Pages

Most Popular

اتوار، 8 جنوری، 2023

عیدفصح کامنصوبہ اور یسوعؑ مسیح


 

عیدفصح کامنصوبہ اور یسوعؑ مسیح

تحقیق  و تحریر: ڈاکٹر عبداللہ غازیؔ

عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے فلسطین کے تاریخی پس منظر اورمذہبی وسیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئےاگر عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کاجائزہ لیاجائے تووہ ایک ایسی حریت پسند ہستی کے طورپر سامنے آتے ہیں جواپنی قوم کو نجات دلانے کےلیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔گوکہ انہوں نے عسکری راستہ اختیار نہیں کیا تھا مگر پھر بھی ان کے ساتھیوں کے پاس تلواریں موجود تھیں اورانہیں خدا کی ذات پر پورا بھروسہ تھا کہ تلواروں کی کمی کے باوجود خداان کی مدد کرے گا۔یہودی مسیحیوں (Jews Christians)کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام صرف ایک حریت پسند فرد ہی نہیں  بلکہ اسرائیلی انبیاءکی پیشگوئیوں کی تکمیل کاخواب اپنی ذات میں لیے ایک عظیم نبی تھے جنہوں نے تاریخ کادھارا پلٹ دینا تھا۔نبی ہونے کے علاوہ وہ المسیح بادشاہ بھی تھے جس نے اپنے اجداد داؤدوسلیمان علیہماالسلام کی سلطنت کو بحال کرناتھا۔[1]

          عیدفصح سے قبل جب مسیح علیہ السلام یروشلم میں داخل ہوئے توانہوں نے کسی زمینی سلطنت کے قیام کااعلان نہیں کیاتھا لیکن ان کے شاگردوں اور دیگر یہودیوں کوغلط فہمی ہوئی  کہ انہوں نے یروشلم ہیکل پر فتح حاصل کرلی ہے چنانچہ تمام یہودیوں نے اُن سے بحیثیت المسیح وہ تمام سیاسی توقعات وابستہ کرلیں جو ان کی روایات میں موجود تھیں لیکن جب مسیحؑ ان کی مادی توقعات پر پورا نہ اتر سکے توان کی آمد پر رومی غلامی سےنجات ملنے کی امید لگائے یہودی انتہائی مایوس ہوئے اور ان کے جانی دشمن بن گئے۔

مادیت پرست یہودیوں کی نظر میں یسوع ایک 'ناکام'انسان  تھے اور انہیں  پولس نے غیریہودی معاشروں میں پھلتی پھولتی پولوسی مسیحیت (Paulian Christianity) میں خدا کابیٹا بناکر ایک روحانی نجات دہندہ کے منصب پر بٹھا دیا۔اس پر مستزاد واقعہ تصلیب کو بنیاد بناکر عیدفصح پر کی جانے والی قربانی کی مناسبت سے عیسیٰ علیہ السلام کو 'فصح کابرہ'قرار دے دیا۔یہی وہ مقام ہے جہاں پر مسیح کے متعلق یہودی اور مسیحی تصورات کافرق روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتاہے کہ کس طرح یہودیوں کے 'المسیح'کو غیراقوام میں الوہی حیثیت کاحامل 'نجات دہندہ'بناکر پیش کیاگیا ۔

          المسیح ہونے کاادعا کرنا درحقیقت یہودی بادشاہ ہونے کادعویٰ تھا جس کا دوسرا مطلب سراسر رومی حکومت کے خلاف اعلان بغاوت تھا۔اسی سبب سے عیسیٰ علیہ السلام نے کمال بصیرت سے کام لیتے ہوئے کبھی بھی اپنی زبان مبارک سے المسیح ہونے کادعویٰ نہیں کیا۔فریسیوں کے بار بار استفسار کرنے پربھی انہوں نے خود کو المسیح قرار نہیں دیا ۔ان کی یہی کمال احتیاط تھی کہ رومی جاسوس اور یہودی معاندین ان کے خلاف کوئی بھی ثبوت جمع نہیں کرسکے۔بادشاہ نے ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن ا ن کے گرد جمع ہونے والے مضبوط اور تندمزاج گلیلی مردوں کے باعث تمام کوششیں ناکام ہوئیں کیونکہ گرفتاری کی صورت میں زبردست مزاحمت کااندیشہ تھا جس کے نتیجہ میں یہودی بغاوت برپا ہوسکتی تھی۔[2]

          واقعہ فصح سے چنددن قبل بروز اتوار جب وہ یروشلم میں داخل ہوئے توان کامطمع نظررومیوں کے خلاف اسرائیلیوں کی تنظیم نوکرناتھا۔اس منصوبے کے لیے فصح کاانتخاب اس لیے کیاگیا تاکہ یہودی تاریخ کاآغاز بننے والے'واقعہ  خروج' کی طرح موسم بہار کی آمد پر آنے والا تہوار'عیدفصح'بھی یہودیوں کی رومی غلامی سے نجات کاآغاز بن جائے  کیونکہ فصح بھی خروج کی یاد میں ہی منائی جاتی تھی [3]لہذا جس طرح خدا نے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اپنی قوم کو مصریوں کی غلامی سےآزادی دی تھی اسی طرح خدا دوبارہ المسیح ابن داؤد کے ذریعے اسرائیل کو رومی غلامی سے نجات دینے والاتھا۔عیدفصح کے اس منصوبے میں مسیح علیہ السلام  المسیح بادشاہ  اور نجات دہندہ تھےجنہوں نے عیدفصح پر اپنے المسیح ہونے کااعلان کرکے یہودیوں کو  اپنےگرد جمع کرناتھا۔تاہم ان کا یہ منصوبہ اس قدر خفیہ تھا کہ ان کے قریبی شاگردوں کو بھی ان کی بھنک نہ تھی۔[4]

          اناجیل متوافقہ (Synoptic Gospels)کے مطابق ان کی مبینہ گرفتاری سے قبل عیدفصح کی شام جب عیسیٰ علیہ السلام یروشلم میں داخل ہوئے تو فصح کابرہ کھانے کاانتظام بھی اس قدر رازداری میں تھا کہ پطرس،یعقوب اوریوحنا جیسے مقرب حواریین کو بھی اس کی خبر نہ تھی۔جب وہ شاگردوں سمیت شہر سے باہر بیت عننیاہ میں تھے توان سےاستفسار کیاگیاکہ فصح کدھر تیار کی جائے۔اس سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے دو شاگردوں  کو کسی مقرر مقام کے بارے میں بتانے کے بجائے ہدایت کی کہ تم شہر(یروشلم) کی طرف جاؤگے تووہاں پانی کاگھڑا اٹھائے کوئی شخص ملےگا،یہ شخص تمہیں ایک گھر تک لے جائے گااوروہاں جاکر تم گھر کے مالک سے پوچھنا کہ استاد کہتاہے کہ میرا وہ مہمان خانہ کدھر ہے جہاں میں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ فصح کھانی ہے؟چنانچہ گھر کامالک تمہیں وہ بالاخانہ دکھائے گا جدھر تم نے فصح تیار کرنی ہے۔[5]

یہودیہ کے علاقے کے مہمان نوازوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے لیے تمام انتظام تیار کررکھاتھا۔ان کی دی گئی ہدایت پر بغیر کسی توقف عمل کیاگیاچنانچہ شاگردوں نے پانی کاگھڑااٹھائے شخص کو طےشدہ جگہ پرپایا اور بعدازاں ان کے شاگرد اس بالاخانےتک پہنچ گئے جہاں سب کچھ تیار تھا۔[6]شام کے وقت عیسیٰ علیہ السلام بھی اپنے شاگردوں سمیت اس مقررہ جگہ پہنچ گئے اور فصح کاآخری کھانا کھایا۔کھانے سے فارغ ہوکر وہ زیتون کے پہاڑ پر گئے جہاں انہوں نے خداکےحضور مناجات کی اور پھر گتسمنی کے باغ چلے گئے جہاں اناجیل کے مطابق گرفتاری کاواقعہ پیش آیا۔

 



[1] Maccoby, Revolution in Judaea Jesus and the Jewish Resistance, 160–61.

[2] Schonfield, The Passover Plot, 109.

[3] Maccoby, Revolution in Judaea Jesus and the Jewish Resistance, 137.

[4] Schonfield, The Passover Plot, 111–12.

[5] کتاب مقدس،لوقا ۱۴ :۱۲-۱۶۔

[6] Schonfield, 139–40.

مکمل تحریر >>

بائبل کے مختلف ورژنز: تراجم یا تحریف؟

 










بائبل کے مختلف ورژنز:ایک تحقیقی جائزہ


اللہ کے نام سے جو مہربان نہایت رحم والا ہے

قارئین موجودہ بائبل تحریف شدہ ہیں اور اس میں تحریف ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ عیسائی علما بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے.

اگر تضاد کی بات کی جاے تو بایبل مقدس میں بے شمار تضادات ہیں پیشگوئیاں ہوں یا مختلف عدادوشمار ہوں یسوع المسیح کا نسب نامہ ہو یا واقعہ تصلب ہو ان سب موضوعات کے متعلق بایبل میں متعدد تضادات پائے جاتے ہیں مگر دیسی مسحیی حضرات بایبل کے تضاد پر فضول تاویلات کر کے اتنا اکتا گیے کے انکو اب تضاد بھی تضاد نہیں لگتے.

جب بات بایبل کے ورژنز کی کی جاتی ہے کے تو مسیحی علما فرماتے ہیں کے بایبل تقریباً دوہزار زبانوں میں ترجمہ کی جاچکی ہے اور اس کے انگریزی میں بھی کئی تراجم ہیں... بایبل کے انگریزی تراجم کے مختلف ورژنز کے بارے میں کہا جاتا ہے کے ان میں ماڈرن لینگویج کے مطابق الفاظ کا choice of words کا فرق ہے باقی معنی میں کوئی ردوبدل نہیں.. یہ بات دراصل جھوٹ پر مبنی ہے.. بایبل کے انگریزی کے جتنے بھی مشہور ورژنز ہیں ان میں متعدد مقام پر بات کے مہفوم اور معنی میں بھی ہیر پھیر کی گیی ہے. جیسا کے king jems version اور revised standard version میں بھی فرق ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کے بایبل ورژنز نکالنے کا مقصد deferent choice of words نہِیں بلکہ تحریف اور ردوبدل ہے. ہم بایبل کی مختلف آیات کو نہیں بلکہ ایک آیت کو لے کر بایبل مختلف ورژنز سے اپنی اسی بات کا عملی ثبوت پیش کرتے ہیں.

1. جیسا کے بایبل کا بیان یے کہ

King jams version

[کِیُونکہ اِبنِ آدم کھوئے ہُوؤں کو ڈھونڈنے اور نِجات دینے آیا ہے]

For the Son of man is come to save that which was lost.

متّی 18:11

یہ جملہ کنگ جیمز ورژن کے علاوہ باقی ورژنز میں نہیں

New International Version

اس ترجمہ یا ورژن میں یہ جملہ سرے سے ہے ہی نہیں اور 10 نمبر کی آیت کے بعد 12 نمبر آیت شروع کردی گیی ہے..

مزید بایبل کے ورژن

New living translation

نیو لیونگ ٹرانسلیشن جو کے red letter bible

بھی ہے اس میں بھی سرے سے یہ جملہ ہے ہی نہیں 10نمبر کے بات 12 نمبر آیت شروع کر. دی گئی ہے..

2.جیسا کے بائیبل کا بیان ہے

King jams version

یسوع المسیح کا بیان

اُس نے اُس سے کہا کہ تُو مُجھے اچھا کیوں کہتا ہے ؟ اچھا کوئی نہیں مگر ایک جو کے خدا ہے، لیکِن اگر تُو زِندگی میں داخِل ہونا چاہتا ہے تو حُکموں پر عمل کر۔

And he said unto him, Why callest thou me good? there is none good but one, that is, God: but if thou wilt enter into life, keep the commandments.

متّی 19:17

قارئین یہ بایبل کا انتہائی اہم جملہ ہے اس جملے میں یسوع نے خدا ہونا تو دور کی بات اچھا ہونا بھی گوارا نا کیا.. یہ جملہ مسحیوں کو کیسے قبول ہوسکتا تھا لہذا بایبل کے دیگر ورژنز میں اس کے ساتھ ردوبدل کیا گیا معنوں میں..

جیسا کہ

New International Version

نیو انٹرنیشنل ورژن میں یہ جملہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ

اور وہ ان سے کہتا ہے "تو مجھ اس متعلق کیوں پوچھتا ہے کے کیا اچھا ہے؟ ایک ہی جو اچھا ہے"

And he said unto him, Why askest thou me concerning that which is good? One there is who is good:

مزید ورژن میں دیکھتے ہیں اسی بات کو

American standard version

تم مجھ سے اس متعلق کیوں پوچھتے ہو کے کیا اچھا ہے؟

Why askest thou me concerning that which is good?

متی 19 کی آیت نمبر 17 کو لے کر ہم نے دیکھا کے مختلف ورژنز میں کافی فرق ہے اور معنی میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے.. زیادہ تر پروٹسٹنٹ NIV کو فالو کرتے ہیں.

3.جیسا کے بائیبل کا بیان ہے

King jams version

پَس جاگتے رہو کِیُونکہ تُم نہ اُس دِن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو کے کب ابن آدم آے گا.

Watch therefore, for ye know neither the day nor the hour wherein the Son of man cometh.

متّی 25:13

کنگز کے بیان کے مطابق بات واضح ہے مگر جب ہم مزید ورژنز کا مطالعہ کرتے ہیں تو واضح فرق ہے

جیسا کے

News international version

اس لیے دیکھتے رہوں کیونکہ کہ تم نہیں جانتے اس گھڑی کے بارے میں.

“Therefore keep watch, because you do not know the day or the hour.

متی باب 25 کی آیت 13

اس ورژن میں تحریف کی گیی ہے اور وہ حصہ نکال دیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کے

" کب ابن آدم آے گا"

مزید ورژنز دیکھتے ہیں

American standard version

دیکھوں اس لیے، کے تم اس دن نہیں جانتے ناہی اس گھڑی کو.

Watch therefore, for ye know not the day nor the hour.

متی 25:13

اس میں آدھی بات بیان کی ہے.

4. بایبل کا بیان ہے کہ

King James Version

اور یوسف اور اُس کی ماں اِن باتوں پر جو اُس کے حق میں کہی جاتی تھِیں تعّجُب کرتے تھے۔

And Joseph and his mother marvelled at those things which were spoken of him.

لُوقا 2:33

کنگ جیمز ورژن میں یوسف کا نام موجود ہے جبکہ یہی آیت جب مزید ورژنز میں دیکھتے ہیں

تو ایسا نہیں.

جیسا بایبل کے مزید ورژنز میں دیکھتے ہیں

New International Version

بچے کا باپ اور ماں اِن باتوں پر جو اُس کے حق میں کہی جاتی تھِیں تعّجُب کرتے تھے.

The child’s father and mother marveled at what was said about him.

لُوقا 2:33

نیو انٹرنیشنل ورژن میں "یوسف" کا نام ہٹا کر بچے کا باپ کردیا گیا ہے.. شاید اس لیے کہ وہ یوسف کو یسوع کا باپ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا یہاں تحریف کی گیی.

اسی آیت کو مزید ورژنز میں دیکھتے ہیں

American standard version

اور اسکا باپ اور اسکی ماں کو تعجب ہے ان چیزوں سے جو اس کے متعلق بولی جاتی ہے.

And his father and his mother were marvelling at the things which were spoken concerning him;

لُوقا 2:33

اس ورژن میں مزید تبدلی ہے جیسا کے بچے کا باپ کی جگہ اسکا باپ لکھا ہے... اس آیت کو لے کر تینوں ورژن میں واضح فرق ہے جیسا دیکھا جاسکتا ہے.

معزز قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں کے کے بایبل کے ایک ہی آیت کا مختلف تراجم میں کس قدر واضح تضادات ہیں.. جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کے بایبل کے ورژن کی بنیاد ماڈرن لینگویج میں ترجمہ یا بہتر ترجمہ کرنا نہیں بلکہ اس کی آڑ میں تحریف اور مہفوم میں ردوبدل کرنا ہے یہ سلسلہ بہت طویل ہے جنکی وضاحت آیندہ بھی کی جاے گی..

مسیحی علما اس تحریف پر کیا کہتے ہیں؟؟

تحقیق : عثمان احمد

مسلم ڈیبیٹ اکیڈمی

 

مکمل تحریر >>