Pages

Most Popular

پیر، 26 جون، 2017

اناجیل بطورمستندماخذ (The Gospels as sources)

ڈاکٹرہیوجےشون فیلڈ ایک معروف برطانوی ببلیکل یہودی اسکالر رہے ہیں۔ انہوں نے مقدس صحیوسں کے موضوع پرگلاسکویونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ یوررپی علمی حلقوں میں ا ن کی آراء کو عہدجدید و ابتدائی کلیسیاء اورمسیحیت کے ارتقاء جیسے موضوعات پر ہائی اتھارٹی سمجھاجاتا ہے۔ ۔مذہب وتاریخ پر چالیس سے زائدد معرکۃ الآراء کتب لکھ چکے ہیں۔ان کے قلم سے کیے گئے عہدجدید کے ترجمہ کوامریکہ ویورپ میں درجہ استنادحاصل ہے۔ان کی کتاب Passover Plot(عیدفصح کا منصوبہ)کوکم وقت میں بہت زیادہ پزیرائی ملی اور قلیل عرصہ میں اس کے چالیس سے زائدایڈیشن شائع ہوئے۔زیرنظرتحریر بھی ڈاکٹرہیوجےشون فیلڈ کی ایک نہایت گراں قدر کتاب Jeus, Man, Mystic, Messiahکے ایک باب The Gospels as resources کا ترجمہ ہے۔یہ کتاب ڈاکٹرصاحب کی چھیاسویں سالگرہ پر شائع ہوئی اور اسے ڈاکٹرہیوجےشون فیلڈنے اپنی پوری زندگی کے مطالعے کا نچوڑ قرار دیا ہے۔میں اپنی اس چھوٹی سی کاوش کو اپنے والدین کی طرف انتساب کرتی ہوں جن کی شفقت ومحبت اور دعاؤں کے باعث میں نے علم حاصل کیا اور یہ ترجمہ کرنے کے قابل ہوسکی ۔اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے سوشل میڈیاپیج وگروپ مسلم مسیحی مکالمہ آفیشل کی پوری ٹیم کی بھی شکرگزار اورممنون ہوں جن سے مجھےبہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
والسلام 
 صباخان
اناجیل متوافقہ سے ظاہر ہونے والی یسوع کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ اسے صراحتاً بردباراورحلیم شخص کے طورپرقبول
 کیاجاسکے۔جونہ ہی بیابانی تھا اور نہ ہی وہ چوتھی انجیل کاجداگانہ (مشرک)مسیح تھا جواپنی شناخت چھپانے کے بجائے خود کو آسانی سے خداکابیٹااورمقررکے طور پر پیش کرتا ہےجواسے اس کے لوگوں اور مذہب سے بیگانہ کرتی ہے۔انجیل یوحنا خالص یونانی فلسفے کا حصہ ہونے کے باوجود یسوع کی سوانح عمری کے متعلق اقدار پر اچھی معلومات فراہم کرتی ہے۔اس انجیل میں کچھ ایسے لازمی عناصر بھی ہیں جو ٹھوس دلائل پرمبنی ہونےکے ساتھ ساتھ مصنف کی ذاتی معلومات اوراندرونی حقائق کا علم رکھنے کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔اسی وجہ سے بعض علماء نے اس انجیل کو قانونی اناجیل کی ابتدائی انجیل سمجھنا شروع کردیا۔ہمیں ان وقائع اور اناجیل متوافقہ کے مستند ہونےکی اہمیت جاننے کے لیے انکے آغاز کے متعلق تفتیش کرنا پڑے گی۔
 اناجیل کی استنادی حیثیت کو بطور ذریعہ معلومات سمجھنے سے قبل یسوع کے افعال کو سمجھنا ایسا ہی ہے جیساکہ بیل گاڑی میں گھوڑےکو جوتنا۔لیکن میں یہ بیان کرنا ضروری محسوس کرتا ہوں کہ اناجیل مذہبی رہنمائی اور روحانی اکتساب کے لیے پڑھنے والےقارئین کو نادانستہ اور اتفاقی طور پر یسوع کے متعلق اس سے کہیں گنازیادہ بیان کرتی ہیں ۔
 لوقاکےممکنہ استثناء کے ساتھ،اناجیل بطورتاریخی سوانح حیات نہیں متصور کی گئیں حالانکہ وہ یسوع کی کہانی کو بالکل اسی طرح بیان کرتی ہیں جواس دور کے معاصرین عظیم مؤرخین کی زندگیوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔تاہم اناجیل اس انجیل کی منادی کو پیش کرتی ہیں کہ یہودکےموعودمسیح نے خودکوظاہرکردیا ہے۔اتفاقی طور پر وہ معاملے کا حوالہ دے سکتے تھے مگر نہ ہی انہوں نے ایسا کیا اور نہ ہی اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ان معاملات کا وقوع ہوا مگر وہ نجات کے کسی پیغام کی خصوصیت کے حامل نہیں تھے۔کچھ مثالیں موجود ہیں کہ جب یسوع کو گلیلیوں کے بارے میں خبردی گئی کہ ان کا خون پیلاطوس نے اپنی قربانیوں کے ساتھ ملا لیاتھا(لوقا13:1)
 یہ ایک زبردست تاریخی اہمیت کا حامل واقعہ ہے جسے یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یسوع کے مقدمہ میں اس کی مبہم مشابہت ظاہر ہوتی ہے جہاں لوقا کے مطابق گلیلی حکمران ہیرودیس اینٹی پاس اوراسی طرح پیلاطوس ملوث کیے گئے ہیں۔ہم پڑھتے ہیں کہ "اوراسی دن ہیروددیس اور پیلاطس آپس میں دوست ہوگئے کیونکہ پہلے ان میں دشمنی تھی"۔(لوقا23:12)یہ دشمنی کیوں تھی؟ کیا یہ گلیلیو ں کے قتل عام کی وجہ سے تھی جو ہیرودیس کی رعیت میں تھے جن کا پہلے حوالہ دیاجاچکاہے۔ اس حوالے کے ساتھ یسوع یروشلم میں اٹھارہ افراد کی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر سلوم کا برج گرا اور وہ دب کر مرے گئے۔ کب اور کن حالات میں ایسا ہوا تھا ؟ مرقس کی انجیل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یسوع کے مقدمے کے وقت برابا نام کا ایک شخص جس نے بغاوت کی تھی اور بغاوت کے دوران خون کیا تھااس کو بھی اس کے ساتھ باندھا گیا تھا(مرقس 15:7)یہ کون سی بغاوت تھی؟ یہ قصہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اسے واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا۔
 اسی سے متعلقہ مقام پر دوسرے نامعلوم افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں لوقا کچھ خاص عورتوں کا ذکر کرتا ہے جن کو یسوع نے شفا دی تھی۔ ان میں سے ایک ہیرودیس کے دیوان خوزہ کی بیوی یوانہ تھی جبکہ دوسری سوسناہ تھی. یہ کون تھی؟ (لوقا 8:3). کُرین کا سائمن صلیب اٹھا کر لایا جس پر یسوع کو مصلوب کیا جانا تھا (15:21)۔لیکن مرقس اس کو خاص طور سے سکندر اور روفس کے باپ کے طور پر بیان کرتاہے۔ کیا ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ سوسناہ،سکندر اور روفس مسیحی معاشرے کے رکن بن گئے تھے؟وگرنہ ان دستاویزات میں ان لوگوں کا ذکر کیوں کیا گیا ہے جو فلسطین سے باہر کے لوگوں کے پڑھنے کے لیے لکھی گئی ہیں جبکہ ان لوگوں کے لیے یہ نام کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔اس طرح کے مروی حوالہ جات مصنفین اناجیل کےابتدائی ماخذات پر آزادانہ استعمال کو ظاہر کرتے ہیں جس کی طرف وہ ایسی سچائی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں جوقابل غور ہے۔
 مسیحی اناجیل کو مکمل قابل اعتماد اور خدا کا حقیقی کلام سمجھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تضادات اور غیر مطابقت بھی ان پر کچھ اثر نہیں کرتی لہٰذا وہ ان حالات میں بھی یسوع کے منہ میں ڈالی گئی بہت سی باتیں سچ کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں جن حالات میں کوئی تاریخی شہادتیں قلم بند نہیں کی جا سکتی تھیں یاپھروہ باتیں جن کو لمبے عرصے بعد مکمل طور پر یادداشت سے اکٹھا کیا گیا ہو حالانکہ طویل گفتگو کو فی الواقع تحریر میں لاناغیر ممکنات میں سےہوتا ہے۔ اگر ہم حقائق تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان دستاویزات کو ان کے ادوار کے لحاظ سے سمجھنا چاہیے جہاں مصنف کی مرتب کردہ تقاریرمعروف شخصیات کے لیے پیش کرنے کے واسطے اخذ کی گئیں تھیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ بعض اوقات مصنف کا مقصد فرقہ بندی یا خود رائے بھی ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر خاص احساسات کو پکارنا اور ان کے تمثیلی اثر کو بڑھانا مقصود تھا۔
جوزیفس کے بیان کے مطابق 700 عیسوی میں یروشلم کی تباہی کے بعد مسادہ قلعے میں زائیلوٹ یہودیوں کی آخری دفاعی کوشش کے قصے کو ہم علامتی مثال کے طور پر لے سکتے ہیں۔ قلعے پر رومیوں کے قبضے سے قبل آنے والی رات میں یہودی سپہ سالار الیزر نے بچ جانے والے لوگوں کو مخاطب کیا اور انہیں دشمن کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بجائے خودکشی کرنے کی صلاح دی۔ اس سراسر غیرمعمولی تقریر کو جوزفس نے مکمل طور پر بیان کیا ہے جو بلاشبہ وہاں اس طرح موجودنہیں تھا کہ سپہ سالار کے خیالات اور احساسات کو بیان کر سکتا۔ جوزیس ن اس بات کو بیان نہیں کرتا کہ کس طرح الیزر کی نصیحت کو قبول کیا گیا اور اپنے خاندانوں کو قتل کرنے کے بعد قلعے کی تمام فوج نے کس طرح ایک دوسرے کو قتل کر ڈالابالآخر آخری زندہ بچ جانے والے شخص نے خود کو مار ڈالا۔ صرف ایک بوڑھی عورت اور پانچ چھوٹے بچے زندہ رہ گئے کیونکہ انہوں نے خود کو چھپا لیا تھا۔ پس الیزر کی تقریر کی اصل عبارت کو کس نے محفوظ کیا اور بعد میں کس نے جوزیفس تک پہنچایا؟
 اسی طرح اناجیل میں یسوع کو گتسمنی کے باغ میں دعا کرتے ہوئے ہمیں دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک نہایت دلگداز کہانی ہے جس میں لوقا کے مطابق فرشتہ ظاہر ہو کر تقویت دیتا ہے۔ روایت سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی شخص یسوع کی دعا کے الفاظ نہیں سن سکتا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں سے الگ ہو کر کچھ فاصلے پر چلا گیا تھااوروہ سب سوچکے تھے۔ ہمیں اس مشکل داستان کی بابت پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن سوچے سمجھے بغیر ٹھیک ٹھیک الفاظ یسوع کے منہ میں ڈال دینے پرانجیل نویس کو داد دینی چاہیے۔
عید فصح کے آخری کھانے کے موقع پر ایک نشست میں کم از کم چار گلاس مے پینا دستور کے مطابق تھا، مزید برآں ہم شاگردوں کو تھکن اور غم کے ساتھ سوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود یوحنا کی انجیل عبادت اور کھانے کے آخر پر شاگردوں سےکی گئی یسوع کی طویل تقریر قبول کرنے کی ہمیں دعوت دیتی ہے(جو کہ بائبل کے دو مکمل ابواب کا احاطہ کرتی ہے)۔ اس پوری تقریر کے دوران شاگردوں کے اونگھنے اور سننے میں سستی کویوحنا کی انجیل (14:15) میں عجیب طریقے سے بیان کیاگیا ہےکہ نصف صدی کے بعدتک اسے نہ صرف یاد رکھا گیا بلکہ ایک کتاب میں حرف بہ حرف محفوظ کرکے پیش بھی کردیا گیا۔
 جب ہم یسوع سے منسوب اس تقریر اور اس انجیل میں موجود دوسری تقاریر کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تقاریر دوسری اناجیل میں یسوع کا خود کو ظاہر کرنے کے طریقے سے کس قدر غیر مشابہہ ہے۔یہ بولنے والا اس شخص کی طرح نہیں ہے جو خطاب کررہاہے اور نہ ہی یہ یہودی ہے۔ یہودی سامعین سے خطاب کرتے ہوئے وہ "ہمارے باپ دادا" کے بجائے "تمہارے باپ دادا" (6:49) کے الفاظ بولتا ہے اور "اپنی شریعت"کے بجائے "تمہاری شریعت"کے الفاظ ادا کرتا ہے(8:17)۔وہ اکثر اجنبی مذاہب کی زبان استعمال کرتا ہے مثال کے طور پر ایک پیرا جس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم ابن آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اس کا خون نہ پیو تم میں زندگی نہیں" (6:53). یہ فطری بات ہے کہ اگر اس کے شاگردوں نے اس طرح کی باتیں سنی تب اس کے بہت سے شاگرد اسے چھوڑ کر چلے گئے اور پھر اس کے پیرو نہ رہے (6:66)
 اگر ہم یونانی کامطالعہ کریں تو کھوج لگا سکتے ہیں کہ انجیل یوحنا میں یسوع جس انداز سے وعظ کرتا ہے اور اپنے قیاس آرائیوں کا اظہار کرتا ہے وہ یوحنا کے خط کے مصنف کی امتیازی خصوصیت ہے، جو خود کو رسول کے طور پر بیان کرنے کے بجائے بزرگ یا کلیسیائی رکن کہتا ہے۔ مجھے اس معمہ کو یونانی عہد نامہ جدید کے تیار کیے گئے ترجمہ پر تحقیق سے بے نقاب کرنا ہے۔
جیسا کہ میرے بہت سے پڑھنے والے جان سکتے ہیں کہ مجھے چرچ کے نظریات سے متاثر بہت سے ایسےنسخوں کی باقیات ملی ہیں جو بعد میں مسیحی مذہب کے آغاز کی وجہ بنے اور آج بھی بعض اوقات متن کی تشریح اس میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہودی الہامی تحاریر جیسی عہد رفتہ کے مساوی دستاویزات کے لیے ایک آگہی اور خارجی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کو مسیحی علماء نے بہت مہارت سے استعمال کیا ہے۔ ضرورت کے تحت مجھے مکمل عہد نامہ جدید کا وضاحتی یادداشتوں اور حوالہ جات کے ساتھ ترجمہ کرنا پڑا اور درست کر کے ترتیب سے لکھنا پڑاکیونکہ یہودی معاملات کو سمجھنے کااہل نہ ہونے کے باعث عہد نامہ جدید کا غلط مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میری کامیابیوں پر میری توقعات سے بڑھ کر خیر مقدم اور پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
 میں نے اس تجربے سے بہت زیادہ سیکھناتھا جوبالضرور اس تحقیقی عمل کو پیچیدہ بناتا تھا جس میں اناجیل سے روایات،تالیف اور ان کے ماخذات کی چھان بین کی گئی۔ بد قسمتی سے ان معاملات کو ایک عام مسیحی اور کافی حد تک کلیسا سے بھی پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
یہ ایک انتہائی حقیقت ہے کہ رومن سلطنت کی بین الاقوامی یونانی زبان میں لکھی گئی اناجیل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رومن سلطنت کی حدود کے اندر اور باہر غیر یہودیوں، مخلوط قدیم یونانی یہودی اور غیر یہودی مسیحی معاشروں کے لیے ترتیب دی گئی تھیں۔
اگرچہ وہ یسوع کی سوانح سے بہت زیادہ قدیم نہیں ہیں اوران سےظاہرہوتا ہے  کہ معاشروں کے ادبی انداز اور ضروریات کے مطابق ان کو وضع کر کے مرتب کیا گیا ہے۔ مزید برآں یسوع کو واضح طور پر استاد اور مسیحاظاہر کرنے میں محتاط اور مختلف فی حد تک الوہیت کا پیغام پہنچانے کے لیے مکمل طور پر یہ محفوظ دستاویزات تھیں۔ یہ کام کافی سوچ بچار سے کیا گیا کیونکہ جس زمانے میں اناجیل تحریر کی گئی تھیں اس دور میں رومی عہدیداروں کی طرف سے مسیحیت کوسرکاری مذہب ہونے کا پروانہ نہیں تھما یاگیا تھا۔ اسے خطرناک اور تخریب کار نظریہ سمجھا جاتا تھا جس کی جڑیں یہودی مسیانزم میں پیوستہ تھیں جس نے 66 تا 70 عیسوی میں رومیوں کے خلاف یہودی جنگ کو بھڑکایا، یہ ایک ایسی بغاوت تھی جو پس پردہ خفیہ سازشوں اور سرگرمیوں کے نتیجے میں ہوئی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہودی قوم پرستی اور سیاسی مسیانزم اب بھی کس قدر قابل وضاحت تھا۔ دستیاب ماخذات سے ماخوذ بنیادی اقرارات اور تاریخ سے دستبردار ہوئے بغیر اسے مٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ یہ کار آمد ہونے کے ساتھ ساتھ اعتماد افزا بھی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سی اناجیل ابھی بھی موجود تھیں اور قانونی اناجیل بظاہرایسی مختلف چیزوں کااحاطہ کرتی ہیں جس میں بہت سی باتیں مشترک نظر آنی چاہئیں تھیں۔ وہ فراہمی مواد میں حدود سے متجاوز ہونے والی ہیں۔وہ سرکاری زعماء کی یادداشتوں کے ساتھ کچھ روایتی ربط بھی رکھتی تھیں۔وہ مسیحیت کی مرکزیت کی تکمیل کی نمائندہ تھیں اور کلیسائی اتحاد میں مددگار تھیں۔ لیکن یہ بذات خود ہم عصر دستاویزات نہیں ہیں۔ یسوع کے زمانہ کا اناجیل لکھے جانے کے ادوار سے کئی عشروں کا فرق ہے اور ان عشروں کے درمیان یہودی اور مسیحی حالات و واقعات میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جہاں تک یونانی متن کے ابتدائی ماخذ کا تعلق ہے ،وہ ممکنہ طور پر ایسی محفوظ یاداشتوں پرمبنی روایات پرمشتمل ہے جومتی کیلئے مصر، مرقس کے لیے اٹلی، لوقا کے لیے یونانی اور یوحنا کے لیے ایشیائے کوچک سے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
 ہم ایرینس کے ممنون ہیں جس نے دوسری صدی کے اواخر میں تصور پیش کیا کہ اناجیل کی تعداد چار سے زیادہ نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا چار ٹکروں میں تقسیم ہے اور یہ دنیا کےبنیادی موسم بھی چار ہی ہیں۔ مزید برآں سماوی فرشتے کے چار چہرے ہیں، ایک چہرہ شیر کی طرح، دوسرا بچھڑے جیسا تیسرا انسان کی مانند اور چوتھا عقاب کی طرح ہے۔(مکاشفہ 4:6)
آخر ماخذ کی رسائی تک یہودی انسانی مسیحا کی کوئی مطابقت نہیں ہوسکتی تھی  کیونکہ جو تصورمسیح کے متعلق اپنایاگیا کہ وہ ایک ایسا فرد تھا جوآسمانی اختیارات سے نوازا گیا اور خدا کی تجسیم کے طور پر تسلیم کیا جانے والا فرد جو ایک وقت میں خدا بھی ہو اور انسان بھی، یہودی انسانی مسیح سے موافقت نہیں رکھتا ہے۔ یہودی محاورہ 'گوشت اور خون' اکثر انسان ہونے کا معنی اظہار کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔مکمل اختیار کے ساتھ الوہیت کے حامل ہونے کو نہیں بیان کیا جاسکتا تھا۔ مسیحیت کا پیش کردہ وہ ربط جو خاص طور پر چوتھی انجیل اور یوحنا اول (4:3) میں بیان کیا گیا ہے نا ممکن ہے۔ سماوی وجود کا انسانی صورت کو اختیار کرنا عقیدہ عدم بشریت قبول کرنے والوں کے نزدیک قابل اعتبار نظریہ ہے جن کے مطابق یسوع صرف انسان کی صورت میں نظر آتا ہے۔
ہمیں یسوع کے انسان ہونے کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ یہی بات مقدم اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔ بلا شبہ اگر ہم الوہیت کو کامل ہونے کی نشانی سمجھتے ہیں جو کہ یونانی تسلیم نہیں کرتے۔ یسوع اناجیل میں بہت مثبت اور انسانی خصوصیات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اکثر خدا ئی کے برعکس احساسات اور رویے کا اظہار کرتا ہے، اس لئے تاریخ دانوں کے لیے متبادل صورت کو اختیار کرنا مشکل نہیں ہے۔ وجود باری تعالیٰ کے متعلق مشرکانہ تشریحات کو قابل فہم لیکن غیر حقیقی ہونے کے سبب بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔
 مگر ظاہری حالت کے علاوہ مسیحی الہیات کے بہت سے پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یسوع ایک مخلص اور با عمل یہودی تھا جس نے خدا اور کس بھی خاکی روپ یا جوہر کے درمیان واضح فرق کے ساتھ پرورش پائی۔ اسرائیل میں یسوع کے ہزاروں پیروکاروں کو یعقوب نے شفا دی تھی اور اس کا چھوٹا بھائی یہودیوں کو جوش دلاتا رہا (اعمال باب 21 فقرہ 18 تا 24)۔وہ خدائی تجسیم کے طور پر یسوع کے بارے میں کوئی نظریہ نہیں رکھتے تھے۔ان میں وہ سب اور بارہ رسول بھی شامل تھے جو یسوع کے ساتھی رہے تھے۔ان میں اس کی ماں اور بہت سے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے۔پطرس کی جعلی تحریر پطرس دوم (باب 1 فقرہ 16 تا 18) میں یسوع کی اعلی و ارفع غیر خدائی حیثیت دیکھتے ہوئے اناجیل کی کہانی میں ہم تبدیلی کی گونج سنتے ہیں حتی کہ پطرس اول (باب 2 فقرہ 22 تا 24) کی طرح یہاں بھی عہد نامہ قدیم کی پیشگوئیاں پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر یسوع کے تکالیف اٹھانے تذکرہ یسعیاہ کی کتاب میں تکالیف سہنے والے خادم کے طور پر کیا گیا ہے۔
 پولس نے یسوع کے متعلق معلومات پطرس اور یروشلم کے دوسرے لوگوں سے حاصل کی تھیں۔ یسوع کوداؤد بادشاہ کا جانشین ہونے کے متعلق جاننے کے باوجود وہ اپنے خطوط میں یسوع کا بمشکل تذکرہ کرتا ہے (رومیوں 1:3)وہ جانتا تھا کہ یسوع خدا نہیں ہے اور واضح الفاظ میں ٹموتھی سے کہتا ہے "خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے درمیان ثالث یسوع مسیح ہے"۔ پولوس پیلاطوس کے سامنے کیے گئے یسوع کے مناسب اور واضح اعتراف کے بارے میں بھی ٹموتھی کو بتاتا ہے (ٹم اول باب6 فقرہ 13)۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیا تھا؟ کیونکہ ہمارے پاس اناجیل میں وہ خاموش رہا یا شش و پنج میں مبتلا رہا اس لیے یسوع کی وہ تمام باتیں جو پولوس نے بیان کرتاہےانہیں اناجیل میں کہیں بھی نہیں دیکھاجاسکتا ۔
 رومیوں کے ساتھ یہودی جنگ کے نتیجے میں یسوع کے پیروکاروں کےمغربی دنیا کے لوگوں کے ساتھ ذاتی روابط بالکل ختم ہو گئے تھے۔اس کے یہودی شاگردوں کی کثیر تعداد جنگ میں ہلاک ہو چکی تھی اورکچھ مصر اور کچھ مشرق کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔سب سے مربوط گروہ جس کا ہم بہت بعد میں مطالعہ کرتے ہیں یسوع کے چچا زاد بھائی سائمن جو کلیپیاس کےبیٹے کا تھاجو اس کی قیادت میں شمال مشرق میں سیاسی پناہ حاصل کرتا ہے اور رومی بادشاہ تریجن (trajan) کے دور حکومت تک محفوظ رہے تھے۔ جب معلومات کے ابتدائی عبرانی اور آرامی ذرائع تک رسائی بہت کم تھی اور بحیرہ روم کے ارد گرد کے علاقوں میں مسیحیت نازک دور سے گزر رہی تھی اس وقت اناجیل تالیف کی گئیں۔ جنگ سے پہلے چرچ مغرب تک پہنچنے والی اس قسم کی زبانی اور تحریری معلومات پر بہت زیادہ انحصار کرتا تھا۔
زبانی ماخذات پطرس کی نایاب تقاریر تھیں جو روایات کے دعوی کے مطابق مرقس کی انجیل کا اہم حصہ ہیں اور افسس میں یوحنا کاہن کی طویل عمر میں ذاتی قوت حافظہ کو صدی کے اواخر تک برقرار ظاہرکرتے ہیں۔
 لیکن ہم کچھ تحریری ذرائع بھی دیکھتے ہیں جن میں دو خاص ہیں۔ ایک قسم عہد نامہ قدیم کے اقتباسات پر اور کلیسا کے مسلمہ اصولوں کے خلاف کچھ کتب پر مشتمل ہے جو مسیح سے تعلق پیدا کرنے اور مسیح کے متعلق توضیحات کو یسوع میں پورا کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں،جبکہ دوسری قسم یسوع کے فرمودات ہیں جو اوگژیرنکس (oxyrhynchus) شہر سے ملنے والے یہوداہ توما سے منسوب اقوال کی طرح یسوع کے اقوال کا ذخیرہ اور ناگ حمادی سے ملنے والی قبطی مٹی کی مورتیوں پر مشتمل ہے۔ ہم انہیں گواہی دینے والی انجیل اور تعلیم دینے والی انجیل کے طور پر بیان کر سکتے ہیں۔وہ بنیادی طور پر عبرانی میں لکھی گئی تھیں اور برنباس کے اعمال نامی کتاب ان کی تالیف متی سے منسوب کرتی ہے ۔یہ انتہائی مختصر کتابیں تھیں جو پہلا رسول آسانی سے اٹھا لے جا سکتا تھا۔ جب ان کتب کا ترجمہ کیا گیا تو یقیناً انہیں ترامیم اور اضافوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ہماری موجودہ اناجیل متی ولوقاکا تعلق ان ذرائع سے ہے جو ان کے مواد میں عبرانی عناصر کی نشاندہی میں مدد کرتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

دومسیحاؤں کی بابت یہودی نقطہ نظر

دومسیحاؤں کی بابت یہودی نقطہ نظر
 پاکستانی پولوسی دجل وفریب کاپردہ چاک کرتی،نظریہ مسیح سے متعلق چھپے ہوئے حقائق ظاہرکرتی ایک تحریر
 تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
الواح تورات کی تفویض اورکتاب شریعت کی ودیعت کے وقت المسیح کے نظریے کے متعلق موسیٰ علیہ السلام کو کوئی تعلیم نہیں دی گئی تھی یہی وجہ ہے کہ اسفارخمسہ کی کتب اس عقیدے کے بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کرتیں اور نہ ہی موسیٰ علیہ السلام اس اہم معاملے کے متعلق اپنی قوم کو کوئی تعلیم دیتے ہیں۔137عیسوی تک یہودیت میں مسیح موعود یا نجات دہندہ المسیح اورعہدمسیحانہ (Massianic Age)کا کوئی واضح تصور نہیں تھا۔ 586قبل مسیح سے لے کر 175 قبل مسیح تک یہودنامسعود اپنی خوشی اورغم،عروج وزوال اور یروشلم سے متعلق اُس وقت کی بین الاقوامی طاقتوں کی سیاسی کشمکش اور رسہ کشی کو فقط نوشتہ تقدیر خیال کرتے تھےگوکہ کتاب مقدس میں ضمنی طور پر ایسا کثیرمواد موجود تھا جو مستقبل قریب میں ایک معجزانہ قوت کے حامل انسان کے آنے اور اس کے ذریعے دنیا کو شیطان کے شکنجے سے نجات اور نیکی کی طاقتوں کو غالب آنے کی نشاندہی کرتا تھا مگر اس قسم کی پیشنگوئیاں مسیح موعود کی اصطلاح کی مبتدیانہ تخلیق نہ کرسکیں ۔63قبل مسیح میں رومیوں کے ہاتھوں مکابی سلطنت کی تباہی کے بعد یہود کو ایسے الہیاتی عنصر کے فقدان کا شدت سے احساس ہوا جو ان کی تعذیب مسلسل اور ابتلامدید کے درمیان مستقبل میں ان کی نشاط ثانیہ اور نجات کلی کا ضامن بنے۔اسی فکر کے بطن سے یہودیت میں عصرِآزمائش کے خاتمہ کے نئےتصوراور اس کو بنیاد فراہم کرنے والے ادب(Apocalyptic Literature) نے جنم لیا۔اسی تصور کے ساتھ ساتھ ایک مسیحانہ نجات دہندہ کے نظریے نے بھی یہودیت میں اپنی جڑیں نکال لیں اور کتاب مقدس نے اس ارتقائی نظریہ کو بھرپورمواد فراہم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
بخت نصر بادشاہ کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کی سلطنت کی تباہی اور بنی اسرائیل کے قبائل عشرہ کی بابل میں بدترین غلامی ،بالآخرگمنامی کے بعد یہودیوں نے خیال کیا کہ جس طرح یہوداہ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے داؤدوسلیمان علیہماالسلام کی صورت میں قوم یہود کو رفعت وتوقیر نصیب ہوئی تھی اسی طرح بنی اسرائیل کی شوکت وعظمت گم گشتہ بھی دوبارہ اسی قبیلے سے بحال ہوگی۔چنانچہ ورودِمسیح کے نظریہ کو تخم داؤد سے متصل کردیا گیا اور یہوداہ کے قبیلے میں فرزندان داؤد یہودی قوم کی امیدوں کا مرجع بن گئے۔
المسیح کے متعلق کی جانی والی الہیاتی پیشگوئیوں کی تشریحات کرنے  میں ربائیوں نےقدرے غلو سے کام لیا اور المسیح کی آمدکے تصور میں ایسے شاخ وبرگ لگائے کہ یہودعوام نے منتظرفرداں ہوکر اپنے روشن مستقبل کی توقعات المسیح سے وابستہ کرلیں۔(یہودیوں کوالمسیح سے کیا توقعات وابستہ تھیں اس بارے میں محترم جناب ظفراقبال صاحب ایک معرکۃ آلاراء مضمون "یہودی تصورمسیح"لکھ چکے ہیں وہاں سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔)المسیح کی آمدکے حوالے سے اس قدر غلو اختیار کرنے کے باوجودان میں ایسا کوئی نظریہ پیدانہیں ہوا تھا جس میں المسیح کی حیثیت گناہوں سے نجات دینے والے نجات دہندہ کی ہو،بلکہ وہ المسیح کی آمد پرایک زبردست جنگی معرکہ کےذریعے سیاسی غلبہ اوراسرائیل کی مملکت کی بحالی کے خواہاں تھے۔ اس ضمن میں یرمیاہ نبی کی پیشنگوئی شہرہ آفاق حیثیت رکھتی ہے جس میں وہ شمال سے ایک نجات دہندہ آنے کی خبردیتے ہیں۔
یہودی سمجھتے تھے کہ المسیح  قوم کو یکجاکرکے یہودیوں کی سیاسی اور روحانی ابتری کوجڑسے اکھاڑ پھینکے گا اور وہ ایسی مرکزی حکومت قائم کرے گا جہاں یہودوغیریہود دونوں ہی رہیں گے۔ان کی یہ تفہیم یسعیا کی اس عبارت سے مستعار تھی۔
 اس روز یسّی کی اس جڑکوکہ جوامت کےلیےجھنڈےکی طرح قائم ہےغیر قومیں تلاش کریں گی اوراس کی جائےسکونت جلیل ہوگی۔اوراس روزخداوند اپناہاتھ پھر بڑھائےگاتاکہ اپنی امت کاوہ بقیہ واپس لائےجواشوراورمصراور فتروس اورکوش اور عیلام اورشنعاراورحمات اورسمندرکےجزائرسےبچ رہے۔اوروہ قوموں کےلیےجھنڈا کھڑاکرےگا۔اوراسرائیل کےاسیروں کوفراہم کرےگا۔۔۔۔اوریہودہ کےدشمن نیست ہوں گے۔اشعیااا:اا
 یہودیوں کو یہ امید بھی وابستہ تھی کہ المسیح نے انہیں موعودسرزمین کنعان واپس دلوانی ہے کیونکہ یرمیاہ نبی پیشنگوئی کرچکے تھے کہ
 وہ دن آتےہیں کہ میَں اپنی امت اسرائیل اوریہودہ کی قسمت بدل دوں گا۔۔۔اورانہیں اس سرزمین میں واپس لاؤں گاجومیَں نےان کےباپ داداکوعطاکی۔۳۰:۳
یرمیاہ نبی کے خیال کے مطابق یہودی یہ  سمجھتے تھےکہ مسیح ہیکل کی تعمیر ثانی کرے گااوراس میں نئے سرے سے عبادت شروع ہوگی۔وہ یہود کی مقدس مذہبی عدالت بھی قائم کرےگااور یہودی شریعت کانفاذ بھی کرے گا۔
 وہ دن آتےہیں کہ میَں اس نیک کلمہ کوپوراکروں گاجومیَں نےاسرائیل کےگھرانےاوریہودہ کےگھرانےکےحق میں کہاتھا۔ان دنوں میں اوراس وقت میں میَں داؤدکےلیےایک صادق کونپل پیداکروں گا۔اوروہ زمین پرعدل اورصداقت کاکام کرےگا۔انہی ایام میں یہودہ نجات پائےگا۔اوریروشلیم اطمینان سےسکونت کرےگا۔۔۔۔داؤدکےلیےاسرائیل کےگھرانےکےتخت پربیٹھنے کےلیے مردکی کمی نہ ہوگی۔اورنہ لاوی کاہنوں کےلیےمیرے حضورایسےمرد کی کمی ہوگی جوسوختنی قربانی چڑھائے۔اورنذروں کی خوشبوجلائےاورہمیشہ کےلیے ذبیحہ ذبح کیاکرے۔یرمیاہ۳۳:۴ا
 الغرض کہ یہودیوں میں المسیح سے متعلق مختلف توقعات وابستہ تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی المسیح کے متعلق یہ تصورنہ کیا کہ وہ مصلوب کیا جائے گا اور مردوں میں سے جی اٹھے گا۔(مردوں کی قیامت کا مسئلہ بھی یہودیت میں مختلف فیہ رہاہے،یسوع کے معاصرین صدوقی یہودیوں کا ایک بڑا گروہ اس عقیدہ سے منحرف رہاہے،جدید محققین کے مطابق یہودیت میں حیاۃ بعدالمماۃ کا تصور ایک ارتقائی نظریہ ہے جس نے بابلی اثرات کے تحت یہودیت میں جڑ پکڑی)لہٰذا یسوع کو بحیثیت المسیح رد کرنے میں مقدس پولس کا تراشیدہ یہ عقیدہ بھی یہود نامسعود کےلیے سدسکندری بنا رہا۔
یہودی ربائیوں کی انواع واقسام کی تشریحات کے نتیجے میں منقسم الخیال یہودیوں میں المسیح کی شخصیت سے متعلق مختلف تصورات پیدا ہوگئے۔یہودیوں کا اسینی گروہ دو مسیحیوں کی آمد کا قائل تھا جن میں سے ایک کا تعلق یہوداہ کے گھرانے سے تو دوسرے کا تعلق لاوی کے گھرانے سے تھے۔مراتب کے لحاظ سے لاوی النسل ہارونی مسیح کو داؤدی مسیح پر فوقیت حاصل تھی۔تمام مذہبی معاملات ہارونی مسیح کے ذریعے سرانجام پانے تھے جبکہ داؤدی المسیح مثل داؤد جنگجو اور طاقت ور بادشاہ ہونا تھا جس نے زبردست جنگ کے بعد فتح سے ہمکنار ہوکر اسرائیل کی کھوئی ہوئی سلطنت کو بحال کرنا تھا ۔دومسیحیوں کا نظریہ انہوں نے کتاب مقدس میں شامل زکریا کے صحیفے کی آیت سے مستعار لیا تھا جہاں مندرج تھا کہ"یہ وہ دو ممسوح ہیں جورب العالمین کے حضور کھڑے رہتے ہیں"۔(زکریا4:14)
اسینی یہودیوں کے برعکس دیگر یہودی روایات بھی اسی طرز کے عقیدے کی عکاسی کرتی ہیں لیکن وہاں موعود مسیحاؤں کی تعداد دوکے بجائے چار ہے۔اس سلسلے میں ایک روایت درج ذیل ہے۔
 'اور خداوند نے مجھے چار ہنر مند دکھائے یہ چار ہنر مند کون تھے ؟ ربی حنّا بن بیزنا نے پڑھا ربی سیمون حسیدا نے جواب دیا: مسیح ابن داؤد، مسیح ابن یوسف، ایلیاہ اور راست باز کاہن''
بابلی تلمود، کتاب موعید، فصیل سوکا، 52 الف
 یہودی علماء کے مطابق اس نظریہ میں ایک مسیح ابن یوسف ہے جو کہ حقیقی طور پر فرزنداسرائیل یوسف کی نسل سے ہوگا اورروایات کے مطابق دوران جنگ قتل کیا جائے گا جبکہ دوسرا مسیحِ ابنِ داؤد ہے جو مسیح بادشاہ کے اوصاف پر مشتمل کردار ہے۔تیسرا کردار ایلیا کا ہے جس نے ملاکی نبی کی نبوت کے مطابق مسیح کی آمد سے قبل نقیب کا کردار اداکرنا تھا۔چوتھی شخصیت راست باز کاہن کی ہے جسے اسینی دستاویزات میں استادصادق کے لقب سے پکارا گیا ہے۔چونکہ ہماری مبحوث تحقیق مسیحاؤں کے نظریہ سے متعلق ہے لہذا ہم مقدم الذکر شخصیات کے متعلق ہی کلام کریں گے۔
مسیح ابن یوسف
 اس نظریہ کی بنیاد تورات کے ماخذات اور وہ حالات و واقعات ہیں جو یوسف ابن یعقوب(اسرائیل) ابن اسحاق ابن ابراہام کے ساتھ پیش آئے، یوسف ابنِ یعقوب کا اپنے بھائیوں کے ہاتھوں دکھ اٹھانا، قید و بند کی صعوبتیں سہنا، بعد ازاں سرفرازی پانا، غیر اقوام میں مقبول ہونا، اسرائیل اور بنی اسرائیل کی مشکل دور میں مخلصی کرنا اور نجات دہندہ ٹھہرنا جیسے واقعات کے تقابل سے یہ نظریہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔ابن یوسف کا ابن داؤد کی طرح ہونا دراصل اس نام کے بزرگوں کی نسل میں سے ہونا تھااور اس کاماخذ بھی یہی اشارہ کرتا ہے کہ "ہمارے باپ یعقوب نے غیب بینی کی کہ صرف عیسو کی نسل ،یوسف کی نسل کے سپرد کی جائے گی جیساکہ کہا گیا ہے کہ "تب یعقوب کا گھرانہ آگ ہوگا اور یوسف کا گھراناشعلہ اور عیسوکاگھرانہ پھوس اور وہ اس میں بھڑکیں گے اور اس کو کھا جائیں گے"۔(عبدیاہ18)(B.B. 123b)
مسیح ابن داؤد
 یہ نظریہ بھی تورات کے ماخذات، استعاروں، اشاروں اور واضح پیشن گوئیوں پر مشتمل ہے۔تورات میں جابجا ایک ایسے ممسوح فرما نروا کا ذکر بطور ابن داؤد ملتا ہے جس سے منسوب اقوال اور پیشن گوئیاں بتاتی ہیں کہ یہ زمین پراسرائیل کی سلطنت کوبحال کرے گااورخدا کی بادشاہت قائم کرے گا اسکے ایام ( زمانہ مسیح ) میں زمین پر عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا، یہ ہیکل مقدس کی تقدیس (دوبارہ تعمیر) کرے گا یعقوب کی آل سے کینا و بغض رکھنے والوں کو شکست فاش دے گا اور شریعت موسوی کو بحال کرے گا۔
یسوع اور نظریہ مسیح
 علماء یہودشروع سے ہی یسوع کو مسیحِ موعودتسلیم کرنے سے شدت کے ساتھ منکر ہے۔اس انکار کا محرک نظریہ مسیح کے ساتھ ساتھ کتاب مقدس کی المسیح سے متعلقہ وہ نبوتیں بھی ہیں جن کی تکمیل کا خواب یسوع کی ذات میں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔سب سے بڑا سوال تو المسیح سے قبل ایلیاہ کی آمد کا تھا جس کا کوئی تسلی بخش جواب یسوع بیان نہیں فرماتے پھر بھلا کیسے شرع کے عالم اور فقہاء یسوع کے مسیح صادق گمان کرسکتے تھے؟دوسرا مسئلہ حکومت وقت کا تھا جس کے خلاف موعود مسیح نے آکر بغاوت کرنا تھی اور ایک جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی سلطنت کو بحال کرکے ان کی شوکت وعظمت گم گشتہ کو لوٹانا تھا لیکن یسوع نے ایسی کوئی سرگرمی اختیار نہیں کی جسے دیکھ کر یہودی یسوع کے ساتھ جمع ہوتے اور رومی حکومت سے جنگ کرتے بلکہ یسوع نے تو تلوار چلانے والوں کو ہلاک ہوجانے والا تک قرار دے دیا تھاایسی حالت میں یہود یسوع کو بحیثیت مسیح ردکرنے میں حق بجانب تھے ۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہودیوں نے کلی طور پر یسوع کی دعوت کا بائیکاٹ کرکے رکھا بلکہ ایک بڑی تعداد نے ان کواپنی امیدکامرکز سمجھ کر اس کے ہاتھوں اسرائیل کی خلاصی کی امید کرتے ہوئے المسیح کی حیثیت سے قبول بھی کیا جیساکہ سائرین عمواس کی گفتگو سے بھی اندازہ ہوتاہے۔
 "یسوع ناصری کاماجرا جو خدااورساری امت کے نزدیک کام اور کلام میں قدرت والا نبی تھا اور سردارکاہنوں اور ہمارے حاکموں نے اس کوپکڑوادیاتاکہ اس پر قتل کاحکم دیا جائے اور اسے مصلوب کیا۔لیکن ہم کو تو امید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دے گا۔"(لوقا24:19،21)
یسوع کی ذات سے پیوست یہودی عوام کی یہ تمام امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب مقدمہ کے وقت یہودی عوام اور حاکم کے سامنے یسوع نے کہا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں۔یسوع کا یہ جملہ یہود کی ان تمام دنیاوی توقعات پر پانی پھیر گیا جن کا حصول المسیح کی آمد کے ساتھ وابستہ تھا اوراسی مقصد کے تحت وہ یسوع کے ساتھ منسلک ہوئے تھے۔دنیاوی بادشاہت کے اس انکار کے ساتھ ہی یہودی عوام کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے اور وہ یسوع کے دعویٰ مسیاح کو کتاب مقدس کے خلاف پاکر حاکم وقت سے اس کو صلیب دینے کی اپیل شروع کردیتے اور اس کا خون ناحق اپیس اور اپنی اولاد کی گردنوں پر لے لیتے ہیں۔
وجوہات کے انبوہ کثیر میں سے یہ چند توجیہات ہیں جن کے باعث یہودی شدت کے ساتھ یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنے سے مجتنب رہے اور آج تک وہ یسوع کو المسیح تو کجا صادق نبی تک قبول کرنے سے تیار نہیں۔اگرچہ انجیل نویسوں نے رنگ آمیز اسلوب کے ساتھ اس امر کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے کہ معززفریسی علماء نے یسوع کو قبول کرلیا تھا مگر انجیل نویسوں کے اس ادعا کی تاریخی وقائع نگاری انتہائی مشکوک ،یہودی توقعات،ربائی روایات اور خود انجیل نویسوں کے بیان سے باہم مخالف ہے۔اس موضوع پر ہم اپنے مضمون "یسوع اور ربائی"میں گفتگوکرچکے ہیں اس ضمن میں وہاں سے استفادہ کیاجاسکتا ہے۔
 اسینی نظریہ مسیح سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ربائی روایات کا اطلاق یسوع کی شخصیت پر کیا جائے تو صورتحال مزید گھمبیر ہوجاتی ہے۔روایات کے مطابق مسیح ابن یوسف نے یوسف نبی کی نسل سے ہونا تھا جبکہ یسوع کسی طرح سے بھی یوسف کی نسل سے ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ انجیل نویس انہیں داؤد کی نسل سے باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں داؤد کے گھرانے کا موعود المسیح قرار دیا جاسکے لیکن بات بننے کے بجائے اور بگڑ جاتی ہے۔یسوع کوابن داؤدتسلیم کرنے سے قبل اسے یسوع نجار کی اولاد ماننا پڑے گا اور یہ حقیقت قبول کرنے سے کلیسیاء کے دوہزارسالہ کنواری مقدسہ مریم کے عقیدے پر ضرب پڑتی ہے کیونکہ مریم تو لاوی کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ،اگر یسوع ابن مریم ہی ہیں تو پھر وہ لاوی النسل ہوسکتے ہیں داؤد کے گھرانے سے ہرگز نہیں اور جب وہ داؤد کے گھرانے سے ہی نہیں تو وہ داؤدی مسیح ہو ہی نہیں سکتے۔لیکن اگر یسوع کو داؤدی النسل ہونے کا مفروضہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو بھی یسوع ان یہودی امیدوں اور توقعات پر عشرعشیر بھی پورے نہیں اترتے جن کا اتصال یہود،موعودمسیح کے واردہونے سے کرچکے تھے۔
المسیح کا موت کے بعدجی اٹھنا اور یہود
 موعود مسیح کی موت اور دوبارہ جی اٹھنے سے متعلق تشریحات بھی ربائی لٹریچر میں پائی جاتی ہیں مگر وہ روایات اس تناظر اورپس منظر سے تعلق نہیں رکھتیں جو یسوع کے بعد مسیحیوں میں غیراقوام سے مستعار پولوسی نظریات کے تحت وجود میں آئیں۔المسیح کے جی اٹھنے کے متعلق ایک روایت یہ ہے۔
 ہمارے ربیوں نے سیکھایا : القدس تبارک و تعالی نے مسیح ابن داؤد ( وہ جلد خود کو ہمارے دنوں میں ظاہر کرے) سے کہ: ''مجھے سے جو مرضی مانگ اور میں تجھے دوں گا'' جیسا کہ کہا گیا ہے: میں اُس فرمان کو بیان کرونگا۔ خُداوند نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔ آج تُو مجھ سے پیدا ہوا۔ مجھ سے مانگ اور میں قوموں کو تیری میراث کے لئے اور زمین کے اِنتہائی حصے تیرے ملکیت کے لئے تجھے بخشونگا۔(زبور7:2-8) مگر جب وہ (مسیح ابن داؤد) دیکھئے گا کہ مسیح ابن یوسف قتل کیا گیا تو وہ کہے گا: اے مالک کائنات میں تجھے سے محض ایک چیز مانگتا ہوں ''حیات کا تحفہ'' تب خداوند جواب دے گا: تیرے باپ داؤد نے تیری پریشانی کی بابت پہلے ہی نبوت کی رو سے لکھا '' اُس نے تجھ سے زندگی چاہی اور تُو نے بخشی۔ بلکہ عمر کی درازی ہمیشہ کے لئے'' (زبور 4:21)
بابلی تلمود، کتاب موعید، فصیل سوکا، 52 الف
روایات کے مطابق جب جنگ کے دوران مسیح ابن یوسف قتل کردیاجائے گاتو مسیح ابن داؤد خدا سے دعامانگ کر پھر اُسے زندہ کرے گا۔یہاں ایسا کوئی مشرکانہ عقیدہ نہیں پایاجاتا کہ وہ مرجائے گا اور تین دن بعد خودبخود جی اٹھے گا۔یہ مسیحی اعتقاد عہدعتیق اور تالمودی روایات کے سراسر خلاف اور مقدس پولس کے اختراعی افکار کے سوا کچھ نہیں اوراس کا یہودیت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
ادعا مسیح اور یہود
مکابی حکومت کےسقوط اور رومی عتاب کے تحت آجانے کے بعد جہاں یہودیوں میں مسیح موعود کا نظریہ پروان چڑھا وہیں اس نظریہ کی تکمیل کی سعی کرتی بہت سی شخصیات کا بھی ظہور ہواجنہوں نے اپنے قول و عمل سے خود کو مسیح موعود کی عملی تفسیر بنانے کی جہدمسلسل کی بالآخر ان کی کوشش قابض حکومتی افواج کے ہاتھوں پامال ہوئی اور وہ پراگندہ کرکے تہہ تیغ کردیئے گئے۔یہودی تاریخ ایسے افراد کے قصص سے لبریز ہے جو مسیح ہونے کا دعویٰ لے کر اٹھے اور حکومت وقت کا عسکری سامنا کرتے ہوئے مارے گئے۔عہدجدید میں بھی ایسے تین مشہوریہودی حریت پسندوں کا تذکرہ موجود ہے جنہوں نے رومی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور فوجی مزاحمت کے دوران مارے گئے۔
 مسیحیت نے جب رومی سلطنت کے سرکاری مذہب کی حیثیت اختیار کرلی تو اس کےبعد مقدس مذہبی لٹریچر میں تصحیح وتصریف کا عمل شروع ہوا اور متصرفین نے اناجیل کو مرتب ثانی کرتے وقت اُُس وقت کے سیاسی حالات کی ایسی تصویر پیش کی گویاکہ یہودیہ کا علاقہ رومی حکومت کی چھتری تلےآمن وآتشی کا گہوارہ تھااور یہودی رومی حاکم کی حکومت کے زیرسایہ ایک پرسکون زندگی گزار رہے تھے جبکہ حقیقی صورتحال اس کے برعکس تھی۔ یسوع کے حین حیات یہودیہ کا علاقہ جنگوں اوریہودی بغاوتوں کا گہوارہ تھا اور یہاں بڑی تعداد میں یہودی حریت پسندی کی خفیہ واعلانیہ تحاریک چل رہی تھیں جس کی سرکوبی کے لیے رومی افواج وجاسوس پوری طرح سرگرم تھے۔یسوع کا تمثیلی انداز میں اپنے تحریکی ساتھیوں سے کلام کرنا اس امر کا غماز ہے کہ وہ جابجا بکھرے ان رومی جاسوسوں سے کتنا محتاط تھے ۔ان کی کمال احتیاط کے باعث ہی ان کی تحریک تین سالوں تک محیط ہوگئی لیکن اس دوران بھی انہوں نے کبھی زبان سے المسیح ہونے کا علی الاعلان دعوی نہیں کیاکیونکہ یہ اعلان ہی دراصل حکومت وقت کے خلاف خود کو بادشاہ کے طورپر پیش کرنا تھا۔
 یسوع کی تحریک بھی ایک خفیہ حریت پسند تحریک تھی جس میں یہوداہ اسکریوطی جیسے اسکریوٹ اور شمعون غیور جیسے زائیلوٹ موجود تھے۔ان جنگجوؤں اور شدت پسند تحاریک سے متعلق افراد کا یسوع کی تحریک میں شامل ہونا یسوع کی تحریک کی رومی حکومت کے خلاف شدت پسندی کاظہور ہے جس سے انجیل نویسوں نے عمدا اعراض کیا ہے۔
 اناجیل میں کیے جانے والے ان تصرفات سے مقصود حکومت وقت کی خوشنودی تھی تاکہ مقتدرحلقوں کی طرف سے یسوع کی تحریک کو رومی حکومت کے مخالف خیال نہ کیا جاسکے۔ان تغیریات وتبدل کے باوجود اناجیل میں ایسے تاریخی نشانات باقی رہ گئے جو حریت پسند یہودیوں مدعیان مسیح کا پتہ دیتے ہیں۔اناجیل میں مستور ان مدعیان میں سے ایک یسوع کی حین حیات ،6عیسوی میں حکومت وقت کے خلاف بغاوت برپا کرنے والا یہوداہ گلیلی بھی ہے جس کا ذکر اعمال 5:37 میں ملتا ہے۔جوزفیس کے مطابق اس کے دودفرزند یعقوب اور شمعون کو قیصرطبریاس نے مصلوب کرکے مار ڈالا جبکہ اس کا تیسرا فرزندمناہیم اسکریوٹ نامی تحریک کا بانی بنا اور ایک طویل عرصہ تک طاقتور رہنما رہا بالآخر سردارکاہن کی جماعت کے ہاتھوں قتل کردیا گیا۔
یہوداہ گلیلی کےبعد کچھ عرصے بعد تھیوداس نے المسیح ہونےکا دعویٰ کرکے بغاوت کردی۔چارسوکے قریب اس کے دعویٰ پر لبیک کہتے ہوئے یہودی رومیوں کے خلاف اس کے دست راست بنےاور رومیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔تیسری ہستی خنجربردارمصری کی ہے جس کا ذکراعمال 21:36 میں موجود ہے۔اس نے چارہزار یہودی عسکری جنگجوؤں کے ساتھ مسلح بغاوت کی اوربالآخر تہہ تیغ کردیئے گئے۔
مدعیان مسیح موعود کے یکے بعد دیگر ظہور اور یہودیوں کی طرف سے ان کی بھرپور تائید ونصرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نےدومسیحیوں کے تراشیدہ نظریے پر اکتفاکرنے کے بجائے وقتاً فوقتاً اسرائیل کی سلطنت کی بحالی کے لیے کھڑے ہونے والے ہرمدعی مسیح کو اپنی امیدوں کا محور سمجھا اور ان کی بھرپور تائید کی ۔ یہودیوں نے کبھی بھی ان افراد کو تعذیب وتعصب کانشانہ نہیں بنایا جنہوں نے مختلف افراد کو بحیثیت"المسیح"قبول کیابلکہ ان کی فکری ہمدردی بھی ان مدعیان اوراس کی جماعت کے ساتھ ہی رہی۔اس کاثبوت اناجیل میں مندرج اس واقعہ سے ملتا ہے جب فریسی یسوع کے پاس آکر اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ پیلاطوس اسے قتل کرنے کی فکر میں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بزرگ گملیل کی تقریر بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے جہاں وہ سنہڈرین میں یسوع کے ساتھیوں کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں،
 "ان آدمیوں سے کنارہ کرواوران سے کچھ کام نہ رکھو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سےبھی لڑنے والے ٹھہرو کیونکہ یہ تدبیر یاکام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہوجائے گالیکن اگر خدا کی طرف سے ہے توتم ا ن لوگوں کومغلوب نہ کرسکو گے"۔( اعمال باب 5 فقرہ 38 تا 39)
 اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو یسوع یا کسی بھی شخص کو بحیثیت المسیح قبول کرنے والوں سے کوئی سروکار نہیں تھا بلکہ یہودی عوام کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہمنوا رہی ہے۔
تالمود میں المسیح کی شخصیت اور تعیین کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں کہ حالات وواقعات کے ساتھ ساتھ لوگوں کی المسیح کے بارے میں ترجیحات بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ حزقیاہ المسیح ہے۔ان لوگوں میں ربائی یوحنابن زکائی بھی شامل تھا جس نے بستر مرگ پر اپنے شاگردوں سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ "یہودیاہ کے بادشاہ حزقیل کے لیے تخت تیار کرو جوکہ آنے والا ہے"۔(Ber. 28b)اس کے الفاظوں کو عام طور پر المسیح کی آمدکاپیش خیمہ سمجھا گیاہے،پہلی صدی عیسوی کا یہ بزرگ المسیح کی شناخت حزقیاہ کے طور پرکرتا ہے۔کچھ بزرگوں نے المسیح کی شناخت داؤد کی حیثیت سے کی ہے اور اس کا استنباط کتاب مقدس کی اس آیت سے کرتے ہیں کہ"اس کے بعدبنی اسرائیل رجوع لائیں گے اور خداونداپنے خدااوراپنے بادشاہ داؤد کو ڈھونڈیں گے اور آخری دنوں میں ڈرتے ہوئے خداوند اور اس کی نیکی کے طالب ہوں گے"۔(ہوشیع3:5)یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ داؤدی المسیح داؤد نبی ہی تھےبلکہ یہ ان سے مختلف کوئی دوسری ہستی ہے جسے ان کے اخلاف میں مبعوث ہونا تھا۔تالمود کی روایت ہے۔
 Rab declare, the Holy One, blessed be Hem will here after raise up for Israel another David as it is said, "But they shall serve the LORD their God, and David their king, whom I will raise up unto them" is not stated "has rised" but "will raise" (Sanh, 98)
اسی طرح ربائی نکمان کے لیے آتا ہے کہ انہوں نے ربائی اسحاق سے پوچھا کہ کیا آپ نے بارنفلی کے بارےمیں سنا ہےجوکہ آنے والاہے؟ربائی اسحاق نے اس سے پوچھا کہ بارنفلی کون ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ وہ المسیح ہے۔(Sanh. 96b) مختلف یہودی ربائیوں نے المسیح کی شخصیت کے تعیین میں اختلاف شدید کیا ہے ۔بہت سے لوگ المسیح کو سمجھنے میں بھی غلطی کر بیٹھے۔ایسی ہی ایک غلطی 132 عیسوی میں برپاہونے والی ایک آزادی کی تحریک کے وقت پیدا ہوئی جب بارکوکبا نامی یہودی جنگجو نے رومی سلطنت کو شکست دےکر ایک آزاد یہودی حکومت قائم کرلی اور تین سال تک حکمران رہا۔بارکوکبا کی تحریک اور عملیات اس قد ر مضبوط تھیں کہ ربائی عقیبہ جیسے بیدارمغز انسان نے اس کو بحیثیت المسیح قبول کر لیا تھا۔لیکن ربائی یوحنان بن طورطا نے اسے کہا کہ "عقیبہ تیرے رخساروں پر گھاس تو اُگ آئے گی مگر ابن داؤد کی آمد نہیں ہوگی"۔(p. Taan. 68d)۔ یہودی سواد نے اس کی شکست کو اس کے دعویٰ مسیحیت کے غیرصحیح ہونے پر محمول کیا لیکن ربائی عقیبہ نے یہ تاویل کرکے اس کےمشن کو آگے بڑھایا کہ کسی مسیح موعود کے دعویٰ مسیاح کو صرف اس بنیادپرردکرنا صحیح نہیں ہے کہ اسے دنیاوی افواج کے مقابلے میں شکست ہوئی ہے۔کہاجاتا ہے کہ وہ دوران قتل کلمہ شمع اسرائیل کا ورد کررہاتھا۔
یہودی اہل تصوف مسیح موعود کو ایک روحانی شخصیت کی حیثیت سے جانتے ہیں جو روحانی افکار کی اساس پر خداکی بادشاہت قائم کرے گا۔اسی بنیاد پر بیسویں صدی کے آخر میں یہوداہ تصوف کے سلسلہ لباوتک خاسدیمیہ کے ربائی مناخیم میندل نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔اس سے قبل سترہویں صدی عیسوی میں ایک ربائی شبتائی زوی ترکی سے نقل مکانی کرکے فلسطین آئے تو اسے مسیح موعودقرار دے دیاگیابعدازاں شبتائی نے اسلام قبول کرلیا۔شبتائی کے پیروکار اس کے قبول اسلام کوبلندی درجات سے قبل لازمی تحقیرمسیح سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ بھی خیال پیش کیاجاتا ہے کہ شبتائی نے اپنا گلا کٹوانے کے بجائے اسلام کا مصنوعی لبادہ اوڑھ کر کسی غیرحتمی مسیح موعود کے انتظار کو ترجیح دی ہے کیونکہ مسیح کے انتظار میں رہنا یہودی علم الکلام میں لازمی سمجھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے پہلی صدی عیسوی کے مشہور ربائی یوحنان بن زکائی کاقول معروف ہے کہ "اگر تمہارے ہاتھ میں ایک ننھا پوداہواورالمسیح کی آمد کا اعلان ہوجائے تو وہ پودالگاکرالمسیح کے استقبال میں لگ جاؤ"۔
مسیح موعود کے نام لے کر اٹھنے والے مذہبی شخصیات کی ناکامیوں نے جدیدالخیال لوگوں کو ایک وقت ایسا بھی سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب کوئی مسیح نہیں آنے والا ہے۔اس سلسلے میں پہلا اعلان ربائی ہللیل نے چوتھی صدی عیسوی میں کیا کہ " اسرائیل کے پاس کوئی اب آمد کے لیے کوئی مسیح نہیں رہا۔"(Sanh 98b)
1885 میں پیٹسبرگ کی کانفرنس کے موقع پر آج کے جدیدالخیال یہودی نظریہ مسیح موعود کو یہودی مذہب کا ایک غیرضروری عنصر کہہ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں۔ یہودنامسعود کا یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ اختراعی روایات کا جو قلاوہ ان کے آباء نے ان کے گلے میں ڈالا تھا وہ انہوں نے اپنے گلے سے نکال کر خود کو آزاد کرلیا تھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو اپنی چونتیس سوسالہ تاریخ میں کبھی بھی المسیح کی آمد سے کسی گناہوں کی نجات کی امید وابستہ نہ تھی بلکہ وہ المسیح کی آمد سے سیاسی غلبہ اور دنیاوی سلطنت کی حصول کے خواہشمند تھے۔اگر ان کا مقصود روحانی نجات ہوتی تووہ کبھی بھی اس کی آمد کا انکار نہیں کرتے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی واضح ہوتا ہے کہ المسیح کی ذات مثل موسیٰ سے جدا ہے تبھی یہودنامسعود نے بآسانی المسیح کی آمد کاانکار کردیا وگرنہ مثل موسیٰ کے انکار پر عذاب الٰہی کے نزول کی وعید کے ہوتے ہوئے المسیح کا انکار کرنا ان کے لیے اتنا سہل نہ ہوتا۔
 یہود کے نزدیک یہ دانشمندی نہیں کہ ایک لاحاصل بحث میں خود کو الجھا کر کسی غیرموجود کے آنے کے انتظار میں اپنی زندگی کھپائی جائے۔مسیح کوآنا ہے تو آجائے نہ آنا تونہ آئے موت کو تو آنا ہے۔خدائے تعالیٰ ہمیں صحیح فہم کے ساتھ تاریخ کو سمجھنے اورحق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
Bibliography
 Everyman’s Talmud, Abraham Cohen, Schocken Books Inc New York 1975
 World Religion: The illustrated guide, Michael D. Coogan, Duncon Baird Publication, London
 How to be a Perfact Stranger: The essential Religious Etiquette Hand Book, Staurt M, Matlins, Sky light Path Publishing, 2006 4th Edition
مکمل تحریر >>

پیر، 5 جون، 2017

یسوع اور یہوی ربائی

یسوع اور یہودی ربائی
 دیسی پولوسیوں کے دجل وفریب کا پردہ چاک کرتی ،مستورتاریخی حقائق کوظاہرکرتی ایک چشم کشا تحریر
ازقلم عبداللہ غازیؔ
یسوع ایک ایسی مظلوم ہستی ہیں جنہیں ان کی قومی حیثیت 'یہودی"ہونے کی رو سے کم اور مشرک غیراقوام کی خودساختہ تشریحات کی روشنی میں زیادہ دیکھا جاتا ہے۔یہ رجحان دراصل یونانیت زدہ انجیل نویسوں کی فکری کاوشوں کا اثر ہے کہ وہ اپنے قاری کو یہ باورکرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یسوع ہی عہدعتیق کا موعود"المسیح" ہے جبکہ یسوع کا "المسیح"ہونے کا پورا قضیہ خالصتاًیہودیت سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا یسوع کی درست تصویر اسی وقت واضح ہوسکتی ہے جب یسوع کا خآکہ ان یہودی توقعات کومدنظررکھتے ہوئے کھینچاجائے جویہودیوں کو موعود المسیح سے وابستہ تھیں۔قارئین بائبل عموما اس اہم پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں جس کے باعث انجیل نویسوں کے عہدعتیق کے کھینچ تان کر یسوع پر منطبق کیے گئے اقتباسات کی درست تشریحات اوریہودی توضیحات قارئین کی نظر سے اوجھل رہ جاتی ہے اور یوں وہ انجیل نویسوں کے تار عنکبوت سے بھی کمزور استدلات کو ہی حرف آخر سمجھ کر یہ نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ یسوع ہی عہدعتیق کا موعود المسیح ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔عہدعتیق کی تشریح کرنے کا اولین حق کتاب مقدس کے امین اول یہود کو حاصل رہاہے لیکن اسی کتاب کی مسیحی توضیحات ایسی مضحکہ خیز اور غیرشرعی دعاویٰ پر مشتمل ہوتی ہے جوحقائق سے کوسوں دور اور یہودی مطالب ومعانی سے متضاد ہوتی ہیں جس سے کوئی معقول نتیجہ برآمد نہیں ہوتانتیجاً ایک یہودی یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنے سے مجتنب ہی رہتاہے۔ اسی مسیحی روش کے سبب یہودی روزاول سے ہی یسوع کو بحیثیت یسوع رد کرتے چلے آرہے ہیں کیونکہ یسوع نے ایسا کچھ نہیں کیا جوکتاب مقدس کے مطابق داؤدی المسیح نے آکر کرنا تھا چنانچہ انہوں نے نہ صرف یسوع کو رد کیا بلکہ گمراہیت کا شکار ہوکر یسوع کا پیروکار بننے والے ہر یہودی کو اپنی چنیدہ جماعت میں سے نکال باہر کیا خواہ وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز ہی کیوں نہ ہو۔
انجیل نویسوں نے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ یہودیوں کی بڑی تعداد نے یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرلیا تھا جس میں یہودی ربیائی بھی شامل تھے۔اگر حقیقت حال ایسی ہی ہے تو پھر یسوع کو گرفتاری کے وقت پہچان کروانے کے لیے یہوداہ کو خریدنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ایک طرف تو انجیل نویس بلند آہنگ صور پھونکتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ "دیکھوجہاں اس کا پیروہواچلا" اوردوسری طرف یسوع کی غیرمعروفی کاحال یہ ہے کہ یسوع کی شناخت کے لیے بھی انہیں ایک فرد کو خریدنے کی ضرورت پڑ رہی تھی۔انجیل نویسوں کےاختراعی ایسے پیچیدہ تضادات عموما نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں کیونکہ انجیل نویس کا مقصود قارئین کوعلم الہیات سے متعلق زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا مواد فراہم کرنا تھاتاکہ اس میں گم ہوکر ایک قاری اس تحریرکے تاریخی پس منظرسے واقف ہوکر درست حقائق کا ادراک نہ کرسکے۔عرصہ دراز بعد اناجیل میں کیے جانے والے تصرفات میں یسوع کو یہودیوں کے لیے بحیثیت المسیح قبول کرنے کےالتزام کی کوششیں بھی کی گئیں اور اس کے لیے ڈرامائی انداز میں بعض کرداروں کو اناجیل کے افسانوں میں لانا گیا جو اسٹیج پر آکر اپنا کردار اداکرنے کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں کہ تاریخ کی گرد جھاڑنے پر بھی ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔ایسے افراد میں یوسف ارمتیائی ونیکودیمس نامی یہودی ربی وغیرہ شامل ہیں۔اناجیل میں ان لوگوں کی موجودگی خود اناجیل کا ایک مشکوک عنصر ہے جوکہ فی الوقت ہمارے لیےزیر بحث نہیں ہے۔انجیل نویسوں نے ان افراد کو ڈرامائی اندازمیں اس قضیہ میں شامل توکردیا مگر دیگر کئی جھول اس میں باقی رہ گئے۔جیساکہ نیکودیمس تو فریسی تھا اورانجیل نویسوں کے مطابق تو فریسی یسوع کے بدترین معاندین میں سے تھے تو پھر وہ کیسے یسوع کو قبول کرسکتا تھا؟؟ اناجیل کے مطابق فریسی یسوع کے سب سے زیادہ معتوب رہےاوریسوع جابجا ان پرکڑی تنقید اور شدید مخالفت کرتے رہے۔ یسوع کی طرف سے فریسی علماء کی اصلاح کے بجائے مخالفت ہونے کے باوجودایک فریسی ربائی کایسوع کو قبول کرنا ایک اچھنبے کی بات معلوم ہوتی ہے ۔نفس واقعہ کی صحت کے لیے اس امر کی تنقیح نہایت ضروری ہےنیز اگر اس واقعہ کو درست مان بھی لیا جائے تو بھی یہ ایک افسانوی طرز کا کردار ہی معلوم ہوتا ہے جو مختصر سا رول اداکرکے رخصت ہوجاتا ہے۔ ۔نیکودیمس کے قبول مسیحیت جیسے اہم معاملے میں فقط انجیل نویسوں کے بیانا ت پر ہی اکتفا نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے ٹھوس تاریخی شواہد درکار ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں یہ سارا قضیہ ہی عدم اعتباری کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ بعدازاں یہ شخص ہمیں دو خفیف مقامات کے علاوہ اور کہیں نظر بھی نہیں آتا ہے جس سے انجیل نویسوں کےمخصوص عزائم کی عکاسی ہوتی ہے کہ کس ضرورت کے تحت اس کردار کادخول انجیلی افسانے میں کیا گیا۔ایسا ہی ایک افسانہ لوقاانجیل نویس مقدس پولس کے لیےبھی تراشتے ہیں جہاں وہ پولس کی ابتدائی تربیت بزرگ گملیل کے یہاں ہونا دکھاتے ہیں ۔اگرحقیقت فی نفسہ وہی ہے جو انجیل نویس باورکرانا چاہ رہا ہے تو پھر یہ صورتحال کافی پیچیدہ ہوجاتی ہے کیونکہ گملی ایل جیسا شرع کازبردست عالم ایسے مدرسوں میں تعلیم دیتا تھا جہاں شریعت کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔شریعت کی ابتدائی تعلیم کے تعلم وتعلیم سے اس کا کوئی سروکار نہیں تھا تو پھر کیسے پولس نے ابتدائی تعلیم گملی ایل کے قدموں میں بیٹھ کر حاصل کرلی؟؟جب تک ان امورکی قابل قبول توجیح نہیں ہوتی یہ معاملہ بھی انجیل نویسوں کی تضاد بیانی کی نذر ہوجاتاہے۔
انجیل نویسوں کی غیرمستندوقائع نگاری اور بےجادعاوی کے باعث یہ دعویٰ خاصا ناقابل قبول ہوجاتا ہے کہ یہودیوں نے بالخصوص ربائیوں نے یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کیا۔یسوع کسی بھی ایسی یہودی توقعات پر پورے نہیں اترتے جو یہودیوں نے موعود المسیح سے لگا رکھی تھیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہودیوں کو المسیح کا انتظاررسمی سا تھا،یوحنااصطباغی سے یہودی ربائیوں کےتین استفسار یہودی اضطراب کا غماز ہیں۔
المسیح سے وابستہ یہودی توقعات اس قدر شدید تھیں کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے خودکو یہودی معاشرے سے الگ کرکے روحانی وجسمانی مشقوں کے لیے بیاباں میں سکونت اختیار کرلی تھی تاکہ المسیح کی آمد پر اس کے عظیم الشان استقبال کی تیاری اوراس کے ساتھ مل کر بحالی اسرائیل کےلیے جنگ کی جائے۔تاریخ کے صفحات اس گروہ کو اسینی کے نام سے جانتے ہیں۔
انہی یہودی توقعات کا رنگ ہمیں انجیل میں بھی نظر آتا ہے جب فرشتہ مقدسہ مریم کو نویدیسوع سنانے کے لیے ظاہر ہوتا ہے اور مریم کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔
 "تیرے بیٹاہوگااس کانام یسوع رکھنا۔وہ بزرگ ہوگااورخدائے تعالیٰ کا بیٹاکہلائے گااورخداوندخدااس کے باپ داؤدکا تخت اسے دے گا"۔ 
 لیکن اس پیشنگوئی کواگر یسوع کی عملی زندگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاملہ اس کے برعکس نظرآتا ہے ۔یسوع اپنے جدامجدداؤد کے تخت پر تو قبضہ نہ کرسکے لیکن اس سے دستبرداری کا اعلان پیلاطوس کے بھرےدربار میں کردیا اوریہی اعلان انہیں صلیب پرلے گیاکیونکہ یہود کے لیے یہ بات سوہان روح سے کم نہ تھی کہ ان کا المسیح یہ کہے کہ"میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں"۔ اس موقع پر یسوع کی تصلیب کا چلاچلا کر مطالبہ کرنے والے یہی یہودی لوگ تھے جنہوں نے چند روز قبل یسوع کو بزعم خود اسرائیل کا مسیح موعود تسلیم کرکے کھجور کی ڈالیاں لہراتے ہوئے استقبال کیا تھا لیکن چنددن بعد ہی یہ الفت ومحبت اس قدر بغض وعناد میں بدل گئی کہ وہ یسوع کے لیے صلیب سے کم راضی نہیں ہورہے تھے حتی کہ انہوں نے یسوع کے خون کو اپنی اور اپنی اولاد کی گردنوں پر لے لیا۔یہود کے اس رویہ کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی کہ یسوع اُس یہودی معیار پر ہرگز پورے نہیں اترے جوداؤدی المسیح کا کتاب مقدس کی پیشنگوئیوں کے مطابق تھا۔
حیات یسوع اور کتاب مقدس میں موجودداؤدی المسیح کی پیشنگوئیوں میں بُعدالمشرقین کا تعلق ہےاوریسوع کی ذات میں ایسی کسی پیشنگوئی کی تکمیل نہیں ہوتی۔کتاب مقدس (یسعیاہ باب2) کے مطابق المسیح زمین پر آئے گا،اس کے زمانے میں سارے یہودی اسرائیل کی سرزمین کی طرف جمع ہونگے،اس وقت تمام قومیں پُرامن ہونگی،ہیکل کی دوبارہ سے تعمیرجدید کی جائے گی ،شریعت کو قائم کیا جائے گا،خدا کے لیے جنگ ہوگی جس میں اسرائیل کے خلاف آنے والی تمام اقوام تباہ ہوجائیں گی اوراسرائیل محفو ظ ہوجائے گا۔لیکن کیا ایسا ہوا؟عہدجدید کا مطالعہ سراسر اس کی نفی کرتا ہے کہ یسوع نے کتاب مقدس کے مطابق ایسا کچھ کیا ہو۔اسی طرح سے اگریرمیاہ33 کی روشنی میں ہی داؤدی مسیح کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تویہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ داؤدی المسیح داؤدکی نسل سے ہوگا،وہ ایسا بادشاہ ہوگا جو شریعت کے ساتھ حکومت کرے گا،وہ خدا کے لیے جنگ کرے گا، اسرائیل کی زمین کی حفاظت کرے گا،لاوی النسل کاہن اس کے زیرحکومت رہ کرقربانیاں چڑھائیں گے اور یہ بادشاہ ہمیشہ ان پر حکومت کرے گا۔
مذکورہ پیشنگوئی کی پہلی شق ہی یسوع کے خلاف جاتی ہے۔عالم مسیحیت یسوع کو بغیرباپ فقط کنواری مریم سے پیداتسلیم کرتی ہے جبکہ مقدسہ مریم تولاوی النسل تھیں بھربھلا کیسے یسوع کو داؤد کی نسل سے مانا جاسکتا ہے؟کتاب مقدس کے مطابق داؤدی المسیح کو شریعت کے ساتھ حکومت کرنا تھی جبکہ یسوع کی آمد سے تو مقدس پولس کے بقول شریعت ہی منسوخ ہوگئی حکومت کرنا تو پھر بھی ایک خواب ہی رہا جو کبھی حقیقت نہیں بن سکا۔اسی طرح سے پیشنگوئی کے مطابق المسیح نے آکر خداکے لیے جنگ کرنا تھی جبکہ یسوع ایسا کچھ نہیں کرتے بلکہ تلوار نکالنے والوں کو تلوار نکالنے پر ہلاک ہونے کامژدہ سنا کرداؤدی المسیح کے افعال کے برعکس تعلیم دیتے ہیں۔ پیشنگوئی کے اگلے حصے کے مطابق داؤدی المسیح نے اسرائیل کی حفاظت کرنا تھی جوکہ ہرگز نہیں ہوئی بلکہ الٹا رومیوں نے اسرائیل کی سلطنت ومذہبی مرکز ہیکل کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔یسوع کے حین حیات نہ ہی یسوع کی قیادت میں لاوی النسل کاہنوں نےمذبح پر قربانیاں چڑھائیں اور نہ ہی یسوع نے ان پر حکومت کی بلکہ مقدس پولس تو فرماتے ہیں کہ یسوع کی قربانی کے بعد تو کسی قربانی کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس طرح کی بےشمار پیشنگوئیاں ہیں جن کا اطلاق یسوع کی عملی زندگی پر کیا جائے تو کوئی بھی غیرجانبدار ذی شعورشخص یسوع کو عہدعتیق کا موعود المسیح قرار نہیں دے سکتا۔
عہدجدید ایسا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کرتا جس سے معلوم ہو کہ یسوع نے کسی پیشنگوئی کی تکمیل کی ہوجوکہ عہدعتیق کے عین مطابق ہو۔مسیحی یہ عذرلنگ پیش کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب پیشنگوئیاں یسوع نے اپنی آمد ثانی پر پوری کرنی ہیں۔اس تلبیس کے ابطال کے لیے یہی کافی ہے کہ یہودی صحائف واعتقاد کے مطابق المسیح کا ایک ہی دورہوگا اورکتاب مقدس میں المسیح کی آمدثانی کا کوئی تصور موجود نہیں۔یسوع کی آمدثانی کا تصور مسیحیت میں بہت بعد کی اختراع ہے جسے یسوع کے مشن کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے تراشا گیا۔یہ تصور بھی یہودیوں کے لیے نیا تھا کیونکہ یہودی کسی بھی وقت اس عقیدے کے حامل نہیں رہے چنانچہ ایسے نت نئے عقائد ونظریات نے مسیحیت ویہودیت کے درمیان خلیج کاکام کیا۔ المسیح کے متعلق یہودیوں کامؤقف ہمیشہ یکساں ہی رہا حتی کہ یہودیوں نے ہراس شخص کو اپنی جماعت سےباہرنکال کیا جنہوں نے اس نئے مشرکانہ مذہب کے لیے نرم گوشہ رکھا۔ معززیہودی علماء کرام اور ربی کونسلز ان گمراہ افراد کو خارجی، بدعتی، مرتد، باغی اور غدار قرار دے دیتی رہیں۔ تاریخی اعتبار سے مروجہ یہودیت کے کچھ یہودی علماء نے گمراہ کن نظریات سے متاثر ہوکریسوع کو بطورمسیح ابن داؤد قبول کیا لیکن خدائے واحد کی برگزیدہ اور چنیدہ قوم کے جید علماء کرام اور ربیوں نے متفقہ فیصلے سے ایسے افراد کو یہودیت سے خارج اور بدعتی مشرک قرار دیا۔ان میں سے ایک ربی ڈینیل صیہون تھا۔ ربی ڈینیل 3 اگست 1883 کو پیدا ہوا۔ وہ ہولوکوسٹ کے زمانہ میں بلغاریہ میں یہودی کمیونٹی کا چیف ریبائی تھا، اسں نے مصائب کے زمانہ میں سینکڑوں یہودیوں کو کیمپوں میں پہنچنے میں مدد کی اور بعد ازاں انہیں اسرائیل میں بسنے کے مواقع بھی فراہم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا 1949 کو وہ اسرائیل میں آکر بس گیا جہاں وہ اپنے آخری دم تک مقیم رہا۔ ربی ڈینیل صیہون نے یوسف نجار سے پیدا ہونے والے یسوع کوالمسیح قبول کرلیا۔ اس صورت حال کے باعث انہیں تل ابیب کے مقام پر مند ر ہونے والی یہودی علماء کی مجلس نے ''خبطی'' قرار دے دیا بعد ازاں انکی ربانیکل اتھارٹی ( معلم کا اختیار و عہدہ) بھی منسوخ کردیا گیا اور انہیں خارجی اور غدار قرار دے دیا گیا۔ایک اعلیٰ پائے کے ربی کے گمراہ ہونے پر قوم کے معزز علماء وربائیوں کا یہ طرزعمل دوہزارسالہ تسلسل رکھتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے کسی بھی وقت اور کبھی بھی یسوع کو بحیثیت المسیح قبول نہیں کیاحتی کہ خود یسوع کے زمانے میں بھی لوگ اس معاملے میں متذبذب ہی رہے۔
اسی طرح ربی سام سٹیرن کامعاملہ ہے۔ ربی سٹیرن کا شمار یہودیوں کے فاضل علما میں ہوتا ہے ۔یہ اپنی تالمودی حکمت کیلئے مشہورتھا۔یہ دوسری جنگ عظیم کے وقت وارسا میں پیدا ہوا۔ تین سال کی عمر تک بنیادی بائبلی (یہودی) تعلیمات سے واقف ہوچکا تھا۔ اس نے بھی یسوع ابن یوسف کو بحیثیت مسیح قبول کیا۔ ماڈرن ڈے جوڈا ازم کےجیدعلماء کرام نے متفقہ طور پر سام سٹیزن کی رباینکل اتھارٹی کو منسوخ قرار دیکر اس سے قطع تعلق اختیار کرلیا اوراس کو بھی خوارجیوں کی فہرست میں شمار کرلیاگیا۔
دورجدیدکےبعض یہودی علماء یسوع کو اب بطور فریسی شرعی معلم تو قبول کرلیتے ہیں مگر یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنےسے وہ شروع سے ہی منکر رہے ہیں ۔حال ہی میں وفات پانے والے یہودی علوم پر ہائی اتھارٹی اسکالر جیکب نوزنیئر اپنی معروف کتاب"A Rabbi talks with Jesis”میں لکھتے ہیں کہ"میں اس کتاب میں انتہائی واضح اور بغیر کسی جھجھک کے اس بات کی تصریح کرتا ہوں کہ اگر میں پہلی صدی عیسوی میں یسوع کے وقت ہوتا تومیں ہرگز یسوع کے شاگردوں میں شامل نہیں ہوتابلکہ ان سے شدید اختلاف کرتا۔کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میں مضبوط دلائل،حقائق اور وجوہات کی بناء پر درست مؤقف پر ہوں"۔یسوع کے معاملے میں یہودی علماء دوہزارسال قبل یسوع کے مقدمہ کے وقت بھی متفق تھے اور آج بھی متفق ہیں اور ان کا یہ متفقہ فیصلہ کتاب مقدس کے عین مطابق ہے جو ان میں المسیح کے متعلق انہیں وہ توقعات وامیدیں برپاکرتی ہے جس کا عشرعشیر بھی یسوع عملی طورپرکرنے سے قاصر رہے۔یہی وجہ ہے کہ دوہزارسال سے یہودیوں میں یسوع کی مخالفت کا عنصر کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ ہی رہا ہے اور اس مادے کو مسیحیوں کی وہ تعذیبات وتکالیف بھی کم نہیں کرسکیں جواپنے دوراقتدار میں مسیحیوں نے ظلم کے پہاڑ توڑ کر یہودیوں کو پہنچائیں۔
خدائے تعالیٰ پوادرانہ تلبیسات وتشریحات سے ہٹ کر تاریخی تناظر میں اس تاریخی کتاب عہدجدید کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔وماعلیناالاالبلاغ
 تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
فیس بک پر یہ تحریر پڑھنے کے لیے کلک کریں
مکمل تحریر >>