Pages

Most Popular

پیر، 10 مئی، 2021

شاگرد کہاں گئے؟ یروشلم یا گلیل؟

 

شاگرد کہاں گئے ؟گلیل یا یروشلم؟

تحریر:عبداللہ غازیؔ

اپنی زمینی زندگی کے آخری ہفتے میں یسوعؑ اپنے شاگردوں کے ساتھ اتوار کے دن یروشلم میں داخل ہوئے۔ اتوار تا جمعرات ان کے ایام یروشلم میں مصروف گزرے حتی کہ جمعرات کی جس شام یسوعؑ نے شاگردوں کے ساتھ فصح کھائی، اسی شام یسوعؑ گرفتار کر لئے گئے اور شاگرد انہیں چھوڑ  کر باغ سے فرار ہو گئے۔ گرفتاری کے اگلے دن بروز جمعہ اناجیل کے مطابق یسوعؑ کو مصلوب کر دیا گیا اور اتوار کے روز وہ مبینہ طور پر مردوں میں سے جِی اٹھے۔

                معاملہ یہاں تک تو بظاہر درست اور قابل تفہیم نظر آتا ہے مگر اس پورے قصے میں انجیل یوحنا کا بیان اناجیل متوافقہ سے شدید اختلاف رکھتا ہے۔ اول اختلاف تو یوم تصلیب کے تعین پر ہے کیوں کہ یوحنا کے مطابق یسوعؑ فصح کے برے ہیں لہذا ان کو صلیب عید فصح کے روز دی گئی جب کہ اناجیل متوافقہ پوری تفصیل کے ساتھ یسوعؑ کا اپنے شاگردوں کے ساتھ فصح کا کھانا کھانا بیان کرتی ہیں۔ اس لم ینحل تاریخی تضاد کے علاوہ  مزید ایک مقام پر انجیل یوحنا کا بیان  اعمال کی کتاب سے بھی شدید متبائن ہو جاتا ہے کہ اس کی توجیہ و تاویل نکالنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اعمال کے مطابق مبینہ واقعہ صلیب کے بعد  یسوعؑ چالیس دن تک شاگردوں کو نظر آتے رہے اور انہیں مختلف ہدایات دیتے رہے۔اس بات کی تصریح اعمال کی کتاب کے بیان سے ہوتی ہے کہ

"چنانچہ وہ چالیس دن تک انہیں نظر آتا اور خدا کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا۔ اور ان سے مل کر ان کو حکم دیا کہ یروشلم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اس وعدے کے پورا ہونے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو۔"(اعمال۱ :۳-۴)

                اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جی اٹھنے کے بعد شاگردان ِ مسیحؑ یروشلم سے گئے نہیں تھے بل کہ یروشلم میں ہی ٹھہرے رہے حتی کہ یسوعؑ مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ شاگردوں کا یروشلم میں ٹھہرنا بظاہر غیر منطقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ یروشلم وہ علاقہ تھا جہاں اپنی منادی کے کل دورانیہ میں یسوعؑ بمشکل ایک بار ہی تشریف لائے(اگرچہ یوحنا کے مطابق وہ تین بار مختلف تہواروں کے موقع پر یروشلم آئے تھے) لہذا یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ یہاں  شاگردان ِ یسوع کی کچھ تعداد موجود  تھی جنہوں نے شاگردوں کو پناہ دی۔ یہ بات یاد رہے کہ یسوعؑ کو حکومتِ وقت کا باغی ہونے کے جرم میں مبینہ طور پر مصلوب کیا گیا تھا لہذا رومیوں کے نزدیک ان کے شاگرد بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں تھے اور گرفتاری کی صورت میں بلاتاخیر انہیں بھی صلیب پر لٹکایا جا سکتا تھا۔ ایسے میں یہ عقدہ حل طلب ہی رہ جاتا ہے کہ یہ چالیس دن شاگردوں نے کیسے یروشلم میں گزارے باوجود یہ کہ وہ کھلے عام ہیکل یروشلم میں جاتے رہتے تھے؟ یہاں  یہ مفروضہ بھی درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا  کہ یروشلم میں یسوعؑ کے پیروکاروں کی بڑی  تعداد موجود تھی جنہوں  نے کھجور کی ڈالیں اٹھا کر اورچادریں بچھا بچھا کر یسوعؑ کا استقبال کیا تھا۔ اس بات کو تسلیم نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ مقدمہ یسوعؑ کی صورت حال ہے جہاں کھجور کی ڈالیں اٹھا کر استقبال کرنے والا یہی مجمع یسوعؑ کے خون کا اس قدر پیاسا ہو چکا تھا کہ صلیب سے کم سزا پر راضی نہ تھا اور یسوعؑ کا خون بھی خود پر اور اپنی اولادوں کی گردن پر لے چکا تھا۔ ایسے لوگوں سے شاگردوں کو کسی مؤدت و الفت کی توقع رکھنا عبث تھا لہذا انہوں نے ہرگز کسی ایسے شخص کی طرف رجوع نہیں کیا ہوگا۔ تو پھر وہ یروشلم میں کس طرح رہ رہے تھے؟ یہ تاریخی معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے۔

                دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اعمال کی کتاب خبر دیتی ہے کہ شاگردان ِیسوعؑ واقعہ صلیب کے بعد چالیس دن تک یروشلم میں ہی ٹھہرے رہے جب کہ دوسری طرف ہم انجیل یوحنا میں دیکھتے ہیں کہ  واقعہ تصلیب کے چند دن بعد ہی شاگرد واپس  گلیل کی طرف لوٹ گئے تھے اور اپنا سابقہ پیشہ اختیار کرتے ہوئے دوبارہ سے مچھلیاں پکڑنا شروع کر دی تھیں۔

"ان باتوں کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبریاس کی جھیل کے کنارے شاگردوں پر ظاہر کیا اور اس طرح ظاہر کیا ۔ شمعون پطرس اور توما جو توام کہلاتا ہے اور نتن ایل جو قانائے گلیل کا تھا اور زبدی کے بیٹے اور اس کے شاگردوں میں سے دو اور شخص جمع تھے۔ شمعون نے ان سے کہا میں مچھلی کے شکار کو جاتا ہوں"(یوحنا۲۱ :۱ -۳)

                یوحنا کے مطابق شاگردوں کی اکثر تعداد اس وقت وہاں موجود  تھی۔ دوسری طرف متی و مرقس بیان کرتے ہیں کہ یسوعؑ نے عورتوں کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یسوعؑ شاگردوں سے گلیل میں ملے گا تاہم لوقا ایسی کوئی بات نہیں کرتا اور شاگردوں کا ہنوز یروشلم میں ہی  ہونا بیان کرتا ہے۔  یاد رہے کہ یسوعؑ کا شاگردوں پر ظہور جیِ اٹھنے کے فورا بعد ہوا تھا لہذا یہ ظہور یروشلم میں ہی ہونا تھا کیونکہ فصح کے فورا بعد ہی بےخمیری روٹی کی عید شروع ہو چکی تھی جس کا دورانیہ سات دن پر مشتمل تھا۔  اس سات دنوں تک شاگرد یروشلم چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے جب کہ متی، مرقس و یوحنا بیان کرتے ہیں کہ یسوعؑ  اتوار یا پیر کے روز ہی شاگردوں پر ظاہر ہو گئے۔ اگر یہ مفروضہ درست تسلیم کر لیا  جائے  کہ واقعہ تصلیب کے فوراً بعد ہی شاگرد یروشلم سے گلیل چلے گئے تھے تو بھی بات بنتی نظر نہیں آتی ہے کیونکہ یروشلم سے گلیل کے درمیان کم و بیش ۱۲۶ کلومیٹر کا فاصلہ ہے جسے  دو تین روز میں عبور کرنا ناممکن تھا کیوں کہ درمیان میں سامریوں کا علاقہ تھا جو زائرین یروشلم کے خون کے پیاسے تھے اور انہیں یہاں سے گزرنے نہیں دیتے تھے۔  مگر یہ تاویل ایک اور وجہ سے بھی غلط ہے کہ اتوار کے روز جب عورتیں قبر پر آئیں اور انہوں نے قبر کو خالی پایا تو انہوں نے جا کر فی الفور شاگردوں کو ہی اطلاع دی تھی۔ اگر شاگرد یروشلم سے گلیل چلے گئے تھے تو پھر عورتوں نے کیسے انہیں قبر خالی ہونے کی اطلاع دی؟

                انجیلی بیانات میں تطبیق کی ایک ہی صورت ممکن ہے کہ انجیل لوقا کے بیان کا انکار کر دیا جائے جو صعودِ مسیح تک شاگردوں کو یروشلم میں ہی مقید رکھتی ہے۔ لوقا کے برعکس یوحنا و متی(مرقس گلیل جانے کےمتعلق کچھ نہیں لکھا) دونوں ہی یسوعؑ کے رفع آسمانی سے ناواقف ہیں اسی لئے انہوں نے اسے شامل تصنیف  نہیں کیا۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ وہ یسوع کے آسمان پر جانے سے واقف تھے تو بھی انہوں نے اس روایت کو اس قدر  معتمد دنہیں سمجھا کہ اسے نقل کرتے ۔ چناں چہ اگر لوقا کے بیان کو کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھ دیا جائے تو صورت حال واضح اور قابل تفہیم ہو جاتی ہے کہ واقعہ تصلیب کے بعد سات دن  تک شاگرد بےخمیری روٹی کی عید منانے یروشلم میں ہی ٹھہرے رہے  اور اس کے فوراً بعد گلیل لوٹ گئے ۔ گلیل تک پہنچنے کا عرصہ کم از کم پانچ ایام پر محیط ہوگا کیونکہ  درمیان میں سامریہ کا پہاڑی علاقہ تھا جہاں سے یہودیوں کا گزرنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے برابر تھا۔ بےخمیری روٹی کی عید کے سات ایام اور واپس لوٹنے کے پانچ ایام کو جمع کیا جائے تو یہ تقریباً ۱۲دن بنتے ہیں لہذا گلیل میں شاگردوں پر ظہورِ یسوعؑ واقعہ صلیب کے بھی بارہ دن بعد ہوا جب کہ اناجیل اس سارے منظر نامے کو کچھ اس طرح سے پیش کرتی ہیں کہ گویا یہ تمام واقعات یکےبعد دیگر فی الفور پیش آرہے تھے۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔