ڈاکٹرہیوجےشون فیلڈ ایک معروف برطانوی ببلیکل یہودی اسکالر رہے ہیں۔ انہوں نے مقدس صحیوسں کے موضوع پرگلاسکویونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ یوررپی علمی حلقوں میں ا ن کی آراء کو عہدجدید و ابتدائی کلیسیاء اورمسیحیت کے ارتقاء جیسے موضوعات پر ہائی اتھارٹی سمجھاجاتا ہے۔ ۔مذہب وتاریخ پر چالیس سے زائدد معرکۃ الآراء کتب لکھ چکے ہیں۔ان کے قلم سے کیے گئے عہدجدید کے ترجمہ کوامریکہ ویورپ میں درجہ استنادحاصل ہے۔ان کی کتاب Passover Plot(عیدفصح کا منصوبہ)کوکم وقت میں بہت زیادہ پزیرائی ملی اور قلیل عرصہ میں اس کے چالیس سے زائدایڈیشن شائع ہوئے۔زیرنظرتحریر بھی ڈاکٹرہیوجےشون فیلڈ کی ایک نہایت گراں قدر کتاب Jeus, Man, Mystic, Messiahکے ایک باب The Gospels as resources کا ترجمہ ہے۔یہ کتاب ڈاکٹرصاحب کی چھیاسویں سالگرہ پر شائع ہوئی اور اسے ڈاکٹرہیوجےشون فیلڈنے اپنی پوری زندگی کے مطالعے کا نچوڑ قرار دیا ہے۔میں اپنی اس چھوٹی سی کاوش کو اپنے والدین کی طرف انتساب کرتی ہوں جن کی شفقت ومحبت اور دعاؤں کے باعث میں نے علم حاصل کیا اور یہ ترجمہ کرنے کے قابل ہوسکی ۔اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے سوشل میڈیاپیج وگروپ مسلم مسیحی مکالمہ آفیشل کی پوری ٹیم کی بھی شکرگزار اورممنون ہوں جن سے مجھےبہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
والسلام
صباخان
والسلام
صباخان
اناجیل متوافقہ سے ظاہر ہونے والی یسوع کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ اسے صراحتاً بردباراورحلیم شخص کے طورپرقبول
کیاجاسکے۔جونہ ہی بیابانی تھا اور نہ ہی وہ چوتھی انجیل کاجداگانہ (مشرک)مسیح تھا جواپنی شناخت چھپانے کے بجائے خود کو آسانی سے خداکابیٹااورمقررکے طور پر پیش کرتا ہےجواسے اس کے لوگوں اور مذہب سے بیگانہ کرتی ہے۔انجیل یوحنا خالص یونانی فلسفے کا حصہ ہونے کے باوجود یسوع کی سوانح عمری کے متعلق اقدار پر اچھی معلومات فراہم کرتی ہے۔اس انجیل میں کچھ ایسے لازمی عناصر بھی ہیں جو ٹھوس دلائل پرمبنی ہونےکے ساتھ ساتھ مصنف کی ذاتی معلومات اوراندرونی حقائق کا علم رکھنے کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔اسی وجہ سے بعض علماء نے اس انجیل کو قانونی اناجیل کی ابتدائی انجیل سمجھنا شروع کردیا۔ہمیں ان وقائع اور اناجیل متوافقہ کے مستند ہونےکی اہمیت جاننے کے لیے انکے آغاز کے متعلق تفتیش کرنا پڑے گی۔
کیاجاسکے۔جونہ ہی بیابانی تھا اور نہ ہی وہ چوتھی انجیل کاجداگانہ (مشرک)مسیح تھا جواپنی شناخت چھپانے کے بجائے خود کو آسانی سے خداکابیٹااورمقررکے طور پر پیش کرتا ہےجواسے اس کے لوگوں اور مذہب سے بیگانہ کرتی ہے۔انجیل یوحنا خالص یونانی فلسفے کا حصہ ہونے کے باوجود یسوع کی سوانح عمری کے متعلق اقدار پر اچھی معلومات فراہم کرتی ہے۔اس انجیل میں کچھ ایسے لازمی عناصر بھی ہیں جو ٹھوس دلائل پرمبنی ہونےکے ساتھ ساتھ مصنف کی ذاتی معلومات اوراندرونی حقائق کا علم رکھنے کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔اسی وجہ سے بعض علماء نے اس انجیل کو قانونی اناجیل کی ابتدائی انجیل سمجھنا شروع کردیا۔ہمیں ان وقائع اور اناجیل متوافقہ کے مستند ہونےکی اہمیت جاننے کے لیے انکے آغاز کے متعلق تفتیش کرنا پڑے گی۔
اناجیل کی استنادی حیثیت کو بطور ذریعہ معلومات سمجھنے سے قبل یسوع کے افعال کو سمجھنا ایسا ہی ہے جیساکہ بیل گاڑی میں گھوڑےکو جوتنا۔لیکن میں یہ بیان کرنا ضروری محسوس کرتا ہوں کہ اناجیل مذہبی رہنمائی اور روحانی اکتساب کے لیے پڑھنے والےقارئین کو نادانستہ اور اتفاقی طور پر یسوع کے متعلق اس سے کہیں گنازیادہ بیان کرتی ہیں ۔
لوقاکےممکنہ استثناء کے ساتھ،اناجیل بطورتاریخی سوانح حیات نہیں متصور کی گئیں حالانکہ وہ یسوع کی کہانی کو بالکل اسی طرح بیان کرتی ہیں جواس دور کے معاصرین عظیم مؤرخین کی زندگیوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔تاہم اناجیل اس انجیل کی منادی کو پیش کرتی ہیں کہ یہودکےموعودمسیح نے خودکوظاہرکردیا ہے۔اتفاقی طور پر وہ معاملے کا حوالہ دے سکتے تھے مگر نہ ہی انہوں نے ایسا کیا اور نہ ہی اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ان معاملات کا وقوع ہوا مگر وہ نجات کے کسی پیغام کی خصوصیت کے حامل نہیں تھے۔کچھ مثالیں موجود ہیں کہ جب یسوع کو گلیلیوں کے بارے میں خبردی گئی کہ ان کا خون پیلاطوس نے اپنی قربانیوں کے ساتھ ملا لیاتھا(لوقا13:1)
یہ ایک زبردست تاریخی اہمیت کا حامل واقعہ ہے جسے یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یسوع کے مقدمہ میں اس کی مبہم مشابہت ظاہر ہوتی ہے جہاں لوقا کے مطابق گلیلی حکمران ہیرودیس اینٹی پاس اوراسی طرح پیلاطوس ملوث کیے گئے ہیں۔ہم پڑھتے ہیں کہ "اوراسی دن ہیروددیس اور پیلاطس آپس میں دوست ہوگئے کیونکہ پہلے ان میں دشمنی تھی"۔(لوقا23:12)یہ دشمنی کیوں تھی؟ کیا یہ گلیلیو ں کے قتل عام کی وجہ سے تھی جو ہیرودیس کی رعیت میں تھے جن کا پہلے حوالہ دیاجاچکاہے۔ اس حوالے کے ساتھ یسوع یروشلم میں اٹھارہ افراد کی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر سلوم کا برج گرا اور وہ دب کر مرے گئے۔ کب اور کن حالات میں ایسا ہوا تھا ؟ مرقس کی انجیل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یسوع کے مقدمے کے وقت برابا نام کا ایک شخص جس نے بغاوت کی تھی اور بغاوت کے دوران خون کیا تھااس کو بھی اس کے ساتھ باندھا گیا تھا(مرقس 15:7)یہ کون سی بغاوت تھی؟ یہ قصہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اسے واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا۔
اسی سے متعلقہ مقام پر دوسرے نامعلوم افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں لوقا کچھ خاص عورتوں کا ذکر کرتا ہے جن کو یسوع نے شفا دی تھی۔ ان میں سے ایک ہیرودیس کے دیوان خوزہ کی بیوی یوانہ تھی جبکہ دوسری سوسناہ تھی. یہ کون تھی؟ (لوقا 8:3). کُرین کا سائمن صلیب اٹھا کر لایا جس پر یسوع کو مصلوب کیا جانا تھا (15:21)۔لیکن مرقس اس کو خاص طور سے سکندر اور روفس کے باپ کے طور پر بیان کرتاہے۔ کیا ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ سوسناہ،سکندر اور روفس مسیحی معاشرے کے رکن بن گئے تھے؟وگرنہ ان دستاویزات میں ان لوگوں کا ذکر کیوں کیا گیا ہے جو فلسطین سے باہر کے لوگوں کے پڑھنے کے لیے لکھی گئی ہیں جبکہ ان لوگوں کے لیے یہ نام کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔اس طرح کے مروی حوالہ جات مصنفین اناجیل کےابتدائی ماخذات پر آزادانہ استعمال کو ظاہر کرتے ہیں جس کی طرف وہ ایسی سچائی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں جوقابل غور ہے۔
مسیحی اناجیل کو مکمل قابل اعتماد اور خدا کا حقیقی کلام سمجھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تضادات اور غیر مطابقت بھی ان پر کچھ اثر نہیں کرتی لہٰذا وہ ان حالات میں بھی یسوع کے منہ میں ڈالی گئی بہت سی باتیں سچ کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں جن حالات میں کوئی تاریخی شہادتیں قلم بند نہیں کی جا سکتی تھیں یاپھروہ باتیں جن کو لمبے عرصے بعد مکمل طور پر یادداشت سے اکٹھا کیا گیا ہو حالانکہ طویل گفتگو کو فی الواقع تحریر میں لاناغیر ممکنات میں سےہوتا ہے۔ اگر ہم حقائق تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان دستاویزات کو ان کے ادوار کے لحاظ سے سمجھنا چاہیے جہاں مصنف کی مرتب کردہ تقاریرمعروف شخصیات کے لیے پیش کرنے کے واسطے اخذ کی گئیں تھیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ بعض اوقات مصنف کا مقصد فرقہ بندی یا خود رائے بھی ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر خاص احساسات کو پکارنا اور ان کے تمثیلی اثر کو بڑھانا مقصود تھا۔
جوزیفس کے بیان کے مطابق 700 عیسوی میں یروشلم کی تباہی کے بعد مسادہ قلعے میں زائیلوٹ یہودیوں کی آخری دفاعی کوشش کے قصے کو ہم علامتی مثال کے طور پر لے سکتے ہیں۔ قلعے پر رومیوں کے قبضے سے قبل آنے والی رات میں یہودی سپہ سالار الیزر نے بچ جانے والے لوگوں کو مخاطب کیا اور انہیں دشمن کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بجائے خودکشی کرنے کی صلاح دی۔ اس سراسر غیرمعمولی تقریر کو جوزفس نے مکمل طور پر بیان کیا ہے جو بلاشبہ وہاں اس طرح موجودنہیں تھا کہ سپہ سالار کے خیالات اور احساسات کو بیان کر سکتا۔ جوزیس ن اس بات کو بیان نہیں کرتا کہ کس طرح الیزر کی نصیحت کو قبول کیا گیا اور اپنے خاندانوں کو قتل کرنے کے بعد قلعے کی تمام فوج نے کس طرح ایک دوسرے کو قتل کر ڈالابالآخر آخری زندہ بچ جانے والے شخص نے خود کو مار ڈالا۔ صرف ایک بوڑھی عورت اور پانچ چھوٹے بچے زندہ رہ گئے کیونکہ انہوں نے خود کو چھپا لیا تھا۔ پس الیزر کی تقریر کی اصل عبارت کو کس نے محفوظ کیا اور بعد میں کس نے جوزیفس تک پہنچایا؟
اسی طرح اناجیل میں یسوع کو گتسمنی کے باغ میں دعا کرتے ہوئے ہمیں دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک نہایت دلگداز کہانی ہے جس میں لوقا کے مطابق فرشتہ ظاہر ہو کر تقویت دیتا ہے۔ روایت سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی شخص یسوع کی دعا کے الفاظ نہیں سن سکتا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں سے الگ ہو کر کچھ فاصلے پر چلا گیا تھااوروہ سب سوچکے تھے۔ ہمیں اس مشکل داستان کی بابت پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن سوچے سمجھے بغیر ٹھیک ٹھیک الفاظ یسوع کے منہ میں ڈال دینے پرانجیل نویس کو داد دینی چاہیے۔
عید فصح کے آخری کھانے کے موقع پر ایک نشست میں کم از کم چار گلاس مے پینا دستور کے مطابق تھا، مزید برآں ہم شاگردوں کو تھکن اور غم کے ساتھ سوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود یوحنا کی انجیل عبادت اور کھانے کے آخر پر شاگردوں سےکی گئی یسوع کی طویل تقریر قبول کرنے کی ہمیں دعوت دیتی ہے(جو کہ بائبل کے دو مکمل ابواب کا احاطہ کرتی ہے)۔ اس پوری تقریر کے دوران شاگردوں کے اونگھنے اور سننے میں سستی کویوحنا کی انجیل (14:15) میں عجیب طریقے سے بیان کیاگیا ہےکہ نصف صدی کے بعدتک اسے نہ صرف یاد رکھا گیا بلکہ ایک کتاب میں حرف بہ حرف محفوظ کرکے پیش بھی کردیا گیا۔
جب ہم یسوع سے منسوب اس تقریر اور اس انجیل میں موجود دوسری تقاریر کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تقاریر دوسری اناجیل میں یسوع کا خود کو ظاہر کرنے کے طریقے سے کس قدر غیر مشابہہ ہے۔یہ بولنے والا اس شخص کی طرح نہیں ہے جو خطاب کررہاہے اور نہ ہی یہ یہودی ہے۔ یہودی سامعین سے خطاب کرتے ہوئے وہ "ہمارے باپ دادا" کے بجائے "تمہارے باپ دادا" (6:49) کے الفاظ بولتا ہے اور "اپنی شریعت"کے بجائے "تمہاری شریعت"کے الفاظ ادا کرتا ہے(8:17)۔وہ اکثر اجنبی مذاہب کی زبان استعمال کرتا ہے مثال کے طور پر ایک پیرا جس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم ابن آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اس کا خون نہ پیو تم میں زندگی نہیں" (6:53). یہ فطری بات ہے کہ اگر اس کے شاگردوں نے اس طرح کی باتیں سنی تب اس کے بہت سے شاگرد اسے چھوڑ کر چلے گئے اور پھر اس کے پیرو نہ رہے (6:66)
اگر ہم یونانی کامطالعہ کریں تو کھوج لگا سکتے ہیں کہ انجیل یوحنا میں یسوع جس انداز سے وعظ کرتا ہے اور اپنے قیاس آرائیوں کا اظہار کرتا ہے وہ یوحنا کے خط کے مصنف کی امتیازی خصوصیت ہے، جو خود کو رسول کے طور پر بیان کرنے کے بجائے بزرگ یا کلیسیائی رکن کہتا ہے۔ مجھے اس معمہ کو یونانی عہد نامہ جدید کے تیار کیے گئے ترجمہ پر تحقیق سے بے نقاب کرنا ہے۔
جیسا کہ میرے بہت سے پڑھنے والے جان سکتے ہیں کہ مجھے چرچ کے نظریات سے متاثر بہت سے ایسےنسخوں کی باقیات ملی ہیں جو بعد میں مسیحی مذہب کے آغاز کی وجہ بنے اور آج بھی بعض اوقات متن کی تشریح اس میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہودی الہامی تحاریر جیسی عہد رفتہ کے مساوی دستاویزات کے لیے ایک آگہی اور خارجی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کو مسیحی علماء نے بہت مہارت سے استعمال کیا ہے۔ ضرورت کے تحت مجھے مکمل عہد نامہ جدید کا وضاحتی یادداشتوں اور حوالہ جات کے ساتھ ترجمہ کرنا پڑا اور درست کر کے ترتیب سے لکھنا پڑاکیونکہ یہودی معاملات کو سمجھنے کااہل نہ ہونے کے باعث عہد نامہ جدید کا غلط مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میری کامیابیوں پر میری توقعات سے بڑھ کر خیر مقدم اور پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
میں نے اس تجربے سے بہت زیادہ سیکھناتھا جوبالضرور اس تحقیقی عمل کو پیچیدہ بناتا تھا جس میں اناجیل سے روایات،تالیف اور ان کے ماخذات کی چھان بین کی گئی۔ بد قسمتی سے ان معاملات کو ایک عام مسیحی اور کافی حد تک کلیسا سے بھی پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
یہ ایک انتہائی حقیقت ہے کہ رومن سلطنت کی بین الاقوامی یونانی زبان میں لکھی گئی اناجیل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رومن سلطنت کی حدود کے اندر اور باہر غیر یہودیوں، مخلوط قدیم یونانی یہودی اور غیر یہودی مسیحی معاشروں کے لیے ترتیب دی گئی تھیں۔
اگرچہ وہ یسوع کی سوانح سے بہت زیادہ قدیم نہیں ہیں اوران سےظاہرہوتا ہے کہ معاشروں کے ادبی انداز اور ضروریات کے مطابق ان کو وضع کر کے مرتب کیا گیا ہے۔ مزید برآں یسوع کو واضح طور پر استاد اور مسیحاظاہر کرنے میں محتاط اور مختلف فی حد تک الوہیت کا پیغام پہنچانے کے لیے مکمل طور پر یہ محفوظ دستاویزات تھیں۔ یہ کام کافی سوچ بچار سے کیا گیا کیونکہ جس زمانے میں اناجیل تحریر کی گئی تھیں اس دور میں رومی عہدیداروں کی طرف سے مسیحیت کوسرکاری مذہب ہونے کا پروانہ نہیں تھما یاگیا تھا۔ اسے خطرناک اور تخریب کار نظریہ سمجھا جاتا تھا جس کی جڑیں یہودی مسیانزم میں پیوستہ تھیں جس نے 66 تا 70 عیسوی میں رومیوں کے خلاف یہودی جنگ کو بھڑکایا، یہ ایک ایسی بغاوت تھی جو پس پردہ خفیہ سازشوں اور سرگرمیوں کے نتیجے میں ہوئی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہودی قوم پرستی اور سیاسی مسیانزم اب بھی کس قدر قابل وضاحت تھا۔ دستیاب ماخذات سے ماخوذ بنیادی اقرارات اور تاریخ سے دستبردار ہوئے بغیر اسے مٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ یہ کار آمد ہونے کے ساتھ ساتھ اعتماد افزا بھی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سی اناجیل ابھی بھی موجود تھیں اور قانونی اناجیل بظاہرایسی مختلف چیزوں کااحاطہ کرتی ہیں جس میں بہت سی باتیں مشترک نظر آنی چاہئیں تھیں۔ وہ فراہمی مواد میں حدود سے متجاوز ہونے والی ہیں۔وہ سرکاری زعماء کی یادداشتوں کے ساتھ کچھ روایتی ربط بھی رکھتی تھیں۔وہ مسیحیت کی مرکزیت کی تکمیل کی نمائندہ تھیں اور کلیسائی اتحاد میں مددگار تھیں۔ لیکن یہ بذات خود ہم عصر دستاویزات نہیں ہیں۔ یسوع کے زمانہ کا اناجیل لکھے جانے کے ادوار سے کئی عشروں کا فرق ہے اور ان عشروں کے درمیان یہودی اور مسیحی حالات و واقعات میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جہاں تک یونانی متن کے ابتدائی ماخذ کا تعلق ہے ،وہ ممکنہ طور پر ایسی محفوظ یاداشتوں پرمبنی روایات پرمشتمل ہے جومتی کیلئے مصر، مرقس کے لیے اٹلی، لوقا کے لیے یونانی اور یوحنا کے لیے ایشیائے کوچک سے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہم ایرینس کے ممنون ہیں جس نے دوسری صدی کے اواخر میں تصور پیش کیا کہ اناجیل کی تعداد چار سے زیادہ نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا چار ٹکروں میں تقسیم ہے اور یہ دنیا کےبنیادی موسم بھی چار ہی ہیں۔ مزید برآں سماوی فرشتے کے چار چہرے ہیں، ایک چہرہ شیر کی طرح، دوسرا بچھڑے جیسا تیسرا انسان کی مانند اور چوتھا عقاب کی طرح ہے۔(مکاشفہ 4:6)
آخر ماخذ کی رسائی تک یہودی انسانی مسیحا کی کوئی مطابقت نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ جو تصورمسیح کے متعلق اپنایاگیا کہ وہ ایک ایسا فرد تھا جوآسمانی اختیارات سے نوازا گیا اور خدا کی تجسیم کے طور پر تسلیم کیا جانے والا فرد جو ایک وقت میں خدا بھی ہو اور انسان بھی، یہودی انسانی مسیح سے موافقت نہیں رکھتا ہے۔ یہودی محاورہ 'گوشت اور خون' اکثر انسان ہونے کا معنی اظہار کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔مکمل اختیار کے ساتھ الوہیت کے حامل ہونے کو نہیں بیان کیا جاسکتا تھا۔ مسیحیت کا پیش کردہ وہ ربط جو خاص طور پر چوتھی انجیل اور یوحنا اول (4:3) میں بیان کیا گیا ہے نا ممکن ہے۔ سماوی وجود کا انسانی صورت کو اختیار کرنا عقیدہ عدم بشریت قبول کرنے والوں کے نزدیک قابل اعتبار نظریہ ہے جن کے مطابق یسوع صرف انسان کی صورت میں نظر آتا ہے۔
ہمیں یسوع کے انسان ہونے کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ یہی بات مقدم اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔ بلا شبہ اگر ہم الوہیت کو کامل ہونے کی نشانی سمجھتے ہیں جو کہ یونانی تسلیم نہیں کرتے۔ یسوع اناجیل میں بہت مثبت اور انسانی خصوصیات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اکثر خدا ئی کے برعکس احساسات اور رویے کا اظہار کرتا ہے، اس لئے تاریخ دانوں کے لیے متبادل صورت کو اختیار کرنا مشکل نہیں ہے۔ وجود باری تعالیٰ کے متعلق مشرکانہ تشریحات کو قابل فہم لیکن غیر حقیقی ہونے کے سبب بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔
مگر ظاہری حالت کے علاوہ مسیحی الہیات کے بہت سے پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یسوع ایک مخلص اور با عمل یہودی تھا جس نے خدا اور کس بھی خاکی روپ یا جوہر کے درمیان واضح فرق کے ساتھ پرورش پائی۔ اسرائیل میں یسوع کے ہزاروں پیروکاروں کو یعقوب نے شفا دی تھی اور اس کا چھوٹا بھائی یہودیوں کو جوش دلاتا رہا (اعمال باب 21 فقرہ 18 تا 24)۔وہ خدائی تجسیم کے طور پر یسوع کے بارے میں کوئی نظریہ نہیں رکھتے تھے۔ان میں وہ سب اور بارہ رسول بھی شامل تھے جو یسوع کے ساتھی رہے تھے۔ان میں اس کی ماں اور بہت سے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے۔پطرس کی جعلی تحریر پطرس دوم (باب 1 فقرہ 16 تا 18) میں یسوع کی اعلی و ارفع غیر خدائی حیثیت دیکھتے ہوئے اناجیل کی کہانی میں ہم تبدیلی کی گونج سنتے ہیں حتی کہ پطرس اول (باب 2 فقرہ 22 تا 24) کی طرح یہاں بھی عہد نامہ قدیم کی پیشگوئیاں پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر یسوع کے تکالیف اٹھانے تذکرہ یسعیاہ کی کتاب میں تکالیف سہنے والے خادم کے طور پر کیا گیا ہے۔
پولس نے یسوع کے متعلق معلومات پطرس اور یروشلم کے دوسرے لوگوں سے حاصل کی تھیں۔ یسوع کوداؤد بادشاہ کا جانشین ہونے کے متعلق جاننے کے باوجود وہ اپنے خطوط میں یسوع کا بمشکل تذکرہ کرتا ہے (رومیوں 1:3)وہ جانتا تھا کہ یسوع خدا نہیں ہے اور واضح الفاظ میں ٹموتھی سے کہتا ہے "خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے درمیان ثالث یسوع مسیح ہے"۔ پولوس پیلاطوس کے سامنے کیے گئے یسوع کے مناسب اور واضح اعتراف کے بارے میں بھی ٹموتھی کو بتاتا ہے (ٹم اول باب6 فقرہ 13)۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیا تھا؟ کیونکہ ہمارے پاس اناجیل میں وہ خاموش رہا یا شش و پنج میں مبتلا رہا اس لیے یسوع کی وہ تمام باتیں جو پولوس نے بیان کرتاہےانہیں اناجیل میں کہیں بھی نہیں دیکھاجاسکتا ۔
رومیوں کے ساتھ یہودی جنگ کے نتیجے میں یسوع کے پیروکاروں کےمغربی دنیا کے لوگوں کے ساتھ ذاتی روابط بالکل ختم ہو گئے تھے۔اس کے یہودی شاگردوں کی کثیر تعداد جنگ میں ہلاک ہو چکی تھی اورکچھ مصر اور کچھ مشرق کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔سب سے مربوط گروہ جس کا ہم بہت بعد میں مطالعہ کرتے ہیں یسوع کے چچا زاد بھائی سائمن جو کلیپیاس کےبیٹے کا تھاجو اس کی قیادت میں شمال مشرق میں سیاسی پناہ حاصل کرتا ہے اور رومی بادشاہ تریجن (trajan) کے دور حکومت تک محفوظ رہے تھے۔ جب معلومات کے ابتدائی عبرانی اور آرامی ذرائع تک رسائی بہت کم تھی اور بحیرہ روم کے ارد گرد کے علاقوں میں مسیحیت نازک دور سے گزر رہی تھی اس وقت اناجیل تالیف کی گئیں۔ جنگ سے پہلے چرچ مغرب تک پہنچنے والی اس قسم کی زبانی اور تحریری معلومات پر بہت زیادہ انحصار کرتا تھا۔
زبانی ماخذات پطرس کی نایاب تقاریر تھیں جو روایات کے دعوی کے مطابق مرقس کی انجیل کا اہم حصہ ہیں اور افسس میں یوحنا کاہن کی طویل عمر میں ذاتی قوت حافظہ کو صدی کے اواخر تک برقرار ظاہرکرتے ہیں۔
لیکن ہم کچھ تحریری ذرائع بھی دیکھتے ہیں جن میں دو خاص ہیں۔ ایک قسم عہد نامہ قدیم کے اقتباسات پر اور کلیسا کے مسلمہ اصولوں کے خلاف کچھ کتب پر مشتمل ہے جو مسیح سے تعلق پیدا کرنے اور مسیح کے متعلق توضیحات کو یسوع میں پورا کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں،جبکہ دوسری قسم یسوع کے فرمودات ہیں جو اوگژیرنکس (oxyrhynchus) شہر سے ملنے والے یہوداہ توما سے منسوب اقوال کی طرح یسوع کے اقوال کا ذخیرہ اور ناگ حمادی سے ملنے والی قبطی مٹی کی مورتیوں پر مشتمل ہے۔ ہم انہیں گواہی دینے والی انجیل اور تعلیم دینے والی انجیل کے طور پر بیان کر سکتے ہیں۔وہ بنیادی طور پر عبرانی میں لکھی گئی تھیں اور برنباس کے اعمال نامی کتاب ان کی تالیف متی سے منسوب کرتی ہے ۔یہ انتہائی مختصر کتابیں تھیں جو پہلا رسول آسانی سے اٹھا لے جا سکتا تھا۔ جب ان کتب کا ترجمہ کیا گیا تو یقیناً انہیں ترامیم اور اضافوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ہماری موجودہ اناجیل متی ولوقاکا تعلق ان ذرائع سے ہے جو ان کے مواد میں عبرانی عناصر کی نشاندہی میں مدد کرتے ہیں۔
لوقاکےممکنہ استثناء کے ساتھ،اناجیل بطورتاریخی سوانح حیات نہیں متصور کی گئیں حالانکہ وہ یسوع کی کہانی کو بالکل اسی طرح بیان کرتی ہیں جواس دور کے معاصرین عظیم مؤرخین کی زندگیوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔تاہم اناجیل اس انجیل کی منادی کو پیش کرتی ہیں کہ یہودکےموعودمسیح نے خودکوظاہرکردیا ہے۔اتفاقی طور پر وہ معاملے کا حوالہ دے سکتے تھے مگر نہ ہی انہوں نے ایسا کیا اور نہ ہی اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ان معاملات کا وقوع ہوا مگر وہ نجات کے کسی پیغام کی خصوصیت کے حامل نہیں تھے۔کچھ مثالیں موجود ہیں کہ جب یسوع کو گلیلیوں کے بارے میں خبردی گئی کہ ان کا خون پیلاطوس نے اپنی قربانیوں کے ساتھ ملا لیاتھا(لوقا13:1)
یہ ایک زبردست تاریخی اہمیت کا حامل واقعہ ہے جسے یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یسوع کے مقدمہ میں اس کی مبہم مشابہت ظاہر ہوتی ہے جہاں لوقا کے مطابق گلیلی حکمران ہیرودیس اینٹی پاس اوراسی طرح پیلاطوس ملوث کیے گئے ہیں۔ہم پڑھتے ہیں کہ "اوراسی دن ہیروددیس اور پیلاطس آپس میں دوست ہوگئے کیونکہ پہلے ان میں دشمنی تھی"۔(لوقا23:12)یہ دشمنی کیوں تھی؟ کیا یہ گلیلیو ں کے قتل عام کی وجہ سے تھی جو ہیرودیس کی رعیت میں تھے جن کا پہلے حوالہ دیاجاچکاہے۔ اس حوالے کے ساتھ یسوع یروشلم میں اٹھارہ افراد کی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر سلوم کا برج گرا اور وہ دب کر مرے گئے۔ کب اور کن حالات میں ایسا ہوا تھا ؟ مرقس کی انجیل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یسوع کے مقدمے کے وقت برابا نام کا ایک شخص جس نے بغاوت کی تھی اور بغاوت کے دوران خون کیا تھااس کو بھی اس کے ساتھ باندھا گیا تھا(مرقس 15:7)یہ کون سی بغاوت تھی؟ یہ قصہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اسے واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا۔
اسی سے متعلقہ مقام پر دوسرے نامعلوم افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں لوقا کچھ خاص عورتوں کا ذکر کرتا ہے جن کو یسوع نے شفا دی تھی۔ ان میں سے ایک ہیرودیس کے دیوان خوزہ کی بیوی یوانہ تھی جبکہ دوسری سوسناہ تھی. یہ کون تھی؟ (لوقا 8:3). کُرین کا سائمن صلیب اٹھا کر لایا جس پر یسوع کو مصلوب کیا جانا تھا (15:21)۔لیکن مرقس اس کو خاص طور سے سکندر اور روفس کے باپ کے طور پر بیان کرتاہے۔ کیا ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ سوسناہ،سکندر اور روفس مسیحی معاشرے کے رکن بن گئے تھے؟وگرنہ ان دستاویزات میں ان لوگوں کا ذکر کیوں کیا گیا ہے جو فلسطین سے باہر کے لوگوں کے پڑھنے کے لیے لکھی گئی ہیں جبکہ ان لوگوں کے لیے یہ نام کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔اس طرح کے مروی حوالہ جات مصنفین اناجیل کےابتدائی ماخذات پر آزادانہ استعمال کو ظاہر کرتے ہیں جس کی طرف وہ ایسی سچائی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں جوقابل غور ہے۔
مسیحی اناجیل کو مکمل قابل اعتماد اور خدا کا حقیقی کلام سمجھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تضادات اور غیر مطابقت بھی ان پر کچھ اثر نہیں کرتی لہٰذا وہ ان حالات میں بھی یسوع کے منہ میں ڈالی گئی بہت سی باتیں سچ کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں جن حالات میں کوئی تاریخی شہادتیں قلم بند نہیں کی جا سکتی تھیں یاپھروہ باتیں جن کو لمبے عرصے بعد مکمل طور پر یادداشت سے اکٹھا کیا گیا ہو حالانکہ طویل گفتگو کو فی الواقع تحریر میں لاناغیر ممکنات میں سےہوتا ہے۔ اگر ہم حقائق تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان دستاویزات کو ان کے ادوار کے لحاظ سے سمجھنا چاہیے جہاں مصنف کی مرتب کردہ تقاریرمعروف شخصیات کے لیے پیش کرنے کے واسطے اخذ کی گئیں تھیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ بعض اوقات مصنف کا مقصد فرقہ بندی یا خود رائے بھی ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر خاص احساسات کو پکارنا اور ان کے تمثیلی اثر کو بڑھانا مقصود تھا۔
جوزیفس کے بیان کے مطابق 700 عیسوی میں یروشلم کی تباہی کے بعد مسادہ قلعے میں زائیلوٹ یہودیوں کی آخری دفاعی کوشش کے قصے کو ہم علامتی مثال کے طور پر لے سکتے ہیں۔ قلعے پر رومیوں کے قبضے سے قبل آنے والی رات میں یہودی سپہ سالار الیزر نے بچ جانے والے لوگوں کو مخاطب کیا اور انہیں دشمن کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بجائے خودکشی کرنے کی صلاح دی۔ اس سراسر غیرمعمولی تقریر کو جوزفس نے مکمل طور پر بیان کیا ہے جو بلاشبہ وہاں اس طرح موجودنہیں تھا کہ سپہ سالار کے خیالات اور احساسات کو بیان کر سکتا۔ جوزیس ن اس بات کو بیان نہیں کرتا کہ کس طرح الیزر کی نصیحت کو قبول کیا گیا اور اپنے خاندانوں کو قتل کرنے کے بعد قلعے کی تمام فوج نے کس طرح ایک دوسرے کو قتل کر ڈالابالآخر آخری زندہ بچ جانے والے شخص نے خود کو مار ڈالا۔ صرف ایک بوڑھی عورت اور پانچ چھوٹے بچے زندہ رہ گئے کیونکہ انہوں نے خود کو چھپا لیا تھا۔ پس الیزر کی تقریر کی اصل عبارت کو کس نے محفوظ کیا اور بعد میں کس نے جوزیفس تک پہنچایا؟
اسی طرح اناجیل میں یسوع کو گتسمنی کے باغ میں دعا کرتے ہوئے ہمیں دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک نہایت دلگداز کہانی ہے جس میں لوقا کے مطابق فرشتہ ظاہر ہو کر تقویت دیتا ہے۔ روایت سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی شخص یسوع کی دعا کے الفاظ نہیں سن سکتا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں سے الگ ہو کر کچھ فاصلے پر چلا گیا تھااوروہ سب سوچکے تھے۔ ہمیں اس مشکل داستان کی بابت پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن سوچے سمجھے بغیر ٹھیک ٹھیک الفاظ یسوع کے منہ میں ڈال دینے پرانجیل نویس کو داد دینی چاہیے۔
عید فصح کے آخری کھانے کے موقع پر ایک نشست میں کم از کم چار گلاس مے پینا دستور کے مطابق تھا، مزید برآں ہم شاگردوں کو تھکن اور غم کے ساتھ سوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود یوحنا کی انجیل عبادت اور کھانے کے آخر پر شاگردوں سےکی گئی یسوع کی طویل تقریر قبول کرنے کی ہمیں دعوت دیتی ہے(جو کہ بائبل کے دو مکمل ابواب کا احاطہ کرتی ہے)۔ اس پوری تقریر کے دوران شاگردوں کے اونگھنے اور سننے میں سستی کویوحنا کی انجیل (14:15) میں عجیب طریقے سے بیان کیاگیا ہےکہ نصف صدی کے بعدتک اسے نہ صرف یاد رکھا گیا بلکہ ایک کتاب میں حرف بہ حرف محفوظ کرکے پیش بھی کردیا گیا۔
جب ہم یسوع سے منسوب اس تقریر اور اس انجیل میں موجود دوسری تقاریر کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تقاریر دوسری اناجیل میں یسوع کا خود کو ظاہر کرنے کے طریقے سے کس قدر غیر مشابہہ ہے۔یہ بولنے والا اس شخص کی طرح نہیں ہے جو خطاب کررہاہے اور نہ ہی یہ یہودی ہے۔ یہودی سامعین سے خطاب کرتے ہوئے وہ "ہمارے باپ دادا" کے بجائے "تمہارے باپ دادا" (6:49) کے الفاظ بولتا ہے اور "اپنی شریعت"کے بجائے "تمہاری شریعت"کے الفاظ ادا کرتا ہے(8:17)۔وہ اکثر اجنبی مذاہب کی زبان استعمال کرتا ہے مثال کے طور پر ایک پیرا جس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم ابن آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اس کا خون نہ پیو تم میں زندگی نہیں" (6:53). یہ فطری بات ہے کہ اگر اس کے شاگردوں نے اس طرح کی باتیں سنی تب اس کے بہت سے شاگرد اسے چھوڑ کر چلے گئے اور پھر اس کے پیرو نہ رہے (6:66)
اگر ہم یونانی کامطالعہ کریں تو کھوج لگا سکتے ہیں کہ انجیل یوحنا میں یسوع جس انداز سے وعظ کرتا ہے اور اپنے قیاس آرائیوں کا اظہار کرتا ہے وہ یوحنا کے خط کے مصنف کی امتیازی خصوصیت ہے، جو خود کو رسول کے طور پر بیان کرنے کے بجائے بزرگ یا کلیسیائی رکن کہتا ہے۔ مجھے اس معمہ کو یونانی عہد نامہ جدید کے تیار کیے گئے ترجمہ پر تحقیق سے بے نقاب کرنا ہے۔
جیسا کہ میرے بہت سے پڑھنے والے جان سکتے ہیں کہ مجھے چرچ کے نظریات سے متاثر بہت سے ایسےنسخوں کی باقیات ملی ہیں جو بعد میں مسیحی مذہب کے آغاز کی وجہ بنے اور آج بھی بعض اوقات متن کی تشریح اس میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہودی الہامی تحاریر جیسی عہد رفتہ کے مساوی دستاویزات کے لیے ایک آگہی اور خارجی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کو مسیحی علماء نے بہت مہارت سے استعمال کیا ہے۔ ضرورت کے تحت مجھے مکمل عہد نامہ جدید کا وضاحتی یادداشتوں اور حوالہ جات کے ساتھ ترجمہ کرنا پڑا اور درست کر کے ترتیب سے لکھنا پڑاکیونکہ یہودی معاملات کو سمجھنے کااہل نہ ہونے کے باعث عہد نامہ جدید کا غلط مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میری کامیابیوں پر میری توقعات سے بڑھ کر خیر مقدم اور پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
میں نے اس تجربے سے بہت زیادہ سیکھناتھا جوبالضرور اس تحقیقی عمل کو پیچیدہ بناتا تھا جس میں اناجیل سے روایات،تالیف اور ان کے ماخذات کی چھان بین کی گئی۔ بد قسمتی سے ان معاملات کو ایک عام مسیحی اور کافی حد تک کلیسا سے بھی پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
یہ ایک انتہائی حقیقت ہے کہ رومن سلطنت کی بین الاقوامی یونانی زبان میں لکھی گئی اناجیل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رومن سلطنت کی حدود کے اندر اور باہر غیر یہودیوں، مخلوط قدیم یونانی یہودی اور غیر یہودی مسیحی معاشروں کے لیے ترتیب دی گئی تھیں۔
اگرچہ وہ یسوع کی سوانح سے بہت زیادہ قدیم نہیں ہیں اوران سےظاہرہوتا ہے کہ معاشروں کے ادبی انداز اور ضروریات کے مطابق ان کو وضع کر کے مرتب کیا گیا ہے۔ مزید برآں یسوع کو واضح طور پر استاد اور مسیحاظاہر کرنے میں محتاط اور مختلف فی حد تک الوہیت کا پیغام پہنچانے کے لیے مکمل طور پر یہ محفوظ دستاویزات تھیں۔ یہ کام کافی سوچ بچار سے کیا گیا کیونکہ جس زمانے میں اناجیل تحریر کی گئی تھیں اس دور میں رومی عہدیداروں کی طرف سے مسیحیت کوسرکاری مذہب ہونے کا پروانہ نہیں تھما یاگیا تھا۔ اسے خطرناک اور تخریب کار نظریہ سمجھا جاتا تھا جس کی جڑیں یہودی مسیانزم میں پیوستہ تھیں جس نے 66 تا 70 عیسوی میں رومیوں کے خلاف یہودی جنگ کو بھڑکایا، یہ ایک ایسی بغاوت تھی جو پس پردہ خفیہ سازشوں اور سرگرمیوں کے نتیجے میں ہوئی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہودی قوم پرستی اور سیاسی مسیانزم اب بھی کس قدر قابل وضاحت تھا۔ دستیاب ماخذات سے ماخوذ بنیادی اقرارات اور تاریخ سے دستبردار ہوئے بغیر اسے مٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ یہ کار آمد ہونے کے ساتھ ساتھ اعتماد افزا بھی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سی اناجیل ابھی بھی موجود تھیں اور قانونی اناجیل بظاہرایسی مختلف چیزوں کااحاطہ کرتی ہیں جس میں بہت سی باتیں مشترک نظر آنی چاہئیں تھیں۔ وہ فراہمی مواد میں حدود سے متجاوز ہونے والی ہیں۔وہ سرکاری زعماء کی یادداشتوں کے ساتھ کچھ روایتی ربط بھی رکھتی تھیں۔وہ مسیحیت کی مرکزیت کی تکمیل کی نمائندہ تھیں اور کلیسائی اتحاد میں مددگار تھیں۔ لیکن یہ بذات خود ہم عصر دستاویزات نہیں ہیں۔ یسوع کے زمانہ کا اناجیل لکھے جانے کے ادوار سے کئی عشروں کا فرق ہے اور ان عشروں کے درمیان یہودی اور مسیحی حالات و واقعات میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جہاں تک یونانی متن کے ابتدائی ماخذ کا تعلق ہے ،وہ ممکنہ طور پر ایسی محفوظ یاداشتوں پرمبنی روایات پرمشتمل ہے جومتی کیلئے مصر، مرقس کے لیے اٹلی، لوقا کے لیے یونانی اور یوحنا کے لیے ایشیائے کوچک سے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہم ایرینس کے ممنون ہیں جس نے دوسری صدی کے اواخر میں تصور پیش کیا کہ اناجیل کی تعداد چار سے زیادہ نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا چار ٹکروں میں تقسیم ہے اور یہ دنیا کےبنیادی موسم بھی چار ہی ہیں۔ مزید برآں سماوی فرشتے کے چار چہرے ہیں، ایک چہرہ شیر کی طرح، دوسرا بچھڑے جیسا تیسرا انسان کی مانند اور چوتھا عقاب کی طرح ہے۔(مکاشفہ 4:6)
آخر ماخذ کی رسائی تک یہودی انسانی مسیحا کی کوئی مطابقت نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ جو تصورمسیح کے متعلق اپنایاگیا کہ وہ ایک ایسا فرد تھا جوآسمانی اختیارات سے نوازا گیا اور خدا کی تجسیم کے طور پر تسلیم کیا جانے والا فرد جو ایک وقت میں خدا بھی ہو اور انسان بھی، یہودی انسانی مسیح سے موافقت نہیں رکھتا ہے۔ یہودی محاورہ 'گوشت اور خون' اکثر انسان ہونے کا معنی اظہار کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔مکمل اختیار کے ساتھ الوہیت کے حامل ہونے کو نہیں بیان کیا جاسکتا تھا۔ مسیحیت کا پیش کردہ وہ ربط جو خاص طور پر چوتھی انجیل اور یوحنا اول (4:3) میں بیان کیا گیا ہے نا ممکن ہے۔ سماوی وجود کا انسانی صورت کو اختیار کرنا عقیدہ عدم بشریت قبول کرنے والوں کے نزدیک قابل اعتبار نظریہ ہے جن کے مطابق یسوع صرف انسان کی صورت میں نظر آتا ہے۔
ہمیں یسوع کے انسان ہونے کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ یہی بات مقدم اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔ بلا شبہ اگر ہم الوہیت کو کامل ہونے کی نشانی سمجھتے ہیں جو کہ یونانی تسلیم نہیں کرتے۔ یسوع اناجیل میں بہت مثبت اور انسانی خصوصیات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اکثر خدا ئی کے برعکس احساسات اور رویے کا اظہار کرتا ہے، اس لئے تاریخ دانوں کے لیے متبادل صورت کو اختیار کرنا مشکل نہیں ہے۔ وجود باری تعالیٰ کے متعلق مشرکانہ تشریحات کو قابل فہم لیکن غیر حقیقی ہونے کے سبب بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔
مگر ظاہری حالت کے علاوہ مسیحی الہیات کے بہت سے پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یسوع ایک مخلص اور با عمل یہودی تھا جس نے خدا اور کس بھی خاکی روپ یا جوہر کے درمیان واضح فرق کے ساتھ پرورش پائی۔ اسرائیل میں یسوع کے ہزاروں پیروکاروں کو یعقوب نے شفا دی تھی اور اس کا چھوٹا بھائی یہودیوں کو جوش دلاتا رہا (اعمال باب 21 فقرہ 18 تا 24)۔وہ خدائی تجسیم کے طور پر یسوع کے بارے میں کوئی نظریہ نہیں رکھتے تھے۔ان میں وہ سب اور بارہ رسول بھی شامل تھے جو یسوع کے ساتھی رہے تھے۔ان میں اس کی ماں اور بہت سے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے۔پطرس کی جعلی تحریر پطرس دوم (باب 1 فقرہ 16 تا 18) میں یسوع کی اعلی و ارفع غیر خدائی حیثیت دیکھتے ہوئے اناجیل کی کہانی میں ہم تبدیلی کی گونج سنتے ہیں حتی کہ پطرس اول (باب 2 فقرہ 22 تا 24) کی طرح یہاں بھی عہد نامہ قدیم کی پیشگوئیاں پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر یسوع کے تکالیف اٹھانے تذکرہ یسعیاہ کی کتاب میں تکالیف سہنے والے خادم کے طور پر کیا گیا ہے۔
پولس نے یسوع کے متعلق معلومات پطرس اور یروشلم کے دوسرے لوگوں سے حاصل کی تھیں۔ یسوع کوداؤد بادشاہ کا جانشین ہونے کے متعلق جاننے کے باوجود وہ اپنے خطوط میں یسوع کا بمشکل تذکرہ کرتا ہے (رومیوں 1:3)وہ جانتا تھا کہ یسوع خدا نہیں ہے اور واضح الفاظ میں ٹموتھی سے کہتا ہے "خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے درمیان ثالث یسوع مسیح ہے"۔ پولوس پیلاطوس کے سامنے کیے گئے یسوع کے مناسب اور واضح اعتراف کے بارے میں بھی ٹموتھی کو بتاتا ہے (ٹم اول باب6 فقرہ 13)۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیا تھا؟ کیونکہ ہمارے پاس اناجیل میں وہ خاموش رہا یا شش و پنج میں مبتلا رہا اس لیے یسوع کی وہ تمام باتیں جو پولوس نے بیان کرتاہےانہیں اناجیل میں کہیں بھی نہیں دیکھاجاسکتا ۔
رومیوں کے ساتھ یہودی جنگ کے نتیجے میں یسوع کے پیروکاروں کےمغربی دنیا کے لوگوں کے ساتھ ذاتی روابط بالکل ختم ہو گئے تھے۔اس کے یہودی شاگردوں کی کثیر تعداد جنگ میں ہلاک ہو چکی تھی اورکچھ مصر اور کچھ مشرق کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔سب سے مربوط گروہ جس کا ہم بہت بعد میں مطالعہ کرتے ہیں یسوع کے چچا زاد بھائی سائمن جو کلیپیاس کےبیٹے کا تھاجو اس کی قیادت میں شمال مشرق میں سیاسی پناہ حاصل کرتا ہے اور رومی بادشاہ تریجن (trajan) کے دور حکومت تک محفوظ رہے تھے۔ جب معلومات کے ابتدائی عبرانی اور آرامی ذرائع تک رسائی بہت کم تھی اور بحیرہ روم کے ارد گرد کے علاقوں میں مسیحیت نازک دور سے گزر رہی تھی اس وقت اناجیل تالیف کی گئیں۔ جنگ سے پہلے چرچ مغرب تک پہنچنے والی اس قسم کی زبانی اور تحریری معلومات پر بہت زیادہ انحصار کرتا تھا۔
زبانی ماخذات پطرس کی نایاب تقاریر تھیں جو روایات کے دعوی کے مطابق مرقس کی انجیل کا اہم حصہ ہیں اور افسس میں یوحنا کاہن کی طویل عمر میں ذاتی قوت حافظہ کو صدی کے اواخر تک برقرار ظاہرکرتے ہیں۔
لیکن ہم کچھ تحریری ذرائع بھی دیکھتے ہیں جن میں دو خاص ہیں۔ ایک قسم عہد نامہ قدیم کے اقتباسات پر اور کلیسا کے مسلمہ اصولوں کے خلاف کچھ کتب پر مشتمل ہے جو مسیح سے تعلق پیدا کرنے اور مسیح کے متعلق توضیحات کو یسوع میں پورا کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں،جبکہ دوسری قسم یسوع کے فرمودات ہیں جو اوگژیرنکس (oxyrhynchus) شہر سے ملنے والے یہوداہ توما سے منسوب اقوال کی طرح یسوع کے اقوال کا ذخیرہ اور ناگ حمادی سے ملنے والی قبطی مٹی کی مورتیوں پر مشتمل ہے۔ ہم انہیں گواہی دینے والی انجیل اور تعلیم دینے والی انجیل کے طور پر بیان کر سکتے ہیں۔وہ بنیادی طور پر عبرانی میں لکھی گئی تھیں اور برنباس کے اعمال نامی کتاب ان کی تالیف متی سے منسوب کرتی ہے ۔یہ انتہائی مختصر کتابیں تھیں جو پہلا رسول آسانی سے اٹھا لے جا سکتا تھا۔ جب ان کتب کا ترجمہ کیا گیا تو یقیناً انہیں ترامیم اور اضافوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ہماری موجودہ اناجیل متی ولوقاکا تعلق ان ذرائع سے ہے جو ان کے مواد میں عبرانی عناصر کی نشاندہی میں مدد کرتے ہیں۔