Pages

Most Popular

جمعہ، 7 اکتوبر، 2016

یسوع کی تحریک!! مذہبی یا سیاسی؟

محکوم کی آزادی حاصل کرنے کی کوششوں کو استبدادی قوتوں نے سراسر خلاف انسانیت فعل قرار دے کر اس کی سرکوبی کی ھے اور کسی حقدار کےجائز حقوق کی پاسداری کو اس لیے جوتے کی نوک پر رکھا کہ ان کی نظر میں وہ مجبور اس کے اھل ھی نہ تھے. سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی شدید خواہش نے ھر اصول اور ھراخلاق کو پاؤں تلے روند ڈالا. یسوع علیہ السلام مسیح کا صلیب پر لٹکایا جانا بھی اسی مذموم خواھش کا شاخسانہ تھا. اناجیل منورہ کا بغور مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یسوع علیہ السلام مسیح پر لگائے گئے الزامات ھر لحاظ سے سیاسی نوعیت کے تھے. آج تک مسیحی دنیا یسوع علیہ السلام مسیح کو بادشاہ قرار دیتی چلی آئی ہے. گو کہ یہ بادشاہت مسیحی دنیا میں روحانی متصور ھوتی ھے مگر کلیسیائی عمائدین جانتے ہیں کہ مسیح ھو نے کا دعویٰ کرنا دراصل یہودیوں کا بادشاہ ھونے کا دعویٰ تھا. خود رومن گورنر پیلاطوس کے سامنے اس لفظ مسیح کا ترجمہ بادشاہ کیا گیا. یہودی بھی ایک ایسی ھستی کے منتظر تھے جو انہیں سیاسی غلامی کے گڑھے سے نجات دلا کر شوکتِ رفتہ واپس دلاتی. لیکن یسوع علیہ السلام مسیح کی تحریک کو حسبِ منشاء نہ پا کر انہوں نے رومن گورنر کے حضور شکایت پیش کر دی کہ یہ شخص اپنے آپ کو یہودیوں کا بادشاہ کہتا ہے اور قیصر کے سوا کوئی بادشاہ نہیں.اس الزام کے پس پردہ سیاسیات کا عمل دخل تھا. دینیات کہیں بھی موجود نہیں ہیں. رومیوں نے بھی صلیب پر الزام کا جو کتبہ لگایا وہ سیاسی الزامات پر مبنی تھا. یہودیوں کی نظر میں یہ سیاسی مسئلہ تھا اور انہوں نے اسے سیاسی میدان میں نمٹایا. یہ بات غلط ہے کہ یہودی اپنے مجرم کو سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتے تھے. اس لئے وہ یسوع علیہ السلام مسیح کو رومی عدالت میں لے گئے. اگر یہی اربابِ ھیکل یسوع علیہ السلام مسیح کے فوراً بعد سٹیفن کو سنگسار کرنے کا فیصلہ کر سکتے تھے تو پھر یسوع علیہ السلام مسیح کے معاملے میں ان کے ھاتھ کیوں بندھے ہوئے تھے؟ صاف ظاہر ہے کہ یسوع علیہ السلام کے شاگردوں میں بھی اس وقت کے زیلوتیس(zealots) اور آج کے دھشت گرد افراد موجود ھونے کی بنا پر معاملہ سیاسی بن گیا تھا. رومی سلطنت سے وفاداری دکھانا یہودیوں کے لیے لازم ھو گیا تھا. وگرنہ ایک سیاسی معاملہ کو دبانے کا الزام ان کے سر آتا. رومی سلطنت سیاسی بغاوت برداشت نہیں کرتی تھی. یہود کے اندرونی معاملات سے اسے کوئی بھی تعلق نہیں تھا. رومی جاسوس ھر جگہ موجود تھے. اسی لئے یہودیوں نے اس سیاسی معاملہ کو سیاسی انداز سے حل کرنے کی ضرورت سمجھی. یسوع علیہ السلام مسیح کے دو بڑے جرم تھے. اولاً یہودی حقوق کے لئے آواز بلند کرنا. مسیح کا لقب اختیار کرنا ھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یہ کام کر رہے ہیں. یہ رومی نظر میں جرم تھا. دوم اس شدت سے آواز بلند نہ کرنا جس کے یہود متمنی تھے اور الگ انداز کی حکمت عملی اختیار کرنا. یہ یہودی نظر میں ناقابل برداشت تھا. چنانچہ یسوع علیہ السلام مسیح کو سیاسی نوعیت کے الزام لگا کر یہودیوں اور رومیوں دونوں نے اپنے اپنے مقاصد حاصل کر لئے.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔