Pages

Most Popular

ہفتہ، 1 مئی، 2021

اسرار و رموزِ یسوع: انصاف کا قتل

 

زیرنظر تحریر سابقہ امریکی نن روزلین کینڈرک اور موجودہ نومسلم رقیہ وارث مقصود کی کتاب کے پہلے باب کا ترجمہ ہے جسے ڈاکٹر قاضی سعید احمد نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

انصاف کا قتل

سیزر ری پبلکن ایسے ٹن بروٹس نے بادشاہ ٹارکیون کو روم کے تخت سے اتار دینے کے وقت سے لیکر یسوع ناصری کے دور تک رومیوں نے شاہی خاندان کے نظریہ حکومت کے ساتھ کوئی بھی تبدیلی نہ کی تھی۔ روم میں ایک جمہوری حکومت قائم تھی جس میں عام لوگوں کے پاس حکومت  بنانے کےلئے چناؤ کا حق ہوتا تھا اور جوکوئی  بھی یہ سازش کرتا کہ وہ طاقت، اقتدار اور جملہ اختیارات پر یا ان اختیارات کے اصول و ضوابط پر قبضہ کرلے تو اسے کڑی سزا دی جاتی تھی۔اس ممکنہ ظلم کی روک تھام کیلئے اور تمام اداروں کو اپنی حدود میں رکھنے کیلئے ایوان بالا (سینٹ) کے حکامِ اعلٰی نے ایک طریقہ کار وضع کر رکھا تھا جس میں وہ  دو افراد کو بطور قانونی و سیاسی مشیر مقرر کرتے تھے(ان کے عہدےکی مدت صرف ایک سال ہوتی تھی) یہ دو افراد مساوی اختیارات کے حامل ہوا کرتے تھےنیز وہ ایک دوسرے کی رائے کو مسترد کرنے کا بھی مکمل اختیار رکھتے تھے۔

یسوع کی پیدائش سے تقریباََ ۴۰ سال قبل جولیس سیزر کو قتل کردیا گیا تھا۔ یقینی طور پر اس کے دشمنوں کو یہ خدشات لاحق تھے کہ وہ تاحیات تخت شاہی پر قابض رہنا چاہتا ہے۔ غیرمعمولی طور پر جب آکٹاوین، سیزر کی بہن جولیا کے پوتے نے ایک سازش کے ذریعے خود کو حکمران بنانے کی کوشش کی اور خود کو آگسٹس (Augustus) "رومن سلطنت کی بنیاد رکھنے والا" ہونے کا اعلان کردیا۔   ایسا کہنا کلی طور پر درست نہ ہو گا کہ اس کے ذہن میں ایسا کوئی فریبی منصوبہ نہ تھا کہ کرنسی کے طور پر مروج سکوں پر اس کا نام بحیثیت دیوتا "ابن خدا" لکھا جائے۔ اس کےنزدیک دیوتا مر چکا تھا مگر نیا "دیوتا" سیزر کی موت سے لے کر اب تک ( سینٹ) ایوان بالا کی جانب سے سرکاری طور پر ملک کے طول و عرض میں دیوتا کا درجہ پاچکا تھا اور  تمام عبادت گاہوں اور سرکاری عمارتوں سمیت اس کا نام دیوتا کی حیثیت سے مانا جا چکا تھا۔

اس کے بعد آنے والا بادشاہ بھی 'خدا کا بیٹا' یا' دیوتا' ہی تھا۔ وہ آگسٹس (Augustus) کو ذاتی طور پر پسند کرتا تھا۔ اس مقدس دیوتا کا متنبہ ' لے پالک' بیٹا ہونے کا دعویدار تھا وہ انسانی تصور جو اسے 'خدا کا بیٹا' قرار دیتا تھا، اس کا پس منظر یہودی روایات بھی تھیں اور داؤد David کے پیشروحکمران بھی خدا کے "لےپالک بیٹے" کہلاتے تھے جب وہ مقدس غسل لے کرتخت حکمرانی پر بیٹھ جایا کرتے اور رسم تاج پوشی میں شریک ہوتے تھے۔ زبور 7:2 کے یہ الفاظ: (تو میرا بیٹا ہے آج تو  مجھ سے پیدا ہوا)اور 2سموئیل 14:7 کے مطابق خدا کا کہنا بادشاہ سے " میں اسکا باپ ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا"۔ تاہم رومن کے معمول کے قانون اور روایت کے مطابق یہ "مقدس دیوتا" جیسا ہرگز نہیں ہوتا تھا  یا اصلی ابدنیت پر مبنی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ اعلٰی اور باوقار الفاظ صرف ملائکہ کے لیے ہی مستعمل تھے۔

مختصراََ یہ کہ یسوع کے دور تک یہ نظریہ یا تصور نہ کوئی نیا تھا اور نہ ہی قابلِ قبول تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک بغاوت ہی تھی، کہ بحراوقیانوس کے اردگرد بہت سے دیوتا تھے اور ان کی خوبیاں اور خواص بھی مختلف تھے۔ وہ کوئی انتہائی دانش مند یا انتہائی بیوقوف آدمی تھا جس نے دو ٹوک بات کرنے کی جرات کی کہ دیوتاؤں کا کوئی وجود ہی دنہیں ہے۔ یا یہ کہ: دیوتاؤں کی کوئی اولاد ہی نہیں ہوتی اور وہ کب اور کہاں کسی پر مہربان ہوتے ہیں۔ سو، مذہبی متکبر اور جوشلیے یہ دعوٰی کرتے تھے کہ ایک پرہیزگار نوجوان بڑھئی/ترکھان مبلغ پادری، وہ ان کے دیوتا کا بیٹا تھا"۔ یہ بات نفرت آمیز لوگوں کوخوش کرسکتی تھی لیکن وہ اس کو ایک بڑا جرم بمشکل ہی سمجھتے تھے۔ لیکن! یہ دعوٰی کرنا کہ رومن بادشاہ کی اجازت کے بغیر بادشاہ بننا ایک غیر اخلاقی عمل تھا۔ یہ ایک خودپسندی تھی اور خطرناک بھی، کہ شاہی روایتی رعایت کا ازخود فائدہ اٹھایا جائے۔ مختصراََ یہ کہ: یہ ایک کھلی بغاوت تھی۔

یسوع کو گرفتار کیوں کیا گیا اور اسکی سزائے موت کی مذمت کیوں کی گئی؟ تمام اناجیل متفقہ طور پر یہ تاثیر دیتی ہیں کہ اسکا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ لیکن یہ سب ان کے حسد اور تلخی کی بنیاد پر ہوا جوکہ یہودی فرقہ فریسی کہلاتے تھے۔ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ ان کی دشمنی نےیروشلم کے ہیکل کے کاہنوں کی حوصلہ افزائی کی، اس کے خلاف کام کیا اور اسکی تباہی و زوال کا سبب بنے۔

تاہم علماٰء کی ایک بڑی اور بڑھتی ہوئی تعداد نے اس نکتہ نظر کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا۔ شاید کہ یسوع ایک مضبوط کردار کا رہنما/لیڈر تھا اور بادشاہ ڈیوڈ جیسا افسانوی کردار رکھتا تھا، اس نے دعوٰی کیا کہ "وہ یہودیوں کا بادشاہ بنے گا" اسکی صلیب کے وقت بھی ایک پلے کارڈ پر لکھا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ رومن ہی ہو جو درحقیقت اسکی موت کے ذمہ دار ہو۔ اور ان یہودیوں جیسے بےاختیار نہ ہو۔ جو بغض و عناد سے بھرے پوئے تھے۔

بلاشبہ یہودیوں کے بعض بہت ہی طاقتور اتحادی بھی تھے۔کاہنوں کے تنظیمی ڈھانچے میں، یا موروثی، جوکہ اسکندریہ کے شہروں اناس (Annas) اور بوتھس (Brethus) کے عالیشان محلات میں رہایش پذیر تھے۔ فیابی (Phiabi) اور کام ہیٹ (Qamhit)، جنہوں نے گورنمنٹ سے اپنا عہدہ چھوڑ رکھا تھا، سالانہ کی بنیاد پر۔ تاہم باوجود ان کی طاقت اور اثرو رسوخ کے بڑے بڑے کاہن بھی اچھی پوزیشن میں نہ تھے وہ عام طور پر عوام میں غیر مقبول تھے ان مذہبی انتہاپسند  جوشیلے لوگوں کی ایک بڑی ایسی تھی جو یہ سمجھتے تھے کہ بات صحیح اور معقول ہونے کا جواز ان کے پاس موجود ہے۔ جنکی اخلاقی حالت بددیانت گھریلو ملازموں کی سی تھی جو سامراجیت کے اشاروں پر بھاگنے والے کتے تھے ان کی ان حرکات کے پیچھے محض لالچ ہوتا تھا۔

بوتھسیانز (Boethusians) اوپر سے لیکر نیچے تک اقرباء پروری کے پروردہ تھے۔ بوتھسیانز (یروشلم کی تباہی سے قبل کا یہودی فرقہ) اوپر نیچے تک مکمل طور پر جارحیت پسند سالانہ وظیفہ خوار، سانپ جیسی پھنکار والے، اسماعیل نم فیابی کی نسل سے تعلق رکھنے والے، مکے باز جھگڑالو، وہ سب کے سب بڑے بڑے مذہبی پادری تھے۔ یا تو ان  کے بیٹے خزانچی تھے یا پادری، ان کے پوتے نواسے بھانجے بھتیجے داماد عبادت گاہوں کے کیپٹن تھے۔ اور ان کے نوکروں کی حالت یہ ہوتی تھی کہ وہ عام لوگوں کو چوبی ڈنڈوں سے مارا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ یہ لوگ اپنے شاہانہ کردار کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی حفاظت کا مکمل انتظام رکھتے تھے چاہے روم کے دور دراز کے علاقے ہو یا اپنے قانونی اور مہذب دوست ہو۔ اور بےبس ملکی شہری یا اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے سامنے اپنی طاقت  کا اظہار کیا کرتے تھے۔ تاہم وہ لوگوں میں میل ملاپ بھی رکھتے تھے اور شکرگزار بھی رہتے تھے تاکہ لوگ انہیں اچھے وفادار یہودی سمجھیں۔ اور انہیں رومیوں کے کٹھ پتلی خیال نہ کریں۔

بہتری کے عمل کو مشکل سے دیکھا جاسکتا تھا اگر رومی آقا ان بادشاہوں کو مجبور کردیتے کہ کسی آدمی کو ان کے حوالے کردیں یا اسے مصلوب کردیں چاہے وہ معاشرے کا پرہیز گار آدمی ہو یا کوئی مقبول عام ٹیچر ہو یا ہیرو ہو، انجیل مرقس اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ کاہن اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر یسوع کو سرعام گرفتار کیا گیا تو لازمی بلوہ ہو جائے گا۔ (مرقس 14:2) حقائق کی طرف نظر کریں تو لوقا بھی یہی خیال کرتا نظر آتا ہے۔ فقیہوں  اور دیگر سردار  کاہن اسے مارنے کےلئے اس پر ہاتھ ڈال دیتے لیکن وہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔(لوقا 19:20)

وہ لوگ جنہوں نے اس  شورش کرنے والے ہجوم کا عینی مشاہدہ کیا تھا کہتے ہیں: ایسا ہجوم اپنے ملک میں مقید اپنے ہیرو کو چھڑوانے کے لئے سب کچھ کرسکتا تھا اور کسی بھی حد تک جاسکتا تھا۔ اور چاہے وہ قیدی ہیرو ایران، یورپ، روس، جنوبی افریقہ یا کیوبا سے ہی تعلق رکھتا ہو۔ اس میں تھوڑے شک کی گنجائش ہے کہ ملک میں سب سے بڑی جو تحریک چلی تھی اسکو عیسٰیؑ کیلئے برابر بنایا جاسکتا تھا۔

کسی بھی بغاوت میں یسوع کو اس ہجوم سے بچا لینا یا رہا کردینا یا بری کردینا ممکن تھا۔ اور نہ ہی یہ بات قابلِ اعتبار تھی کہ یہودی، یسوع کے شہری کردار کے خلاف تھے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روم کے خلاف اٹھنے والی ہر قسم کی بغاوت میں یہودی اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ۔ لہذا اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر یہودی آخری حد تک جاسکتے تھے۔ اس وجہ سے بھی نہیں کہ انہوں نے یسوع کی مخالفت کی کہ وہ یسوع کے مشن کے سخت مخالف تھے۔ کیا ہوتا اگر یسوع کو گرفتار کر لیا جاتا؟ لیکن اسمبلی کونسل نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے؟ کیا وہ اسے چھوڑ سکتے تھے؟ بات صحیح ہے کہ ایسا ہوسکتا تھا۔ لیکن کیا انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا؟ وہ اسے رومی قانون کے مطابق بچاسکتے تھے اگر یسوع اپنے مقدمے میں اس الزامات سے بری الذمہ ٹھہرتے جو ان کے خلاف لگائے تھے اور ثبوت اور گواہیاں ان کے خلاف نہ ہوتیں جو ان کے قصور کو ثابت کرسکتے تب انہیں آزاد کردیا جاتا کیونکہ  رومنوں کے عام قانونِ معافی کے مطابق ایسے ملزموں کو  صاف طور پر بری کردیا جاتا تھا۔

دوسرا  اختیار: موت کے فیصلے کو معطل  کرنا رومیوں میں کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔ لیکن اگر یسوع ریاستی قانون کو توڑنے کے مرتکب پائے جاتے تو انہیں معاف کیا جاسکتا تھا۔ اگر وہ اقرار کرلیتے کہ انہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا تھا اور بیان حلفی داخل کرتے کہ وہ بغاوت کی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں اور ملوث ہونے کا اقرار نامہ عدالت میں داخل کردیتے تو انہیں معاف کیا جاسکتا تھا۔ تاہم اناجیل اس امر پر متفق نظر آتی ہیں کہ یہودی حکومت ان کو آزاد کرنے کے لئے ایسا طریقِ کار عمل میں لاسکتی تھی، مثال کے طور پر، یسوع سردار کاہن  کے گھر لایا گیا تھا جہاں یہودی کونسل ایک رات کے لئے جمع  ہوئی تھی ، تو اپنی جگہ پر یہ اجتماع بھی غیرقانونی تھا۔ اسی جگہ ان پر مبینہ توہیں رسالت/خدا کا الزام لگایا گیا تھا۔ اور ان کا اعترافی بیان ریکارڈ کیا گیا۔ ایک قیدی کو متعصبانہ فیصلے سے بچانے کے لئے، عدالت کے دروازے بند کرکے کوئی بھی ایسا خفیہ فیصلہ کرنا ممنوع تھا۔

کسی بھی چیمبر میں یہودی  کونسل  کا اجلاس منعقد کرنے کی قطعا اجازت نہ تھی  کہ مجرمانہ سرگرمیوں کو سنا جائے وہ جگہ عبادت گاہ کے احاطہ سے باہر ہو یا کوئی پرائیویٹ مکان ہو۔ ایسا اس لئے تھا کہ کوئی شخص ذاتی طور پر ججوں پر اپنے بغض و عناد کا اثر یا غیر معمولی دباؤ  یا ذاتی طور پر اپنے سے سوچی سمجھی رائے مسلط نہ کرسکیں۔

دوسری بات: مجرم سے متعلق فیصلے کو شفاف رکھنے کی غرض سے کہ جن کے فیصلوں پر مجرم کی زندگی وابستہ ہوتی تھی ، یہودی کونسل مجرمانہ نوعیت کے مقدمات صرف دن کی روشنی میں ہی سن سکتی تھی نہ کہ رات کی تاریکی میں، جبکہ کونسل کے ممبران تھکے ہوئے ہوتے یا جلد باز اور بےصبرے ہوتے تو مقدمات ایسی صورت میں اگلے دن تک مؤخر کردیا جاتا تھا۔ ایسے مقدمات دن کی روشنی میں ہی نمٹائے جاتے تھے اور فیصلہ اگلے دن سنایا جاتا تھا۔ ایک رات کا انتظار کے بعد تہواروں کے دنوں میں یا تہوار  کے روز کسی بھی مجرم کا مقدمہ نہیں سنا جاتا تھا۔ کہ ان دنوں میں ججوں کا ذہن تہوار کی جانب ہوتا تھا۔ اور نہ ہی وہ لوگ جو اپنے اعترافی بیان کی وجہ سے اپنے ہی دباؤ میں رہے ہوں یا وہ بےقصور لوگ شاید ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہر اس جرم کو قبول کرلیں جو انہوں نے کیا   ہی نہ ہو اسی کو مدنظر رکھناضروری ہوا کرتا تھا۔ مجرم کے جرم کو ثابت کرنے کےلئے دو معتبر گواہیوں کی گواہی ضروری ہوتی تھی۔ اور اسے مزید جرم دہرانے کے لئے صاف صاف تنبیہ کردی جاتی تھی۔ اس کے اعترافی بیان اور تنبیہ کے ساتھ اسے اس الزام سے بری کردیا جاتا تھا۔مزید برآں اگر مجرم کو گواہوں کی موجودگی میں جرم دھوکہ دہی/فراڈ میں ملوث پایا جاتا تو اس پر جرمانہ عاید کر دیا جاتا۔

مگر  یسوع کے مقدمہ کے سلسلے میں ایسا قطعا نہ ہوا تھا  اور نہ ہی اناجیل کے حوالوں کے مطابق اور نہ ہی ملکی قانون کے مطابق یسوع کو اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے کو نہ تو کہا گیا اور نہ ہی اپنی صفائی میں دلائل دینے کا موقع دیا گیا۔حلاناکہ تین مضبوط نڈر راہنماؤں کو گواہی کےلئے طلب کیا جاسکتا تھا۔

نمبر1: "یوسف ارمتیائی "جو یسوع کا ایک قریبی رشتے دار تھا۔باخبر ذریعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شہزادے کا خطاب پاچکا تھا۔

نمبر2: "نیکدویمس" ایک فریسی جو خفیہ طور پر مذہب تبدیل کرنے والا تھا۔

نمبر3: "اسٹیفن" جو پہلا شہید عیسائی کہلایا۔

تو یہاں پر حالات حقائق سے مختلف پاگئے ہیں کہ یسوع ایک انتہائی متعصب عدالت کے سامنے تھے۔ کہ جس عدالت نے جان بوجھ کر عمداََ یسوع استفاثہ کے خلاف معاندانہ اور مخالفانہ سیکٹر سے ثبوت حاصل کئے۔ کاہنِ اعظم جو چیف جج تھا، فیصلے پر اپنی مرضی مسلط نہ کرسکتا تھا۔ مزید برآں ایک متفقہ عدالتی فیصلہ جو متنازع ہو یا مشکوک ہو اسے کالعدم قرار دے دیا جاتا تھا۔ اگر دوسری نشست برائے سماعت ضروری ہوتی تو اسے ایک دن کے لئے مؤخر کردیا جاتا تھا۔ اور کسی بھی مقدمے کے ضمن میں یہ عمل غیر قانونی ہوتا تھا۔ کہ چیمبر آف ہیون سٹون (Chamber of Hewn Stone) کے علاوہ کسی اور جگہ سزائے موت کا حکم سنایا جاتا۔ تاہم یہودی  کونسل کا کورم جوعام طور پر 23 ممبران پر مشتمل ہوتا تھا، فریسی دیار عدالت کے مطابق وہ اس امر کا مجاز نہیں ہوتا تھا کہ وہ غیر قانونی سزائے موت کا فیصلہ دےسکے۔ اگر یسوع کے خلاف جھوٹی گواہیاں پیش ہوتیں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس سے متفق نہ ہوتے؟  جھوٹی گواہیاں عموماََ ان کے بااختیار لوگوں کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہوتیں؟ یہ بات کس قدر ناقابل اعتبار اور عدل سے ہٹ کر تھی کہ انہی میں سے نااہل لوگ، کاہنِ اعظم جج سب کے سب یسوع کے درمیان رابطہ رکھنے میں ناکام رہے یہ بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اس کیس کے گواہ پہلے سے بنائے جائے چکے تھے۔ اور انہوں نے اسی طرح گواہی دی جس طرح سے انہوں نے یسوع کو سمجھا اور حقائق اور عدل کو مدنظر نہ رکھا۔ اور یہ گواہی قطعا  غیرقانونی تھی۔ کہ یسوع کو موردالزام ٹھہرایا جاتا۔ تاہم اگر ہم اس بات کو فرض کرلیں کہ اناجیل کے حوالوں سے اس کیس کو مکمل کیا جارہا  تھا  پھر بھی وہ کلی طور پر یسوع کی لئے غیرقانونی ہی تھے۔ کیا علماء اس عمل کو یہودی زعماء کی مکاری اور ٹیڑھ پن نہیں کہیں گے۔ یا انہیں الزام سے بری کرنے کو نہ کہیں گے اگر ایسا ہوتا تو ایک کے بجائے دو باتیں سامنے آجاتیں ، ایک: یہودیوں کا تعصب، اور دوسری: بات بے بنیاد الزام، پہلی بات پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ قوانین اس وقت رائج ہی نہیں تھے۔ یہ تو فرعونی نظریات کی نمائندگی کرتے تھے۔ اور یہودی کونسل کی اکثریت صدوقیوں پر مشتمل تھی جوکہ  یسوع کی مذمت میں پیش پیش تھے۔ یہی وہ حکومتی/ درباری کاہن تھے جو اسمبلی کونسل کے تنظیمی ڈھانچے کا حصہ تھے۔

فریسی کاہن نہیں تھے یہ تو عام مزدور طبقہ لوگ تھے اور سخت مذہبی قسم کے لوگ تھے جو اپنی زندگی گزارنے کے لئے ایک تفصیل اللہ کے احکامات سےلیتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ممتاز علماء بھی تھے۔ اور یہی مذہبی کاہن صدقات و خیرات عقل و شعور اور انسانیت پسند تھے۔ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی احتیاط برتنے والے تھے۔ تاہم پھر بھی فریسیوں سے اس معاملے میں دلچسپی کے حامل کم ہی لوگ تھے۔ اور بیوقوفانہ باتوں کو نظرانداز کرنے والے لوگ تھے۔

یسوع کے دور میں فریسیوں کے بنائے ہوئے قوانین حکومتی قوانین اثرانداز تھے۔ اور اسمبلی کونسل بھی انہی کے زیر اثر تھی۔ عام لوگ اس وقت تک اسمبلی کونسل کے کسی بھی فیصلے کو قبول نہ کرتے تھے  جب تک کہ ان میں درج ذیل فریسی راہنما موجود نہ ہوتے تھے۔

نمبر 1: ربائی ہللیل اور ربائی شمائی (Rabbis hillel shammai)

نمبر2: ربائی گملی ایل (Gammaliel)

کسی بھی طرح یہ فرض کرلینا کہ صدوقی،بےایمان،ظالم،لالچی، انتہائی تنگ نظر اور غلط تھے مزید برآں صدوقیوں پر جدید تحقیق یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات پر کس طرح عمل کرتے تھے جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں: ان حالات سے نکلنے کا دوسرا راستہ یہ بیان کرنا بھی ہے کہ وہ تمام قوانین جن کا ذکر اوپر بیان کیا جاچکا ہے وہ غیرتحریری یہودی قانون کی ایک قسم ہے۔ جوکہ غیرمتعلقہ ہیں۔ غیر تحریری یہودی قانون اس وقت سے لیکر یسوع کی موت تک کسی ضابطے کی شکل میں تحریر نہ تھا۔ تاہم اس قانون کے ضابطے پہلے وقتوں ،میں نافذالعمل تھے لیکن یہ دلیل مشکل سے ہی قابل قبول ہے کہ اس دور کے ضابطے اور قوانین جو غیرتحریری یہودی قانون سمجھے جاتے تھے کہ یہ سب کے سب قوانین جو غیر متوقع طور پر فوراََ ہی سامنے آجائیں گے۔ ان پرانے قوانین کو موجودہ قوانین سے (جو یسوع کے دور میں رائج اور نافذالعمل تھے) ڈھونڈھ نکالا جائے گا۔

اس کا ایک تیسرا متبادل بھی ہے: ایک وہ کہ جو عیسائیوں میں سے سب سے زیادہ گھناؤنے اور مکروہ کردار کو حامل ہے اسےبھی زیر غور رکھنا چاہئے تھا۔

یہ ہے وہ بات! اناجیل کو بیان کرنے والے صحیح طور پر تاریخی ریکارٖڈ کا حصہ بلکل نہیں تھیں۔بلکہ یہ تو مختلف النوع سنی سنائی غلط باتوں کے مرکب کی کھچڑی ہے جسے باہم ملا جُلا کے/اکھٹا کرکے سالوں اور پیش کیا گیا ہے۔ یا عمداََ قدیم ذرائع مواد سے جعلسازی ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی کے ذریعے سے اس مواد کو حاصل کیا گیا ہے۔ اس کا ایک مقصد اور بھی تھا کہ جس سے دشمنی کو بڑھانا تھا برخلاف ان عیسائیوں کے جو یہودیت کے ساتھ مخلص رہے اور نظریہ تثلیث کو قبول نہ کیا۔

یہ تجویز یا مشورہ معیار حق کے برابر کیوں نہیں ہے؟ دلیل بلکل سیدھی اور عین حق ہے۔ یسوع کے اصل پیروکار،دوست اور رشتےدار اور جو بہت قریب سے یسوع کو جانتے تھے، اور جو صرف ایک وحدۃ لاشریک سچے خُدا کی عبادت کےلئے مخلص رہے تھے۔ اور اصرار کرتےتھے کہ تمام عیسائی شریعت پر کاربند رہیں۔ جسے اللہ نے بذریعہ وحی اپنے رسولوں کی طرف بھیجی تھی انہوں نے یسوع کا بحثیت "اللہ" ہونے کا ہرگز احترام نہ کیا بلکہ اللہ کا منتخب رسول ہونے کا ہرگز احترام نہ کیا بلکہ اللہ کا منتخب رسول ہونے کا احترام کیا جو قابل حداحترام پیغمبروں کی لڑی سے تعلق رکھتے تھے۔

تاہم یہ دوسری قسم کے عیسائی تھے جو یسوع کو انسان ہونے کے علاوہ کچھ اور بھی سمجھنے کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اور اس عقیدے والے عیسائی فلسطین اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں رہتے تھے۔ ان جگہوں پر مذہبی ذہن رکھنے والے "خواص کی حکمرانی کے نظریے" کے حامی لوگوں  کے ساتھ تھے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ پُراسرار روایات پر منبی سزاؤں کا تصور درست ہے۔ اور یسوع خدا اور انسان کے ادغام کی زندہ مثال ہے۔ اور کفارہ ادا کرنے والے نجات دیندہ بھی ہیں۔

اناجیل اربعہ اس دور سے لیکر موجودہ دور تک، کے عہد عقیق کے لکھے جانے میں ایک انتہائی مضبوط خواہش کار فرما یہ رہی تھی کہ تصور خدا کے بارے میں یہودی عقائد ناکافی تھے، کا اظہار واضح طور پر کیا جائے۔ اس خواہش کے زیر انہیں پُر زور اور پُراثر بنایا جائے ایسا کہ یہودیوں کے مروجہ شر یعنی قوانین میں پوری طاقت کے ساتھ شگاف ڈٖال دیا جائے۔

خصوصی طور پر ختنہ، قوانین رسومِ طہارت اور کھانے پینے کےضوابط یعنی حرام و حلال کے قوانین و ضوابط، عیسائیوں اور یہودیوں کی مزاحمت اور کشمکش کے وقت سے لیکر بگاڑ اور خرابی پیدا ہوجانے کے وقت تک ایک نئے عقیدے کی مخالفت شدت کے ساتھ شُروع ہوچکی تھی جس کی مزاحمت پہلے کے تمام پیغمبر بھی کرچکے تھے جن میں مذہبی رسوم اور ہالی کلٹ کی عبادت سرفہرست تھی۔ یہاں پر اگر نئی عیسائیت اپنے عزائیم میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ یہودیت کیلئے ایک دشمن کے طور پر ظاہر ہوجائے گی۔

اگر کوئی قاری ان نظریات سے اختلاف رکھتے ہوئے ناراض ہوجاتا ہے کہ پرانے وقتوں کے مصنفین جان بھوج کر ہیرا پھیری اور ردُ بدل کے شکار ہیں اور ان کی باتیں بے ثبوت ہیں تو یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے بدعتی پر مبنی منصوبہ بندی کرکے زبردستی حق کو چھپایا ہے۔ بعد میں آنے والے یہودی اور مسلمان ان الزامات سے بُری طرح متاثر ہوئے جو صدیوں سے چلتے آرہے تھے۔ یہاں تک کہ نیک لوگوں کی ایک بڑی تعداد قبروں میں اتر گئی، ہمیں چاہیے کہ اس مواد کو کڑے امتحان سے گزارا جائے اور دیکھیں کہ کیا نتائج ہم تک پہنچ سکتے ہیں؟


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔