اناجیل میں مذکور القابات یسوعؑ
تحریر:عبداللہ غازیؔ
جس
طرح اناجیل چار ہیں اسی طرح یسوعؑ کی شخصیت کے متعلق نظریات بھی چار ہیں اور ہر انجیل نویس نے یسوعؑ کی شخصیت کے متعلق اپنے نظریے
کی آبیاری کے لئے اپنی انجیل کو مرتب کیا۔ اناجیل اربعہ
میں موجودیں نظریات ایک طویل ارتقائی عمل کے بعد وجود میں آئے۔مرقس کی نظر میں یسوع" ابن خدا" ہیں تو اس
نے اپنی انجیل کا آغاز ہی اسی لقب سے کیا۔
دوسری طرف متی کے لئے یسوعؑ "ابن داؤد" ہیں لہذا اس کی انجیل کی ابتدا اسی نام
سے ہوتی ہے۔ لوقا کی نظر میں بھی یسوع" ابن خدا، ابن ابراہام اور ابن
داؤد" ہیں مگر وہ اس کے علاوہ یسوعؑ
کو بطور "منجی ِ اسرائیل" بھی
پیش کرتے ہیں۔ اناجیل متوافقہ میں مندرج
ان القابات کے علاوہ انجیل یوحنا یسوعؑ کو "کلام خدا، مجسم خدا اور اکلوتا
بیٹا" کے طور پر پیش کرتی ہے۔
القابات کے اس ڈھیر میں ہمارا مطمع نظر یسوع کا "ابن ابراہام، ابن داؤد، ابن
خدا" ہونا ہے کیونکہ انہی تینوں القابات کو متی و لوقا نے اپنی اناجیل میں
پیش کیا ہے۔ تاہم ان تین القاب کے علاوہ متی انہیں ایک منفرد حیثیت دیتے ہیں۔ متی کی یہ جداگانہ حیثیت یسوع کا "مثیل
موسیٰ" ہونا ہے جس کے اثبات کے لئے متی نے اپنی ولادت کی روایت کو ولادتِ
موسیٰؑ کےواقعات کے تناظر میں بیان کیا۔
ابن ابراہام
یہودیوں کے
دعوے کے مطابق سیدناابراہیم علیہ السلام
ان کے جدامجد ہیں لہذا یسوع کا یہ
لقب ان کی یہودیت سے وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ متی نے چونکہ اپنی انجیل یہودیوں کے
لئے لکھی تھی(اسی لئے اس نے جابجا یہودیوں نوشتوں کا استعمال کرتے ہوئے ان کا
انطباق یسوعؑ پر کیا ہے) چنانچہ اس نے اس لقب"ابن ابراہام" کو اختیار
کرنا ضروری سمجھا اور اپنی انجیل کا آغاز ہی ان کے نام سے کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ
کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ متی کے نسب نامے کا ابتدائی مقام ہی حضرت ابراہیمؑ
ہیں۔
اپنی انجیل میں متی یسوع کی منادی و مشن
کو صرف یہودیوں تک ہی محدود رکھتے ہیں[1]مگر
دوسری طرف وہ یسوعؑ کو فرشتے کے ذریعے اپنے لوگوں کا نجات دہندہ بھی قرار دیتے ہیں
۔ اس کے ساتھ متی نے ولادت کی روایات میں مزید دو عناصر کو شامل
کیا ہے جس کے بعد یسوع کی منادی کا دائرہ پوری دنیا تک
وسیع ہو گیا۔ ولادت کی روایت کے یہ دو عناصر مجوسیوں کی آمد اور نسب نامے میں غیر
یہودی خواتین کی شمولیت ہے۔ غالباً متی کی انجیل میں یہ تبدیلیاں اُس وقت کی
گئیں جب مقدس پولس یہودیوں کی طرف سے مکمل
طور پر مایوس ہو کر غیر اقوام میں منادی کرنے میں مصروف تھے۔ اس بات کی تائید اعمال کی کتاب سے بھی ہوتی ہے
جہاں مقدس پولس کا بیان مذکور ہے کہ
"ضرور تھا کہ خدا کا کلام پہلے تمہیں سنایا جائے لیکن
چونکہ تم اس کو رد کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے لئے ناقابل قبول
ٹھہراتے ہو تو دیکھو ہم غیر قوموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔"[2]
بعد ازاں جب مسیحیت کی منادی غیر
یہودی اقوام میں پہنچی تو ان پولوسی نظریات کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیاحتی کہ
متی نے مشرک اقوام کو اجداد ِ یہود (حضرت ابراہیم،حضرت اصحاق و حضرت یعقوب علیہم
السلام)کے ساتھ خدا کی بادشاہت کے دسترخوان پر بٹھا دیا[3]۔ جب
غیر اقوام مسیحیت میں داخل ہونا شروع ہوئیں تو پھر یسوع کو منجی عالمین منوانے میں
بھی کوئی امر مانع نہ رہا۔
منجی ِعالمین
دوسری طرف انجیلِ لوقا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی امتیازی حیثیت
نہیں دی گئی بلکہ انہیں اجداد ِیسوع ؑ میں شامل ایک فرد کی حیثیت سے پیش کیا گیا
ہے مگر اس کے باوجود غیریہودی لوقا نے ولادت ِیسوعؑ کی وقائع نگاری ، شریعت
موسوی کا رنگ دیتے ہوئے کی ہے۔ ان مذہبی رسومات میں یسوعؑ کا ختنہ، پہلوٹھے کو
چھڑانے کی رسم، ایام طہارت کی رسم، عید فصح پر ہیکل میں حاضر ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم اپنی انجیل کو گہرا یہودی رنگ دیتے ہوئے بھی لوقا یسوعؑ کی منادی کی
عالمگیریت کا قائل تھا لہذا اس نے یسوعؑ
کا نسب نامہ لکھتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کے نام پر وقوف کرنے کے
بجائے نسب نامے کو حضرت آدم علیہ السلام
تک وسیع کر دیا جو تمام بنی نوع آدمؑ کے جدامجد ہیں۔ اسی لئے لوقا نے ولادت کی
روایات میں موجود مناجات میں یسوع کو "غیراقوام کے لئے نجات کی روشنی"
قرار دیا ہے۔ نیز لوقا نے یسوع کی منادی کی عالمگیریت اپنی انجیل کے آخر تک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
۔ چنانچہ سب سے آخر میں وہ لکھتا ہے کہ
"یروشلم سے شروع کر کے سب قوموں میں اس کے نام سے
گناہوں کی معافی کےلئے توبہ کی منادی کی جائے۔"[4]
ابن داؤد
ولادت ِ مسیح کی روایات میں یسوع ؑ کا
ایک اور امتیازی لقب "ابن داؤد"
ہےجو ان کے المسیح ہونے کے منصب کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ متی کی نظر میں یسوعؑ ہی المسیح ہیں لہذا انہوں نے
اپنے قارئین کو یہ باور کرانے کےلئے اپنی انجیل کا آغاز ہی"یسوع مسیح ابن
داؤد ابن ابراہیم کا نسب نامہ" سے
کیا ہے تاکہ آمدہ واقعات بیان کرنے سے قبل
ہی قاری کے ذہن میں بھی یہ فکر بٹھائی جا
سکے کہ صرف یسوعؑ ہی المسیح ہیں۔
نسب نامہ لکھتے ہوئے متی نے اکتالیس
ناموں کو تین حصوں میں منقسم کیا ہے جن میں دوسرے حصے کے آغاز میں وہ حضرت داؤد
علیہ السلام کا نام درج کر تے ہیں ۔ یسوعؑ کے داؤدی المسیح ہونے پر اصرار کرتے
ہوئے وہ میکاہ نبیؑ کے صحیفے سے آیت نقل کرتے ہوئے اس کا اطلاق یسوعؑ پر کرتے اور اس عبارت کا تعلق یسوعؑ کی جائے پیدائش
"بیت لحم" سے جوڑ دیتے ہیں جو حضرت داؤد علیہ السلام کا آبائی گاؤں تھا۔
دوسری طرف انجیل نویس لوقا ہیں جو یسوع کے نسب نامے میں حضرت ابراہیم علیہ
السلام کی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کو بھی کوئی خصوصیت اہمیت نہیں دیتے مگر
ولادت کی روایت میں یسوعؑ کے
"مسیحیانہ منصب" پر زور دیتے ہوئے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب فرشتہ بی بی
مریمؑ کے پاس آیا تو اس نے بشارت دیتے ہوئے کہا کہ "خداوند خدا اس کے باپ
داؤد کا تخت اسے دے گا"۔ مقدسہ مریم کے علاوہ لوقا کی ولادت کی روایت میں
چرواہوں کے سامنے بھی فرشتے یہی اعلان کرتے ہیں کہ "آج داؤد کے شہر میں
تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہو گا وہ مسیح خداوند ہے"۔ یہ مسیحیانہ خاکہ نہ صرف
لوقا بلکہ مرقس و یوحنا میں بھی جابجا نظر آتا ہے۔
ابن خدا
یسوع کا اہم ترین لقب" ابن
خدا" یا "خدا کا بیٹا" ہے۔ یہ لقب ان گنت بار مجازی معنوں میں عبرانی بائبل و دیگر یہودی
ادب میں وارد ہوا ہے مگر انجیل نویسوں نے اس لفظ کو اپنی تحاریر میں وہ معنی و
مفہوم عطا کیا ہے جو یہودی تحاریر میں کبھی بھی مراد نہیں لیا گیا۔ متی یسعیاہ۷ :۱۴
میں مذکور "عمانوایل" کا ترجمہ 'خدا ہمارے ساتھ' کرتے ہوئے یہ دعویٰ
کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ عہدعتیق سے عبارت نقل کرتے ہوئے"مصر سے میں نے اپنے
بیٹے کو بلایا" کو بھی یسوعؑ کی ذات
پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ متی کی اِس روش کی
لوقا نے بھی کامل اتباع کی ہے چنانچہ ولادت کی روایت میں وہ یسوع ؑ کو "خدائے
برتر کا بیٹا" اور " ابن خدا" لکھتے ہیں۔
پولوسی افکار کی روشنی میں عہد نامہ
جدید کی تشکیل کے بعد یہودی اصطلاح" ابن خدا" کو جب نئے مسیحی معنی و
مفہوم دیئے گئے تو اس کے بعد یسوع کو
حقیقی معنوں میں خداکا بیٹا سمجھ لیا گیا۔ کلیسیاء میں عقیدہ ابنیت کے جڑ پکڑنے کے
بعد دوسری صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی
تک اس نظریے میں مسلسل ارتقا ہوتا رہا اور لوگوں میں خوش عقیدگی پیدا کرنے کے لئے
کلیسیا نے متعدد محیر العقول واقعات کوعالمِ طفولیت سے ہی یسوعؑ سے منسوب کر دیا ۔
کلیسیا کے لئے ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ
یسوعؑ پیدائشی طور پر ہی خداکا بیٹا تھا اسی لئے اس نے کم عمری سے ہی اپنا الوہی
اختیار ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا چنانچہ عہد طفولیت کی اناجیل میں ننھے یسوعؑ کو
مردے زندہ کرتے اور بیماروں کو شفاء بخشتے دیکھا جا سکتا ہے۔
مثیل موسیٰؑ
اگرچہ یہ لقب باقاعدہ طور پر یسوعؑ سے
موسوم نہیں ہے تاہم چاروں انجیل نویسوں میں سے صرف متی ہی یسوعؑ کو اس روپ میں پیش
کرنے کی سعیِ مسلسل کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ بائبلی اور ولادت ِ موسیٰ ؑ سے
متعلق مختلف تاریخی روایات کو جوڑتے ہوئے
یسوع کی ولادت کی روایت کو تراش کر پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ انجیلِ متی میں ہیرودیس کا قتل ِ اطفال کا منصوبہ اور مصر کی
طرف بچ کر نکل جانا اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ یہودیوں کی نظر میں حضرت موسیٰ علیہ
السلام ایک جلیل القدر پیغمبر، شارع اور منجی اسرائیل تھے جنہوں نے اپنی قوم کو
مصریوں کی بدترین غلامی سے نجات دلائی پس متی نے بھی اسی تصور کو دیکھتے ہوئے یسوع
کو شارع اور اپنے لوگوں کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا ہے البتہ انجیل ِمتی میں
یسوعؑ کے لئے بطور شارع اور منجی کا تصور یہودی تصور سے یکسر جدا اور مختلف ہے۔ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ سینا پر
شریعت دی گئی اسی طرح یسوع نے کوہ ِ زیتون پر پہاڑی وعظ دیتے ہوئے اپنی شریعت پیش
کی۔ اس کے علاوہ یسوع کے پہاڑی وعظ اور مختلف عبادت خانوں میں تعلیم دینے کے عمل
کو متی نے اس انداز سے پیش کیا ہے کہ گویا
وہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح بااختیار ہو کر تعلیم دے رہے تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے وقت اگر
بنی اسرائیل مصریوں کے غلام تھے تو یسوعؑ مسیح
کی بعثت کے وقت قوم اسرائیل رومیوں کی غلامی تلے زندگی گزار رہی تھی۔ حضرت
موسیٰ علیہ السلام کی طرح حضرت یسوعؑ اپنی قوم کو رومیوں کی غلامی سے نجات تو نہ دے
سکے تاہم مسیحیوں نے انہیں منجی اسرائیل و منجی عالمین ثابت کرنے کےلئے یہ عذر لنگ
تراشا کہ یسوعؑ نے صلیبی موت کو اختیار کر کے اپنے لوگوں کو اُس ازلی گناہ سے نجات
دلائی جو حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش کے
بعد وجود میں آیا تھا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح انجیل
نویسوں نے مخصوص نظریات و افکار کی آبیاری کے لئے مختلف القابات یسوعؑ کی طرف
منسوب کئے اور بعد ازاں ان کے وضع کردہ نظریات ہی مسیحیت کے مسلمہ عقائد ٹھہرے جن
سے مفر اب کسی صورت ممکن نہیں۔
[1] متی۱۰ :۶۵
[2] اعمال۱۳ :۴۶
[3] اور میں تم سے کہتا ہوں کہ بہتیرے پورب اور پچھم سے آکر
ابرہام اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہوں
گے۔(متی۸ :۱۱)
[4] متی۲۴ :۴۷
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔