پوادرانہ تلبیس کا تفصیلی
جواب
اس سلسلے کی پہلی تحریر کا لنک یہاں پیش خدمت ہے جہاں ہم نے کلیسیائی تاریخ کی روشنی میں یسوع مسیح کے جڑواں بھائی یہوداہ توما توام کی شخصیت کا تاریخی جائزہ لیا ہے۔ یہ تحریر ہمارے بلاگ کے اِس لنک پر ملاحظہ فرمائیں
اس سلسلے کی پہلی تحریر کا لنک یہاں پیش خدمت ہے جہاں ہم نے کلیسیائی تاریخ کی روشنی میں یسوع مسیح کے جڑواں بھائی یہوداہ توما توام کی شخصیت کا تاریخی جائزہ لیا ہے۔ یہ تحریر ہمارے بلاگ کے اِس لنک پر ملاحظہ فرمائیں
یہاں ہم ایک مقامی پادری صاحب کی طرف
سے کئےگئے چند اعتراضات و شبہات اور دعاوی
کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ سوالاً جواباً ہم یہاں ان کے اعتراضات و
دعاوی کاجائزہ لیتے ہیں۔
پہلا اعتراض: کتاب مقدس میں
کہیں بھی توما کو یسوع کاجڑواں بھائی نہیں کہا گیا اور مسیحیوں کے لیے صرف کتاب مقدس ہی حجت ہے۔
الجواب: یسوع
کے متعلق تاریخی حقائق اور الہام صرف انجیل میں موجود نہیں ہے بلکہ انجیل سے باہر
بھی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت انجیل نویسوں کا یسوع کے معاصر اسینی فرقے کو نظر انداز کرنا ہے ۔حالانکہ یوسیفس کی
تحاریر اور وادی قمران کےصحائف مین ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ یہ فرقہ پہلی صدی عیسوی میں موجود
تھا اور ان کے یسوع سے باہمی تعلقات بھی تھے۔ (یہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے) ان
اسینیوں کا تاریخ کے صفحات پر موجود
ہونا اور انجیل میں ان کا عنقا
ہونا اس حقیقت کا غماز ہے کہ حقائق صرف اناجیل اربعہ میں موجود نہیں ہیں۔لہذا اگر
یہوداہ توما کو صراحتاً یسوع کا جڑواں بھائی نہیں کہا گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں
کہ یہ بات درست نہیں۔اگر آپ بضد ہیں کہ حقیقت صرف انجیل میں ہے تو آپ انجیل یوحنا
اور مرقس سے یسوع کی پیدائش کے واقعات دکھا دیں۔ ان واقعات کی عدم موجودگی اس
حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یا تو
انجیل نویس ان سے واقف نہیں تھے یا پھر انہوں نے اسے شامل کرنا غیر ضروری
سمجھا۔(یاد رہے کہ ان اناجیل کے لکھے جانے وقت انہیں یکجا نہیں کیا گیا بلکہ یہ
کام تین سو سال کے بعد نقائیہ کونسل میں ہوا ہے)
دوسرا اعتراض: انجیل میں صراحت
سے دکھایا جائے کہ توما یسوع کا جڑواں بھائی ہے؟؟
الجواب: پادری
صاحب کا یہ اعتراض کٹ حجتی پر مشتمل ہے حالانکہ انجیل میں بہت سی باتیں ایسی ہیں
جو صراحتاً مذکور نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اناجیل متوافقہ میں یسوع نے کہیں بھی
صراحتاً خود کو المسیح نہیں کہا۔اسی طرح انجیل یوحنا میں صرف سامری عورت پر وہ
مبہم طور پر یہ بات ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا پادری صاحب چونکہ یسوع کو المسیح مانتے
ہیں لہذا ہم پادری صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انجیل نویسوں کے لغو دعوؤں کو
چھوڑ کر صراحتا لکھا دکھائیں کہ یسوع نے کدھر خود کو المسیح کہا؟دوسری بات یہ کہ
اگر اناجیل میں سب کچھ صراحتاً لکھا ہوتا تو آ پ کو کونسلز در
کونسلز بٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ حیرت ہے کہ آپ کا ایمان تو خود انجیل
کے بجائے کونسلز کی انسانی تعلیمات پر قائم ہے اور آپ نہایت ڈھٹائی سے ہم سے
مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم انجیل میں صراحت سے دکھائیں کہ کہاں لکھا ہے کہ توما یسوع
کا جڑواں بھائی ہے۔ اگرچہ انجیل میں توما کااصل
نام نہیں لکھا بلکہ اسکا عرفی نام تھامس یا توما مذکور ہے. لیکن ہم انجیل مرقس باب ۶کے فقرہ۳
میں پڑھتے ہیں کہ یسوع کے ایک بھائی کا نام یہوداہ تھا جسکی گواہی اسکے اہل محلہ
دے رہے تھے یہ تو ممکن نہیں کہ یہوداہ نام
کے یسوع کے دو بھائی بیک وقت زندہ موجود
ہوں اور ان میں امتیاز کے لیے کوئی قرینہ نہ پایا جائے۔ پس انجیل مرقس کا یہ یہوداہ ہی یہوداہ توما یا
توام ہے.ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ہمیں دکھا دیں کہ انجیل نویس او ر پولس نے
کدھر لکھا ہے کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے وہ الہامی سمجھ کر اور مقدس نوشتے کے طور پر
لکھ رہا ہے؟ اور اگر آپ نہیں دکھا سکتے تو اس کا مطلب اس کے ماسوا کچھ اور نہیں کہ
اناجیل کے روح القدس کی مدد سے لکھے جانے کا مسیحی دعویٰ ڈھونگ ڈرامے سے زیادہ
کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
تیسرا اعتراض: غناسطیوں کی وہ
حیثیت ہے جو قادیانیوں کی ہے۔
الجواب: اس
سے بڑ الطیفہ شاید ہی کوئی ہو کہ پہلی اور دوسری صدی سے تعلق رکھنے والے فرقے کو سولہویں صدی کی پیداوار کلیسیائی
بھگوڑے مارٹن لوتھر کے پیروکار بیسویں صدی میں آکر بدعتی اور قادیانی قرار
دیں۔حالانکہ یہ لوگ تو آپ کی نقائیہ کونسل سے بھی پہلے موجود تھےجبکہ آپ کے عقائد
کی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔غناسطی تو قادیانیوں کی مانند نہیں ہو سکتے البتہ آپ
ضرور قادیانیوں کی مانند ہیں جو یسوع مسیح کے سولہ سو سال بعد نمودار ہوئے اور
کاتھولک کینن کی چھ الہامی و مسلمہ کتب کا انکار کردیا۔ بار بار کلیسیا کی مالا جپنے
والوں کو اپنا یہ گھناؤنا اور شرم ناک فعل نظر نہیں آتا اور ہمیں کلیسیا کے نام کے
بھاشن کرائے جاتے ہیں کہ مسلمہ وہی ہے جو کلیسیا نے مستند قرار دیا تو پھر آپ کس
منہ سے کاتھولک کی منتخب کردہ چھ الہامی کتب کا انکار کرتے ہیں؟یاد رہے کہ ان چھ
کتب کوبارہ سوسال تک کلیسیا میں مقدس نوشتوں کے طور پر پڑھا جاتارہا ہے ۔
چوتھا اعتراض: مسیحیت پر بات
کرتے ہوئے غیر انجیلی حوالہ دینا جہالت کا ثبوت ہے بالکل اسی طرح جس طرح اسلام پر
بات کرتے ہوئے غیر قرآنی حوالہ دینا جہالت ہے۔
الجواب: پادری
صاحب اگر اپنے اس دعوے میں درست ہیں تو پھر اپنے اس دعوے کو بلاتاویل و توجیح انجیل
سے دکھا دیں کہ"یسوع نے اپنی بشریت کو صلیب پر قربان کیا تھا؟"۔دوسرے
بات یہ کہ آپ کے پاس جب عہدنامہ جدید موجود ہے تو پھر بار بار کونسلز بٹھانے کی
ضرورت کیوں پیش آرہی تھی؟ یعنی آپ کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق یہ ساری کونسلز
جہالت و ضلالت کا عالیشان نمونہ ہیں اور آپ ان کونسلز کے عقائد کو ماننے والے جاہل
اور گمراہ افراد ہوئے نیز درحقیقت آپ نے ہی جہالت کی ایک طویل تاریخ رقم کر رکھی
ہے۔ اور پھر یہ بات بھی تو ہے کہ پادری شفیق کنول صاحب نے بھی متعدد مناظروں میں
احادیث اور تاریخ اسلامی کے حوالے پیش کیے ہیں تو پھرکیا آپ پادری شفیق کنول صاحب
پر بھی جاہل کا فتوی لگانا پسند کریں گے کیونکہ انہوں نے بھی "غیرقرآنی"
حوالہ جات بطور استدلال پیش کیے ہیں۔
پانچواں اعتراض: اگر یہوداہ توما
یسوع کا جڑواں بھائی تھا تو قرآن کریم کو اس کی تصدیق کرنی چاہیے تھی۔
الجواب: قرآن
کریم تو سورۃ فاتحہ میں ہی مسیحیوں کو "ضالین" کہہ کر گمراہ قرار دیتا
ہے۔یہی تو آپ کی گمراہیت ہے کہ یسوع مسیح کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کے بڑوں نے ان کے
متعلق طرح طرح کے عقائد گھڑ لیے اور ان کی تعلیمات کا بڑا حصہ فراموش کردیا۔ نیز اگر قرآن کا بیانیہ آپ کے نزدیک
درست ہے تو پھراناجیل کا بیانیہ یقیناً
غلط ہے کیونکہ ولادت یسوع سے متعلق قرآنی بیانیہ اور انجیلی بیان میں بڑی حد تک
تفاوت موجود ہے۔
پہلا دعوی: توما
عبرانی کا نام ہے جبکہ توام یونانی کا نام ہے کیونکہ یہودیوں میں ایک ہی شخص کے دو
نام رکھنے کا رواج تھا۔
الجواب: بفرض
محال اگر یہوداہ توما کے دو نام تھے تو پھر بائبل سوسائٹیز نے اسم معرفہ کا ترجمہ
کرکے دجل اور فریب سے کام کیوں لیا ہے؟ گڈ نیوز بائبل میں صاف طور پر Thomas The Twin لکھا ہے جبکہ دیگر تراجم
میں توما ڈیڈیمس لکھا ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کرنے کے لیے بائبل سوسائٹیز
نے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا ہے۔اور پھرآپ کو ہر حوالہ انجیل سے مانگنے کی عادت ہے تو
آپ انجیل سے دکھا دیں کہ یہودیوں میں یہ رواج موجود تھا کہ وہ دودو نام رکھا کرتے
تھے۔باقی شاگردوں کو چھوڑ کر صرف یسوع کے
ہی دو نام پیش کردیں ۔( عمانویل کا حوالہ د ے کر مزید دجل و فریب سے کام لینے کی
کوشش بےسود ہوگی)پتہ نہیں کب ان دیسی عیسائی پادریوں کو یہ بات سمجھ آئے گی کہ ہر
بات کلام میں نہیں لکھی ہوتی بلکہ متن کے حقائق کو جاننے کے لیے دیگر ماخذات کی
طرف رجوع کرنا پڑتا ہےجیساکہ توما رسول کے اعمال اور اس کے بعد لکھی جانے والی
دیگر کتب جن سے یہوداہ توما کے ہندوستان جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ
توما کا اصل نام یہوداہ تو خود آپ کو توما کی انجیل سے پتہ چلتا ہے جسے انجیل ہندی بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی اناجیل میں
تو توما کا اصل نام ہی موجود نہیں ہے اور آپ ہمیں اونچے اونچے بھاشن دے رہے ہیں۔
اناجیل میں توما کا نام مفقود ہونے کے
باوجود آپ بار بار ڈھٹائی سے انہی اناجیل کا حوالہ دے رہے ہیں جن کی وقائع نگاری
دیگر تاریخی کتب کی نسبت مشکوک ہے۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ انجیل میں مکمل تاریخی
حقائق موجود نہیں ہیں بلکہ انجیل نویسوں نے متعدد جگہ کتمان حق سے کام لیا ہے لہذا ہمارے دعوے کو کسی درجے میں غیر انجیلی
تو کہا جا سکتا ہے مگر غیر تاریخی نہیں کیونکہ اس تاریخ کے مصنف خود ابتدائی مسیحی
تھے جن کے توما کے متعلق عقیدے کو آبائے کلیسیا نے تو رد نہیں کیا مگر دو ہزار سال
بعد چند دیسی پوادران نے اٹھ کر تاریخی حقیقت کو جھٹلا کر ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی
نئی تاریخ رقم کردی۔
دوسرا دعوی: اعمال ِتوما کتاب
کو کلیسیا نے رد کردیا تھا کیونکہ اس کی باتیں تاریخی معیار پر پورا نہیں اتر رہی
تھی۔
الجواب: ہمارا
سوال یہ ہے کہ وہ کون سا تاریخی معیار تھا جس کی بنیاد پر اعمال توماکو مسترد کر
دیا گیا؟ اس حوالے سے پادری صاحب نے کوئی لب کشائی نہیں کی حالانکہ بات اگر تاریخی
معیار کی ہے تو اناجیل اربعہ کا زمانہ تصنیف بھی حتمی طور پر آج تک کسی کو نہیں
معلوم۔اسی طرح ان اناجیل میں متعدد تاریخی اغلاط موجود ہیں جن کی کوئی توجیح نہیں
کی جاسکتی۔مثال کے طور پر متی یسوع کی
پیدائش ہیرودیس اعظم کے دور میں ۶
قبل مسیح میں ذکر کرتا ہے جبکہ لوقا کے
مطابق یسوع کی پیدائش قیصر اگستس کی اسم نویسی کے دوران ہوئی جس کا زمانہ ۶ عیسوی ہے۔ اس گھناؤنی
تاریخی غلطی کے باوجود اگر اناجیل مستند ہیں تو پھر اعمال توما کیسے غیر مستند
ہوگئی۔کیا اس کتاب کا جرم صرف اتنا تھا کہ یہ پولوسی نظریات کی تائید نہیں کرتی؟
نہایت دوغلا معیار ہے کہ عہدنامہ جدید کی
تمام انسانی کتب کو(جوکہ نامعلوم افراد کی تصانیف ہیں) صرف کلیسیا کے کہنے پر
"خدا کا کلام" مان لیا جاتا ہے اور باقی کتب کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔
تمام عالم پولوسیت کو ہمارا چیلنج ہے کہ وہ اُس کلیسیائی معیار کو بیان کریں جس کے
مطابق کلیسیا نے صحف مقدسہ کو قبول و رد کیا۔
تیسرا دعوی: مسیحیوں کے لیے
صرف انجیل مستند ہے۔
الجواب: ا
گر مسیحیوں کے لیے صرف عہدنامہ جدید ہی
مستند ہے تو پھر وہ نسخہ سینائی (codex sinaiticus)میں
سے کلیمنٹ کے خط ، برنباس کے خط، اور ہرمس کا چرواہا نامی کتب کو نکال کر آگ لگا
دیں کیونکہ یہ انسانی کلام کے جسے عہدنامہ جدید کے قدیم نسخے میں شامل کر رکھا ہے۔
حالانکہ کرنتھیوں کے بشپ ڈایونی سیئس کے مطابق قدیم زمانے سے اس خط کو کلیسیا میں
پڑھنے کا دستور چلا آرہا ہے۔(بحوالہ صحت کتب مقدسہ،مطبوعہ ۱۹۵۲ء، ص۲۱۶-۲۱۵) ہم
پادری صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قدیم کلیسیا پر بھی فتوی جاری کریں کہ وہ
گمراہ ہو کر انسانی احکامات کی تعلیم پر عمل پیرا تھے تبھی انہوں نے نہ صرف اس خط
کو کلیسیا میں مقدس نوشتے کے طور پر پڑھا بلکہ عہدنامہ جدید کے کینن اور کوڈیکس
میں بھی شامل کردیا۔ اسی طرح پادری صاحب کو چاہیے کہ چونکہ ساری سچائی اناجیل میں
موجود ہے لہذا وہ کونسلز کی تعلیمات کو انسانی تعلیم کہہ کر فی الفور خیر آباد کہنے
کی اخلاقی جرات پیدا کریں اور اس ساری تعلیم کو مسیحی ایمان کے لیے خطرہ قرار دے
کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔
چوتھا دعوی: یسوع اس لیے دنیا
میں تشریف لائے تاکہ اپنی بشریت کو صلیب پر قربان کر دیں۔
الجواب: پادری
صاحب کے دعوے کے مطابق وہ صرف انجیل کو مانتے ہیں تو وہ فریسیانہ طرز سے اجتناب کرتے ہوئے جناب یسوع کی
زبان مبارک سے ایسی کوئی تعلیم دکھا دیں جہاں انہوں نے صراحتاً یہ فرمایا ہو کہ وہ
اپنی بشریت کو صلیب پر قربان کرنے آئے ہیں۔
پانچواں دعوی: توما کے ہندوستان
جانے کی گواہی نظریات رسل نامی کتاب اور
دیگر آبائے کلیسیا کی تحاریر سے بھی ملتی ہے ۔
الجواب: موصوف
پادری صاحب کے اس اعتراض کا ہم نے اپنے مضمون میں کافی شافی جواب دے دیا ہے تاہم
یہاں چند امور پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ پادری صاحب نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ
تیسری صدی عیسوی میں لکھی گئی جبکہ اعمالِ
توما کا زمانہ تصنیف دوسری صدی عیسوی ہے
اور جہاں تک آبائے کلیسیا کی مختلف تحاریر کی بات ہے تو آپ کے ہیرو ولیم جی
ینگ کے مطابق ان کا زمانہ تصنیف چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی ہے۔ الحمدللہ ہم
کتابوں کو اچھی طرح پڑھتے ہیں کیونکہ نہ ہی ہمارے ہاتھ میں بطالت پیدا کرنے والا
باطل قلم ہے اور نہ ہی ہم اپنی آنکھ میں آپ کی طرح شہتیر رکھتے ہیں لیکن جب قدیم
ترین شہادت موجود دہو تو چوتھی صدی اور پانچویں صدی کی تھرڈ کلاس تحاریر کا حوالہ دینا علمی
نہیں بلکہ احمقانہ رویہ کہلاتا ہے۔ پادری صاحب کو چاہیے کہ دوسری صدی عیسوی
کی کسی قدیم کتاب سے یہوداہ توما کے ہندوستان جانے کے متعلق کوئی گواہی پیش کریں۔
وگرنہ اعمال ِتوما کے مدتوں بعد لکھی جانے والی نظریات رسل جیسی دیگر "جعلی
کتب" ممکنہ طور پر قدیم ماخذ مثلاً اعمال توما سے مستعار لے کر ہی لکھی گئی
ہو گی۔مزید براں ہم سے انجیلی ماخذ سے حوالہ جات طلب کرنے والے پادری صاحب جن کتب
کا حوالہ خود دے رہے ہیں۔وہ بھی تو غیر انجیلی ہی ہیں۔یہ کیسی منافقانہ روش ہے جس
کا ہمیں پوادر کی طرف سے سامنا ہے۔
چھٹا دعوی: یسوع
کے شاگرد پوری دنیا میں پھیل گئے۔
الجواب: بقول
پادری صاحب ،وہ صرف انجیل کی مانتے ہیں تو ہمیں انجیل سے دکھا دیں کہ یسوع کے
شاگرد پور ی دنیا میں پھیل گئے صرف اعمال کی کتاب میں یسوع کے منہ میں الفاظ ڈال
کر عالمگیریت ثابت نہیں کی جا سکتی۔(یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارا یہ دعوی ہرگز
نہیں کہ سچائی صرف اور صرف قرآن اور انجیل میں موجود ہے بلکہ ان کے علاوہ دیگر
ماخذات بھی حقائق پر مبنی ہوتے ہیں تاہم اتمام حجت اور پادری صاحب کے دجل پر مبنی دعوے کی حقیقت ظاہر کرنے کےلیے ہم
پادری صاحب سے یہ مطالبہ کررہے ہیں)
ساتواں دعوی: یسوع ساری
دنیا کے لیے آئے تھے۔
الجواب: پادری
صاحب کا یہ دعوی بھی لغو اور سراسر کذب
بیانی پر مشتمل ہے کیونکہ یسوع اپنی حین حیات کبھی بھی غیر اقوام کی طرف متوجہ
نہیں ہوئے۔کنعانی عورت کی مثال دیتے ہوئے پادری صاحب نے فرمایا کہ "پہلے
لڑکوں کوسیر ہونے دے"سے مراد ہے کہ یسوع اس کے ایمان کو چیک کررہے تھے
حالانکہ (پادری صاحب کے معیار کے مطابق ) انجیل میں کہیں بھی نہیں لکھا ہو اکہ
یسوع اسے چیک کررہے تھے بلکہ یسوع نے آخر میں اسے کتا سمجھ کر ہی روٹی ڈالی (یعنی اس کی بیٹی کو شفا دی) اور اس عورت نے خود کو کتیا سمجھ کر ہی روٹی کو
کھا لیا ۔اس بات کا پتہ اس کے جواب سے چلتا ہے کہ "کتے بھی لڑکوں کی روٹی کے
ٹکڑوں سے کھاتے ہیں"(مرقس۷
:۲۸)دوسری طرف خود مرقس کی انجیل میں ایسا کوئی
ثبوت نہیں ملتا کہ یسوع کی دعوت غیر اقوام کے لیے بھی تھی۔یسوع کی تعلیمات کو
آفاقی ثابت کرنے کے لیے مرقس کے آخر میں بارہ فقرات کا اضافہ کیا گیا(یعنی کھلم
کھلا بدمعاشی سےتحریف کی گئی) کیونکہ قدیم نسخوں میں مرقس کے آخری بارہ فقرات شامل
نہیں ہیں۔ اس بات کا اقرار پادری برکت اللہ نے صحت کتب مقدسہ میں بھی کیا ہے اور
متعدد انگریزی بائبل کے ورژن میں اس مقام پر اس کی وضاحت کردی گئی ہے حتی کہ
آکسفورڈ بائبل کی ۱۹۶۵ء
کی اشاعت میں تو سرے سے مرقس کے آخری بارہ فقرات ہیں ہی نہیں۔ جب سب سے قدیم انجیل
نویس مرقس کو یہ بات نہیں معلوم تو مرقس سے مواد لے کر انجیل لکھنے والے متی کو یہ
بات کس نے بتا دی؟ (کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت کے مطابق متی نے مرقس کو انجیل کو
سامنے رکھ کر اپنی کتاب مدون کی) سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو کام خود یسوع نے ساری
زندگی نہیں کیا اس کے کرنے کا شاگردوں کو حکم کیسے دے دیا؟وہ تو واضح فرماتے ہیں
کہ میں اسرائیل کی بھیڑوں کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ رہی بات اعمال
کی کتاب کی تو اعمال کی کتاب میں بھی شاگرد غیر اقوام کے بجائے صرف یہودیوں کو
کلام سناتے تھے۔اگر شاگردوں کے پاس غیراقوام کے کچھ افراد آئے بھی تو وہ God fearer تھے۔ اب اگر آپ اس وقت کے
یہودی حالات سے واقف ہونگے تو آپ کو بخوبی پتہ ہوگا کہ یہ گاڈ فیرئیر کون تھے لیکن
اگر نہیں پتہ تو یشوع بن سیراخ کی کتاب کے مطابق آپ کو اپنی جہالت پر شرمندہ ہونا
چاہیے کہ آپ ناواقفیت کے باوجود خشکی و تری کا دورہ کرکے لوگوں کو دگنا ہلاکت کا
فرزند بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔(معروف مغربی اسکالر ہائم مکابی نے اپنی کتاب Paul the mythmaker and the invention of Christianity میں
اس حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے جس کا ہم نے
ترجمہ کیا ہے اور وہ ترجمہ چھپ چکا ہے ۔لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی مارکیٹ میں آجائے
گا) غیر اقوام کی طرف جانے والا پہلا فرد
پولس تھا جس نے شاگردان یسوع سے کھلم کھلا بغاوت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ غیر
قوموں کا رسول ہے اور پھر وہ غیر قوموں کو مسیحی (درحقیقت پولوسی) بنانے کے لیے جت
گیا اور یہودیوں کے لیے یہودی بنا،رومیوں کے لیے رومی بنا اور یونانیوں کے لیے
یونانی بن گیا۔یہ موضوع کافی طویل اور خوف
طوالت مانع ہے اسی لیے چند سطور پر ہی اکتفا کیا ہے۔
آٹھواں دعوی: یسوع کے جی اٹھنے
کے بعد غیر اقوام میں اس کے جی اٹھنے کی
خوشخبری کی منادی کی گئی۔
الجواب: یسوع
کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا عقیدہ خالص پولس کی ایجاد ہے اور اس عقیدے کامعمار
پولس ہے جس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اگر یسوع مردوں میں سے نہیں جی اُٹھا تو
ہمارا ایمان بھی بےفائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بلکہ ہم خدا کے حضور جھوٹے گواہ
ٹھہرے۔(۱-کرنتھیوں۱۵ :۱۴)یسوع نے اپنی پوری زندگی
ایسی کوئی تعلیم نہیں دی کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھ کر لوگوں کو نجات دیں گے بلکہ
انہوں نے شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو کوئی ان میں سے چھوٹے سے
چھوٹا حکم پورا کرے گا اور اس کی تعلیم دےگا وہ خدا کی بادشاہت میں سب سے بڑا کہلا
ئے گا۔(متی ۵ :۱۹) یہ
بھی ایک طویل موضوع ہے جسے اختصار کے ساتھ لکھنا مشکل ہے۔
نواں دعوی: شاگرد یسوع کے
زندہ خط تھے؟
الجواب: پادری
صاحب کا یہ قول سراسر انسانی تعلیم اور کذب بیانی پر مشتمل ہے کیونکہ ان کے معیار
کے مطابق انجیل میں کہیں نہیں لکھا کہ شاگرد یسوع
کے زندہ خط تھے یا یسوع نے کسی موقع پر انہیں خط کہہ کر پکارا ہو یا خط
لکھنے کا حکم دیا ہو۔ تاہم اگر پادری صاحب کے دعوے کو مان لیا جائے تو پھر ان زندہ
خطو ط کے ہوتے ہوئے کاغذی خطوط بےمعنی اور فضول ہو جاتے ہیں لہذا ہماری پادری صاحب
سے استدعا ہے کہ وہ عہدنامہ جدید سے پطرس و یہوداہ کے خطوط کو فی الفور باہر نکال
دیں کیونکہ زندہ خطوط کے ہوتے ہوئے کاغذی خطوط پر انحصار کرنا حماقت اور بےوقوفی
ہے۔نیز پادری صاحب کا دعوے ماننے پر ایک اور سنگین مسئلہ اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے کہ
مقدس پولس تو یسوع کے شاگرد ہی نہیں تو پھر انہیں کیسے زندہ خطو ط کی تعریف میں
شامل کیا جائے گا؟ ج س م ف
دسواں دعوی: غناسطیوں کو
کلیسیا نے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔
الجواب: آپ
کی کلیسیا کی کیا اوقات کہ آپ ان کو مانیں؟آپ کی کلیسیا تو خود نقائیہ کونسل (۳۲۵ء )کی پیداوار ہے جبکہ غناسطیوں کا زمانہ پہلی اور دوسری صدی
عیسوی ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ غناسطیوں نے پولوسی کلیسیا کو کبھی
تسلیم نہیں کیا حتی کہ پولوسیوں نے رومی اقتدار میں آکر ان لوگوں کو تہہ تیغ کیا
اور ان کی کتب کو نذر آتش کردیا۔اگرآپ کو غناسطیوں سے اتنی ہی چڑ ہے تو غناسطی فکر
کی حامل انجیل یوحنا کو عہدنامہ جدید سے الگ کردیں کیونکہ انجیل یوحنا کی تمہید
مکمل طورپر غناسطی فکرِ ثنویت سے بھری ہوئی ہے۔اسی طرح نور کے فرزند اور تاریکی کے
فرزند کا عقیدہ بھی غناسطیوں میں موجود تھا جو کہ انجیل یوحنا میں بھی پایا جاتا
ہے۔اس حوالے سے ہم نے اپنے مضمون میں بھی کچھ اعتراضا ت کاجواب دیا ہے۔ غناسطیوں
کے بارے میں مزید جاننے کے لیے مارون میئر
کی کتاب"The Gnostic Bible"پڑھ
لیں ان شاء اللہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے اور پھر آئندہ کے لیے آپ کسی کو قاموس
الکتاب جیسی گھٹیا کتاب کا طعنہ دینا بھول جائیں گے کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ اگر
آپ کچھ نہیں پڑھتے تو سامنے والا بھی کچھ نہیں پڑھتا۔اگر مارون میئر کی کتاب نہ
ملےتو مجھ سے اس کا پی ڈی ایف لے سکتے ہیں۔
گیارواں دعوی: کلیسیا متفق ہے کہ
غناسطی کتب جعلی ہیں۔
الجواب: جس کلیسیا کے اتفاق کا آپ نرسنگھا بجا
رہے ہیں وہ کلیسیا تو خود متعدد انسانی کونسلز کی پیداوار ہے۔سوال یہ ہے کہ دو سو
سال تک ہر مسیحی فرقہ ایک دوسرے پر مشرک
اور بدعتی ہونے کے فتوے لگا رہا تھا تو آپ
کیسے کہہ سکتے ہیں کہ صرف آپ کی کلیسیا ہی دودھ کی دھلی ہے؟ ایک طرف آپ فرما رہے ہیں کہ ہم صرف انجیل کی
مانتے ہیں اور دوسری طرف کلیسیا کے اتفاق کو بطور استدلال پیش کر رہے ہیں؟ آپ
انجیل سے وہ معیار دکھائیں جس کے مطابق غناسطی کتب جعلی ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔