اناجیل اور قانونِ طہارت
تحریر : عبداللہ غازیؔ
اسلام کی طرح یہودیت میں
بھی ظاہری و باطنی طہارت پر خاصہ زور دیا گیا ہے جس کا اندازہ تورات میں
مندرج پاکی ناپاکی کے احکامات ِ شرعیہ سے کیا جا سکتا ہے۔ تورات کے مطابق کوئی شخص
مختلف وجوہات کی وجہ سے شرعی طور پر ناپاک سمجھا جاتا تھا اور اسی ناپاکی کے سبب
سے وہ یہودیت کے مذہبی مرکز ہیکل و عبادت خانے میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ ناپاکی کسی متوفی شخص کے گھر جانے کے علاوہ
لاش کو چھونے، تلوار کے مقتول، انسانی ہڈی یا قبر کو چھونے سے بھی لاحق ہو جاتی
تھی اور سات دن تک ایک مخصوص شرعی عمل
طہارت سے گزر کر اس ناپاکی سے خلاصی حاصل ہو پاتی تھی۔[1]
یہ قوانین
طہارت خاصے سخت تھے اور ان گنت لوگ تھے جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس ناپاکی
کی لپیٹ میں آجاتے تھے مثلااگر کسی گھر میں کوئی شخص فوت ہو تاتو عام طور پر کسی متوفی شخص کی تجہیز و تکفین اور
عیادت کے موقع پر گھر والوں، قریبی احباب اور رشتہ داروں کے علاوہ بعض اجنبی لوگ
بھی شامل ہوجاتے تھے اور اس شرکت کے سبب
سے حکم شرعیہ کے باعث وہ نجس متصور کیے
جاتے۔ تورات کے مطابق اس ناپاکی سے خلاصی و طہور حاصل کرنے کےلیے کاہن جلی ہوئی خطا
کی قربانی کی راکھ کو کسی برتن میں ڈال کر وہ پانی ناپاک شخص پر بہایا کرتے تھے۔ پانی
چھڑکنے کا یہ عمل تیسرے دن اور ساتویں دن ہوتا حتی کہ آخر میں وہ اپنے کپڑے دھوکر
اور غسل کر کے پوری طرح پاک ہو جاتا۔[2]اس عمل
طہارت کی تکمیل کے بغیر انسان ہنوز ناپاک
ہی رہتا اور جب تک وہ حصول طہارت کے اس
مرحلے کو سرانجام نہ دے لیتا اسے شریعت کی رو سے ناپاک ہی سمجھا جاتا تھا۔ ابتدائی
صدی عیسوی کے یہودی مؤرخ جوزیفس کے مطابق اسی قانون طہارت کی وجہ سے فصح و بےخمیری
روٹی کی عید منانے والے زائرین ۸ نیسان کو ہی یروشلم پہنچنا شروع ہوجاتے تھے تاکہ کاہنوں
سے خود پر پانی ڈلوا کر طہارت حاصل کریں۔[3]ناپاکی
کے اس دورانیہ میں یہ لوگ ہیکل کے قریب رہ کر خود کو فصح کے لیے روحانی طور پر
تیار کرتےتھے حتی کہ فصح کا دن آجاتا اور چودہ نیسان کو دوسرا پہر ختم ہونے کے بعد
لوگ فصح کے برے ذبح کرنا شروع کر دیتے۔
جیسا کہ اوپر گزر چکا کہ کسی لاش کو چھو لینے کے سبب سے بھی
انسان ناپاک ہو جاتا تھا لہذا یہودی خاص خیال کرتے تھے کہ لاش کو چھونے سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے۔
اس حکم شرعی کے باوجود ہم اناجیل میں یسوعؑ مسیح کو مردوں کو چھوتا دیکھتے ہیں۔ اس
ضمن میں انجیل لوقا میں دو واقعات مندرج ہیں۔
"جب وہ شہر کے
پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مردہ کو باہر لئے جاتے تھے۔۔۔۔۔پھر اس نے پاس
آکر جنازہ کو چھوا اور اٹھانے والے کھڑے ہو گئے"[4]
"عبادت خانے کے
سردار کے ہاں سے کسی نے آ کر کہا کہ تیری بیٹی مر گئی۔۔۔۔۔سب اس کے لئے رو پیٹ رہے
تھے مگر اس (یسوعؑ) نے کہا کہ ماتم نہ کرو وہ مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔۔۔۔مگراس
نے اس کا ہاتھ پکڑا اور پکار کر کہا اے لڑکی اٹھ! اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم
اٹھی۔"[5]
ان دونوں
مواقع پر یسوعؑ مسیح مردوں کو ہاتھ لگاتے نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی صاحب شرع یہودی
یہاں یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ اگر واقعی یسوعؑ نے ان مردوں کو چھو ا تھا
تو پھر لازما انہیں گنتی کی کتاب میں مرقوم شرعی عمل تطہیر سے گزرنا تھا لیکن ہم
دیکھتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کو پورا
کرنے کو خدا کی بادشاہت میں سب سے بڑا کہنے والے اور خود کو تکمیل شریعت قرار دینے
والے یسوعؑ اور ان کے پیروکار کسی ایسے عمل پر کاربند نظر نہیں آتے۔ انجیل نویس
ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کرتے کہ ان مردوں کو چھو کر بحکم خداوندی حیات بخشنے
والے یسوعؑ نے شریعت کی کتاب میں موجود حکم خداوند ی کو پورا کیا ہو۔
ایسا ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یسوعؑ کو اس قانون کا کوئی علم نہ تھا۔ اپنے وقت کے یہودی
علماء کو مبہوت و مسکوت کرنے والے یسوعؑ ایسے تمام احکامات شرعیہ سے نہ صرف بخوبی
واقف تھے بلکہ نہایت محتاط ہو کر ان پر
کاربند بھی تھے۔ ان کی یہ کمال احتیاط
لعزر کو جِلا بخشتے وقت نظر آتی ہے جب وہ لعزر کی قبر پر کھڑے ہو کر اسے چھونے کے بجائے دور سے ہی
پکارتے ہیں کہ اے لعزر نکل آ اور وہ مردہ لعزر ہاتھ پاؤں بندھی ہوئی حالت میں باہر
نکل آتا ہے۔[6] یقینا انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ مردے کو چھو
لینے کی صورت میں انہیں سات دن تک عمل طہارت سے گزرنا پڑے گا اسی لئے انہوں نے
لعزر کو چھونےکے بجائے دور سے ہی حکم دیا۔یسوعؑ مسیح کی طرف سے طہارت کی یہ احتیاط
لعزر کو بحکم خداوندی حیات بخشنے کے علاوہ ایک اور موقع پر بھی نظر آتی ہے جب
یسوعؑ سفر کے دوران سامریہ سے گزرتے ہیں تو کچھ کوڑھی ان کی طرف آتے ہیں مگر یسوعؑ
ان کو قریب آنے اور خود کو ہاتھ لگانےیا ان کو ہاتھ لگانے سے قبل دور سے ہی شفا
بخش دیتے ہیں[7] کیونکہ
احبا ر کی کتاب کے مطابق کوڑھی کو چھو لینے والا شخص بھی ناپاک ہو جاتا
تھا۔[8] اسی
لئے یسوعؑ نے ان کو اپنے قریب آنے ہی نہیں دیا وگرنہ انہیں سات دن کے عمل تطہیر سے
گزرنا پڑتا۔ ایسا نہیں ہے کہ یسوعؑ کی ذات ان قوانین شرعیہ سے مبرا و ماوراء
تھی ۔ وہ کمال احتیاط کے ساتھ ان تمام
احکامات پر نہ صرف عمل پیرا تھے بلکہ اپنے متبعین کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے ۔ اس کی مثال ہمیں اس
واقعے میں نظر آتی ہے جہاں یسوعؑ ایک کوڑھی کو شفاء بخشتے اور اسے کاہن کو دکھا کر
عمل تطہیر سے گزرنے کا حکم دیتے ہیں۔
"اس نے اسے
تاکید کی کہ کسی سے نہ کہنا بلکہ جا کر اپنے تئیں کاہن کو دکھا اور جیسا موسیٰ نے
مقرر کیا ہے اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت نذر گزران تاکہ ان کے لیے گواہی
ہو۔"[9]
اس سے واضح
ہوتا ہے کہ یسوعؑ پوری طرح ان قوانین شرعیہ پر عمل پیرا تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ
اناجیل میں وہ فریسیوں پر تنقید کرتے ہوئے
انہیں کہتے ہیں کہ وہ لوگوں پر ایسا بوجھ لادتے ہیں جس کااٹھانا بہت مشکل ہو مگر
خود کے لئے انگلی ہلانا بھی پسند نہیں کرتے۔[10] پس
بھلا کیسے ممکن ہے کہ یسوعؑ دوسروں کو وہ کا م کرنے کا حکم دیں جس پر وہ خود عمل
نہ کرتے ہوں۔
اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ لوقا میں مندرج مردہ زندہ کرنے کے دونوں واقعات اسطورہ سے بڑھ کر
کچھ بھی نہیں جنہیں یسوعؑ کی الوہیت کو
تقویت بخشنے کےلیے شرعی احکام سے ناواقف انجیل نویسوں نے یسوعؑ سے منسوب کر دیا۔
ایسے واقعات کی افسانویت دیگر انجیلی وقائع نگاری سے بھی خوب واضح ہوجاتی ہے جہاں
انجیل نویس اس قانون طہارت سے قطعا ناواقف نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ
اوپر گزر چکا ہے کہ عید فصح کے موقع پر یہودی زائرین اس بات کا خصوصی التزام کرتے
تھے کہ کسی قسم کی ناپاکی کی صورت میں ایک
ہفتہ قبل ہی یروشلم پہنچ جائیں تاکہ خود کو عمل تطہیر سے گزار کر عید فصح منانے کی
تیاری کر سکیں۔ اناجیل کے مطابق یسوعؑ بھی اپنے آخری زمینی ایام میں عید فصح سے چند روز قبل اپنے شاگردوں کی معیت
میں شہر میں داخل ہوئے تھے۔ دخول یروشلم کے
چند روز بعد ہی مبینہ طور پر واقعہ تصلیب پیش آیا اور اناجیل کے متعلق
یسوعؑ نے صلیب پر جان دے دی۔اس موقع پر دو
راست باز یہودیوں یوسف ارمتیائی اور نیکدویمس نے یسوعؑ کی لاش کو صلیب سے اتارا
اور تجہیز و تکفین کے انتظامات مکمل کیے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فصح کے موقع
پر طہارت کے بارے میں کمال احتیاط برتنے
والے یہودیوں نے یسوعؑ کی لاش کو چھو کر خود کو ناپاک کیوں کیا؟ انہیں بخوبی معلوم
تھا کہ ان کی یہ ناپاکی سات دن پر محیط ہوگی اور فصح کے اگلے روز سے ہی بےخمیری
روٹی کی عید شروع ہوجانی تھی جس کا دورانیہ بھی سات دنوں پر مشتمل تھا۔ یسوعؑ کی
تکفین میں شرکت کا مطلب خداوند کی ان دونوں مقدس عیدوں میں شرکت سے محرومی تھا جو
یروشلم میں موجود کسی راسخ العقیدہ اور راست باز یہودی کے لیے سوہان ِ روح سے کم
نہ تھا کہ وہ مقدس شہر میں ہونے کے باوجود ان عیدوں میں شرکت سے محروم رہ جائے۔
اسی طرح
مبینہ قیامت ِ مسیح کا واقعہ بھی قبرستان میں پیش آیا جہاں یسوعؑ قبروں کے درمیان
سے باہر نکلے۔ وہ قبرستان یوسف امتیائی کا آبائی قبرستان تھا جہاں مبینہ طور پر
یسوعؑ کی تدفین عمل میں لائی گئی لہذا یقیناً وہاں سے نکلتے ہوئے یسوعؑ نے کسی قبر
یا مردے کو چھوا ہو گا مگر جی اٹھنے کے بعد انجیل نویس انہیں کسی عمل تطہیر سے
نہیں گزارتا۔
اس دونوں
واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر یہودی انجیل نویس اس قانون طہارت سے یکسر ناواقف
تھے تبھی انہوں نے یسوعؑ کی سوانح مرتب کرتے ہوئے اس شرعی و فقہی پہلو پر دھیان
نہیں دیا۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یسوعؑ اس قانون سے پوری طرح واقف تھے تبھی وہ
لعزر کو چھونے سے مجتنب رہے۔ یاد رہے کہ
یہ حکم طہارت کوئی معمولی حکم نہ تھا بل کہ اس متعلق سخت خدائی حکم موجود
تھا کہ جو شخص ناپاک ہونے کے باوجود اس عمل طہارت کو پورا نہ کرے تو اسے کاٹ دیا
جائے۔[11]
اس سے عیاں
ہوتا ہے کہ کس طرح انجیل نویسوں نے یسوعؑ کو الہ ثابت کرنے کےلئے مختلف واقعات
تراشے اور انہیں یسوعؑ کی طرف منسوب کر دیاحال آں کہ یسوعؑ کا ان واقعات سے دور کا
بھی کوئی تعلق نہیں۔ یقیناً یسوعؑ نے مردے زندہ کئے مگر ان مردوں کو حیات بخشنے
میں ان کی بشری قوت سے زیادہ خدائی مشیت کارفرما تھی جس کا اظہار لعزر کو زندہ کرتے
وقت خود ان کے الفاظ سے ہوتا ہے "اے
باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تو نے میری سن لی اور مجھے تو معلوم تھا کہ تو ہمیشہ میری سنتا ہے مگر ان لوگوں کے
سبب جو آس پاس کھڑے ہیں میں نے یہ کہا تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تو نے ہی مجھے بھیجا
ہے۔"[12]
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ عالم مسیحیت کے مطابق یسوعؑ خود خدا ہیں تو اس موقع
پر کون سا خدا یسوعؑ کی سن رہا تھا اور کس خدا نے یسوعؑ کو بھیجا تھا؟ ایسے متعدد
سوالات یہاں پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ فی الوقت موضوع بحث نہیں۔
[1] (گنتی۱۹ :۱۶-۱۶)
[2](گنتی۱۹ :۱۷-۱۹)
[3] Flavius Josephus, Jewish War, 75AD, 6.290.
[4] لوقا۷ :۱۱ -۱۴
[5] (لوقا۸ :۴۹ -۵۴)
[6] (یوحنا۱۱ :۴۰ -۴۴)
[7] (لوقا۱۷ :۱۱
-۱۹)
[8] (احبار باب۱۳)
[9] (لوقا۵ :۱۴)
[10] (لوقا۱۱ :۴۶)
[11] (گنتی۱۹ :۲۰)
[12] (یوحنا۱۱ :۴۲)

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔