Pages

Most Popular

جمعہ، 7 اکتوبر، 2016





            یہودی و مسیحی علمی حلقوں میں پروفیسر ہائم مکابی جیسے اسکالر کا نام تعارف کا محتاج نہیں، برطانیہ میں یہودی و مسیحی روایات پر انہیں اتھارٹی اسکالرز کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے حتی کہ ڈاکٹر ہیوجے شون فیلڈ جیسے چوٹی کے اسکالرز بھی ان کی علمیت کے معترف نظر آتے ہیں۔زیر نظر تحریر بھی ہائم مکابی کی کتاب The myth maker Paul and The Invention of Christianity کے باب Why was Jesus Crucified? کا سلیس ترجمہ ہے جس میں انہوں نے مصلوبیت مسیح کے واقعہ کو اُس وقت کے سیاسی اور تاریخی پس منظر میں بیان کیا ہے۔ کوشش تو یہی ہے کہ ترجمہ کرتے وقت آسان سے آسان الفاظ وانداز میں مصنف کامؤقف قارئین کے سامنے پہنچا سکوں۔اب یہ تو آپ کی قیمتی آراء ہی سے معلوم ہوگا کہ میں اپنے اس مقصد میں کتنا کامیاب رہا اور کتنا ناکام؟ اپنی اس ادنی سی کاوش کو میں اپنے محسن، مرشد اور مربی محترم جناب ظفر اقبال صاحب مدظلہ کی طرف منسوب کرتا ہوں جن کی رہنمائی اورمحبت و شفقت کے زیرسایہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ کام کرنے کی توفیق دی اورمیں یہ ترجمہ کرنے کے قابل ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے چند مخلصین بھائی محمد مسلم رحیم یار خان اور سید محمد وقاص حیدر امریکہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ انگریزی کے بعض مشکل مقامات پر انہوں نے میری رہنمائی فرمائی۔
احقر عبداللہ غازیؔ
یسوع کا فریسی ہونا اس امر کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ وہ کفر گو تھے، انہوں نے کبھی سبت کی تعظیم توڑنے کی کوشش کی یا انہوں نے کسی بھی یہودی قانونِ مسلمہ کی تنسیخ کی، تو پھر انہیں کیوں مصلوب کیا گیا؟ یہ سوال مسیحی اسکالرز کی شدید مشکلات اور پیچیدگیوں کا ظہور ہے اور اس کے ادراک کے لئے انہوں نے فریسی ازم کے متعلق کافی معلومات بھی  اس طرح حاصل کی کہ یہودی مذہبی زعماء اور یسوع کے درمیان مخالفت کی روایتی کہانی نہ چلے۔ چند اسکالرز اس معمہ کا حل اُس تقسیم میں تلاش کرتے ہیں جو فریسی گروہ میں موجود تھی مثال کے طور پر ربی ہللیل اور ربی شمائی کے مکتبہِ فکر۔ اِس نظریہ کے مطابق یسوع ایک فریسی تھے لیکن وہ قدامت پسند شمائی فریسی جماعت سے باہر ہو گئے تھے۔ لیکن وہ دلائل اور اختلافات جنہوں نے فریسی جماعتوں کے مابین جگہ بنا لی تھی، انہیں دوستانہ درجے پر لائے اور بعد ازاں ان کا فیصلہ کثرت رائے سے کیا گیا جو بعض اوقات ہلیلیوں کے حق میں نکلا تو بعض مرتبہ شمائیوں کے حق میں۔ یہ ناقابل تصور ہے کہ شمائی فریسی ایک ممتاز ہللیلی کو سزائے موت دلانے کے لئے کوششیں کریں۔ اس کے علاوہ ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ یسوع کا تعلق ہللیلی مکتبہ فکر یا کسی دوسرے آزاد خیال فریسی گروہ سے تھا کیونکہ طلاق کے مسئلہ پر یسوع کا سخت مؤقف، ربی شمائی کی جماعت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
دوسرے نظریے کے مطابق یسوع فریسیوں کی اُس جماعت سے تعلق رکھتےتھے جو حسدیم کہلاتے، فرائض منصبی کے قوانین کا اہتمام کرنے کے پابند اور مسیحا و معجزاتی افعال کرنے والوں کی حیثیت سے معروف تھے جیسا کہ حننیاہ بن دوسا، دائرہ کش ہونی اور ابا حلقیاہ۔ بطور کرشماتی فریسی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یسوع کا تعلق اسی اصول پسند گروہ سے تھا۔ یہاں اس بات پر یقین کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ کرشماتی اور اصول پسند فریسیوں کے درمیان کوئی شدید مخالفت تھی بلکہ اس کے برعکس شواہد بتاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا گہرا احترام ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یسوع کا تعلق حسدیم فرقہ سے ہو جو کہ درحقیقت تمام فریسی گروہوں میں سب سے زیادہ یسوع سے مشابہت رکھتے ہیں لیکن فقط یہی تعلق یسوع کا فریسیوں کے مرکزی طبقہ سے اتصال کی وجہ سے زیادہ معزز بنا دیتا ہے۔
دیگر اسکالرز ان نقاط کو جاننے کی ٹوٹی پھوٹی کوششیں کر چکے ہیں کہ یسوع کے وہ کون سے نظریات تھے جو فریسیوں کے لئے باعث اشتعال انگیز تھے۔ ایک اسکالر کی رائے کے مطابق مسئلے کی اصل یسوع کا آزادانہ منادی کرنا تھا۔ ایسی ناقابل اعتبار آراء اس امر کا غماز ہیں کہ یسوع کی منادی سے فریسیوں کے غضبناک ہونے کی معقول وجوہات تلاش کرنا کتنا مشکل ہے۔
اس کتاب کی دلیل کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس نظریے کو واضح کر لینا چاہیے کہ تاریخی تناظر میں یسوع کو کیوں مصلوب کیا گیا؟ کیونکہ ہمارے مرکزی خیال میں پولس کا وہ نظریہ ہے جس میں وہ اپنے افکار کا محور یسوع کی مصلوبیت کو بناتا ہے اور بعد ازاں یسوع کے متعلق پولس کے نظریات کو ہی انجیل نویسوں نے رنگ آمیزی کے ساتھ اناجیل میں پیش کیا اور اِس طرح یہ تمام مغربی تہذیب میں سرایت کر گئے۔
یسوع کی موت کے تاریخی واقعے کا کھوج لگانے کے لئے اور پولس کے اس تاریخی واقعہ کو افسانوی داستان میں تبدیل کرنے کے پس پردہ مقاصد کی وضاحت کے لئے اس حقیقت کو ظاہر کرنا ضروری ہے جو پولس کی مرکزی سوچ ہے جو کہ فریسیوں یا یہودیوں کو یسوع کی موت کا الزام دینا ہے جس میں یسوع سے متصل وقائع کو اساطیر میں تبدیل کرنے کی ضمنی اختراع بھی شامل ہے۔ دور اول کے ساؤل (پولس) کی بطور ایذا رساں فریسی تصویر نے معاملے کے اس پہلو کو پوری قوت سے تقویت دی ہے۔
یسوع ایک انسان تھے جس نے گلیل کی یہودی فضا میں آنکھ کھولی. وہ ایسی الوہی ہستی نہ تھے جو انسانیت کی نجات کی خاطر آسمان سے اتری ہو۔ اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ یسوع کو کیوں قتل کیا گیا تا ہمیں یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ اُس وقت کتنے یہودی گلیل سے آئے اور ان کا اختتام بھی یسوع کی طرح صلیب پر ہوا۔
جس وقت یسوع فقط ایک چھوٹے لڑکے تھے، گلیل کے بہت سے یہودی اس دوران صلیب دے کر قتل کر دیئے گئے۔ یہوداہ گلیلی ایک قوم پرست یہودی تھا جو رومیوں کے خلاف ایک مسلح بغاوت کی قیادت کررہا تھا، اس کے نجانے کتنے ہی حمایتیوں کو رومیوں نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا۔ یہ سب یسوع کی صغیر سنی کے واقعات ہیں۔ چار سو یہودیوں کو رومی محصولات (ٹیکسز) کی ادائیگی کے خلاف تحریک کی وجہ سے رومیوں نے صلیب دے کر قتل کر ڈالا۔ اپنے قوانین سے منحرف باغیوں کے لئے رومی مقتدر صلیب جیسی تعذیبی ظالمانہ کاروائی کیا کرتے تھے۔ گلیل کسی نہ کسی طرح ہمیشہ باغیوں کا مرکز رہا کیونکہ یہ براہ راست رومی سلطنت کے ماتحت علاقہ نہ تھا۔ (بلکہ یہ ایک باجگزار علاقہ تھا از مترجم)
اسی وجہ سے یہ گمان کیا جاتا ہے کہ صلیب پر قتل ہونے والے یسوع گلیلی بھی دیگر یہودیوں کی طرح رومیوں کے خلاف بغاوت کے مرتکب تھے کیونکہ وہ رومی قابضین کو دھمکیاں دینے والے تھے یقیناً لوقا کی انجیل کے مطابق ہمیں بتایا گیا ہے کہ ان کے خلاف الزام لگایا گیا تھا۔ " اِسے ہم نے اپنی قَوم کو بہکاتے اور قَیصر کو خِراج دینے سے منع کرتے اور اپنے آپ کو مسِیح بادشاہ کہتے پایا" (لوقا ٢:٢٣) جس وجہ سے یسوع کو صلیب دی گئی رومیوں کے مطابق یہ تھی کہ انہوں نے یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعوٰی کیا تھا جو کہ اُس وقت بہت بڑا جرم تھا جبکہ رومی یہودی سلطنت کو مٹا چکے تھے۔ "قوم کو بہکانے" کا مطلب لوگوں کی رومی فرمانبرداری میں دخل انداز ہونا تھا۔ مسیح یا المسیح کی اصطلاح کا استعمال یہاں سیاسی معنوں میں ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مسیحیوں کی جانب سے اناجیل کو غیر سیاسی اصطلاحات پر مبنی بنانے کے مقصد کے تحت کی جانے والی ترامیم کے باوجود ان کی یہ ہوشیاری کام نہ آئی اور معاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔
لیکن اناجیل اپنی ساری توانائی فقط یہ باور کرانے میں صرف کررہی ہیں کہ اگرچہ یسوع پر سیاسی الزام لگا کر مصلوب کیا گیا لیکن یہ جھوٹا الزام تھا بلکہ تصلیب یسوع کی اصل وجہ سیاسی نہیں بلکہ مذہبی معاملہ تھا۔ انجیل نویس کے مطابق تب سیاسی الزام مضبوط ہوتا ہے جہاں یہودی پیلاطوس سے کہتے ہیں " اگر تُو اِس کو چھوڑے دیتا ہے تو قیصّر کا خَیر خواہ نہِیں۔ جو کوئی اپنے آپ کو بادشاہ بناتا ہے وہ قیصّر کا مُخالِف ہے" (یوحنا ١٢:١٩) لیکن درحقیقت یہاں سیاسی الزام کا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ کبھی بھی یسوع کا سیاسی مقصد نہیں تھا بلکہ وہ ایک مخالف جنگ تھے جوکہ رومی حکومت کے خاتمے کے خواہشمند نہ تھے اور جب انہوں نے یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعوٰی کیا تو یہ بے ضرر روحانی معنی میں تھا اور کسی بھی طرح رومی قابضین کے خلاف نہیں تھا۔
اس واقعہ کے مطابق انجیل نویسوں نے یسوع کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ہر اس الزام سے بری الذمہ تھے جس کو بنیاد بنا کر انہیں مصلوب کیا گیا۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس معاملے میں رومی اس کی موت سے بری الذمہ تھے اور یسوع کے معاملے میں انہیں پوری طرح دھوکے اور فریب میں رکھا گیا یہاں تک کہ اس قضیہ میں رومی گورنر کو دھمکی تک دی گئی جب اس نے اپنے ہاتھ دھو کر کہا. " مَیں اِس راستباز کے خُون سے بری ہُوں۔ تُم جانو" (متی ٢٤:٢٧) اس طرح یسوع کی موت کا الزام پورا پورا یہودیوں پر ڈال دیا جاتا ہے جو فورا ہی اس واقعہ میں اس الزام کو قبول بھی کر لیتے ہیں۔ " اِس کا خُون ہماری اور ہماری اَولاد کی گَردَن پر"
یسوع کی تصویر یہودی مذہب کے خلاف باغی کے طور پر جتنی ثابت ہوگی اتنا ہی ہر شے انحصار معاملے کی تفہیم پر ہو گا۔یہ قرین قیاس بات غلط اُس وقت ہو سکتی ہے کہ جب بظاہر یسوع کا المسیح ہونے کا دعوٰی یہودی مذہب میں کفر گوئی ہوتا، یا اس کا سبت کے دن شفایابی دینا فریسیوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہوتا، یا اس کی ہیکل کو تباہ کرنے کی دھمکی انہیں ورطہ حیرت میں ڈالتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ الزام غلط تھا جس کی وجہ سے یسوع کو مصلوب کیا گیا وہ رومی قابضین کو بظاہر دھمکی دینے کا سیاسی الزام تھا۔ اصل وجہ یہودی مذہبی قیادت کی دشمنی تھی جو کہ اسے (یسوع کو) دغابازی سے رومی گورنر کی نظر میں بطور ایک سیاسی موذی کے طور پر مجرم ٹھہرا رہے تھے۔ اگر کوئی مذہبی الزام ثابت کیا جا سکتا تو یہودی اشرافیہ کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کو گرفتار کرکے گورنر کے پاس لاتے۔ یہاں فقط ایک ہی نمایاں الزام باقی بچتا ہے اور وہ خود یسوع ہیں جو کہ اپنی ذات میں ایک سیاسی انقلاب تھے اور ان کی موت کی حقیقی وجہ یہی تھی۔
گذشتہ مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ انجیل نویسوں کی یسوع کو یہودی مذہب کا باغی ظاہر کرنے کی بھونڈی کوشش اس وقت کے یہودی حالات کی اصل تفہیم کی روشنی میں بالکل نامعقول ہے۔ اناجیل میں فقط یوحنا کی انجیل ہی یسوع کو ایسے نظریات کا پرچار کرنے والے کے طور پر پیش کرتی ہے جس سے یقینی طور پر یہودی مذہبی عمائدین اور عام یہودی بھی مشتعل ہو رہے تھے جبکہ دوسری اناجیل میں یسوع کی بطور معلم منظر کشی کی گئی ہے۔ اناجیل متوافقہ میں اس طرح پیش گیا ہے کہ وہ اپنے نظریات کے پھیلاؤ سے فریسیوں کو اشتعال دلاتے رہتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ فریسیوں کو طیش نہیں دلا سکتے تھے۔ یسوع کی اصل تجاویز و تعلیم ابھی تک اناجیل میں موجود ہیں، یہ صرف ان کا اثر ہے جو تبدیل کردیا گیا ہے۔
رومیوں کے خلاف بغاوت کے سیاسی الزام پر ہم بات کر چکے ہیں یہاں ہم فریسیوں اور سردار کاہن کے درمیان تعلق کی تفصیل پر بات کریں گے۔ سردار کاہن یقیناً گھبرا گیا تھا اور یسوع کا دشمن ہو چکا تھا کیونکہ اس نے دعوی المسیح ہونے کا کیا تھا اور دھمکی ہیکل کو دی تھی کیونکہ سردار کاہن کا تقرر رومیوں کی طرف سے اپنے مفادات کی دیکھ بھال کرنے کے لئے تھا اور المسیح کا دعوی کرنے کا مطلب یہودیوں کے بادشاہ ہونے کا اعلان تھا۔ اگر اس کے معنی یہ ہوتے کہ یسوع نے خود کو خدا سمجھ لیا ہے تو سردار کاہن اس کو فقط ایک بے ضرر پاگل ہی شمار کرتا مگر اس دعوی کا اصل مطلب دراصل بغاوت کی طرف اشارہ تھا۔ ہیکل کو دی جانے والی دھمکی کا مطلب یہودی مذہب کو مسمار کرنا نہیں تھا بلکہ یہ دراصل سردار کاہن کی غدارانہ اجارہ داری کو دھمکی تھی۔
دوسری طرف فریسیوں کو سیاسی بنیاد پر کئے جانے والے المسیح کے دعوے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ فریسی خود رومیوں کے خلاف مزاحم گروہ تھا، انہی کی صفوں میں سے زائیلوٹ آئے جو کہ بہادر گوریلا جنگجو تھے اور ان کا قائد یہوداہ گلیلی تھا۔ بیشتر فریسیوں کی سوچ معتدل نقطہ نظر سے یہ تھی کہ رومیوں کی حکومت غالباً طویل وقت کے لئے اقتدار میں آئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ آزادی کی امید رکھتے اور مسیح کے نام پر اٹھنے والی تحاریک کے ساتھ ہمدردی رکھتے۔ ان کی یہ روش گملیل کی تقریر (اعمال ٥)میں بالکل ظاہر ہے کہ اگر ان کا نظریہ اور اس کا نقطہ آغاز انسانی ہے تو یہ ختم ہو جائے گا لیکن اگر یہ خدا کی طرف سے ہے تو تم کبھی بھی انہیں نیچا نہیں دکھا سکتے بلکہ تم خدا کے ساتھ جنگ کا خطرہ مول لو گے. یہ سکوت و مشاہدے کی پالیسی پر مسیحی تحریک کے سلسلے میں محتاط اور معقول تھی اور یسوع کی ابتدائی تحریک سے ان کی ہمدردی اس لئے تھی کہ فریسی ایک محب الوطن جماعت تھی اور ان کے لیے ایک کامیاب مسیحی تحریک کو دیکھنے سے بہتر کوئی پسندیدہ بات نہیں ہو سکتی تھی جیسا کہ سو سال بعد بارکیوبا کے ساتھ ان کی ہمدردی سے ظاہر ہوتا ہے۔
یسوع کی مصلوبیت کی وجہ انتہائی سادہ ہے کہ وہ رومی حکومت کے خلاف ایک باغی تھے. اناجیل میں انہیں سیاسی مجرم کی شکل میں یہودیوں کے الزامات کی نسبت سے ہرگز نہیں پیش کیا گیا بلکہ اناجیل میں محض یہودیوں کو سیاسی مجرم کے رنگ میں پیش کیا گیا جن کا مقصد مصلوبیت کے الزام کو رومیوں سے یہودیوں (یہودی فقہاء، سردار کاہن اور اس کے رفقاء ) کی طرف منتقل کرنا تھا۔


اس کا مطلب یہ نہیں کہ یسوع ایک آزادخیال سیاسی باغی تھاجدید وقت کےچی گویرا کی طرح مگر اس طرح کی سیاست بالکل دقیانوسی ہے،یسوع کا اصل تعلق مذہبی تھا نہ کہ سیاسی۔انہوں نے ایک ربی کی مانند منادی کی، ایک نبی کی مانند خداکی بادشاہی کا اعلان کیا اور بالاخر حزقیل ،سلیمان اور داؤد کی مذہبی روایات کے مطابق خود کو بطوربادشاہ پیش کیا۔یہودیت میں سیاست ومذہب کا جداگانہ تصورممکن نہیں کیونکہ یہودیت میں انسان کا بنیادی تعلق اس دنیا سے ہےنہ کہ بعد میں آنے والے جہان سے جیساکہ زبورنویس بھی کہتا ہے"جنت خدا کے لئے ہے اور زمین خدا کے فرزندوں کے لئے"جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دنیا ہی مکمل انصاف، محبت اور رحمت اور امن ہے نہ کہ اور اس جہاں سے آسمانوں سے آگے والی دنیا کی طرف بھاگ جانا کسی طرح بھی درست نہیں ۔یسوع نے موسی کی روایات کی پیروی کی جوکہ ایک نبی اور آزادی دہندہ تھے لیکن اس کے برعکس یسوع ایک سلطنت کی مخالفت میں اس ارادے سے آگے آئے کہ اسے پامال کردیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔