Pages

Most Popular

پیر، 5 جون، 2017

یسوع اور یہوی ربائی

یسوع اور یہودی ربائی
 دیسی پولوسیوں کے دجل وفریب کا پردہ چاک کرتی ،مستورتاریخی حقائق کوظاہرکرتی ایک چشم کشا تحریر
ازقلم عبداللہ غازیؔ
یسوع ایک ایسی مظلوم ہستی ہیں جنہیں ان کی قومی حیثیت 'یہودی"ہونے کی رو سے کم اور مشرک غیراقوام کی خودساختہ تشریحات کی روشنی میں زیادہ دیکھا جاتا ہے۔یہ رجحان دراصل یونانیت زدہ انجیل نویسوں کی فکری کاوشوں کا اثر ہے کہ وہ اپنے قاری کو یہ باورکرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یسوع ہی عہدعتیق کا موعود"المسیح" ہے جبکہ یسوع کا "المسیح"ہونے کا پورا قضیہ خالصتاًیہودیت سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا یسوع کی درست تصویر اسی وقت واضح ہوسکتی ہے جب یسوع کا خآکہ ان یہودی توقعات کومدنظررکھتے ہوئے کھینچاجائے جویہودیوں کو موعود المسیح سے وابستہ تھیں۔قارئین بائبل عموما اس اہم پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں جس کے باعث انجیل نویسوں کے عہدعتیق کے کھینچ تان کر یسوع پر منطبق کیے گئے اقتباسات کی درست تشریحات اوریہودی توضیحات قارئین کی نظر سے اوجھل رہ جاتی ہے اور یوں وہ انجیل نویسوں کے تار عنکبوت سے بھی کمزور استدلات کو ہی حرف آخر سمجھ کر یہ نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ یسوع ہی عہدعتیق کا موعود المسیح ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔عہدعتیق کی تشریح کرنے کا اولین حق کتاب مقدس کے امین اول یہود کو حاصل رہاہے لیکن اسی کتاب کی مسیحی توضیحات ایسی مضحکہ خیز اور غیرشرعی دعاویٰ پر مشتمل ہوتی ہے جوحقائق سے کوسوں دور اور یہودی مطالب ومعانی سے متضاد ہوتی ہیں جس سے کوئی معقول نتیجہ برآمد نہیں ہوتانتیجاً ایک یہودی یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنے سے مجتنب ہی رہتاہے۔ اسی مسیحی روش کے سبب یہودی روزاول سے ہی یسوع کو بحیثیت یسوع رد کرتے چلے آرہے ہیں کیونکہ یسوع نے ایسا کچھ نہیں کیا جوکتاب مقدس کے مطابق داؤدی المسیح نے آکر کرنا تھا چنانچہ انہوں نے نہ صرف یسوع کو رد کیا بلکہ گمراہیت کا شکار ہوکر یسوع کا پیروکار بننے والے ہر یہودی کو اپنی چنیدہ جماعت میں سے نکال باہر کیا خواہ وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز ہی کیوں نہ ہو۔
انجیل نویسوں نے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ یہودیوں کی بڑی تعداد نے یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرلیا تھا جس میں یہودی ربیائی بھی شامل تھے۔اگر حقیقت حال ایسی ہی ہے تو پھر یسوع کو گرفتاری کے وقت پہچان کروانے کے لیے یہوداہ کو خریدنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ایک طرف تو انجیل نویس بلند آہنگ صور پھونکتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ "دیکھوجہاں اس کا پیروہواچلا" اوردوسری طرف یسوع کی غیرمعروفی کاحال یہ ہے کہ یسوع کی شناخت کے لیے بھی انہیں ایک فرد کو خریدنے کی ضرورت پڑ رہی تھی۔انجیل نویسوں کےاختراعی ایسے پیچیدہ تضادات عموما نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں کیونکہ انجیل نویس کا مقصود قارئین کوعلم الہیات سے متعلق زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا مواد فراہم کرنا تھاتاکہ اس میں گم ہوکر ایک قاری اس تحریرکے تاریخی پس منظرسے واقف ہوکر درست حقائق کا ادراک نہ کرسکے۔عرصہ دراز بعد اناجیل میں کیے جانے والے تصرفات میں یسوع کو یہودیوں کے لیے بحیثیت المسیح قبول کرنے کےالتزام کی کوششیں بھی کی گئیں اور اس کے لیے ڈرامائی انداز میں بعض کرداروں کو اناجیل کے افسانوں میں لانا گیا جو اسٹیج پر آکر اپنا کردار اداکرنے کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں کہ تاریخ کی گرد جھاڑنے پر بھی ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔ایسے افراد میں یوسف ارمتیائی ونیکودیمس نامی یہودی ربی وغیرہ شامل ہیں۔اناجیل میں ان لوگوں کی موجودگی خود اناجیل کا ایک مشکوک عنصر ہے جوکہ فی الوقت ہمارے لیےزیر بحث نہیں ہے۔انجیل نویسوں نے ان افراد کو ڈرامائی اندازمیں اس قضیہ میں شامل توکردیا مگر دیگر کئی جھول اس میں باقی رہ گئے۔جیساکہ نیکودیمس تو فریسی تھا اورانجیل نویسوں کے مطابق تو فریسی یسوع کے بدترین معاندین میں سے تھے تو پھر وہ کیسے یسوع کو قبول کرسکتا تھا؟؟ اناجیل کے مطابق فریسی یسوع کے سب سے زیادہ معتوب رہےاوریسوع جابجا ان پرکڑی تنقید اور شدید مخالفت کرتے رہے۔ یسوع کی طرف سے فریسی علماء کی اصلاح کے بجائے مخالفت ہونے کے باوجودایک فریسی ربائی کایسوع کو قبول کرنا ایک اچھنبے کی بات معلوم ہوتی ہے ۔نفس واقعہ کی صحت کے لیے اس امر کی تنقیح نہایت ضروری ہےنیز اگر اس واقعہ کو درست مان بھی لیا جائے تو بھی یہ ایک افسانوی طرز کا کردار ہی معلوم ہوتا ہے جو مختصر سا رول اداکرکے رخصت ہوجاتا ہے۔ ۔نیکودیمس کے قبول مسیحیت جیسے اہم معاملے میں فقط انجیل نویسوں کے بیانا ت پر ہی اکتفا نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے ٹھوس تاریخی شواہد درکار ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں یہ سارا قضیہ ہی عدم اعتباری کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ بعدازاں یہ شخص ہمیں دو خفیف مقامات کے علاوہ اور کہیں نظر بھی نہیں آتا ہے جس سے انجیل نویسوں کےمخصوص عزائم کی عکاسی ہوتی ہے کہ کس ضرورت کے تحت اس کردار کادخول انجیلی افسانے میں کیا گیا۔ایسا ہی ایک افسانہ لوقاانجیل نویس مقدس پولس کے لیےبھی تراشتے ہیں جہاں وہ پولس کی ابتدائی تربیت بزرگ گملیل کے یہاں ہونا دکھاتے ہیں ۔اگرحقیقت فی نفسہ وہی ہے جو انجیل نویس باورکرانا چاہ رہا ہے تو پھر یہ صورتحال کافی پیچیدہ ہوجاتی ہے کیونکہ گملی ایل جیسا شرع کازبردست عالم ایسے مدرسوں میں تعلیم دیتا تھا جہاں شریعت کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔شریعت کی ابتدائی تعلیم کے تعلم وتعلیم سے اس کا کوئی سروکار نہیں تھا تو پھر کیسے پولس نے ابتدائی تعلیم گملی ایل کے قدموں میں بیٹھ کر حاصل کرلی؟؟جب تک ان امورکی قابل قبول توجیح نہیں ہوتی یہ معاملہ بھی انجیل نویسوں کی تضاد بیانی کی نذر ہوجاتاہے۔
انجیل نویسوں کی غیرمستندوقائع نگاری اور بےجادعاوی کے باعث یہ دعویٰ خاصا ناقابل قبول ہوجاتا ہے کہ یہودیوں نے بالخصوص ربائیوں نے یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کیا۔یسوع کسی بھی ایسی یہودی توقعات پر پورے نہیں اترتے جو یہودیوں نے موعود المسیح سے لگا رکھی تھیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہودیوں کو المسیح کا انتظاررسمی سا تھا،یوحنااصطباغی سے یہودی ربائیوں کےتین استفسار یہودی اضطراب کا غماز ہیں۔
المسیح سے وابستہ یہودی توقعات اس قدر شدید تھیں کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے خودکو یہودی معاشرے سے الگ کرکے روحانی وجسمانی مشقوں کے لیے بیاباں میں سکونت اختیار کرلی تھی تاکہ المسیح کی آمد پر اس کے عظیم الشان استقبال کی تیاری اوراس کے ساتھ مل کر بحالی اسرائیل کےلیے جنگ کی جائے۔تاریخ کے صفحات اس گروہ کو اسینی کے نام سے جانتے ہیں۔
انہی یہودی توقعات کا رنگ ہمیں انجیل میں بھی نظر آتا ہے جب فرشتہ مقدسہ مریم کو نویدیسوع سنانے کے لیے ظاہر ہوتا ہے اور مریم کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔
 "تیرے بیٹاہوگااس کانام یسوع رکھنا۔وہ بزرگ ہوگااورخدائے تعالیٰ کا بیٹاکہلائے گااورخداوندخدااس کے باپ داؤدکا تخت اسے دے گا"۔ 
 لیکن اس پیشنگوئی کواگر یسوع کی عملی زندگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاملہ اس کے برعکس نظرآتا ہے ۔یسوع اپنے جدامجدداؤد کے تخت پر تو قبضہ نہ کرسکے لیکن اس سے دستبرداری کا اعلان پیلاطوس کے بھرےدربار میں کردیا اوریہی اعلان انہیں صلیب پرلے گیاکیونکہ یہود کے لیے یہ بات سوہان روح سے کم نہ تھی کہ ان کا المسیح یہ کہے کہ"میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں"۔ اس موقع پر یسوع کی تصلیب کا چلاچلا کر مطالبہ کرنے والے یہی یہودی لوگ تھے جنہوں نے چند روز قبل یسوع کو بزعم خود اسرائیل کا مسیح موعود تسلیم کرکے کھجور کی ڈالیاں لہراتے ہوئے استقبال کیا تھا لیکن چنددن بعد ہی یہ الفت ومحبت اس قدر بغض وعناد میں بدل گئی کہ وہ یسوع کے لیے صلیب سے کم راضی نہیں ہورہے تھے حتی کہ انہوں نے یسوع کے خون کو اپنی اور اپنی اولاد کی گردنوں پر لے لیا۔یہود کے اس رویہ کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی کہ یسوع اُس یہودی معیار پر ہرگز پورے نہیں اترے جوداؤدی المسیح کا کتاب مقدس کی پیشنگوئیوں کے مطابق تھا۔
حیات یسوع اور کتاب مقدس میں موجودداؤدی المسیح کی پیشنگوئیوں میں بُعدالمشرقین کا تعلق ہےاوریسوع کی ذات میں ایسی کسی پیشنگوئی کی تکمیل نہیں ہوتی۔کتاب مقدس (یسعیاہ باب2) کے مطابق المسیح زمین پر آئے گا،اس کے زمانے میں سارے یہودی اسرائیل کی سرزمین کی طرف جمع ہونگے،اس وقت تمام قومیں پُرامن ہونگی،ہیکل کی دوبارہ سے تعمیرجدید کی جائے گی ،شریعت کو قائم کیا جائے گا،خدا کے لیے جنگ ہوگی جس میں اسرائیل کے خلاف آنے والی تمام اقوام تباہ ہوجائیں گی اوراسرائیل محفو ظ ہوجائے گا۔لیکن کیا ایسا ہوا؟عہدجدید کا مطالعہ سراسر اس کی نفی کرتا ہے کہ یسوع نے کتاب مقدس کے مطابق ایسا کچھ کیا ہو۔اسی طرح سے اگریرمیاہ33 کی روشنی میں ہی داؤدی مسیح کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تویہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ داؤدی المسیح داؤدکی نسل سے ہوگا،وہ ایسا بادشاہ ہوگا جو شریعت کے ساتھ حکومت کرے گا،وہ خدا کے لیے جنگ کرے گا، اسرائیل کی زمین کی حفاظت کرے گا،لاوی النسل کاہن اس کے زیرحکومت رہ کرقربانیاں چڑھائیں گے اور یہ بادشاہ ہمیشہ ان پر حکومت کرے گا۔
مذکورہ پیشنگوئی کی پہلی شق ہی یسوع کے خلاف جاتی ہے۔عالم مسیحیت یسوع کو بغیرباپ فقط کنواری مریم سے پیداتسلیم کرتی ہے جبکہ مقدسہ مریم تولاوی النسل تھیں بھربھلا کیسے یسوع کو داؤد کی نسل سے مانا جاسکتا ہے؟کتاب مقدس کے مطابق داؤدی المسیح کو شریعت کے ساتھ حکومت کرنا تھی جبکہ یسوع کی آمد سے تو مقدس پولس کے بقول شریعت ہی منسوخ ہوگئی حکومت کرنا تو پھر بھی ایک خواب ہی رہا جو کبھی حقیقت نہیں بن سکا۔اسی طرح سے پیشنگوئی کے مطابق المسیح نے آکر خداکے لیے جنگ کرنا تھی جبکہ یسوع ایسا کچھ نہیں کرتے بلکہ تلوار نکالنے والوں کو تلوار نکالنے پر ہلاک ہونے کامژدہ سنا کرداؤدی المسیح کے افعال کے برعکس تعلیم دیتے ہیں۔ پیشنگوئی کے اگلے حصے کے مطابق داؤدی المسیح نے اسرائیل کی حفاظت کرنا تھی جوکہ ہرگز نہیں ہوئی بلکہ الٹا رومیوں نے اسرائیل کی سلطنت ومذہبی مرکز ہیکل کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔یسوع کے حین حیات نہ ہی یسوع کی قیادت میں لاوی النسل کاہنوں نےمذبح پر قربانیاں چڑھائیں اور نہ ہی یسوع نے ان پر حکومت کی بلکہ مقدس پولس تو فرماتے ہیں کہ یسوع کی قربانی کے بعد تو کسی قربانی کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس طرح کی بےشمار پیشنگوئیاں ہیں جن کا اطلاق یسوع کی عملی زندگی پر کیا جائے تو کوئی بھی غیرجانبدار ذی شعورشخص یسوع کو عہدعتیق کا موعود المسیح قرار نہیں دے سکتا۔
عہدجدید ایسا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کرتا جس سے معلوم ہو کہ یسوع نے کسی پیشنگوئی کی تکمیل کی ہوجوکہ عہدعتیق کے عین مطابق ہو۔مسیحی یہ عذرلنگ پیش کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب پیشنگوئیاں یسوع نے اپنی آمد ثانی پر پوری کرنی ہیں۔اس تلبیس کے ابطال کے لیے یہی کافی ہے کہ یہودی صحائف واعتقاد کے مطابق المسیح کا ایک ہی دورہوگا اورکتاب مقدس میں المسیح کی آمدثانی کا کوئی تصور موجود نہیں۔یسوع کی آمدثانی کا تصور مسیحیت میں بہت بعد کی اختراع ہے جسے یسوع کے مشن کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے تراشا گیا۔یہ تصور بھی یہودیوں کے لیے نیا تھا کیونکہ یہودی کسی بھی وقت اس عقیدے کے حامل نہیں رہے چنانچہ ایسے نت نئے عقائد ونظریات نے مسیحیت ویہودیت کے درمیان خلیج کاکام کیا۔ المسیح کے متعلق یہودیوں کامؤقف ہمیشہ یکساں ہی رہا حتی کہ یہودیوں نے ہراس شخص کو اپنی جماعت سےباہرنکال کیا جنہوں نے اس نئے مشرکانہ مذہب کے لیے نرم گوشہ رکھا۔ معززیہودی علماء کرام اور ربی کونسلز ان گمراہ افراد کو خارجی، بدعتی، مرتد، باغی اور غدار قرار دے دیتی رہیں۔ تاریخی اعتبار سے مروجہ یہودیت کے کچھ یہودی علماء نے گمراہ کن نظریات سے متاثر ہوکریسوع کو بطورمسیح ابن داؤد قبول کیا لیکن خدائے واحد کی برگزیدہ اور چنیدہ قوم کے جید علماء کرام اور ربیوں نے متفقہ فیصلے سے ایسے افراد کو یہودیت سے خارج اور بدعتی مشرک قرار دیا۔ان میں سے ایک ربی ڈینیل صیہون تھا۔ ربی ڈینیل 3 اگست 1883 کو پیدا ہوا۔ وہ ہولوکوسٹ کے زمانہ میں بلغاریہ میں یہودی کمیونٹی کا چیف ریبائی تھا، اسں نے مصائب کے زمانہ میں سینکڑوں یہودیوں کو کیمپوں میں پہنچنے میں مدد کی اور بعد ازاں انہیں اسرائیل میں بسنے کے مواقع بھی فراہم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا 1949 کو وہ اسرائیل میں آکر بس گیا جہاں وہ اپنے آخری دم تک مقیم رہا۔ ربی ڈینیل صیہون نے یوسف نجار سے پیدا ہونے والے یسوع کوالمسیح قبول کرلیا۔ اس صورت حال کے باعث انہیں تل ابیب کے مقام پر مند ر ہونے والی یہودی علماء کی مجلس نے ''خبطی'' قرار دے دیا بعد ازاں انکی ربانیکل اتھارٹی ( معلم کا اختیار و عہدہ) بھی منسوخ کردیا گیا اور انہیں خارجی اور غدار قرار دے دیا گیا۔ایک اعلیٰ پائے کے ربی کے گمراہ ہونے پر قوم کے معزز علماء وربائیوں کا یہ طرزعمل دوہزارسالہ تسلسل رکھتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے کسی بھی وقت اور کبھی بھی یسوع کو بحیثیت المسیح قبول نہیں کیاحتی کہ خود یسوع کے زمانے میں بھی لوگ اس معاملے میں متذبذب ہی رہے۔
اسی طرح ربی سام سٹیرن کامعاملہ ہے۔ ربی سٹیرن کا شمار یہودیوں کے فاضل علما میں ہوتا ہے ۔یہ اپنی تالمودی حکمت کیلئے مشہورتھا۔یہ دوسری جنگ عظیم کے وقت وارسا میں پیدا ہوا۔ تین سال کی عمر تک بنیادی بائبلی (یہودی) تعلیمات سے واقف ہوچکا تھا۔ اس نے بھی یسوع ابن یوسف کو بحیثیت مسیح قبول کیا۔ ماڈرن ڈے جوڈا ازم کےجیدعلماء کرام نے متفقہ طور پر سام سٹیزن کی رباینکل اتھارٹی کو منسوخ قرار دیکر اس سے قطع تعلق اختیار کرلیا اوراس کو بھی خوارجیوں کی فہرست میں شمار کرلیاگیا۔
دورجدیدکےبعض یہودی علماء یسوع کو اب بطور فریسی شرعی معلم تو قبول کرلیتے ہیں مگر یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنےسے وہ شروع سے ہی منکر رہے ہیں ۔حال ہی میں وفات پانے والے یہودی علوم پر ہائی اتھارٹی اسکالر جیکب نوزنیئر اپنی معروف کتاب"A Rabbi talks with Jesis”میں لکھتے ہیں کہ"میں اس کتاب میں انتہائی واضح اور بغیر کسی جھجھک کے اس بات کی تصریح کرتا ہوں کہ اگر میں پہلی صدی عیسوی میں یسوع کے وقت ہوتا تومیں ہرگز یسوع کے شاگردوں میں شامل نہیں ہوتابلکہ ان سے شدید اختلاف کرتا۔کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میں مضبوط دلائل،حقائق اور وجوہات کی بناء پر درست مؤقف پر ہوں"۔یسوع کے معاملے میں یہودی علماء دوہزارسال قبل یسوع کے مقدمہ کے وقت بھی متفق تھے اور آج بھی متفق ہیں اور ان کا یہ متفقہ فیصلہ کتاب مقدس کے عین مطابق ہے جو ان میں المسیح کے متعلق انہیں وہ توقعات وامیدیں برپاکرتی ہے جس کا عشرعشیر بھی یسوع عملی طورپرکرنے سے قاصر رہے۔یہی وجہ ہے کہ دوہزارسال سے یہودیوں میں یسوع کی مخالفت کا عنصر کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ ہی رہا ہے اور اس مادے کو مسیحیوں کی وہ تعذیبات وتکالیف بھی کم نہیں کرسکیں جواپنے دوراقتدار میں مسیحیوں نے ظلم کے پہاڑ توڑ کر یہودیوں کو پہنچائیں۔
خدائے تعالیٰ پوادرانہ تلبیسات وتشریحات سے ہٹ کر تاریخی تناظر میں اس تاریخی کتاب عہدجدید کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔وماعلیناالاالبلاغ
 تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
فیس بک پر یہ تحریر پڑھنے کے لیے کلک کریں

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔