Pages

Most Popular

منگل، 30 جون، 2020

قاتلین انبیاء: قوم یہود


قاتلین ِ انبیاء کرام:قوم یہود
تحقیق و تحریر:عبداللہ غازیؔ

قرآن کریم اور بائبل مقدس دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یہودی اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کے نبیوں کا ناحق قتل کرتے رہے ہیں۔ ان معصوم مقدسین کے قتل کی وجہ سے ہی ان پر متعدد بار اللہ کا عذاب  مختلف اقوام کی پےدرپے غلامی ،قتل و غارت کی صورت میں نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعدد بار توبہ کے مواقع ملنےکے باوجود انہوں نے توبہ نہیں کی بالآخر بلسانِ یسوعؑ ان سے خدا کی بادشاہت ہمیشہ کےلیے لے لی گئی اور قرآن مجید کے مطابق یہ لوگ عنداللہ مغضوب ٹھہرے۔ یہودیوں کی یہ روش بابل کی اسیری میں جانے اور وہاں سے واپس آنےکے باوجود تبدیل نہ ہوئی حتی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی  بھی کوشش کی مگر اس بار اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام تدبیروں کو ناکام کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام  کوآسمان پر اٹھا لیا۔
تورات میں "انبیاء کرام علیہم السلام کو بےگناہ قتل کرنے کا ذکر سب سے پہلے سلاطین /ملوک کی کتاب میں ملتا ہے جہاں اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی بیوی ایزبل نبیوں کی ایک بڑی تعداد کو شہید کرواتی ہے۔ ایزبل بعل دیوتا کی پجارن تھی اور اسرائیل کے بادشاہ اخی اب سے شادی کرنے کے بعد اس نے بادشاہ پر بہت زور دیا کہ وہ اسرائیل میں بعل پرستی کی اجازت دے۔[1] ایزبل کی بت پرستانہ طبیعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نام(ایز-بعل) کا مطلب بھی "بعل کہاں ہے"تھا۔[2]بائبل میں اس قتل عا م کے متعلق کچھ اس طرح مذکور ہے۔
"جب ایزبل نے خداوند کے نبیوں کو قتل کیا تو عبدیاہ نے سو نبیوں کو لے کر پچاس پچاس کر کے ان کو ایک غار میں چھپا دیا۔"[3]
"جب ایزبل نے خداوند کے نبیوں کو قتل کیا تو میں نے خداوند کے نبیوں میں سے سو آدمیوں۔۔الخ"[4]
          اُس وقت حضرت عبدیاہؑ (عبداللہ)نے سو نبیوں کو اپنے ساتھ لیا اور خاموشی سے انہیں ایک غار میں چھپا دیا ۔وہ انہیں کھانا پہنچاتے رہے تاکہ یہ مقدسین شاہ اسرائیل اور اس کی بیوی کے شر سے بچ کر سکون سے رہ سکیں۔ ان انبیاء کرامؑ کے نام تو ہمیں نہیں معلوم لیکن بائبل مقدس کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مقدسین کی جماعت یہودی معاشرے کا حصہ تھے اورباقاعدہ بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اس کی تصریح سلاطین کی کتاب سے ہوتی ہے جہاں ایک گم نام نبی کی اہلیہ حضرت الیشعؑ کے پاس فریاد لے کر آتی ہیں۔ [5]یہ لوگ  بعل کی پوجا کرنے والےبنی اسرائیل کے  گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنی ہرممکن کوشش کررہے تھے۔
ایزبل نے صرف نبیوں کی بڑی تعداد کو قتل کرنے  پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اُس نے حضرت الیاس علیہ السلام(ایلیاہ) کو بھی جان سے مارنے کی دھمکی دی[6]اور اس کے داماد  یہورام[7] نے حضرت الیاسؑ کے شاگرد حضرت الیشعؑ کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے ڈرانے کی کوشش کی لیکن ان دونوں میں سے کوئی دھمکی کارگر ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ اس پر عمل کرسکے۔ چنانچہ بعل دیوتا اور اس کے پجاریوں کی حمایت کرنے اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو ستانے اور قتل کرنے کے جرم میں اللہ تعالیٰ نے ایزبل کو یہ سزا سنائی کہ یزرعیل کی فصیل کے نزدیک کتے ایزبل کو کھائیں گے۔[8]اس سارے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایزبل نےباقاعدہ پورے یہودی معاشرے کے خلاف اقدام اٹھایا تھا جہاں نبیوں کی بڑی تعداد آباد تھی اور یہ تمام لوگ بنی اسرائیل کی اصلاح کی کوششوں میں سرگرداں تھے۔
ٹھیک اسی وقت، یہوداہ کی علیحدہ سلطنت میں یہودیہ کے بادشاہ یوآس[9] نے حضرت زکریاہؑ بن یہویدع کو قتل کرنے کا حکم دیا کیونکہ انہوں نے بادشاہ کے بت پرستی کرنے پر اس کے خلاف آواز بلند کی تھی۔چنانچہ بادشاہ کے ہم نواؤں نے انہیں 'ہیکل' کے  اندر  پتھر مار مار کر شہید کردیا اور خداوند کے گھر کی حرمت کا خیال بھی نہیں رکھا ۔
"اور وہ یسیرتوں اور بتوں کی پرستش کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خداوند نے نبیوں کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کو اس کی طرف پھیر لائیں اور وہ ان کو الزام دیتے رہے پر انہوں نے کان نہ لگایا۔ تب خداکی روح یہویدع کاہن کے بیٹے زکریاہ پر نازل ہوئی سو وہ لوگوں سے بلند جگہ پر کھڑا ہو کر کہنے لگا!خداوند یوں فرماتا ہے کہ تم کیوں خداوند کے حکموں سے باہر جاتے ہو کہ یوں خوش حال نہیں رہ سکتے؟چونکہ تم نے خداوند کو چھوڑ دیا ہے اس نے بھی تم کو چھوڑ دیا ہے۔تب انہوں نے اس کے خلاف سازش کی اور بادشاہ کے حکم سے خداوند کے گھر کے صحن میں اسے سنگسار کر دیا۔"[10]
یہوداہ کا بادشاہ یوآس شروع میں راست باز تھا مگر بعد میں اس پر شیطان غالب آگیا اور اس نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں نبی کو شہید کروا دیا۔ انہی زکریاہؑ کے قتل کا ذکر متی کی انجیل میں یسوعؑ مسیح نے بھی کیا ہے کہ یہودی ہابیل سے لےکر زکریاہؑ تک کے خون کے ذمہ دار ہیں۔[11] حشمونی بادشاہوں (جوکہ یہوداہ کے بادشاہوں کی اولاد نہیں تھے) نےحضرت زکریاہؑ کی یاد میں یروشلم سے باہر وادیِ قدرون میں ایک بہت بڑا یادگاری مقبرہ تعمیر کروایا۔[12]
بابل کی جلاوطنی میں جانے اور  یہوداہ کی سلطنت ختم ہونے سے قبل یہوداہ کے بادشاہ یہویاقیم نے حضرت اوریاؑبن سمعیاہ کو صرف اس وجہ سے قتل کردیا کہ انہوں نے یہویاقیم کی سلطنت کےزوال اور عنقریب ختم ہونے کی پیش گوئی کی تھی چنانچہ یہویاقیم نے اوریاہؑ نبی کو خود اپنی تلوار سے قتل کیا اور ان کی لاش کی بےحرمتی بھی کی۔یہ سارا واقعہ یرمیاہ کی کتاب میں کچھ اس طرح مذکور ہے۔
 پھر ایک اور شخص نے خداوند کے نام سے نبوت کی یعنی اُوریاہؔ بن سمعیاہؔ نے جو قریتؔ یعر یم کا تھا۔اُس نے اِس شہر اور ملک کے خلاف یرمیاہؔ کی سب باتوں کے مطابق نبوت کی اور جب یہوؔ یقیم بادشاہ اور اُس کے سب جنگی مردوں اور اُمرا نے اُس کی باتیں سُنیں تو بادشاہ نے اُسے قتل کرنا چاہا لیکن اُوریاہؔ یہ سُن کر ڈرا اور مصرؔ کو بھاگ گیا اور یہوؔ یقیم بادشاہ نے چند آدمیوں یعنی اِلناؔ تن بن عکبُوؔ ر اور اس کے ساتھ کچھ اور آدمیوں کومصرؔ میں بھیجا اور وہ اُور یاہؔ کو مصرؔ سے نکال لائے اور اُسے یہوؔ یاقیم بادشاہ کے پاس پہنچا یا اور اُس نے اُ س کو تلوار سے قتل کیا اور اُس کی لاش کو عوام کے قبرستان میں پھینکوا دیا۔[13]
          بعد میں صدقیاہ بادشاہ کے دور میں اُس کے درباری امرا نے بادشاہ کو مشورہ   دیا کہ وہ یرمیاہؑ نبی کو قتل کروا دے کیونکہ یہ لوگوں کا خیرخواہ نہیں ہے لیکن بادشاہ ان کی باتوں میں نہیں آیا اور اس نے یرمیاہؑ نبی کا دفاع کیا ۔صدقیاہ بادشاہ نہایت کمزور حکمران تھا جسے کٹھ پتلی حکمران کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔اس کے امراء جانتے تھے کہ وہ اس قابل نہیں کہ انہیں روک سکے چنانچہ ان شریروں نے یرمیاہؑ نبی کے خلاف خود کاروائی کی اور انہیں  پکڑ کر ایک قید خانے کے صحن میں بنے حوض کے اندر ڈال دیا۔ وہ موسم چونکہ بارشوں کا نہ تھا لہذا حوض صرف کیچڑ سے بھرا ہوا تھا چنانچہ انہوں نے یرمیاہؑ کو کیچڑ میں دھنسا دیا۔[14]
ایک مدت بعد جب بنی اسرائیل بابل کی جلاوطنی سے واپس آئے تو حضرت زکریاہؑ کی سرعام شہادت اور ایزبل کے ہاتھوں ہونے والے انبیاء کرام علیہم السلام کے وحشیانہ قتل عام کو اسرائیل کے گمراہ بادشاہوں اور ان کے مشیروں کا جرم قرار دے دیا گیا جنہوں نے اسرائیل کو گمراہ کیا تھا اور ان واقعات کو بنی اسرائیل کے اسیری میں جانے کا سبب قرار دیا۔[15]
حضرت الیاس علیہ السلام(ایلیاہ نبی) نے ایزبل اور اخی اب کے افعال کو صراحتاً پوری قوم اسرائیل کا فعل قرار دیا تھا کیونکہ کسی بھی اسرائیلی نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ جیسا کہ کتاب مقدس میں مرقوم ہے۔
"خداوند کا کلام اس پر نازل ہوا کہ اے ایلیاہ! تو یہاں کیا کرتا ہے؟ اس نے کہا خداوند لشکروں کے خدا کے لیے مجھے بڑی غیرت آئی کیونکہ بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں۔"[16]
عہدنامہ جدید میں یسوعؑ مسیح یروشلم کے ارباب اقتدار اور خدا کے رسولوں کے مابین سخت تناؤ کو بیان کرتے ہیں۔
ے یروشلِیم! اَے یروشلِیم! تُو جونبیوں کو قتل کرتی اور جو تیرے پاس بھیجے گئے اُن کو سنگسار کرتی ہے۔کتنی بار میں نے چاہا کہ جِس طرح مُرغی اپنے بچّوں کو پروں تَلے جمع کر لیتی ہے اُسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لُوں مگر تُم نے نہ چاہا۔"[17]
عہدنامہ جدید حضرت زکریاہؑ کی شہادت اور حشمونیوں کے بنائے گئے یادگاری مقبرے کا بھی ذکر کرتا ہے جسے بعد میں ہیرودیوں نے تعمیر کروایا۔ عہدنامہ جدید اسرائیل کے تمام گمراہ بادشاہوں کو اُس ملامت میں شامل کرتا ہے جو یسوع یہودیوں پر کرتے ہیں کہ وہ نبیوں کی قبریں بناتے اور مقبرے آراستہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانے میں ہوتے تو نبیوں کے خون میں شریک نہیں ہوتے۔ اس طرح سے وہ خود ہی اپنی بابت گواہی دیتے ہیں کہ وہ نبیوں کے قاتلوں کی اولادیں ہیں تو پھر تم بھلا کیسے جہنم کی سزا سے بچو گے؟ تمہارے پاس نبی اور دانا آتے ہیں مگر تم ان کو قتل کرتے ہو اور عبادت خانوں میں انہیں کوڑے مارتے ہو۔[18]
قدیم مسیحی روایات کے مطابق یحییٰ علیہ السلام کے والد حضرت زکریاہؑ کو اُس وقت شہید کیا گیا جب ہیرودیس کے حکم پر معصوم بچوں کا قتل عام جاری تھا۔ حضرت زکریاہؑ نے اپنے بیٹے کو چھپا دیا تھا اور یہودیوں کے استفسار کرنے پر بھی انہیں جگہ کا نہیں بتایا تو انہیں شہید کردیا گیا۔[19] تاہم اس بارے میں کوئی تاریخی ثبوت دستیاب نہیں کہ ہیرودیس نے چھوٹے بچوں کے قتل عام کا کوئی حکم جاری کیا ہوا البتہ ایسے بہت سے افراد کا ذکر ملتا ہے جن کے قتل کے اس نے حکم نامے جاری کیے حتی کہ اپنے بیٹوں کو بھی اس نے قتل کروا دیا تھا۔ عہدنامہ جدید کے مطابق پیلاطوس گورنر نے یسوع کو صرف کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا اور اپنے ہاتھ دھوتے ہوئے ان کے خون سے خود کو بری الذمہ قرار دیا جس پر ہجوم نے چلا کر کہا کہ اس کا خون ہم پر اور ہماری اولادوں کی گردن پر۔[20] اس مقام پر فریسی سرے سے ہی غائب تھے لیکن صدوقیوں کے سردار کاہن، بزرگ یہودیوں کا ہجوم اس موقع پر بنی اسرائیل کی من حیث القوم نمائندگی ظاہر کررہا تھا کہ وہ یسوعؑ کے خون کا الزام اپنے اوپر لینے کے لیے بھی تیار تھے۔ صدوقی اس معاملے میں اتنے متشدد تھے کہ انہوں نے اناجیل کے مطابق یسوع کو مبینہ طور پر سزا دلوانا چاہی مگر یسوع کے بعد انہوں نے یسوع کے بھائی مقدس یعقوب کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلو ک نہیں کیا بلکہ ان کو ہیکل کی چھت سے گرا کر مار ڈالا۔[21]اناجیل اربعہ کے علاوہ مقدس پولس نے بھی اپنے خط میں لکھا ہے کہ یہودی انبیاء کرام کو قتل کرنے میں ماہر تھے۔ [22]
عہدنامہ جدیدکے معروف نبی جناب یوحنااصطباغی(حضرت یحیٰی علیہ السلام) کو بھی شہید کیا گیا تھا تاہم انجیل نویسوں نے  دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے اس معاملے کو ادومی النسل رومی حکمرانوں کی طرف موڑ دیا ہے۔  انجیل کے مطابق ہیرودیس اینٹی پاس نے حضرت یوحنا اصطباغیؑ کا سرقلم کروا دیا تھا کیونکہ اُس نے اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کرلی تھی جس پر یوحنا اصطباغیؑ نے اُسے اِس بات پر ملامت کی اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
"ہیرودیس نے اپنے بھائی فلپس کی بیوی ہیرودیاس کے سبب سے یوحنا کو پکڑ کر باندھا اور قید خانہ میں ڈال دیا تھا کیونکہ یوحنا نے اس سے کہا تھا کہ اِس کا رکھنا تجھے روا نہیں۔[23]"
          ہیرودیاس ہیرودیس اعظم کی پوتی اور اُس کے بیٹے ارسطوبولس چہارم کی بیٹی تھی۔ ہیرودیاس نے اپنے چچا فلپس سے شادی کر لی تھی۔ ایک دفعہ فلپس کا بھائی اور ہیرودیس اعظم کا بیٹا اینٹی پاس اس سے ملنے گیا تو ہیرودیاس پر فریفتہ ہوگیا۔ اُس نے ہیرودیاس کو راضی کیا کہ وہ ہیرودیس فلپس کو چھوڑ کر مجھ سے شادی کرلے چنانچہ ہیرودیاس نے اپنے دوسرے چچا اینٹی پاس سے شادی کرلی۔ شریعت موسوی کے مطابق کوئی بھی مرد اپنے بھائی کے جیتے جی اُس کی بیوہ سے شادی نہیں کر سکتا تھا جو ایسا کرتا تو اسے مثلِ زنا سمجھا جاتا تھا۔[24]اِس بات پر یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اینٹی پاس کی مذمت کی تو اینٹی پاس نے انہیں قید خانے میں ڈال دیا۔[25]
          ہیرودیس اعظم کی تیسری بیوی مریم دوم سے پیدا ہونے والی بیٹی سلومی سوم کے شوہر کا نام فلپس تھا۔ مگر انجیل نویس اِس فلپ کو ہیرودیاس کا شوہر بتاتا ہے جو تاریخی حقیقت کے خلاف ہے۔عہدنامہ جدید کے کچھ مفسرین نے یہاں یہ توجیح نکالنے کی کوشش کی ہے کہ  ہیرودیاس کے شوہر ہیرودیس کا خاندانی نام فلپس تھا [26]تاہم اس بات کا ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی صورت میں اِس تاویل پر یقین کرنا خود کو دھوکہ دینےکے ماسوا کچھ نہیں۔
          اس سارے معاملے میں سب سے اہم بات اینٹی پاس کا اپنی سگی بھتیجی سے شادی کرنا ہے جو  اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے نہایت گری ہوئی حرکت تھی مگر حیرت انگیز طور  پر انجیل  میں حضرت یوحنااصطباغی کا ایسا کوئی بیان نہیں ملتا جس میں انہوں نے اِس فعل قبیح پر ہیرودیس اینٹی پاس کو ملامت کا نشانہ بنایا ہو۔ اس کے برعکس وہ اینٹی پاس  کے اس فعل پرتنقید کرتے ہیں کہ اُس نے اپنے بھائی کے جیتے جی  اُس کی بیوی کو اپنے پاس رکھ لیا حالانکہ اینٹی پاس تو بت پرست تھا جسے شریعت موسوی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ حضرت یوحنااصطباغی کسی ایسے شخص پر خلاف شریعت فعل کا الزام لگائیں جو شریعت کو قبول ہی نہیں کرتا۔ عین ممکن ہے کہ حضرت یوحنا اصطباغیؑ نے اُسے بھتیجی سے شادی کرنے پر ملامت کی ہو جسے انجیل نویسوں نے بھائی کی بیوی سے شادی پر تنقید بنا کر پیش کر دیا ۔ اس ساری تاریخی حقیقت کو سامنےرکھتے ہوئے دیکھا جائے تو اینٹی پاس کے پاس حضرت یوحنا اصطباغی کو گرفتار کرنے اور ناحق قتل کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا چنانچہ اس صورت حال  میں اِس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت یوحنا اصطباغی کا خونِ ناحق بھی یہودیوں نے ہی کیا ہو مگر انجیل نویسوں نے اسے کچھ اور رنگ دے کر پیش کر دیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کے متعلق دیگر تاریخی ماخذات خاموش ہیں ۔ صرف عہدنامہ جدید ہی ہے جو ان کی مظلومانہ شہادت کو ایک افسانوی رنگ دے کر پیش کرتا ہے تاہم اِس پورے افسانے کی تاریخی حیثیت نہایت مشکوک اور اختراعی ہے جس وجہ سے انجیلی بیانیہ ناقابل قبول بن جاتا ہے۔
بائبلی اور رِبائی روایات کے مطابق حضرت زکریاہؑ کو یوآس بادشاہ نے، اوریاہ بن سمعیاہ کو یہویاقیم نے قتل کیا جبکہ  یسعیاہؑ نبی کو منسی بادشاہ کے حکم پر شہید کیا گیا۔[27] ایک قدیم مسیحی کتاب "The Book of the Bee"(۱۲۲۲ء) متعدد ایسے نبیوں کا ذکر کرتی ہے جنہیں یہودیوں نے قتل کیا۔ میکاہؑ نبی کو یہورام بادشاہ نے، عاموس کو بیت ایل کے کاہن نے شہید کیا۔اس کے علاوہ یرمیاہؑ نبی کو یہودیوں کے سردار نے سنگسار کرکے،حبقوق نبیؑ کو یروشلم کے یہودیوں نے سنگسار کرکے اور حزقیلؑ نبی کو بابل میں یہودیوں کے سردار نے شہید کیا۔


[1] کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت (لاہور: پاکستان بائبل سوسائٹی, 2012) ،ص۶۳۷.
[2] Jo Ann Hackett, The Oxford Guide to People & Places of the Bible, ed. Bruce M. Metzger and Michael D. Coogan, p 150–51.
[3] ۱-سلاطین۱۸ :۴
[4] ۱سلاطین۱۸ :۱۳
[5] ۲-سلاطین۴:۱
[6] ۱سلاطین۱۹ :۲
[7] یہورام کے باپ کا نام یہوسفط تھا اور اس نے اخی اب اور ایزبل کی بیٹی عتلیاہ سے شادی کی جس نے اسے اس کے باپ کی نیک راہیوں سے گمراہ کر دیا چنانچہ اس نے اپنے چھ بھائیوں کو مار ڈالا اور لوگوں کو جبرا بت پرستی کی طرف مائل کرنے لگا۔ حضرت الیاس علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق وہ ایک علاج بیماری میں مبتلا ہوا اور اسی بیماری میں مر گیا۔(۲سلاطین۸ :۱۶-۲۴، ۲-تواریخ۲۱ :۴-۲۰)
[8] ۱-سلاطین۲۱ :۲۳
[9] یوآس اخزیاہ بادشاہ کا بیٹا تھا اور صرف سات سال کی عمر میں یہواہ کی سلطنت کابادشاہ بنا ۔ یہویدع کاہن کے زیر اثر اس نے ہیکل کو بحال کیا اور بعل کی پوجا کو ختم کیا۔ یہویدع کی وفات کے بعد یوآس دوبارہ گمراہ ہو گیا اور اس نے دوبارہ بت پرستی شروع کردی۔
[10] ۲-تواریخ۲۴ :۱۸-۲۱
[11] متی۲۳ :۳۵
[12] Samuel Rocca, Herod's Judaea, (2008), p 365.
[13] یرمیاہ۲۶ :۲۰-۲۳
[14] یرمیاہ۳۸ :۴-۶
[15] نحمیاہ۹ :۲۶
[16] ۱-سلاطین۱۹: ۱۰
[17] متی۲۳ :۳۷
[18] متی۲۳ :۲۹-۳۶
[19] Hugh J. Schonfield, Jesus : Man, Mystic, Messiah، p 37.
[20] متی۲۷: ۲۴-۲۵
[21] “CHURCH FATHERS: Church History, Book II (Eusebius),” accessed June 29, 2020, 
[22] ۱-تھسلنکیوں۲ :۱۴
[23] متی۱۴ :۳-۴
[24] تو اپنی بھاوج کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا کیونکہ وہ تیرے بھائی کا بدن ہے۔(احبار۱۸ :۱۶) اگر کوئی شخص اپنے بھائی کی بیوی کو رکھے تو یہ نجاست ہے۔اس نے اپنے بھائی کے بدن کو بے پردہ کیا۔وہ لاولد رہیں گے۔(احبار ۲۰ :۲۱)
[25] کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت ،ص۱۷۶۷.
[26] فادر عمانویل عاصی, بنی اسرائیل کی تاریخ (گوجرانوالہ: مکتبہ عناویم پاکستان, 2013) ،ص۹۵، ۱۰۱.
[27] Babylonian Talmud, Yevamot 49b

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 6 جون، 2020

یسوع کے جڑواں بھائی توماتوام کی بابت چند پوادرانہ اعتراضات ودعاوی کا جواب



پوادرانہ تلبیس کا تفصیلی جواب
اس سلسلے کی پہلی تحریر کا لنک یہاں پیش خدمت ہے جہاں  ہم نے کلیسیائی تاریخ کی روشنی میں یسوع مسیح کے جڑواں بھائی یہوداہ توما توام کی شخصیت کا تاریخی جائزہ لیا ہے۔ یہ تحریر ہمارے بلاگ کے اِس لنک پر ملاحظہ فرمائیں
          یہاں ہم ایک مقامی پادری صاحب کی طرف سے کئےگئے چند اعتراضات و شبہات اور دعاوی  کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ سوالاً جواباً ہم یہاں ان کے اعتراضات و دعاوی کاجائزہ لیتے ہیں۔
پہلا اعتراض:      کتاب مقدس میں کہیں بھی توما کو یسوع کاجڑواں بھائی نہیں کہا گیا اور مسیحیوں کے لیے  صرف کتاب مقدس ہی حجت ہے۔
الجواب:           یسوع کے متعلق تاریخی حقائق اور الہام صرف انجیل میں موجود نہیں ہے بلکہ انجیل سے باہر بھی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت انجیل نویسوں کا یسوع کے معاصر اسینی  فرقے کو نظر انداز کرنا ہے ۔حالانکہ یوسیفس کی تحاریر اور وادی قمران کےصحائف مین ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد  موجود ہیں کہ یہ فرقہ پہلی صدی عیسوی میں موجود تھا اور ان کے یسوع سے باہمی تعلقات بھی تھے۔ (یہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے) ان اسینیوں کا تاریخ کے صفحات پر موجود  ہونا  اور انجیل میں ان کا عنقا ہونا اس حقیقت کا غماز ہے کہ حقائق صرف اناجیل اربعہ میں موجود نہیں ہیں۔لہذا اگر یہوداہ توما کو صراحتاً یسوع کا جڑواں بھائی نہیں کہا گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بات درست نہیں۔اگر آپ بضد ہیں کہ حقیقت صرف انجیل میں ہے تو آپ انجیل یوحنا اور مرقس سے یسوع کی پیدائش کے واقعات دکھا دیں۔ ان واقعات کی عدم موجودگی اس حقیقت  کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یا تو انجیل نویس ان سے واقف نہیں تھے یا پھر انہوں نے اسے شامل کرنا غیر ضروری سمجھا۔(یاد رہے کہ ان اناجیل کے لکھے جانے وقت انہیں یکجا نہیں کیا گیا بلکہ یہ کام تین سو سال کے بعد نقائیہ کونسل میں ہوا ہے)
دوسرا اعتراض:    انجیل میں صراحت سے دکھایا جائے کہ توما یسوع کا جڑواں بھائی ہے؟؟
الجواب:           پادری صاحب کا یہ اعتراض کٹ حجتی پر مشتمل ہے حالانکہ انجیل میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو صراحتاً مذکور نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اناجیل متوافقہ میں یسوع نے کہیں بھی صراحتاً خود کو المسیح نہیں کہا۔اسی طرح انجیل یوحنا میں صرف سامری عورت پر وہ مبہم طور پر یہ بات ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا پادری صاحب چونکہ یسوع کو المسیح مانتے ہیں لہذا ہم پادری صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انجیل نویسوں کے لغو دعوؤں کو چھوڑ کر صراحتا لکھا دکھائیں کہ یسوع نے کدھر خود کو المسیح کہا؟دوسری بات یہ کہ اگر اناجیل میں سب کچھ صراحتاً لکھا ہوتا تو آ پ کو کونسلز  در  کونسلز بٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ حیرت ہے کہ آپ کا ایمان تو خود انجیل کے بجائے کونسلز کی انسانی تعلیمات پر قائم ہے اور آپ نہایت ڈھٹائی سے ہم سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم انجیل میں صراحت سے دکھائیں کہ کہاں لکھا ہے کہ توما یسوع کا جڑواں بھائی ہے۔ اگرچہ انجیل میں توما کااصل  نام نہیں لکھا بلکہ اسکا عرفی نام تھامس یا توما  مذکور ہے. لیکن ہم انجیل مرقس باب ۶کے فقرہ۳ میں پڑھتے ہیں کہ یسوع کے ایک بھائی کا نام یہوداہ تھا جسکی گواہی اسکے اہل محلہ دے رہے تھے  یہ تو ممکن نہیں کہ یہوداہ نام کے یسوع کے دو بھائی بیک وقت  زندہ موجود ہوں اور ان میں امتیاز کے لیے کوئی قرینہ نہ پایا جائے۔  پس انجیل مرقس کا یہ یہوداہ ہی یہوداہ توما یا توام ہے.ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ہمیں دکھا دیں کہ انجیل نویس او ر پولس نے کدھر لکھا ہے کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے وہ الہامی سمجھ کر اور مقدس نوشتے کے طور پر لکھ رہا ہے؟ اور اگر آپ نہیں دکھا سکتے تو اس کا مطلب اس کے ماسوا کچھ اور نہیں کہ اناجیل کے روح القدس کی مدد سے لکھے جانے کا مسیحی دعویٰ ڈھونگ ڈرامے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
تیسرا اعتراض:     غناسطیوں کی وہ حیثیت ہے جو قادیانیوں کی ہے۔
الجواب:           اس سے بڑ الطیفہ شاید ہی کوئی ہو کہ پہلی اور دوسری صدی سے تعلق رکھنے والے  فرقے کو سولہویں صدی کی پیداوار کلیسیائی بھگوڑے مارٹن لوتھر کے پیروکار بیسویں صدی میں آکر بدعتی اور قادیانی قرار دیں۔حالانکہ یہ لوگ تو آپ کی نقائیہ کونسل سے بھی پہلے موجود تھےجبکہ آپ کے عقائد کی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔غناسطی تو قادیانیوں کی مانند نہیں ہو سکتے البتہ آپ ضرور قادیانیوں کی مانند ہیں جو یسوع مسیح کے سولہ سو سال بعد نمودار ہوئے اور کاتھولک کینن کی چھ الہامی و مسلمہ کتب کا انکار کردیا۔ بار بار کلیسیا کی مالا جپنے والوں کو اپنا یہ گھناؤنا اور شرم ناک فعل نظر نہیں آتا اور ہمیں کلیسیا کے نام کے بھاشن کرائے جاتے ہیں کہ مسلمہ وہی ہے جو کلیسیا نے مستند قرار دیا تو پھر آپ کس منہ سے کاتھولک کی منتخب کردہ چھ الہامی کتب کا انکار کرتے ہیں؟یاد رہے کہ ان چھ کتب کوبارہ سوسال تک کلیسیا میں مقدس نوشتوں کے طور پر پڑھا جاتارہا ہے ۔
چوتھا اعتراض:     مسیحیت پر بات کرتے ہوئے غیر انجیلی حوالہ دینا جہالت کا ثبوت ہے بالکل اسی طرح جس طرح اسلام پر بات کرتے ہوئے غیر قرآنی حوالہ دینا جہالت ہے۔
الجواب:           پادری صاحب اگر اپنے اس دعوے میں درست ہیں تو پھر اپنے اس دعوے کو بلاتاویل و توجیح انجیل سے دکھا دیں کہ"یسوع نے اپنی بشریت کو صلیب پر قربان کیا تھا؟"۔دوسرے بات یہ کہ آپ کے پاس جب عہدنامہ جدید موجود ہے تو پھر بار بار کونسلز بٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی تھی؟ یعنی آپ کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق یہ ساری کونسلز جہالت و ضلالت کا عالیشان نمونہ ہیں اور آپ ان کونسلز کے عقائد کو ماننے والے جاہل اور گمراہ افراد ہوئے نیز درحقیقت آپ نے ہی جہالت کی ایک طویل تاریخ رقم کر رکھی ہے۔ اور پھر یہ بات بھی تو ہے کہ پادری شفیق کنول صاحب نے بھی متعدد مناظروں میں احادیث اور تاریخ اسلامی کے حوالے پیش کیے ہیں تو پھرکیا آپ پادری شفیق کنول صاحب پر بھی جاہل کا فتوی لگانا پسند کریں گے کیونکہ انہوں نے بھی "غیرقرآنی" حوالہ جات بطور استدلال پیش کیے ہیں۔
پانچواں  اعتراض:   اگر یہوداہ توما یسوع کا جڑواں بھائی تھا تو قرآن کریم کو اس کی تصدیق کرنی چاہیے تھی۔
الجواب:           قرآن کریم تو سورۃ فاتحہ میں ہی مسیحیوں کو "ضالین" کہہ کر گمراہ قرار دیتا ہے۔یہی تو آپ کی گمراہیت ہے کہ یسوع مسیح کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کے بڑوں نے ان کے متعلق طرح طرح کے عقائد گھڑ لیے اور ان کی تعلیمات کا بڑا حصہ فراموش  کردیا۔ نیز اگر قرآن کا بیانیہ آپ کے نزدیک درست ہے  تو پھراناجیل کا بیانیہ یقیناً غلط ہے کیونکہ ولادت یسوع سے متعلق قرآنی بیانیہ اور انجیلی بیان میں بڑی حد تک تفاوت موجود ہے۔

پہلا دعوی:         توما عبرانی کا نام ہے جبکہ توام یونانی کا نام ہے کیونکہ یہودیوں میں ایک ہی شخص کے دو نام رکھنے کا رواج تھا۔
الجواب:           بفرض محال اگر یہوداہ توما کے دو نام تھے تو پھر بائبل سوسائٹیز نے اسم معرفہ کا ترجمہ کرکے دجل اور فریب سے کام کیوں لیا ہے؟ گڈ نیوز بائبل میں صاف طور پر Thomas The Twin لکھا ہے جبکہ دیگر تراجم میں توما ڈیڈیمس لکھا ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کرنے کے لیے بائبل سوسائٹیز نے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا ہے۔اور پھرآپ کو ہر حوالہ انجیل سے مانگنے کی عادت ہے تو آپ انجیل سے دکھا دیں کہ یہودیوں میں یہ رواج موجود تھا کہ وہ دودو نام رکھا کرتے تھے۔باقی شاگردوں کو چھوڑ کر صرف یسوع  کے ہی دو نام پیش کردیں ۔( عمانویل کا حوالہ د ے کر مزید دجل و فریب سے کام لینے کی کوشش بےسود ہوگی)پتہ نہیں کب ان دیسی عیسائی پادریوں کو یہ بات سمجھ آئے گی کہ ہر بات کلام میں نہیں لکھی ہوتی بلکہ متن کے حقائق کو جاننے کے لیے دیگر ماخذات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہےجیساکہ توما رسول کے اعمال اور اس کے بعد لکھی جانے والی دیگر کتب جن سے یہوداہ توما کے ہندوستان جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ توما کا اصل نام یہوداہ تو خود آپ کو توما کی انجیل سے پتہ چلتا ہے جسے  انجیل ہندی بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی اناجیل میں تو توما کا اصل نام ہی موجود نہیں ہے اور آپ ہمیں اونچے اونچے بھاشن دے رہے ہیں۔ اناجیل  میں توما کا نام مفقود ہونے کے باوجود آپ بار بار ڈھٹائی سے انہی اناجیل کا حوالہ دے رہے ہیں جن کی وقائع نگاری دیگر تاریخی کتب کی نسبت مشکوک ہے۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ انجیل میں مکمل تاریخی حقائق موجود نہیں ہیں بلکہ انجیل نویسوں نے متعدد جگہ کتمان حق سے کام لیا ہے   لہذا ہمارے دعوے کو کسی درجے میں غیر انجیلی تو کہا جا سکتا ہے مگر غیر تاریخی نہیں کیونکہ اس تاریخ کے مصنف خود ابتدائی مسیحی تھے جن کے توما کے متعلق عقیدے کو آبائے کلیسیا نے تو رد نہیں کیا مگر دو ہزار سال بعد چند دیسی پوادران نے اٹھ کر تاریخی حقیقت کو جھٹلا کر ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی نئی تاریخ رقم کردی۔
دوسرا دعوی:       اعمال ِتوما کتاب کو کلیسیا نے رد کردیا تھا کیونکہ اس کی باتیں تاریخی معیار پر پورا نہیں اتر رہی تھی۔
الجواب:           ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ کون سا تاریخی معیار تھا جس کی بنیاد پر اعمال توماکو مسترد کر دیا گیا؟ اس حوالے سے پادری صاحب نے کوئی لب کشائی نہیں کی حالانکہ بات اگر تاریخی معیار کی ہے تو اناجیل اربعہ کا زمانہ تصنیف بھی حتمی طور پر آج تک کسی کو نہیں معلوم۔اسی طرح ان اناجیل میں متعدد تاریخی اغلاط موجود ہیں جن کی کوئی توجیح نہیں کی جاسکتی۔مثال کے  طور پر متی یسوع کی پیدائش ہیرودیس اعظم کے دور میں ۶ قبل مسیح میں ذکر کرتا ہے  جبکہ لوقا کے مطابق یسوع کی پیدائش قیصر اگستس کی اسم نویسی کے دوران ہوئی جس کا زمانہ ۶ عیسوی ہے۔ اس گھناؤنی تاریخی غلطی کے باوجود اگر اناجیل مستند ہیں تو پھر اعمال توما کیسے غیر مستند ہوگئی۔کیا اس کتاب کا جرم صرف اتنا تھا کہ یہ پولوسی نظریات کی تائید نہیں کرتی؟ نہایت دوغلا معیار ہے کہ  عہدنامہ جدید کی تمام انسانی کتب کو(جوکہ نامعلوم افراد کی تصانیف ہیں) صرف کلیسیا کے کہنے پر "خدا کا کلام" مان لیا جاتا ہے اور باقی کتب کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ تمام عالم پولوسیت کو ہمارا چیلنج ہے کہ وہ اُس کلیسیائی معیار کو بیان کریں جس کے مطابق کلیسیا نے صحف مقدسہ کو قبول و رد کیا۔
تیسرا دعوی:       مسیحیوں کے لیے صرف انجیل مستند ہے۔
الجواب:           ا گر مسیحیوں کے لیے صرف عہدنامہ جدید  ہی مستند ہے تو پھر وہ نسخہ سینائی (codex sinaiticus)میں سے کلیمنٹ کے خط ، برنباس کے خط، اور ہرمس کا چرواہا نامی کتب کو نکال کر آگ لگا دیں کیونکہ یہ انسانی کلام کے جسے عہدنامہ جدید کے قدیم نسخے میں شامل کر رکھا ہے۔ حالانکہ کرنتھیوں کے بشپ ڈایونی سیئس کے مطابق قدیم زمانے سے اس خط کو کلیسیا میں پڑھنے کا دستور چلا آرہا ہے۔(بحوالہ صحت کتب مقدسہ،مطبوعہ ۱۹۵۲ء، ص۲۱۶-۲۱۵)  ہم پادری صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قدیم کلیسیا پر بھی فتوی جاری کریں کہ وہ گمراہ ہو کر انسانی احکامات کی تعلیم پر عمل پیرا تھے تبھی انہوں نے نہ صرف اس خط کو کلیسیا میں مقدس نوشتے کے طور پر پڑھا بلکہ عہدنامہ جدید کے کینن اور کوڈیکس میں بھی شامل کردیا۔ اسی طرح پادری صاحب کو چاہیے کہ چونکہ ساری سچائی اناجیل میں موجود ہے لہذا وہ کونسلز کی تعلیمات کو انسانی تعلیم کہہ کر فی الفور خیر آباد کہنے کی اخلاقی جرات پیدا کریں اور اس ساری تعلیم کو مسیحی ایمان کے لیے خطرہ قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔
چوتھا دعوی:       یسوع اس لیے دنیا میں تشریف لائے تاکہ اپنی بشریت کو صلیب پر قربان کر دیں۔
الجواب:           پادری صاحب کے دعوے کے مطابق وہ صرف انجیل کو مانتے ہیں تو وہ  فریسیانہ طرز سے اجتناب کرتے ہوئے جناب یسوع کی زبان مبارک سے ایسی کوئی تعلیم دکھا دیں جہاں انہوں نے صراحتاً یہ فرمایا ہو کہ وہ اپنی بشریت کو صلیب پر قربان کرنے آئے ہیں۔
پانچواں  دعوی:     توما کے ہندوستان جانے کی گواہی نظریات رسل نامی کتاب  اور دیگر آبائے کلیسیا کی تحاریر سے بھی ملتی ہے ۔
الجواب:           موصوف پادری صاحب کے اس اعتراض کا ہم نے اپنے مضمون میں کافی شافی جواب دے دیا ہے تاہم یہاں چند امور پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ پادری صاحب نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ تیسری صدی عیسوی میں لکھی گئی جبکہ  اعمالِ توما کا زمانہ تصنیف دوسری صدی عیسوی ہے  اور جہاں تک آبائے کلیسیا کی مختلف تحاریر کی بات ہے تو آپ کے ہیرو ولیم جی ینگ کے مطابق ان کا زمانہ تصنیف چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی ہے۔ الحمدللہ ہم کتابوں کو اچھی طرح پڑھتے ہیں کیونکہ نہ ہی ہمارے ہاتھ میں بطالت پیدا کرنے والا باطل قلم ہے اور نہ ہی ہم اپنی آنکھ میں آپ کی طرح شہتیر رکھتے ہیں لیکن جب قدیم ترین شہادت موجود دہو تو چوتھی صدی اور پانچویں صدی کی تھرڈ کلاس تحاریر   کا حوالہ دینا  علمی  نہیں بلکہ احمقانہ رویہ کہلاتا ہے۔ پادری صاحب کو چاہیے کہ دوسری صدی عیسوی کی کسی قدیم کتاب سے یہوداہ توما کے ہندوستان جانے کے متعلق کوئی گواہی پیش کریں۔ وگرنہ اعمال ِتوما کے مدتوں بعد لکھی جانے والی نظریات رسل جیسی دیگر "جعلی کتب" ممکنہ طور پر قدیم ماخذ مثلاً اعمال توما سے مستعار لے کر ہی لکھی گئی ہو گی۔مزید براں ہم سے انجیلی ماخذ سے حوالہ جات طلب کرنے والے پادری صاحب جن کتب کا حوالہ خود دے رہے ہیں۔وہ بھی تو غیر انجیلی ہی ہیں۔یہ کیسی منافقانہ روش ہے جس کا ہمیں پوادر کی طرف سے سامنا ہے۔
چھٹا دعوی:         یسوع کے شاگرد پوری دنیا میں پھیل گئے۔
الجواب:           بقول پادری صاحب ،وہ صرف انجیل کی مانتے ہیں تو ہمیں انجیل سے دکھا دیں کہ یسوع کے شاگرد پور ی دنیا میں پھیل گئے صرف اعمال کی کتاب میں یسوع کے منہ میں الفاظ ڈال کر عالمگیریت ثابت نہیں کی جا سکتی۔(یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارا یہ دعوی ہرگز نہیں کہ سچائی صرف اور صرف قرآن اور انجیل میں موجود ہے بلکہ ان کے علاوہ دیگر ماخذات بھی حقائق پر مبنی ہوتے ہیں تاہم اتمام حجت اور پادری صاحب کے  دجل پر مبنی دعوے کی حقیقت ظاہر کرنے کےلیے ہم پادری صاحب سے یہ مطالبہ کررہے ہیں)
ساتواں دعوی:     یسوع ساری دنیا  کے لیے آئے تھے۔
الجواب:           پادری صاحب کا یہ دعوی  بھی لغو اور سراسر کذب بیانی پر مشتمل ہے کیونکہ یسوع اپنی حین حیات کبھی بھی غیر اقوام کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔کنعانی عورت کی مثال دیتے ہوئے پادری صاحب نے فرمایا کہ "پہلے لڑکوں کوسیر ہونے دے"سے مراد ہے کہ یسوع اس کے ایمان کو چیک کررہے تھے حالانکہ (پادری صاحب کے معیار کے مطابق ) انجیل میں کہیں بھی نہیں لکھا ہو اکہ یسوع اسے چیک کررہے تھے بلکہ یسوع نے آخر میں اسے کتا سمجھ کر ہی روٹی ڈالی  (یعنی اس کی بیٹی کو شفا دی)  اور اس عورت نے خود کو کتیا سمجھ کر ہی روٹی کو کھا لیا ۔اس بات کا پتہ اس کے جواب سے چلتا ہے کہ "کتے بھی لڑکوں کی روٹی کے ٹکڑوں سے کھاتے ہیں"(مرقس۷ :۲۸)دوسری طرف خود مرقس کی انجیل میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ یسوع کی دعوت غیر اقوام کے لیے بھی تھی۔یسوع کی تعلیمات کو آفاقی ثابت کرنے کے لیے مرقس کے آخر میں بارہ فقرات کا اضافہ کیا گیا(یعنی کھلم کھلا بدمعاشی سےتحریف کی گئی) کیونکہ قدیم نسخوں میں مرقس کے آخری بارہ فقرات شامل نہیں ہیں۔ اس بات کا اقرار پادری برکت اللہ نے صحت کتب مقدسہ میں بھی کیا ہے اور متعدد انگریزی بائبل کے ورژن میں اس مقام پر اس کی وضاحت کردی گئی ہے حتی کہ آکسفورڈ بائبل کی ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں تو سرے سے مرقس کے آخری بارہ فقرات ہیں ہی نہیں۔ جب سب سے قدیم انجیل نویس مرقس کو یہ بات نہیں معلوم تو مرقس سے مواد لے کر انجیل لکھنے والے متی کو یہ بات کس نے بتا دی؟ (کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت کے مطابق متی نے مرقس کو انجیل کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب مدون کی) سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو کام خود یسوع نے ساری زندگی نہیں کیا اس کے کرنے کا شاگردوں کو حکم کیسے دے دیا؟وہ تو واضح فرماتے ہیں کہ میں اسرائیل کی بھیڑوں کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ رہی بات اعمال کی کتاب کی تو اعمال کی کتاب میں بھی شاگرد غیر اقوام کے بجائے صرف یہودیوں کو کلام سناتے تھے۔اگر شاگردوں کے پاس غیراقوام کے کچھ افراد آئے بھی تو وہ God fearer تھے۔ اب اگر آپ اس وقت کے یہودی حالات سے واقف ہونگے تو آپ کو بخوبی پتہ ہوگا کہ یہ گاڈ فیرئیر کون تھے لیکن اگر نہیں پتہ تو یشوع بن سیراخ کی کتاب کے مطابق آپ کو اپنی جہالت پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ آپ ناواقفیت کے باوجود خشکی و تری کا دورہ کرکے لوگوں کو دگنا ہلاکت کا فرزند بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔(معروف مغربی اسکالر ہائم مکابی نے اپنی کتاب Paul the mythmaker and the invention of Christianity میں اس حوالے  سے تفصیل سے لکھا ہے جس کا ہم نے ترجمہ کیا ہے اور وہ ترجمہ چھپ چکا ہے ۔لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی مارکیٹ میں آجائے گا)  غیر اقوام کی طرف جانے والا پہلا فرد پولس تھا جس نے شاگردان یسوع سے کھلم کھلا بغاوت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ غیر قوموں کا رسول ہے اور پھر وہ غیر قوموں کو مسیحی (درحقیقت پولوسی) بنانے کے لیے جت گیا اور یہودیوں کے لیے یہودی بنا،رومیوں کے لیے رومی بنا اور یونانیوں کے لیے یونانی بن گیا۔یہ موضوع  کافی طویل اور خوف طوالت مانع ہے اسی لیے چند سطور پر ہی اکتفا کیا ہے۔
آٹھواں دعوی:     یسوع کے جی اٹھنے کے بعد غیر اقوام میں اس کے جی اٹھنے کی  خوشخبری کی منادی کی گئی۔
الجواب:           یسوع کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا عقیدہ خالص پولس کی ایجاد ہے اور اس عقیدے کامعمار پولس ہے جس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اگر یسوع مردوں میں سے نہیں جی اُٹھا تو ہمارا ایمان بھی بےفائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بلکہ ہم خدا کے حضور جھوٹے گواہ ٹھہرے۔(۱-کرنتھیوں۱۵ :۱۴)یسوع نے اپنی پوری زندگی ایسی کوئی تعلیم نہیں دی کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھ کر لوگوں کو نجات دیں گے بلکہ انہوں نے شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو کوئی ان میں سے چھوٹے سے چھوٹا حکم پورا کرے گا اور اس کی تعلیم دےگا وہ خدا کی بادشاہت میں سب سے بڑا کہلا ئے گا۔(متی ۵ :۱۹) یہ بھی ایک طویل موضوع ہے جسے اختصار کے ساتھ لکھنا مشکل ہے۔
نواں دعوی:       شاگرد یسوع کے زندہ خط تھے؟
الجواب:           پادری صاحب کا یہ قول سراسر انسانی تعلیم اور کذب بیانی پر مشتمل ہے کیونکہ ان کے معیار کے مطابق انجیل میں کہیں نہیں لکھا کہ شاگرد یسوع  کے زندہ خط تھے یا یسوع نے کسی موقع پر انہیں خط کہہ کر پکارا ہو یا خط لکھنے کا حکم دیا ہو۔ تاہم اگر پادری صاحب کے دعوے کو مان لیا جائے تو پھر ان زندہ خطو ط کے ہوتے ہوئے کاغذی خطوط بےمعنی اور فضول ہو جاتے ہیں لہذا ہماری پادری صاحب سے استدعا ہے کہ وہ عہدنامہ جدید سے پطرس و یہوداہ کے خطوط کو فی الفور باہر نکال دیں کیونکہ زندہ خطوط کے ہوتے ہوئے کاغذی خطوط پر انحصار کرنا حماقت اور بےوقوفی ہے۔نیز پادری صاحب کا دعوے ماننے پر ایک اور سنگین مسئلہ اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے کہ مقدس پولس تو یسوع کے شاگرد ہی نہیں تو پھر انہیں کیسے زندہ خطو ط کی تعریف میں شامل کیا جائے گا؟ ج س م ف
دسواں دعوی:     غناسطیوں کو کلیسیا نے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔
الجواب:           آپ کی کلیسیا کی کیا اوقات کہ آپ ان کو مانیں؟آپ کی کلیسیا تو خود نقائیہ کونسل (۳۲۵ء )کی پیداوار ہے  جبکہ غناسطیوں کا زمانہ پہلی اور دوسری صدی عیسوی ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ غناسطیوں نے پولوسی کلیسیا کو کبھی تسلیم نہیں کیا حتی کہ پولوسیوں نے رومی اقتدار میں آکر ان لوگوں کو تہہ تیغ کیا اور ان کی کتب کو نذر آتش کردیا۔اگرآپ کو غناسطیوں سے اتنی ہی چڑ ہے تو غناسطی فکر کی حامل انجیل یوحنا کو عہدنامہ جدید سے الگ کردیں کیونکہ انجیل یوحنا کی تمہید مکمل طورپر غناسطی فکرِ ثنویت سے بھری ہوئی ہے۔اسی طرح نور کے فرزند اور تاریکی کے فرزند کا عقیدہ بھی غناسطیوں میں موجود تھا جو کہ انجیل یوحنا میں بھی پایا جاتا ہے۔اس حوالے سے ہم نے اپنے مضمون میں بھی کچھ اعتراضا ت کاجواب دیا ہے۔ غناسطیوں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے  مارون میئر کی کتاب"The Gnostic Bible"پڑھ لیں ان شاء اللہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے اور پھر آئندہ کے لیے آپ کسی کو قاموس الکتاب جیسی گھٹیا کتاب کا طعنہ دینا بھول جائیں گے کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ کچھ نہیں پڑھتے تو سامنے والا بھی کچھ نہیں پڑھتا۔اگر مارون میئر کی کتاب نہ ملےتو مجھ سے اس کا پی ڈی ایف لے سکتے ہیں۔
گیارواں دعوی:    کلیسیا متفق ہے کہ غناسطی کتب جعلی ہیں۔
الجواب:           جس کلیسیا کے اتفاق کا آپ نرسنگھا بجا رہے ہیں وہ کلیسیا تو خود متعدد انسانی کونسلز کی پیداوار ہے۔سوال یہ ہے کہ دو سو سال تک  ہر مسیحی فرقہ ایک دوسرے پر مشرک اور بدعتی ہونے  کے فتوے لگا رہا تھا تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ صرف آپ کی کلیسیا ہی دودھ کی دھلی ہے؟  ایک طرف آپ فرما رہے ہیں کہ ہم صرف انجیل کی مانتے ہیں اور دوسری طرف کلیسیا کے اتفاق کو بطور استدلال پیش کر رہے ہیں؟ آپ انجیل سے وہ معیار دکھائیں جس کے مطابق غناسطی کتب جعلی ہیں۔

مکمل تحریر >>