Pages

Most Popular

جمعرات، 26 فروری، 2015

یہودی مسیحی تعلقات اور بائبل کی تعلیمات


کچھ عرصہ سے ایک مسیحی گروہ پاکستان میں یہودیوں کے خدا کی چنیدہ قوم ھونے کے ترانے گا رہا ہے. وہ یہودی قوم پر اس قدر فریفتہ نظر آتا ہے کہ فرامین یسوع علیہ السلام مسیح کو بھی پس پشت ڈالنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا. ان کے سیاسی مفادات کا تقاضا انہیں بائبل مقدس کی آیات کو علی الاعلان جھٹلانے پر مجبور کرتا ہے. بائبل مقدس اور یسوع مسیح کے اقوال کو تاویل کی قینچی سے کترنا ان کے ضمیر پر بوجھ نہیں ڈالتا. ہمیں یہ ماننے میں کوئی ھچکچاھٹ نہیں ہے کہ ایک وقت میں وہ قوم واقعی خدا کی محبوب قوم تھی. لیکن بار بار کی الہی تنبیہات بھی اس قوم کو راہ راست پر نہیں لا سکیں. بار بار سزا دہی کے عمل سے گذرنے کے باوجود وہ کجروی اختیار کرنے سے باز و ممنوع نہیں ھوئے. ان کے پاس آخری موقع اس وقت تھا جب یسوع علیہ السلام مسیح مبعوث ہوئے. اس وقت یسوع علیہ السلام مسیح پر ایمان لا کر ان کی سربراہی میں دنیا کی قیادت کرنے اور دیگر قوموں کو الہی دائرے میں داخل کرنے کا سنہری موقع ان کے ھاتھ میں تھا. لیکن انہوں نے یہ موقع بھی اپنی باغیانہ جبلت کے ھاتھوں مجبور ہو کر گنوا دیا. یسوع علیہ السلام مسیح نے انہیں بار بار ان کی کجروی کی طرف متوجہ کیا لیکن بے سود رہا. اپنے اس سفر میں جس میں انہیں از روئے اناجیل مصلوب ھونا پڑا، صاف صاف یہودی قوم پر واضح کر دیا کہ "خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو دے دی جائے گی جو اس کے پھل ادا کرے" (متی 21:43).انجیل واضح طور پر بتاتی ہے کہ وہ لوگ یسوع کی بات کو بخوبی سمجھ گئے تھے لیکن حسبِ عادت اپنی اصلاح کرنے کی بجائے الٹا یسوع علیہ السلام کے قتل کی تدابیر سوچنے لگے. یہ یسوع علیہ السلام مسیح کی طرف سے انہیں آخری تنبیہہ تھی. اس کے بعد اناجیل کے مطابق یسوع مصلوب کر دئیے گئے. یسوع علیہ السلام کی مصلوبیت کے بعد ان کے شاگردوں نے یہودیوں کو ان کے ناروا روئیے پر علی الاعلان ملامت کی. (اعمال 2:36)و (14:3 تا 18)(باب ہفتم اعمال) لیکن ان یہودیوں نے (جن کی بابت خدا کی چنیدہ قوم ھونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے) شاگردوں کے خلاف بھی ریشہ دوانیاں شروع کر دیں. (باب چہارم و پنجم کتاب اعمال). عہد جدید میں اپنے خطوط میں پولس رسول برملا یہودیت سے صداقت کا جدا ھو جانا بیان کرتے ہیں(رومیوں باب دوم) . وہ یہودی قوم کو دنیا کے سردار یعنی شیطان قرار دیتے ہیں (1-قرنتیوں 2:8) و (1-تسالونیکیوں 2:15) و عبرانیوں 6:8. اسی طرح یوحنا رسول بھی یسوع کے بیٹے کے انکار کرنے والوں کو مخالف مسیح قرار دیتے ہیں. (1-یوحنا2:22). اسی طرح مکاشفہ کی کتاب میں بھی یہودی قوم کو شیطان کی جماعت کہا گیا ہے. 2:9 اور 3:9. نتیجہ :ان حوالہ جات سے یہ بات بخوبی ثابت ہو جاتی ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت مجموعی اس قوم سے سیادت چھن جانے کی تنبیہہ دے دی تھی جس پر کان نہیں دھرا گیا تھا. یسوع کے انکار و تصلیب کا جرم پوری قوم کا تھا نہ کہ چند اوباش افراد کا فعل تھا (جیسا کہ اب تاویل کی قینچی چلا کر یہودی جرم کی شناعت کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے). یہودی اپنے ان جرائم کی بنا پر دوہزار برس تک مسیحی قوم کے مبغوض رہے مگر سیاسی مفادات کی یکجہتی نے کتاب مقدس کے اقوال اور دو ہزار سالہ تعامل کلیسیا کو یوں کوڑے دان میں ڈالا کہ مذھبی دیانت کا خون کسی کو نظر نہیں آیا. اور ضمیر سر پٹخ پٹخ کر دم توڑ گیا. اگر کتاب مقدس کی موجودہ تشریح و تعبیر درست ہے تو پھر ان دو ہزار سالہ مظالم کا حساب کون دے گا جو مذھب کے نام پر کئے گئے؟ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا یسوع علیہ السلام مسیح کے انکار کے باوجود یہودی قوم خدائی برکات و سیادت برقرار رہ سکتی تھی؟ اگر جواب ھاں ھے تو پھر بعثت مسیح کے بے فائدہ اور بلاجواز ھونے میں کیا شک باقی رہتا ہے؟ اس سوال کا دیانتداری سے جواب دینا یہودی قوم کی فضیلت کے گن گانے والوں کی بہرحال ذمہ داری ہے۔
مکمل تحریر >>

جمعہ، 20 فروری، 2015

مسیحیت مجھے یسوع کے خون کے سوا کیا فراہم کرتی ہے؟؟

ازقلم ظفر اقبال صاحب

میں کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ مسیحیت نجات اور دنیاوی زندگی بسر کرنے کی خاطر میرے لئے کیا پیش کر سکتی ہے؟ میں نے ایسا کیوں سوچا؟ اس لئے کہ مجھ سے باقاعدہ مشنری صاحب نے کہا کہ مجھے مسیح کے خون کی اشد ضرورت ہے اور اس کے سوا میری نجات نا ممکن ہے. بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مسیحیت میرے لئے مسیح کے بہتے خون کے سوا کچھ نہیں فراہم کرتی. یہاں میرے ذہن میں چھ سوال بیک وقت جنم لیتے ہیں. پہلا سوال یہ ہے کہ نجات کا معاملہ تو حیات بعد الموت سے ہے. دنیا میں زندگی کن اصولوں کے مطابق بسر کرنی چاہئیے اور جو اصول مسیحیت بیان کرتی ہے کیا وہ میرے لئے قابل عمل بھی ہیں یا نہیں یا وہ محض خوش کن الفاظ ہی ہیں ؟دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مسیح کا بہا ہوا خون مجھے اخروی زندگی میں نجات دلا سکتا ہے اگرچہ میرے اعمال اس زندگی میں قابل تعریف نہ رہے ہوں؟ تیسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے مجھے نجات حاصل کرنے کے لیے خود کیا ارشاد فرمایا ہے؟ یعنی کہ نجات حاصل کرنے کے لیے فقط اپنے صلیب پر بہے خون پر اکتفا کرنے کی تاکید کی ہے یا پھر کچھ اور ارشاد فرمایا ہے؟ چوتھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسیح نے اپنی زندگی میں نجات حاصل کرنے کا طریقہ کچھ اور بتایا تھا تو پھر کیا صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد مُردوں میں سے جی اٹھ کر کیا اس میں کوئی تبدیلی کردی تھی؟ پانچواں سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اگر تو انہوں نے زندگی میں تو نجات کے حصول کا فارمولا کچھ اور دیا تھا تو پھر اپنے صلیب پر بہے خون کو کب اور کہاں تبدیل کیا تھا اور کن الفاظ میں بیان کیا تھا اور وہ الفاظ انجیل میں کہاں موجود ہیں؟ چھٹا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نجات حاصل کرنے کے لیے موجودہ مسیحی فارمولا خود مسیح کا دیا ہوا ہی نہ ہو بلکہ مسیح کا نام لے کر تعلیم کسی اور نے دی ہو؟ یعنی کہ یہ مسیح کی تعلیم ہی نہیں بلکہ فقط مسیح کے نام پر ہی تعلیم ہو جس کا خود مسیح سے دور کا تعلق بھی نہ ہو؟ 
میں نے جب ان سوالات کے جوابات کے حصول کے لئے انجیل سے رجوع کیا تو معاملہ کچھ اور ہی نظر آیا. یسوع علیہ السلام بنفس نفیس یہ تعلیم دیتے نظر آئے کہ نیک کام اور توبہ ہی انسان کو نجات دلانے کا باعث ہوں گے نا کہ مسیح کا اپنا خون. دیکھئے زکائی محصل کی توبہ اور لوٹ کا مال واپس کرنے کا فیصلہ سنتے ہی مسیح اسے نجات کی نوید سنا دیتے ہیں. اسی طرح ایک نوجوان نے ابدی زندگی یعنی نجات حاصل کرنے کی بابت یسوع علیہ السلام مسیح سے پوچھا تو آپ نے پہلے اسے شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا. اس کے اس استفسار پر کہ وہ مزید کامل ہونے کا خواہشمند ہے، اسے اپنا سب کچھ بیچ باچ کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا لیکن اسے یہ نہیں فرمایا کہ بیٹا صبر کر میری صلیبی موت پر ایمان رکھنا اور میں تمھارے گناہوں کی معافی کے لیے بس صلیب پر لٹکا ہی چاہتا ہوں. لیکن پولس کہتے ہیں کہ جو شریعت سے نجات حاصل کرنے کے خواہاں ہیں وہ فضل سے محروم ہیں یعنی کہ مسیح سے دور ہیں.(غلاطیوں کے نام خط باب پنجم ). وہ تیموتاؤس کے نام اپنے دوسرے خط کے دوسرے باب میں لکھتے ہیں کہ "یاد رکھ کہ یسوع مسیح جو داؤد کی نسل سے ہے میری انجیل کے موافق مُردوں میں سے زندہ کیا گیا ہے". یہاں وہ اپنی انجیل کی بات کرتے ہیں یعنی کہ اس خوش خبری کی جسے وہ سناتے ہیں نہ کہ خود مسیح. اب مسیحی دوستوں سے ہی رہنمائی کی درخواست ہے
مکمل تحریر >>

پیر، 16 فروری، 2015

نحمیاہ کی کتاب کا تحقیقی جائزہ

جب بھی  بائبل مقدس کا نام سامنے آتا ہے تو اس کےساتھ ہی عہدِقدیم وعہدِجدید جیسے الفاظ بھی سماعت سے ٹکراتے ہیں۔عہدنامہ قدیم کیا ہے؟اس سوال کا جواب ڈاکٹر موریس بوکائے کچھ اس طرح سے دیتے ہیں۔
                "عہدنامہ قدیم ایسی کتابوں کا مجموعہ ہے جن کی ضخامت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے اور انداز ِبیاں بھی بڑی حد تک مختلف ،وہ نوسوسال سے زیادہ مدت میں کئی زبانوں میں لکھی گئی مگر ان کی بنیاد زبانی روایتوں پر ہی رہی،ان میں کئی کتابوں کی واقعات اورمخصوص ضروریات کے تحت اصلاح کی گئی اور ان کو اسی طرح مکمل کیا گیا ۔اکثر یہ کام ایسے ادوار میں ہوا جن کے درمیان کافی فصل ہے۔"
                اگر بات صرف زبانی روایات سے منتقل ہوکر ان کو ضبطِ تحریرلانے تک ہی محیط رہتی تو معاملہ کچھ مشکل نہ تھا لیکن مرورِزماں کے ساتھ مخصوص مقاصد کےتحت اصلاح کے نام پر  کی گئی حک وتحذیف اس کو خاصہ مشکوک بنادیتی ہے ۔ یہ تشکیک اس وقت خاصی پیچیدگی اختیار کرلیتی ہے جب عہدقدیم میں مشمول کتب کے مصنفین کے درست انتساب کا معاملہ سر اٹھاتاہے۔(Pseudepigrapha) سوڈیبائی گرافا اہمیت کی حامل کتب کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ نبیوں کاکلام ہے اور انہیں وہی برگزیدہ ہستیاں صفحہ قرطاس پر لانے کا موجب بنی ہیں جن کی طرف یہ کتب منسوب ہیں۔کیا حقیقت وہی ہے جیساکہ دعویٰ کیا جاتا ہے؟چنانچہ  یہ سوال خاصی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ عہدقدیم میں شامل کتب کن اشخاص کی تصنیفات ہیں؟کلیسائے دعویٰ کے موافق کیا واقعی یہ کتب انہی اشخاص کی ہیں جن کی طرف یہ منسوب کی جاتی ہیں؟علماء کی رائے سے ناواقف اور تحقیق ِمحقق سے بہرور قاری ان کتب کو عقیدت کی عینک لگا کر کلیساء کے دعویٰ کے مطابق انہی منسوب شخصیات کا سمجھ کر مطالعہ کرتا ہےاورکبھی اس سچائی کا ادراک نہیں کرپاتا کہ زیرِمطالعہ تحاریر کن اشخاص کے قلم سے وجود میں آئیں؟
                یوں تو عہدِجدید 39 کتب پر مشتمل ہے لیکن ہماری مبحوث کتاب عہدقدیم میں شامل نحم یاہ کی کتاب ہے۔کیایہ کتاب واقعی نحم یاہ نبی کی تحریر کردہ ہے؟کیا کلیساء اپنے اس دعویٰ میں صادق ہے کہ نحم یاہ کتاب کا مصنف نبی ہے؟اگرچہ اس طرز کے کافی سوالات یہاں پیدا ہوتے ہیں لیکن ان سب سے کچھ وقت کےلئے اعراض کرتے ہوئے ہم اس امر کی تنقیح کریں گے کہ کیا یہ کتاب واقعی نحم یاہ کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر موریس بوکائے لکھتے ہیں۔
                "تواریخ اول،دوم،عزرا اور نحم یاہ کامصنف ایک ہے جس کو وقائع نگار کہاجاتاہےاور جس نے چوتھی صدی عیسوی میں تصنیف کاکام کیا۔ وہ تخلیق کی تمام تاریخوں کو دہراتا ہے حالانکہ اس کے نسب ناموں کا سلسلہ صرف حضرت داؤد علیہ السلام تک جاتاہے۔امرواقعہ یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ کتاب سموئیل اور کتاب سلاطین کوکام میں لایاہے۔تناقضات اور تضادات کا خیال کئے بغیر وہ میکانکی طریقے سے ان کی نقل کردیتا ہے(ای جیک) لیکن اس کے باوجود وہ ان صحیح حقائق کا اضافہ کردیتا ہے جن کی تصدیق وتوثیق اثریات نے کردی ہے۔ان کتابوں میں تاریخ کو دینی ضرورتوں کے مطابق بنانے میں احتیاط سے کام لیاگیاہے۔ای جیکب کا کہنا ہے کہ مصنف بعض اوقات تاریخ کو دینیات کے مطابق لکھتا ہے۔"
                مذکورہ بالا اقتباس سے ہمیں اس سوال کا جواب تو مل جاتا ہے کہ اس کتاب کا وجود کن ضروریات کے تحت ہوا اور اس میں کیوں اصلاح کی گئی؟لیکن ساتھ ساتھ چند توضیح طلب نکات بھی سامنے آجاتے ہیں۔
1۔           نحم یاہ کی کتاب کا مصنف مجہول ہے اور یہی مجہول مصنف نحم یاہ سمیت عزرا اور تواریخ اول وثانی کابھی مصنف ہونے کااعزازرکھتا ہے۔مصنف کا مجہول ہونا ان کتب کو اسنادی اعتبار سے سوڈیبائی گرافا کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔
2۔           ڈاکٹر موریس بوکائے کی تحقیق کی توثیق چرچ بھی کچھ اس طرح سے کردیتا ہے۔"ابتداء میں عزرااورنحم یاہ ایک ہی کتاب تھی جس میں تاریخ بیان کی گئی ہے۔
3۔           سلاطین اور سموئیل کی کتاب کو ماخذ بنانے کے باوجود نحم یاہ کے مصنف نے تناقضات اور تضادات کی بھرمار کی ہے۔اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کا مطمع نظر مقدس صحائف کی تدوین کے بجائے فقط قومی تاریخ کی حفاظت تھی۔
4۔           نحم یاہ کا مصنف بہت سے ایسے حقائق کی درستگی اور اضافہ بھی کرتا ہے جو سلاطین وسموئیل کی کتابوں میں غلط مذکور تھے یاپھر ناگزیروجوہات کی بناء پر انہیں عنقاء کردیا گیاتھا۔
5۔           نحم یاہ کی وجہ تخلیق تاریخ کو دینی ضرورت کے تحت لانا ہے اوربوقت ِتحریر اسی کاالتزام کیا گیا۔عجیب بات ہے کہ کسی بھی الہامی کتاب کی صداقت تاریخ سے ثابت کی جاتی ہے لیکن یہ کرشمہ بائبل میں ہی وقوع پذیر ہوتا ہے کہ یہاں مذہب کی صداقت تاریخ سے ثابت کرنے کے بجائے تاریخ کو مذہب کے تابع کردیاجاتاہے۔بائبل میں ایسے مقامات کی بھرمار ہے مگر فی الوقت ہمارا یہ موضوع نہیں لہذا فقط ایک ہی مثال پر اکتفاء کروں گا۔ڈاکٹرموریس بوکائے لکھتے ہیں۔
                "من سی نامی بادشاہ جوایک بدمذہب جابرشخص تھا وہ اس بادشاہ کے اشوریہ کے قیام کے دوران عقائد کی تبدیلی کا مفروضہ قائم کرتا ہے(تواریخ ثانی33:11) حالانکہ کسی بائبل یا غیربائبل کے ماخذ میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔عزرا اور نحم یاہ پر سخت تنقید کی گئی ہے۔اس لئے کہ ان میں مبہم نکات بھرے پڑے ہیں اس لئے کہ جس دور سے ان کتابوں میں بحث کی گئی ہے(چوتھی صدی قبل مسیح)خود اس کے بارے میں زیادہ اچھی معلومات نہیں ہیں کیونکہ اس دور سے متعلق غیربائبلی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔"
                ڈاکٹرموریس بوکائے کے دعویٰ کو چرچ بھی ان الفاظ سے تقویت دیتا ہے۔
                "نحم یاہ اور عزراشروع میں ایک ہی کتاب تھیں ۔نحم یاہ کی کتاب اس وجہ سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اس دور کی اسرائیل کی تاریخ کا واحد بائبلی ماخذ ہے۔"
                مترشح یہی ہوتا ہےکہ ایک ایسی مجہول المصنف کتاب(جسکی اسنادی حیثیت زیادہ سے زیادہ فردِواحد کی گواہی سمجھی جاسکتی ہے)پر بنی اسرائیل کی "مستند ترین"تاریخ ہونے کا کھونٹا گاڑ دیا جاتاہےاور فقط اسی پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ مستزادِظلم یہ کہ اسکو حرف بحرف الہامی اور خدا کا کلام ہونے کا بھی درجہ بھی دےدیاجاتاہے۔ایک ایسی کتاب جو ہردور میں قطع وبرید کرنے والے قلم کا تختہ ِمشق بنی رہی، جس میں تناقضات وتضادات کی بھرماررہی،جس کو دینی ضروریات کے تحت "مع اضافہ جات"تحریرکیاگیا۔ایسی کتاب کوالہامی کادرجہ دیناماورائے عقل ہے اگرچہ ضبط تحریر کے وقت کاتب ومصنف کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ وہ مقدس ادب تخلیق کرنے جارہے ہیں۔صرف نحم یاہ کی کتاب کا ہی یہ حال نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں پوراعہدِقدیم نحم یاہ کا ہمرکاب ہے لیکن ان سب حقائق سے چشم پوشی کرکےان کتابوں کوالہامی گردانا جاتاہے۔
                صحتِ کتاب سے بحث کے بعد اب یہ امربھی متقاضی جواب ہے کہ اس کتاب کا مصنف فی الحقیقت ہے کون؟اگر چرچ کے دعویٰ کے موافق نحم یاہ کوہی اس کا مصنف تسلیم کرلیا جائے تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی اور بائبلی شہادات کے مطابق نحم یاہ کی شخصیت کس حیثیت کی حامل ہے؟آیا کہ وہ نبی ہیں یا کاہن؟یاپھر ان دونوں کے علاوہ کچھ اور ؟یہودی اور مسیحی علماء نحم یاہ کے متعلق کیا رائے رکھتےہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جوایک مبتدی قاری کے مافی الضمیر میں اس وقت جنم لیتے ہیں جب وہ خالی الذھن ہوکر نحم یاہ کا مطالعہ شروع کرتاہے۔ان سوالات کا جواب جاننے کےلئے پہلے ہم پادری برکت اللہ صاحب سے رجوع کرتے ہیں۔موصوف اپنی کتاب "صحت کتب ِمقدسہ" میں لکھتے ہیں۔
                "ان ساری باتوں کے سبب ہم ایک سچاعہدکرتے اوردیکھتے ہیں اور ہمارے امراء اور ہمارے لاوی اور ہمارے کاہن اسی پر مہر کرتے ہیں اور وہ جنہوں نے مہریں ثبت کیں یہ ہیں۔ نحم یاہ،ترشاتا،صدقیاہ،عزریاہ چوراسی اشخاص نے اپنی  مہریں ثبت کیں۔یہودی روایات کے مطابق یہ چوراسی اشخاص "عبادت خانہ ِعظیم" میں جس کا ذکر نحم یاہ8تا10باب میں ہے،کے اراکین تھے اور خدا کے برگزیدہ اور چنیدہ اشخاص تھے"
                پادری صاحب متحدیانہ انداز میں بڑے طمطراق سے نحم یاہ کے نبی ہونے کا نہ صرف دعویٰ قائم کرتے  ہیں بلکہ اُس کوخداکے حضور عہدمیں شامل ہوکر عہد کی گواہی دینے والوں کی صف میں بھی شامل کردیتے ہیں۔اس ضمن میں پادری صاحب مزید لکھتے ہیں۔
                "روایات کے مطابق حضرت عزرا اس "عبادت خانہ ِعظیم" کے صدر تھے اور مختلف زمانوں میں حضرت دانی ایل،حضرت حجی ، حضرت زکریا، حضرت ملاکی، حضرت زربابل اور حضرت نحم یاہ وغیرہ اس کے اراکین میں سے تھے۔چنانچہ مشنا میں آیا ہے کہ"خدا نے موسیٰ کو کوہ سینا پر تورات دی اور اس نے یشوع کو اور دیگر بزرگوں کو دی جنہوں نے اسے انبیاء اللہ کے سپرد کیااور انبیاء نے اس کو عبادت خانہِ عظیم کی سپردگی میں دیا۔مذکورہ بالا یہودی روایات مبالغہ اور رنگ آمیزی سے خالی نہیں بہرحال یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس زمانہ میں حضرت عزرا کے گرد فاضل معلموں کا ایک حلقہ جمع ہوگیا تھا(عزرا8:16)
                غلو کے پیراہن میں لپٹی روایات پر یقین کرنا اتنا سہل نہیں جتنا نظر آتا ہےخود پادری صاحب بھی اس کے معترف ہیں لیکن اس کے باوجود پادری برکت اللہ صاحب اس سے مستدل ہوکر نحم یاہ کے متعلق نبی ہونے کا دعویٰ قائم کردیتے ہیں۔ ان کے اس فعل سے خود ان کی مبالغہ آمیز تحدی پر مبنی تحریر مشکوک ہوجاتی ہے سوتوضیح ِمسئلہ کے لئے دوسری شہادات کی طرف رجوع کرنا پڑتاہے۔ نحم یاہ کو تاریخی شواہد سے نبی ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہےیہی وجہ ہے کہ مسیحی علماء دعویٰ قائم کرتے ہوئے اسی کو دلیل بناکر معتقدقاری کو مطمئن کردیتے  ہیں یا یاپھر نحم یاہ کے تعارف میں سکوت اختیار کرنے میں عافیت سمجھ لی جاتی ہے۔اول الذکر کی مثال پادری برکت اللہ صاحب کا استدلال ہے جبکہ مؤخرالذکر کی بہترین مثال پاکستان بائبل سوسائٹی سے شائع ہونے والی کتاب "معتدبہ کلام مقدس"ہے جس میں نحم یاہ کا تعارف کرتے ہوئے مرقوم ہے۔
                "نحم یاہ نامی ایک یہودی شاہ فارس ارتخششتا اول کے دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اسے خبرملی کہ یروشلم اب بھی کھنڈر ہے۔۔۔
                مصنف نحم یاہ کے نبی ہونے یانہ ہونے پر چشم پوشی کرتے ہوئے اس کے فقط یہودی ہونے کی تو خبر دیتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ خبر نہیں دیتا۔مصنف کی یہ معنی خیز خاموشی غیرضروری نہیں کہ اس کونظرانداز کردیا جائے کیونکہ معاملہ ایک ایسی الہامی کتاب کا ہے جس پر مذہب کی حقانیت کی بنیاد استوار کی جاتی ہیں چنانچہ چرچ کے اس مایوس کن رویے کاازالہ پادری ایف ایس خیراللہ صاحب ان الفاظ سے کرتے ہیں۔
                "نحم یاہ ارتخششتابادشاہ کاساقی تھا(نحم یاہ1:11۔2:1)یہاں لفظ ساقی مروجہ معنوں میں مستعمل نہیں ہے بلکہ ایک اہم اورذمہ دارانہ عہدے کو ظاہر کرتا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ بادشاہ نحم یاہ سے بڑے دوستانہ لہجے میں بات کرتا ہے  اور پھر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نحم یاہ کے  سفر کو "رخصت" تصور کرتاہے ۔"آگے چل کر پادری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ نحم یاہ ہوسن کے محل میں شاہی افسر تھا لیکن اس کا دل یروشلم میں اٹکا ہوا تھا۔
                جس معاملے پر خاموشی اختیار کررکھی تھی اس کو پادری صاحب کے الفاظ نحم یاہ کی حیثیت بتا کر عیاں کردیتے ہیں۔مگر پھر یہ مسئلہ پیداہوجاتا ہے کہ شرابی انسان خدا کے کلام کاملہم ہوسکتاہے؟اگر ایسا ہے تو ہارون علیہ السلام کو دیئے گئے خدائی حکم (احبار10:9) کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ خدا کے برگزیدہ خداوند کے حضور شراب نہیں پئیں گے؟کیا شرعی احکامات کی تحقیر وتنقیص کرنے والے ہی شریعت کی کتابوں میں شامل کتاب کے مصنف بن سکتے ہیں؟شریعت کی کتاب تو صاف صا
ف حکم دیتی ہے کہ خداوند کے برگزیدہ شراب اور نشہ دار چیزوں سے پرہیز کریں اور شراب کا سرکہ یانشہ آورسرکہ نہ پئیں۔10؎
جب کلیسائی دعویٰ کے مطابق خدائی کلام کے ملہم افراد ہی علی الاعلان شریعت کوپامال کریں گے تو عوام الناس سے شریعت پر عمل کرنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟نحم یاہ کا شرابی ہونا فقط فردواحد کی رائے ہی نہیں ہے بلکہ نحم یاہ کی کتاب کے ابتداء میں ہی خود اس بات کی صراحت موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ چرچ کو بھی اس مؤقف کا ہم رکاب ہونا ہی پڑا۔
                نحم یاہ یہودی تھا۔وہ شاہ فارس ارتخششتا کاذاتی خدمت گار تھا۔ اس حیثیت سے اس کافرض تھا کہ بادشاہ کے آرام وسکون کاخیال رکھے وہ بادشاہ کا ساقی تھااورہرروز مے پیش کرنا اس کی خاص  ذمہ داری تھی۔۔۔۔۔ساقی کا فرض ہوتا تھا کہ بادشاہ کو مے پلانے سے قبل اسے خود چکھے تاکہ یقین ہوجائے کہ اس میں زہر نہیں ملایا گیا۔11؎
                مذکورہ بالا اقتباس نحم یاہ کے عامی وساقی ہونے پر تو دال ہے مگر کسی صورت بھی اُس کے نبی ہونے پر مشیر نہیں ہے۔اس سے پادری برکت اللہ صاحب کے دعاویٰ کی جڑ کلی طور سے کٹ جاتی ہے کہ نحم یاہ نبی اور خدا کا چنیدہ بندہ تھا۔یہاں پرکلام مقدس کے امینِ اول یہودی ِعلماء بھی پادری برکت اللہ صاحب کےدعویٰ کے مخالف کھڑے نظر آتے ہیں۔یہودیوں کے نزدیک ہروہ شخص انبیاء میں شمار نہیں کیاجاتا تھا جودنیوی دربار سے تعلق رکھتا ہو۔اس یہودی مؤقف کااقرار مسیحی مادرکلیساء کیتھولک چرچ بھی کرتاہے۔بائبل میں شامل دانیال کی کتاب کے تعارف میں چرچ دانیال کے نبی ہونے کی ان الفاظ میں تردید کرتاہے"گویہودی اُسے انبیاء میں شمار نہیں کرتے کیونکہ وہ شاہی دربار میں اعلیٰ دنیوی رتبہ پرفائز تھا"12؎جب یہودی دانیال کے نبی ہونے کی تردید اسی پیمانے پرکردیتے ہیں تو پھر نحم یاہ کی نبی ہونے کی تغلیط کیوں نہیں؟لاریب وہ بھی دنیوی رتبہ میں دانیال کا ردیف ہے۔علمائے یہود اور مادر کلیساءدونوں کا مؤقف سامنے آنے کے بعد کسی قسم کی تشنگی باقی نہیں رہتی  لیکن اتمام حجت کے لئے معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والے مشہور مسیحی اسکالر فادرپرویزعمانوئیل "جوکہ یروشلم عبرانی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں"کاقول ذکر کرنا بھی مناسب سمجھونگا۔فاضل مصنف رقم طراز ہیں۔
                پرانے زمانہ میں بادشاہوں کوقتل کرنے کا محفوظ اور مؤثر ترین طریقہ یہ ہوتا تھا کہ لوگ بادشاہ کے کھانے میں زہر ملوادیاکرتے تھے،بادشاہ ا س خطرے سے آگاہ ہوتے تھے اور ایسے ملازمین رکھا کرتے تھے جن پر انہیں پوراپورااعتماد ہو ۔ایسے لوگ بادشاہ کی نظر میں نہایت مقبول اور اہل دربار کے روبرو قابل ِاحترام ہوتے تھے۔نحم یاہ بھی ایک ایسا ہی خوش قسمت شخص تھا ۔وہ فارس کے بادشاہ کامئے نواز تھا، جو مئے بادشاہ کے لئے مخصوص ہوتی تھی اس کو پہلے نحم یاہ چکھتا تھا اور جسے وہ قابل نوش قرار دیتا بادشاہ صرف وہی مئہ پیتا تھا۔اس طرح نحم یاہ ایک راست باز اور قابل اعتماد شخص تھا۔13؎
                بغیر کسی ابہام کے یہ متیقن ہوچکا ہے کہ نحم یاہ ہرگز نبی نہیں تھا بلکہ بادشاہ کا ساقی تھا ۔فادرپرویزعمانوئیل صاحب نحم یاہ کو ساقی ہونے کے باوجود راست باز قرار دے دیتے ہیں۔کیا راستباز ہونے کےلئے شرابی ہونا ضروری ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو بائبل میں شراب سے ممانعت چہ معنی وارد؟کیا شراب کے متوالے مقدس متون کے خالق ہوسکتے ہیں؟تدبرِقلیل ہی اس بات کو کسی صورت بھی تسلیم نہیں کرتاکہ یہوواہ کی نظر میں شرابی کبابی افراد بھی چنیدہ وبرگزیدہ بن سکتے ہیں۔اس سے نحم یاہ کی کتاب کے غیرملہم ہونے کی وثاقت توثابت ہوجاتی ہے لیکن یہ سوال ابھرتاہے کہ اِس کتاب کی تصنیف کے وقت نحم یاہ کا مطمع نظر کیا تھا؟آخروہ کون سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے یہ کتاب عدم سے وجود میں آئی؟ان سوالات کا جواب کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت کچھ اس طرح دیتی ہے۔
                عزرااور نحم یاہ کے مصنف نے غالبا کئی مختلف ماخذ استعمال کئے ہیں سب سے اہم وہ ہیں جو صیغہ واحد متکلم میں ہیں۔۔۔عزرا باب8-10اورنحم یاہ باب8-9اسی بنیاد پر تالیف ہوئے ہیں۔دوسرااہم ماخذ نحم یاہ کی یادداشتیں یا نحم یاہ کی آپ بیتی ہے۔۔۔مصنف نے کئی سرکاری دستاویزات سے بھی استفادہ کیا ہے جو آرامی زبان میں لکھی گئی تھیں اور لوگوں کی بہت سے فہرستوں سے بھی استفادہ کیا گیاہے۔14؎
                چرچ کی طرف سے مقر حقیقت سے یہ بات واضح ہوئی کہ مصنف نجی طرز کی تاریخ مدون کررہاتھاالہامی طرز کی تحریر کا تصورتو اس کےذہن کے حواشی تک سے مفقود تھااور پھر مسلمہ حقائق میں سے یہ بات بھی ہے کہ نحم یاہ کا نبی ہونا کسی بھی روایت سے ثابت نہیں ہے۔اس مؤقف اور یہودی اور مسیحی علماء کا اجماع ہے اورتاریخ  بھی نحم یاہ کی کتاب کے الہامی ہونے کی نہ صرف بیخ کنی کردیتی ہے بلکہ اس کتاب کے نحم یاہ سے منتسب ہونے کے بھی بخیے ادھیڑ دیتی ہے ۔خود مصنف ِنحم یاہ ہی اُس کے مئہ نوش ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردیتاہے۔ان تمام صورتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نامعلوم مقاصد کے حصول کے لئے اس کتاب کو الہامی ہونے کا درجہ دیا گیا۔
ان تمام حقائق کے باوجود ایک تشنگی ابھی برقرار ہے۔وہ یہ کہ ایک یہودی غلام غیریہودی بادشاہ کا اتنا قریبی معتمد خاص کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کو بادشاہ کے حرم تک رسائی ہو؟بظاہر سادہ نظر آنے والا سوال اپنی ذات میں کئی پیچیدگیاں جنم دیتاہے۔ایک غلام ساقی کےلئے بادشاہ کے محل کے دروازے منفتح ہوجانا اور پھر اس کو افسرشاہی بنا دینا اتناآسان معاملہ نہیں کہ اس سے اعراض برت لیا جائے۔کیابادشاہ کو اتنی نوازشات کے باوجود اپنے غلام سے بغاوت کاخطرہ نہ تھا؟یاپھر شراب کےنشے میں ہمہ وقت مستغرق نحم یاہ اتنا ہی بےضرر تھا کہ بادشاہ نے اسکو توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا؟اس پیچیدگی کومرتفع کرنے کےلئے مسیحی مادرکلیساء کیتھولک چرچ" جوکہ روزِاول سے ہی کلام مقدس کا امین چلاآرہاہے "سامنے آتا ہے اور ان تمام سوالات کا جواب ایک سطر میں دے کر تمام ابہامات کو رفع کردیتا ہے۔کیتھولک بائبل کمیشن کے تحت شائع ہونے والے"کیتھولک سلسلہ تفسیر"کے تحت شائع ہونے والی کتاب "بنی اسرائیل کی تاریخ"میں مذکور ہے۔
                "نحم یاہ ایک یہودی خواجہ سرا اور سوسن کے مقام پر فارس کے دربار میں ارت احش استا اول کا جام بردار تھا۔15؎
                زہریلے ناگ کی طرح پھن اٹھائے تمام سوالات کا قلع قمع یہ عبارت کرتو دیتی ہے مگر نحم یاہ کی ذات کے ایسے پہلو پر سے پردہ اٹھا دیتی ہے جس کومسیحی علماء عمداًنسیان کاشکار ہوکر ترک کرتے رہے۔نحم یاہ کا بادشاہ کا منظورِنظر ہونا،حرمِ شاہی تک اس کی رسائی ہونا،شاہی افسر ہوتے ہوئے خفیہ سرکاری دستاویزات کو اپنی تصنیف میں مستعمل کرنا ایسے امور ہیں جن پر ایک خوجہ سرا ہی پورا اتر سکتا ہے۔
                یہاں آکر ہمارا مضمون اس دعا کے ساتھ ختم ہوتا ہےکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سچائی کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)کیونکہ سیدناعیسیٰ علیہ السلام سے منسوب قول ہے کہ تم سچائی سے واقف رہو سچائی تمہیں آزاد کرائے گی۔(انجیل)
 تحریر:محمدفرمان شیخ

حواشی
1۔           قرآن بائبل اور سائنس،مصنف ڈاکٹر موریس بوکائے،صفحہ34
2۔           قرآن بائبل اور سائنس ،مصنف ڈاکٹر موریس بوکائے،صفحہ47
3۔           کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،صفحہ818،پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2010ء
4۔           قرآن بائبل اور سائنس ،مصنف ڈاکٹر موریس بوکائے،صفحہ47
5۔           کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،صفحہ839،پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2010ء
6۔           صحت کتب ِمقدسہ،مصنف پادری برکت اللہ ،صفحہ نمبر93،پنجاب رلیجس بک سوسائٹی،مطبوعہ 1952ء
7۔           صحت کتب ِمقدسہ،مصنف پادری برکت اللہ ،صفحہ نمبر94،پنجاب رلیجس بک سوسائٹی،مطبوعہ 1952ء
8۔           معتدبہ کلام مقدس،صفحہ23،پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2013ء
9۔           قاموس الکتاب،مصنف پادری ایف ایس خیراللہ ،صفحہ1030،مسیحی اشاعت خانہ لاہور،مطبوعہ2011ء
10۔        گنتی6:2
11۔        کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،صفحہ831،پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2010ء
12۔        کلام مقدس،کاتھولک بائبل کمیشن،صفحہ 1064،اشاعت نہم،مطبوعہ 2007ء
13۔        خداوندفرماتاہے،مصنف فادرپرویزعمانوئیل،صفحہ40،جان پال اکیڈمی جھنگ
14۔        کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت،صفحہ817،پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور،مطبوعہ 2010ء
15۔        بنی اسرائیل کی تاریخ،صفحہ 73،کاتھولک بائبل کمیشن پاکستان،مطبوعہ 2013ء



مکمل تحریر >>

ہفتہ، 7 فروری، 2015


اناجیل میں مسیح کے نصب نامے میں تضاد اور یہودیوں کی سازش
-------------------------------------------
متی کا بیان کردہ
نسب نامہ مسیح
------------------------------------
لوقا بیان کردہ نسب نامہ مسی
(حصہ اول)
ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابراہیم
اسحاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسحاق
یعقوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعقوب
یہودہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہودہ
فارص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فارص
حصرون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصرون
ارام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارام
عمی ناداب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمی ناداب
نحشون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نحشون
سلمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلمون
بوعز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بوعز
عوبیدار عوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عوبیدار
یسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یسی
داود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔داود
------------------------------------------------------------
متی کا بیان کردہ
-------------------------------------------------------------
نسب نامہ مسیح
لوقا بیان کردہ نسب نامہ مسیح
(حصہ دوم)
سلیمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ناتان
رجبعام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متتا
ابی یاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔منا
آسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملیا
یوشا فاط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الیاقیم
یورام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یونان
عزی یاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوسف
یوتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہودہ
احاز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمعون
حزقی یاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاوی
منے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متات
آمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یورام
یوشی یاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی عازار
یکن یاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یشوع
-----------------------------------------------
متی کا بیان کردہ
------------------------------------------------
نسب نامہ مسیح
لوقا بیان کردہ نسب نامہ مسیح
(حصہ سوم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔المودام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قوسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیری
شالتی ایل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شالتی ایل
زروب بابل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زروب بابل
ابی ہود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا
الیا قیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوحنا
عازور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہودہ
صادوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوسف
احیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمعی
الی ہود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متت یاہ
الی عازار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مات
متان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لجائی
یعقوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسلی
یوسف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نحوم
یسوع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عاموس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متت یاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوسف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔متات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوسف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یسوع
--------------------------------------------------------------
1۔۔ یہ دونوں نسب نامے حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات سے منسوب ہیں۔ متی کے بیان کردہ نصب نامہ میں ناموں کی تعداد اکتالیس ہے۔ اور لوقا کے نزدیک 52 ہے۔ یقینا متی نے گیارہ نام چھوڑ دیئے ہیں۔
2۔۔ پہلے حصے میں دونوں نسب نامے متفق ہیں۔ لیکن دوسرے حصے میں تمام ناموں میں تضاد ہے۔
3۔۔ تیسرے حصے میں متی کے بیان کردہ ناموں کی تعداد 13 ہے حالانکہ متی دعوٰی کرتا ہے کہ اس حصے میں ناموں کی تعداد چودہ ہے اس کے برعکس تیسرے حصے میں لوقا کی بیان کردہ تعداد 29 ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اس حصے میں صرف چار ناموں (شالتی ایل، زروب بابل، یوسف اور یسوع) میں اتفاق ہے۔
4۔۔ حصہ سوئم میں شالتی ایل اور زروب بابل دونوں نسب ناموں میں موجود ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں شخصیات مشہور و معروف ہیں اور ان کی ہم نام دوسری شخصیات بائیبل میں مذکور نہیں ہیں۔
5۔۔ متی نے شالتی ایل کو یکن یاہ کا بیٹا لکھا ہے۔ جبکہ لوقا کے نزدیک یہ نیری کا بیٹا ہے۔
6۔۔ زروب بابل کے بیٹے کا نام متی کے نزدیک ابی ہود ہے جبکہ لوقا کے نزدیک " ایسا "
7۔۔ متی کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ شالتی ایل یکن یاہ کا بیٹا ہے جبکہ یرمیاہ باب نمبر 22 آیت نمبر 30 کے مطابق یکن یاہ بے اولاد ہے۔ متی اور لوقا نے بالاتفاق زوب بابل کو شالتی ایل کا بیٹا لکھا ہے لیکن وہ فدایاہ کا بیٹا ہے شالتی اپل کا بیٹا نہیں دیکھئے (1۔ تواریح ب 18:3، 19)
9۔۔ متی کے نزدیک یوسف یعقوب کا بیٹا ہے جبکہ لوقا کے نزدیک عالی کا۔
مذکورہ نقاط کو دیکھنے سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کا نسب نامہ مسیحیوں کے نزدیک متفق علیہ نہیں ہے۔ مسیحی حضرات اس تضاد بیانی کے مختلف واب دیتے ہیں۔ لیکن عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق کوئی بات معقول نظر نہیں آتی۔
-------------------------------------------------------
مسیح علیہ السلام کے نسب پر طعن
بد طینت یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کا انکار کیا اور حضرت مریم مقدسہ مطہرہ زکیہ کی عصمت ماب شخصیت پر الزام لگایا نعوذ باللہ من ذالک عیسائی حضرات حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کے قابل ہیں اور ان کی والدہ ماجدہ کو نہایت ہی عزت و تکریم کی حامل شخصیت قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ بھی ایک اعتبار سے آپ کے نسب میں طعن کرتے ہیں۔ متی اور لوقا کے بیان کردہ نسب ناموں میں بعض ایسے نام بھی آتے ہیں جن پر ولد الزنا ہونے کا صریح حکم بائیبل میں موجود ہے۔
الف۔ دونوں نسب ناموں کے حصہ اول کا پانچواں نام فارص ہے۔ فارص کے متعلق بائیبل کا بیان ہے کہ وہ ولدالزنا ہے۔ فارص کی ماں کا نام تامار ہے۔ تامار کا خاوند عیر جو یہودہ کا پھلوٹھا تھا فوت ہوگیا۔ تامار نے اولاد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامرہی۔ آخر اس نے یہ حربہ استعمال کیا کہ چپکے سے بیوگی کے کپڑے اتارے، اچھا لباس پہنا، برقعہ اوڑھا اور اس راہ پر جا بیٹھی جس راہ پر سے اس کے سسر یہودہ کا گزر ہونا تھا۔ یہودہ نے اسے فاحشہ سمجھا اور اس سے زنا کرنے کا ارادہ کیا۔ عورت نے معاقضہ طلب کیا۔ یہودہ کے پاس فوری طور پر معاوضہ نہیں تھا اس لئے اس نے اپنی انگوٹھی اور عصا رہن رکھے اور زنا کیا۔ یہودہ کے جانے کے بعد تامار نے گھر ک راہ لی۔ کپڑے اتارے اور بیوگی کا لباس پہن لیا۔ یہودہ کا غلام رہن چھڑانے کےلئے اسے ڈھونڈتا رہا لیکن مایوس ہو کر واپس آگیا۔ تین ماہ بعد جب یہودہ کو خبر ملی کہ تامار نے زنا کیا ہے اور وہ حمل سے ہے۔ تو سسر نے بہو تامارکو جلانے کا حکم دیا لیکن عورت نے انگوٹھی اور عصا دکھا کر سسر پر واضح کردیا کہ یہ حمل اسی کا ہے۔ یہودہ نے اسے معاف کیا۔ تامار کے بطن سے دو بچوں نے جنم لیا ایک کا نام فارص دوسرے کا نا مزارح رکھا گیا۔
(تکوین باب38 مکمل)
یہودہ اور تامار کا یہ قصہ اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ تفصیل کےلئے بائیبل کی طرف رجوع کریں اور دیکھیں کہ اللہ کے نیک بندوں پر کیسے کیسے نازیبا الزامات لگائے گئے ہیں۔
(ب) ناتاں کی والدہ کا نام بت سابع ہے۔ 2سیموئل 3:11 کے مطابق حضرت داؤد نے بت سابع کو نہاتے دیکھا۔ اس کا خاوند حضرت داود کا وفادار جرنیل تھا۔ نعوذ باللہ من ذالک حضرت داود نے بنت سابع سے زنا کیا۔ آپ علیہ السلام نے اس عورت کے خاوند کو قتل کروا دیا۔ عورت نے بتایا کہ وہ داؤد علیہ السلام سے حاملہ ہے۔ حضرت داؤد نے اسے اپنے حرم میں داخل کیا بچہ پیدا ہوا لیکن فوت ہوا۔ ناتاں بت سابع کے بطن سے حضرت داؤد کا بیٹا ہے۔ یہ الزام نہ صرف حضرت داؤد کی سیرت طیبہ کو داغدار کرنے کی کوشش ہے۔ بلکہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی ذات والا صفات کے نسب مبارک پر بھی طعن ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام جیسے جلیل القدر رسول کی کی امھات میں بت سابع جیسی فاحشہ عورتیں کیسے آسکتی ہیں۔ ممکن ہے بت سابع عصمت ماب عورت ہو اور جس طرح حضرت داؤد اور دوسرے برگزیدہ شخصوں پر جیسے الزام لگائے گئے ہیں اس پر بھی یہ محض الزام ہو۔ کم از کم حضرت داؤد علیہ السلام کے حوالے سے تو یہ الزام ہے۔
(ج)اسی طرح روت : 10:3 کے مطابق عوبید کی ماں راعوت چاہتی تھی کہ بوعز سے ہم بستر ہو لیکن وہ نہ مانا اور نکاح کیا۔
اسلام کا یہ احسان عظیم ہے کہ اہل کتاب نے انبیاء پر جو الزامات عائد کیے اسلام نے ان کی قلعی کھولی اور اللہ تعالٰی کے بندوں کی عصمت کو عیاں کیا
مکمل تحریر >>

جمعہ، 6 فروری، 2015

اختلافات نظریات سے ہونے چاہیے شخصیات سے نہیں



اکثر و بیشتر یہ بات مشاہدہ میں آئی کہ جب بھی کسی مسلم دوست نے بائبل مقدس یا مسیحیت کے حوالے سے کوئی پوسٹ اپلوڈ کی تو مسیحی برادری کی جانب سے عجیب عجیب باتیں سامنے آئیں. بجائے اس کے کہ پوسٹ پر بات کی جائے اور احسن طریقے سے بات کی وضاحت کر دی جائے ، کچھ ایسے معاملات پیش آتے ہیں :
#1- کسی مسیحی کو پیغمبر اسلام کی عائلی زندگی ستانے لگتی ہے حالانکہ وہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی عائلی زندگی کے بارے میں جانتا ہوتا ہے جن کی گواہی خود بائبل میں موجود ہے.
#2-
کسی مسیحی کو پیغمبر اسلام کی غزوات ستانے لگتی ہیں حالانکہ حضور اکرم صلعم کی غزوات کے مقتولین کی تعداد مل ملا کر 1087 سے تجاوز نہیں کرتی جبکہ خود بائبل میں ہی دیگر کئی انبیاء کرام کی جنگی کارروائیوں کے مقتولین کی تعداد لاکھوں کی حد کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے. مثال کے طور پر صرف موسیٰ علیہ السلام کی جنگی مہمات کے مقتولین کا شمار ممکن نہیں.
#3-
بہت سے ایسے لوگ بھی مسیحی صفوں میں موجود ہیں جنہیں اہل اسلام کی سیاسی مغلوبیت اور مسیحی اقوام کے سیاسی غلبہ سے مسیحیت کی صداقت اور اسلام کی عدم صداقت کے دلائل نظر آتے ہیں. حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس صف میں ان کے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے آپ کو چوٹی کے عالم سمجھتے ہیں. وہ لوگ امریکہ و یورپ سے اسلامی ممالک کی مالی معاونت کرنے کو مسیحیت کی صداقت اسلامی ممالک کی طرف سے اس مالی معاونت کے حصول کو اسلام کی عدم صداقت پر محمول کرتے ہیں. اور ان اقوام کے سیاسی غلبہ کو مسیحیت کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس پر اتراتے ہوئے شیخی بگھارتے ہیں اور بغلیں بجاتے ہیں اور عورتوں کی طرح طعنہ زنی بھی کرتے ہیں. اب مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جب مسیحی اقوام اہل اسلام سے مغلوب ہو رہی تھیں تو پھر ان کے دلائل کی وقعت کیا رہی ہو گی لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ مسلمانوں نے مسیحی اقوام سے چھینے گئے علاقوں کو یا ان پر سیاسی غلبہ کے حصول کو کبھی بھی اسلام کی حقانیت کی دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا.
#4-
کچھ مسیحی دوستوں کو قرآن و حدیث سے وہ کچھ نظر آنے لگتا ہے جو کبھی مسلمانوں کو نظر نہیں آیا. مثلاً انہیں قرآن مجید میں تثلیث اور یسوع علیہ السلام مسیح کا روح اللہ ہونا ان معنوں میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے جو مسیحی تھیالوجی کا خاصہ ہے. حالانکہ خود عرب میں اہل زبان مسیحی موجود رہے ہیں اور ان کی طرف سے ایسے مہمل اور لغو استنباط کبھی سامنے نہیں آئے. وجہ؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ اہلِ زبان ہونے کے ناطے قرآنی پیغام کا منشا سمجھتے ہیں. یہ دلائل صرف قرآنی زبان سے ناواقف اردو دان مسیحیوں کو نظر آتے ہیں(یہ بات لطیفے سے کم نہیں کہ ہزار سمجھانے کے باوجود ان کی سوئی وہیں اٹکی رہتی ہے ).
#-5
مسیحی دوست بد زبانی کی انتہا کر دیتے ہیں حتی کہ ان کے تعلیم یافتہ ترین افراد بھی مقدس شخصیات کو گالی دینے سے نہیں چوکتے.
حاصل کلام :: یہاں یہ بات ذہن میں ضرور آتی ہے کہ مسیحی دوست ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جب مسیحی دوست علمی میدان میں مقابلہ کرنے سے عاجز و عاری ہوتے ہیں تو پھر دو حربے استعمال کرتے ہیں. اولاً بحث کا رخ موڑنے کے لیے غیر متعلقہ باتیں شروع کر دی جاتی ہیں تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ہم تو اس پوسٹ پر آخر دم تک موجود رہے یعنی کہ بھرم قائم رہے. دوم مد مقابل کو اشتعال دلا کر موضوع سے ہٹنا مقصود ہوتا ہے اور کچھ نہیں.


مکمل تحریر >>

پیر، 2 فروری، 2015

عقیدہ توحید


- دین اسلام کے مطابق تمام الہامی ادیان میں یہ عقیدہ ہمیشہ سر فہرست رہا ہے
اسی لیے اسلام میں اس عقید کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ توحید سے مراد ایک ایسی ہستی پر ایمان لانا ہے جس نے کائنات اور تمام مخلوق کو تخلیق کیا ۔ یہ ہستی تمام اچھی صفات کی حامل ہے۔ مخلوقات میں جس کو جو کچھ بھی حاصل ہے وہ تمام صفات وکمالات اسی ہستی کی عطا کردہ ہیں۔ چونکہ وہ کسی سے پیدا نا ہوا ، نا اس سے کوئی اولاد ہے، نا اسے کسی کی حاجت ہے جبکہ تمام مخلوقات اسی کی پیدا کردہ اور صفات وکمالات سے متصف کردہ ہیں، اس لیے وہ سب سے برتر ، اکبر اور عظیم ہے لہذا وہی ھستی لائق عبادت وبندگی ہے چونکہ اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ " احد " یعنی یکتا ہے ، لہذا ایسی ہستی پر درج بالا ایمان رکھنا " عقیدہ توحید " کہلاتا ہے۔
  
مکمل تحریر >>