دومسیحاؤں کی بابت یہودی نقطہ نظر
پاکستانی پولوسی دجل وفریب کاپردہ چاک کرتی،نظریہ مسیح سے متعلق چھپے ہوئے حقائق ظاہرکرتی ایک تحریر
تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
پاکستانی پولوسی دجل وفریب کاپردہ چاک کرتی،نظریہ مسیح سے متعلق چھپے ہوئے حقائق ظاہرکرتی ایک تحریر
تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
الواح تورات کی تفویض اورکتاب شریعت کی ودیعت کے وقت المسیح کے نظریے کے متعلق موسیٰ علیہ السلام کو کوئی تعلیم نہیں دی گئی تھی یہی وجہ ہے کہ اسفارخمسہ کی کتب اس عقیدے کے بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کرتیں اور نہ ہی موسیٰ علیہ السلام اس اہم معاملے کے متعلق اپنی قوم کو کوئی تعلیم دیتے ہیں۔137عیسوی تک یہودیت میں مسیح موعود یا نجات دہندہ المسیح اورعہدمسیحانہ (Massianic Age)کا کوئی واضح تصور نہیں تھا۔ 586قبل مسیح سے لے کر 175 قبل مسیح تک یہودنامسعود اپنی خوشی اورغم،عروج وزوال اور یروشلم سے متعلق اُس وقت کی بین الاقوامی طاقتوں کی سیاسی کشمکش اور رسہ کشی کو فقط نوشتہ تقدیر خیال کرتے تھےگوکہ کتاب مقدس میں ضمنی طور پر ایسا کثیرمواد موجود تھا جو مستقبل قریب میں ایک معجزانہ قوت کے حامل انسان کے آنے اور اس کے ذریعے دنیا کو شیطان کے شکنجے سے نجات اور نیکی کی طاقتوں کو غالب آنے کی نشاندہی کرتا تھا مگر اس قسم کی پیشنگوئیاں مسیح موعود کی اصطلاح کی مبتدیانہ تخلیق نہ کرسکیں ۔63قبل مسیح میں رومیوں کے ہاتھوں مکابی سلطنت کی تباہی کے بعد یہود کو ایسے الہیاتی عنصر کے فقدان کا شدت سے احساس ہوا جو ان کی تعذیب مسلسل اور ابتلامدید کے درمیان مستقبل میں ان کی نشاط ثانیہ اور نجات کلی کا ضامن بنے۔اسی فکر کے بطن سے یہودیت میں عصرِآزمائش کے خاتمہ کے نئےتصوراور اس کو بنیاد فراہم کرنے والے ادب(Apocalyptic Literature) نے جنم لیا۔اسی تصور کے ساتھ ساتھ ایک مسیحانہ نجات دہندہ کے نظریے نے بھی یہودیت میں اپنی جڑیں نکال لیں اور کتاب مقدس نے اس ارتقائی نظریہ کو بھرپورمواد فراہم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
بخت نصر بادشاہ کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کی سلطنت کی تباہی اور بنی اسرائیل کے قبائل عشرہ کی بابل میں بدترین غلامی ،بالآخرگمنامی کے بعد یہودیوں نے خیال کیا کہ جس طرح یہوداہ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے داؤدوسلیمان علیہماالسلام کی صورت میں قوم یہود کو رفعت وتوقیر نصیب ہوئی تھی اسی طرح بنی اسرائیل کی شوکت وعظمت گم گشتہ بھی دوبارہ اسی قبیلے سے بحال ہوگی۔چنانچہ ورودِمسیح کے نظریہ کو تخم داؤد سے متصل کردیا گیا اور یہوداہ کے قبیلے میں فرزندان داؤد یہودی قوم کی امیدوں کا مرجع بن گئے۔
المسیح کے متعلق کی جانی والی الہیاتی پیشگوئیوں کی تشریحات کرنے میں ربائیوں نےقدرے غلو سے کام لیا اور المسیح کی آمدکے تصور میں ایسے شاخ وبرگ لگائے کہ یہودعوام نے منتظرفرداں ہوکر اپنے روشن مستقبل کی توقعات المسیح سے وابستہ کرلیں۔(یہودیوں کوالمسیح سے کیا توقعات وابستہ تھیں اس بارے میں محترم جناب ظفراقبال صاحب ایک معرکۃ آلاراء مضمون "یہودی تصورمسیح"لکھ چکے ہیں وہاں سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔)المسیح کی آمدکے حوالے سے اس قدر غلو اختیار کرنے کے باوجودان میں ایسا کوئی نظریہ پیدانہیں ہوا تھا جس میں المسیح کی حیثیت گناہوں سے نجات دینے والے نجات دہندہ کی ہو،بلکہ وہ المسیح کی آمد پرایک زبردست جنگی معرکہ کےذریعے سیاسی غلبہ اوراسرائیل کی مملکت کی بحالی کے خواہاں تھے۔ اس ضمن میں یرمیاہ نبی کی پیشنگوئی شہرہ آفاق حیثیت رکھتی ہے جس میں وہ شمال سے ایک نجات دہندہ آنے کی خبردیتے ہیں۔
یہودی سمجھتے تھے کہ المسیح قوم کو یکجاکرکے یہودیوں کی سیاسی اور روحانی ابتری کوجڑسے اکھاڑ پھینکے گا اور وہ ایسی مرکزی حکومت قائم کرے گا جہاں یہودوغیریہود دونوں ہی رہیں گے۔ان کی یہ تفہیم یسعیا کی اس عبارت سے مستعار تھی۔
اس روز یسّی کی اس جڑکوکہ جوامت کےلیےجھنڈےکی طرح قائم ہےغیر قومیں تلاش کریں گی اوراس کی جائےسکونت جلیل ہوگی۔اوراس روزخداوند اپناہاتھ پھر بڑھائےگاتاکہ اپنی امت کاوہ بقیہ واپس لائےجواشوراورمصراور فتروس اورکوش اور عیلام اورشنعاراورحمات اورسمندرکےجزائرسےبچ رہے۔اوروہ قوموں کےلیےجھنڈا کھڑاکرےگا۔اوراسرائیل کےاسیروں کوفراہم کرےگا۔۔۔۔اوریہودہ کےدشمن نیست ہوں گے۔اشعیااا:اا
یہودیوں کو یہ امید بھی وابستہ تھی کہ المسیح نے انہیں موعودسرزمین کنعان واپس دلوانی ہے کیونکہ یرمیاہ نبی پیشنگوئی کرچکے تھے کہ
وہ دن آتےہیں کہ میَں اپنی امت اسرائیل اوریہودہ کی قسمت بدل دوں گا۔۔۔اورانہیں اس سرزمین میں واپس لاؤں گاجومیَں نےان کےباپ داداکوعطاکی۔۳۰:۳
یرمیاہ نبی کے خیال کے مطابق یہودی یہ سمجھتے تھےکہ مسیح ہیکل کی تعمیر ثانی کرے گااوراس میں نئے سرے سے عبادت شروع ہوگی۔وہ یہود کی مقدس مذہبی عدالت بھی قائم کرےگااور یہودی شریعت کانفاذ بھی کرے گا۔
وہ دن آتےہیں کہ میَں اس نیک کلمہ کوپوراکروں گاجومیَں نےاسرائیل کےگھرانےاوریہودہ کےگھرانےکےحق میں کہاتھا۔ان دنوں میں اوراس وقت میں میَں داؤدکےلیےایک صادق کونپل پیداکروں گا۔اوروہ زمین پرعدل اورصداقت کاکام کرےگا۔انہی ایام میں یہودہ نجات پائےگا۔اوریروشلیم اطمینان سےسکونت کرےگا۔۔۔۔داؤدکےلیےاسرائیل کےگھرانےکےتخت پربیٹھنے کےلیے مردکی کمی نہ ہوگی۔اورنہ لاوی کاہنوں کےلیےمیرے حضورایسےمرد کی کمی ہوگی جوسوختنی قربانی چڑھائے۔اورنذروں کی خوشبوجلائےاورہمیشہ کےلیے ذبیحہ ذبح کیاکرے۔یرمیاہ۳۳:۴ا
الغرض کہ یہودیوں میں المسیح سے متعلق مختلف توقعات وابستہ تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی المسیح کے متعلق یہ تصورنہ کیا کہ وہ مصلوب کیا جائے گا اور مردوں میں سے جی اٹھے گا۔(مردوں کی قیامت کا مسئلہ بھی یہودیت میں مختلف فیہ رہاہے،یسوع کے معاصرین صدوقی یہودیوں کا ایک بڑا گروہ اس عقیدہ سے منحرف رہاہے،جدید محققین کے مطابق یہودیت میں حیاۃ بعدالمماۃ کا تصور ایک ارتقائی نظریہ ہے جس نے بابلی اثرات کے تحت یہودیت میں جڑ پکڑی)لہٰذا یسوع کو بحیثیت المسیح رد کرنے میں مقدس پولس کا تراشیدہ یہ عقیدہ بھی یہود نامسعود کےلیے سدسکندری بنا رہا۔
یہودی ربائیوں کی انواع واقسام کی تشریحات کے نتیجے میں منقسم الخیال یہودیوں میں المسیح کی شخصیت سے متعلق مختلف تصورات پیدا ہوگئے۔یہودیوں کا اسینی گروہ دو مسیحیوں کی آمد کا قائل تھا جن میں سے ایک کا تعلق یہوداہ کے گھرانے سے تو دوسرے کا تعلق لاوی کے گھرانے سے تھے۔مراتب کے لحاظ سے لاوی النسل ہارونی مسیح کو داؤدی مسیح پر فوقیت حاصل تھی۔تمام مذہبی معاملات ہارونی مسیح کے ذریعے سرانجام پانے تھے جبکہ داؤدی المسیح مثل داؤد جنگجو اور طاقت ور بادشاہ ہونا تھا جس نے زبردست جنگ کے بعد فتح سے ہمکنار ہوکر اسرائیل کی کھوئی ہوئی سلطنت کو بحال کرنا تھا ۔دومسیحیوں کا نظریہ انہوں نے کتاب مقدس میں شامل زکریا کے صحیفے کی آیت سے مستعار لیا تھا جہاں مندرج تھا کہ"یہ وہ دو ممسوح ہیں جورب العالمین کے حضور کھڑے رہتے ہیں"۔(زکریا4:14)
اسینی یہودیوں کے برعکس دیگر یہودی روایات بھی اسی طرز کے عقیدے کی عکاسی کرتی ہیں لیکن وہاں موعود مسیحاؤں کی تعداد دوکے بجائے چار ہے۔اس سلسلے میں ایک روایت درج ذیل ہے۔
'اور خداوند نے مجھے چار ہنر مند دکھائے یہ چار ہنر مند کون تھے ؟ ربی حنّا بن بیزنا نے پڑھا ربی سیمون حسیدا نے جواب دیا: مسیح ابن داؤد، مسیح ابن یوسف، ایلیاہ اور راست باز کاہن''
بابلی تلمود، کتاب موعید، فصیل سوکا، 52 الف
یہودی علماء کے مطابق اس نظریہ میں ایک مسیح ابن یوسف ہے جو کہ حقیقی طور پر فرزنداسرائیل یوسف کی نسل سے ہوگا اورروایات کے مطابق دوران جنگ قتل کیا جائے گا جبکہ دوسرا مسیحِ ابنِ داؤد ہے جو مسیح بادشاہ کے اوصاف پر مشتمل کردار ہے۔تیسرا کردار ایلیا کا ہے جس نے ملاکی نبی کی نبوت کے مطابق مسیح کی آمد سے قبل نقیب کا کردار اداکرنا تھا۔چوتھی شخصیت راست باز کاہن کی ہے جسے اسینی دستاویزات میں استادصادق کے لقب سے پکارا گیا ہے۔چونکہ ہماری مبحوث تحقیق مسیحاؤں کے نظریہ سے متعلق ہے لہذا ہم مقدم الذکر شخصیات کے متعلق ہی کلام کریں گے۔
مسیح ابن یوسف
اس نظریہ کی بنیاد تورات کے ماخذات اور وہ حالات و واقعات ہیں جو یوسف ابن یعقوب(اسرائیل) ابن اسحاق ابن ابراہام کے ساتھ پیش آئے، یوسف ابنِ یعقوب کا اپنے بھائیوں کے ہاتھوں دکھ اٹھانا، قید و بند کی صعوبتیں سہنا، بعد ازاں سرفرازی پانا، غیر اقوام میں مقبول ہونا، اسرائیل اور بنی اسرائیل کی مشکل دور میں مخلصی کرنا اور نجات دہندہ ٹھہرنا جیسے واقعات کے تقابل سے یہ نظریہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔ابن یوسف کا ابن داؤد کی طرح ہونا دراصل اس نام کے بزرگوں کی نسل میں سے ہونا تھااور اس کاماخذ بھی یہی اشارہ کرتا ہے کہ "ہمارے باپ یعقوب نے غیب بینی کی کہ صرف عیسو کی نسل ،یوسف کی نسل کے سپرد کی جائے گی جیساکہ کہا گیا ہے کہ "تب یعقوب کا گھرانہ آگ ہوگا اور یوسف کا گھراناشعلہ اور عیسوکاگھرانہ پھوس اور وہ اس میں بھڑکیں گے اور اس کو کھا جائیں گے"۔(عبدیاہ18)(B.B. 123b)
مسیح ابن داؤد
یہ نظریہ بھی تورات کے ماخذات، استعاروں، اشاروں اور واضح پیشن گوئیوں پر مشتمل ہے۔تورات میں جابجا ایک ایسے ممسوح فرما نروا کا ذکر بطور ابن داؤد ملتا ہے جس سے منسوب اقوال اور پیشن گوئیاں بتاتی ہیں کہ یہ زمین پراسرائیل کی سلطنت کوبحال کرے گااورخدا کی بادشاہت قائم کرے گا اسکے ایام ( زمانہ مسیح ) میں زمین پر عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا، یہ ہیکل مقدس کی تقدیس (دوبارہ تعمیر) کرے گا یعقوب کی آل سے کینا و بغض رکھنے والوں کو شکست فاش دے گا اور شریعت موسوی کو بحال کرے گا۔
یسوع اور نظریہ مسیح
علماء یہودشروع سے ہی یسوع کو مسیحِ موعودتسلیم کرنے سے شدت کے ساتھ منکر ہے۔اس انکار کا محرک نظریہ مسیح کے ساتھ ساتھ کتاب مقدس کی المسیح سے متعلقہ وہ نبوتیں بھی ہیں جن کی تکمیل کا خواب یسوع کی ذات میں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔سب سے بڑا سوال تو المسیح سے قبل ایلیاہ کی آمد کا تھا جس کا کوئی تسلی بخش جواب یسوع بیان نہیں فرماتے پھر بھلا کیسے شرع کے عالم اور فقہاء یسوع کے مسیح صادق گمان کرسکتے تھے؟دوسرا مسئلہ حکومت وقت کا تھا جس کے خلاف موعود مسیح نے آکر بغاوت کرنا تھی اور ایک جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی سلطنت کو بحال کرکے ان کی شوکت وعظمت گم گشتہ کو لوٹانا تھا لیکن یسوع نے ایسی کوئی سرگرمی اختیار نہیں کی جسے دیکھ کر یہودی یسوع کے ساتھ جمع ہوتے اور رومی حکومت سے جنگ کرتے بلکہ یسوع نے تو تلوار چلانے والوں کو ہلاک ہوجانے والا تک قرار دے دیا تھاایسی حالت میں یہود یسوع کو بحیثیت مسیح ردکرنے میں حق بجانب تھے ۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہودیوں نے کلی طور پر یسوع کی دعوت کا بائیکاٹ کرکے رکھا بلکہ ایک بڑی تعداد نے ان کواپنی امیدکامرکز سمجھ کر اس کے ہاتھوں اسرائیل کی خلاصی کی امید کرتے ہوئے المسیح کی حیثیت سے قبول بھی کیا جیساکہ سائرین عمواس کی گفتگو سے بھی اندازہ ہوتاہے۔
"یسوع ناصری کاماجرا جو خدااورساری امت کے نزدیک کام اور کلام میں قدرت والا نبی تھا اور سردارکاہنوں اور ہمارے حاکموں نے اس کوپکڑوادیاتاکہ اس پر قتل کاحکم دیا جائے اور اسے مصلوب کیا۔لیکن ہم کو تو امید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دے گا۔"(لوقا24:19،21)
یسوع کی ذات سے پیوست یہودی عوام کی یہ تمام امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب مقدمہ کے وقت یہودی عوام اور حاکم کے سامنے یسوع نے کہا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں۔یسوع کا یہ جملہ یہود کی ان تمام دنیاوی توقعات پر پانی پھیر گیا جن کا حصول المسیح کی آمد کے ساتھ وابستہ تھا اوراسی مقصد کے تحت وہ یسوع کے ساتھ منسلک ہوئے تھے۔دنیاوی بادشاہت کے اس انکار کے ساتھ ہی یہودی عوام کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے اور وہ یسوع کے دعویٰ مسیاح کو کتاب مقدس کے خلاف پاکر حاکم وقت سے اس کو صلیب دینے کی اپیل شروع کردیتے اور اس کا خون ناحق اپیس اور اپنی اولاد کی گردنوں پر لے لیتے ہیں۔
وجوہات کے انبوہ کثیر میں سے یہ چند توجیہات ہیں جن کے باعث یہودی شدت کے ساتھ یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنے سے مجتنب رہے اور آج تک وہ یسوع کو المسیح تو کجا صادق نبی تک قبول کرنے سے تیار نہیں۔اگرچہ انجیل نویسوں نے رنگ آمیز اسلوب کے ساتھ اس امر کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے کہ معززفریسی علماء نے یسوع کو قبول کرلیا تھا مگر انجیل نویسوں کے اس ادعا کی تاریخی وقائع نگاری انتہائی مشکوک ،یہودی توقعات،ربائی روایات اور خود انجیل نویسوں کے بیان سے باہم مخالف ہے۔اس موضوع پر ہم اپنے مضمون "یسوع اور ربائی"میں گفتگوکرچکے ہیں اس ضمن میں وہاں سے استفادہ کیاجاسکتا ہے۔
اسینی نظریہ مسیح سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ربائی روایات کا اطلاق یسوع کی شخصیت پر کیا جائے تو صورتحال مزید گھمبیر ہوجاتی ہے۔روایات کے مطابق مسیح ابن یوسف نے یوسف نبی کی نسل سے ہونا تھا جبکہ یسوع کسی طرح سے بھی یوسف کی نسل سے ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ انجیل نویس انہیں داؤد کی نسل سے باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں داؤد کے گھرانے کا موعود المسیح قرار دیا جاسکے لیکن بات بننے کے بجائے اور بگڑ جاتی ہے۔یسوع کوابن داؤدتسلیم کرنے سے قبل اسے یسوع نجار کی اولاد ماننا پڑے گا اور یہ حقیقت قبول کرنے سے کلیسیاء کے دوہزارسالہ کنواری مقدسہ مریم کے عقیدے پر ضرب پڑتی ہے کیونکہ مریم تو لاوی کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ،اگر یسوع ابن مریم ہی ہیں تو پھر وہ لاوی النسل ہوسکتے ہیں داؤد کے گھرانے سے ہرگز نہیں اور جب وہ داؤد کے گھرانے سے ہی نہیں تو وہ داؤدی مسیح ہو ہی نہیں سکتے۔لیکن اگر یسوع کو داؤدی النسل ہونے کا مفروضہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو بھی یسوع ان یہودی امیدوں اور توقعات پر عشرعشیر بھی پورے نہیں اترتے جن کا اتصال یہود،موعودمسیح کے واردہونے سے کرچکے تھے۔
المسیح کا موت کے بعدجی اٹھنا اور یہود
موعود مسیح کی موت اور دوبارہ جی اٹھنے سے متعلق تشریحات بھی ربائی لٹریچر میں پائی جاتی ہیں مگر وہ روایات اس تناظر اورپس منظر سے تعلق نہیں رکھتیں جو یسوع کے بعد مسیحیوں میں غیراقوام سے مستعار پولوسی نظریات کے تحت وجود میں آئیں۔المسیح کے جی اٹھنے کے متعلق ایک روایت یہ ہے۔
ہمارے ربیوں نے سیکھایا : القدس تبارک و تعالی نے مسیح ابن داؤد ( وہ جلد خود کو ہمارے دنوں میں ظاہر کرے) سے کہ: ''مجھے سے جو مرضی مانگ اور میں تجھے دوں گا'' جیسا کہ کہا گیا ہے: میں اُس فرمان کو بیان کرونگا۔ خُداوند نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔ آج تُو مجھ سے پیدا ہوا۔ مجھ سے مانگ اور میں قوموں کو تیری میراث کے لئے اور زمین کے اِنتہائی حصے تیرے ملکیت کے لئے تجھے بخشونگا۔(زبور7:2-8) مگر جب وہ (مسیح ابن داؤد) دیکھئے گا کہ مسیح ابن یوسف قتل کیا گیا تو وہ کہے گا: اے مالک کائنات میں تجھے سے محض ایک چیز مانگتا ہوں ''حیات کا تحفہ'' تب خداوند جواب دے گا: تیرے باپ داؤد نے تیری پریشانی کی بابت پہلے ہی نبوت کی رو سے لکھا '' اُس نے تجھ سے زندگی چاہی اور تُو نے بخشی۔ بلکہ عمر کی درازی ہمیشہ کے لئے'' (زبور 4:21)
بابلی تلمود، کتاب موعید، فصیل سوکا، 52 الف
روایات کے مطابق جب جنگ کے دوران مسیح ابن یوسف قتل کردیاجائے گاتو مسیح ابن داؤد خدا سے دعامانگ کر پھر اُسے زندہ کرے گا۔یہاں ایسا کوئی مشرکانہ عقیدہ نہیں پایاجاتا کہ وہ مرجائے گا اور تین دن بعد خودبخود جی اٹھے گا۔یہ مسیحی اعتقاد عہدعتیق اور تالمودی روایات کے سراسر خلاف اور مقدس پولس کے اختراعی افکار کے سوا کچھ نہیں اوراس کا یہودیت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
ادعا مسیح اور یہود
مکابی حکومت کےسقوط اور رومی عتاب کے تحت آجانے کے بعد جہاں یہودیوں میں مسیح موعود کا نظریہ پروان چڑھا وہیں اس نظریہ کی تکمیل کی سعی کرتی بہت سی شخصیات کا بھی ظہور ہواجنہوں نے اپنے قول و عمل سے خود کو مسیح موعود کی عملی تفسیر بنانے کی جہدمسلسل کی بالآخر ان کی کوشش قابض حکومتی افواج کے ہاتھوں پامال ہوئی اور وہ پراگندہ کرکے تہہ تیغ کردیئے گئے۔یہودی تاریخ ایسے افراد کے قصص سے لبریز ہے جو مسیح ہونے کا دعویٰ لے کر اٹھے اور حکومت وقت کا عسکری سامنا کرتے ہوئے مارے گئے۔عہدجدید میں بھی ایسے تین مشہوریہودی حریت پسندوں کا تذکرہ موجود ہے جنہوں نے رومی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور فوجی مزاحمت کے دوران مارے گئے۔
مسیحیت نے جب رومی سلطنت کے سرکاری مذہب کی حیثیت اختیار کرلی تو اس کےبعد مقدس مذہبی لٹریچر میں تصحیح وتصریف کا عمل شروع ہوا اور متصرفین نے اناجیل کو مرتب ثانی کرتے وقت اُُس وقت کے سیاسی حالات کی ایسی تصویر پیش کی گویاکہ یہودیہ کا علاقہ رومی حکومت کی چھتری تلےآمن وآتشی کا گہوارہ تھااور یہودی رومی حاکم کی حکومت کے زیرسایہ ایک پرسکون زندگی گزار رہے تھے جبکہ حقیقی صورتحال اس کے برعکس تھی۔ یسوع کے حین حیات یہودیہ کا علاقہ جنگوں اوریہودی بغاوتوں کا گہوارہ تھا اور یہاں بڑی تعداد میں یہودی حریت پسندی کی خفیہ واعلانیہ تحاریک چل رہی تھیں جس کی سرکوبی کے لیے رومی افواج وجاسوس پوری طرح سرگرم تھے۔یسوع کا تمثیلی انداز میں اپنے تحریکی ساتھیوں سے کلام کرنا اس امر کا غماز ہے کہ وہ جابجا بکھرے ان رومی جاسوسوں سے کتنا محتاط تھے ۔ان کی کمال احتیاط کے باعث ہی ان کی تحریک تین سالوں تک محیط ہوگئی لیکن اس دوران بھی انہوں نے کبھی زبان سے المسیح ہونے کا علی الاعلان دعوی نہیں کیاکیونکہ یہ اعلان ہی دراصل حکومت وقت کے خلاف خود کو بادشاہ کے طورپر پیش کرنا تھا۔
یسوع کی تحریک بھی ایک خفیہ حریت پسند تحریک تھی جس میں یہوداہ اسکریوطی جیسے اسکریوٹ اور شمعون غیور جیسے زائیلوٹ موجود تھے۔ان جنگجوؤں اور شدت پسند تحاریک سے متعلق افراد کا یسوع کی تحریک میں شامل ہونا یسوع کی تحریک کی رومی حکومت کے خلاف شدت پسندی کاظہور ہے جس سے انجیل نویسوں نے عمدا اعراض کیا ہے۔
اناجیل میں کیے جانے والے ان تصرفات سے مقصود حکومت وقت کی خوشنودی تھی تاکہ مقتدرحلقوں کی طرف سے یسوع کی تحریک کو رومی حکومت کے مخالف خیال نہ کیا جاسکے۔ان تغیریات وتبدل کے باوجود اناجیل میں ایسے تاریخی نشانات باقی رہ گئے جو حریت پسند یہودیوں مدعیان مسیح کا پتہ دیتے ہیں۔اناجیل میں مستور ان مدعیان میں سے ایک یسوع کی حین حیات ،6عیسوی میں حکومت وقت کے خلاف بغاوت برپا کرنے والا یہوداہ گلیلی بھی ہے جس کا ذکر اعمال 5:37 میں ملتا ہے۔جوزفیس کے مطابق اس کے دودفرزند یعقوب اور شمعون کو قیصرطبریاس نے مصلوب کرکے مار ڈالا جبکہ اس کا تیسرا فرزندمناہیم اسکریوٹ نامی تحریک کا بانی بنا اور ایک طویل عرصہ تک طاقتور رہنما رہا بالآخر سردارکاہن کی جماعت کے ہاتھوں قتل کردیا گیا۔
یہوداہ گلیلی کےبعد کچھ عرصے بعد تھیوداس نے المسیح ہونےکا دعویٰ کرکے بغاوت کردی۔چارسوکے قریب اس کے دعویٰ پر لبیک کہتے ہوئے یہودی رومیوں کے خلاف اس کے دست راست بنےاور رومیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔تیسری ہستی خنجربردارمصری کی ہے جس کا ذکراعمال 21:36 میں موجود ہے۔اس نے چارہزار یہودی عسکری جنگجوؤں کے ساتھ مسلح بغاوت کی اوربالآخر تہہ تیغ کردیئے گئے۔
مدعیان مسیح موعود کے یکے بعد دیگر ظہور اور یہودیوں کی طرف سے ان کی بھرپور تائید ونصرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نےدومسیحیوں کے تراشیدہ نظریے پر اکتفاکرنے کے بجائے وقتاً فوقتاً اسرائیل کی سلطنت کی بحالی کے لیے کھڑے ہونے والے ہرمدعی مسیح کو اپنی امیدوں کا محور سمجھا اور ان کی بھرپور تائید کی ۔ یہودیوں نے کبھی بھی ان افراد کو تعذیب وتعصب کانشانہ نہیں بنایا جنہوں نے مختلف افراد کو بحیثیت"المسیح"قبول کیابلکہ ان کی فکری ہمدردی بھی ان مدعیان اوراس کی جماعت کے ساتھ ہی رہی۔اس کاثبوت اناجیل میں مندرج اس واقعہ سے ملتا ہے جب فریسی یسوع کے پاس آکر اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ پیلاطوس اسے قتل کرنے کی فکر میں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بزرگ گملیل کی تقریر بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے جہاں وہ سنہڈرین میں یسوع کے ساتھیوں کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں،
"ان آدمیوں سے کنارہ کرواوران سے کچھ کام نہ رکھو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سےبھی لڑنے والے ٹھہرو کیونکہ یہ تدبیر یاکام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہوجائے گالیکن اگر خدا کی طرف سے ہے توتم ا ن لوگوں کومغلوب نہ کرسکو گے"۔( اعمال باب 5 فقرہ 38 تا 39)
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو یسوع یا کسی بھی شخص کو بحیثیت المسیح قبول کرنے والوں سے کوئی سروکار نہیں تھا بلکہ یہودی عوام کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہمنوا رہی ہے۔
تالمود میں المسیح کی شخصیت اور تعیین کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں کہ حالات وواقعات کے ساتھ ساتھ لوگوں کی المسیح کے بارے میں ترجیحات بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ حزقیاہ المسیح ہے۔ان لوگوں میں ربائی یوحنابن زکائی بھی شامل تھا جس نے بستر مرگ پر اپنے شاگردوں سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ "یہودیاہ کے بادشاہ حزقیل کے لیے تخت تیار کرو جوکہ آنے والا ہے"۔(Ber. 28b)اس کے الفاظوں کو عام طور پر المسیح کی آمدکاپیش خیمہ سمجھا گیاہے،پہلی صدی عیسوی کا یہ بزرگ المسیح کی شناخت حزقیاہ کے طور پرکرتا ہے۔کچھ بزرگوں نے المسیح کی شناخت داؤد کی حیثیت سے کی ہے اور اس کا استنباط کتاب مقدس کی اس آیت سے کرتے ہیں کہ"اس کے بعدبنی اسرائیل رجوع لائیں گے اور خداونداپنے خدااوراپنے بادشاہ داؤد کو ڈھونڈیں گے اور آخری دنوں میں ڈرتے ہوئے خداوند اور اس کی نیکی کے طالب ہوں گے"۔(ہوشیع3:5)یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ داؤدی المسیح داؤد نبی ہی تھےبلکہ یہ ان سے مختلف کوئی دوسری ہستی ہے جسے ان کے اخلاف میں مبعوث ہونا تھا۔تالمود کی روایت ہے۔
Rab declare, the Holy One, blessed be Hem will here after raise up for Israel another David as it is said, "But they shall serve the LORD their God, and David their king, whom I will raise up unto them" is not stated "has rised" but "will raise" (Sanh, 98)
اسی طرح ربائی نکمان کے لیے آتا ہے کہ انہوں نے ربائی اسحاق سے پوچھا کہ کیا آپ نے بارنفلی کے بارےمیں سنا ہےجوکہ آنے والاہے؟ربائی اسحاق نے اس سے پوچھا کہ بارنفلی کون ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ وہ المسیح ہے۔(Sanh. 96b) مختلف یہودی ربائیوں نے المسیح کی شخصیت کے تعیین میں اختلاف شدید کیا ہے ۔بہت سے لوگ المسیح کو سمجھنے میں بھی غلطی کر بیٹھے۔ایسی ہی ایک غلطی 132 عیسوی میں برپاہونے والی ایک آزادی کی تحریک کے وقت پیدا ہوئی جب بارکوکبا نامی یہودی جنگجو نے رومی سلطنت کو شکست دےکر ایک آزاد یہودی حکومت قائم کرلی اور تین سال تک حکمران رہا۔بارکوکبا کی تحریک اور عملیات اس قد ر مضبوط تھیں کہ ربائی عقیبہ جیسے بیدارمغز انسان نے اس کو بحیثیت المسیح قبول کر لیا تھا۔لیکن ربائی یوحنان بن طورطا نے اسے کہا کہ "عقیبہ تیرے رخساروں پر گھاس تو اُگ آئے گی مگر ابن داؤد کی آمد نہیں ہوگی"۔(p. Taan. 68d)۔ یہودی سواد نے اس کی شکست کو اس کے دعویٰ مسیحیت کے غیرصحیح ہونے پر محمول کیا لیکن ربائی عقیبہ نے یہ تاویل کرکے اس کےمشن کو آگے بڑھایا کہ کسی مسیح موعود کے دعویٰ مسیاح کو صرف اس بنیادپرردکرنا صحیح نہیں ہے کہ اسے دنیاوی افواج کے مقابلے میں شکست ہوئی ہے۔کہاجاتا ہے کہ وہ دوران قتل کلمہ شمع اسرائیل کا ورد کررہاتھا۔
یہودی اہل تصوف مسیح موعود کو ایک روحانی شخصیت کی حیثیت سے جانتے ہیں جو روحانی افکار کی اساس پر خداکی بادشاہت قائم کرے گا۔اسی بنیاد پر بیسویں صدی کے آخر میں یہوداہ تصوف کے سلسلہ لباوتک خاسدیمیہ کے ربائی مناخیم میندل نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔اس سے قبل سترہویں صدی عیسوی میں ایک ربائی شبتائی زوی ترکی سے نقل مکانی کرکے فلسطین آئے تو اسے مسیح موعودقرار دے دیاگیابعدازاں شبتائی نے اسلام قبول کرلیا۔شبتائی کے پیروکار اس کے قبول اسلام کوبلندی درجات سے قبل لازمی تحقیرمسیح سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ بھی خیال پیش کیاجاتا ہے کہ شبتائی نے اپنا گلا کٹوانے کے بجائے اسلام کا مصنوعی لبادہ اوڑھ کر کسی غیرحتمی مسیح موعود کے انتظار کو ترجیح دی ہے کیونکہ مسیح کے انتظار میں رہنا یہودی علم الکلام میں لازمی سمجھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے پہلی صدی عیسوی کے مشہور ربائی یوحنان بن زکائی کاقول معروف ہے کہ "اگر تمہارے ہاتھ میں ایک ننھا پوداہواورالمسیح کی آمد کا اعلان ہوجائے تو وہ پودالگاکرالمسیح کے استقبال میں لگ جاؤ"۔
مسیح موعود کے نام لے کر اٹھنے والے مذہبی شخصیات کی ناکامیوں نے جدیدالخیال لوگوں کو ایک وقت ایسا بھی سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب کوئی مسیح نہیں آنے والا ہے۔اس سلسلے میں پہلا اعلان ربائی ہللیل نے چوتھی صدی عیسوی میں کیا کہ " اسرائیل کے پاس کوئی اب آمد کے لیے کوئی مسیح نہیں رہا۔"(Sanh 98b)
1885 میں پیٹسبرگ کی کانفرنس کے موقع پر آج کے جدیدالخیال یہودی نظریہ مسیح موعود کو یہودی مذہب کا ایک غیرضروری عنصر کہہ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں۔ یہودنامسعود کا یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ اختراعی روایات کا جو قلاوہ ان کے آباء نے ان کے گلے میں ڈالا تھا وہ انہوں نے اپنے گلے سے نکال کر خود کو آزاد کرلیا تھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو اپنی چونتیس سوسالہ تاریخ میں کبھی بھی المسیح کی آمد سے کسی گناہوں کی نجات کی امید وابستہ نہ تھی بلکہ وہ المسیح کی آمد سے سیاسی غلبہ اور دنیاوی سلطنت کی حصول کے خواہشمند تھے۔اگر ان کا مقصود روحانی نجات ہوتی تووہ کبھی بھی اس کی آمد کا انکار نہیں کرتے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی واضح ہوتا ہے کہ المسیح کی ذات مثل موسیٰ سے جدا ہے تبھی یہودنامسعود نے بآسانی المسیح کی آمد کاانکار کردیا وگرنہ مثل موسیٰ کے انکار پر عذاب الٰہی کے نزول کی وعید کے ہوتے ہوئے المسیح کا انکار کرنا ان کے لیے اتنا سہل نہ ہوتا۔
یہود کے نزدیک یہ دانشمندی نہیں کہ ایک لاحاصل بحث میں خود کو الجھا کر کسی غیرموجود کے آنے کے انتظار میں اپنی زندگی کھپائی جائے۔مسیح کوآنا ہے تو آجائے نہ آنا تونہ آئے موت کو تو آنا ہے۔خدائے تعالیٰ ہمیں صحیح فہم کے ساتھ تاریخ کو سمجھنے اورحق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
Bibliography
Everyman’s Talmud, Abraham Cohen, Schocken Books Inc New York 1975
World Religion: The illustrated guide, Michael D. Coogan, Duncon Baird Publication, London
How to be a Perfact Stranger: The essential Religious Etiquette Hand Book, Staurt M, Matlins, Sky light Path Publishing, 2006 4th Edition
بخت نصر بادشاہ کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کی سلطنت کی تباہی اور بنی اسرائیل کے قبائل عشرہ کی بابل میں بدترین غلامی ،بالآخرگمنامی کے بعد یہودیوں نے خیال کیا کہ جس طرح یہوداہ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے داؤدوسلیمان علیہماالسلام کی صورت میں قوم یہود کو رفعت وتوقیر نصیب ہوئی تھی اسی طرح بنی اسرائیل کی شوکت وعظمت گم گشتہ بھی دوبارہ اسی قبیلے سے بحال ہوگی۔چنانچہ ورودِمسیح کے نظریہ کو تخم داؤد سے متصل کردیا گیا اور یہوداہ کے قبیلے میں فرزندان داؤد یہودی قوم کی امیدوں کا مرجع بن گئے۔
المسیح کے متعلق کی جانی والی الہیاتی پیشگوئیوں کی تشریحات کرنے میں ربائیوں نےقدرے غلو سے کام لیا اور المسیح کی آمدکے تصور میں ایسے شاخ وبرگ لگائے کہ یہودعوام نے منتظرفرداں ہوکر اپنے روشن مستقبل کی توقعات المسیح سے وابستہ کرلیں۔(یہودیوں کوالمسیح سے کیا توقعات وابستہ تھیں اس بارے میں محترم جناب ظفراقبال صاحب ایک معرکۃ آلاراء مضمون "یہودی تصورمسیح"لکھ چکے ہیں وہاں سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔)المسیح کی آمدکے حوالے سے اس قدر غلو اختیار کرنے کے باوجودان میں ایسا کوئی نظریہ پیدانہیں ہوا تھا جس میں المسیح کی حیثیت گناہوں سے نجات دینے والے نجات دہندہ کی ہو،بلکہ وہ المسیح کی آمد پرایک زبردست جنگی معرکہ کےذریعے سیاسی غلبہ اوراسرائیل کی مملکت کی بحالی کے خواہاں تھے۔ اس ضمن میں یرمیاہ نبی کی پیشنگوئی شہرہ آفاق حیثیت رکھتی ہے جس میں وہ شمال سے ایک نجات دہندہ آنے کی خبردیتے ہیں۔
یہودی سمجھتے تھے کہ المسیح قوم کو یکجاکرکے یہودیوں کی سیاسی اور روحانی ابتری کوجڑسے اکھاڑ پھینکے گا اور وہ ایسی مرکزی حکومت قائم کرے گا جہاں یہودوغیریہود دونوں ہی رہیں گے۔ان کی یہ تفہیم یسعیا کی اس عبارت سے مستعار تھی۔
اس روز یسّی کی اس جڑکوکہ جوامت کےلیےجھنڈےکی طرح قائم ہےغیر قومیں تلاش کریں گی اوراس کی جائےسکونت جلیل ہوگی۔اوراس روزخداوند اپناہاتھ پھر بڑھائےگاتاکہ اپنی امت کاوہ بقیہ واپس لائےجواشوراورمصراور فتروس اورکوش اور عیلام اورشنعاراورحمات اورسمندرکےجزائرسےبچ رہے۔اوروہ قوموں کےلیےجھنڈا کھڑاکرےگا۔اوراسرائیل کےاسیروں کوفراہم کرےگا۔۔۔۔اوریہودہ کےدشمن نیست ہوں گے۔اشعیااا:اا
یہودیوں کو یہ امید بھی وابستہ تھی کہ المسیح نے انہیں موعودسرزمین کنعان واپس دلوانی ہے کیونکہ یرمیاہ نبی پیشنگوئی کرچکے تھے کہ
وہ دن آتےہیں کہ میَں اپنی امت اسرائیل اوریہودہ کی قسمت بدل دوں گا۔۔۔اورانہیں اس سرزمین میں واپس لاؤں گاجومیَں نےان کےباپ داداکوعطاکی۔۳۰:۳
یرمیاہ نبی کے خیال کے مطابق یہودی یہ سمجھتے تھےکہ مسیح ہیکل کی تعمیر ثانی کرے گااوراس میں نئے سرے سے عبادت شروع ہوگی۔وہ یہود کی مقدس مذہبی عدالت بھی قائم کرےگااور یہودی شریعت کانفاذ بھی کرے گا۔
وہ دن آتےہیں کہ میَں اس نیک کلمہ کوپوراکروں گاجومیَں نےاسرائیل کےگھرانےاوریہودہ کےگھرانےکےحق میں کہاتھا۔ان دنوں میں اوراس وقت میں میَں داؤدکےلیےایک صادق کونپل پیداکروں گا۔اوروہ زمین پرعدل اورصداقت کاکام کرےگا۔انہی ایام میں یہودہ نجات پائےگا۔اوریروشلیم اطمینان سےسکونت کرےگا۔۔۔۔داؤدکےلیےاسرائیل کےگھرانےکےتخت پربیٹھنے کےلیے مردکی کمی نہ ہوگی۔اورنہ لاوی کاہنوں کےلیےمیرے حضورایسےمرد کی کمی ہوگی جوسوختنی قربانی چڑھائے۔اورنذروں کی خوشبوجلائےاورہمیشہ کےلیے ذبیحہ ذبح کیاکرے۔یرمیاہ۳۳:۴ا
الغرض کہ یہودیوں میں المسیح سے متعلق مختلف توقعات وابستہ تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی المسیح کے متعلق یہ تصورنہ کیا کہ وہ مصلوب کیا جائے گا اور مردوں میں سے جی اٹھے گا۔(مردوں کی قیامت کا مسئلہ بھی یہودیت میں مختلف فیہ رہاہے،یسوع کے معاصرین صدوقی یہودیوں کا ایک بڑا گروہ اس عقیدہ سے منحرف رہاہے،جدید محققین کے مطابق یہودیت میں حیاۃ بعدالمماۃ کا تصور ایک ارتقائی نظریہ ہے جس نے بابلی اثرات کے تحت یہودیت میں جڑ پکڑی)لہٰذا یسوع کو بحیثیت المسیح رد کرنے میں مقدس پولس کا تراشیدہ یہ عقیدہ بھی یہود نامسعود کےلیے سدسکندری بنا رہا۔
یہودی ربائیوں کی انواع واقسام کی تشریحات کے نتیجے میں منقسم الخیال یہودیوں میں المسیح کی شخصیت سے متعلق مختلف تصورات پیدا ہوگئے۔یہودیوں کا اسینی گروہ دو مسیحیوں کی آمد کا قائل تھا جن میں سے ایک کا تعلق یہوداہ کے گھرانے سے تو دوسرے کا تعلق لاوی کے گھرانے سے تھے۔مراتب کے لحاظ سے لاوی النسل ہارونی مسیح کو داؤدی مسیح پر فوقیت حاصل تھی۔تمام مذہبی معاملات ہارونی مسیح کے ذریعے سرانجام پانے تھے جبکہ داؤدی المسیح مثل داؤد جنگجو اور طاقت ور بادشاہ ہونا تھا جس نے زبردست جنگ کے بعد فتح سے ہمکنار ہوکر اسرائیل کی کھوئی ہوئی سلطنت کو بحال کرنا تھا ۔دومسیحیوں کا نظریہ انہوں نے کتاب مقدس میں شامل زکریا کے صحیفے کی آیت سے مستعار لیا تھا جہاں مندرج تھا کہ"یہ وہ دو ممسوح ہیں جورب العالمین کے حضور کھڑے رہتے ہیں"۔(زکریا4:14)
اسینی یہودیوں کے برعکس دیگر یہودی روایات بھی اسی طرز کے عقیدے کی عکاسی کرتی ہیں لیکن وہاں موعود مسیحاؤں کی تعداد دوکے بجائے چار ہے۔اس سلسلے میں ایک روایت درج ذیل ہے۔
'اور خداوند نے مجھے چار ہنر مند دکھائے یہ چار ہنر مند کون تھے ؟ ربی حنّا بن بیزنا نے پڑھا ربی سیمون حسیدا نے جواب دیا: مسیح ابن داؤد، مسیح ابن یوسف، ایلیاہ اور راست باز کاہن''
بابلی تلمود، کتاب موعید، فصیل سوکا، 52 الف
یہودی علماء کے مطابق اس نظریہ میں ایک مسیح ابن یوسف ہے جو کہ حقیقی طور پر فرزنداسرائیل یوسف کی نسل سے ہوگا اورروایات کے مطابق دوران جنگ قتل کیا جائے گا جبکہ دوسرا مسیحِ ابنِ داؤد ہے جو مسیح بادشاہ کے اوصاف پر مشتمل کردار ہے۔تیسرا کردار ایلیا کا ہے جس نے ملاکی نبی کی نبوت کے مطابق مسیح کی آمد سے قبل نقیب کا کردار اداکرنا تھا۔چوتھی شخصیت راست باز کاہن کی ہے جسے اسینی دستاویزات میں استادصادق کے لقب سے پکارا گیا ہے۔چونکہ ہماری مبحوث تحقیق مسیحاؤں کے نظریہ سے متعلق ہے لہذا ہم مقدم الذکر شخصیات کے متعلق ہی کلام کریں گے۔
مسیح ابن یوسف
اس نظریہ کی بنیاد تورات کے ماخذات اور وہ حالات و واقعات ہیں جو یوسف ابن یعقوب(اسرائیل) ابن اسحاق ابن ابراہام کے ساتھ پیش آئے، یوسف ابنِ یعقوب کا اپنے بھائیوں کے ہاتھوں دکھ اٹھانا، قید و بند کی صعوبتیں سہنا، بعد ازاں سرفرازی پانا، غیر اقوام میں مقبول ہونا، اسرائیل اور بنی اسرائیل کی مشکل دور میں مخلصی کرنا اور نجات دہندہ ٹھہرنا جیسے واقعات کے تقابل سے یہ نظریہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔ابن یوسف کا ابن داؤد کی طرح ہونا دراصل اس نام کے بزرگوں کی نسل میں سے ہونا تھااور اس کاماخذ بھی یہی اشارہ کرتا ہے کہ "ہمارے باپ یعقوب نے غیب بینی کی کہ صرف عیسو کی نسل ،یوسف کی نسل کے سپرد کی جائے گی جیساکہ کہا گیا ہے کہ "تب یعقوب کا گھرانہ آگ ہوگا اور یوسف کا گھراناشعلہ اور عیسوکاگھرانہ پھوس اور وہ اس میں بھڑکیں گے اور اس کو کھا جائیں گے"۔(عبدیاہ18)(B.B. 123b)
مسیح ابن داؤد
یہ نظریہ بھی تورات کے ماخذات، استعاروں، اشاروں اور واضح پیشن گوئیوں پر مشتمل ہے۔تورات میں جابجا ایک ایسے ممسوح فرما نروا کا ذکر بطور ابن داؤد ملتا ہے جس سے منسوب اقوال اور پیشن گوئیاں بتاتی ہیں کہ یہ زمین پراسرائیل کی سلطنت کوبحال کرے گااورخدا کی بادشاہت قائم کرے گا اسکے ایام ( زمانہ مسیح ) میں زمین پر عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا، یہ ہیکل مقدس کی تقدیس (دوبارہ تعمیر) کرے گا یعقوب کی آل سے کینا و بغض رکھنے والوں کو شکست فاش دے گا اور شریعت موسوی کو بحال کرے گا۔
یسوع اور نظریہ مسیح
علماء یہودشروع سے ہی یسوع کو مسیحِ موعودتسلیم کرنے سے شدت کے ساتھ منکر ہے۔اس انکار کا محرک نظریہ مسیح کے ساتھ ساتھ کتاب مقدس کی المسیح سے متعلقہ وہ نبوتیں بھی ہیں جن کی تکمیل کا خواب یسوع کی ذات میں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔سب سے بڑا سوال تو المسیح سے قبل ایلیاہ کی آمد کا تھا جس کا کوئی تسلی بخش جواب یسوع بیان نہیں فرماتے پھر بھلا کیسے شرع کے عالم اور فقہاء یسوع کے مسیح صادق گمان کرسکتے تھے؟دوسرا مسئلہ حکومت وقت کا تھا جس کے خلاف موعود مسیح نے آکر بغاوت کرنا تھی اور ایک جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی سلطنت کو بحال کرکے ان کی شوکت وعظمت گم گشتہ کو لوٹانا تھا لیکن یسوع نے ایسی کوئی سرگرمی اختیار نہیں کی جسے دیکھ کر یہودی یسوع کے ساتھ جمع ہوتے اور رومی حکومت سے جنگ کرتے بلکہ یسوع نے تو تلوار چلانے والوں کو ہلاک ہوجانے والا تک قرار دے دیا تھاایسی حالت میں یہود یسوع کو بحیثیت مسیح ردکرنے میں حق بجانب تھے ۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہودیوں نے کلی طور پر یسوع کی دعوت کا بائیکاٹ کرکے رکھا بلکہ ایک بڑی تعداد نے ان کواپنی امیدکامرکز سمجھ کر اس کے ہاتھوں اسرائیل کی خلاصی کی امید کرتے ہوئے المسیح کی حیثیت سے قبول بھی کیا جیساکہ سائرین عمواس کی گفتگو سے بھی اندازہ ہوتاہے۔
"یسوع ناصری کاماجرا جو خدااورساری امت کے نزدیک کام اور کلام میں قدرت والا نبی تھا اور سردارکاہنوں اور ہمارے حاکموں نے اس کوپکڑوادیاتاکہ اس پر قتل کاحکم دیا جائے اور اسے مصلوب کیا۔لیکن ہم کو تو امید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دے گا۔"(لوقا24:19،21)
یسوع کی ذات سے پیوست یہودی عوام کی یہ تمام امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب مقدمہ کے وقت یہودی عوام اور حاکم کے سامنے یسوع نے کہا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں۔یسوع کا یہ جملہ یہود کی ان تمام دنیاوی توقعات پر پانی پھیر گیا جن کا حصول المسیح کی آمد کے ساتھ وابستہ تھا اوراسی مقصد کے تحت وہ یسوع کے ساتھ منسلک ہوئے تھے۔دنیاوی بادشاہت کے اس انکار کے ساتھ ہی یہودی عوام کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے اور وہ یسوع کے دعویٰ مسیاح کو کتاب مقدس کے خلاف پاکر حاکم وقت سے اس کو صلیب دینے کی اپیل شروع کردیتے اور اس کا خون ناحق اپیس اور اپنی اولاد کی گردنوں پر لے لیتے ہیں۔
وجوہات کے انبوہ کثیر میں سے یہ چند توجیہات ہیں جن کے باعث یہودی شدت کے ساتھ یسوع کو بحیثیت المسیح قبول کرنے سے مجتنب رہے اور آج تک وہ یسوع کو المسیح تو کجا صادق نبی تک قبول کرنے سے تیار نہیں۔اگرچہ انجیل نویسوں نے رنگ آمیز اسلوب کے ساتھ اس امر کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے کہ معززفریسی علماء نے یسوع کو قبول کرلیا تھا مگر انجیل نویسوں کے اس ادعا کی تاریخی وقائع نگاری انتہائی مشکوک ،یہودی توقعات،ربائی روایات اور خود انجیل نویسوں کے بیان سے باہم مخالف ہے۔اس موضوع پر ہم اپنے مضمون "یسوع اور ربائی"میں گفتگوکرچکے ہیں اس ضمن میں وہاں سے استفادہ کیاجاسکتا ہے۔
اسینی نظریہ مسیح سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ربائی روایات کا اطلاق یسوع کی شخصیت پر کیا جائے تو صورتحال مزید گھمبیر ہوجاتی ہے۔روایات کے مطابق مسیح ابن یوسف نے یوسف نبی کی نسل سے ہونا تھا جبکہ یسوع کسی طرح سے بھی یوسف کی نسل سے ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ انجیل نویس انہیں داؤد کی نسل سے باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں داؤد کے گھرانے کا موعود المسیح قرار دیا جاسکے لیکن بات بننے کے بجائے اور بگڑ جاتی ہے۔یسوع کوابن داؤدتسلیم کرنے سے قبل اسے یسوع نجار کی اولاد ماننا پڑے گا اور یہ حقیقت قبول کرنے سے کلیسیاء کے دوہزارسالہ کنواری مقدسہ مریم کے عقیدے پر ضرب پڑتی ہے کیونکہ مریم تو لاوی کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ،اگر یسوع ابن مریم ہی ہیں تو پھر وہ لاوی النسل ہوسکتے ہیں داؤد کے گھرانے سے ہرگز نہیں اور جب وہ داؤد کے گھرانے سے ہی نہیں تو وہ داؤدی مسیح ہو ہی نہیں سکتے۔لیکن اگر یسوع کو داؤدی النسل ہونے کا مفروضہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو بھی یسوع ان یہودی امیدوں اور توقعات پر عشرعشیر بھی پورے نہیں اترتے جن کا اتصال یہود،موعودمسیح کے واردہونے سے کرچکے تھے۔
المسیح کا موت کے بعدجی اٹھنا اور یہود
موعود مسیح کی موت اور دوبارہ جی اٹھنے سے متعلق تشریحات بھی ربائی لٹریچر میں پائی جاتی ہیں مگر وہ روایات اس تناظر اورپس منظر سے تعلق نہیں رکھتیں جو یسوع کے بعد مسیحیوں میں غیراقوام سے مستعار پولوسی نظریات کے تحت وجود میں آئیں۔المسیح کے جی اٹھنے کے متعلق ایک روایت یہ ہے۔
ہمارے ربیوں نے سیکھایا : القدس تبارک و تعالی نے مسیح ابن داؤد ( وہ جلد خود کو ہمارے دنوں میں ظاہر کرے) سے کہ: ''مجھے سے جو مرضی مانگ اور میں تجھے دوں گا'' جیسا کہ کہا گیا ہے: میں اُس فرمان کو بیان کرونگا۔ خُداوند نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔ آج تُو مجھ سے پیدا ہوا۔ مجھ سے مانگ اور میں قوموں کو تیری میراث کے لئے اور زمین کے اِنتہائی حصے تیرے ملکیت کے لئے تجھے بخشونگا۔(زبور7:2-8) مگر جب وہ (مسیح ابن داؤد) دیکھئے گا کہ مسیح ابن یوسف قتل کیا گیا تو وہ کہے گا: اے مالک کائنات میں تجھے سے محض ایک چیز مانگتا ہوں ''حیات کا تحفہ'' تب خداوند جواب دے گا: تیرے باپ داؤد نے تیری پریشانی کی بابت پہلے ہی نبوت کی رو سے لکھا '' اُس نے تجھ سے زندگی چاہی اور تُو نے بخشی۔ بلکہ عمر کی درازی ہمیشہ کے لئے'' (زبور 4:21)
بابلی تلمود، کتاب موعید، فصیل سوکا، 52 الف
روایات کے مطابق جب جنگ کے دوران مسیح ابن یوسف قتل کردیاجائے گاتو مسیح ابن داؤد خدا سے دعامانگ کر پھر اُسے زندہ کرے گا۔یہاں ایسا کوئی مشرکانہ عقیدہ نہیں پایاجاتا کہ وہ مرجائے گا اور تین دن بعد خودبخود جی اٹھے گا۔یہ مسیحی اعتقاد عہدعتیق اور تالمودی روایات کے سراسر خلاف اور مقدس پولس کے اختراعی افکار کے سوا کچھ نہیں اوراس کا یہودیت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
ادعا مسیح اور یہود
مکابی حکومت کےسقوط اور رومی عتاب کے تحت آجانے کے بعد جہاں یہودیوں میں مسیح موعود کا نظریہ پروان چڑھا وہیں اس نظریہ کی تکمیل کی سعی کرتی بہت سی شخصیات کا بھی ظہور ہواجنہوں نے اپنے قول و عمل سے خود کو مسیح موعود کی عملی تفسیر بنانے کی جہدمسلسل کی بالآخر ان کی کوشش قابض حکومتی افواج کے ہاتھوں پامال ہوئی اور وہ پراگندہ کرکے تہہ تیغ کردیئے گئے۔یہودی تاریخ ایسے افراد کے قصص سے لبریز ہے جو مسیح ہونے کا دعویٰ لے کر اٹھے اور حکومت وقت کا عسکری سامنا کرتے ہوئے مارے گئے۔عہدجدید میں بھی ایسے تین مشہوریہودی حریت پسندوں کا تذکرہ موجود ہے جنہوں نے رومی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور فوجی مزاحمت کے دوران مارے گئے۔
مسیحیت نے جب رومی سلطنت کے سرکاری مذہب کی حیثیت اختیار کرلی تو اس کےبعد مقدس مذہبی لٹریچر میں تصحیح وتصریف کا عمل شروع ہوا اور متصرفین نے اناجیل کو مرتب ثانی کرتے وقت اُُس وقت کے سیاسی حالات کی ایسی تصویر پیش کی گویاکہ یہودیہ کا علاقہ رومی حکومت کی چھتری تلےآمن وآتشی کا گہوارہ تھااور یہودی رومی حاکم کی حکومت کے زیرسایہ ایک پرسکون زندگی گزار رہے تھے جبکہ حقیقی صورتحال اس کے برعکس تھی۔ یسوع کے حین حیات یہودیہ کا علاقہ جنگوں اوریہودی بغاوتوں کا گہوارہ تھا اور یہاں بڑی تعداد میں یہودی حریت پسندی کی خفیہ واعلانیہ تحاریک چل رہی تھیں جس کی سرکوبی کے لیے رومی افواج وجاسوس پوری طرح سرگرم تھے۔یسوع کا تمثیلی انداز میں اپنے تحریکی ساتھیوں سے کلام کرنا اس امر کا غماز ہے کہ وہ جابجا بکھرے ان رومی جاسوسوں سے کتنا محتاط تھے ۔ان کی کمال احتیاط کے باعث ہی ان کی تحریک تین سالوں تک محیط ہوگئی لیکن اس دوران بھی انہوں نے کبھی زبان سے المسیح ہونے کا علی الاعلان دعوی نہیں کیاکیونکہ یہ اعلان ہی دراصل حکومت وقت کے خلاف خود کو بادشاہ کے طورپر پیش کرنا تھا۔
یسوع کی تحریک بھی ایک خفیہ حریت پسند تحریک تھی جس میں یہوداہ اسکریوطی جیسے اسکریوٹ اور شمعون غیور جیسے زائیلوٹ موجود تھے۔ان جنگجوؤں اور شدت پسند تحاریک سے متعلق افراد کا یسوع کی تحریک میں شامل ہونا یسوع کی تحریک کی رومی حکومت کے خلاف شدت پسندی کاظہور ہے جس سے انجیل نویسوں نے عمدا اعراض کیا ہے۔
اناجیل میں کیے جانے والے ان تصرفات سے مقصود حکومت وقت کی خوشنودی تھی تاکہ مقتدرحلقوں کی طرف سے یسوع کی تحریک کو رومی حکومت کے مخالف خیال نہ کیا جاسکے۔ان تغیریات وتبدل کے باوجود اناجیل میں ایسے تاریخی نشانات باقی رہ گئے جو حریت پسند یہودیوں مدعیان مسیح کا پتہ دیتے ہیں۔اناجیل میں مستور ان مدعیان میں سے ایک یسوع کی حین حیات ،6عیسوی میں حکومت وقت کے خلاف بغاوت برپا کرنے والا یہوداہ گلیلی بھی ہے جس کا ذکر اعمال 5:37 میں ملتا ہے۔جوزفیس کے مطابق اس کے دودفرزند یعقوب اور شمعون کو قیصرطبریاس نے مصلوب کرکے مار ڈالا جبکہ اس کا تیسرا فرزندمناہیم اسکریوٹ نامی تحریک کا بانی بنا اور ایک طویل عرصہ تک طاقتور رہنما رہا بالآخر سردارکاہن کی جماعت کے ہاتھوں قتل کردیا گیا۔
یہوداہ گلیلی کےبعد کچھ عرصے بعد تھیوداس نے المسیح ہونےکا دعویٰ کرکے بغاوت کردی۔چارسوکے قریب اس کے دعویٰ پر لبیک کہتے ہوئے یہودی رومیوں کے خلاف اس کے دست راست بنےاور رومیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔تیسری ہستی خنجربردارمصری کی ہے جس کا ذکراعمال 21:36 میں موجود ہے۔اس نے چارہزار یہودی عسکری جنگجوؤں کے ساتھ مسلح بغاوت کی اوربالآخر تہہ تیغ کردیئے گئے۔
مدعیان مسیح موعود کے یکے بعد دیگر ظہور اور یہودیوں کی طرف سے ان کی بھرپور تائید ونصرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نےدومسیحیوں کے تراشیدہ نظریے پر اکتفاکرنے کے بجائے وقتاً فوقتاً اسرائیل کی سلطنت کی بحالی کے لیے کھڑے ہونے والے ہرمدعی مسیح کو اپنی امیدوں کا محور سمجھا اور ان کی بھرپور تائید کی ۔ یہودیوں نے کبھی بھی ان افراد کو تعذیب وتعصب کانشانہ نہیں بنایا جنہوں نے مختلف افراد کو بحیثیت"المسیح"قبول کیابلکہ ان کی فکری ہمدردی بھی ان مدعیان اوراس کی جماعت کے ساتھ ہی رہی۔اس کاثبوت اناجیل میں مندرج اس واقعہ سے ملتا ہے جب فریسی یسوع کے پاس آکر اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ پیلاطوس اسے قتل کرنے کی فکر میں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بزرگ گملیل کی تقریر بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے جہاں وہ سنہڈرین میں یسوع کے ساتھیوں کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں،
"ان آدمیوں سے کنارہ کرواوران سے کچھ کام نہ رکھو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سےبھی لڑنے والے ٹھہرو کیونکہ یہ تدبیر یاکام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہوجائے گالیکن اگر خدا کی طرف سے ہے توتم ا ن لوگوں کومغلوب نہ کرسکو گے"۔( اعمال باب 5 فقرہ 38 تا 39)
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو یسوع یا کسی بھی شخص کو بحیثیت المسیح قبول کرنے والوں سے کوئی سروکار نہیں تھا بلکہ یہودی عوام کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہمنوا رہی ہے۔
تالمود میں المسیح کی شخصیت اور تعیین کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں کہ حالات وواقعات کے ساتھ ساتھ لوگوں کی المسیح کے بارے میں ترجیحات بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ حزقیاہ المسیح ہے۔ان لوگوں میں ربائی یوحنابن زکائی بھی شامل تھا جس نے بستر مرگ پر اپنے شاگردوں سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ "یہودیاہ کے بادشاہ حزقیل کے لیے تخت تیار کرو جوکہ آنے والا ہے"۔(Ber. 28b)اس کے الفاظوں کو عام طور پر المسیح کی آمدکاپیش خیمہ سمجھا گیاہے،پہلی صدی عیسوی کا یہ بزرگ المسیح کی شناخت حزقیاہ کے طور پرکرتا ہے۔کچھ بزرگوں نے المسیح کی شناخت داؤد کی حیثیت سے کی ہے اور اس کا استنباط کتاب مقدس کی اس آیت سے کرتے ہیں کہ"اس کے بعدبنی اسرائیل رجوع لائیں گے اور خداونداپنے خدااوراپنے بادشاہ داؤد کو ڈھونڈیں گے اور آخری دنوں میں ڈرتے ہوئے خداوند اور اس کی نیکی کے طالب ہوں گے"۔(ہوشیع3:5)یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ داؤدی المسیح داؤد نبی ہی تھےبلکہ یہ ان سے مختلف کوئی دوسری ہستی ہے جسے ان کے اخلاف میں مبعوث ہونا تھا۔تالمود کی روایت ہے۔
Rab declare, the Holy One, blessed be Hem will here after raise up for Israel another David as it is said, "But they shall serve the LORD their God, and David their king, whom I will raise up unto them" is not stated "has rised" but "will raise" (Sanh, 98)
اسی طرح ربائی نکمان کے لیے آتا ہے کہ انہوں نے ربائی اسحاق سے پوچھا کہ کیا آپ نے بارنفلی کے بارےمیں سنا ہےجوکہ آنے والاہے؟ربائی اسحاق نے اس سے پوچھا کہ بارنفلی کون ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ وہ المسیح ہے۔(Sanh. 96b) مختلف یہودی ربائیوں نے المسیح کی شخصیت کے تعیین میں اختلاف شدید کیا ہے ۔بہت سے لوگ المسیح کو سمجھنے میں بھی غلطی کر بیٹھے۔ایسی ہی ایک غلطی 132 عیسوی میں برپاہونے والی ایک آزادی کی تحریک کے وقت پیدا ہوئی جب بارکوکبا نامی یہودی جنگجو نے رومی سلطنت کو شکست دےکر ایک آزاد یہودی حکومت قائم کرلی اور تین سال تک حکمران رہا۔بارکوکبا کی تحریک اور عملیات اس قد ر مضبوط تھیں کہ ربائی عقیبہ جیسے بیدارمغز انسان نے اس کو بحیثیت المسیح قبول کر لیا تھا۔لیکن ربائی یوحنان بن طورطا نے اسے کہا کہ "عقیبہ تیرے رخساروں پر گھاس تو اُگ آئے گی مگر ابن داؤد کی آمد نہیں ہوگی"۔(p. Taan. 68d)۔ یہودی سواد نے اس کی شکست کو اس کے دعویٰ مسیحیت کے غیرصحیح ہونے پر محمول کیا لیکن ربائی عقیبہ نے یہ تاویل کرکے اس کےمشن کو آگے بڑھایا کہ کسی مسیح موعود کے دعویٰ مسیاح کو صرف اس بنیادپرردکرنا صحیح نہیں ہے کہ اسے دنیاوی افواج کے مقابلے میں شکست ہوئی ہے۔کہاجاتا ہے کہ وہ دوران قتل کلمہ شمع اسرائیل کا ورد کررہاتھا۔
یہودی اہل تصوف مسیح موعود کو ایک روحانی شخصیت کی حیثیت سے جانتے ہیں جو روحانی افکار کی اساس پر خداکی بادشاہت قائم کرے گا۔اسی بنیاد پر بیسویں صدی کے آخر میں یہوداہ تصوف کے سلسلہ لباوتک خاسدیمیہ کے ربائی مناخیم میندل نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔اس سے قبل سترہویں صدی عیسوی میں ایک ربائی شبتائی زوی ترکی سے نقل مکانی کرکے فلسطین آئے تو اسے مسیح موعودقرار دے دیاگیابعدازاں شبتائی نے اسلام قبول کرلیا۔شبتائی کے پیروکار اس کے قبول اسلام کوبلندی درجات سے قبل لازمی تحقیرمسیح سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ بھی خیال پیش کیاجاتا ہے کہ شبتائی نے اپنا گلا کٹوانے کے بجائے اسلام کا مصنوعی لبادہ اوڑھ کر کسی غیرحتمی مسیح موعود کے انتظار کو ترجیح دی ہے کیونکہ مسیح کے انتظار میں رہنا یہودی علم الکلام میں لازمی سمجھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے پہلی صدی عیسوی کے مشہور ربائی یوحنان بن زکائی کاقول معروف ہے کہ "اگر تمہارے ہاتھ میں ایک ننھا پوداہواورالمسیح کی آمد کا اعلان ہوجائے تو وہ پودالگاکرالمسیح کے استقبال میں لگ جاؤ"۔
مسیح موعود کے نام لے کر اٹھنے والے مذہبی شخصیات کی ناکامیوں نے جدیدالخیال لوگوں کو ایک وقت ایسا بھی سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب کوئی مسیح نہیں آنے والا ہے۔اس سلسلے میں پہلا اعلان ربائی ہللیل نے چوتھی صدی عیسوی میں کیا کہ " اسرائیل کے پاس کوئی اب آمد کے لیے کوئی مسیح نہیں رہا۔"(Sanh 98b)
1885 میں پیٹسبرگ کی کانفرنس کے موقع پر آج کے جدیدالخیال یہودی نظریہ مسیح موعود کو یہودی مذہب کا ایک غیرضروری عنصر کہہ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں۔ یہودنامسعود کا یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ اختراعی روایات کا جو قلاوہ ان کے آباء نے ان کے گلے میں ڈالا تھا وہ انہوں نے اپنے گلے سے نکال کر خود کو آزاد کرلیا تھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو اپنی چونتیس سوسالہ تاریخ میں کبھی بھی المسیح کی آمد سے کسی گناہوں کی نجات کی امید وابستہ نہ تھی بلکہ وہ المسیح کی آمد سے سیاسی غلبہ اور دنیاوی سلطنت کی حصول کے خواہشمند تھے۔اگر ان کا مقصود روحانی نجات ہوتی تووہ کبھی بھی اس کی آمد کا انکار نہیں کرتے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی واضح ہوتا ہے کہ المسیح کی ذات مثل موسیٰ سے جدا ہے تبھی یہودنامسعود نے بآسانی المسیح کی آمد کاانکار کردیا وگرنہ مثل موسیٰ کے انکار پر عذاب الٰہی کے نزول کی وعید کے ہوتے ہوئے المسیح کا انکار کرنا ان کے لیے اتنا سہل نہ ہوتا۔
یہود کے نزدیک یہ دانشمندی نہیں کہ ایک لاحاصل بحث میں خود کو الجھا کر کسی غیرموجود کے آنے کے انتظار میں اپنی زندگی کھپائی جائے۔مسیح کوآنا ہے تو آجائے نہ آنا تونہ آئے موت کو تو آنا ہے۔خدائے تعالیٰ ہمیں صحیح فہم کے ساتھ تاریخ کو سمجھنے اورحق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تحقیق وتحریر:عبداللہ غازیؔ
Bibliography
Everyman’s Talmud, Abraham Cohen, Schocken Books Inc New York 1975
World Religion: The illustrated guide, Michael D. Coogan, Duncon Baird Publication, London
How to be a Perfact Stranger: The essential Religious Etiquette Hand Book, Staurt M, Matlins, Sky light Path Publishing, 2006 4th Edition
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔