Pages

Most Popular

جمعرات، 12 اپریل، 2018

یہوداہ اسکریوطی کون تھا؟


یہوداہ اسکریوطی کون تھا؟
زیرنظر مترجمہ تحقیق یہودی النسل  ڈاکٹر ہائم مکابی کی کتاب "Judah Iscariot & the Myth of Jewish Eveil" کے باب نمبر8"Who was Judah" کا ترجمہ ہے ۔اس باب میں ڈاکٹرہائم مکابی  نے یہوداہ اسکریوطی کی اصلیت کے بارے میں تاریخی حقائق کی روشنی میں بحث کی ہے۔جوکہ یہوداہ کی شخصیت کے نت نئے پہلوؤں کو سامنے لاتی ہے۔یاد رہے کہ ڈاکٹرہائم مکابی کاخاندان یہودی ربائیوں  کاخاندان ہے۔ان کے دادا مشہور ربائی رہ چکے ہیں۔ہائم مکابی تالمودی روایات اوریہودی ومسیحی مذاہب کی تواریخ پر ہائی پروفائل اسکالر سمجھے جاتے ہیں اور یہودی تاریخ اور عہدجدیدکے تاریخی پس منظر پر کئی کتب بھی تحریر کرچکے ہیں۔ میں اپنی اس چھوٹی سی کاوش کو اپنے والدین کی طرف انتساب کرتی ہوں جن کی شفقت ومحبت اور دعاؤں کے باعث میں نے علم حاصل کیا اور یہ ترجمہ کرنے کے قابل ہوسکی ۔اس کے ساتھ ساتھ میں  اپنے سوشل میڈیاپیج وگروپ مسلم مسیحی مکالمہ آفیشل کی  پوری ٹیم کی بھی شکرگزار اورممنون ہوں جن سے مجھےبہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
والسلام
یہودا کی رزمیہ کہانی میں غداری کے سرسری خاکے نے فقط آغاز میں ہی ہمیں اس بات پر مائل کیا ہے کہ ہم یہودا ہ کی پیدائش سے لے کر موت تک اس کی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق چھپی ہوئی روایات کو تفصیل سے بیان کریں۔ہم جان چکے ہیں کہ یورپی زبانوں میں 'یہودا' کا نام 'غدار' کی علامت کے طور پر ضرب المثل بن کر زبان زد عام ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ 'یہوداہ' کا یہودیوں کے ساتھ اچھا مصنوعی تعلق کبھی زائل نہ ہوا۔ جب بھی کوئی معاملہ جس میں کوئی یہودی ملوث نہ ہو، میں کسی شخص کو 'یہوداہ' کے طور پر بدنام کیا جاتا ہے تو اس کا مفہوم اور نتیجہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ شخص ایک یہودی کی طرح برا انسان ہے جس نے اپنے اعتماد کے ساتھ اسی طرح غداری کی جس طرح یہودیوں نے یسوع کے ساتھ غداری کی تھی۔لہذا اگر کوئی غیر یہودی بھی یہ نام رکھ لے تب بھی 'غدار ' کے معنوں میں 'یہوداہ' کا لفظ سامی مخالف الزام و اتہام سے پرُ ہوتا ہے۔تاہم یقیناً اس لفظ کی سامی مخالفت کی طاقت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب کسی شخص یا لوگوں کو یہودیوں کی طرح غداری کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے۔چونکہ مسیحیوں اور حتی کہ بعد کے مسیحیوں کی پرفریب زندگی میں یہودی اصلی غداروں کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں جہاں یہودی نازک صورتحال اور شکست کے وقت اس کردار (غداری) کے لیے منتخب کیا گئے ہیں۔
 مسیحیت میں عقائد کی زوال پذیری نے بھی اس صورتحال پر کوئی اثر نہ ڈالا۔ جب کوئی مذہب زوال پذیر ہوتا ہے تو اس کے عقائد تیزی سے بوسیدہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں،لیکن اس کے فریب کو ختم ہونے میں وقت لگتا ہے۔'یہوداہ' کے نام کے ساتھ یہودی مخالف اتہام تب تک چسپاں رہتا جب تک مابعد مسیحی تحاریک میں نیکی اور بدی کے مسیحی کائناتی افسانے کی گونج سنائی دیتی ہے ۔درحقیقت مابعد مسیحی تحریکوں کی یہودی مخالفت زیادہ سخت اور بے رحم ہے کیونکہ ان تحاریک میں اس نظریے کا فقدان ہے کہ یہودا ہ اپنی تمام تر برائیوں کے ساتھ مسیحی حیات کے تسلسل کے لیے کسی نہ کسی طرح لازمی ہے۔نازازم اور کمیونزم کی مابعد مسیحی تحریکوں نے یسوع کی ہزار سالہ بادشاہت کے عقیدے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے ساتھ منسلک بدی کے عقیدے کو بھی وراثت میں حاصل کیا کہ نجات کے لیے اب یہودیوں کی ضرورت نہ رہی لہذا انہیں نیست و نابود کر دینا چاہیے۔کیونکہ مسیحیوں کے نزدیک ہزار سالہ بادشاہت مستقبل بعیدتھی لیکن مابعد مسیحی تحاریک کے مطابق یہ بادشاہت پہنچ چکی تھی جو یہودیوں کے لیے موت کا وقت تھا ۔
لیکن یہودا کے افسانے کے پیچھے تاریخی حقیقت کیا ہے؟ اصل یہودا ہ اسکریوتی کون تھا اور ناصرت کے یسوع کی کہانی میں اس نے کیا کردار ادا کیا؟ اس سوال کے جواب کی تلاش ہمیں واپس اناجیل تک لے جاتی ہے جس میں واضح فریب کے باوجود ابتدائی حقیقی معلومات کو اب تک ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔
جب ہم تاریخی یہودا ہ کی شخصیت کی دوبارہ تصویر کشی کرنے لگتے ہیں (جیسا کہ یسوع کے معاملے میں کرتے ہیں) تو ہمیں دستیاب دستاویزات کی سطور کے درمیان ان اشارات پر غور کرنا چاہیے جو ابتدائی قصوں میں سے محفوظ رہ گئے ہیں۔یہ تفتیش و تحقیق محض غیر عملی اور مذہبی نہیں ہے۔تفتیش کے اس عمل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ افسانے کس طرح تخلیق کیے جاتے ہیں اور تفتیش سے ہمیں ان تعصبات کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے جو افسانہ  گھڑ کر قائم کیے گئے ہیں۔اگر آخر پر سوالات جنم لیں یا ایک ایسا نظریہ قائم ہو جائے جو صرف ظن پر مشتمل ہو تو بھی اس کے باوجود ہم ان استدلات کو تقویت نہیں دیتے جس کا مقصد گمان پیدا کرنا ، اور افسانوں اور فریب میں رنگے اذہان کی متعصب تحقیق سے گریز کرنا ہوتاہے۔
تاریخی یہودا کے بارے میں قائم مختلف نظریات کا ابتدائی نقطہ اس کا نام 'اسکریوتی' (iscariot) ہے، اس نام کا مصدر کیا ہے؟ کیا یہ عبرانی لفظ ہے یا یہ لفظ کسی اور زبان سے آیا ہے؟ کیا یہ کوئی عرفی نام ہے یا کوئی لقب ہے یا کسی جگہ کا نام ہے؟ کیا یہ نام صرف یہودا کو دیا گیا ہے یا اس نے یہ نام اپنے خاندان سے وراثت میں پایا ہے؟
 اسکریوتی (iscariot) کی عام وضاحت کے مطابق یہ لفظ دو عبرانی الفاظ کا یونانی زبان میں نقل کیا ہوا ترجمہ ہے: اش ish جس کا معنی 'آدمی' ہے اور قیرت (qeriyoth) جو کہ ایک جگہ کا نام ہے جس کا عبرانی بائبل میں قریوت (kerioth) کے نام سے تین بار تذکرہ کیا گیا ہے۔اس طرح اسکریوٹ (Iscariot) کا معنی 'قریوت کا آدمی' ہے۔یرمیا اور آموس کے صحیفے میں یہ شہر موآب کے شہروں کی فہرست میں آیا ہے لیکن یشوع کی کتاب میں یہ شہر یہودیہ کے شہروں کی فہرست میں شامل ہے. جب یشوع کی کتاب کا یونانی زبان میں ترجمہ کیا گیا تو عبرانی لفظ قریوت (qeriyoth) کا ترجمہ جگہ کے نام کے طور پر نہیں کیا گیا بلکہ اس کا ترجمہ حصرون سے منسلک 'شہروں' کے طور پر کر دیا گیا۔ جدید ماہر قدیمہ جات کی کھدائیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حصرون ایک وسیع علاقہ تھا۔ بائبل کی سطور میں یہ ایک مشکوک بات ہے کیونکہ قریوت کو یہودیہ میں شامل دکھایا گیا ہے۔جبکہ درحقیقت یہ ایک شہر کا نام ہے اور کسی نے بھی یہودا ہ کے موآب سے تعلق کی بابت کوئی نظریہ پیش نہیں کیا۔
اس کے باوجود کسی دوسرے نظریے کی غیر موجودگی میں اس نظریے کو وسیع پیمانے پر قبول کر لیا گیا کہ یہودا ہ ،یہودیہ میں شامل ایک علاقے قریوت سے آیا تھا۔ دو قابل غور نظریات اس نقطے کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔پہلا ثبوت انجیل یوحنا میں ملتا ہے جس میں یہوداہ کے باپ سائمن (ممکن ہے کہ وہ بھائی ہو) کو اسکریوتی کہا گیا ہے (انجیل یوحنا 6:71 اور 13:26)۔ان حوالوں سے عرفی نام ہونے کا امکان ختم ہو جاتا ہے کیونکہ دو اشخاص کا ایک ہی عرفی نام نہیں ہو سکتا۔لیکن ایک ہی خاندان کے دو اشخاص کا ایک ہی شہر سے آنا معقول بات لگتی ہے۔انجیل یوحنا کے کچھ خاص نسخوں میں بھی ہمیں 'اسکریوتی' (iscariot) کے متعلق ایک اور ثبوت ملتا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک متنی روایت کے مطابق 'اسکریوٹ' سے مراد یہودا ہ کو ایک خاص شہر سے آیا ہوا شخص سمجھا گیا، اگرچہ یہ بات مشکوک رہی جبکہ یہ ایک حقیقی جغرافیائی روایت ہے، یا ایک ایسے نام کا لسانی مطلب کھوجنے کی کوشش ہے جس کا مطلب پہلے ہی پراسرار ہو چکا ہو۔
قریوت کے شہر کا ٹھیک ٹھیک مقام تلاش کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔جرمن سکالر فرانٹس بہل اپنی کتاب فلسطین کا جغرافیہ (Geography des Atten Palestina) میں قریوت شہر کی شناخت جدید عرب شہر قریاتین کے نام سے کرتے ہیں اور اپنے دعوے کی بنیاد اس حقیقت پر رکھتے ہیں کہ کسی شہر کے نام غیر معمولی طور پر لمبے عرصے تک برقرار رہتے ہیں، لہذا یہ فرض کرنا بعد الفہم نہیں کہ یہ نام دو ہزار سال تک تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ محفوظ رہا۔بدقسمتی سے قریاتین اس علاقے میں واقع نہیں ہے اور حصرون کے قدیم شہر سے کافی دور واقع ہے جو بائبل میں مرقوم قریوت سے منسلک دکھایا گیا ہے۔واضح طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے بائبلی علوم میں قریوت نامی کسی بھی شہر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔اس نقطے سے یہ نظریہ قائم کر لیا گیا کہ اس نام کا کوئی شہر موجود نہیں تھا لیکن یسوع کے زمانے میں اس شہر کی موجودگی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایک سوال مزید پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا اسکریوٹ (iscariot) دو الفاظ اش ish (آدمی) اور قریوت (qeriyoth) کا مرکب ہے؟ اگر اسکریوٹ کا مطلب 'قریوت کا آدمی' ہے تو عہد نامہ جدید میں پہلے لفظ ish کا ترجمہ کیوں نہیں کیا گیا؟ یونانی زبان میں اس لفظ کا ترجمہ 'آدمی' aner کیوں نہیں کیا گیا؟ یقیناً '.... کا آدمی' کی اصلاح اس زمانے کی عبرانی زبان کی لسانی اصلاح ہے. لیکن '..... کا آدمی' کی اصلاح کو کبھی بھی نام کا حصہ نہیں سمجھا گیا اور جب بھی کسی نام کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا گیا تو اس اصطلاح کا بھی صراحتاً ترجمہ کر دیا گیا۔
مجموعی طور پر 'قریوت کا آدمی' والا نظریہ وسیع پیمانے پر قبولیت کے باوجود ناپائیدار ہا ہے،پھر بھی ان روایات سے پر اثر نتائج اخذ کر لیے گئے اور وہ نتائج اس حد تک سرائیت کر چکے ہیں کہ بلاحجت حقائق میں تبدیل کیے جا چکے ہیں۔دوسرے شاگردوں کے بر عکس یہوداہ اسکریوتی کا گلیل کے بجائے یہودیہ کا باشندہ ہونے کی بابت قول متواتر نزاع کا باعث بنا رہا ہے۔اس قول نے یہوداہ کو شاگردوں میں ایک ایسی بے جوڑ شخصیت میں تبدیل کر دیا ہے جو اس کے ان ساتھیوں سے موافقت نہ رکھتا ہو ، جنہوں  نے خود یسوع کے ساتھ گلیل کا مشاہدہ کیا۔دوسروں (شاگردوں) کی نسبت یہودا کے متعلق دلائل اعلیٰ درجے کی معاشرتی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ مشرق سے اس کی یروشلم میں آمد ہی اس کو دارالسلطنت یروشلم کی ریت رواجوں سے روشناس کرواتا ہے۔یہ بات ہی یہودا ہ کو گنوار شاگردوں اور یسوع سے جداگانہ پہلو عطا کرتی ہے۔ اس کے اعلیٰ خاندانی پس منظر نے اس کو 'خدا کی بادشاہت' میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے پر عزم بنا دیا تھا،لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ یسوع کو سیاسی طاقت حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہیں تو وہ فریب سے باہر نکل گیا اور یسوع کو دغا دے گیا۔
ان تمام مفروضات کی بنیاد یہودا ہ کا یہودیہ کے قصبے قریوت میں پیدا ہونے کے مفروضے، اور اوپر بیان کیے گئے مکمل طور پر مشکوک علم لسانیات پر رکھی گئی ہے۔ان کے علاوہ یہودا ہ کا یہودیہ کے ساتھ تعلق ظاہر کرنے کے لیے ثبوت کا کوئی ایک ٹکڑابھی موجود نہیں ہے۔ یہودا کے نام سے ایسا کچھ ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ یہ نام گلیل میں ایک عام نام تھا۔شدت پسند تحریک کا بانی یہودا ہ گلیلی، گلیل کا رہنے والا اس کی ایک واضح مثال ہے اور دوسری مثال یسوع کا جڑواں بھائی یہودا ہ توام ہے (متی 13:55)۔لہٰذا زیادہ احتمال اسی بات کا ہے کہ دوسرے شاگردوں کی طرح یہودا اسکریوتی بھی گلیلی تھا۔
بہت سے علماء 'قریوت کے آدمی' کے نظریے سے غیر مطمئن ہیں اور انہوں نے اس نام کی دوسرے طریقوں سے وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔کچھ علماء نے رائے دی ہے کہ اسکریوٹ (iscariot) اشکاروی (issacharite) کی ایک شکل ہے جس کا مطلب 'اشکار' (issacharite) کے قبیلے کا فرد ہے۔لسانی طور پر یہ ایک پرکشش تصور ہے لیکن اس نظریے کا درست ہونا ناممکن ہے،کیونکہ اشکار کا قبیلہ بہت پہلے ہی ختم ہو چکا تھا اور اس وقت کوئی وجود نہ رکھتا تھا۔شمالی سلطنت کی ایشیائی سلطنتوں کے فتح ہونے کے بعد شکست اور جلاوطنی کے باعث جو دس قبائل گم ہو گئے تھے، ان میں اشکار کا قبیلہ بھی شامل تھا۔
جبکہ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ اسکریوٹ کا لفظ (iscariot) شہر کے نام سے اخذ نہیں کیا گیا بلکہ یہ اس کا عرفی نام تھا جو شاگرد کے طور پر 'خزانچی' کی ذمہ داری سونپنے کے بعد یہودا کو دیا گیا تھا۔اس نظریے کی بنیاد اس دعوے پر رکھی جاتی ہے کہ اسکریوٹ کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ سکورٹیا (scortea) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب 'چمڑے کا تھیلا' ہے (یوحنا 12:6 اور 13:29)۔یہاں پر استعمال کیا گیا لفظ glossokoman ہے جو کسی بھی طرح اسکریوٹ کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتا۔لیکن یہ نظریہ قائل کرنے والا نہیں ہے کیونکہ ابتدائی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ جماعت میں خزانچی کے طور پر یہودا کا تقرر مستند نہیں ہے کیونکہ ابتدائی مسیحیت میں ایسا کوئی نظریہ نہیں ملتا،بلکہ یہودا کو لالچی ثابت کرنے کے لیے ارتقائی طور پر یہ نظریہ گھڑا گیا ہے۔
ایک قابل قدر معقول نظریے کے مطابق اسکریوٹ (iscariot) کا لفظ سوخار (sychar) شہر سے ماخوذ ہے جو کہ سماریہ کا شہر تھا جیسا کہ یوحنا (4:5) میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ اسکریوٹ کا مطلب 'سوخار کا آدمی' ہے، کیونکہ نام کا پہلا حصہ ish ہے جیسا کہ 'قریوت کا آدمی' ہے، لیکن دوسرا عبرانی نام خواہ کچھ بھی تھا اس کا یونانی ترجمہ سوخار (sychar) کر دیا گیا۔یہ نظریہ کہ یہودا ہ یہودیہ کا شہری ہونے کے باعث بے جوڑ آدمی تھا لیکن دوسرے نظریے کے مطابق سماریہ کا شہری بن جاتا ہے جن کو یہودیوں کی ایک بڑی جماعت بدعتی خیال کرتی تھی،یہ بات ناممکن نظر آتی ہے لیکن ایسا ہو بھی سکتا ہے۔لیکن اناجیل میں دکھایا گیا ہے کہ سماریہ کے رہنے والوں کا سلوک ریاکاری پر مبنی تھا 'اس نے اپنے شاگردوں کو ان (سماریہ) کے شہروں میں داخل ہونے سے منع کیا (متی 10:5)۔جب یسوع نے یروشلم کی طرف سفر کیا تو سماریہ کے باشندوں نے اپنی سلطنت سے گزرنے کے دوران ان کے لیے مزاحمت پیدا کی جو زائرین کے ساتھ ان کی عام مخالفت کو ظاہر کرتا ہے۔دست اندازی کرنے والوں کو آسمان کی آگ سے تباہ کرنے کی خواہش کرنے پر اگرچہ یسوع نے شاگردوں کو ملامت کی تھی۔یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ یسوع کے گروہ اور سماریہ کے باشندوں کے درمیان تعلقات اچھے نہیں تھے۔یہودیوں کے برعکس 'جن کی ہم جان کر عبادت کرتے ہیں وہ نہیں ہے' (یوحنا 4:22)۔رابائیوں کی طرح اس (یسوع) نے  سامریوں کو اچھے کام کرنے کے احکامات دیئے (لوقا باب 10 فقرہ 30 تا 36) اور ایسے واقعات کو بطور مثال پیش کیا لیکن اس (یسوع)نے اسی بات پر اصرار کیا کہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ ایسے حالات ایک سامری کو شاگرد کے طور پر قبول کرنے کے لیے ناموافق اور ناممکن نظر آتے ہیں۔
مزید برآں سوخار (sychar) کا لفظ مشکلات کو جنم دیتا ہے۔انجیل یوحنا کے علاوہ کسی بھی یہودی اور غیر یہودی دستاویزات میں اس نام کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔بہت سے علماء کا ماننا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ سوخار (sychar) کا لفظ سماریہ (shechemn) کی تحریف شدہ شکل ہے۔پہلے اس کی شناخت جیروم کے طور پر ہوئی۔یوحنا کے بیان کے مطابق اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ یہ شہر زمین کے اس قطعے کے نزدیک تھا جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیا تھا۔اس کے باوجود کچھ علماء نے سوخار شہر کو جدید 'عسکر askar ' کے نام سے شناخت کیا ہے جو کہ بنوس (shechem) کے شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے،لیکن اس نظریے کو نظر انداز کر دیا گیا۔اگر اس کا مطلب بنوس (shechem) ہے تو اس کے مصدر کا نظریہ لسانیاتی طور پر مضبوط نظریہ ہے۔
تاہم جو مشکلات 'سوخار کا آدمی' کی بابت نظریے میں ہے وہی مشکلات 'قریوت کا آدمی' کی بابت نظریے میں بھی ہیں۔یہ سمجھنا مشکل ہے کہ 'آدمی' کی اصلاح کا یونانی زبان میں ترجمہ کیوں نہیں کیا گیا؟ اور شہر کے نام کے ساتھ ضم کر کے مرکب بنا دیا گیا جس سے یہودی تقدیم ظاہر نہیں ہوتی۔
اسکریوٹ (iscariot) کے معنی اور مصدر کی بابت ایک اور نظریہ پیش کیا گیا جو ان مشکلات سے آزاد اور خالی ہے ، جس کو محض نظریاتی اختلاف کی بنیادوں پر رد کر دیا گیا۔اس نظریے کے مطابق اسکریوٹ کا لفظ لاطینی لفظ سیکیریس (sicarius) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب 'کھینچنے والا آدمی' ہے۔یہ لفظ ان شدت پسند تحریک کے بہت سے اراکین کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو یہودیہ پر رومی قبضے کے شدید مخالف اور مسلح مزاحمت کرتے ہوئے رومیوں کے خلاف برسر پیکار تھے۔اس نظریے کی خاص بات کیا ہے؟ یہ نظریہ صرف لسانیاتی طور پر ہی مضبوط نہیں بلکہ یہ ایک قابل غور حقیقت بھی ہے کیونکہ یسوع کا ایک اور شاگرد بھی 'شمعون زیلوتیس' کہلاتا تھا۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع نے ایک اور ایسے شخص کو بھرتی کیا ہوا تھا جس کا عرفی نام تحریک میں اس کی سابقہ رکنیت کو ظاہر کرتا تھا۔لفظ سکیریس (sicarius) کے آرامی زبان میں ترجمہ کے شواہد رابائی علوم میں بھی ملتے ہیں۔ان رابائی علوم کے مطابق رومیوں کے خلاف یہودی جنگ (66 تا 70 عیسوی) میں کچھ خاص باغی 'ابا سکرا' یا 'ابا زیلوتیس' کے نام سے مشہور تھے۔اسم اور عرفیت کا یہ مجموعہ بالکل اسی طرح کا ہے جس طرح کا مجموعہ یہودا اسکریوتی کے نام میں دیکھنے کو ملتا ہے۔حقائق کے مطابق رابائی محفوظ دستاویزات میں اسکریوٹ (iscariot) کے لفظ کا حرف آئی ( i ) شامل نہیں ہے، لیکن ایک ترجمہ کیے ہوئے نام کا مختلف حالتوں میں پایا جانا غیر معمولی بات نہیں ہے کیونکہ فلسطین کے مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگ کسی بھی غیر ملکی زبان کے لفظ کا تلفظ ادا (pronunciation) کرنے کی بابت مسائل کو حل کرنا جانتے تھے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عہد نامہ جدید کے کچھ نسخوں میں اسکریوٹ کا لفظ آئی ( i ) کے بغیر سکیریوٹ (skariotes) سکیریوتھ (skarioth) یا سکیریوٹا (scariota) کی تین حالتوں میں لکھا نظر آتا ہے۔
خاص تحقیق اور سوچ و بچار کی مدد سے یسوع کے شاگردوں کی جماعت میں داخل ہونے سے پہلے یہودا اسکریوتی کا زیلوتیس تحریک میں جنگجو کا کردار ثابت کیا جا سکتا ہے، جو بہت سے علماء کے لیے مشکل کام ثابت تھا۔یہ بات تسلیم کرنا بہت مشکل ہے کہ یسوع کے شاگردوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا پس منظر رکھتا ہوگا جبکہ اس کے علاوہ یسوع کے مزید دو اور شاگرد بھی ایسا ہی پس منظر رکھتے تھے۔اس لیے بذات خود یسوع کے متعلق اور اس کے مسیحا ہونے کے دعوے کے مقاصد معلوم کرنے کی بابت خاص تحقیق اور سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ایک ایسی تحریک جس نے زیلوتیس قائدین کی ایک بڑی تعداد کو بھرتی کیا تھا، آرتھوڈوکس نظریات کے برعکس ضرور اسی (زیلوتیس) تحریک کی مانند نظر آتی ہے۔
لسانیاتی طور پر تحقیق اور غور و فکر کے علاوہ بھی بائبل کے مسوداتی نسخوں سے یہودا ہ اسکریوتی کے 'یہوداہ  زیلوتیس' ہونے کی بابت دلچسپ ثبوت ملتے ہیں۔یسوع کا زیادہ سرگرم سیاسی مقام حاصل کرنے کی ترغیب کو ثابت کرنے کی غرض سے ہم نے پہلے ہی صفحہ نمبر 31 پر انجیل یوحنا 14:22 میں مرقوم سطور میں سازشی طور پر کی ہوئی خرد برد پر پہلے ہی غور و فکر کیا ہے، جس میں ایک شاگرد یہودا ہ کو بڑی احتیاط سے 'اسکریوتی نہ تھا' کہہ کر امتیاز برتنے اور الگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ثابت کریں گے کہ یہ سطور اصل میں یہودا اسکریوتی کے متعلق ہیں اور ان سطور میں اس کو غدار کے بجائے غیر تفہیمی فعال ارادیت پسند کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔انجیل یوحنا کے تیسری اور چوتھی صدی کے قبطی نسخوں سے بھی 'اسکریوٹ کے زیلوتیس ہونے' کے بابت تصورات اور نظریات کی تصدیق ہوتی ہے، جن میں 'اسکریوتی نہ تھا' والی سطر میں 'نہ' کا لفظ شامل نہیں ہے، لیکن اسکریوٹ کے لفظ کے بجائے وہاں 'کینانائٹس' (kananites) کا لفظ لکھا ہوا ہے۔قبطی نسخوں میں اس مقام پر یسوع سے سوال و جواب کرنے والا شخص' یہودا کینانائٹس' (یہودا قینائی) بنتا ہے جس کا عبرانی ترجمہ 'قینائی' (qan, ai) ہے جس کا مطلب 'زیلوتیس' ہے۔اناجیل نویسوں نے دیگر مقامات (متی 3:18 او 10:4) پر بھی اس لفظ 'قینائی' میں خرد برد (اور تتربتر) کرنے کی کوشش کی ہے اور شمعون زیلوتیس کو شمعون قینائی کہا ہے۔لہذا قبطی نسخے (coptic version) ہی ہیں جن میں یہ بات محفوظ رہ گئی ہے کہ انجیل یوحنا باب 14 میں یسوع سے گفتگو کرنے والا شخص درحقیقت یہودا اسکریوتی ہی تھا (یہاں 'نہ' کا لفظ ترک ہو جاتا ہے) اور اس کا متبادل نام 'یہودا قینائی' یعنی 'یہودا زیلوتیس' تھا۔کسی لکھنے والے نے انجیل یوحنا کے بعد میں لکھے جانے والے نسخوں میں 'نہ' کے لفظ کا اضافہ کر دیا تھا، کیونکہ وہ لکھنے والا جانتا تھا کہ ان سطور میں مرقوم یہودا اسکریوتی کا کردار یسوع مخالف تصورات و کردار سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسی لیے ان دونوں کے درمیان گفتگو کو کسی نیک یہودا کے ساتھ منسوب کر دیا گیا۔
اناجیل کی حتمی ترمیم نو سے بہت پہلے کے عرصے میں چرچ کی تاریخی دستاویزات میں بھی 'یہودا زیلوتیس' نامی شخصیت کی موجودگی کے ثبوت ملتے ہیں۔متی کی انجیل (باب 10 فقرہ 2 تا 4) میں بھی رسولوں کی ایک فہرست بیان کی گئی ہے، اس فہرست میں ہم یہودا نامی صرف ایک شاگرد کو دیکھتے ہیں جس کا نام یہودا اسکریوتی تھا۔لیکن ہم ' لبیاس' (Lebbaeus) نام کا ایک اور شاگرد دیکھتے ہیں جس کا عرفی نام 'تدی' تھا (دوسری کتابوں میں)۔ہم مرقس 6:19 میں بیان کی گئی شاگردوں کی فہرست میں بھی 'تدی' کا نام دیکھ سکتے ہیں۔لوقا اپنی فہرست میں 'تدی' نامی کسی بھی شاگرد کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا، بلکہ اس کے بجائے اس جگہ' یعقوب کا بھائی یہودا' کا نام دیکھتے ہیں (لوقا 6:19) پھر یہ تصور پیش کیا گیا کہ 'تدی' یہودا کا دوسرا نام ہے اور کچھ علماء نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ یہ فعل کی تبدیل شدہ شکل ہے، جبکہ یہ ایک غیر موافق نظریہ ہے۔سب سے اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ متی کی انجیل کے کچھ ابتدائی لاطینی نسخوں میں 'تدی' کی جگہ 'یہودا زیلوتیس' کا نام لکھا ہوا ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ 'تدی' (یہ جس کو بھی ظاہر کرتا ہے) واضح طور پر یہوداہ کو بدل کر لکھا گیا تھا۔
ہم انجیل یوحنا کے قبطی نسخے سے بھی یہوداہ زیلوتیس (یہودا قینائی کی شکل میں) کی تصدیق کر سکتے ہیں۔اس طرح اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ یہودا اسکریوتی ہی یہوداہ  زیلوتیس تھا۔تاہم یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ یہودا ہ اسکریوتی یہوداہ  زیلوتیس نہیں تھا بلکہ یہ یعقوب کا بھائی یہودا تھا، جس کا ذکر لوقا کی اناجیل میں بھی ملتا ہے. یہ نتیجہ ان علماء نے اخذ کیا ہے جو یوحنا 14:22 والے 'اسکریوتی نہ تھا' کو یہودا کے بجائے دوسرا یہودا خیال کرتے ہیں. یہ ایک ممکنہ حل پیش کیا گیا لیکن میری رائے کے مطابق یہ خیال درست نہیں ہے، کیونکہ یہوداہ  نام کے دو شاگرد تھے جن میں سے ایک کا عرفی نام زیلوتیس تھا اور دوسرے کا عرفی نام اسکریوتی تھا یہ وہ نام تھا جس کے متعلق سریع الاعتقادی سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا معنی زیلوتیس ہے۔شاگردوں کے ناموں کی تمام فہرستیں یہوداؤں کی تعداد کی بابت اس قدر مشکوک ہیں کہ کوئی سمجھ نہیں سکتا کہ وہ ایک تھا یا دو تھے، یا یہودا زیلوتیس کی طرح کوئی ایسا شخص بھی تھا جس کو چھپا دیا گیا ہو۔یہ فہرستیں کیا چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں؟ میں سب سے بہترین نظریہ پیش کرونگا کہ اس وقت یہودا ہ نامی صرف ایک شاگرد تھا جس کا نام یہودا اسکریوتی تھا۔ اور جب اس کو غدار کے افسانوی کردار کے لیے منتخب کیا گیا تو تاریخی یہودا ہ کے بارے میں اچھی روایات کسی دوسرے یہوداہ کی طرف منتقل کر دی گئیں جو پہلے پہل کسی عرفی نام کے ساتھ منسوب کی گئیں، لیکن مختلف القابات سے نواز نواز کر آہستہ آہستہ اسے یہودا اسکریوتی سے الگ شخصیت بنا دیا گیا (غالباً اسی وجہ سے حواریوں کی تعداد پندرہ سے تجاوز کر گئی، از مترجم)۔
اس نظریے کی تائید میں لسانی اور مسواداتی شواہد موجود ہیں کہ اسکریوٹ کا مطلب زیلوتیس ہے جو کہ سائیکیریس (sicarius) سے اخذ کیا گیا ہے۔تاہم یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا معقول ترین متبادل 'قریوت کا آدمی' ہے مسائل کے باوجود اس نظریے کو عام طور پر سب سے بہترین نظریہ سمجھا گیا ہے۔لہذا گلیلیوں کی جماعت میں ایک علیحدہ یہودیہ کا باشندہ ہونے کی بابت عام طور پر قبول کیے گئے نظریے تک خود کو محدود کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے برخلاف دوسرے شاگردوں کی طرح یہوداہ کا بھی گلیلی ہونے کے واضح نظریے (جس کا اناجیل میں صاف انکار کیا گیا ہے) کو قبول کرنے کی تمام تر وجوہات موجود ہیں۔
 اس نقطے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہودا اسکریوتی ہی یہودا زیلوتیس تھا، تو یوحنا کا اسے شمعون اسکریوتی کا بیٹا (یا بھائی) قرار دینے کی حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔یہ 'قریوت کے آدمی' کے نظریے کی مضبوطی ہی ہے جو اس مسئلے کی حسب اطمینان وضاحت کرتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے دو افراد اپنے شہر کے نام کو عرفی نام کے طور پر استعمال کرتے تھے (لیکن اگر ایسا ہی ہے تو 'جداگانہ شخص' کے نظریے کو کیسے بیان کیا جائے گا؟ دو شخصیات یہودا کے نرالے پن کی واضح وضاحت فراہم نہیں کر سکتیں)۔لیکن زیلوتیس کا نظریہ دونوں شخصیات کے عرفی ناموں کی حسب اطمینان وضاحت فراہم کرتا ہے؛ ایک ہی تحریک کے دو ارکان ایک ہی عرفی نام کو یکساں طور پر استعمال کر سکتے ہیں، خاص طور پر یہ بات اس وقت اور بھی ممکن ہو جاتی ہے کہ (شمعون) 'کے بیٹا' کا درست ترجمہ (شمعون) 'کا بھائی' کے طور پر کیا جائے۔درحقیقت اگر ہم ایک بار اسکریوتی کا مطلب زیلوتیس بیان کرتے ہیں تو ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ شمعون اسکریوتی اور شمعون زیلوتیس ایک ہی شخص کے نام ہیں، جس طرح یہودا اسکریوتی اور یہودا قینائی (زیلوتیس) ایک ہی شخص کے دو نام ہیں۔اس معاملے میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کہ یسوع کا حواری شمعون زیلوتیس یہودا اسکریوتی کا بھائی تھا۔کیونکہ ایک ہی وقت میں ایک شخصیت سے منسوب دو ناموں کا ایک ہی وقت میں بھائی ہونا اور بھائی نہ ہونا ناممکن بات ہے۔
اس موضوع کو ختم کرنے سے پہلے ان نظریات کو بیان کرنا ضروری ہے جن میں اسکریوٹ کے لفظ کو عبرانی اور آرامی روٹ shqr سے ماخوذ بتایا گیا ہے، جس کا مطلب 'دھوکہ دینا' ہے۔یہ مطلب ایک مغالطہ پیدا کرتا ہے۔یہ مفروضہ بھی پیش کیا گیا کہ اس کی روٹ sgr ہے جو کہ عبرانی میں ہفل فارم یا ایکٹو وائس ظاہر کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کا معنی 'دشمن کے حوالے کرنا' ہے۔اس معاملے میں لسانیاتی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کس طرح ان دو روٹس سے 'اسکریوٹ' کا لفظ اخذ کیا گیا؟ لیکن اصل اعتراض یہ بنتا ہے کہ اس وضاحت سے اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس نام کو یہودا نے یسوع کا شاگرد ہونے کے زمانے میں خود اختیار نہیں کیا تھا بلکہ بغاوت کے بعد اس کو یہ نام دیا گیا۔پھر بھی تمام شواہد اسی بات کی تائید کرتے ہیں کہ اس کا شروع سے یہ ہی نام تھا،اس لیے یہ وضاحت غیر موثر ہے۔اس کے باوجود اس بات کا یقینی امکان ہے کہ اس کی بغاوت کے بعد اس کے نام اسکریوتی کا غداری کے ساتھ اس طرح کا کوئی تعلق نہیں بنتا کہ جس طرح اس لفظ کی وضاحت کی جاتی رہی ہے۔رابائی علوم میں بھی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور لاطینی میں بھی جہاں بدی کا کردار ادا کرنے والے اشخاص کے ناموں کی ہتک آمیز توضیح کی گئی۔
بہت سے علماء نے نظریاتی میدانوں میں اختلاف کی بنیاد پر یہودا کو شاگردی سے برخاست کرنے کا تصور پیش کیا۔دوسرے شاگردوں کی بابت معنی خیز معلومات حاصل کر کے اس نتیجے کو پرزور انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ یسوع کی تحریک زیلوتیس تحریک سے مماثلت رکھتی تھی اور آرتھوڈوکس مسیحیت کے برعکس دنیا اور جنگ کی مخالف نہیں تھی۔کچھ علماء نے یہودا اسکریوتی کی زیلوتیسزم کے ساتھ رفاقت کو شاگردی سے برخاستگی کی ظاہری وجہ کے طور پر بیان کیا ہے۔اگر یہودا زیلوتیس تھا اور رومیوں کے خلاف گوریلا جنگ میں شامل تھا تو اس نے اپنا دنیاوی عسکری انداز برقرار رکھا ہوگا جو یسوع کے لیے اجنبی ہوگا۔یسوع کی انوکھی بات سے متاثر ہو کر (اس نظریے کی بنیاد پر) اس نے زیلوتیس تحریک چھوڑ دی کہ یسوع اصل میں مسیحا ہے جو اپنے معجزاتی طریقوں سے رومیوں کو مغلوب کر دے گا، لیکن آہستہ آہستہ اس پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ یسوع رومیوں کو مغلوب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ اس نے اپنی مسیحائی کو ہر لحاظ سے روحانی انداز میں پیش کیا۔غلط راہ پر لگانے کے باعث یہودا نے مایوسی اور پریشانی میں یسوع سے انتقام لیا اور اس سے بغاوت کر کے اس کے دشمنوں تک پہنچا دیا۔
ایک اور متبادل نظریے کے مطابق یسوع کو مسیحا سمجھنے کی بابت یہودا کا ایمان کبھی بھی کم نہ ہوا تھا بلکہ وہ یسوع کی تاخیر کے باعث بےقرار ہو گیا تھا اور یہوداہ  نے یسوع سے غداری کر کے شدید مجبور حالات کو ایک نتیجے پر پہنچانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ رومیوں کو شکست دینے کے لیے اپنی معجزانہ طاقت استعمال کر سکے، اس نظریے کے مطابق یہودا کوئی ولن نہ تھا بلکہ اچھے مقاصد رکھنے والا شاگرد تھا جو سیاسی اقدامات اٹھانے کی بابت یسوع کی نارضا مندی کو نہ سمجھ سکا بلکہ وہ (یسوع) نجات کے روحانی تصور سے مرغوب تھا اور یہی بات رومیوں کی شکست سے غیر متعلق تھی۔واقعات و حالات کی ایسی صورتحال نہ صرف علماء میں بہت مقبول ہے بلکہ یسوع کے بارے میں ناول اور فلمی نوشتے لکھنے والے مصنفین اور ابتدائی مسیحیت میں بھی بہت مقبول رہی ہے اور اس صورتحال کے ساتھ ساتھ 'قریوت کے آدمی' کا نظریہ بھی بہت مقبول رہا جس کے مطابق یہودا کو یہودیہ کا باشندہ ہونے کے باعث دوسرے شاگردوں سے الگ تھلگ رنگ دے دیا گیا۔یہ منظر نامہ یہودا کو ایک ایسا قابل فہم مقصد تحریک عطا کرتا ہے جو کہ قصے کو بیان کرنے کے لیے مناسب ہے اور جو شیطانیت سے مغلوب اناجیل کے ناگوار قصوں سے یہودا کو بچاتا ہے اور اس کو وہ رمزی اہمیت عطا کرتا ہے جو یسوع کے زمانے میں اسے حاصل تھی جو روحانی مسیحا کے بجائے سیاسی مسیحا کو تلاش کر رہے تھے۔ لہٰذا خاص نقطہ نظر اور حب الوطنی کا جذبہ رکھنے کے باعث یہودا کے ساتھ ہمدردی کا جواز موجود ہے لیکن اس کے باوجود یسوع اور صلیب پر اس کے کفارے کے مشن کی روحانی طور پر قدر دانی کرنے میں ناکامی پر یہودا اور یہودیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔ یہ بہت ہی حیرانی کی بات ہے کہ یہ الگ الگ سمت رکھنے والی متضاد باتیں ناول نگاروں اور فلمی داستانیں لکھنے والے مصنفین کے لیے کشش کا باعث بنیں جو اپنے نظریے کے سامی مخالف مفہوم کا پردہ فاش ہونے سے بچانے کے لیے مسیحی مذہبیت کے جنون کو بچانا چاہتے تھے۔
اس کہانی کے اشارے روایات میں بھی ملتے ہیں اور یہودا کا زیلوتیس تحریک کے ساتھ الحاق کی طرف اشارہ کرنے والی متضاد انجیلی سطور کی بنیاد پر جلد ہی یہودا کی بغاوت کو تاریخی حیثیت دے دی گئی۔اس سے خودکشی کرنے کا یسوع کا اپنا ارادہ اور اس وقت کی یہودیت سے روگردانی کا دعوٰی بھی ظاہر ہوتا ہے۔یہ نظریہ شیطانی انداز میں بیان کیے گئے قصے جس کے مطابق یسوع سے بغاوت کرنے والا یہوداہ یہودیوں اور ان کے مذہب کو عیب والا ثابت کرتا ہے، کے بجائے اس قصے کو قابل قبول انداز میں پیش کرتا ہے۔
ایک نظریے کے مطابق یہودا نامی شخصیت کا کوئی وجود نہ تھا بلکہ یہ ابتدائی چرچ کا تخلیق کیا ہوا مکمل افسانوی کردار ہے۔جے-ایم-رابرٹسن واضح طور پر اقرار کرتے ہیں کہ یہودا اسکریوتی کے کردار کو ایک پروپیگنڈہ کے طور پر تخلیق کیا گیا جس کا مقصد یہودیت اور یروشلم کے خلاف ایک ہتھیار تیار کرنا تھا۔ولیم بنجامین سمتھ (William Benjamin Smith) اے ڈریوز (A. Drews) جی شلاگر (G. Schlager) ایل جی لیوے (L. G. Levy) اور ایس لوبنزکے (S. Lobinski) نے بھی اس نظریے کو پرزور انداز میں بیان کیا ہے۔کچھ دوسرے علماء  نےاس کا مقصد پروپیگنڈہ کے بجائے کہانی کے مشکل خلا کو پر کرنے کے لیے افسانوی انداز میں کیا گیا ارتقاء بیان کیا ہے جس کا مقصد 'یسوع کیسے گرفتار ہوا؟' جیسے سوالات کا جواب تخلیق کرنا تھا۔فرینک کرموڈے (Frank kermode) نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ یہودا کی کہانی تاریخی خلا کو پر کرنے کے بجائے ضرورت کی بنیاد پر مخالفین کو روائیتی مواد فراہم کرنے کے لیے بلوئی اور گھڑی گئی ہیں، کیونکہ مخالفت کا عنصر پیدا کیے بغیر اس کہانی کو مکمل کرنا ناممکن تھا (وہ اپنے کام کی بنیاد ولادیمیر پروپ viladimir propp کی تحقیق پر رکھتا ہے جس نے مخالفین کے لیے ضروری افسانوی کہانیوں کی ایک بڑی تعداد کا تجزیہ کیا)۔
 یہ تمام علماء خاص بصیرت رکھتے تھے اور انہوں نے معقول نظریات پیش کیے تھے۔وہ علماء یوحنا کی انجیل میں تفصیلاً بیان کیے گئے خاکے کے مرکزی خیال اور مقاصد سے حاصل کیا گیا نظریہ اور قرون وسطی میں تخلیق کی گئی افسانوی داستانوں کی بہتات اور ارتقاء کے پہلوؤں کا خاص ادراک رکھتے تھے۔لیکن اب بھی یہ سوال پوچھنا باقی ہے کہ تاریخی یہودا کون تھا؟ جے ایم رابرٹسن (J. M. Robertson) کی طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سوال کا جواب ملنا ناممکن ہے،کیونکہ اگر افسانے کو لیپنے کے لیے یہودا نامی شخص اگر حقیقی طور پر موجود ہوتا تو بہت غیر ممکن الوصول بات ہوتی۔اسی طرح تاریخی یسوع کے بارے میں اس کے وجود کا انکار کرنے والے (جی اے ویلG. A. Well) علماء بھی ہیں اور کچھ علماء ایسے بھی ہیں جنہوں نے یسوع کے وجود کو تو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی تاریخی معلومات دستیاب نہ ہونے کا اقرار کیا ہے جن میں روڈولف بلٹمین (Rudolf bultmann) جیسے علماء شامل ہیں۔میرا اپنا نظریہ یہ ہے کہ مخلوط معلومات رکھنے والی دستاویزات میں ان کی ظاہری حالت کے پیچھے تاریخی اہمیت کا حامل ایسا کافی مواد موجود ہے جس کو بعد کے مصنفین اپنے قلم سے گم کرنے میں ناکام رہے۔رجحان و رغبت کے طریقے کو استعمال کر کے اس تاریخی مواد کی شناخت کی جا سکتی ہے جو انیسویں صدی میں تخلیق کرنا شروع کیا گیا اور جس کے ایسے نتائج برآمد ہوئے جو مسیحی عقائد کے لیے اس قدر بھیانک ثابت ہوئے (یہودی یسوع اور یہودی یروشلم چرچ کی وضاحت کرتے ہوئے) کہ ان کو بیسویں صدی میں دوسرے پسندیدہ طریقوں جیسا کہ تنقید وغیرہ کے بعد تبدیل کر دیے گئے۔
رغبت اور رجحان کے طریقوں کی مدد سے تاریخی یسوع اور تاریخی یہودا دونوں کی درست تصویر کافی حد تک دریافت کی جا سکتی ہے۔یہوداہ کی کہانی کے مسائل حل کرنے کے دوسرے طریقوں کو نفسیاتی اور تحلیل نفسی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق تحقیق اور جانچ پڑتال سڈنی کے ٹیراکوو (Tarachov) نے تھیوڈر ریک (Theoder Reik) کے طریقے کو استعمال کیا جو فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریے کا ماہر تجزیہ کار اور ثقافتی افسانہ نگاری کو سمجھنے کا ماہر تھا۔اپنے مضمون 'یہودا ایک محبوب قاتل' (Judas the beloved executioner) میں وہ اپنے نظریے کی بنیاد کچھ خاص انجیلی دلائل پر رکھتا ہے (جس کی نشاندہی سابقہ علماء نے بھی کی ہے) جس کے مطابق غداری سے پہلے صرف ایک شاگرد ہی نہیں تھا بلکہ یسوع کا ایک خاص منظور نظر شاگرد تھا۔اس نظریے کی دلیل اور شواہد ہمیں عشائے ربانی کے آخری کھانے کی میز پر بھی نظر آتی ہے جب یہودا یسوع سے اگلی نشست پر ٹیک لگائے بیٹھا نظر آتا ہے۔ٹیراکوو (Tarachov) کے نظریے سے قبل بھی یہ نظریہ پیش کیا جاتا رہا ہے کہ یہودا درحقیقت سب سے محبوب شاگرد تھا اور اس کا ذکر یوحنا نے بھی کیا ہے۔ایک اور مصنف سی ایس جریفین (C. S. Griffin) نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ چوتھی انجیل کا مصنف یہودا اسکریوتی تھا(Griffin 1892
ابتدائی چرچ کی دستاویزات میں پیش کی گئی شاگردوں کی فہرستوں کا مطالعہ کرنے والے کچھ مصنفین اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شاگردوں کی فہرست میں یہودا اسکریوتی کا نام سر فہرست تھا جس کا ثبوت اناجیل میں بھی ملتا ہے۔ٹیراکووز (Tarachov) اپنے کام کی بنیاد ایسے نظریات پر رکھتا ہے جس کی مدد سے یسوع کی گرفتاری کے وقت یہوداہ کے بوسے کو ایک نئے رنگ میں پیش کیا جا سکتا ہے. ٹیراکوو (Tarachov) کے نظریے کے مطابق یہ بوسہ پیار کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے جس کا باخبر اور اعلانیہ ہونا ضروری نہیں ہے۔لیکن دو آدمیوں کی کہانی میں متوازیت ہونا زیادہ اہم بات ہے۔یہودا اسکریوتی یسوع کا عکس ہے (اس نظریے کے اثبات میں یہودا اسکریوتی کے بچپن کا وہ قصہ بیان کیا جاتا ہے جس کے مطابق وہ یسوع کے بھائی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اور اسی کی مانند شاہی ترکے کے دعویدار کے طور پر سامنے آتا ہے)۔خدا باپ کے حکم کے سامنے یسوع ظالمانہ قوت کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے، اس کے برعکس یہودا موت کو اٹھا کر خدا بیٹے کے پاس لے آتا ہے۔یہودا سکے کا دوسرا رخ ہے، جس وقت یسوع اطاعت کا مظاہرہ کرتا ہے یہودا بغاوت کرتا ہے۔یہودا یسوع کا برا رخ ہے جو یسوع کی اس اذیت پسندی کا ثبوت ہے جو یسوع کی جذباتی اذیت سے محظوظ ہونے کی عادت کے پیچھے چھپی ہے۔
یسوع اور یہودا کے درمیان پیار کے تعلق کو اس اذیت پسندی اور جذباتی اذیت سے محظوظ ہونے کی عادت کے تعلق سے بھی سمجھا جاسکتا ہے جس میں عمیق محبت کا عمل قتل اور قتل کے سامنے ہتھیار ڈال دینا ہے۔تاہم مصنف کے نظریے کے مطابق یسوع اور یہودا ہ میں یکسانیت ظاہر ہوتی ہے۔یسوع کا خود کو قربانی کے لیے پیش کرنا باپ کے ساتھ بیک وقت محبت اور نفرت کے جذبے کو الگ الگ کرنے کا راستہ ہے۔وہ (یہودا کے طور پر) باپ کو برباد کرنا چاہتا ہے اور (یسوع کے طور پر) اپنی بربادی کو قبول کر لیتا ہے اور تمام انسانیت کی موت کا کفارہ دے دیتا ہے۔جب یہودا یسوع کو برباد کرتا ہے تو وہ اصل میں خود کو برباد کرتا ہے۔یہ یسوع اور یہودا کے درمیان محبت کے مثبت تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔تمام شاگردوں میں صرف یہودا ہی یسوع کی ضروریات کو سمجھتا تھا۔فریڈرک ہیبل (Friedrich Hebbel) نے بھی اس نقطے کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ لکھتا ہے کہ "جب وہ اپنے ڈرامے کا خاکہ تیار کر رہا تھا، اس وقت وہ یسوع کے بارے میں لکھنے کا سوچ رہا تھا (Judas war der allerglaubigste) جس کا مطلب ہے کہ 'یہودا تمام شاگردوں میں سب سے زیادہ وفادار تھا' (جیسا کہ وہ پہلے رائے دے چکا ہے) اس کے باوجود ہیبل (Hebbel) یہودا کی بابت 'یہودا زیلوتیس' ہونے کا نظریہ رکھتا تھا۔
یہودا کا قینائی ہونے کی بابت غناسطی نظریے کا ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں جس کے مطابق یہودا ہ انسانیت کی نجات کا باعث بنا (صفحہ 93)جبکہ جدید مسیحی علماء لیون بلوئے (Leon Bloy) اور چارلس ریگائے (Charles Reguy) بھی یہودا کی بابت یہی نظریہ رکھتے تھے. یہودا کی غداری کے مشن نے یہودی مصنف برنارڈ لعزر (Bernard Lazare) کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے (صفحہ 95)۔تحلیل نفسی کے انداز میں کہانی کا تجزیہ کہانی کو عوامی دائرہ اثر سے باہر نکال کر لے جاتا ہے اور اس کا تعلق ہر شخص سے جوڑ دیتا ہے۔یسوع نے اپنے بدن کے ذریعے نجات نہیں دی جیسا کہ پولوس کا دعوٰی ہے بلکہ ہر شخص یسوع کے ساتھ ذاتی تعلق ہونے کی بنا پر نجات حاصل کر سکتا ہے۔
یہودا کی کہانی کی اس طرح وضاحت اس کی اپنی سطح تک کافی اہمیت کی حامل ہے لیکن یہ وضاحت ان عوامی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی جن مقاصد کی خاطر یسوع کا افسانہ پورے معاشرے کے لیے بطور مثال تخلیق کیا گیا۔اجتماعی سطح پر کہانی تحلیل نفسی کے نظریے کے بجائے اجتماعی تجزیے کا تقاضا کرتی ہے۔ہمیں یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ مسیحی افسانہ کس قسم کے معاشرتی افسانوں سے تعلق رکھتا ہے؟ اور کس طرح یہ افسانہ مسیحی معاشرے کی چسپیدگی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے؟ اس سوال کا ممکنہ جواب (میری دوسری کتاب sacred executioner میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے) یہی ہے کہ مسیح کے افسانے کا تعلق انسانی قربانی کی رسومات سے متعلقہ ان افسانوں کے ساتھ ہے جو قربانیاں سر پر آئی ہوئی آفات سے بچنے کے لیے (یا جب نئے خطرات کو دعوت دی جاتی تھی) یا کسی نئے قبیلے کے قیام کے وقت ادا کی جاتی تھیں۔تحلیل نفسی کی سطح پر ادراک سے معاشرتی تمثیل کو بھی سمجھا جا سکتا ہے. خاص طور پر قربانی سے متعلقہ مظلوم اور قربانی دینے والے کی یکسانیت، مرنے کے لیے مظلومین کی رضامندی کو ظاہر کرتا ہے۔۔اور مظلوم اور اس معاشرے کی قبائلی یکسانیت قربانی کے چڑھاوے کا حکم اور انتظام کرتا ہے. لیکن قربانی پیش کرنے والے معاشرے اور رضامند مظلوم کے درمیان یکسانیت کو خفیہ رکھا جاتا ہے جس کو والٹر برکرٹس (Walter Burckerts) نے 'عدم واقفیت کا سوانگ' (comedy of innecence) قرار دیا ہے۔معاشرہ یہ دعوٰی کرتا ہے کہ اس نے قربانی کا حکم بالکل نہیں دیا اور یہ ان کی مرضی کے خلاف واقعہ ہوئی ہے. 'ہاتھ دھونے' کی رسم اجتماعی اختیارات کی عدم واقفیت کو ظاہر کرتی ہے اور جلاد درحقیقت عوامی خادم ہوتا ہے جس کو الگ اور جلا وطن کر دیا جاتا ہے۔انفرادی نفسیاتی سطح پر رسم کا انکار شعوری طور پر موت کی خواہش کے ذریعے جلا وطنی میں تبدیل ہو جاتا ہے جو کہ جسمانی اذیت سے محظوظ ہونے کی عادت ہے۔لیکن معاشرتی یا عالمی سطح پر انکار کرنے کا عمل معاشرتی دستور کی شکل اختیار کر لیتا ہے،جس کے نتیجے میں نیچ ذات کی بابت ذات پات کا ایسا نظام قائم ہو جاتا ہے جو ہمیشہ قربانی کے احساس جرم کو دل میں چھپا کر رکھتا ہے تا کہ معاشرہ احساس جرم کے بغیر اس سے فائدہ اٹھا سکے۔مسیحی ثقافت میں یہ نیچ ذات یہودیوں کو سمجھا جاتا ہے جس کو یہودا ہ کے ابدی کردار کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا۔ذاتی ذہنی حالت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے انفرادی نفسیات پر معاشرتی اغراض و مقاصد کو ترک کرنا ہوگا اور مسیحیت میں یہودیوں کی حالت پر غور کرنا ہوگا۔
تحلیل نفسی کا نظریہ یہودا کی کہانی کو تاریخی واقعے کے بجائے علامتی قصہ ثابت کر سکتا ہے۔اس طرح کا تجزیے کا طریقہ کار اس کہانی کے ارتقاء اور ضرورت کو سمجھنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے،لیکن اگر صرف انفرادی نفسیات تک محدود ہو جائیں تو علامتیت بھی محدود ہو جاتی ہے۔افسانے کا تجزیہ، ظلم، نفرت اور بے چینی کے ساتھ ساتھ مسیحی معاشرے کی نمو پزیری اور استواری کی بابت وضاحت فراہم کرتا ہے جو معلومات دستاویزات میں محفوظ رہ گئی ہیں،پھر بھی یہودا کی کہانی مکمل طور پر علامتی نہیں ہے۔اس قصے کو تاریخ میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور اگر ہم اس قصے کو تھوڑا مزید سمجھ جائیں تو حقیقت اور خیالی دنیا کے درمیان فرق واضح ہو جائے گا اور خیالات و گمان کو حقیقت میں بدلنے کے طریقے کو سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔