Pages

Most Popular

جمعہ، 30 اپریل، 2021

یسوع اور تطہیر ہیکل


 

یسوعؑ اور تطہیرِ ہیکل

تحریر:عبداللہ غازیؔ

          اناجیل متوافقہ اور انجیل یوحنا میں موجود حیات ِ یسوعؑ کے اکثر واقعات پیچیدہ تاریخ اور گنجلک اعتقادی مسائل اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ دیگر مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر یسوعؑ کے یروشلم کی طرف کئے  جانے والے اسفار کا جائزہ لیا جائے تو انجیلی تضادات کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ اناجیل متوافقہ کے مطابق یسوعؑ اپنی زمینی خدمت کی شروعات کے بعد اپنی حیات طیبہ کے آخری  ایام میں صرف ایک ہی بار یروشلم تشریف لے گئے  تھے جب کہ دوسری طرف انجیل یوحنا ہے جو مختلف تہواروں پر رکم از کم تین بار یسوعؑ کا یروشلم جانا بیان کرتی ہے۔ انہی تہواروں سے مسیحی علماء نے یسوعؑ کی تبلیغی مساعی کو تین سالوں پر محیط بتایا ہے جب کہ اناجیل متوافقہ کے مطابق یہ دورانیہ ایک سال سے زائد نہیں۔  بہر حال یسوعؑ کتنی بار یروشلم گئے؟ اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم یسوعؑ کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے دخول یروشلم کے بعد ہیکل میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں گے۔ اناجیل اربعہ کے مطابق جب یسوعؑ گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہوئے تو لوگ ان کا استقبال ہو شعنا کہہ کر کر رہے تھے[1]اور متی و لوقا کے مطابق لوگ انہیں بادشاہ اور ابن داؤد بھی کہہ رہے تھے۔[2]  مقدس شہر یروشلم میں داخل ہونے کے بعد یسوعؑ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہیکل تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ہیکل کے احاطے میں موجود صرافوں اور کبوتر فروشوں کی میزیں الٹ دیں اور کپڑے کے کوڑے سے مار کر انہیں ہیکل سے باہر نکال دیا۔[3]

ہیکل میں کبوترفروشوں اور سوداگروں کی دکانوں کے ساتھ غلط سلوک اورہیکل کی اعلیٰ انتظامیہ جیسا رویہ اختیار کرنایسوؑع کے لیے ہرگزرواں نہ تھاکیونکہ یروشلم اُس وقت نہایت غیرمستحکم اور شورش زدہ علاقہ تھااور یسوعؑ اس شہر میں خود بھی اجنبی ہی تھے لہذا اس کاایسا طرزعمل غلط وقت پراورغلط جگہ پرانتہائی غلط قدم اٹھانے کے مترادف تھا۔قدس الاقداس میں پیش کیے جانے والے خالص چاندی کے سکوں کوبیچنے والوں،قربانی کے جانوروں کوبیچنے والوں اورسوداگروں کی دکانیں اور میزیں الٹادینا ایک  سنگین غلطی ہو سکتی تھی۔غلط مقام یروشلم کامقدس ہیکل تھا جہاں زائرین اور مقامی لوگوں کاایک بڑامجمع جمع ہوتااورکاہنوں کی طرف سے (جوکہ سردارکاہن کے حکومت کی طرف سے تقرر ہونے کے باعث رومی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے)اشتعال انگیز سرگرمیوں کے حوالے سے  لوگوں کونرمی کی تلقین کی جاتی۔ نیزعیدفصح کے آمدہ ایام ،آزادی کی عید اور مسیح کے ظہورکی متوقع تاریخ یہ سب ایساخطرناک وقت تھا کہ اس وقت قانونی انتظامیہ کی ہمت جواب دے جاتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ یسوعؑ کی اِس کاروائی کوامن وامان کے لیے بڑاخطرہ سمجھاگیا۔انہیں یہودی قائدین کے ذریعے گرفتار کیاگیا تاہم انہوں نے اس کی موت کی ذمہ داری خود پر لینے کے بجائے انہیں سیاسی انتظامیہ کے حوالے کردیا چنانچہ اناجیل کے مطابق یسوع کو یہودیہ کے گورنر پیلاطوس کے حکم پر مبینہ طور پر رومی صلیب پر لٹکادیاگیا۔[4]

عہدنامہ عتیق کے تناظر میں دیکھا جائے تو یسوع کا ہیکل میں گھس کر صرافوں اور کبوتر فروشوں کے ساتھ مارپیٹ کرنا ایک علامتی فعل تھا اور اس کی درست تفہیم کے لئے عہدنامہ عتیق سے مراجعت ناگزیر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ  یسعیاہ نبی تین سال تک برہنہ اور ننگے پاؤں چلتے رہے اور ان کا اس طرح چلنا خداوند کی طرف سے مصریوں اور کوشیوں کے لئے ایک علامت ٹھہرا۔[5] اسی طرح خداوند نے یرمیاہ نبیؑ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک صراحی کو توڑیں اور اعلان کریں کہ ہیکل جلد تباہ ہو جائے گا۔[6]اس کے علاوہ یرمیاہ نبیؑ نے ٹاٹ کا علامتی لباس بھی پہنا جو اس بات کی  طرف اشارہ کرتا تھا کہ یہودیہ کو چاہیے کہ بابل کو قبول کر لے۔[7] حزقیل نبیؑ نے بھی متعدد پیچیدہ کام کئے اور انہیں قلم بند کرنے کےلئے طویل وقت و صفحات درکار ہیں تاہم وہ علامتی طور پر طویل عرصے تک ایک طرف اور پھر دوسری طرف لیٹے رہے۔[8] ایسی تمام علامات کوبلا تشریح ظاہری معانی کے ساتھ سمجھنا مشکل ہو گا۔

          عہدنامہ عتیق کے دیگر انبیاء کرامؑ کی طرح یسوعؑ نے بھی ہیکل میں علامتی فعل کیا تھا جیسا کہ ہم امثلہ گذشتہ میں دیکھ چکے ہیں ۔یسوعؑ کو اسرائیل اور تورات سے خاص تعلق تھا اسی لئے انہوں نے اپنے خاص شاگردوں کی تعداد بھی بارہ رکھی تھی جو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان کے بھوت نکالنے کو معجزے کو بھی علامتی طور پر یہ سمجھا ہو کہ یہ شیطان کی شکست  اور خدا کی بادشاہت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔ تاہم  یروشلم میں ہونے والے یسوعؑ کے تین افعال بھی علامتی تھے جنہیں علامت کے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔

ان میں سے پہلا یسوعؑ کا گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہونا تھا جو متی کے مطابق زکریاہ نبی کے صحیفے میں مذکور پیش گوئی کی تکمیل تھا ۔

اے بنت صیون تو نہایت شادمان ہو

اے دختر یروشلم خوب للکار

کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے

وہ صادق ہے اور نجات اس کے ہاتھ میں ہے۔

وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے۔[9]

          یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کوئی پیش گوئی کسی واقعے کو تشکیل دیتی ہے یا پھر کسی ایسی کہانی کوجس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اناجیل میں  ایسے بہت سے واقعات ہیں جن کے بارے میں بالوثوق نہیں کہا جا سکتا کہ آیا یسوع نے بذات خود کسی پیش گوئی کو مکمل کیا یا پھر صرف مسیحی روایات میں یسوعؑ کو ایسا کرتا ہوا دکھایا گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یسوعؑ نے خود کو بالفعل بادشاہ کہا ، ان کے شاگردوں نے اس بات کی تصدیق و تائید کی اور لوگوں نے کھجور کی ٹہنیاں لہرا لہرا کر بادشاہت اور یسوع کا بطور بادشاہ خیر مقدم کیا۔ اگر سب کچھ ایسے ہی وقوع پذیر ہوا جیسا کہ انجیل نویس بیان کرتے ہیں تو چند دن بعد ہی یہ سارا مجمع کہاں چلا گیا تھا جب یسوعؑ کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا جا رہا تھا؟

دخول یروشلم کے بعد سارے واقعات کا عید فصح سے گہرا تعلق ہے اور پہلی صدی عیسوی کے فلسطین میں  عید فصح کا موقع نہایت نازک ترین ہوا کرتا تھا ۔ اس موقع پر سردار کاہن اور رومی گورنر دونوں ہی پوری طرح چوکس و ہشیار ہوتے تھے کیونکہ کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ کسی بڑے حادثے یا بغاوت کا سبب بن سکتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل کے مطابق عوام الناس کی ایک بہت بڑی تعداد یسوع کو قبول کر چکی تھی[10] اور دخول یروشلم کا منظر اس بیان کی تصدیق بھی کرتا ہے مگر آمدہ واقعات اس کی صداقت پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں کہ یسوع کو گرفتار کرنے اور مقدمہ چلانے کے باوجود یہودیوں نے اپنے بادشاہ اور قائد کو بچانے کےلئے بلوہ کیوں نہیں کیا؟ چند دن قبل کھجور کی ڈالیاں اور ہوشعنا کے نعرے لگا کر یسوعؑ کا استقبال کرنے والے یہودی یک دم کیسے یسوعؑ کے خون کے پیاسے ہو گئے کہ ان کے قتل کے سوا کسی بات پر راضی ہونے کو تیار نہ تھے۔ انجیل یوحنا پیلاطوس گورنر کی عدالت میں جمع ہونے والے یہودی مجمعے کی نفرت و عداوت کا نقشہ ان الفاظ میں کھنچتی ہے کہ "اسے مصلوب کر[11]" اور "اس کا خون ہم پر اور ہماری اولادوں کی گردن پر"۔[12] تاہم چاروں انجیل نویس اس متعلق  کوئی لب کشائی نہیں کرتے کہ چند دن قبل یسوعؑ پر جان نچھاور کرنے والے یہی لوگ کیسے ان کے خون کے پیاسے ہو گئے؟

یروشلم میں داخل ہونے کے بعد یسوع ؑ کا دوسرا فعل مزید پیچیدہ اور وضاحت کا متقاضی ہے۔ اناجیل کے مطابق یسوعؑ نے ہیکل میں داخل ہو کر صرافوں اور کبوتر فروشوں کی چوکیاں الٹ دی تھیں۔[13] یسوعؑ نے ان سے کہا کہ "میرا گھر سب قوموں کے لئے دعا کا گھر کہلائے گا؟ مگر تم نے اسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے"[14]  یسوعؑ کے اس قول میں موجود لفظ"دعاؤں کا گھر" یسعیاہ کے صحیفے[15] اور "ڈاکوؤں کی کھوہ" یرمیاہ نبی کے صحیفے[16]سے لئے گئے ہیں۔ تاہم یسوع نے ایک تیسرا بیان ہیکل کے متعلق بھی دیا تھا مگر اناجیل متوافقہ کےمصنفین نے اسے پیش گوئی کے طور پر پیش کیا ہے کہ ہیکل تباہ ہوگا اور اسی کو انہوں نے مقدمہ یسوعؑ میں بھی الزام کے طور پر پیش کیا کہ یسوعؑ نے ہیکل تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔[17] اس دھمکی کی بازگشت مبینہ تصلیب کے وقت بھی نظر آتی ہے جب صلیب پر لٹکے یسوعؑ کو دیکھ کر لوگ طنز کرتے کہ "واہ! مقدس کے ڈھانے والے اور تین دن میں بنانے والے۔ صلیب پر سے اتر کر اپنے تئیں بچا"۔[18]

بعد میں ایک ابتدائی مسیحی اسٹیفن پر بھی یہی الزام لگایا گیا کہ یسوعؑ ناصری اس مقام کو برباد کرے گا۔[19]   مختلف بیانات کی روشنی میں یہی بات سامنے آتی ہے کہ یسوعؑ کا ہیکل میں کیا جانے والا عمل علامتی تھا  اور نوشتوں سے واقف یہودی خوب اچھی طرح اسے سمجھ چکے تھے وگرنہ یسوعؑ نے عملی طور پر تو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا تھا جو ہیکل کی بربادی کا سبب بنتا۔

          ممکن ہے کہ یسوعؑ نے یہ خیال کیا کہ ہیکل کے احاطے میں موجود یہ تجارتی بازار اس کی بےتوقیری و بے حرمتی ہے چنانچہ انہوں نے پیش گوئی کر دی کہ یہ قوم ایک دن رومیوں کے خلاف بغاوت کرے گی اور وہ بغاوت انہیں ہیکل کی تباہی تک لے جائے گی۔ یسوعؑ نے صرافوں کی چوکیاں الٹتے ہوئے ہیکل کو "ڈاکوؤں کی کھوہ" سے  تشبیہ دی تاہم کسی بھی قدیم دستاویز میں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ ہیکل میں جانے والے اس مقدس پیسے کے ساتھ غبن کیا جا رہا تھا بلکہ اس پیسے کا مقصد صرف ہیکل کی اعانت تھا۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ  ہیکل کے معاملات میں تجدید و اصلاح کا امکان موجود تھا اور غالبا یسوعؑ نے اسی انتظام کو بہتر بنانے کےلئے ایسے اقدامات کئے۔ ہیکل اور اس کی انتظامیہ کی مدد کرنا یہودی زندگی کا اہم ترین پہلو تھا۔ ہیکل کا نذرانہ، زراعت کا دسواں حصہ، دیگر زرعی نذرانے(پہلا پھل خداوند کے گھر لانا)، پہلوٹھے بیٹے اور جانور کی خلاصی، گناہوں کی معافی کے لئے قربانی، تہوار اور مختلف مواقع پر ہیکل کی نذر کئے جانے والے جانور وغیرہ سب کچھ کسی نہ کسی طرح ہر شخص کی عملی زندگی میں موجود تھا۔ دوسرے لفظوں میں  ہیکلِ یروشلم فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی زندگی کا مرکز   اور کسی بھی خطے میں بسنے والے یہودیوں کے لئے یکساں اہمیت رکھتا تھا۔ ہیکل کی مخالفت کو یہودی مذہب کی مخالفت سمجھا جاتا تھا  لہذا یسوع کا ہیکل میں گھس کر تطہیر کا عمل گویا یہودیت پر حملہ کرنے کے برا بر تھا۔

 اگر واقعتاً یسوعؑ نے اصلاح و تجدید کے لئے ہیکل پر حملہ کیا تھا تو اس سے قبل وہ کیسے لوگوں کو  ہیکل کی طرف مراجعت کی ترغیب دیتے رہے؟  اناجیل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یسوعؑ امیر شہریوں اور زمیں داروں پر تو تنقید کرتے نظر آتے ہیں مگر طبقہ اشرافیہ کے کاہنوں پر معمولی سی بھی نقد نہیں کرتے۔ اناجیل کے مطابق انہوں نے طہارت کے بنیادی قانون  کو بھی برقرار رکھا اور کوڑھی کو شفاء بخشنے کے بعد اسے ہیکل کی طرف جانے کی ترغیب دی۔ انہوں نے ہیکل کا محصول ادا کیا باوجود یہ کہ وہ یہ محصول ادا کرنے میں رضامند اور خو ش نہ تھے۔[20]  اس مقام کے علاوہ اناجیل میں ایسا کوئی مواد موجود نہیں جو یسوعؑ کو بطور مصلح ِہیکل کے طور پر پیش کرتا ہو۔

          یہاں ایک بار پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یسوعؑ نے پیش گوئی کی تھی کہ ہیکل تباہ ہو گا؟[21] یاپھر یہ صرف ان کی سیاسی بصیرت تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے یہ دعویٰ کیا؟ اس جیسی دوسری نظیر عہدنامہ جدید میں نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر یسوعؑ ہیرودیس اینٹی پاس کو خبردار کر سکتے تھے کہ ہیرودیاس کے لئے اس کا جنون اس کے منصب کو خراب کر دے گا(جیسا کہ ہوا بھی) مگر یسوع ایسا نہیں کرتے۔ یرمیاہ نبیؑ کے صحیفے میں موجود پیش گوئیاں سیاسی و عسکری معاملات سے متعلق ہیں لیکن انجیل لوقا کے ایک مقام کے علاوہ ہمیں یسوعؑ کا کوئی قول نہیں ملتا جو عسکری حالات پر روشنی ڈالتا ہو۔ لوقا کے مطابق "جب تم یروشلم کو فوجوں سے گھراہوا دیکھو تو جان لینا کہ اس کا اجڑ جانا نزدیک ہے"[22]  اکثر علماء کا خیال ہے کہ یہ لوقا کا ذاتی مشاہدہ و بیانیہ ہے  کیونکہ لوقا نے اپنی انجیل اس وقت لکھی جب رومی فوجیں یروشلم کو گھیر کر اسے تباہ کر چکی تھیں اور اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ۷۰ء کے دوران یروشلم میں کیا کچھ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انجیل میں کوئی سیاسی و عسکری پیش گوئی موجود نہیں ہے کہ ہم ہیکل کی تباہی کی پیش گوئی کو اس طرح سے بیان کریں۔ یسوعؑ نے اپنی زمینی خدمت کے دوران کوئی ایسی سیاسی پیش گوئی نہیں کی اور نہ ہی ایسے تجارتی معاملات میں مداخلت کی جو کہ ہیکل کے امور کو چلانے کےلئے ناگزیر تھے۔ انجیل مرقس میں یسوعؑ کا ایک قول ملتا ہے جسے اولاً پیش گوئی اور بعد ازاں دھمکی سمجھا گیا۔

یسوع کے بیان کو اگر ہم پیش گوئی کے طور پر لیں تو صورت حال کچھ اس طرح بنتی ہے۔

"جب وہ ہیکل سے باہر جا رہا تھا تو اس کے شاگردوں میں سے ایک نے اس سے کہا اے استاد! دیکھ یہ کیسے کیسے پتھر اور کیسی کیسی عمارتیں ہیں! یسوعؑ نے اس سے کہا تو ان بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھتا ہے؟ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے۔"[23]

          انجیل متی کے مطابق یسوعؑ نے یہ الفاظ کسی ایک شاگرد کو کہنے کے بجائے ایک سے زائد شاگردوں کو کہے تھے[24]جب کہ دوسری طرف لوقا ہے جو ان الفاظ کا مخاطب شاگردوں کے بجائے چند افراد کو قرار دیتا ہے۔[25] یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ مبینہ پیش گوئی ٹھیک طرح سے پوری نہیں ہوئی۔ ۷۰ء میں رومیوں نے جب یروشلم پر چڑھائی کی تو انہوں نے ہیکل کی کافی دیواروں کو گرانے کے بجائے ایسے ہی چھوڑ دیا تھا۔ یقیناً ان میں سے ایک دیوار کا بڑا حصہ آج تک موجود ہے جو تاحال مقدس اقصی کے احاطے سے متصل ہے۔ اس دیوار کے اکثر پتھروں کا وزن دو سے پانچ ٹن کے درمیان ہے بالخصوص کنارے کے پتھروں کی لمبائی نہایت طویل ہے۔ ان میں سے ایک ۱۲ میٹر(۳۹فٹ) طویل ہے اور اس کا وزن تقریبا۴۰۰ ٹن ہے۔[26]حالانکہ یسوعؑ نے کہا تھا کہ کسی پتھر پر کوئی پتھر باقی نہ رہے گا۔

          انجیل نویسوں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ اپنے قارئین کو یہ باور کرائیں کہ یسوعؑ  نے فی الحقیقت ہیکل تباہ کرنے کی دھمکی نہیں دی تھی۔ اس ضمن میں مرقس لکھتا ہے۔

"پھربعض نے اٹھ کر اس پر جھوٹی گواہی دی کہ ہم نے اسے یہ کہتے سنا ہے کہ میں اس مقدس کو جو ہاتھ سے بنا ہے ڈھاؤں گا اور تین دن میں دوسرا بناؤں گا جو ہاتھ سے نہ بنا ہو لیکن اس پر بھی ان کی گواہی متفق نہ نکلی۔"[27]

          متی کا بیان  کسی حد تک مرقس سے موافقت رکھتا ہے لیکن وہ یہ الفاظ"جو ہاتھ سے بنا ہے" اور "جو ہاتھ سے نہ بنا ہو" شامل نہیں کرتا۔  یہی الزام یسوعؑ پر اس وقت بھی لگایا جاتا ہے جب مبینہ طور پر انہیں صلیب پر لٹکایا گیا تھا۔ "واہ! مقدس کے ڈھانے والے اور تین دن میں بنانے والے"[28] دوسری طرف متی اور مرقس اس الزام کو جھوٹا بھی قرار دیتے ہیں  کہ اس بیان پر کسی کی گواہی متفق نہ تھی، جب کہ لوقا اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے۔لوقا کی یہ روش اقوالِ یسوعؑ کو نظر انداز کرنے کی انتہائی قبیح کوشش ہے۔

 ابتدائی مسیحی اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ یسوعؑ کو باغی یا مزاحمت کار کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ ان کی خواہش تھی کہ مسیحیت  معاشرے کو ایسے افراد فراہم  کرے جو حکومت روم کے فرماں بردار اور تابع دار ہوں۔ متی و مرقس کی اناجیل انہی لوگوں کے نظریات و افکار کی تسکین کے لئے لکھی گئیں جب کہ دوسری طرف لوقا تھا جس نے اپنی انجیل کو اس فکر سے پاک رکھا ۔یہی سبب  ہے کہ لوقا کی تصنیف دوم،اعمال الرسل میں وہ متعدد بار شاگردانِ یسوعؑ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی گئے وہاں عوام میں ہنگامے اور بلوے ہوئے جب کہ متی و مرقس نے یسوعؑ کے شدت پسندانہ عزائم کو نقل کرکے بھی انہیں جھوٹا اوران کے متعلق دی جانے والی گواہیوں کوغیر متفق قرار دے دیا۔

صرافوں کے خلاف یسوعؑ کے عمل اور ہیکل کو تباہ کرنے کے بیان کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو کسی حد تک معقول نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں جب کہ اناجیل کے مصنفین کی خواہش ہے کہ ان دونوں عناصر کو جدا رکھا جائے کہ ایک موقع پر یسوعؑ نے ہیکل کی تطہیر کی جب کہ دوسرے موقع پر اس نے ہیکل کی تباہی کی پیش گوئی کی حال آں کہ ان دونوں کے درمیان گہرا ربط موجود ہے کیوں کہ یسوعؑ کا عمل و قول دونوں ایک دوسرے کی تشریح کرتے ہیں۔ ہیکل کی تباہی کے متعلق یسوعؑ کے بیان اور صرافوں کی میزیں الٹنے کے علامتی عمل میں ربط تسلیم کر لیا جائے تو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی کہ کیوں انہیں ہیکل کو دھمکی دیتا ہوا دکھایا گیا ہے۔  ہیکل میں گھس کر مار پیٹ کرنا اور لوگوں کو نکال باہر کرنا ہیکل کی انتظامیہ کی نظر میں یہ ایک ناقابل معافی جرم تھا اور یہ جرم ان کے مقدمے کے علاوہ اس وقت بھی دہرایا جاتا ہے جب وہ مبینہ طور پر صلیب پر لٹکائے گئے حتی کہ اسٹیفن کے قتل کے وقت بھی اسی جرم کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔

اگر یسوعؑ نے ہیکل   میں گھس کر میزیں الٹنےکے بعد اسے تباہ کرنے کی دھمکی دی یا پیش گوئی کی تھی تو انہوں نے ہرگز یہ خیال نہیں کیا تھا کہ وہ اور ان کے قلیل التعداد ساتھی مل کر اس کی دیواریں گرا دیں گے تاکہ کسی پتھر پر کوئی پتھر باقی نہ چھوڑا جائے بل کہ  یقیناً انہوں نے یہی خیال کیا کہ خدا اسے تباہ کرے گا۔ انہوں نے یہی سوچا  کہ  خدا سابقہ اقوام کی طرح اس قوم پر بھی کسی دوسری قوم کو لا کر چڑھا دے گا جو اس ہیکل کو تباہ کر دے گی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہیکل خدا کی جائے سکونت ہے اور اس بات کا اندازہ خود ان کے قول سے ہوتا ہے کہ"جو مقدس کی قسم کھاتا ہے وہ اس کی اور اس کے رہنے والے کی قسم کھاتا ہے"[29]  اس انجیلی بیان کے مطابق اگر یسوعؑ یہ سمجھتے تھے کہ خدا ہیکل میں بستا ہے  تو انہوں نے بمشکل ہی یہ خیال کیا ہو کہ رومی اس ہیکل کو خدا کی مرضی و منشا کے بغیر تباہ نہیں کر سکتے۔ وہ (رومی)اس ہیکل کی تباہی میں آلہ کار تو بن سکتے تھے مگر وہ اپنی مرضی سے اسے تباہ  کرنے پر قدرت نہیں رکھتے تھے۔ اگر یسوعؑ نے آمدہ ایام میں ہیکل کی تباہی کے متعلق کچھ کہا بھی تھا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ اسے خدا تباہ کرے گا یا اپنے  کارندوں کے ذریعے اسے تباہ کروائے گا۔ خود یسوعؑ، ان کے شاگرد، ان کے سامعین، سردار کاہن حتی کہ پیلاطوس گورنر نے بھی یہ خیال نہیں کیا تھا کہ یسوعؑ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہیکل کی دیواریں گرا دیں گے۔

یسوع ؑ کی طرف سے ہیکل میں گھس کر صرافوں کی میزیں الٹنا اور کبوتر فروشوں کو نکال باہر کرنے کا عمل منطقی لحاظ سے  بھی کسی طرح درست نہ تھا۔ اگر لوگ قربانی کرنے کےلیے کبوتر ہیکل کے احاطے سے نہ خریدتے تو پھر وہ قربانی کے لئے کبوتر کہاں سے حاصل کرتے؟  اگر وہ ان کبوتروں کو اپنے گھروں سے اٹھا کر لاتے تو پہنچتے پہنچتے وہ  داغ دار ہو سکتے تھے۔  یہی معاملہ صرافوں کا تھا جو  دور دراز سے آئے زائرین  کو ہیکل کا نذرانہ ادا کرنے کےلئے حکومت وقت کی طرف سے رائج  سکے فراہم کرتے جو ہر قسم کے کھوٹ اور ملاوٹ سے پاک ہوتے تھے۔ اگر یسوعؑ ہیکل کے احاطے کو ان لوگوں سے پاک کردیتے تو پھر ان کے پاس زائرین کو قربانی اور خالص سکے فراہم کرنے کا کو ن سا متبادل نظام موجود تھا؟ اس سوال کا جواب متاخر  مسیحی علم الکلام اور بالخصوص مکاشفہ کی کتاب سے ملتا ہے۔

یسوعؑ کے خیال میں یہی تھا کہ عنقریب یہ ہیکل تباہ ہو گا اور دوسرا بنے گا جس کا معمار خود خدا ہو گا اور بنی اسرائیل کے تمام قبیلے دوبارہ وہاں جمع ہوں گے۔ یہ جدید ہیکل ہر لحاظ سے مکمل ہوگا اور مکاشفہ کی کتاب کے مطابق جب  نیا یروشلم  آسمان سے نیچے آئے گا تو  اس میں ہیکل نہیں ہو گا۔ اس کی توضیح مکاشفہ کی کتاب میں کچھ اس طرح ملتی ہے "میں نے اس میں کوئی مقدس نہیں دیکھا اس لئے کہ خداوند خدا قادر مطلق اور برہ اس کا مقدس ہیں"(مکاشفہ۲۱ :۲۲) مکاشفہ کی کتاب جب لکھی گئی اس وقت تک مسیحی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ہیکل کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور آمدہ مثالی دنیا میں جانوروں کی قربانی کی کوئی ضرورت نہیں  کیونکہ حقیقی برہ (یسوع) قربان ہو چکا ہے۔ اس مقام پر یسوعؑ  کی تعلیم اور مکاشفہ کی کتاب میں تفاوت پیدا ہو جاتا ہے۔ اپنی منادی کے دنوں میں یسوعؑ ہیکل جاتے، محصول دیتے اور عیدیں مناتے رہے بل کہ  اپنے متبعین کو بھی ہیکل جانے کی ترغیب دیتے رہے   چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ صعود ِآسمانی کے بعد بھی شاگرد باقاعدگی سے ہیکل جاتے تھے حتی کہ مقدس پولس کو بھی اس لئے گرفتار کیا گیا کہ وہ بت پرستوں کو ہیکل میں لے گئے تھے[30]جو یہودیوں کی نظر میں ناقابل معافی جرم تھا۔اس کے برعکس    پہلی صدی کے آخر اور دوسری صدی کے شروع میں لکھی جانے والی مکاشفہ کی کتاب ہیکل کی موجودگی کی اہمیت کی سرے سے ہی منکر ہے جو مسیحی ایمان میں تبدیل اور ارتقا کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یسوعؑ کے حین حیات اور مابعد ان کے پیروکاروں کےہیکل کے متعلق  افکار و نظریات کیا تھے اور محض رفع الی السما ء کے ستر سال بعد  ان میں کس قدر تغیر واقع ہو گیا۔

 



[1]  (مرقس۱۱: ۹)

[2] (متی۲۱ :۹، لوقا۱۹ :۳۸)

[3] (مرقس۱۱:۱۵ -۱۹)

[4] Geza Vermes, The Real Jesus: Then and Now, p 25–26.

[5] (یسعیاہ۲۰ :۳)

[6] (یرمیاہ۱۹ :۱ -۱۳)

[7] (یرمیاہ باب۲۷-۲۸)

[8] (حزقیل۴ :۵، ۱۲ -۱ -۶، ۲۴ :۱۵ -۲۴)

[9] (زکریاہ۹ :۹)

[10] (یوحنا۱۲ :۱۹)

[11] (مرقس۱۵ :۱۳)

[12] (متی۲۷ :۲۵)

[13] (مرقس۱۱ :۱۵)

[14] (مرقس۱۱: ۱۷)

[15] (یسعیاہ۵۶ :۷)

[16] (یرمیاہ۷ :۱۱)

[17] (مرقس۱۴ :۵۸، متی۲۶ :۶۱)

[18] (مرقس۱۵ :۲۹)

[19] (اعمال۶ :۱۴)

[20] (متی۱۷ :۲۴-۲۷)

[21] (مرقس۱۳)

[22] (لوقا۲۱ :۲۰)

[23] (مرقس۱۳ :۱ -۲)

[24] (متی۲۴ :۱)

[25] (لوقا۲۱ : ۵ -۶)

[26] E. P. Sanders, Judaism. Practice and Belief. 63 BCE–66 CE, p 58.

[27] (مرقس۱۴ :۵۷-۵۹)

[28] (مرقس۱۵ :۲۹، متی۲۷ :۴۰)

[29] (متی۲۳ :۲۱)

[30]  (اعمال۲۱ :۲۶ -۲۸)

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 24 اپریل، 2021

اناجیل اور قانون طہارت

 

اناجیل اور قانونِ طہارت

تحریر : عبداللہ غازیؔ

اسلام کی طرح یہودیت میں  بھی ظاہری و باطنی طہارت پر خاصہ زور دیا گیا ہے جس کا اندازہ تورات میں مندرج پاکی ناپاکی کے احکامات ِ شرعیہ سے کیا جا سکتا ہے۔ تورات کے مطابق کوئی شخص مختلف وجوہات کی وجہ سے شرعی طور پر ناپاک سمجھا جاتا تھا اور اسی ناپاکی کے سبب سے وہ یہودیت کے مذہبی مرکز ہیکل و عبادت خانے  میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔  یہ ناپاکی کسی متوفی شخص کے گھر جانے کے علاوہ لاش کو چھونے، تلوار کے مقتول، انسانی ہڈی یا قبر کو چھونے سے بھی لاحق ہو جاتی تھی اور سات دن تک  ایک مخصوص شرعی عمل طہارت سے گزر کر اس ناپاکی سے خلاصی حاصل ہو پاتی تھی۔[1]

          یہ قوانین طہارت خاصے سخت تھے اور ان گنت لوگ تھے جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس ناپاکی کی لپیٹ میں آجاتے تھے مثلااگر کسی گھر میں کوئی شخص فوت ہو تاتو  عام طور پر کسی متوفی شخص کی تجہیز و تکفین اور عیادت کے موقع پر گھر والوں، قریبی احباب اور رشتہ داروں کے علاوہ بعض اجنبی لوگ بھی شامل ہوجاتے تھے اور اس شرکت کے  سبب سے حکم شرعیہ کے باعث وہ  نجس متصور کیے جاتے۔ تورات کے مطابق اس ناپاکی سے خلاصی و طہور حاصل کرنے کےلیے کاہن جلی ہوئی خطا کی قربانی کی راکھ کو کسی برتن میں ڈال کر وہ پانی ناپاک شخص پر بہایا کرتے تھے۔ پانی چھڑکنے کا یہ عمل تیسرے دن اور ساتویں دن ہوتا حتی کہ آخر میں وہ اپنے کپڑے دھوکر اور غسل کر کے پوری طرح پاک ہو جاتا۔[2]اس عمل طہارت کی تکمیل کے بغیر انسان ہنوز  ناپاک ہی رہتا  اور جب تک وہ حصول طہارت کے اس مرحلے کو سرانجام نہ دے لیتا اسے شریعت کی رو سے ناپاک ہی سمجھا جاتا تھا۔ ابتدائی صدی عیسوی کے یہودی مؤرخ جوزیفس کے مطابق اسی قانون طہارت کی وجہ سے فصح و بےخمیری روٹی کی عید منانے والے زائرین ۸ نیسان کو ہی یروشلم پہنچنا شروع ہوجاتے تھے تاکہ کاہنوں سے خود پر پانی ڈلوا کر طہارت حاصل کریں۔[3]ناپاکی کے اس دورانیہ میں یہ لوگ ہیکل کے قریب رہ کر خود کو فصح کے لیے روحانی طور پر تیار کرتےتھے حتی کہ فصح کا دن آجاتا اور چودہ نیسان کو دوسرا پہر ختم ہونے کے بعد لوگ فصح کے برے ذبح کرنا شروع کر دیتے۔

جیسا کہ اوپر گزر چکا کہ کسی لاش کو چھو لینے کے سبب سے بھی انسان ناپاک ہو جاتا تھا لہذا یہودی خاص خیال کرتے تھے کہ  لاش کو چھونے سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے۔ اس حکم شرعی کے باوجود ہم اناجیل میں یسوعؑ مسیح کو مردوں کو چھوتا دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں انجیل لوقا میں دو واقعات مندرج ہیں۔

"جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مردہ کو باہر لئے جاتے تھے۔۔۔۔۔پھر اس نے پاس آکر جنازہ کو چھوا اور اٹھانے والے کھڑے ہو گئے"[4]

"عبادت خانے کے سردار کے ہاں سے کسی نے آ کر کہا کہ تیری بیٹی مر گئی۔۔۔۔۔سب اس کے لئے رو پیٹ رہے تھے مگر اس (یسوعؑ) نے کہا کہ ماتم نہ کرو وہ مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔۔۔۔مگراس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور پکار کر کہا اے لڑکی اٹھ! اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اٹھی۔"[5]

          ان دونوں مواقع پر یسوعؑ مسیح مردوں کو ہاتھ لگاتے نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی صاحب شرع یہودی یہاں یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ اگر واقعی یسوعؑ نے ان مردوں کو چھو ا تھا تو پھر لازما انہیں گنتی کی کتاب میں مرقوم شرعی عمل تطہیر سے گزرنا تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ  چھوٹے سے چھوٹے حکم کو پورا کرنے کو خدا کی بادشاہت میں سب سے بڑا کہنے والے اور خود کو تکمیل شریعت قرار دینے والے یسوعؑ اور ان کے پیروکار کسی ایسے عمل پر کاربند نظر نہیں آتے۔ انجیل نویس ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کرتے کہ ان مردوں کو چھو کر بحکم خداوندی حیات بخشنے والے یسوعؑ نے شریعت کی کتاب میں موجود حکم خداوند ی کو پورا کیا ہو۔

ایسا ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یسوعؑ کو اس  قانون کا کوئی علم نہ تھا۔ اپنے وقت کے یہودی علماء کو مبہوت و مسکوت کرنے والے یسوعؑ ایسے تمام احکامات شرعیہ سے نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ  نہایت محتاط ہو کر ان پر کاربند بھی تھے۔ ان کی  یہ کمال احتیاط لعزر کو جِلا بخشتے وقت نظر آتی ہے جب وہ لعزر کی قبر  پر کھڑے ہو کر اسے چھونے کے بجائے دور سے ہی پکارتے ہیں کہ اے لعزر نکل آ اور وہ مردہ لعزر ہاتھ پاؤں بندھی ہوئی حالت میں باہر نکل آتا ہے۔[6]  یقینا انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ مردے کو چھو لینے کی صورت میں انہیں سات دن تک عمل طہارت سے گزرنا پڑے گا اسی لئے انہوں نے لعزر کو چھونےکے بجائے دور سے ہی حکم دیا۔یسوعؑ مسیح کی طرف سے طہارت کی یہ احتیاط لعزر کو بحکم خداوندی حیات بخشنے کے علاوہ ایک اور موقع پر بھی نظر آتی ہے جب یسوعؑ سفر کے دوران سامریہ سے گزرتے ہیں تو کچھ کوڑھی ان کی طرف آتے ہیں مگر یسوعؑ ان کو قریب آنے اور خود کو ہاتھ لگانےیا ان کو ہاتھ لگانے سے قبل دور سے ہی شفا بخش دیتے ہیں[7]  کیونکہ  احبا ر کی کتاب کے مطابق کوڑھی کو چھو لینے والا شخص بھی ناپاک ہو جاتا تھا۔[8] اسی لئے یسوعؑ نے ان کو اپنے قریب آنے ہی نہیں دیا وگرنہ انہیں سات دن کے عمل تطہیر سے گزرنا پڑتا۔ ایسا نہیں ہے کہ یسوعؑ کی ذات ان قوانین شرعیہ سے مبرا و ماوراء تھی  ۔ وہ کمال احتیاط کے ساتھ ان تمام احکامات پر نہ صرف عمل پیرا تھے بلکہ اپنے متبعین کو  بھی اس کی تلقین کرتے تھے ۔ اس کی مثال ہمیں اس واقعے میں نظر آتی ہے جہاں یسوعؑ ایک کوڑھی کو شفاء بخشتے اور اسے کاہن کو دکھا کر عمل تطہیر سے گزرنے کا حکم دیتے ہیں۔

"اس نے اسے تاکید کی کہ کسی سے نہ کہنا بلکہ جا کر اپنے تئیں کاہن کو دکھا اور جیسا موسیٰ نے مقرر کیا ہے اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت نذر گزران تاکہ ان کے لیے گواہی ہو۔"[9]

          اس سے واضح ہوتا ہے کہ یسوعؑ پوری طرح ان قوانین شرعیہ پر عمل پیرا تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اناجیل میں وہ فریسیوں پر  تنقید کرتے ہوئے انہیں کہتے ہیں کہ وہ لوگوں پر ایسا بوجھ لادتے ہیں جس کااٹھانا بہت مشکل ہو مگر خود کے لئے انگلی ہلانا بھی پسند نہیں کرتے۔[10] پس بھلا کیسے ممکن ہے کہ یسوعؑ دوسروں کو وہ کا م کرنے کا حکم دیں جس پر وہ خود عمل نہ کرتے ہوں۔

          اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوقا میں مندرج مردہ زندہ کرنے کے دونوں واقعات اسطورہ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں جنہیں  یسوعؑ کی الوہیت کو تقویت بخشنے کےلیے شرعی احکام سے ناواقف انجیل نویسوں نے یسوعؑ سے منسوب کر دیا۔ ایسے واقعات کی افسانویت دیگر انجیلی وقائع نگاری سے بھی خوب واضح ہوجاتی ہے جہاں انجیل نویس اس قانون طہارت سے قطعا ناواقف نظر آتے ہیں۔

          جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ عید فصح کے موقع پر یہودی زائرین اس بات کا خصوصی التزام کرتے تھے کہ  کسی قسم کی ناپاکی کی صورت میں ایک ہفتہ قبل ہی یروشلم پہنچ جائیں تاکہ خود کو عمل تطہیر سے گزار کر عید فصح منانے کی تیاری کر سکیں۔ اناجیل کے مطابق یسوعؑ بھی اپنے آخری زمینی ایام میں  عید فصح سے چند روز قبل اپنے شاگردوں کی معیت میں شہر میں داخل ہوئے تھے۔ دخول یروشلم کے   چند روز بعد ہی مبینہ طور پر واقعہ تصلیب پیش آیا اور اناجیل کے متعلق یسوعؑ نے  صلیب پر جان دے دی۔اس موقع پر دو راست باز یہودیوں  یوسف ارمتیائی  اور نیکدویمس نے یسوعؑ کی لاش کو صلیب سے اتارا اور تجہیز و تکفین کے انتظامات مکمل کیے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فصح کے موقع پر طہارت کے بارے میں کمال احتیاط  برتنے والے یہودیوں نے یسوعؑ کی لاش کو چھو کر خود کو ناپاک کیوں کیا؟ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ ان کی یہ ناپاکی سات دن پر محیط ہوگی اور فصح کے اگلے روز سے ہی بےخمیری روٹی کی عید شروع ہوجانی تھی جس کا دورانیہ بھی سات دنوں پر مشتمل تھا۔ یسوعؑ کی تکفین میں شرکت کا مطلب خداوند کی ان دونوں مقدس عیدوں میں شرکت سے محرومی تھا جو یروشلم میں موجود کسی راسخ العقیدہ اور راست باز یہودی کے لیے سوہان ِ روح سے کم نہ تھا کہ وہ مقدس شہر میں ہونے کے باوجود ان عیدوں میں شرکت سے محروم رہ جائے۔

          اسی طرح مبینہ قیامت ِ مسیح کا واقعہ بھی قبرستان میں پیش آیا جہاں یسوعؑ قبروں کے درمیان سے باہر نکلے۔ وہ قبرستان یوسف امتیائی کا آبائی قبرستان تھا جہاں مبینہ طور پر یسوعؑ کی تدفین عمل میں لائی گئی لہذا یقیناً وہاں سے نکلتے ہوئے یسوعؑ نے کسی قبر یا مردے کو چھوا ہو گا مگر جی اٹھنے کے بعد انجیل نویس انہیں کسی عمل تطہیر سے نہیں گزارتا۔

          اس دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر یہودی انجیل نویس اس قانون طہارت سے یکسر ناواقف تھے تبھی انہوں نے یسوعؑ کی سوانح مرتب کرتے ہوئے اس شرعی و فقہی پہلو پر دھیان نہیں دیا۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یسوعؑ اس قانون سے پوری طرح واقف تھے تبھی وہ لعزر کو چھونے سے مجتنب رہے۔ یاد رہے کہ  یہ حکم طہارت کوئی معمولی حکم نہ تھا بل کہ اس متعلق سخت خدائی حکم موجود تھا کہ جو شخص ناپاک ہونے کے باوجود اس عمل طہارت کو پورا نہ کرے تو اسے کاٹ دیا جائے۔[11]

          اس سے عیاں ہوتا ہے کہ کس طرح انجیل نویسوں نے یسوعؑ کو الہ ثابت کرنے کےلئے مختلف واقعات تراشے اور انہیں یسوعؑ کی طرف منسوب کر دیاحال آں کہ یسوعؑ کا ان واقعات سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ یقیناً یسوعؑ نے مردے زندہ کئے مگر ان مردوں کو حیات بخشنے میں ان کی بشری قوت سے زیادہ خدائی مشیت کارفرما تھی جس کا اظہار لعزر کو زندہ کرتے وقت خود ان کے الفاظ سے ہوتا ہے  "اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تو نے میری سن لی اور مجھے تو معلوم  تھا کہ تو ہمیشہ میری سنتا ہے مگر ان لوگوں کے سبب جو آس پاس کھڑے ہیں میں نے یہ کہا تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے۔"[12] یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ عالم مسیحیت کے مطابق یسوعؑ خود خدا ہیں تو اس موقع پر کون سا خدا یسوعؑ کی سن رہا تھا اور کس خدا نے یسوعؑ کو بھیجا تھا؟ ایسے متعدد سوالات یہاں پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ فی الوقت موضوع بحث نہیں۔

         

 



[1] (گنتی۱۹ :۱۶-۱۶)

[2](گنتی۱۹ :۱۷-۱۹)

[3] Flavius Josephus, Jewish War, 75AD, 6.290.

[4] لوقا۷ :۱۱ -۱۴

[5] (لوقا۸ :۴۹ -۵۴)

[6] (یوحنا۱۱ :۴۰ -۴۴)

[7]  (لوقا۱۷ :۱۱ -۱۹)

[8] (احبار باب۱۳)

[9] (لوقا۵ :۱۴)

[10] (لوقا۱۱ :۴۶)

[11] (گنتی۱۹ :۲۰)

[12] (یوحنا۱۱ :۴۲)


مکمل تحریر >>