عیدفصح کامنصوبہ اور یسوعؑ مسیح
تحقیق و تحریر:
ڈاکٹر عبداللہ غازیؔ
عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے فلسطین کے تاریخی پس منظر
اورمذہبی وسیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئےاگر عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کاجائزہ
لیاجائے تووہ ایک ایسی حریت پسند ہستی کے طورپر سامنے آتے ہیں جواپنی قوم کو نجات
دلانے کےلیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔گوکہ انہوں نے عسکری راستہ اختیار
نہیں کیا تھا مگر پھر بھی ان کے ساتھیوں کے پاس تلواریں موجود تھیں اورانہیں خدا
کی ذات پر پورا بھروسہ تھا کہ تلواروں کی کمی کے باوجود خداان کی مدد کرے گا۔یہودی
مسیحیوں (Jews Christians)کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام صرف ایک حریت
پسند فرد ہی نہیں بلکہ اسرائیلی انبیاءکی
پیشگوئیوں کی تکمیل کاخواب اپنی ذات میں لیے ایک عظیم نبی تھے جنہوں نے تاریخ
کادھارا پلٹ دینا تھا۔نبی ہونے کے علاوہ وہ المسیح بادشاہ بھی تھے جس نے اپنے
اجداد داؤدوسلیمان علیہماالسلام کی سلطنت کو بحال کرناتھا۔[1]
عیدفصح سے قبل جب مسیح علیہ السلام یروشلم میں داخل ہوئے
توانہوں نے کسی زمینی سلطنت کے قیام کااعلان نہیں کیاتھا لیکن ان کے شاگردوں اور
دیگر یہودیوں کوغلط فہمی ہوئی کہ انہوں نے
یروشلم ہیکل پر فتح حاصل کرلی ہے چنانچہ تمام یہودیوں نے اُن سے بحیثیت المسیح وہ
تمام سیاسی توقعات وابستہ کرلیں جو ان کی روایات میں موجود تھیں لیکن جب مسیحؑ ان
کی مادی توقعات پر پورا نہ اتر سکے توان کی آمد پر رومی غلامی سےنجات ملنے کی امید
لگائے یہودی انتہائی مایوس ہوئے اور ان کے جانی دشمن بن گئے۔
مادیت پرست یہودیوں کی نظر میں یسوع ایک 'ناکام'انسان تھے اور انہیں
پولس نے غیریہودی معاشروں میں پھلتی پھولتی پولوسی مسیحیت (Paulian Christianity) میں خدا کابیٹا بناکر ایک روحانی نجات دہندہ کے منصب پر بٹھا دیا۔اس
پر مستزاد واقعہ تصلیب کو بنیاد بناکر عیدفصح پر کی جانے والی قربانی کی مناسبت سے
عیسیٰ علیہ السلام کو 'فصح کابرہ'قرار دے دیا۔یہی وہ مقام ہے جہاں پر مسیح کے
متعلق یہودی اور مسیحی تصورات کافرق روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتاہے کہ کس طرح
یہودیوں کے 'المسیح'کو غیراقوام میں الوہی حیثیت کاحامل 'نجات دہندہ'بناکر پیش
کیاگیا ۔
المسیح ہونے کاادعا کرنا درحقیقت یہودی بادشاہ ہونے کادعویٰ
تھا جس کا دوسرا مطلب سراسر رومی حکومت کے خلاف اعلان بغاوت تھا۔اسی سبب سے عیسیٰ
علیہ السلام نے کمال بصیرت سے کام لیتے ہوئے کبھی بھی اپنی زبان مبارک سے المسیح
ہونے کادعویٰ نہیں کیا۔فریسیوں کے بار بار استفسار کرنے پربھی انہوں نے خود کو
المسیح قرار نہیں دیا ۔ان کی یہی کمال احتیاط تھی کہ رومی جاسوس اور یہودی معاندین
ان کے خلاف کوئی بھی ثبوت جمع نہیں کرسکے۔بادشاہ نے ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی
لیکن ا ن کے گرد جمع ہونے والے مضبوط اور تندمزاج گلیلی مردوں کے باعث تمام کوششیں
ناکام ہوئیں کیونکہ گرفتاری کی صورت میں زبردست مزاحمت کااندیشہ تھا جس کے نتیجہ
میں یہودی بغاوت برپا ہوسکتی تھی۔[2]
واقعہ فصح
سے چنددن قبل بروز اتوار جب وہ یروشلم میں داخل ہوئے توان کامطمع نظررومیوں کے
خلاف اسرائیلیوں کی تنظیم نوکرناتھا۔اس منصوبے کے لیے فصح کاانتخاب اس لیے کیاگیا
تاکہ یہودی تاریخ کاآغاز بننے والے'واقعہ
خروج' کی طرح موسم بہار کی آمد پر آنے والا تہوار'عیدفصح'بھی یہودیوں کی
رومی غلامی سے نجات کاآغاز بن جائے کیونکہ
فصح بھی خروج کی یاد میں ہی منائی جاتی تھی [3]لہذا
جس طرح خدا نے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اپنی قوم کو مصریوں کی غلامی سےآزادی دی
تھی اسی طرح خدا دوبارہ المسیح ابن داؤد کے ذریعے اسرائیل کو رومی غلامی سے نجات
دینے والاتھا۔عیدفصح کے اس منصوبے میں مسیح علیہ السلام المسیح بادشاہ
اور نجات دہندہ تھےجنہوں نے عیدفصح پر اپنے المسیح ہونے کااعلان کرکے
یہودیوں کو اپنےگرد جمع کرناتھا۔تاہم ان
کا یہ منصوبہ اس قدر خفیہ تھا کہ ان کے قریبی شاگردوں کو بھی ان کی بھنک نہ تھی۔[4]
اناجیل متوافقہ (Synoptic Gospels)کے مطابق ان کی مبینہ گرفتاری سے قبل عیدفصح کی شام جب عیسیٰ علیہ
السلام یروشلم میں داخل ہوئے تو فصح کابرہ کھانے کاانتظام بھی اس قدر رازداری میں
تھا کہ پطرس،یعقوب اوریوحنا جیسے مقرب حواریین کو بھی اس کی خبر نہ تھی۔جب وہ
شاگردوں سمیت شہر سے باہر بیت عننیاہ میں تھے توان سےاستفسار کیاگیاکہ فصح کدھر
تیار کی جائے۔اس سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے دو شاگردوں کو کسی مقرر مقام کے بارے میں بتانے کے بجائے
ہدایت کی کہ تم شہر(یروشلم) کی طرف جاؤگے تووہاں پانی کاگھڑا اٹھائے کوئی شخص
ملےگا،یہ شخص تمہیں ایک گھر تک لے جائے گااوروہاں جاکر تم گھر کے مالک سے پوچھنا
کہ استاد کہتاہے کہ میرا وہ مہمان خانہ کدھر ہے جہاں میں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ
فصح کھانی ہے؟چنانچہ گھر کامالک تمہیں وہ بالاخانہ دکھائے گا جدھر تم نے فصح تیار
کرنی ہے۔[5]
یہودیہ کے علاقے کے مہمان نوازوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے
لیے تمام انتظام تیار کررکھاتھا۔ان کی دی گئی ہدایت پر بغیر کسی توقف عمل
کیاگیاچنانچہ شاگردوں نے پانی کاگھڑااٹھائے شخص کو طےشدہ جگہ پرپایا اور بعدازاں
ان کے شاگرد اس بالاخانےتک پہنچ گئے جہاں سب کچھ تیار تھا۔[6]شام کے
وقت عیسیٰ علیہ السلام بھی اپنے شاگردوں سمیت اس مقررہ جگہ پہنچ گئے اور فصح
کاآخری کھانا کھایا۔کھانے سے فارغ ہوکر وہ زیتون کے پہاڑ پر گئے جہاں انہوں نے
خداکےحضور مناجات کی اور پھر گتسمنی کے باغ چلے گئے جہاں اناجیل کے مطابق گرفتاری
کاواقعہ پیش آیا۔