتی ہیں کہ گویا یہ تمام واقعات یکےبعد دیگر فی الفور پیش آرہے تھے۔


مکمل تحریر >>

بدھ، 5 مئی، 2021

کیا مسیحیوں کا علمی ورثہ درست منتقل ہوا؟

 

کیا مسیحیوں کا علمی ورثہ درست منتقل ہوا؟

مترجم :ظفراقبال

مسئلہ ابھی تک حل ہونے سے انکاری ہے۔ تثلیثی تعلیمات نے مغرب میں جڑ پکڑی، کیونکہ کاسینٹ باسل اور انطاکیہ کےسینٹ تھیوفیلس ہی وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے لفظ تثلیث یا ثالوث برتا۔ نقائیہ کی کونسل کے وقت بھی اِس نظریے کی وہ شکل نہیں تھی جو اب ہمارے سامنے ہے کیونکہ  اِس مرحلے پر روح القدس الگ اقنوم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ لوگ جو اِس نظریے کے حمایتی تھے کہ یسوعؑ خدا کے برابر نہیں ہے، وہ کچھ عرصہ تک اس کے مؤید رہے لیکن شہنشاہ تھیوس ڈپئس نے بعد میں ان کے خلاف اپنا فیصلہ صادر کر دیا۔ اُس نے اپنے زیر حکومت تمام علاقوں میں عقیدہ ِنقایہ جبراً مسلط کیا اور اس وضع شدہ نظریے کی توثیق کےلئے ۳۸۱ء میں قسطنطنیہ کی کونسل کا انعقاد کروایا، اور اِس کونسل نے خدا کے اقانیم ثلاثہ میں روح القدس نامی اقنوم کی شمولیت کا فیصلہ صادر کردیا۔ بجائے اس کے کہ اسے خدا کا فعل تسلیم کیا جاتا اسے خدا اور مسیح کا مسادی درجہ عطا کردیا گیا۔ یوں۳۸۱ء میں پہلی بار تثلیث کو شرعی حیثیت میسر آئی۔

۳۸۱ء میں مسئلہ تثلیث پر لچک دار مؤقف رکھنے والے جیروم نے بیت لحم کے غاروں میں سکونت اختیار کرلی اور اپنی مرضی سے چند مخصوص صحائف کو لاطینی زبان میں ڈھالنا شروع کرد یا۔ بعدازاں یہ ترجمہ" ولگیٹ" کے نام سے اس  قدر مشہور ہوا کہ مقدس نوشتے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ ایک بار جب جیروم کے مجموعے کو مقبولیت عامہ حاصل ہوئی تو وہ کتب جو اُس انتخاب میں شامل نہیں تھیں، درجہ کمتر قرار پائیں۔ اِس کے باوجود تثلیث کو قبولیت عام میسر نہیں آسکی صورتِ حال یہاں تک گھمیر ہوگئی کہ تثلیث کی مخالفت کا مطلب تعذیر کو دعوت دینا تھا۔

بہت سا مواد، جس کے بارے میں باور کیا گیا کہ یہ صحیح العقیدہ نہیں تھے، قصدًا تلف کردیا گیا یا پھر عیسائیوں کے احتسابی  نظام کا شکار ہوکر جعلی یا غیرمستند قرار پایا۔ احتسابی عمل قسطنطین اول کے زمانے میں مسلط کیا گیا اور تھیوڈوسیٹس دوم اور ویلیطپئس سوم کے عہد میں پوری شدت سے کام دکھاتا رہا۔ ہمارے پاس موجودہ صورت میں عہد جدید 397ء ،میں سامنے آیا جب کارتعج کی کونسل نے بےحد بحث و تکرار اور عدم اتفاق کے بعد چھبیس کتب کی فہرست کا حتمی حکم نامہ صادر کیا۔ ]مکاشفہ کی کتاب اِس کونسل میں زیرِ بحث نہیں آئی تھی۔ از مترجم[

قدیم مصری عیسائی جماعت کی لائبریری 1945ء میں مصر میں ناگ حمادی کی ریت میں دبی ہوئی ملی۔ یہ تیرہ جلدوں میں انچاس کتابوں پر مشتمل کاوش تھے۔ اور قدیم قاہرہ کے قبطی میوزیم کا سب سے بڑا خزانہ بن گئی۔ متون واضع طور پر یہ آشکار کرتے ہیں کہ اِس گروہ کے ہاں کیا کیا قابلِ قبول تھا۔ یوحنا کے تین نسخے(اسفار محرفہ)، یعقوب کے مکاشفے کے تین نسخے، پولوس کے مکاشفہ کا ایک نسخہ، پطرس کے مکاشفہ کا ایک نسخہ اور تین اناجیل جو موجودہ عہد جدید میں شامل نہیں ہیں۔ویلنٹہنئس کی انجیل صداقت، انجیل قلب اور انجیلِ توما حواری۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب عہد جدید میں برنباس کا خط، مکیمنٹ کا خط، ہرمس کا چرواہا، پطرس کی منادی، ددخے (تعلیم دوازدہ رسول)، رسولوں کی سیرت، حتٰی کہ کشف سبلین جیسی  کتب بھی شامل تھیں جنہیں بعدازاں ترک کردیا گیا۔

پہلی چھ صدیوں تک شامی کلیسیا موجودہ خطوط میں سے چار خطوط اور کتاب مکاشفہ کو اپنے مجموعہ کتب سے باہر رکھتی رہی۔ چوتھی صدی عیسوی میں شامی اور ارمینی کلیسیائیں قرنتیوں کے نام پولس کے تیسرے خط کو قبول کرتی تھی۔ اب بھی حبشی کلیسیا یا ابتھوپیائی کلیسیا موجودہ عہد جدید کی نسبت آٹھ مزید کتب اپنے مجموعہ کتب میں شامل کرتی تھی۔ یہ بات بہت واضح تھی کہ کتابوں کے انتخاب کا عمل ایک عیسائی گروہ کے دوسرے عیسائی گروہ پر فتح یابی کا مرہونِ منت تھا۔ اگر مخالف گروہ غالب آجاتا تو پھر کتب عہدجدید کی فہرست بھی مختلف ہوجاتی۔

انطاکیہ میں وہ اِس نظریے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب رہے کہ مسیح ایک منفرد انسانی ذات ہے جسے حکم الٰہی ودیعت کیا گیا۔ وہ ایسا انسانی جسم تھا جس کا مخزن الٰہی تھا۔ مسیح انسان میں سے ہوکر خدا تھا اور کنواری مریم اس کی ماں تھی جوکہ انسانی بدن کے توسط سے تھی اور مسیح کی بحثیت خدا ماں نہیں تھی۔ سکندریہ میں مسیح میں مافوق الفطرت ہستی کے مجسم ہونے پر سوچ و بچار کی گئی۔ انطاکیہ میں اُن کی رہنمائی میسوپتامیہ کے تھپوڈور نے کی۔

انہوں نے مسیح کی دو ذاتوں/ذوہستی ہونے پر زور دیا جو باہم مختلف تھیں، اور چونکہ انسانی والٰہی ذاتیں لاذماً جدا جدا تھیں اِس لئے وہ اِن کے ادنمام کے بارے کوئی تسلی بخش بیان جاری کرنے سے قاصر رہے۔ سکندریہ میں الٰہی اور انسانی ذوات کے مابین تمیز کرنے کے معاملے میں اُن میں مفاہمت ہوگئی، اور یسوع کی الوہیت پر اُس کی بشری نوعیت کے لحاظ سے زور دیا گیا۔ اپاتھوس اہاتھین نامی ضابطہ زیرِ بحث لایا گیا جس کی رد سے " وہ مصائب اٹھائے بغیر مصائب میں متبعدہوا۔" (یعنی کہ اُس کے جسم نے دکھ اٹھایا، اور کلام/کلمہ نے محض اِس ہمدردی میں مصیبت برداشت کی کہ وہ اُس کا جِسم تھا)

بڑے مفکرین میں سے ایک اپالی نیریس تھا( جو 80-360 کے عرصے میں سرگرم عمل رہا تھا) جِس نے یہ سبق پڑھایا کہ یسوع کے جسم کی طبیعات بانوعیت الٰہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مسیح جوکہ خدا تھا انسانی شکل میں نمودار  ہوا۔ اس لئے عیسائی ہر لحاظ سے اس کے مستحق ہیں کہ کنواری مریم کو تھیوٹوکوس باخدا کی ماں کہیں۔ اور شفاعت طلب دعائیں اُس سے کریں، یہ نظریہ مونوفائی سائٹ کہلایا، جوکہ یک ذاتی نوعیت پر دلالت کرتا تھا۔

حقیقت میں دونوں نظریات (یک ذاتی و ذوذاتی) تثلیثی تعلیم پر مفاہمت رکھتے ہیں، کیونکہ اگر کوئی یہ تسلیم کرے کہ مسیح بشری لبادے میں خدا تھا تو اُسے لاذماً  یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ حقیقی بشر کے طور پر ہمارے لئے دکھ اٹھانے اور مرنے کے لئے قطعی طور پر بے بس لاچار تھا اور یہی عقیدہ نجات کا جوہر تھے۔ جبکہ اِس کے برعکس اگر کوئی شخص اِس کی دو ذاتی حیثیت کو تسلیم کرے تو یہ اِس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صلیب پر مرنے والی ہستی مسیح کی انسانی ذات تھی نہ کی خدا کی ہستی جس سے دوبارہ نجات کے نظریہ سے مفاہمت ہوجاتی ہے۔

انطاکی الٰہی مکتبہ فکر کا  روح رواں نسطوریس تھا کہ میسوپتامیہ کا ارامی عرب تھا۔ جس نے کھلے بندوں دونوں ہستیوں کے مسیح میں ادغام سے انکار کردیا تھا، نسطوریس کا نظریہ راسخ العقیدہ اور مونوفائی سائٹس دونوں کے لئے یکساں لعنت ملامت تھا۔ نہ صرف یہ کہ مسیح کی دو  ذاتیں تھیں بشری اور الٰہی بلکہ دو اقانیم مسیح میں باہم یکجا ہوگئے تھے۔ اس لئے مریم کی تھیوٹوکوس یا خدا کی ماں نہیں پکارنا چاہیے۔ وہ ہرگز اس قسم کی کوئی ہستی نہیں تھی۔ وہ صرف انسانی یسوعؑ کی والدہ تھی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس لئے اُسے کرائسٹوٹوکوس یا مسیح کی ماں ہی کہنا چاہئے۔

نسطوریس کی شدت پسند مونوفائی سائٹ سرل آف سکندریہ (412-444) نے مغلوب الغضب ہوکر مخالفت کی۔ نسطوری بدعت کا معاملہ نمٹانے کے لئے 431ء میں اُفسس کی کونسل منعقد ہوئی جس میں شامل بشپ حضرات نے کثرتِ رائے سے کنواری مریم کے تھپوٹوکوس یعنی مادر خدا ہونے پر ہر تصدیق ثبت کی۔ دو ذاتی ہستی کو متعین کردیا۔ باالفاظ دیگر نسطوری نظریہ کو بدعت قرار دے دیا اور نسطوریس کو جلاوطنی کی حالت میں مرنے کے لئے مصر کے مشرقی صحرا میں بھیج دیا۔ تاہم آج بھی اُس کا نظریہ بڑی پختگی سے شاہی کلیسیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ البتہ سرل کی کامیابی نے روم میں خطرے کی گھنٹی بجادی اور پوپ لیو اول (440-461) نے مونوفائی سائٹس کے اِس مقام و مرتبہ ہر 449ء میں ایک اور کونسل طلب کرکے پرزور دھاوا بول دیا۔ سرل کا جانشین ڈائیوسکورس (444-454) اپنے محافظ کے ہمراہ آن پہنچا، اور  مخالفین کو مونوفائی سائٹس کے حق میں فیصلہ دینے کے لئے بہت زیادہ دھمکایا یہی وجہ ہے کہ یہ مجلس قزاقوں کی مجلس کہلائی۔

451ء میں خلقیدون کی مجلس عام دوبارہ مونوفائی سائٹس کے یسوع کی یکجہتی ذات کے بارے مجتمع ہوئی۔ اِس مجلس عام اِن تعلیمات پر بحث کی کہ یسوع کی بشریت اُس کی الوہیت میں کلیتا جذب ہوگئی تھی (یہ ایرلیس کی تعلیمات کے ضدف تھا)۔ تاہم یہ نقطہ نظر ابھی تک مصری، ایتھوپیائی قبطی اور آرمینٹسن اور لعقبولی کلیسیاؤں میں ابھی تک قابلِ لحاظ گردانا جاتا ہے۔ شہنشاہ مرقیون کی وجہ خلقیدون کی اس کونسل نے جس فارمولے پر پسپائی اختیار کی دوحقیقت ایک مفاہمت سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اِس نے نہ تو کوئی حل پیش کیا اور نہ ہی اِس کا حاصل کئی ایک رقہیانہ آرا پر لعنت مروت سے سوا  کچھ اور تھا۔

اِس  بات پر زور دیا گیا کہ الوہیت میں یسوع خدا باپ کا ہم مادہ و ہم ذات ہے اور بشریت میں ہمارا ہم جنس و ہم مادہ۔ وہ ہر لحاظ سے ہمارے مماثل ہے سوائے گناہ کے۔ ازل سے خدا باپ سا صادر ہوا اور آخری ایام میں ہمارے لئے پیدا ہوا کنواری مریم سے تاکہ ہمیں نجات بخشے۔ مریم مادر خدا ہے یسوع بشریت میں دونوں انواع کا حاصل ہے اور بغیر کسی اخلاط کے بغیر کسی تبدیلی کے، بغیر جوہر کی تفہیم کے، بغیر ایک جوہر دوسرے سے الگ  ہونے کے، اور ہر ذات یا جنس امتیازی وصف محفوظ ہے اور ہراگندہ یا خلط ملط نہیں ہوا۔"اخلاط" سے مراد اُن کی یہ تھی کہ دونوں انواع باہم یکجا ہوکر کام کررہی ہیں بالکل ایسے جیسےکہ پانی میں نمک گھل جاتا ہے یہ علما کی ذہنی ایچ کا نتیجہ نہیں ہے؟۔ ہر نوح اپنے آپ میں کامل ہے اور دونوں ایک دوسرے سے قطعا ممیز نہیں لیکن اِس کے باوجود نہایت کاملیت سے ایک ہی شخصیت میں یکجا ہیں جو بیک وقت خدا بھی ہے اور انسان بھی۔

494ء میں پوپ گلاسپئس اول نے پچھلی دونوں صدیوں ہونے والی کاوشوں کی جانچ پڑتال کو حتمی شکل دے دی۔ پوپ کا فرمان ممنوعہ کتب کی فہرست پر مبنی تھا۔ اس  میں اکسٹھ کتب اور چھتیس سے کم مصنفین کے نام نہیں تھے جن کا حمایتی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہ ٹوٹنے والا لعنت  ملامت کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔

ممنوعہ کتب کا پاس رکھنا ایک سنگین جرم قرار پایا اور کئی ہزار عیسائی  اپنے ہی ہم مذہبیوں کے ہاتھوں ممنوعہ کتب پاس رکھنے کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی دشمن تحریریں یا وہ تاریخی مواد جو یسوع کو ایک انسانی رہنما کے روپ میں پیش کرتا تھا اس کی باریک بینی سے چھان بین کی گئی اور نہایت منظم طریق سے تلف کردیا گیا۔ (لازم تھا کہ یہ مواد یسوع کو ایک شورش لیڈر یا سیاسی رہنما بتلائے)۔یہی وجہ ہے کہ جوزلفیس کی کتاب میں اب کوئی مواد موجود نہیں ہے ٹیسیٹس کے متعلقہ مواد غائب ہے اور سیلسس اور اس جیسا دوسرا نام روئے زمین سے مٹا کر دم لیا گیا۔

لیکن آثار سے واضح ہے کہ ان کے پاس  بتانے کے لئے بہت کچھ باقی ہے۔ وہ خدا کے بیٹے نجات دہندہ یسوع کی کہانی کو جانتے ہیں اور اسے رد کردیتے ہیں۔ ان آثار کا  استرداد اس بنا پر نہیں ہے کہ یسوع کبھی رہا ہی نہیں تھا بلکہ اس لحاظ سے کہ یسوع کی الوہیت کے عیسائی دعاوی  کھٹ پٹ یا فریب خوردگی پر مبنی ہیں۔ اور یسوع کی تعلیم اور حیات بارے عیسائی بیانات قطعاً جھوٹ ہیں۔

نسطوری فرقہ 498ء سے انطاکیہ قطع تعلق کر چکا ہے اور عراق کے شہر کے طیسفون میں اپنے بڑے بشپ  کے ساتھ الگ کلیسیا بنا چکا ہے۔

506ء میں ارفی کونسل نے خلقیدونی کو نسل کے فیصلوں کو مسترد کردیا، اور خود کو کھلے بندوں مونو فائی ساٹئس کہلوایا۔ 512ء میں انطاکیہ کا مونوفائی ساٹئس بطریق سورس (Severus) کو نکال باہر پھینکا گیا اور جلا وطن کردیا گیا۔ مونوفائی سائٹس نے اپنے اوپر مسلط شدہ بشپ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور خود ہی اپنا نیا بطریق چن لیا جو ٹیلر کا رہنے والا سرجئیس تھا۔ سورس کو شہزادی تھیو ڈورا نے تحفظ اور حمایت فراہم کی وہ جیٹنین کی بیوی تھی اور ملکہ تھی۔ یوں شامی مونوفائی ساٹئس ایک اور خودمختار کلیسیا بن گئے۔ 553ء میں قسطنطنیہ میں دوسری مجلسِ عام نے ایک مرتبہ پھر نظریہ تثلیث کی تائید و توثیق کردی اور کنواری مریم کی مادرِ خدا ہونے کی بھی۔ اور 680ء میں قسطنطنیہ میں منعقد ہونے والی تیسری مجلسِ عام نے اس بات کی توثیق کی کہ مسیح کی ذات میں دو ارادے ہیں اور دو طریق سے ہی پورے ہوتے ہیں۔

تھیوڈورا سے عنسانی قبیلے کے بادشاہ شیخ الحارث حیلہ نے ملاقات کی جو اپنے عرب عیسائیوں کی حالتِ زار اسے بتانے آیا تھا۔ انہوں نے ان شاہی کارندوں کے ہاتھ ہولناک مظالم سہے تھے جنہیں مشرقی صوبوں میں بدعتوں کی بیخ کی کے لئے متعین کیا گیا تھا۔ شیخ نے ملکہ کو بتایا کہ انہیں ایک نئے بشپ کی ضرورت ہے جو ان پادریوں کی جگہ پر افراد متعین کرے جو کہ "صحیح العقیدہ" ظالم و جابر کارندوں کے ہاتھوں یا تو گرفتار ہیں یا پھر موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں۔ وہ ایسی بھیڑیں تھیں جن کا کوئی چوپان نہ ہو۔ وہ (بشپ) غیر معمولی شخص ہونا چاہیئے۔ جفاکش صندی اور چاک و چوبند جسے شامی اور یونانی  زبانوں پر عبور حاصل ہو بھلے عربی نہ بول سکتا ہو۔ اور اس بات کو قبول کرنے پر رجامند ہو کہ وہ  ہمہ وقت ایک جنگی درندے کی مانند شکار کرنے پر کمربستہ رہے گا۔ ملکہ کا "روح القدس کا تائید یافتہ" انتخاب باردیس تھا۔ ایک تارک  الوہنار اسیب جسے ایڈیسہ کا بشپ مقرر کیا گیا تھا اس کے نام میں شامل باردیس اصل میں اس کا عرف تھا جس کا مطلب تھا خستہ حال اور ریزہ ریزہ۔ بہ عرف اس وجہ سے پڑ گیا تھا کہ  اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ایک گداگر کے روپ میں بسر کیا تھا۔

باردیس  ایک حیرت انگیز صناد تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے ہزاروں میل طویل سفر  طے کر رہا تھا جس میں زیادہ تر سفر اس نے پیدل ہی کیا تھا۔

اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ہزاروں پادریوں کو متعین کیا اور نواسی بشپ تعینات کئے اور دو بطریق مقرر کئے اس نے اپنی کلیسیا کی خشت اس قدر مضبوطی سے رکھی تھی کہ وہ آج تک شام میں موجود ہے یعنی یعقوبی کلیسیا۔

عیسائی تثلیثی تعلیم اصلاً مغرب میں پھلی پھولی جس کے ڈانڈے ہزاروں برس قدیم مشرک اقوام کے افکار و نظریات سے ملتے ہیں اور حقیقت میں یہ مشرک اقوام کا ہی ورثہ ہے جوقرونِ  وسطیٰ میں مسیحی عقائد کا حصہ بنا۔ یہ اثنا سیی عقیدہ  کہ "ہم تالوث میں ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ باپ خدا ہے بیٹا خدا ہے اور روح القدس خدا ہے اور یہ مل کر تین خدا نہیں بلکہ ایک ہی خدا بنے"۔ بارہویں صدی عیسوی تک مشرقی کلیسیا اس سے لاعلم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی کلیسیا ئیں  اب تک نقایہ عقیدے کے مطابق بدعتی سمجھی جاتی ہیں۔ جس کے مطابق روح القدس ، باپ اور بیٹے دونوں سے صادر ہوتا ہے۔

موجودہ صدی کی بابت کیا خیال ہے؟ لورڈز کے مقام پر 1958ء میں منعقدہ میریولوجیکل کانگریس نے تجویز کیا کہ مریم کے  بارے میں یہ منادی کی جائے کہ وہ "کاسا افیشنس " ہیں مطلب یہ کہ "وہ اس بات کی مظہر یا سبب ہیں جس سے نجات نے جنم لیا جس کی سفارش اور وسیلے کے بغیر ایمان پرفضل نہیں ہوتا"۔ یہ تجویز ناکام رہی لیکن محظ عارضی طور پر کیونکہ 1964ء میں پوپ پال ششم نے مریم کو "مٹیرایلکلیسیا"یعنی "مادرِ کلیسیا" کا مرتبہ عطا کردیا اور یوں وہ خود بخود ہی "کاسا افیشنس" کے مقام پر ممکن ہوگئیں۔ یوں وہ مقامِ الوبیت سے سرفراز ہوگئیں جیسا کہ بہت سے پروٹیسٹینٹ حضرات اس بات کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ یہ نقطہ ذہن نشین رہنا چاہیئے کہ پوپ پال ششم کا یہ فیصلہ ذاتی اور کسی حد تک تنہا ہے کیونکہ ویٹیکن کی دوسری کونسل کی کلیسیا مخالفت پر مبنی ہے جس نے امید کی ہلکی سی کرن آئندہ آنے والے وقتوں میں پروٹیسٹینٹ چرچ کے ساتھ اتحاد کی کسی تحریک میں اس شرط کے ساتھ دیکھی کہ اگر مریم کو مزید مرتبہ بخشا تو پھر دونوں فریق مل کر اس مسئلے کا حل نکال لیں گے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ عیسائی دنیا میں تثلیث نے قبولیتِ عام پانے کے لئے سیکڑوں برس لئے ۔ سوال یہ ہے کہ ان فیصلوں کے پس پردہ کسی رہنمائی کار فرما ہے؟ خدا کا کلام یا پھر پودارانہ  اور سیاسی تفہیم  و اغراض و مقالبہ؟

یہ بات ہر لحاظ سے درست ہے کہ یہ معاملہ چرچ کی اندرونی سیاست کا ہی ہے۔ تمام پودارانہ الہٰیات معاصر سیاسی حالات اور فلسفے کے اندر رہ کر بروئے کار لائی گئیں اور ثقافتی لحاظ سے ان (پودارانہ الہٰیات) کی راہ متعین کردی گئی۔ نظریاتی تضادات صرف دلائل کے ذریعے دور نہیں کئے گئے بلکہ اس میں شخصیات اور سیاسیات کا عمل دخل بھی حاوی رہا۔ سرل، نسطوریس، ایریس، یوطی کس اور اتضاسیس کی شخصیات اس ضمن میں کافی مثالی شخصیات ہیں۔

گہرے جذبات اور عمیق تعصب نے مجالسِ عام، کلیسیاؤں اور راہبوں کی افواج کو ایک دوسرے پر تابڑ توڑ خطرناک حملے یا پھر کلیسیا کے راست باز اور محض قائدین کو کلیسیا کے اخراج یا انہیں جلا وطن کردینے کے لئے مسلسل ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھا۔ یہ سارا معاملہ انسانی سرگرمیوں کی المناک کہانی ہے اور اس میں روح القدس سے رہنمائی کے ذریعے طلوعِ صداقت کا کچھ حصہ نہیں۔ شہنشاہ  ہرقل (610ء -641ء) میں کلیسیاؤں کے اتحاد کی ایک اور نہم دلانہ کوشش تو کی مگر اسے فارسی حملہ آوروں سے نمٹنا پڑا۔ فارسیو ں کو مونوفائی ساٹئس کی تائید حاصل تھی۔ بازنطینی سلطنت فارسیوں کو 628ء میں شکست دینے میں کامیاب تو رہی مگر اس کے جنوب میں عرب قبائل اسلام کے پرچم تلے متحد ہوچکے تھے۔ مونوفائی ساٹئس  سے ایک نئے طریقہ سے مصالحت کی کوشش کی جس کے مطابق انسانی اور الہیٰ جسم کے اتحاد سے ایک ہی ارادہ اور قوت صادر ہوتی ہے۔ اس نئے خیال کو حونی تھی لائٹ (یک ارادی) عیسائیت کہا گیا۔

ہرقل بیس برس تک تو اپنی تجویز کے بارے میں پُر اعتماد رہا اور بالآخر ایک فرمان جاری کرکے لاگو کردیا۔ یہ فرمان ہر لحاظ سے بے معنی رہا کیونکہ ہر دو فریق نے ایسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ بالآخر  اسے چھٹی کونسل نے 680ء میں یکتاً رد کردیا اور بدعت ٹھرایا۔ اس وقت تک مونوفائل ساٹئس، قطبی، یعقوبی، آرمینی، میردنائٹ اور لنتوری چرچ قسطنطنیہ کے شہنشاہ کے لئے کسی بھی قسم کا خطرہ پیدا کرنے کے ماورہ ہوچکے۔

یوں ہم یقینی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ تثلیثی الہٰیات کی تعلیم  قطعی طور پر الہٰی تعلیم نہیں تھی بلکہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ تعلیم بھی دیگر پاپائی توصیحات و توجیحات  کے عین مماثل ہے اور  ایسا کوئی  استحقاق نہیں رکھتی کہ ایسے انسانی "خوش قسمتی " کے لئے رہنمائی شدہ یا پھر مذہبی پیشوائیت کے مسلط کردہ دوسرے عام احکامات سے ماوراء قسم کی کوئی شے تصور کیا جائے جو اپنے اندر دائمی صداقت کے لئے ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ 

بہت افسوس اور المیے کی بات یہ ہے کہ یہ ہماری سرگرمی تاریخ کے صفحات میں ایک فونچکاں داستان کے طور پر محفوظ و موجود ہے۔ مثال کے طور پر شارلیمان نے کافر عوام کو عیسائیت کی معقولیت و سچائی کے لئے یوں قائل کیا کہ ایک ہی دن میں چار ہزار افراد کے لئے سر تن سے جدا کردیا۔ باقی ماندہ افراد اس مسیحی معقولیت  اور ازلی صداقت پر فی الفور بلاتامل ایمان لے آئے۔ اس کے اس فعل کو 1164ء میں کلیسیا نے جائز قرار دے دیا۔ 1215ء میں  پوپ انوسنٹ سوم نے غیر تثلیثی بدعت کی بیخ کنی کے لئے منظوری عطا کردی۔ 1252ء میں پوپ انوسنٹ چہارم نے بدعتی معاملات کی تفتیش کے دوران کئے گئے تشدد کو قانونی جواز مہیا کردیا۔ یوں باقاعدہ تفتیش کے لئے محکمہ احتساب کے نام سے ادارہ وجود میں آگیا۔ تاہم گمراہی کی تفتیش کی جائے اور اسے عیسائیت سے الگ کردیا جائے۔

1563ء میں ٹرینٹ کی کونسل نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ مقدس نوشتوں کی مختار کل تنہا چرچ ہی ہے اور بائبل کی تشریخ و توضیح صرف "صحیح العقیدہ" چرچ فادرز کی رائے کے مطابق ہی کی جا سکے گی۔ بدعتوں پر مکمل طور پر پھٹکار ڈال دی گئی اور تمام ایسی کتابیں جو مقدس نظر آئی تھیں لیکن ان کی منظوری مقدس دفتر نے نہیں دی ممنوع قرار پائیں۔ 1572ء میں سینٹ برتلمائی کی یاد میں منائے جانے والے دن صرف ایک بلوے میں فرانس میں دس ہزار افراد (جو پروٹیسٹنٹ عقیدہ رکھتے تھے) بے رحمی سے ذبح کردیئے گئے تاکہ فرانس میں کیتھولک ازم کو گریز پہنچنے سے بچایا جاسکے۔ اس خوفناک واقعہ کے بعد پوپ گریگوری (xiii) نے حمد باری کے ترانے گائے اور خاص قسم کا گولڈ میڈل  (تحفہ) ڈھلوایا۔

پروٹیسٹنٹ بھی کچھ کم ظالم نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ چرچ کی تمام شاخوں نے بلا امتیاز قابلِ تفریق تشدد ظلم و بربریت اور عدم برداشت کی وہ مثالیں قائم کیں کہ یہ بتانا مشکل ہے کون بازی لے گیا۔ گزشتہ صدیوں میں وحدانیت پر یقین رکھنے والے دس لاکھ سے زیادہ عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اور یہ نتیجہ تھا مذہبی پیشوائیت کے اس یقین کا کہ وہی تنہا الوہی اختیار و سند کی مالک ہے۔ یہ خیال بہت دلچسپ ہے کہ اگر اس کتاب کی مصنفہ صرف دو صدیاں قبل اسپین میں رہائش پذیر ہوتی تو یہ کتاب اپنی جان کی قیمت پر ہی لکھوا پاتی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ سزا کے طور پر کسی لکڑی کے کھمبے پر لٹکا دی جاتی۔

اگرچہ تشکیک اُن علاقوں میں سر اٹھارہی تھی جہاں محکمہ احتساب کا شکنجہ ذرا ڈھیلا ہوا تھا پھر بھی وہ لوگ انجیل کی صحت پر انگلی اٹھاتے تھے اب بھی محتاط رہنے کی ازحد ضرورت تھی۔

اسپین میں خدا کے عظیم المرتبت بندے اب بھی نہایت سخت عقوبت خانہ (ٹارچر سیل) 1816ء تک رواں دواں رکھے ہوئے تھے جبکہ پوپ نے بدعتوں سے اقبالِ جرم کروانے کے لئے تشدد کا راستہ ممنوع قرار دیا تھا۔ اٹھارہ سال بعد تقدس مآب پوپ نے محکمہ احتساب برخاست کردیا۔ چھ سو سال کے طویل عرصے بعد یورپ عقوبت زدہ لاشوں کے جلائے جانے کی آلودہ متعفن اور سڑاند سے پاک ہوا میں سانس لے پایا۔ پھر بھی بیشمار جگہوں پر وہ منحوس چپچپے داغ اب بھی لوگوں کے دلوں پر خوف طاری کر رہے ہیں جہاں بدعتی لوگ سزا کے کھمبوں پر خداوند یسوع مسیح کے جلال کے لئے تڑپ تڑپ کر جان دیتے رہتے تھے۔ اور پورے یورپ میں سوچنے سمجھنے والے لوگ حیرت زدہ ہو کر رہ جاتے ہیں کہ کیا انجیل کی بیان شدہ سچائی واقعی ایک تاریخی سچائی ہے۔

ایک مخصوص کلیسیا میں شامل ہونے والے افراد کے لئے لازم ہے کہ وہ اس عقیدت کو تسلیم کرے کہ چرچ کا گماشتہ کوئی فرد یا گروہ اس کے لئے کسی خاص نقطہ نظر کا چناؤ کر چکا ہے یا اس بارے کوئی نہ کوئی فیصلہ صادر کر چکا ہے اور ایک ایسا راسخ العقیدگی کا راستہ اس کے لئے متعین کردیا گیا ہے جو اس گماشتہ یا گروہ کے اپنے نظریات کے حسبِ حال ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

باوجود عہدِ جدید  کے ماہر ترین علماء کے بار بار نظرِ ثانی کرنے کے، بہت سے چرچ جانے والے عام لوگ اب بھی یہ تسلیم کرتے ہیں اور اپنی دعاؤں میں بار بار دہراتے ہیں کہ دعائیہ کتب میں عقائد کے پیش کیا جانے کا عمل شفاف ترین اور قابلِ بھروسہ ہے مسلمان جو ان عقائد سے آشنہ نہیں اور نہ ہی وہ ان کے وضع کرنے کی تاریخ سے آگاہ ہوتے ہیں، باآسانی صاف صاف اس وقت دھوکہ کھا جاتے ہیں جب وہ پہلی بار مسیحی عقائد کے کلیسیائی بیان کو سنتے ہیں۔

ایک سادہ مسلمان، اگرچہ وہ اتفاق نہ بھی کرے تب بھی وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ پیروکاروں کی عقیدت اسی طرح انہیں گمراہی کے راستے پر ڈال کر خدا کے خدام اور پیغمبروں کو الوہیت کے منصب پر بٹھانے کے لئے سیڑھی کا کام دیتی ہے۔ بہت سے مسلمان نہایت ہی سادہ لوحی سے یہ تصور کر بیٹھتے ہیں کہ اگر وہ عیسائیوں کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے اور سکون و اطمینان سے معقولیت کے ساتھ معاملات زیرِ بحث لائیں گے تو عیسائی جلد ہی اپنی غلطی پر متنبع ہوجائیں گے۔ اور خدا کے قادر و مطلق ہونے کے منطقی عقیدے کی طرف پلٹ آئیں گے۔

جب کوئی مسلم عیسائی تھیالوجین کے روبرو ہوتا ہے تواسے زبان و گرامر کی موشگافیوں کی دلیل میں پھنسایا جاتا ہے جس میں غیر منطقی بے دلیل دعاوی اور پادریوں کے وقتاً فوقتاً وضع کردہ عقائد کا جواز پیش کرنے پر خاصی محنت اور کوشش صرف کی جاتی ہے۔

پولوس فتح یاب  ہوا اور تثلیثی عیسائیت روئے زمین پر پھیل گئی۔ لیکن کیا یہ درست ہے؟ کیا یہ سب کچھ دیتی ہے جو یسوع کا مطمع نظر تھا؟ کیا تثلیثی عیسائی حقیقتا پر تقین ہے؟ یا پھر عیسائیوں نے یہ سب کچھ غلط حاصل کیا؟

آئیں ہم اپنا ذہن سادہ سوالات پوچھ کر تازہ کریں۔ کیوں ہزاروں سالوں پر محیط خدائی تعلیمات کے دور میں کسی بھی خدا کے نبی نے تثلیث کا سبق نہیں دیا؟ کیوں یسوع نے اسے بذاتِ خود واضح نہیں کیا؟ اگر تثلیث پر ایمان انسانی نجات کے لئے اتنا ہی ضروری ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا نے سیکڑوں صفحات پر مشتمل وحی بھیجی لیکن تثلیث کی تعلیم کے لئے ایک جملہ بھی ارشاد نہیں فرمایا؟ کیا وجہ ہے کہ عہدِ قدیم کے انبیاء اپنی بعثت کے دوران بعلیم اور عشتاروت پر ایمان رکھنے کے خلاف انتھک جدوجہد میں مصروف رہے؟ اور یہ کیسے ہوگیا کہ بائبل کے الحام کے لکھے جانے اور یسوع کے صدیوں بعد خدا نے ایسی تعلیم تشکیل دے دی جس سے خدا کے اپنے خادم ہزاروں سال تک بے خبر و نا آشنا رہے اور انسانی ہاتھوں کے لائے جانے کے سبب ناقابلِ فہم چیتان بنا دیئے جس کا سارے کا سارا پسِ منظر یکسر مشرکانہ عقائد کا حاصل ہواور جس کی فتح شہنشاہیت اور کلیسیائی سیاسی مفادات کی مرہونِ منت ہو؟

یقیناً اب وقت آگیا ہے کہ اس امکان کو تسلیم کرلیا جائے کہ حقیقت میں یہ سچائی نہیں ہے بلکہ ارتداد ہے خدا ابتری یا زد لیدہ خیال کا خدا نہیں ہے۔ 1۔ قرنتیوں 33:14 اب وقت آن پہنچا ہے کہ اس پیچیدہ اور غیر ضروری تعلیم کو  اس کے اصل مقام تک پہنچا دیا جائے جسے زمانہ حال یا ماضی کا کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی کسی معقول  و موزوں تشریح کے ذریعے آج تک ثابت نہیں کر پایا یا پھر کم از کم اس عام آدمی کے لئے قابلِ فہم نہیں بنا سکا۔ جب چرچ توحید پرست یونی ٹیرپن کو بدعتی کا ٹھپہ لگا کر اسے کاٹ پھینکنے میں بری طرح مصروف تھا۔ اسلام بہت تیزی سے ان مخرفین کو اپنے اندر سمو رہا تھا۔ ان توحید پرست یونی ٹیرپن سے نفرت رکھنے اور زہریلی خار کھانے والے عیسائی مسلم دشمنی کی طرف پلٹ گئے۔ اس  تناظر میں صلیبی جنگیں آرپنوسی قتلِ عام کا وسیعت پذیر معاملہ ہیں۔

یہ حقیقت کہ موجودہ دور میں ہزاروں عیسائی اپنے عقیدے کو خیر باد کہہ رہے ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ تثلیثی مذہب اتنا مؤثر اور تشقی بخش نہیں ہے جتنا کہ اس بارے دعویٰ کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی نظریہ یا عقیدہ جس کی بنیاد کمزور اندھے اعتقاد پر کھڑی ہو کبھی بھی دیرپا نہیں ہو سکتا اور جلد یا بدیر اس سے چمٹے ہوئے لوگ حیرت کا اظہار کرنا شروع کردیں گے اور اسے کسی زیادہ ٹھوس اور عقلی ترغیب ملنے پر ترک کردیں گے۔ اعتقاد/عقیدہ وہم و گمان کی چکاچوند میں تخلیق کیا جاسکتا ہے اور مایوسی کے عالم میں لمحہ بھر میں تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔

ایمان کا تقاضہ ہوسکتا ہے کہ بائبل کی کلیتاً اطاعت و فرمانبرداری کی جائے اس کے تمام تر نقائص اور خرافات اور بسا اوقات غیر اخلاقی چال چلن اور اس کی غیر یقینی بنیاوں کے باوجود۔ اس کے برعکس دوسری طرف معقولیت معاملات کو قبول کرنے سے گریزاں ہے کہ انسانی فہم و ذکاوت کے غلط استعمال کے نتیجے میں تشکیل پائے ہیں۔ دماغ سوچتا ہے اور دل ایمان لاتا ہے۔ اگر ایمان جلد سوچے سمجھے لایا جائے تو یہ حقیقتا اندھا اعتقاد ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم خدا کے وریعت کردہ سوچنے سمجھنے اور معقولیت کے عمل سے گزر کر ایمان لائیں تو پھر اسے نہ تو کوئی ہٹا سکتا ہے اور نہ ہی تباہ کر سکتا ہے۔

ایمان و اعتقاد ایک لازم فعل ہے اور اس زمین پر انسانی زندگی کا جز ولاینفک اور قدرتی حصہ ہے۔ لیکن ہمارے لئے یہ جاننا اور سمجھنا ہر لحاظ سے ہے کہ یہ کہاں سے ہمیں موصول ہوا۔ اگر ہمارے ایمان کے متعلق علمی تحقیقات سے یہ ثابت ہوجائے کہ یہ محض ایک دھوکہ اور القباس ہے ، انسانی ساختہ ہے، نری جعل سازی  اور گھوٹ ہے اور تجربہ سے ہمارا اعتقاد محض ایک عکس ہی ثابت ہو تو پھر ہمیں لازماً اس پر نظرِ ثانی اور اپنے دل کی دور اندیشی سے تشخیصِ نو  کرنی پڑے گی اور روحانی طور پر کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے کی بنیاد پر اپنی سمت کا ازسر نو یقین کرنا ہوگا۔

ہم ایک نئے عہد میں داخل ہورہے ہیں جو ان لوگوں کیلئے بہت ہی تکلیف دہ ہوسکتا ہے جنہوں نے اپنا ایمان و اعتاد نئے عہدنامہ کی عیسائیت ماہیت کی صداقت کے نفی کردہ ہے۔ انہیں بہت کچھ دوبارہ از سر نو تشکیل دینا ہوگا اور اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا اس کی پیشن گوئی کسی یقین سے نہیں کی جاسکتی۔ پھر بھی لازماً بہتر ہوگا کہ تصورات کو جاری رکھنے کی بجائے اصلاح و ترمیم سے ہم آہنگ کرلیا جائے اگر یہ بات نہایت تکلیف دہ ہوگی تاہم یہ بات بیش قیمت ہے کہ وہ سب کچھ ترک کردیا جائے جس کا سچائی تقاضا کرتی ہے۔

آیئے ہم دوبارہ گلیلی کی پہاڑیوں پر دوبارہ چلیں یا صحرا کی اس ریت پر جہاں دن کو سورج جھلستا ہے اور رات کو تازہ صحرائی ہوا میں تاروں کی روشنی مسافروں کی رہنمائی کرتی ہے۔ آئیں ہم ایک کوشش کریں، اگر کر سکے تو کہ چند ساعتوں کے لئے خانہ بدوش گلہ بانِ ابراہیم، چرواہے  داؤد ، ٹری ٹینڈر عاموس، بڑھئی یسوع اور دیانت دار تاجر محمد کے ساتھ رہیں۔ اور ان کے شاگردوں کے ساتھ قرابت محسوس کریں۔ مشترکہ اہم قبیلہ لوگ جو سادگی، سچائی، منطق و دلیل، راست بازی، جس کی تعلیم پیغمبروں نے دی اور جسے باآسانی دلیروں میں بانٹا جاسکتا ہے۔


مکمل تحریر >>

ہفتہ، 1 مئی، 2021

اسرار و رموزِ یسوع: انصاف کا قتل

 

زیرنظر تحریر سابقہ امریکی نن روزلین کینڈرک اور موجودہ نومسلم رقیہ وارث مقصود کی کتاب کے پہلے باب کا ترجمہ ہے جسے ڈاکٹر قاضی سعید احمد نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

انصاف کا قتل

سیزر ری پبلکن ایسے ٹن بروٹس نے بادشاہ ٹارکیون کو روم کے تخت سے اتار دینے کے وقت سے لیکر یسوع ناصری کے دور تک رومیوں نے شاہی خاندان کے نظریہ حکومت کے ساتھ کوئی بھی تبدیلی نہ کی تھی۔ روم میں ایک جمہوری حکومت قائم تھی جس میں عام لوگوں کے پاس حکومت  بنانے کےلئے چناؤ کا حق ہوتا تھا اور جوکوئی  بھی یہ سازش کرتا کہ وہ طاقت، اقتدار اور جملہ اختیارات پر یا ان اختیارات کے اصول و ضوابط پر قبضہ کرلے تو اسے کڑی سزا دی جاتی تھی۔اس ممکنہ ظلم کی روک تھام کیلئے اور تمام اداروں کو اپنی حدود میں رکھنے کیلئے ایوان بالا (سینٹ) کے حکامِ اعلٰی نے ایک طریقہ کار وضع کر رکھا تھا جس میں وہ  دو افراد کو بطور قانونی و سیاسی مشیر مقرر کرتے تھے(ان کے عہدےکی مدت صرف ایک سال ہوتی تھی) یہ دو افراد مساوی اختیارات کے حامل ہوا کرتے تھےنیز وہ ایک دوسرے کی رائے کو مسترد کرنے کا بھی مکمل اختیار رکھتے تھے۔

یسوع کی پیدائش سے تقریباََ ۴۰ سال قبل جولیس سیزر کو قتل کردیا گیا تھا۔ یقینی طور پر اس کے دشمنوں کو یہ خدشات لاحق تھے کہ وہ تاحیات تخت شاہی پر قابض رہنا چاہتا ہے۔ غیرمعمولی طور پر جب آکٹاوین، سیزر کی بہن جولیا کے پوتے نے ایک سازش کے ذریعے خود کو حکمران بنانے کی کوشش کی اور خود کو آگسٹس (Augustus) "رومن سلطنت کی بنیاد رکھنے والا" ہونے کا اعلان کردیا۔   ایسا کہنا کلی طور پر درست نہ ہو گا کہ اس کے ذہن میں ایسا کوئی فریبی منصوبہ نہ تھا کہ کرنسی کے طور پر مروج سکوں پر اس کا نام بحیثیت دیوتا "ابن خدا" لکھا جائے۔ اس کےنزدیک دیوتا مر چکا تھا مگر نیا "دیوتا" سیزر کی موت سے لے کر اب تک ( سینٹ) ایوان بالا کی جانب سے سرکاری طور پر ملک کے طول و عرض میں دیوتا کا درجہ پاچکا تھا اور  تمام عبادت گاہوں اور سرکاری عمارتوں سمیت اس کا نام دیوتا کی حیثیت سے مانا جا چکا تھا۔

اس کے بعد آنے والا بادشاہ بھی 'خدا کا بیٹا' یا' دیوتا' ہی تھا۔ وہ آگسٹس (Augustus) کو ذاتی طور پر پسند کرتا تھا۔ اس مقدس دیوتا کا متنبہ ' لے پالک' بیٹا ہونے کا دعویدار تھا وہ انسانی تصور جو اسے 'خدا کا بیٹا' قرار دیتا تھا، اس کا پس منظر یہودی روایات بھی تھیں اور داؤد David کے پیشروحکمران بھی خدا کے "لےپالک بیٹے" کہلاتے تھے جب وہ مقدس غسل لے کرتخت حکمرانی پر بیٹھ جایا کرتے اور رسم تاج پوشی میں شریک ہوتے تھے۔ زبور 7:2 کے یہ الفاظ: (تو میرا بیٹا ہے آج تو  مجھ سے پیدا ہوا)اور 2سموئیل 14:7 کے مطابق خدا کا کہنا بادشاہ سے " میں اسکا باپ ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا"۔ تاہم رومن کے معمول کے قانون اور روایت کے مطابق یہ "مقدس دیوتا" جیسا ہرگز نہیں ہوتا تھا  یا اصلی ابدنیت پر مبنی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ اعلٰی اور باوقار الفاظ صرف ملائکہ کے لیے ہی مستعمل تھے۔

مختصراََ یہ کہ یسوع کے دور تک یہ نظریہ یا تصور نہ کوئی نیا تھا اور نہ ہی قابلِ قبول تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک بغاوت ہی تھی، کہ بحراوقیانوس کے اردگرد بہت سے دیوتا تھے اور ان کی خوبیاں اور خواص بھی مختلف تھے۔ وہ کوئی انتہائی دانش مند یا انتہائی بیوقوف آدمی تھا جس نے دو ٹوک بات کرنے کی جرات کی کہ دیوتاؤں کا کوئی وجود ہی دنہیں ہے۔ یا یہ کہ: دیوتاؤں کی کوئی اولاد ہی نہیں ہوتی اور وہ کب اور کہاں کسی پر مہربان ہوتے ہیں۔ سو، مذہبی متکبر اور جوشلیے یہ دعوٰی کرتے تھے کہ ایک پرہیزگار نوجوان بڑھئی/ترکھان مبلغ پادری، وہ ان کے دیوتا کا بیٹا تھا"۔ یہ بات نفرت آمیز لوگوں کوخوش کرسکتی تھی لیکن وہ اس کو ایک بڑا جرم بمشکل ہی سمجھتے تھے۔ لیکن! یہ دعوٰی کرنا کہ رومن بادشاہ کی اجازت کے بغیر بادشاہ بننا ایک غیر اخلاقی عمل تھا۔ یہ ایک خودپسندی تھی اور خطرناک بھی، کہ شاہی روایتی رعایت کا ازخود فائدہ اٹھایا جائے۔ مختصراََ یہ کہ: یہ ایک کھلی بغاوت تھی۔

یسوع کو گرفتار کیوں کیا گیا اور اسکی سزائے موت کی مذمت کیوں کی گئی؟ تمام اناجیل متفقہ طور پر یہ تاثیر دیتی ہیں کہ اسکا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ لیکن یہ سب ان کے حسد اور تلخی کی بنیاد پر ہوا جوکہ یہودی فرقہ فریسی کہلاتے تھے۔ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ ان کی دشمنی نےیروشلم کے ہیکل کے کاہنوں کی حوصلہ افزائی کی، اس کے خلاف کام کیا اور اسکی تباہی و زوال کا سبب بنے۔

تاہم علماٰء کی ایک بڑی اور بڑھتی ہوئی تعداد نے اس نکتہ نظر کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا۔ شاید کہ یسوع ایک مضبوط کردار کا رہنما/لیڈر تھا اور بادشاہ ڈیوڈ جیسا افسانوی کردار رکھتا تھا، اس نے دعوٰی کیا کہ "وہ یہودیوں کا بادشاہ بنے گا" اسکی صلیب کے وقت بھی ایک پلے کارڈ پر لکھا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ رومن ہی ہو جو درحقیقت اسکی موت کے ذمہ دار ہو۔ اور ان یہودیوں جیسے بےاختیار نہ ہو۔ جو بغض و عناد سے بھرے پوئے تھے۔

بلاشبہ یہودیوں کے بعض بہت ہی طاقتور اتحادی بھی تھے۔کاہنوں کے تنظیمی ڈھانچے میں، یا موروثی، جوکہ اسکندریہ کے شہروں اناس (Annas) اور بوتھس (Brethus) کے عالیشان محلات میں رہایش پذیر تھے۔ فیابی (Phiabi) اور کام ہیٹ (Qamhit)، جنہوں نے گورنمنٹ سے اپنا عہدہ چھوڑ رکھا تھا، سالانہ کی بنیاد پر۔ تاہم باوجود ان کی طاقت اور اثرو رسوخ کے بڑے بڑے کاہن بھی اچھی پوزیشن میں نہ تھے وہ عام طور پر عوام میں غیر مقبول تھے ان مذہبی انتہاپسند  جوشیلے لوگوں کی ایک بڑی ایسی تھی جو یہ سمجھتے تھے کہ بات صحیح اور معقول ہونے کا جواز ان کے پاس موجود ہے۔ جنکی اخلاقی حالت بددیانت گھریلو ملازموں کی سی تھی جو سامراجیت کے اشاروں پر بھاگنے والے کتے تھے ان کی ان حرکات کے پیچھے محض لالچ ہوتا تھا۔

بوتھسیانز (Boethusians) اوپر سے لیکر نیچے تک اقرباء پروری کے پروردہ تھے۔ بوتھسیانز (یروشلم کی تباہی سے قبل کا یہودی فرقہ) اوپر نیچے تک مکمل طور پر جارحیت پسند سالانہ وظیفہ خوار، سانپ جیسی پھنکار والے، اسماعیل نم فیابی کی نسل سے تعلق رکھنے والے، مکے باز جھگڑالو، وہ سب کے سب بڑے بڑے مذہبی پادری تھے۔ یا تو ان  کے بیٹے خزانچی تھے یا پادری، ان کے پوتے نواسے بھانجے بھتیجے داماد عبادت گاہوں کے کیپٹن تھے۔ اور ان کے نوکروں کی حالت یہ ہوتی تھی کہ وہ عام لوگوں کو چوبی ڈنڈوں سے مارا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ یہ لوگ اپنے شاہانہ کردار کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی حفاظت کا مکمل انتظام رکھتے تھے چاہے روم کے دور دراز کے علاقے ہو یا اپنے قانونی اور مہذب دوست ہو۔ اور بےبس ملکی شہری یا اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے سامنے اپنی طاقت  کا اظہار کیا کرتے تھے۔ تاہم وہ لوگوں میں میل ملاپ بھی رکھتے تھے اور شکرگزار بھی رہتے تھے تاکہ لوگ انہیں اچھے وفادار یہودی سمجھیں۔ اور انہیں رومیوں کے کٹھ پتلی خیال نہ کریں۔

بہتری کے عمل کو مشکل سے دیکھا جاسکتا تھا اگر رومی آقا ان بادشاہوں کو مجبور کردیتے کہ کسی آدمی کو ان کے حوالے کردیں یا اسے مصلوب کردیں چاہے وہ معاشرے کا پرہیز گار آدمی ہو یا کوئی مقبول عام ٹیچر ہو یا ہیرو ہو، انجیل مرقس اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ کاہن اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر یسوع کو سرعام گرفتار کیا گیا تو لازمی بلوہ ہو جائے گا۔ (مرقس 14:2) حقائق کی طرف نظر کریں تو لوقا بھی یہی خیال کرتا نظر آتا ہے۔ فقیہوں  اور دیگر سردار  کاہن اسے مارنے کےلئے اس پر ہاتھ ڈال دیتے لیکن وہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔(لوقا 19:20)

وہ لوگ جنہوں نے اس  شورش کرنے والے ہجوم کا عینی مشاہدہ کیا تھا کہتے ہیں: ایسا ہجوم اپنے ملک میں مقید اپنے ہیرو کو چھڑوانے کے لئے سب کچھ کرسکتا تھا اور کسی بھی حد تک جاسکتا تھا۔ اور چاہے وہ قیدی ہیرو ایران، یورپ، روس، جنوبی افریقہ یا کیوبا سے ہی تعلق رکھتا ہو۔ اس میں تھوڑے شک کی گنجائش ہے کہ ملک میں سب سے بڑی جو تحریک چلی تھی اسکو عیسٰیؑ کیلئے برابر بنایا جاسکتا تھا۔

کسی بھی بغاوت میں یسوع کو اس ہجوم سے بچا لینا یا رہا کردینا یا بری کردینا ممکن تھا۔ اور نہ ہی یہ بات قابلِ اعتبار تھی کہ یہودی، یسوع کے شہری کردار کے خلاف تھے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روم کے خلاف اٹھنے والی ہر قسم کی بغاوت میں یہودی اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ۔ لہذا اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر یہودی آخری حد تک جاسکتے تھے۔ اس وجہ سے بھی نہیں کہ انہوں نے یسوع کی مخالفت کی کہ وہ یسوع کے مشن کے سخت مخالف تھے۔ کیا ہوتا اگر یسوع کو گرفتار کر لیا جاتا؟ لیکن اسمبلی کونسل نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے؟ کیا وہ اسے چھوڑ سکتے تھے؟ بات صحیح ہے کہ ایسا ہوسکتا تھا۔ لیکن کیا انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا؟ وہ اسے رومی قانون کے مطابق بچاسکتے تھے اگر یسوع اپنے مقدمے میں اس الزامات سے بری الذمہ ٹھہرتے جو ان کے خلاف لگائے تھے اور ثبوت اور گواہیاں ان کے خلاف نہ ہوتیں جو ان کے قصور کو ثابت کرسکتے تب انہیں آزاد کردیا جاتا کیونکہ  رومنوں کے عام قانونِ معافی کے مطابق ایسے ملزموں کو  صاف طور پر بری کردیا جاتا تھا۔

دوسرا  اختیار: موت کے فیصلے کو معطل  کرنا رومیوں میں کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔ لیکن اگر یسوع ریاستی قانون کو توڑنے کے مرتکب پائے جاتے تو انہیں معاف کیا جاسکتا تھا۔ اگر وہ اقرار کرلیتے کہ انہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا تھا اور بیان حلفی داخل کرتے کہ وہ بغاوت کی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں اور ملوث ہونے کا اقرار نامہ عدالت میں داخل کردیتے تو انہیں معاف کیا جاسکتا تھا۔ تاہم اناجیل اس امر پر متفق نظر آتی ہیں کہ یہودی حکومت ان کو آزاد کرنے کے لئے ایسا طریقِ کار عمل میں لاسکتی تھی، مثال کے طور پر، یسوع سردار کاہن  کے گھر لایا گیا تھا جہاں یہودی کونسل ایک رات کے لئے جمع  ہوئی تھی ، تو اپنی جگہ پر یہ اجتماع بھی غیرقانونی تھا۔ اسی جگہ ان پر مبینہ توہیں رسالت/خدا کا الزام لگایا گیا تھا۔ اور ان کا اعترافی بیان ریکارڈ کیا گیا۔ ایک قیدی کو متعصبانہ فیصلے سے بچانے کے لئے، عدالت کے دروازے بند کرکے کوئی بھی ایسا خفیہ فیصلہ کرنا ممنوع تھا۔

کسی بھی چیمبر میں یہودی  کونسل  کا اجلاس منعقد کرنے کی قطعا اجازت نہ تھی  کہ مجرمانہ سرگرمیوں کو سنا جائے وہ جگہ عبادت گاہ کے احاطہ سے باہر ہو یا کوئی پرائیویٹ مکان ہو۔ ایسا اس لئے تھا کہ کوئی شخص ذاتی طور پر ججوں پر اپنے بغض و عناد کا اثر یا غیر معمولی دباؤ  یا ذاتی طور پر اپنے سے سوچی سمجھی رائے مسلط نہ کرسکیں۔

دوسری بات: مجرم سے متعلق فیصلے کو شفاف رکھنے کی غرض سے کہ جن کے فیصلوں پر مجرم کی زندگی وابستہ ہوتی تھی ، یہودی کونسل مجرمانہ نوعیت کے مقدمات صرف دن کی روشنی میں ہی سن سکتی تھی نہ کہ رات کی تاریکی میں، جبکہ کونسل کے ممبران تھکے ہوئے ہوتے یا جلد باز اور بےصبرے ہوتے تو مقدمات ایسی صورت میں اگلے دن تک مؤخر کردیا جاتا تھا۔ ایسے مقدمات دن کی روشنی میں ہی نمٹائے جاتے تھے اور فیصلہ اگلے دن سنایا جاتا تھا۔ ایک رات کا انتظار کے بعد تہواروں کے دنوں میں یا تہوار  کے روز کسی بھی مجرم کا مقدمہ نہیں سنا جاتا تھا۔ کہ ان دنوں میں ججوں کا ذہن تہوار کی جانب ہوتا تھا۔ اور نہ ہی وہ لوگ جو اپنے اعترافی بیان کی وجہ سے اپنے ہی دباؤ میں رہے ہوں یا وہ بےقصور لوگ شاید ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہر اس جرم کو قبول کرلیں جو انہوں نے کیا   ہی نہ ہو اسی کو مدنظر رکھناضروری ہوا کرتا تھا۔ مجرم کے جرم کو ثابت کرنے کےلئے دو معتبر گواہیوں کی گواہی ضروری ہوتی تھی۔ اور اسے مزید جرم دہرانے کے لئے صاف صاف تنبیہ کردی جاتی تھی۔ اس کے اعترافی بیان اور تنبیہ کے ساتھ اسے اس الزام سے بری کردیا جاتا تھا۔مزید برآں اگر مجرم کو گواہوں کی موجودگی میں جرم دھوکہ دہی/فراڈ میں ملوث پایا جاتا تو اس پر جرمانہ عاید کر دیا جاتا۔

مگر  یسوع کے مقدمہ کے سلسلے میں ایسا قطعا نہ ہوا تھا  اور نہ ہی اناجیل کے حوالوں کے مطابق اور نہ ہی ملکی قانون کے مطابق یسوع کو اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے کو نہ تو کہا گیا اور نہ ہی اپنی صفائی میں دلائل دینے کا موقع دیا گیا۔حلاناکہ تین مضبوط نڈر راہنماؤں کو گواہی کےلئے طلب کیا جاسکتا تھا۔

نمبر1: "یوسف ارمتیائی "جو یسوع کا ایک قریبی رشتے دار تھا۔باخبر ذریعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شہزادے کا خطاب پاچکا تھا۔

نمبر2: "نیکدویمس" ایک فریسی جو خفیہ طور پر مذہب تبدیل کرنے والا تھا۔

نمبر3: "اسٹیفن" جو پہلا شہید عیسائی کہلایا۔

تو یہاں پر حالات حقائق سے مختلف پاگئے ہیں کہ یسوع ایک انتہائی متعصب عدالت کے سامنے تھے۔ کہ جس عدالت نے جان بوجھ کر عمداََ یسوع استفاثہ کے خلاف معاندانہ اور مخالفانہ سیکٹر سے ثبوت حاصل کئے۔ کاہنِ اعظم جو چیف جج تھا، فیصلے پر اپنی مرضی مسلط نہ کرسکتا تھا۔ مزید برآں ایک متفقہ عدالتی فیصلہ جو متنازع ہو یا مشکوک ہو اسے کالعدم قرار دے دیا جاتا تھا۔ اگر دوسری نشست برائے سماعت ضروری ہوتی تو اسے ایک دن کے لئے مؤخر کردیا جاتا تھا۔ اور کسی بھی مقدمے کے ضمن میں یہ عمل غیر قانونی ہوتا تھا۔ کہ چیمبر آف ہیون سٹون (Chamber of Hewn Stone) کے علاوہ کسی اور جگہ سزائے موت کا حکم سنایا جاتا۔ تاہم یہودی  کونسل کا کورم جوعام طور پر 23 ممبران پر مشتمل ہوتا تھا، فریسی دیار عدالت کے مطابق وہ اس امر کا مجاز نہیں ہوتا تھا کہ وہ غیر قانونی سزائے موت کا فیصلہ دےسکے۔ اگر یسوع کے خلاف جھوٹی گواہیاں پیش ہوتیں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس سے متفق نہ ہوتے؟  جھوٹی گواہیاں عموماََ ان کے بااختیار لوگوں کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہوتیں؟ یہ بات کس قدر ناقابل اعتبار اور عدل سے ہٹ کر تھی کہ انہی میں سے نااہل لوگ، کاہنِ اعظم جج سب کے سب یسوع کے درمیان رابطہ رکھنے میں ناکام رہے یہ بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اس کیس کے گواہ پہلے سے بنائے جائے چکے تھے۔ اور انہوں نے اسی طرح گواہی دی جس طرح سے انہوں نے یسوع کو سمجھا اور حقائق اور عدل کو مدنظر نہ رکھا۔ اور یہ گواہی قطعا  غیرقانونی تھی۔ کہ یسوع کو موردالزام ٹھہرایا جاتا۔ تاہم اگر ہم اس بات کو فرض کرلیں کہ اناجیل کے حوالوں سے اس کیس کو مکمل کیا جارہا  تھا  پھر بھی وہ کلی طور پر یسوع کی لئے غیرقانونی ہی تھے۔ کیا علماء اس عمل کو یہودی زعماء کی مکاری اور ٹیڑھ پن نہیں کہیں گے۔ یا انہیں الزام سے بری کرنے کو نہ کہیں گے اگر ایسا ہوتا تو ایک کے بجائے دو باتیں سامنے آجاتیں ، ایک: یہودیوں کا تعصب، اور دوسری: بات بے بنیاد الزام، پہلی بات پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ قوانین اس وقت رائج ہی نہیں تھے۔ یہ تو فرعونی نظریات کی نمائندگی کرتے تھے۔ اور یہودی کونسل کی اکثریت صدوقیوں پر مشتمل تھی جوکہ  یسوع کی مذمت میں پیش پیش تھے۔ یہی وہ حکومتی/ درباری کاہن تھے جو اسمبلی کونسل کے تنظیمی ڈھانچے کا حصہ تھے۔

فریسی کاہن نہیں تھے یہ تو عام مزدور طبقہ لوگ تھے اور سخت مذہبی قسم کے لوگ تھے جو اپنی زندگی گزارنے کے لئے ایک تفصیل اللہ کے احکامات سےلیتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ممتاز علماء بھی تھے۔ اور یہی مذہبی کاہن صدقات و خیرات عقل و شعور اور انسانیت پسند تھے۔ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی احتیاط برتنے والے تھے۔ تاہم پھر بھی فریسیوں سے اس معاملے میں دلچسپی کے حامل کم ہی لوگ تھے۔ اور بیوقوفانہ باتوں کو نظرانداز کرنے والے لوگ تھے۔

یسوع کے دور میں فریسیوں کے بنائے ہوئے قوانین حکومتی قوانین اثرانداز تھے۔ اور اسمبلی کونسل بھی انہی کے زیر اثر تھی۔ عام لوگ اس وقت تک اسمبلی کونسل کے کسی بھی فیصلے کو قبول نہ کرتے تھے  جب تک کہ ان میں درج ذیل فریسی راہنما موجود نہ ہوتے تھے۔

نمبر 1: ربائی ہللیل اور ربائی شمائی (Rabbis hillel shammai)

نمبر2: ربائی گملی ایل (Gammaliel)

کسی بھی طرح یہ فرض کرلینا کہ صدوقی،بےایمان،ظالم،لالچی، انتہائی تنگ نظر اور غلط تھے مزید برآں صدوقیوں پر جدید تحقیق یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات پر کس طرح عمل کرتے تھے جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں: ان حالات سے نکلنے کا دوسرا راستہ یہ بیان کرنا بھی ہے کہ وہ تمام قوانین جن کا ذکر اوپر بیان کیا جاچکا ہے وہ غیرتحریری یہودی قانون کی ایک قسم ہے۔ جوکہ غیرمتعلقہ ہیں۔ غیر تحریری یہودی قانون اس وقت سے لیکر یسوع کی موت تک کسی ضابطے کی شکل میں تحریر نہ تھا۔ تاہم اس قانون کے ضابطے پہلے وقتوں ،میں نافذالعمل تھے لیکن یہ دلیل مشکل سے ہی قابل قبول ہے کہ اس دور کے ضابطے اور قوانین جو غیرتحریری یہودی قانون سمجھے جاتے تھے کہ یہ سب کے سب قوانین جو غیر متوقع طور پر فوراََ ہی سامنے آجائیں گے۔ ان پرانے قوانین کو موجودہ قوانین سے (جو یسوع کے دور میں رائج اور نافذالعمل تھے) ڈھونڈھ نکالا جائے گا۔

اس کا ایک تیسرا متبادل بھی ہے: ایک وہ کہ جو عیسائیوں میں سے سب سے زیادہ گھناؤنے اور مکروہ کردار کو حامل ہے اسےبھی زیر غور رکھنا چاہئے تھا۔

یہ ہے وہ بات! اناجیل کو بیان کرنے والے صحیح طور پر تاریخی ریکارٖڈ کا حصہ بلکل نہیں تھیں۔بلکہ یہ تو مختلف النوع سنی سنائی غلط باتوں کے مرکب کی کھچڑی ہے جسے باہم ملا جُلا کے/اکھٹا کرکے سالوں اور پیش کیا گیا ہے۔ یا عمداََ قدیم ذرائع مواد سے جعلسازی ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی کے ذریعے سے اس مواد کو حاصل کیا گیا ہے۔ اس کا ایک مقصد اور بھی تھا کہ جس سے دشمنی کو بڑھانا تھا برخلاف ان عیسائیوں کے جو یہودیت کے ساتھ مخلص رہے اور نظریہ تثلیث کو قبول نہ کیا۔

یہ تجویز یا مشورہ معیار حق کے برابر کیوں نہیں ہے؟ دلیل بلکل سیدھی اور عین حق ہے۔ یسوع کے اصل پیروکار،دوست اور رشتےدار اور جو بہت قریب سے یسوع کو جانتے تھے، اور جو صرف ایک وحدۃ لاشریک سچے خُدا کی عبادت کےلئے مخلص رہے تھے۔ اور اصرار کرتےتھے کہ تمام عیسائی شریعت پر کاربند رہیں۔ جسے اللہ نے بذریعہ وحی اپنے رسولوں کی طرف بھیجی تھی انہوں نے یسوع کا بحثیت "اللہ" ہونے کا ہرگز احترام نہ کیا بلکہ اللہ کا منتخب رسول ہونے کا ہرگز احترام نہ کیا بلکہ اللہ کا منتخب رسول ہونے کا احترام کیا جو قابل حداحترام پیغمبروں کی لڑی سے تعلق رکھتے تھے۔

تاہم یہ دوسری قسم کے عیسائی تھے جو یسوع کو انسان ہونے کے علاوہ کچھ اور بھی سمجھنے کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اور اس عقیدے والے عیسائی فلسطین اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں رہتے تھے۔ ان جگہوں پر مذہبی ذہن رکھنے والے "خواص کی حکمرانی کے نظریے" کے حامی لوگوں  کے ساتھ تھے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ پُراسرار روایات پر منبی سزاؤں کا تصور درست ہے۔ اور یسوع خدا اور انسان کے ادغام کی زندہ مثال ہے۔ اور کفارہ ادا کرنے والے نجات دیندہ بھی ہیں۔

اناجیل اربعہ اس دور سے لیکر موجودہ دور تک، کے عہد عقیق کے لکھے جانے میں ایک انتہائی مضبوط خواہش کار فرما یہ رہی تھی کہ تصور خدا کے بارے میں یہودی عقائد ناکافی تھے، کا اظہار واضح طور پر کیا جائے۔ اس خواہش کے زیر انہیں پُر زور اور پُراثر بنایا جائے ایسا کہ یہودیوں کے مروجہ شر یعنی قوانین میں پوری طاقت کے ساتھ شگاف ڈٖال دیا جائے۔

خصوصی طور پر ختنہ، قوانین رسومِ طہارت اور کھانے پینے کےضوابط یعنی حرام و حلال کے قوانین و ضوابط، عیسائیوں اور یہودیوں کی مزاحمت اور کشمکش کے وقت سے لیکر بگاڑ اور خرابی پیدا ہوجانے کے وقت تک ایک نئے عقیدے کی مخالفت شدت کے ساتھ شُروع ہوچکی تھی جس کی مزاحمت پہلے کے تمام پیغمبر بھی کرچکے تھے جن میں مذہبی رسوم اور ہالی کلٹ کی عبادت سرفہرست تھی۔ یہاں پر اگر نئی عیسائیت اپنے عزائیم میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ یہودیت کیلئے ایک دشمن کے طور پر ظاہر ہوجائے گی۔

اگر کوئی قاری ان نظریات سے اختلاف رکھتے ہوئے ناراض ہوجاتا ہے کہ پرانے وقتوں کے مصنفین جان بھوج کر ہیرا پھیری اور ردُ بدل کے شکار ہیں اور ان کی باتیں بے ثبوت ہیں تو یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے بدعتی پر مبنی منصوبہ بندی کرکے زبردستی حق کو چھپایا ہے۔ بعد میں آنے والے یہودی اور مسلمان ان الزامات سے بُری طرح متاثر ہوئے جو صدیوں سے چلتے آرہے تھے۔ یہاں تک کہ نیک لوگوں کی ایک بڑی تعداد قبروں میں اتر گئی، ہمیں چاہیے کہ اس مواد کو کڑے امتحان سے گزارا جائے اور دیکھیں کہ کیا نتائج ہم تک پہنچ سکتے ہیں؟


مکمل تحریر >>