قاتلین ِ انبیاء کرام:قوم یہود
تحقیق و
تحریر:عبداللہ غازیؔ
قرآن کریم اور بائبل مقدس دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ
یہودی اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کے نبیوں کا ناحق قتل کرتے رہے ہیں۔ ان معصوم
مقدسین کے قتل کی وجہ سے ہی ان پر متعدد بار اللہ کا عذاب مختلف اقوام کی پےدرپے غلامی ،قتل و غارت کی
صورت میں نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعدد بار توبہ کے مواقع ملنےکے
باوجود انہوں نے توبہ نہیں کی بالآخر بلسانِ یسوعؑ ان سے خدا کی بادشاہت ہمیشہ
کےلیے لے لی گئی اور قرآن مجید کے مطابق یہ لوگ عنداللہ مغضوب ٹھہرے۔ یہودیوں کی
یہ روش بابل کی اسیری میں جانے اور وہاں سے واپس آنےکے باوجود تبدیل نہ ہوئی حتی
کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے
کی بھی کوشش کی مگر اس بار اللہ تعالیٰ نے
ان کی تمام تدبیروں کو ناکام کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کوآسمان پر اٹھا لیا۔
تورات میں "انبیاء کرام علیہم السلام کو بےگناہ قتل
کرنے کا ذکر سب سے پہلے سلاطین /ملوک کی کتاب میں ملتا ہے جہاں اسرائیل کے بادشاہ
اخی اب کی بیوی ایزبل نبیوں کی ایک بڑی تعداد کو شہید کرواتی ہے۔ ایزبل بعل دیوتا
کی پجارن تھی اور اسرائیل کے بادشاہ اخی اب سے شادی کرنے کے بعد اس نے بادشاہ پر
بہت زور دیا کہ وہ اسرائیل میں بعل پرستی کی اجازت دے۔[1] ایزبل
کی بت پرستانہ طبیعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نام(ایز-بعل)
کا مطلب بھی "بعل کہاں ہے"تھا۔[2]بائبل
میں اس قتل عا م کے متعلق کچھ اس طرح مذکور ہے۔
"جب
ایزبل نے خداوند کے نبیوں کو قتل کیا تو عبدیاہ نے سو نبیوں کو لے کر پچاس پچاس کر
کے ان کو ایک غار میں چھپا دیا۔"[3]
"جب
ایزبل نے خداوند کے نبیوں کو قتل کیا تو میں نے خداوند کے نبیوں میں سے سو آدمیوں۔۔الخ"[4]
اُس وقت
حضرت عبدیاہؑ (عبداللہ)نے سو نبیوں کو اپنے ساتھ لیا اور خاموشی سے انہیں ایک غار
میں چھپا دیا ۔وہ انہیں کھانا پہنچاتے رہے تاکہ یہ مقدسین شاہ اسرائیل اور اس کی
بیوی کے شر سے بچ کر سکون سے رہ سکیں۔ ان انبیاء کرامؑ کے نام تو ہمیں نہیں معلوم
لیکن بائبل مقدس کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مقدسین کی جماعت یہودی معاشرے کا
حصہ تھے اورباقاعدہ بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اس کی تصریح سلاطین کی کتاب سے
ہوتی ہے جہاں ایک گم نام نبی کی اہلیہ حضرت الیشعؑ کے پاس فریاد لے کر آتی ہیں۔ [5]یہ
لوگ بعل کی پوجا کرنے والےبنی اسرائیل کے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنی
ہرممکن کوشش کررہے تھے۔
ایزبل نے صرف نبیوں کی بڑی تعداد کو قتل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اُس نے حضرت الیاس علیہ
السلام(ایلیاہ) کو بھی جان سے مارنے کی دھمکی دی[6]اور اس
کے داماد یہورام[7] نے
حضرت الیاسؑ کے شاگرد حضرت الیشعؑ کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے ڈرانے کی کوشش
کی لیکن ان دونوں میں سے کوئی دھمکی کارگر ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ اس پر عمل
کرسکے۔ چنانچہ بعل دیوتا اور اس کے پجاریوں کی حمایت کرنے اور اللہ تعالیٰ کے
نبیوں کو ستانے اور قتل کرنے کے جرم میں اللہ تعالیٰ نے ایزبل کو یہ سزا سنائی کہ
یزرعیل کی فصیل کے نزدیک کتے ایزبل کو کھائیں گے۔[8]اس
سارے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایزبل نےباقاعدہ پورے یہودی معاشرے کے خلاف اقدام
اٹھایا تھا جہاں نبیوں کی بڑی تعداد آباد تھی اور یہ تمام لوگ بنی اسرائیل کی
اصلاح کی کوششوں میں سرگرداں تھے۔
ٹھیک اسی وقت، یہوداہ کی علیحدہ سلطنت میں یہودیہ کے بادشاہ
یوآس[9] نے
حضرت زکریاہؑ بن یہویدع کو قتل کرنے کا حکم دیا کیونکہ انہوں نے بادشاہ کے بت
پرستی کرنے پر اس کے خلاف آواز بلند کی تھی۔چنانچہ بادشاہ کے ہم نواؤں نے انہیں
'ہیکل' کے اندر پتھر مار مار کر شہید کردیا اور خداوند کے گھر
کی حرمت کا خیال بھی نہیں رکھا ۔
"اور
وہ یسیرتوں اور بتوں کی پرستش کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خداوند نے نبیوں کو ان کے پاس
بھیجا تاکہ وہ ان کو اس کی طرف پھیر لائیں اور وہ ان کو الزام دیتے رہے پر انہوں
نے کان نہ لگایا۔ تب خداکی روح یہویدع کاہن کے بیٹے زکریاہ پر نازل ہوئی سو وہ
لوگوں سے بلند جگہ پر کھڑا ہو کر کہنے لگا!خداوند یوں فرماتا ہے کہ تم کیوں خداوند
کے حکموں سے باہر جاتے ہو کہ یوں خوش حال نہیں رہ سکتے؟چونکہ تم نے خداوند کو چھوڑ
دیا ہے اس نے بھی تم کو چھوڑ دیا ہے۔تب انہوں نے اس کے خلاف سازش کی اور بادشاہ کے
حکم سے خداوند کے گھر کے صحن میں اسے سنگسار کر دیا۔"[10]
یہوداہ کا بادشاہ یوآس شروع میں راست باز تھا مگر بعد میں
اس پر شیطان غالب آگیا اور اس نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں نبی کو شہید کروا دیا۔
انہی زکریاہؑ کے قتل کا ذکر متی کی انجیل میں یسوعؑ مسیح نے بھی کیا ہے کہ یہودی
ہابیل سے لےکر زکریاہؑ تک کے خون کے ذمہ دار ہیں۔[11]
حشمونی بادشاہوں (جوکہ یہوداہ کے بادشاہوں کی اولاد نہیں تھے) نےحضرت زکریاہؑ کی
یاد میں یروشلم سے باہر وادیِ قدرون میں ایک بہت بڑا یادگاری مقبرہ تعمیر کروایا۔[12]
بابل کی جلاوطنی میں جانے اور یہوداہ کی سلطنت ختم ہونے سے قبل یہوداہ کے
بادشاہ یہویاقیم نے حضرت اوریاؑبن سمعیاہ کو صرف اس وجہ سے قتل کردیا کہ انہوں نے
یہویاقیم کی سلطنت کےزوال اور عنقریب ختم ہونے کی پیش گوئی کی تھی چنانچہ یہویاقیم
نے اوریاہؑ نبی کو خود اپنی تلوار سے قتل کیا اور ان کی لاش کی بےحرمتی بھی کی۔یہ
سارا واقعہ یرمیاہ کی کتاب میں کچھ اس طرح مذکور ہے۔
پھر ایک اور شخص نے خداوند کے نام سے نبوت کی
یعنی اُوریاہؔ بن سمعیاہؔ نے جو قریتؔ یعر یم کا تھا۔اُس نے اِس شہر اور ملک کے
خلاف یرمیاہؔ کی سب باتوں کے مطابق نبوت کی اور جب یہوؔ یقیم بادشاہ اور اُس کے سب جنگی مردوں اور اُمرا نے اُس کی باتیں سُنیں تو بادشاہ نے اُسے قتل کرنا چاہا
لیکن اُوریاہؔ یہ سُن کر ڈرا اور مصرؔ کو بھاگ گیا اور یہوؔ یقیم بادشاہ نے چند
آدمیوں یعنی اِلناؔ تن بن عکبُوؔ ر اور اس کے ساتھ کچھ اور آدمیوں کومصرؔ میں بھیجا اور وہ
اُور یاہؔ کو مصرؔ سے نکال لائے اور اُسے یہوؔ یاقیم بادشاہ کے پاس پہنچا یا اور
اُس نے اُ س کو تلوار سے قتل کیا اور اُس کی لاش کو عوام کے قبرستان میں پھینکوا
دیا۔[13]
بعد میں صدقیاہ بادشاہ کے دور میں اُس
کے درباری امرا نے بادشاہ کو مشورہ دیا
کہ وہ یرمیاہؑ نبی کو قتل کروا دے کیونکہ یہ لوگوں کا خیرخواہ نہیں ہے لیکن بادشاہ
ان کی باتوں میں نہیں آیا اور اس نے یرمیاہؑ نبی کا دفاع کیا ۔صدقیاہ بادشاہ نہایت
کمزور حکمران تھا جسے کٹھ پتلی حکمران کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔اس کے امراء جانتے
تھے کہ وہ اس قابل نہیں کہ انہیں روک سکے چنانچہ ان شریروں نے یرمیاہؑ نبی کے خلاف
خود کاروائی کی اور انہیں پکڑ کر ایک قید
خانے کے صحن میں بنے حوض کے اندر ڈال دیا۔ وہ موسم چونکہ بارشوں کا نہ تھا لہذا
حوض صرف کیچڑ سے بھرا ہوا تھا چنانچہ انہوں نے یرمیاہؑ کو کیچڑ میں دھنسا دیا۔[14]
ایک
مدت بعد جب بنی اسرائیل بابل کی جلاوطنی سے واپس آئے تو حضرت زکریاہؑ کی سرعام
شہادت اور ایزبل کے ہاتھوں ہونے والے انبیاء کرام علیہم السلام کے وحشیانہ قتل عام
کو اسرائیل کے گمراہ بادشاہوں اور ان کے مشیروں کا جرم قرار دے دیا گیا جنہوں نے
اسرائیل کو گمراہ کیا تھا اور ان واقعات کو بنی اسرائیل کے اسیری میں جانے کا سبب
قرار دیا۔[15]
حضرت الیاس علیہ السلام(ایلیاہ نبی) نے ایزبل اور اخی اب کے
افعال کو صراحتاً پوری قوم اسرائیل کا فعل قرار دیا تھا کیونکہ کسی بھی اسرائیلی
نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ جیسا کہ کتاب مقدس میں مرقوم ہے۔
"خداوند کا کلام
اس پر نازل ہوا کہ اے ایلیاہ! تو یہاں کیا کرتا ہے؟ اس نے کہا خداوند لشکروں کے
خدا کے لیے مجھے بڑی غیرت آئی کیونکہ بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے
مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا
ہوں۔"[16]
عہدنامہ جدید میں یسوعؑ مسیح یروشلم کے ارباب اقتدار اور
خدا کے رسولوں کے مابین سخت تناؤ کو بیان کرتے ہیں۔
"اے یروشلِیم! اَے یروشلِیم! تُو جونبیوں کو قتل
کرتی اور جو تیرے پاس بھیجے گئے اُن کو سنگسار کرتی ہے۔کتنی بار میں نے چاہا کہ جِس طرح مُرغی اپنے بچّوں کو پروں تَلے جمع کر
لیتی ہے اُسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لُوں مگر تُم نے نہ چاہا۔"[17]
عہدنامہ جدید حضرت زکریاہؑ کی شہادت اور حشمونیوں کے بنائے
گئے یادگاری مقبرے کا بھی ذکر کرتا ہے جسے بعد میں ہیرودیوں نے تعمیر کروایا۔
عہدنامہ جدید اسرائیل کے تمام گمراہ بادشاہوں کو اُس ملامت میں شامل کرتا ہے جو
یسوع یہودیوں پر کرتے ہیں کہ وہ نبیوں کی قبریں بناتے اور مقبرے آراستہ کرتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانے میں ہوتے تو نبیوں کے خون میں شریک
نہیں ہوتے۔ اس طرح سے وہ خود ہی اپنی بابت گواہی دیتے ہیں کہ وہ نبیوں کے قاتلوں
کی اولادیں ہیں تو پھر تم بھلا کیسے جہنم کی سزا سے بچو گے؟ تمہارے پاس نبی اور
دانا آتے ہیں مگر تم ان کو قتل کرتے ہو اور عبادت خانوں میں انہیں کوڑے مارتے ہو۔[18]
قدیم مسیحی روایات کے مطابق یحییٰ علیہ السلام کے والد حضرت
زکریاہؑ کو اُس وقت شہید کیا گیا جب ہیرودیس کے حکم پر معصوم بچوں کا قتل عام جاری
تھا۔ حضرت زکریاہؑ نے اپنے بیٹے کو چھپا دیا تھا اور یہودیوں کے استفسار کرنے پر
بھی انہیں جگہ کا نہیں بتایا تو انہیں شہید کردیا گیا۔[19] تاہم
اس بارے میں کوئی تاریخی ثبوت دستیاب نہیں کہ ہیرودیس نے چھوٹے بچوں کے قتل عام کا
کوئی حکم جاری کیا ہوا البتہ ایسے بہت سے افراد کا ذکر ملتا ہے جن کے قتل کے اس نے
حکم نامے جاری کیے حتی کہ اپنے بیٹوں کو بھی اس نے قتل کروا دیا تھا۔ عہدنامہ جدید
کے مطابق پیلاطوس گورنر نے یسوع کو صرف کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا اور اپنے ہاتھ
دھوتے ہوئے ان کے خون سے خود کو بری الذمہ قرار دیا جس پر ہجوم نے چلا کر کہا کہ
اس کا خون ہم پر اور ہماری اولادوں کی گردن پر۔[20] اس
مقام پر فریسی سرے سے ہی غائب تھے لیکن صدوقیوں کے سردار کاہن، بزرگ یہودیوں کا
ہجوم اس موقع پر بنی اسرائیل کی من حیث القوم نمائندگی ظاہر کررہا تھا کہ وہ یسوعؑ
کے خون کا الزام اپنے اوپر لینے کے لیے بھی تیار تھے۔ صدوقی اس معاملے میں اتنے
متشدد تھے کہ انہوں نے اناجیل کے مطابق یسوع کو مبینہ طور پر سزا دلوانا چاہی مگر
یسوع کے بعد انہوں نے یسوع کے بھائی مقدس یعقوب کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلو ک نہیں
کیا بلکہ ان کو ہیکل کی چھت سے گرا کر مار ڈالا۔[21]اناجیل
اربعہ کے علاوہ مقدس پولس نے بھی اپنے خط میں لکھا ہے کہ یہودی انبیاء کرام کو قتل
کرنے میں ماہر تھے۔ [22]
عہدنامہ جدیدکے معروف نبی جناب یوحنااصطباغی(حضرت یحیٰی
علیہ السلام) کو بھی شہید کیا گیا تھا تاہم انجیل نویسوں نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے اس معاملے کو ادومی
النسل رومی حکمرانوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ انجیل کے مطابق ہیرودیس اینٹی پاس نے حضرت یوحنا
اصطباغیؑ کا سرقلم کروا دیا تھا کیونکہ اُس نے اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کرلی
تھی جس پر یوحنا اصطباغیؑ نے اُسے اِس بات پر ملامت کی اور سخت تنقید کا نشانہ
بنایا تھا۔
"ہیرودیس نے
اپنے بھائی فلپس کی بیوی ہیرودیاس کے سبب سے یوحنا کو پکڑ کر باندھا اور قید خانہ
میں ڈال دیا تھا کیونکہ یوحنا نے اس سے کہا تھا کہ اِس کا رکھنا تجھے روا نہیں۔[23]"
ہیرودیاس ہیرودیس اعظم کی پوتی اور اُس
کے بیٹے ارسطوبولس چہارم کی بیٹی تھی۔ ہیرودیاس نے اپنے چچا فلپس سے شادی کر لی
تھی۔ ایک دفعہ فلپس کا بھائی اور ہیرودیس اعظم کا بیٹا اینٹی پاس اس سے ملنے گیا
تو ہیرودیاس پر فریفتہ ہوگیا۔ اُس نے ہیرودیاس کو راضی کیا کہ وہ ہیرودیس فلپس کو
چھوڑ کر مجھ سے شادی کرلے چنانچہ ہیرودیاس نے اپنے دوسرے چچا اینٹی پاس سے شادی
کرلی۔ شریعت موسوی کے مطابق کوئی بھی مرد اپنے بھائی کے جیتے جی اُس کی بیوہ سے
شادی نہیں کر سکتا تھا جو ایسا کرتا تو اسے مثلِ زنا سمجھا جاتا تھا۔[24]اِس
بات پر یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اینٹی پاس کی مذمت کی تو اینٹی پاس نے انہیں قید
خانے میں ڈال دیا۔[25]
ہیرودیس اعظم کی تیسری بیوی مریم دوم سے
پیدا ہونے والی بیٹی سلومی سوم کے شوہر کا نام فلپس تھا۔ مگر انجیل نویس اِس فلپ
کو ہیرودیاس کا شوہر بتاتا ہے جو تاریخی حقیقت کے خلاف ہے۔عہدنامہ جدید کے کچھ
مفسرین نے یہاں یہ توجیح نکالنے کی کوشش کی ہے کہ
ہیرودیاس کے شوہر ہیرودیس کا خاندانی نام فلپس تھا [26]تاہم
اس بات کا ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی صورت میں اِس تاویل پر یقین کرنا خود کو دھوکہ
دینےکے ماسوا کچھ نہیں۔
اس سارے معاملے میں سب سے اہم بات اینٹی
پاس کا اپنی سگی بھتیجی سے شادی کرنا ہے جو
اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے نہایت گری ہوئی حرکت تھی مگر حیرت انگیز طور پر انجیل
میں حضرت یوحنااصطباغی کا ایسا کوئی بیان نہیں ملتا جس میں انہوں نے اِس
فعل قبیح پر ہیرودیس اینٹی پاس کو ملامت کا نشانہ بنایا ہو۔ اس کے برعکس وہ اینٹی
پاس کے اس فعل پرتنقید کرتے ہیں کہ اُس نے
اپنے بھائی کے جیتے جی اُس کی بیوی کو
اپنے پاس رکھ لیا حالانکہ اینٹی پاس تو بت پرست تھا جسے شریعت موسوی سے کوئی واسطہ
نہ تھا۔ ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ حضرت یوحنااصطباغی کسی ایسے شخص پر خلاف
شریعت فعل کا الزام لگائیں جو شریعت کو قبول ہی نہیں کرتا۔ عین ممکن ہے کہ حضرت
یوحنا اصطباغیؑ نے اُسے بھتیجی سے شادی کرنے پر ملامت کی ہو جسے انجیل نویسوں نے
بھائی کی بیوی سے شادی پر تنقید بنا کر پیش کر دیا ۔ اس ساری تاریخی حقیقت کو
سامنےرکھتے ہوئے دیکھا جائے تو اینٹی پاس کے پاس حضرت یوحنا اصطباغی کو گرفتار
کرنے اور ناحق قتل کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا چنانچہ اس صورت حال میں اِس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ
حضرت یوحنا اصطباغی کا خونِ ناحق بھی یہودیوں نے ہی کیا ہو مگر انجیل نویسوں نے
اسے کچھ اور رنگ دے کر پیش کر دیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کے متعلق دیگر
تاریخی ماخذات خاموش ہیں ۔ صرف عہدنامہ جدید ہی ہے جو ان کی مظلومانہ شہادت کو ایک
افسانوی رنگ دے کر پیش کرتا ہے تاہم اِس پورے افسانے کی تاریخی حیثیت نہایت مشکوک
اور اختراعی ہے جس وجہ سے انجیلی بیانیہ ناقابل قبول بن جاتا ہے۔
بائبلی اور رِبائی روایات کے مطابق حضرت زکریاہؑ کو یوآس
بادشاہ نے، اوریاہ بن سمعیاہ کو یہویاقیم نے قتل کیا جبکہ یسعیاہؑ نبی کو منسی بادشاہ کے حکم پر شہید کیا
گیا۔[27] ایک
قدیم مسیحی کتاب "The Book of the Bee"(۱۲۲۲ء) متعدد ایسے نبیوں کا ذکر کرتی ہے جنہیں یہودیوں نے
قتل کیا۔ میکاہؑ نبی کو یہورام بادشاہ نے، عاموس کو بیت ایل کے کاہن نے شہید
کیا۔اس کے علاوہ یرمیاہؑ نبی کو یہودیوں کے سردار نے سنگسار کرکے،حبقوق نبیؑ کو
یروشلم کے یہودیوں نے سنگسار کرکے اور حزقیلؑ نبی کو بابل میں یہودیوں کے سردار نے
شہید کیا۔
[2] Jo Ann Hackett, The Oxford Guide to People & Places of
the Bible, ed. Bruce M. Metzger and Michael D. Coogan, p 150–51.
[7] یہورام
کے باپ کا نام یہوسفط تھا اور اس نے اخی اب اور ایزبل کی بیٹی عتلیاہ سے شادی کی
جس نے اسے اس کے باپ کی نیک راہیوں سے گمراہ کر دیا چنانچہ اس نے اپنے چھ بھائیوں
کو مار ڈالا اور لوگوں کو جبرا بت پرستی کی طرف مائل کرنے لگا۔ حضرت الیاس علیہ السلام
کی پیش گوئی کے مطابق وہ ایک علاج بیماری میں مبتلا ہوا اور اسی بیماری میں مر
گیا۔(۲سلاطین۸ :۱۶-۲۴، ۲-تواریخ۲۱ :۴-۲۰)
[9] یوآس
اخزیاہ بادشاہ کا بیٹا تھا اور صرف سات سال کی عمر میں یہواہ کی سلطنت کابادشاہ
بنا ۔ یہویدع کاہن کے زیر اثر اس نے ہیکل کو بحال کیا اور بعل کی پوجا کو ختم کیا۔
یہویدع کی وفات کے بعد یوآس دوبارہ گمراہ ہو گیا اور اس نے دوبارہ بت پرستی شروع
کردی۔
[24] تو اپنی بھاوج کے بدن کو بے پردہ نہ کرنا کیونکہ
وہ تیرے بھائی کا بدن ہے۔(احبار۱۸ :۱۶) اگر کوئی شخص اپنے بھائی کی بیوی کو رکھے تو یہ
نجاست ہے۔اس نے اپنے بھائی کے بدن کو بے پردہ کیا۔وہ لاولد رہیں گے۔(احبار ۲۰ :۲۱)