جب بھی بائبل مقدس
کا نام سامنے آتا ہے تو اس کےساتھ ہی عہدِقدیم وعہدِجدید جیسے الفاظ بھی سماعت سے
ٹکراتے ہیں۔عہدنامہ قدیم کیا ہے؟اس سوال کا جواب ڈاکٹر موریس بوکائے کچھ اس طرح سے
دیتے ہیں۔
"عہدنامہ
قدیم ایسی کتابوں کا مجموعہ ہے جن کی ضخامت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے اور انداز
ِبیاں بھی بڑی حد تک مختلف ،وہ نوسوسال سے زیادہ مدت میں کئی زبانوں میں لکھی گئی
مگر ان کی بنیاد زبانی روایتوں پر ہی رہی،ان میں کئی کتابوں کی واقعات اورمخصوص
ضروریات کے تحت اصلاح کی گئی اور ان کو اسی طرح مکمل کیا گیا ۔اکثر یہ کام ایسے
ادوار میں ہوا جن کے درمیان کافی فصل ہے۔"1؎
اگر
بات صرف زبانی روایات سے منتقل ہوکر ان کو ضبطِ تحریرلانے تک ہی محیط رہتی تو معاملہ
کچھ مشکل نہ تھا لیکن مرورِزماں کے ساتھ مخصوص مقاصد کےتحت اصلاح کے نام پر کی گئی حک وتحذیف اس کو خاصہ مشکوک بنادیتی ہے
۔ یہ تشکیک اس وقت خاصی پیچیدگی اختیار کرلیتی ہے جب عہدقدیم میں مشمول کتب کے
مصنفین کے درست انتساب کا معاملہ سر اٹھاتاہے۔(Pseudepigrapha) سوڈیبائی گرافا اہمیت کی حامل کتب کے متعلق یہ دعویٰ کیا
جاتا ہے کہ یہ نبیوں کاکلام ہے اور انہیں وہی برگزیدہ ہستیاں صفحہ قرطاس پر لانے
کا موجب بنی ہیں جن کی طرف یہ کتب منسوب ہیں۔کیا حقیقت وہی ہے جیساکہ دعویٰ کیا
جاتا ہے؟چنانچہ یہ سوال خاصی اہمیت اختیار
کرجاتا ہے کہ عہدقدیم میں شامل کتب کن اشخاص کی تصنیفات ہیں؟کلیسائے دعویٰ کے
موافق کیا واقعی یہ کتب انہی اشخاص کی ہیں جن کی طرف یہ منسوب کی جاتی ہیں؟علماء
کی رائے سے ناواقف اور تحقیق ِمحقق سے بہرور قاری ان کتب کو عقیدت کی عینک لگا کر
کلیساء کے دعویٰ کے مطابق انہی منسوب شخصیات کا سمجھ کر مطالعہ کرتا ہےاورکبھی اس
سچائی کا ادراک نہیں کرپاتا کہ زیرِمطالعہ تحاریر کن اشخاص کے قلم سے وجود میں
آئیں؟
یوں
تو عہدِجدید 39 کتب پر مشتمل ہے لیکن ہماری مبحوث کتاب عہدقدیم میں شامل نحم یاہ
کی کتاب ہے۔کیایہ کتاب واقعی نحم یاہ نبی کی تحریر کردہ ہے؟کیا کلیساء اپنے اس
دعویٰ میں صادق ہے کہ نحم یاہ کتاب کا مصنف نبی ہے؟اگرچہ اس طرز کے کافی سوالات
یہاں پیدا ہوتے ہیں لیکن ان سب سے کچھ وقت کےلئے اعراض کرتے ہوئے ہم اس امر کی
تنقیح کریں گے کہ کیا یہ کتاب واقعی نحم یاہ کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر موریس بوکائے
لکھتے ہیں۔
"تواریخ
اول،دوم،عزرا اور نحم یاہ کامصنف ایک ہے جس کو وقائع نگار کہاجاتاہےاور جس نے
چوتھی صدی عیسوی میں تصنیف کاکام کیا۔ وہ تخلیق کی تمام تاریخوں کو دہراتا ہے
حالانکہ اس کے نسب ناموں کا سلسلہ صرف حضرت داؤد علیہ السلام تک جاتاہے۔امرواقعہ
یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ کتاب سموئیل اور کتاب سلاطین کوکام میں لایاہے۔تناقضات
اور تضادات کا خیال کئے بغیر وہ میکانکی طریقے سے ان کی نقل کردیتا ہے(ای جیک)
لیکن اس کے باوجود وہ ان صحیح حقائق کا اضافہ کردیتا ہے جن کی تصدیق وتوثیق اثریات
نے کردی ہے۔ان کتابوں میں تاریخ کو دینی ضرورتوں کے مطابق بنانے میں احتیاط سے کام
لیاگیاہے۔ای جیکب کا کہنا ہے کہ مصنف بعض اوقات تاریخ کو دینیات کے مطابق لکھتا
ہے۔"2؎
مذکورہ
بالا اقتباس سے ہمیں اس سوال کا جواب تو مل جاتا ہے کہ اس کتاب کا وجود کن ضروریات
کے تحت ہوا اور اس میں کیوں اصلاح کی گئی؟لیکن ساتھ ساتھ چند توضیح طلب نکات بھی
سامنے آجاتے ہیں۔
1۔ نحم یاہ
کی کتاب کا مصنف مجہول ہے اور یہی مجہول مصنف نحم یاہ سمیت عزرا اور تواریخ اول
وثانی کابھی مصنف ہونے کااعزازرکھتا ہے۔مصنف کا مجہول ہونا ان کتب کو اسنادی
اعتبار سے سوڈیبائی گرافا کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔
2۔ ڈاکٹر
موریس بوکائے کی تحقیق کی توثیق چرچ بھی کچھ اس طرح سے کردیتا ہے۔"ابتداء میں
عزرااورنحم یاہ ایک ہی کتاب تھی جس میں تاریخ بیان کی گئی ہے۔3؎
3۔ سلاطین
اور سموئیل کی کتاب کو ماخذ بنانے کے باوجود نحم یاہ کے مصنف نے تناقضات اور
تضادات کی بھرمار کی ہے۔اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کا مطمع نظر مقدس صحائف
کی تدوین کے بجائے فقط قومی تاریخ کی حفاظت تھی۔
4۔ نحم یاہ
کا مصنف بہت سے ایسے حقائق کی درستگی اور اضافہ بھی کرتا ہے جو سلاطین وسموئیل کی
کتابوں میں غلط مذکور تھے یاپھر ناگزیروجوہات کی بناء پر انہیں عنقاء کردیا
گیاتھا۔
5۔ نحم یاہ
کی وجہ تخلیق تاریخ کو دینی ضرورت کے تحت لانا ہے اوربوقت ِتحریر اسی کاالتزام کیا
گیا۔عجیب بات ہے کہ کسی بھی الہامی کتاب کی صداقت تاریخ سے ثابت کی جاتی ہے لیکن
یہ کرشمہ بائبل میں ہی وقوع پذیر ہوتا ہے کہ یہاں مذہب کی صداقت تاریخ سے ثابت
کرنے کے بجائے تاریخ کو مذہب کے تابع کردیاجاتاہے۔بائبل میں ایسے مقامات کی بھرمار
ہے مگر فی الوقت ہمارا یہ موضوع نہیں لہذا فقط ایک ہی مثال پر اکتفاء کروں
گا۔ڈاکٹرموریس بوکائے لکھتے ہیں۔
"من
سی نامی بادشاہ جوایک بدمذہب جابرشخص تھا وہ اس بادشاہ کے اشوریہ کے قیام کے دوران
عقائد کی تبدیلی کا مفروضہ قائم کرتا ہے(تواریخ ثانی33:11) حالانکہ کسی بائبل یا
غیربائبل کے ماخذ میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔عزرا اور نحم یاہ پر سخت تنقید
کی گئی ہے۔اس لئے کہ ان میں مبہم نکات بھرے پڑے ہیں اس لئے کہ جس دور سے ان کتابوں
میں بحث کی گئی ہے(چوتھی صدی قبل مسیح)خود اس کے بارے میں زیادہ اچھی معلومات نہیں
ہیں کیونکہ اس دور سے متعلق غیربائبلی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔"4؎
ڈاکٹرموریس
بوکائے کے دعویٰ کو چرچ بھی ان الفاظ سے تقویت دیتا ہے۔
"نحم
یاہ اور عزراشروع میں ایک ہی کتاب تھیں ۔نحم یاہ کی کتاب اس وجہ سے خاص اہمیت کی
حامل ہے کہ اس دور کی اسرائیل کی تاریخ کا واحد بائبلی ماخذ ہے۔"5؎
مترشح
یہی ہوتا ہےکہ ایک ایسی مجہول المصنف کتاب(جسکی اسنادی حیثیت زیادہ سے زیادہ
فردِواحد کی گواہی سمجھی جاسکتی ہے)پر بنی اسرائیل کی "مستند ترین"تاریخ
ہونے کا کھونٹا گاڑ دیا جاتاہےاور فقط اسی پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ مستزادِظلم
یہ کہ اسکو حرف بحرف الہامی اور خدا کا کلام ہونے کا بھی درجہ بھی دےدیاجاتاہے۔ایک
ایسی کتاب جو ہردور میں قطع وبرید کرنے والے قلم کا تختہ ِمشق بنی رہی، جس میں
تناقضات وتضادات کی بھرماررہی،جس کو دینی ضروریات کے تحت "مع اضافہ
جات"تحریرکیاگیا۔ایسی کتاب کوالہامی کادرجہ دیناماورائے عقل ہے اگرچہ ضبط
تحریر کے وقت کاتب ومصنف کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ وہ مقدس ادب
تخلیق کرنے جارہے ہیں۔صرف نحم یاہ کی کتاب کا ہی یہ حال نہیں ہے بلکہ اس معاملے
میں پوراعہدِقدیم نحم یاہ کا ہمرکاب ہے لیکن ان سب حقائق سے چشم پوشی کرکےان
کتابوں کوالہامی گردانا جاتاہے۔
صحتِ
کتاب سے بحث کے بعد اب یہ امربھی متقاضی جواب ہے کہ اس کتاب کا مصنف فی الحقیقت ہے
کون؟اگر چرچ کے دعویٰ کے موافق نحم یاہ کوہی اس کا مصنف تسلیم کرلیا جائے تویہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی اور بائبلی شہادات کے مطابق نحم یاہ کی شخصیت کس
حیثیت کی حامل ہے؟آیا کہ وہ نبی ہیں یا کاہن؟یاپھر ان دونوں کے علاوہ کچھ اور
؟یہودی اور مسیحی علماء نحم یاہ کے متعلق کیا رائے رکھتےہیں؟یہ وہ سوالات ہیں
جوایک مبتدی قاری کے مافی الضمیر میں اس وقت جنم لیتے ہیں جب وہ خالی الذھن ہوکر
نحم یاہ کا مطالعہ شروع کرتاہے۔ان سوالات کا جواب جاننے کےلئے پہلے ہم پادری برکت
اللہ صاحب سے رجوع کرتے ہیں۔موصوف اپنی کتاب "صحت کتب ِمقدسہ" میں لکھتے
ہیں۔
"ان
ساری باتوں کے سبب ہم ایک سچاعہدکرتے اوردیکھتے ہیں اور ہمارے امراء اور ہمارے
لاوی اور ہمارے کاہن اسی پر مہر کرتے ہیں اور وہ جنہوں نے مہریں ثبت کیں یہ ہیں۔
نحم یاہ،ترشاتا،صدقیاہ،عزریاہ چوراسی اشخاص نے اپنی مہریں ثبت کیں۔یہودی روایات کے مطابق یہ چوراسی
اشخاص "عبادت خانہ ِعظیم" میں جس کا ذکر نحم یاہ8تا10باب میں ہے،کے
اراکین تھے اور خدا کے برگزیدہ اور چنیدہ اشخاص تھے"6؎
پادری
صاحب متحدیانہ انداز میں بڑے طمطراق سے نحم یاہ کے نبی ہونے کا نہ صرف دعویٰ قائم
کرتے ہیں بلکہ اُس کوخداکے حضور عہدمیں
شامل ہوکر عہد کی گواہی دینے والوں کی صف میں بھی شامل کردیتے ہیں۔اس ضمن میں
پادری صاحب مزید لکھتے ہیں۔
"روایات
کے مطابق حضرت عزرا اس "عبادت خانہ ِعظیم" کے صدر تھے اور مختلف زمانوں
میں حضرت دانی ایل،حضرت حجی ، حضرت زکریا، حضرت ملاکی، حضرت زربابل اور حضرت نحم یاہ
وغیرہ اس کے اراکین میں سے تھے۔چنانچہ مشنا میں آیا ہے کہ"خدا نے موسیٰ کو
کوہ سینا پر تورات دی اور اس نے یشوع کو اور دیگر بزرگوں کو دی جنہوں نے اسے
انبیاء اللہ کے سپرد کیااور انبیاء نے اس کو عبادت خانہِ عظیم کی سپردگی میں
دیا۔مذکورہ بالا یہودی روایات مبالغہ اور رنگ آمیزی سے خالی نہیں بہرحال یہ ثابت
ہوگیا ہے کہ اس زمانہ میں حضرت عزرا کے گرد فاضل معلموں کا ایک حلقہ جمع ہوگیا
تھا(عزرا8:16)7؎
غلو
کے پیراہن میں لپٹی روایات پر یقین کرنا اتنا سہل نہیں جتنا نظر آتا ہےخود پادری
صاحب بھی اس کے معترف ہیں لیکن اس کے باوجود پادری برکت اللہ صاحب اس سے مستدل
ہوکر نحم یاہ کے متعلق نبی ہونے کا دعویٰ قائم کردیتے ہیں۔ ان کے اس فعل سے خود ان
کی مبالغہ آمیز تحدی پر مبنی تحریر مشکوک ہوجاتی ہے سوتوضیح ِمسئلہ کے لئے دوسری
شہادات کی طرف رجوع کرنا پڑتاہے۔ نحم یاہ کو تاریخی شواہد سے نبی ثابت کرنا جوئے
شیر لانے کے مترادف ہےیہی وجہ ہے کہ مسیحی علماء دعویٰ قائم کرتے ہوئے اسی کو دلیل
بناکر معتقدقاری کو مطمئن کردیتے ہیں یا
یاپھر نحم یاہ کے تعارف میں سکوت اختیار کرنے میں عافیت سمجھ لی جاتی ہے۔اول الذکر
کی مثال پادری برکت اللہ صاحب کا استدلال ہے جبکہ مؤخرالذکر کی بہترین مثال
پاکستان بائبل سوسائٹی سے شائع ہونے والی کتاب "معتدبہ کلام مقدس"ہے جس
میں نحم یاہ کا تعارف کرتے ہوئے مرقوم ہے۔
"نحم
یاہ نامی ایک یہودی شاہ فارس
ارتخششتا اول کے دربار میں
اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اسے خبرملی کہ یروشلم اب بھی کھنڈر ہے۔۔۔8؎
مصنف
نحم یاہ کے نبی ہونے یانہ ہونے پر چشم پوشی کرتے ہوئے اس کے فقط یہودی ہونے کی تو
خبر دیتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ خبر نہیں دیتا۔مصنف کی یہ معنی خیز خاموشی
غیرضروری نہیں کہ اس کونظرانداز کردیا جائے کیونکہ معاملہ ایک ایسی الہامی کتاب کا
ہے جس پر مذہب کی حقانیت کی بنیاد استوار کی جاتی ہیں چنانچہ چرچ کے اس مایوس کن
رویے کاازالہ پادری ایف ایس خیراللہ صاحب ان الفاظ سے کرتے ہیں۔
"نحم
یاہ ارتخششتابادشاہ کاساقی تھا(نحم یاہ1:11۔2:1)یہاں لفظ ساقی مروجہ
معنوں میں مستعمل نہیں ہے بلکہ ایک اہم اورذمہ دارانہ عہدے کو ظاہر کرتا ہے اس کا
ثبوت یہ ہے کہ بادشاہ نحم یاہ سے بڑے دوستانہ لہجے میں بات کرتا ہے اور پھر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نحم یاہ
کے سفر کو "رخصت" تصور کرتاہے ۔"آگے
چل کر پادری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ نحم یاہ ہوسن کے محل میں شاہی افسر تھا لیکن
اس کا دل یروشلم میں اٹکا ہوا تھا۔9؎
جس
معاملے پر خاموشی اختیار کررکھی تھی اس کو پادری صاحب کے الفاظ نحم یاہ کی حیثیت
بتا کر عیاں کردیتے ہیں۔مگر پھر یہ مسئلہ پیداہوجاتا ہے کہ شرابی انسان خدا کے
کلام کاملہم ہوسکتاہے؟اگر ایسا ہے تو ہارون علیہ السلام کو دیئے گئے خدائی حکم
(احبار10:9) کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ خدا کے برگزیدہ خداوند کے حضور شراب نہیں
پئیں گے؟کیا شرعی احکامات کی تحقیر وتنقیص کرنے والے ہی شریعت کی کتابوں میں شامل
کتاب کے مصنف بن سکتے ہیں؟شریعت کی کتاب تو صاف صا
ف حکم دیتی ہے کہ خداوند کے
برگزیدہ شراب اور نشہ دار چیزوں سے پرہیز کریں اور شراب کا سرکہ یانشہ آورسرکہ نہ
پئیں۔10؎
جب کلیسائی دعویٰ کے مطابق خدائی کلام کے ملہم افراد ہی علی
الاعلان شریعت کوپامال کریں گے تو عوام الناس سے شریعت پر عمل کرنے کی کیا توقع کی
جاسکتی ہے؟نحم یاہ کا شرابی ہونا فقط فردواحد کی رائے ہی نہیں ہے بلکہ نحم یاہ کی
کتاب کے ابتداء میں ہی خود اس بات کی صراحت موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ چرچ کو بھی اس
مؤقف کا ہم رکاب ہونا ہی پڑا۔
نحم
یاہ یہودی تھا۔وہ شاہ فارس ارتخششتا کاذاتی
خدمت گار تھا۔ اس حیثیت سے اس کافرض تھا کہ بادشاہ کے آرام وسکون کاخیال رکھے وہ
بادشاہ کا ساقی تھااورہرروز مے پیش کرنا اس کی خاص ذمہ داری تھی۔۔۔۔۔ساقی کا فرض ہوتا تھا کہ
بادشاہ کو مے پلانے سے قبل اسے خود چکھے تاکہ یقین ہوجائے کہ اس میں زہر نہیں
ملایا گیا۔11؎
مذکورہ
بالا اقتباس نحم یاہ کے عامی وساقی ہونے پر تو دال ہے مگر کسی صورت بھی اُس کے نبی
ہونے پر مشیر نہیں ہے۔اس سے پادری برکت اللہ صاحب کے دعاویٰ کی جڑ کلی طور سے کٹ
جاتی ہے کہ نحم یاہ نبی اور خدا کا چنیدہ بندہ تھا۔یہاں پرکلام مقدس کے امینِ اول
یہودی ِعلماء بھی پادری برکت اللہ صاحب کےدعویٰ کے مخالف کھڑے نظر آتے ہیں۔یہودیوں
کے نزدیک ہروہ شخص انبیاء میں شمار نہیں کیاجاتا تھا جودنیوی دربار سے تعلق رکھتا
ہو۔اس یہودی مؤقف کااقرار مسیحی مادرکلیساء کیتھولک چرچ بھی کرتاہے۔بائبل میں شامل
دانیال کی کتاب کے تعارف میں چرچ دانیال کے نبی ہونے کی ان الفاظ میں تردید
کرتاہے"گویہودی اُسے انبیاء میں شمار نہیں کرتے کیونکہ وہ شاہی دربار میں
اعلیٰ دنیوی رتبہ پرفائز تھا"12؎جب یہودی دانیال کے نبی ہونے کی
تردید اسی پیمانے پرکردیتے ہیں تو پھر نحم یاہ کی نبی ہونے کی تغلیط کیوں نہیں؟لاریب
وہ بھی دنیوی رتبہ میں دانیال کا ردیف ہے۔علمائے یہود اور مادر کلیساءدونوں کا
مؤقف سامنے آنے کے بعد کسی قسم کی تشنگی باقی نہیں رہتی لیکن اتمام حجت کے لئے معروف علمی خانوادے سے
تعلق رکھنے والے مشہور مسیحی اسکالر فادرپرویزعمانوئیل "جوکہ یروشلم عبرانی
یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں"کاقول ذکر کرنا بھی مناسب سمجھونگا۔فاضل مصنف رقم
طراز ہیں۔
پرانے
زمانہ میں بادشاہوں کوقتل کرنے کا محفوظ اور مؤثر ترین طریقہ یہ ہوتا تھا کہ لوگ
بادشاہ کے کھانے میں زہر ملوادیاکرتے تھے،بادشاہ ا س خطرے سے آگاہ ہوتے تھے اور
ایسے ملازمین رکھا کرتے تھے جن پر انہیں پوراپورااعتماد ہو ۔ایسے لوگ بادشاہ کی
نظر میں نہایت مقبول اور اہل دربار کے روبرو قابل ِاحترام ہوتے تھے۔نحم یاہ بھی
ایک ایسا ہی خوش قسمت شخص تھا ۔وہ فارس کے بادشاہ کامئے نواز تھا، جو مئے بادشاہ
کے لئے مخصوص ہوتی تھی اس کو پہلے نحم یاہ چکھتا تھا اور جسے وہ قابل نوش قرار
دیتا بادشاہ صرف وہی مئہ پیتا تھا۔اس طرح نحم یاہ ایک راست باز اور قابل اعتماد
شخص تھا۔13؎
بغیر
کسی ابہام کے یہ متیقن ہوچکا ہے کہ نحم یاہ ہرگز نبی نہیں تھا بلکہ بادشاہ کا ساقی
تھا ۔فادرپرویزعمانوئیل صاحب نحم یاہ کو ساقی ہونے کے باوجود راست باز قرار دے
دیتے ہیں۔کیا راستباز ہونے کےلئے شرابی ہونا ضروری ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو بائبل
میں شراب سے ممانعت چہ معنی وارد؟کیا شراب کے متوالے مقدس متون کے خالق ہوسکتے
ہیں؟تدبرِقلیل ہی اس بات کو کسی صورت بھی تسلیم نہیں کرتاکہ یہوواہ کی نظر میں
شرابی کبابی افراد بھی چنیدہ وبرگزیدہ بن سکتے ہیں۔اس سے نحم یاہ کی کتاب کے
غیرملہم ہونے کی وثاقت توثابت ہوجاتی ہے لیکن یہ سوال ابھرتاہے کہ اِس کتاب کی
تصنیف کے وقت نحم یاہ کا مطمع نظر کیا تھا؟آخروہ کون سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے
یہ کتاب عدم سے وجود میں آئی؟ان سوالات کا جواب کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت کچھ اس
طرح دیتی ہے۔
عزرااور
نحم یاہ کے مصنف نے غالبا کئی مختلف ماخذ استعمال کئے ہیں سب سے اہم وہ ہیں جو
صیغہ واحد متکلم میں ہیں۔۔۔عزرا باب8-10اورنحم یاہ باب8-9اسی بنیاد پر تالیف ہوئے
ہیں۔دوسرااہم ماخذ نحم یاہ کی یادداشتیں یا نحم یاہ کی آپ بیتی ہے۔۔۔مصنف نے کئی
سرکاری دستاویزات سے بھی استفادہ کیا ہے جو آرامی زبان میں لکھی گئی تھیں اور
لوگوں کی بہت سے فہرستوں سے بھی استفادہ کیا گیاہے۔14؎
چرچ
کی طرف سے مقر حقیقت سے یہ بات واضح ہوئی کہ مصنف نجی طرز کی تاریخ مدون
کررہاتھاالہامی طرز کی تحریر کا تصورتو اس کےذہن کے حواشی تک سے مفقود تھااور پھر
مسلمہ حقائق میں سے یہ بات بھی ہے کہ نحم یاہ کا نبی ہونا کسی بھی روایت سے ثابت
نہیں ہے۔اس مؤقف اور یہودی اور مسیحی علماء کا اجماع ہے اورتاریخ بھی نحم یاہ کی کتاب کے الہامی ہونے کی نہ صرف
بیخ کنی کردیتی ہے بلکہ اس کتاب کے نحم یاہ سے منتسب ہونے کے بھی بخیے ادھیڑ دیتی
ہے ۔خود مصنف ِنحم یاہ ہی اُس کے مئہ نوش ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردیتاہے۔ان تمام
صورتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نامعلوم مقاصد کے
حصول کے لئے اس کتاب کو الہامی ہونے کا درجہ دیا گیا۔
ان تمام حقائق کے باوجود ایک تشنگی ابھی برقرار ہے۔وہ یہ کہ
ایک یہودی غلام غیریہودی بادشاہ کا اتنا قریبی معتمد خاص کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کو
بادشاہ کے حرم تک رسائی ہو؟بظاہر سادہ نظر آنے والا سوال اپنی ذات میں کئی پیچیدگیاں
جنم دیتاہے۔ایک غلام ساقی کےلئے بادشاہ کے محل کے دروازے منفتح ہوجانا
اور پھر اس کو افسرشاہی بنا دینا اتناآسان معاملہ نہیں کہ اس سے اعراض برت لیا
جائے۔کیابادشاہ کو اتنی نوازشات کے باوجود اپنے غلام سے بغاوت کاخطرہ نہ تھا؟یاپھر
شراب کےنشے میں ہمہ وقت مستغرق نحم یاہ اتنا ہی بےضرر تھا کہ بادشاہ نے اسکو توجہ
دینا مناسب نہیں سمجھا؟اس پیچیدگی کومرتفع کرنے کےلئے مسیحی مادرکلیساء کیتھولک
چرچ" جوکہ روزِاول سے ہی کلام مقدس کا امین چلاآرہاہے "سامنے آتا ہے اور
ان تمام سوالات کا جواب ایک سطر میں دے کر تمام ابہامات کو رفع کردیتا ہے۔کیتھولک
بائبل کمیشن کے تحت شائع ہونے والے"کیتھولک سلسلہ تفسیر"کے تحت شائع
ہونے والی کتاب "بنی اسرائیل کی تاریخ"میں مذکور ہے۔
"نحم
یاہ ایک یہودی خواجہ سرا اور سوسن کے مقام پر فارس کے دربار میں ارت احش استا اول
کا جام بردار تھا۔15؎
زہریلے
ناگ کی طرح پھن اٹھائے تمام سوالات کا قلع قمع یہ عبارت کرتو دیتی ہے مگر نحم یاہ
کی ذات کے ایسے پہلو پر سے پردہ اٹھا دیتی ہے جس کومسیحی علماء عمداًنسیان کاشکار
ہوکر ترک کرتے رہے۔نحم یاہ کا بادشاہ کا منظورِنظر ہونا،حرمِ شاہی تک اس کی رسائی
ہونا،شاہی افسر ہوتے ہوئے خفیہ سرکاری دستاویزات کو اپنی تصنیف میں مستعمل کرنا
ایسے امور ہیں جن پر ایک خوجہ سرا ہی پورا اتر سکتا ہے۔
یہاں
آکر ہمارا مضمون اس دعا کے ساتھ ختم ہوتا ہےکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سچائی کو
تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)کیونکہ سیدناعیسیٰ علیہ السلام سے منسوب قول
ہے کہ تم سچائی سے واقف رہو سچائی تمہیں آزاد کرائے گی۔(انجیل)
تحریر:محمدفرمان شیخ
حواشی
1۔ قرآن بائبل اور سائنس،مصنف ڈاکٹر موریس
بوکائے،صفحہ34
2۔ قرآن بائبل اور سائنس ،مصنف ڈاکٹر
موریس بوکائے،صفحہ47
3۔ کتاب مقدس مطالعاتی
اشاعت،صفحہ818،پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2010ء
4۔ قرآن بائبل اور سائنس ،مصنف ڈاکٹر
موریس بوکائے،صفحہ47
5۔ کتاب مقدس مطالعاتی
اشاعت،صفحہ839،پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2010ء
6۔ صحت کتب ِمقدسہ،مصنف پادری برکت اللہ
،صفحہ نمبر93،پنجاب رلیجس بک
سوسائٹی،مطبوعہ 1952ء
7۔ صحت کتب ِمقدسہ،مصنف پادری برکت اللہ
،صفحہ نمبر94،پنجاب رلیجس بک
سوسائٹی،مطبوعہ 1952ء
8۔ معتدبہ کلام مقدس،صفحہ23،پاکستان بائبل
سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2013ء
9۔ قاموس الکتاب،مصنف پادری ایف ایس
خیراللہ ،صفحہ1030،مسیحی اشاعت خانہ لاہور،مطبوعہ2011ء
10۔ گنتی6:2
11۔ کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،صفحہ831،پاکستان
بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2010ء
12۔ کلام مقدس،کاتھولک بائبل کمیشن،صفحہ
1064،اشاعت نہم،مطبوعہ 2007ء
13۔ خداوندفرماتاہے،مصنف
فادرپرویزعمانوئیل،صفحہ40،جان پال اکیڈمی جھنگ
14۔ کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،صفحہ817،پاکستان
بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2010ء
15۔ بنی اسرائیل کی تاریخ،صفحہ 73،کاتھولک
بائبل کمیشن پاکستان،مطبوعہ 2013ء
3 comments:
(y)
کمال کرتے ہو صاحب کمال کرتے ہو
دوستوں کی چانتوں کا بہت بہت شکریہ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔