بائبل مقدس کے محرف ہونے کے متعلق اہل اسلام کے دعوے کے ساتھ ہی مسیحی برادری کی جانب سے عجیب طرح کے سوالات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جن کا جواب دینے پربھی مسیحی برادری اسے معقولی تسلیم نہیں کرتی۔اسی وجہ سے مضمون ہذا میں مسیحی برادری کو ان کے چند روایتی سوالات کا غیرروایتی جواب ان ہی کے گھر کی گواہی سے دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ یہ حقیر سی کاوش کسی مسیحی بھائی کی آنکھیں کھول دے۔
مسیحی سوالات مسلم جوابات
تحریر:عبداللہ غازیؔ
سوال نمبر ١. کیا بائبل بدل گئی ہے؟
الجواب : جی ہاں بالکل بائبل بدل گئی ہے اور اس کا اقرار خود بائبل میں بھی موجود ہے.
11.تُم کیونکر کہتے ہو کہ ہم تو دانِش مند ہیں اور خُداوند کی شرِیعت ہمارے پاس ہے؟ لیکن دیکھ لِکھنے والوں کے باطِل قلم نے بطالت پَیدا کی ہے۔یرمیاہ 8:8
22. خُداوند کی طرف سے بارِ نبُوّت کا ذِکر تُم کبھی نہ کرنا اِس لِئے کہ ہر ایک آدمی کی اپنی ہی باتیں اُس پر بار ہوں گی کیونکہ تُم نے زِندہ خُدا ربُّ الافواج ہمارے خُدا کے کلام کو بِگاڑ ڈالا ہے۔ یرمیاہ 23:36
33. پادری جی ٹی مینلی لکھتے ہیں "بائبل میں ربانی اور انسانی عناصر ایک دوسرے سے جدا نہیں کئے جا سکتے. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بات ربانی ہے اور یہ انسانی" (بحوالہ ہماری کتب مقدسہ، صفحہ 28) پادری صاحب واضح اقرار کررہے ہیں کہ بائبل میں الہامی کے ساتھ انسانی عنصر بھی موجود ہے. *
سوال نمبر ٢. کیا بائبل کو کوئی بدل سکتا ہے؟
الجواب : جی ہاں بائبل میں تغیر و تبدل ہو سکتا ہے بلکہ نبی کی موجودگی میں ایسا ہوا ہے جب شاہ یہوداہ یہویاقیم نے وحی کا طومار جلایا اور بعد میں الہی ہدایت پر یرمیاہ نبی نے باروخ منشی سے اسے دوبارہ لکھوایا تو باروخ نے اس میں بہت سی باتوں کا اضافہ کردیا.
یَرمِیاؔہ نے دُوسرا طُومار لِیا اور بارُوؔک بِن نیرِؔیاہ مُنشی کو دِیا اور اُس نے اُس کِتاب کی سب باتیں جِسے شاہِ یہُوداؔہ یہویقِیم نے آگ میں جلایا تھا یَرمِیاؔہ کی زُبانی اُس میں لِکھِیں اور اُن کے سِوا وَیسی ہی اَور بُہت سی باتیں اُن میں بڑھا دی گئِیں۔ یرمیاہ 36:32
سوال نمبر ٣. بائبل کس نے بدلی؟
الجواب : اوپر سوال میں اس کا جواب گزر چکا ہے کہ بائبل کس نے بدلی، اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
11. اگر بائبل میں تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا تو پھر تورات کی پانچویں کتاب تثنیہ شرع کے آخر میں موسی علیہ السلام کی وفات کا حال کیا موسی نے قبر سے اٹھ کر لکھا ہے؟
2. مرقس کی انجیل کے آخری 12 فقرات قدیم نسخوں میں کیوں غائب ہیں؟ گڈنیوزبائبل کے 19799 کے ایڈیشن کے فٹ نوٹ میں مرقس کی آخری بارہ آیات کے متعلق لکھا ہے.
""Some manuscripts and ancient translations do not have this ending to the Gospel (verse 9-20) "
اسی طرح نیوانٹرنیشنل ورژن میں ان فقرات سے قبل کچھ اس طرح کا توضیحی نوٹ دیا گیا ہے.
""The earliest manuscripts and some other ancient witnesses do not have Mark 16:9-20"
اس طرح کے فٹ نوٹس جگہ جگہ ان دونوں بائبلز کے نسخ پر موجود ہیں جو کہ یونائیٹڈ بائبل سوسائٹی امریکہ کی طرف سے شائع کی گئی ہیں.
3. قدیم نسخہ واشنگٹن میں بھی مرقس کی آخری 122 آیات موجود نہیں (بحوالہ صحت کتب مقدسہ، صفحہ 178، مطبوعہ 1952)*
44.کنگ جیمز ورژن کلام الہی ہے؟ گڈنیوزبائبل یا پھر نیوانٹرنیشنل ورژن؟ تینوں میں سے ﺍﯾﮏ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ . ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺗﺎﻭﯾﻞ نکالی جائے ﮐﮧ تینوں ہی کلام الہی ہیں ﺗﻮ ﭘﮭﺮ NIV اور GNB ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺁﯾﺎﺕ ﺣﺬﻑ کی ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻣﺸﮑﻮﮎ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ان کو کس پیرائے میں رکھا جائے گا؟
سوال نمبر ٤. بائبل کب تبدیل کی گئی؟
الجواب : جب یہ کتب زیر تحریر تھیں اسی وقت ان میں تغیر و تبدل کا عمل بھی جاری و ساری تھا. ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻦ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ان کی ساری زندگی اس کے تراجم و تحقیق کرنے میں کھپ گئی ہیں ﻭﮨﯽ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﻣﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ وقعت باقی رہ جاتی ﮨﮯ؟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺮﺍﺩ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﺸﻨﻞ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ DISCOVER THE BIBLE ﮐﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﻣﻌﺘﺪﺑﮧ ﮐﻼﻡ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﻃﻤﻄﺮﺍﻕ ﺳﮯ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ اور اس میں جابجا تحریف کا اقرار ببانگ دہل کیا گیا ہے. یہ کتاب ایک فرد کی نہیں بلکہ 18 چوٹی کے علماء نے مل کر لکھی ہے.
11. ہر کلیسیاء کی خواہش ہوتی تھی کہ ہمارے پاس انجیل یا پولس کے خط کا اپنا نسخہ ہو. جب ان تحریروں کی نقول تیار کی گئیں تو نقل نویس جنہیں منشی کہا جاتا تھا وہ ان تحریروں کو پاک ناشتے خیال نہیں کرتے تھے. وہ فقط پولس یا پطرس کے کسی خط یا اپنے جیسے کسی مسیحی کی لکھی ہوئی انجیل کی نقل کررہے ہوتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سہواً غلطی کرنے کے علاوہ بعض اوقات ارادتاً تبدیلیاں بھی کر دیتے تھے رفتہ رفتہ دوسری صدی عیسوی میں مسیحی ان تحریروں کو پاک ناشتے سمجھنے لگے. (بحوالہ معتد بہ کلام مقدس، صفحہ 121)
22. نئے عہد نامہ کی نقلیں تیار کرتے ہوئے نقل نویس بعض اوقات متن میں تصرفات کر دیتے تھے بعض اوقات تصرفات دانستہ یا ارادی ہوتے تھے تاکہ اسلوب بیان بہتر ہو جائے یا زبان قواعد گرائمر کے مطابق ہو جائے. دوسرے دانستہ تصرفات اس لیے کئے گئے کہ ایک انجیل کے متن کو دوسری انجیل کے متن کے مطابق یا پولس کے خط کے مندرجات کو اسی کے دوسرے خط کے مطابق بنا دیا جائے. (بحوالہ معتد بہ کلام مقدس، صفحہ 124)
33. کئی تصرفات غیر ارادی تھے، اس کا سبب پڑھنے میں غلطی یا ناقص یادداشت ہے. غلطی اس طرح ہو گئی کہ کبھی منشی کی نظر کسی ایک حرف، ایک لفظ یا کبھی پوری سطر سےاچٹ گئی اور ایک لفظ یا کئی لفظ سہواً نقل ہونے سے رہ گئے. کبھی یہ ہوا کہ متن کو غلط پڑھا اور غلط حرف یا غلط لفظ نقل کردیا یا کبھی غلطی سے کوئی لفظ یا چند الفاظ مکرر کر دیئے. (بحوالہ معتد بہ کلام مقدس، صفحہ 125)
سوال نمبر ٥. تورات اور زبور کب بدلیں؟ مسیح سے قبل یا بعد میں؟
الجواب :
11. تورات و زبور میں اگر تبدیلی نہ ہوئی ہوتی تو انجیل جیسی کتاب کی ضرورت ہی نہ تھی. تورات کی غیر محرف موجودگی میں انجیل کی حیثیت کچھ باقی نہیں رہتی.
2. کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت صفحہ 77 پر لکھا ہے کہ یہودی نوشتوں میں مندرج واقعات دراصل زبانی روایات ہیں جن کا انتقال صدیوں تک سینہ بسینہ ہوا اور اس کے بعد حتمی شکل میں لکھے گئے. معلوم ہوا کہ مروجہ تورات فقط بنی اسرائیل کی زبانی روایات ہیں کیونکہ انہدام ہیکل کے بعد تو یہود کے پاس تورات باقی ہی نہیں بچی تھی.
33. یاد رہے کہ اس وقت کے یہودی علماء کے نزدیک مروجہ عبرانی بائبل میں شامل کتب کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب مقدس متون کے طور پر رائج تھیں. یہودیوں نے جامنیہ کونسل منعقد کرکے اس بات کا فیصلہ کیا کہ کن کتب کو الہامی کتب میں رکھنا چاہیے اور کن کو خارج کر دینا چاہیے. کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت صفحہ 8 پر مرقوم ہے "100ء کے قریب کچھ یہودی علماء Jamnia کے مقام پر جمع ہوئے. اس موقع پر یہ بحث ہوئی کہ کون سی کتب یہودی نوشتوں میں شامل ہونی چاہئیں". معلوم ہوا کہ اس وقت بھی یہودی کتب مقدسہ تحریف کا شکار تھیں تبھی یسوع جیسے عظیم ربائی کی آمد کے باوجود وہ مقدس نوشتوں کی استنادی حیثیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہی رہے.
4. مروجہ زبور کی کتاب میں 1500 زبور شامل ہیں جن میں سے اکثریت کے مصنفین کا کچھ معلوم نہیں. ایف ایس خیر اللہ لکھتے ہیں. "زبور 90 تا150 ایسے زبوروں پر مشتمل ہے جس کے مصنف تقریباً سب ہی گمنام ہیں". (بحوالہ قاموس الکتاب، صفحہ 470) اگر زبور کی کتاب اصل الہام پر قائم ہے تو پھر ان ساٹھ زبوروں کو کیا کیا جائے جن کے مصنفین ہی گمنام ہیں ؟اگر یہ مجہول لوگوں کی تصنیف ہیں تو پھر یہ الہامی کیسے؟
سوال نمبر ٦. انجیل کتنے عرصے بعد بدلی گئی؟
الجواب : یسوع کی اصل انجیل تو ان کے ساتھ ہی آسمان پر چلی گئی تھی. انکے مابعد یسوع کے مخلصین نے ان کی تعلیمات کو لکھ کر محفوظ کیا اس طرح سینکڑوں اناجیل معرض وجود آگئیں نتیجتاً مقدس پولس کو ان لوگوں پر ملعون ہونے کا فتوی صادر کرنا پڑا جنہوں نے پولس کی بنائی ہوئی انجیل کے علاوہ کسی اور انجیل پر ایمان رکھا. "اگر ہم یا آسمان سے کوئی فرشتہ سوائے اس انجیل کے جو ہم نے تمہیں سنائی ہے دوسری انجیل تمہیں سنائے تو وہ ملعون ہو" (غلاطیوں 1:8)
تیس سال بعد ہی یہودی بغاوت کے نتیجے میں رومیوں نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی نتیجتاً وہ کثیر مواد ضائع ہوگیا جو یسوع کی اصل تعلیمات پر مشتمل تھا اور یسوع کی لسان مبارک سے وہ انجیل جس کا ذکر مرقس بار بار اپنی کتاب میں کرتا ہے، سننے والے لوگ رومی عتاب کا شکار ہو کر ابدی نیند سو گئے. مروجہ اناجیل اسی تباہی کے بعد کے زمانے میں لکھی گئیں اور تقریباً تین سو سال تک یہ کتب کلیسیاء میں متنازع و مشکوک رہیں کہ آیا یہ کلام الہی ہیں بھی یا نہیں.
11. "ابتدائی کلیسیاء کے بزرگ اور کونسلیں اس بات پر بحث کرتی رہیں کہ نئے عہد نامہ کی کون سی تحریروں کو پاک سمجھنا اور وہی تعظیم دینا چاہیے جو یہودی نوشتوں کو حاصل ہے" (بحوالہ کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت، صفحہ 8)
22. رومی کلیساؤں میں بہت سی کتب گردش کرتی تھیں..... ضروری ہوا کہ کسی عمل کے ذریعے فیصلہ کیا جائے کہ کون سی کتب مقدس ہیں. یہ طریقہ کار راتوں رات وضع نہیں کیا گیا بلکہ ان کتب کے لکھے جانے کے بعد بھی سینکڑوں سال لگ گئے تب کہیں جا کر فیصلہ ہوا کہ جو اتنی بہت سی تحریریں پڑھی جارہی ہیں ان میں سے کون سی پاک کتاب یعنی بائبل میں شامل ہونی چاہیے".(بحوالہ کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت، صفحہ 9)
33." آج بہت سے مسیحی ان کتب سے ناواقف ہیں جنہیں ابتدائی مسیحیوں اپنے پاک نوشتوں کا حصہ مانتے تھے". (محولہ بالا، صفحہ 10)
اگر یہ الہامی کتاب ہوتی تو یسوع کے سو سال بعد نہیں لکھی جاتی اور نہ ہی اس کی الہامی حیثیت چار سو سال تک مشکوک رہتی. یہ سب تو ٹھوس کلیسائی شواہد ہیں جن کا انکار فقط ہٹ دھرمی کی بناء پر ہی کیا جا سکتا ہے.
44. مقدس پولس لکھتے ہیں "جب یہ خَط تُم میں پڑھ لِیا جائے تو اَیسا کرنا کہ لَودیکیہ کی کلِیسیا میں بھی پڑھا جائے اور اُس خَط کو جو لَودِیکیہ سے آئے تُم بھی پڑھنا" (کلسیوں 4:16) پولس کے حکم کے مطابق لودیکیہ کا خط آج کی کلیسیاء بطور الہام کیوں نہیں پڑھتی حالانکہ اس خط کو مقدس نوشتے کے طور پر پڑھنے کا حکم خود مقدس پولس نے دیا ہے.
5. "کلیمنٹ کے خط کے متعلق کرنتھیوں کا بشپ ڈایونی سیئس 1700ء میں کہتا ہے کہ" قدیم زمانہ سے ہی اس خط کو گرجا میں پڑھے جانے کا دستور چلا آرہا ہے ". (بحوالہ صحت کتب مقدسہ، صفحہ 216، مطبوع 1952)* اگر انجیل میں تحریف نہیں ہوئی تو قدیم کلیسیاء کے نزدیک مقدس و ملہم سمجھا جانے والا خط آج کی کلیسیاء کیوں نہیں قبول کرتی؟
سوال نمبر ٧. کیا بائبل بدل سکتی ہے؟
الجواب : "ہمارے پاس یسوع مسیح کے بالکل صحیح الفاظ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں. ہمارے پاس اس کے الفاظ کے صرف یونانی ترجمے موجود ہیں جو اناجیل کے مصنفین نے استعمال کیے (بحوالہ معتد بہ کلام مقدس، صفحہ 118) اگر مسیحی دنیا یہ سمجھتی ہے ﮐﮧ ﺗﺤﺮﯾﻒ ﻭﺍﻗﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﺴﻮﻉ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﺁﺭﺍﻣﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻗﻮﺍﻝ ﻭ ﻓﺮﺍﻣﯿﻦ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﯾﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺻﻞ ﺍﺻﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺻﻞ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﺎ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﻣﺴﯿﺢ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻄﺒﺎﺕ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ اور یونائیٹڈ بائبل سوسائٹی امریکہ جھوٹ بول رہی ہے ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺯﻥ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺑﺼﻮﺭﺕِ ﺩﯾﮕﺮ ﺗﻮ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮ ﭼﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ. ﯾﺴﻮﻉ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﮯ ﺍﺻﻞ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﮔﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ؟ یاد رہے کہ یسوع کی زبان آرامی تھی (بحوالہ صحت کتب مقدسہ، صفحہ 198)
عہد جدید کی آخری کتاب مکاشفہ کے آخر میں اس کتاب میں تبدیلی کرنے والے کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے جو کہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بائبل میں تبدیلی کی جا سکتی ہے تبھی تو اس کی سزا موجود ہے. جیسا کہ زنا کی سزا سنگسار کرنا ہے. اب اگر اس جرم کا احتمال موجود ہے تبھی تو اس کی سزا رکھی گئی ہے اسی طرح بائبل میں تبدیلی کا امکان تھا تبھی مکاشفہ میں سزا رکھی گئی ہے.
سوال نمبر ٨. کیا بائبل پوری کی پوری بدل گئی ہے؟
الجواب : اصل بائبل بدلی ہی نہیں بلکہ مکمل مفقود ہو چکی ہے. مروجہ بائبل میں مشمولہ کتب کے لیے مسیحی علماء نے ایک نئی اصطلاح " Pseudepigrapha" وضع کی ہے جس کا مطلب ازمنہ قدیم میں مجہول تصنیف کا معروف شخصیت کی طرف انتساب ہے اور عہد جدید و قدیم میں شامل تمام کتب یہی استادی حیثیت رکھتی ہیں کہ یہ گمنام لوگوں کے اقلام سے صفحہ قرطاس پر رقم ہوئیں.
11. "یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان اناجیل کے مصنفین کون کون تھے... امکان ہے کہ ان کے مصنفین مسیح کے وہ ابتدائی پیروکار تھے جنہوں نے یسوع کے پہلے شاگردوں میں سے کسی ایک سے یا زیادہ سے اس کے بارے میں تفصیل سے سنا". (کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت، صفحہ 1733)
22. "اسفار خمسہ کو اپنی آخری شکل میں آتے آتے سینکڑوں سال کا عرصہ لگا اور یہ موسی (علیہ السلام) کے زمانے سے بہت بعد میں اس کی شکل میں آئے". (کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت، صفحہ 26) اگر یہ موسی علیہ السلام کے سینکڑوں سال بعد موجودہ شکل میں آئے تو پہلے کس شکل میں تھے؟ ارتقاء کا یہ عمل کتاب میں تصرف و تغیر نہیں تو پھر کیا ہے؟ اگر یہ تحریف نہیں تو پھر شاید تحریف کا لفظ ہی لغت سے خارج کر دیا جائے.
33. "متی کی انجیل کی نظر ثانی یونانی زبان میں کی گئی غالباً وہ متی نے خود کی یا اس کے کسی مددگار نے" (اطلاقی تفسیر برائے عہد جدید ، صفحہ 136) اگر متی کی انجیل مکمل الہامی ہے تو پھر نظر ثانی کی ضرورت کیوں؟ کیا خدا کے الہام کو بھی نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور پھر یہ نظر ثانی کس نے کی؟ کس اختیار سے کی؟ اور کن مقاصد کے تحت کی؟ ان سب سوالوں کے مسیحی برادری کے پاس خاموشی کے سوا کوئی جواب نہیں ہے لیکن تحدی پر مبنی دعوی پھر بھی قائم ہے کہ بائبل خدا کا کلام ہے.
سوال نمبر ٩. بائبل (یعنی تورات زبور و انجیل) جو پہلے تھیں وہ کہاں ہیں؟
الجواب :
11.یہ سوال ہی غلط اور کٹ حجتی پر مبنی ہے کیونکہ ان کتب کا امین یہودیوں و عیسائیوں کو بنایا گیا تھا نا کہ مسلمانوں کو لہذا مسیحیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصل تورات زبور و انجیل سامنے لاکر مسلم نقادوں و معترضین کا منہ بند کر دیں.
22. اگر تورات بحیثیت کلام خدا لا تبدیل ہے تو پھر تورات کی وہ الواح کدھر گئیں جو باری تعالٰی نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر موسی علیہ السلام کو دی تھیں؟
3. "6211 قبل مسیح میں ہیکل کی تعمیر نو کے دوران مزدوروں کو شریعت کی کتاب ملی تھی. یہ شریعت کی کتاب کہاں سے آئی؟ ہیکل کے ذخیرے میں کیسے پہنچی؟ (کس نے لکھی؟ از مقتبس) ممکن ہے کہ اسے موجودہ صورت میں ان کاتبوں اور مدیروں نے مرتب کیا ہو جو صدیوں بعد ہوئے (بحوالہ کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت، صفحہ 314) ایک نامعلوم کتاب کو، جس کے مصنف کا ہی نہیں معلوم اور یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ آئی کدھر سے ہے، کلام الہی کا درجہ دینا کہاں کا انصاف ہے؟
44. مسیحیوں نے شروع سے ہی جان لیا تھا کہ ہمیں مقدس متون کے ایک ایسے مجموعے کی ضرورت ہے جو ہمارا اپنا ہو، جنہیں حوالے کے لئے استعمال کیا جا سکے جو عقائد سے متعلقہ فیصلوں میں ماخذ اور غیر متغیر حدود ہوں. (بحوالہ معتد بہ کلام مقدس، صفحہ 169) محولہ سطر سے یہ مستنبط ہوا کہ مروجہ انجیل کلیسیاء کی پیداوار ہے نا کہ کلیسیاء کی بنیاد اس انجیل پر ہے اور جو چیز کلیسیاء نے پیدا ہی اپنی ضرورت کی وجہ سے کی ہے، اسے لاتبدیل کلام الہی بنا کر پیش کرنا قطعاً خوف خدا سے ماوراء عمل ہے اور امثال کی کتاب فرماتی ہے کہ "خداوند کا خوف حکمت کا شروع ہے".
* جی ٹی مینلی صاحب کی یہ کتاب مسیحی سمنریز میں پڑھائی جاتی ہے لہذا یہ کوئی روایتی پادری کی کتاب نہیں ہے.
* پادری برکت اللہ صاحب کی کتاب "صحت کتب مقدسہ" کے نئے ایڈیشن میں یہ سب حوالہ جات خارج کر دیئے گئے ہیں. راقم الحروف کے پاس اس کتاب کا 1952ء کا غیر محرف ایڈیشن موجود ہے جہاں یہ سب اقرار جرم موجود ہیں. یہ حال ہے ان مسیحیوں کی علمیت کا کہ جو پادری ساری زندگی یہ دہائی مچاتے دنیا سے چلا جاتا ہے کہ بائبل میں تحریف نہیں ہوئی اس کے مرنے کے بعد خود اس کی کتاب میں تحریف کردی جاتی ہے.