Pages

Most Popular

بدھ، 17 اگست، 2016

پولس کا معمہ! اصل حقیقت



یہودی و مسیحی علمی حلقوں میں پروفیسر ہائم مکابی جیسے اسکالر کا نام تعارف کا محتاج نہیں. برطانیہ میں یہودی و مسیحی روایات پر انہیں اتھارٹی اسکالرز کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے حتی کہ ڈاکٹر ہیوجے شون فیلڈ جیسے چوٹی کے اسکالرز بھی ان کے علم کے متعلق لکھتے ہیں کہ "مجھے یقین ہے کہ ہائم مکابی کے مقدس پولس کے متعلق نظریات قابل فکر ہیں". زیر نظر تحریر بھی ہائم مکابی کی کتاب The myth maker Paul and The Invention of Christianity کے باب اول The problem of Paul کا سلیس ترجمہ ہے جس میں انہوں نے مقدس پولس کے مسیحیت پر اثرات اور ان کے چند دعاوی کا جائزہ لیا ہے. اپنی اس ادنی سی کاوش کو میں اپنے محسن، مرشد اور مربی محترم جناب ظفر اقبال صاحب مدظلہ کی طرف منسوب کرتا ہوں جنہوں کی محبت و شفقت کے باعث میں یہ ٹوٹا پھوٹا ترجمہ کرنے کے قابل ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے چند مخلصین دوستوں بھائی عبدالباسط کراچی، محمد مسلم رحیم یار خان اور سید محمد وقاص حیدر امریکہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ بعض مشکل مقامات پر انہوں نے میری رہنمائی فرمائی. 
احقر عبداللہ غازی
معمہ پولس
ابتدائی مسیحیت میں دو شخصیات ظاہر ہوئیں . یسوع اور پولس، عیسائی یسوع کو ان کی زندگی کے واقعات کی بنیاد پر مسیحیت کے بانی کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ پولس کو مقصد یسوع کا ایسا زبردست شارح تصور کیاجاتا ہے جو خود یسوع بھی نہ کرسکے-یہ وہی تھا جس نے اس بات کی تشریح کی کہ کس طرح حیات و ممات یسوع کو اس آسمانی قانونِ نجات کا حصہ بنایا جائے جو حضرت آدم کی خلقت سے قیامت تک مشتمل ہے.
ہم یسوع اور پولس کے باہمی تعلق کو کیسے سمجھیں؟ یہ سوال ہم ایمان کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ان تاریخ دانوں کی نظر سے پرکھیں گے جو اناجیل اور نئے عہد نامہ کو ایک اہم ذریعہ ثبوت مانتے ہیں اور جن کی محتاط پرکھ ، تنقیدی جائزہ ضروری ہے. کیونکہ ان کے مصنفین بجاۓ غیر جذباتی تاریخی معلومات پہنچانے کے مذہبی عقائد کا پرچار کر رہے تھے-اسی طرح ہم دوسرے ذرائع جیسے یوسیفس، تلمود، چرچ کے مؤرخین اور غیر انجیلی صحیفوں سے تمام متعلقہ ثبوت بھی ضرور زیر بحث لائیں گے.

یسوع خود پولس کے بارے میں کیا راۓ رکھتے تھے؟ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یسوع پولس کو کبھی نہیں جانتے تھے اور ان دو ہستیوں کی ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی.حواریینِ یسوع یعنی پطرس، یعقوب اور یوحنا جو یسوع کے بہت قریب تھے ، انہوں نے کوئی تحریر ایسی نہیں چھوڑی جو یہ وضاحت کرتی ہو کہ مقصد یسوع کیا تھا اور وہ خود مسیح کو کیسا سمجھتے تھے. کیا وہ حواری پولس کی فصیح اور رواں تحریروں میں ان کی تشریحات سےکبھی متفق ہوئے؟ یاشاید کبھی انہوں نے یہ سوچا کہ اس موقعہ پر یہ اجنبی شخص ( پولس ) مقامِ یسوع کے بارے میں پیچیدہ افکار پھیلا رہا ہے.

پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی تشریحات اس کی اس کی ذاتی اختراع نہیں بلکہ یہ اس کو ذاتی مکاشفہ سے عطا کی گئی ہیں. وہ مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد یسوع سے ملاقات کرنے کا بھی دعوی کرتا ہے اگرچہ وہ کبھی یسوع لے حین حیات ان سے ملاقات نہ کر سکا. وہ یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ اس کا خواب و سفر میں یسوع سے تعلیم پانا دراصل یسوع کی زندگی میں ملاقات کرنے سے بھی برتر ہے جب یسوع اپنے مقاصد کے لئے زبردست جدوجہد کررہے تھے.
ہمیں مقدس پولس کے بارے میں معلومات اس کے اپنے خطوط کے ساتھ ساتھ اعمال کی کتاب سے بھی حاصل ہوتی ہیں جس میں اس کی پوری زندگی کے بارے میں تذکرہ موجود ہے۔ درحقیقت مقدس پولس ہی اعمال کی کتاب کا مرکزی کردار ہے کیونکہ یہ کتاب پولس کے ہی ایک شاگرد لوقا نے لکھی ہے جوکہ انجیل لوقا کا بھی مصنف ہے۔ اعمال کی کتاب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقدس پولس اور اس دور کے ابتدائی کلیسیاء کے زعماء( جوکہ یسوع کے حواری تھے) کے مابین کچھ اختلافات موجود تھے لیکن ان اختلافات کوآخر کار حل کرلیا گیا اور پھر وہ سب اپنے مشترکہ مقاصد کی خاطر بہترین دوست بن گئے۔ البتہ مقدس پولس کے خطوط (خاص طور پر وہ جو گلیتیوں کی طرف لکھے گئے تھے) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اختلافات کہیں زیادہ شدید تھے جبکہ اعمال کی کتاب میں کسی حد تک ابتدائی مسیحیت(مقدس پولس اور یسوع کے حواریوں) میں ہم آہنگی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہٰذا یہی سوال با ر بار اٹھتا ہے کہ یسوع اور ان کے شاگرد ، مقدس پولس کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ موجودہ عہد نامہ جدید پر مقدس پولس کا اثرو رسوخ کہیں زیادہ ہے جتنااس پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم مسیحیت کی مذہبی کتب کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عہد نامہ جدید کی چاروں اناجیل کا مرکزی کردار یسوع ہیں اور ان اناجیل میں ہمیں مقدس پولس سے واسطہ نہیں پڑتا یہاں تک کہ ہم اعمال کی کتاب تک پہنچ جاتے ہیں جس میں مقدس پولس کا تذکرہ موجود ہے جوکہ یسوع کے بعد کے حالات و واقعات پر مشتمل ہےاور پھر آخر کار خطوط میں ہمیں بذات خود مقدس پولس سے واسطہ پڑتا ہے لیکن یہ تاثر غلط ہے کیونکہ عہدنامہ جدید میں موجود سب سے قدیم اور ابتدائی تحریریں سینٹ پولس کے ہی خطوط ہیں جوکہ 50-60 بعد از مسیح میں لکھے گئے تھے جبکہ اناجیل اربعہ میں سے کوئی بھی 70-110 عیسوی سے پہلے نہیں لکھی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدس پولس کے نظریات ان اناجیل کے لکھے جانے سے پہلے موجود تھے اور اناجیل کے مصنفین نے ان پولسی نظریات کو یسوعؑ کے قول و فعل کا رنگ دے کر پیش کیا۔مقدس پولس ایک طرح سے عہد نامہ قدیم کا پہلا حرف لکھے جانے سے بھی پہلے منظرنامے پر موجود تھا البتہ اناجیل کی بنیاد وہ روایات حتیٰ کہ وہ تحریری دستاویزات بھی ہیں جن کا تعلق مقدس پولس کے اثرانداز ہونے سے پہلے کے دور سے ہے اور یہ ابتدائی روایات اور تحریری دستاویزات اناجیل کے آخری اور موجودہ شکل سے مکمل طور پر ختم نہیں کی گئیں اور یہ قدیم ترین اور ابتدائی دستاویزات اس بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرسکتی ہیں کہ اناجیل کے پولسی مصنفین کے اناجیل کے آخری شکل میں مدون کرنے سے قبل مسیحیت کی اصل تعلیمات اور معاملات کیا تھے۔ موجودہ اناجیل پر غالب رنگ اور نظریہ مقدس پولس کا ہی ہے جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت کی تاریخ میں یسوع کے دنیا میں قیام اور تبلیغ کے بارے میں مقدس پولس کا جو نقطہ نظرتھا اسی کو مسیحی چرچ میں مقبولیت اور غلبہ حاصل ہوا ۔ اس کے برعکس وہ تمام روایتی مذہبی نظریات جو سینٹ پولس کے اس انفرادی نقطہ نظر سے مخلتف تھے ، ان سب کو بدعتی اور گمراہ کن قرار دے کر پولسی چرچ نے عہد نامہ جدید کے آخری ایڈیشن میں سے ختم کردیا۔ 
اس سے اناجیل میں یسوع کے دیگر 12حواریوں کو دئیے گئے مبہم اور پیچیدہ کردار کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے۔ یسوع کے دیگر بارہ حواریوں کا اناجیل میں انتہائی مبہم اور مختصر سا تذکرہ موجود ہے سوائے اس کے کچھ خاص مقاصد کے لئے ان کو ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان سب کو کم عاقل بھی ظاہر کیا جاتا ہے جو عموماً یسوع کے اقوال کااصل مطلب سمجھنے کے قابل نہیں ہیں۔ مسیحیت کے بنیادی لٹریچر میں ان حواریوں کی اہمیت کو بڑے غیر معمولی انداز میں کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یسوع کی وفات کے بعد یروشلم کے چرچ کا لیڈر یعقوب رسول ہیں جبکہ اناجیل میں اس یعقوب کا یسوع کے مشن اور زندگی سے متعلق کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس کے برعکس اس کا مختصر سا یہ تذکرہ ملتا ہے کہ اس نے یسوع کی زندگی میں ان کی مخالفت کی اور ان کو پاگل تک کہا۔ یہ کیسے ہوا کہ ایک ایسا بھائی جو یسوع کی زندگی میں ان کا دشمن تھا لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد مسیحی کلیسیاء ایک انتہائی معزز رہنما بن جاتا ہے، واضح نہیں ہے۔ تاہم شاید کوئی یہ سوچے کہ اس بارے میں کچھ معلومات کو اکٹھا کرکے بعد میں آنے والے مسیحیت کے عظیم رہنماؤں نے یعقوب کے معجزانہ طور پر بدلنے اور ایک رسول بن جانے کے واقعات کو بیان کرکے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سب سے زیادہ معقول وضاحت یہ ہے (جس کے لئے آگے چل کر بھی دلائل دئیے جائیں گے) کہ یعقوب (اور یسوع ؑ کے دوسرے بھائیوں )کے بارے میں معلومات کو اناجیل میں تمام اہم مقامات سے ختم کردینا ، مسیحیت کے تمام ابتدائی رہنماؤں (جو یسوع کی زندگی میں ان سے نہایت قریب تھے)کی تضحیک کئے جانے کے منصوبے کے حصہ ہیں اور ان سب کو ایک دم سے کہیں سے نمودار ہونے والے مقدس پولس کے مسیحی نظریات (مذہب) میں انتہائی مشکوک اور مایوس تصور کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ان تمام نظریات کو یسوع کے اقوال کی تعبیر بنا کر پیش کیا جاسکے جنہیں ان کی زندگی میں وہ کبھی نہیں ملا تھا۔
تو پھر مقدس پولس کون تھا؟ اس سلسلے میں ہمارے پاس کافی معلومات موجود ہیں لیکن اگر ان معلومات کا غور سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس میں کافی مسائل نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس مقدس پولس کے بارے میں جو معلومات ہیں وہ اس نے اپنے خطوط میں خود اپنے بارے میں دی ہے جوکہ غیر جانبدار ہونے سے کوسوں دور ہے اور عمومی طور پر ایک طرح سے خودنوشت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ مقدس پولس کے بارے میں معلومات کتاب اعمال میں ہے جس میں مقدس پولس کا ہی بنیادی کردار ہے لیکن کسی بھی شخص کے خود اپنی ذات کے بارے میں دی ہوئی معلومات کے حوالے سے تحفظات ہوتے ہیں کیونکہ ہر انسان خود کو ممکنہ طور پر بہترین دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور مقدس پولس کے بارے میں کتاب اعمال میں دی گئی معلومات کو بھی تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرور ت ہے کیونکہ یہ معلومات ایک ایسے شخص کی طرف سے دی گئی جوکہ ذاتی طور پر پولسی نظریات سے وابستہ تھا۔ کیا ہمارے پاس مقدس پولس کی زندگی کے بارےمیں جاننے کے لئے کوئی دوسرے ذرائع موجود ہیں؟ حقیقیت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے دیگر ذرائع موجود ہیں تاہم وہ مختلف اور خلاف توقع مقامات پر موجود ہیں۔ جو کہ ہمارا مقصد ہوگا کہ ہم انہیں ڈھونڈیں۔ خوش قسمتی سے ابیونیوں (مسیحیت کا ایسا فرقہ جو کہ ہماری اس جدوجہد کے حوالے سے انتہائی اہم ہے) کی گمشدہ تحریروں میں سے جمع کیا گیا اقتباس اور آرتھوڈوکس اسرائیلی مسیحیوں (جو کہ پولس کے مخالفین تھے) کا ایک عربی مخطوطہ گردش زمانہ کے باوجود محفوظ رہ گیا ہے۔
مزید بہتر اور واضح ماخذات میں پائے جانے والے شواہد کو جاننے کے لئے ہمارے ساتھ آئیے. اعمال کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس کا نام ساؤل تھا اور اس کی جائے پیدائش طرطوس تھی جو کہ ایشیائے کوچک کا شہر ہے. (اعمال 9:11, 21:39،22:3) کافی عجیب بات ہے کہ ایک بہترین سوانح نگار ہونے باوجود پولس اپنے خطوط میں کبھی اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ وہ طرطوس سے آئے ہیں. اپنے خاندان کے متعلق وہ چند ہی معلومات فراہم کرتے ہیں (رومیوں 11:2) (فلپیوں 3:5)ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خطوط کے وصول کنندگان کے متعلق یہ معلومات فراہم کرنے میں پولس کو کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ طرطوس سے اِس شہر یروشلم میں آئے تھے جو فریسی ازم کا گڑھ تھا. وہ تاثر جو پولس ایک شفاف فریسی پس منظر رکھنے کی حیثیت سے دینا چاہتے تھے اِس اعتراف سے بہت کمزور ہو جاتا ہے کہ وہ طرطوس کے رہنے والے ہیں جہاں فریسی اساتذہ اور ان کی تربیت کسی طرح بھی میسر نہیں ہو سکتی تھی.
پولس کے خاندانی پس منظر کے متعلق ہماری کھوج شروع سے ہی اس سوال کی ہے کہ کیا پولس واقعی ایک خالص فریسی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے خطوط میں دعوی کرتے ہیں یا پھر وہ ان چیز دعاوی کی مدد سے اپنے پیروکاروں کی نظر میں اپنا مقام بلند کرنا چاہ رہے تھے؟ یہ حقیقت ہے کہ کبھی نہ پوچھا گیا یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ پولس کا مطالعہ کرتے وقت مذہبی روایات کا رویہ کتنا مضبوط اثر و رسوخ رکھتا ہے.
موضوع کی مکمل بحث کے ابتداء میں ہی یہ جان لینا چاہیے کہ جدید علماء اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ فریسی بطور جماعت رومی اور پارتھیائی سلطنت کی گرفت میں تھا جو شریعت کی درخواست پر عمل اور صبر کو برقرار رکھتے ہوئے ظلم کے سامنے اپنے مذہبی نظریات برقرار رکھے ہوئے تھے اور امراء کے جبر کے خلاف غریبوں کے حقوق کا علمبردار سمجھے جاتے تھے. قرون وسطی اور جدید زمانہ میں فریسی نام کی طرف جو بلاوجہ فریب دہی منسوب کر دی گئی ہے وہ دراصل اناجیل میں فریسیوں کے خلاف ایسی کاروائی کا نتیجہ ہے جو اُس وقت سیاسی مذہبی سوچ و فکر کے ذریعے فریسیوں کے خلاف اُس وقت کی گئی جب یسوع کی موت کے چالیس تا اسی سال بعد اناجیل اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں تھیں. پولس اس بات کا شدید آرزومند تھا کہ 
وہ اپنے حین حیات فریسیوں کے اصل مقام کی روشنی میں ایک فریسی تربیت یافتہ شخص سمجھا جائے. پولس کا اپنے اعلی و معزز ہونے کا دعوٰی کرنا دراصل اپنے مخاطبین کی نظر میں اپنی قدر و منزلت بڑھانا تھا. علماءکا خیال ہے کہ چاہے جس قدر بھی معروضی اور حقیقت پر مبنی تحقیق ہی کیوں نہ کر لی جائے، لیکن پولس کی طرف ایک خاص قسم کے "احترام" کا روّیہ ضرور اختیار کیا جانا چاہیے، اور ایسا بیان ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ پولس نے "سچ" کو توڑ مروڑ کر پیش کیا،۔ ایسا کرنا ہر حال میں ضروری ہے، چاہے کتنا ہی جاندار ثبوت اُس کی اپنی زندگی کے مختلف حصوں سے حاصل کیوں نہ ہو جائے، جس کے مطابق جب بھی اُس نے حالات کی نزاکت کا سہارا لیتے ہوئے سچائی پر ملمع کاری کی۔
فریسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے پولوسی دعوے کی مزید توضیح کے لئے ہم اس بات کی تحقیق کریں گے کہ قابل رسائی ماخذات میں پولس کے متعلق ہمیں کیا بتایا گیا ہے. نوجوان ساؤل نے طرطوس چھوڑا اور اسرائیل کی سرزمین کی طرف آ گئے جہاں مقدس گملیل کے مکتب میں تعلیم حاصل کی (اعمال 22:3) دیگر روایات سے بزرگ گملیل کے متعلق پتہ چلتا ہے جس کا مشنا جیسی ربائی تحاریر میں انتہائی معزز خاکہ کھینچا گیا اور "ربان" کے عنوان سے سرفراز اور قائد عوام بھی کہا گیا ہے. وہ اُس ساری فریسی جماعت کا سربراہ تھا جس کی نہ صرف عہد نامہ جدید تصدیق کرتا ہے بلکہ اُسے اعمال کی کتاب کے ایک منظر نامے میں ایسا نمایاں کردار دے کر پیش کرتا ہے جس کی اناجیل میں پیش کی گئی فریسی تصویر سے موافقت انتہائی مشکل ہے.
مقدس پولس نے کبھی اپنے خطوط میں خود کو بزرگ گملیل کا شاگرد قرار نہیں دیا مگر اس کے باوجود وہ پرزور انداز میں اپنی علمی سند کو فریسی ازم سے جوڑتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سوال پھر سے اٹھتا ہے کہ کیا پولس واقعی گملیل کے شاگرد تھے یا یہ دعویٰ لوقا نے اپنی انجیل کی تزئین کے لئے کیا ہے؟ہم بعد میں دیکھیں گے کہ یہاں وہ درست سوچ جو اس معاملے کو مشکوک بنا دیتی ہے، اس معاملے میں مقدس پولس کا کچھ کہنے میں معنی خیز تسامح ہے جو کہ سب سے الگ ہے کہ وہ کبھی مقدس گملیل کا شاگرد تھا.
نوجوان ساؤل کے متعلق ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اسٹیفن کی موت میں بھی پولس ملوث رہا تھا، وہ لوگ جنہوں نے اسٹیفن کے خلاف جھوٹی گواہی دی اور اس کے بے گناہ قتل میں قائدانہ کردار ادا کیا، انہوں نے اپنے کپڑے اتار کر ساؤل کے قدموں میں رکھے تھے. اسٹیفن کی موت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس میں یہ بھی اضافہ کیا گیا ہے کہ ساؤل اس کے قتل پر راضی تھا. (اعمال 8:1) ان تفصیلات میں کتنا سچ ہے؟ کیا پولس کی تبدیلی سے ماقبل و بعد کے حالات کا تقابل تاریخی تناظر میں ہے یا محض حقائق کے اظہار کے طور پر؟ اسٹیفن کی موت بذات خود ایک افسانہ ہے جو حقیقی تجزیہ کا تقاضہ کرتی ہے اگرچہ یہ الجھنوں اور تضادات سے بھرپور ہے. کیوں اور کس وجہ سے اسٹیفن کو مارا گیا اور وہ نظریات کیا تھے جو اس کی مظلومانہ موت کا سبب بنے؟اس سارے معاملے میں قابل غور عنصر پولس کی موجودگی ہے، چند لمحات کے لئے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس واقعہ میں پولس کی مبینہ موجودگی اس تاثر میں اضافہ کرتی ہے کہ فریسییت اختیار کرنے کا مطلب یسوع کے پیروکاروں کا دشمن ہونا تھا. 
اگلی چیز جو پولس کے متعلق اعمال کی کتاب میں ہمیں بتائی گئی ہے وہ یہ کہ ساؤُل کِلیسیا کو اِس طرح تباہ کرتا رہا کہ گھر گھر گھُس کر اور مردوں اور عَورتوں کو گھِسیٹ کر قَید کراتا تھا۔ (اعمال 8:3) اس مقام پر ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس اختیار سے اور کس کے حکم پر وہ لوگوں کو عقوبت خانے لے جایا کرتا تھا؟ یہ واضح طور پر پولس کا انفرادی معاملہ نہیں تھا بلکہ لوگوں کو جیل بھیجنا صرف چند قسم کے افسران کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا تھا. ساؤُل یقیناً یہ سب کچھ اختیارات ملنے کہ بنیاد پر ہی کررہا تھا اور ہو سکتا ہے کہ یہ اختیارات مابعد کے ان واقعات سے لئے گئے ہوں جس میں پولس سردار کاہن کے ایماء پر یہ سب کاروائیاں کرتا تھا. کوئی بھی فرد جو اُس وقت یہودیہ کی سیاسی اور مذہبی تصویر سے واقفیت رکھتا ہے وہ یہاں ایک گھمبیر مسئلہ محسوس کر سکتا ہے. سردار کاہن فریسی نہیں بلکہ صدوقی تھا اور صدوقی فریسیوں کے انتہائی سخت مخالف تھے. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مبینہ طور پر ایک پرجوش فریسی سردار کاہن کے اشارے پر یہ سب کچھ کاروائیاں کررہا تھا؟ پولس کی اصلیت کی وہ تصویر کشی جو یسوع کو قبول کرنے سے قبل عہد نامہ جدید میں کی گئی ہے انتہائی متضاد اور مشکوک ہے.
اعمال باب ٩ میں ہم سنتے ہیں کہ پولس ابھی تک خداوند کے رسولوں کو قتل کرنے کے درپے تھا اور انہیں ڈرانے دھمکانے میں مصروف تھا. وہ سردار کاہن کے پاس گیا اور اس سے دمشق کے سینیگاگ کے نام خط لکھنے کی درخواست کی کہ وہ اِس (پولس) کو اجازت دیں کہ وہ ہر اس شخص کو" خواہ وہ مرد ہو یا عورت " گرفتار کرے اور پکڑ کر یہاں یروشلم لائے. یہ واقعہ مکمل طور پر مشکوک ہے. اگر ساؤل کو یہودیہ میں کلیسیاء کو ایذا رسانی کی آزادی تھی تو اچانک اس کے دل میں دمشق جاکر وہاں کی کلیسیاء کو تنگ کرنے کا خیال کیسے پیدا ہوا؟ (جبکہ یسوع کے سارے شاگرد یروشلم میں ہی تبلیغی سرگرمیوں میں پوری طرح مصروف تھے از مترجم) دمشق جانے کے لئے وہ کون سی عجلت تھی؟ مزید یہ کہ کس قانونی حیثیت سے یہودی سردار کاہن نے ایسے علاقے میں جا کر لوگوں کو گرفتار کرنے کی منظوری دے دی جو یہودی عملداری میں تھا ہی نہیں؟ ان سوالات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں سردار کاہن اور پولس کے تعلقات کو بیان کرنے کے لئے مزید الجھاؤ ہے. پولس جوکہ ایک عام شہری تھا اور اس بات کا شدید خواہش مند تھا کہ وہ ایسا بااختیار شہری بنے جو اس کے بیان کے مطابق لوگوں کو گرفتار کرے اور مزید اہم اختیارات حاصل کرنے کے لئے انہیں قید کرکے سردار کاہن کے پاس لائے. یہاں سردار کاہن اور پولس کے درمیان بالکل واضح سرکاری تعلق نظر آتا ہے کیونکہ سردار کاہن ہی پولس کے منصوبوں کو منظوری کی سند دینے والا تھا. اس بات کا بھی زبردست امکان ہے کہ منصوبہ بندی تو پولس کے بجائے سردار کاہن کی ہوا کرتی تھی لیکن پولس کا کردار سردار کاہن کے مخبر یا ایجنٹ کے طور پر تھا. یہ پورا واقعہ درست حالات اور امکانات کی روشنی میں مزید تفہیم کا تقاضا کرتا ہے.
اعمال کی کتاب پولس کی دمشق کی راہ پر تبدیلی، یسوع سے ملاقات اور یسوع کا اُس کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی تفصیل جاری رکھتی ہے. مسیحیت سے قبل پولس کی زندگی کے واقعات بھی اعمال کی کتاب میں جگہ رکھتے ہیں جو کہ اپنی ذات میں پیچیدگی لئے دلچسپ تفصیل کے ساتھ اعمال باب ٢٢ اور ٢٦ میں موجود ہیں. 
باب ٢٢ میں، رومی صوبیدار کے سوالات کے بعد پولس لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ابتدائی واقعات کو خود لوگوں کے سامنے ظاہر کرتا ہے. پولس کہتا ہے.
مَیں یہُودی ہُوں اور کلِکیہ کے شہر تَرسُس میں پَیدا ہُؤا مگر میری تربِیت اِس شہر میں گملی ایل کے قدموں میں ہُوئی اور مَیں نے باپ دادا کی شَرِیعَت کی خاص پاِبنِدی کی تعلِیم پائی اور خُدا کی راہ میں اَیسا سرگرم تھا جَیسے تُم سب آج کے دِن ہو۔ چُنانچہ مَیں نے مردوں اور عَورتوں کو باندھ باندھ کر اور قَید خانہ میں ڈال ڈال کر مسِیحی طِریق والوں کو یہاں تک ستایا کہ مروا ڈالا۔ چُنانچہ سَردار کاہِن اور سب بُزُرگ میرے گواہ ہیں کہ اُن سے مَیں بھائِیوں کے نام خط لے کر دمشق کو روانہ ہُؤا تاکہ جِتنے وہاں ہوں اُنہِیں بھی باندھ کر یروشلِیم میں سزا دِلانے کو لاؤں۔
اس کے بعد پولس دمشق کی راہ پر یسوع سے ملاقات ہونے کی وضاحت بیان کرنے کی طرف نکل جاتا ہے. رومی صوبیدار کو بطور یہودی وہ یہ پہلے ہی باور کرا چکا تھا کہ وہ کلکلیہ کے شہر طرطوس سے تعلق رکھتا ہے. اس طرح سے ہم پولس کے آبائی شہر کو اور اس کی مبینہ تعلیم "جس کی تحصیل بزرگ گملیل کی نگرانی میں ہوئی" سے واقف ہوتے ہیں. یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پولس کہتا ہے "اگرچہ میں طرطوس میں پیدا ہوا اور اس شہر (یروشلم) میں پرورش پائی" یہ اس بات کا غماز ہے کہ اُس نے اپنا بچپن یروشلم میں گزارا. اس کا مطلب یہ کہ اس کے والدین طرطوس چھوڑ کر یروشلم منتقل ہو گئے تھے یا انہوں نے اپنے طور سے بچے کو یروشلم بھیج دیا تھا. اس بات کا امکان ہے کہ یروشلم منتقل ہونے سے قبل ہی مقدس پولس بالغ ہو چکے تھے اور انہوں نے اپنے والدین کو طرطوس میں ہی چھوڑ دیا تھا یہ نقطہ بھی مزید ممکنات میں شامل کیا جا سکتا ہے. یروشلم میں مقدس پولس کے تجربات کے واقعات میں یہ تذکرہ کہیں بھی حاصل نہیں ہوتا. مقدس گملیل سے تعلیم حاصل کرنے کے پولس کے مبینہ بیان کے مطابق یہ تعلیم بلوغت میں ہی حاصل کی جا سکتی تھی کیونکہ بزرگ گملیل تعلیم کی ابتدائی جماعتوں کے بجائے شرع کی اعلی تعلیم کے بڑے استاد تھے. وہ بطور طالبعلم انہی طلباء کا انتخاب کرتے تھے جو ربانیت کی تعلیم کے اہل ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی خاندانی پس منظر بھی رکھتے تھے. یہ سوال یہاں پھر سر اٹھاتا ہے کہ پولس نے کدھر اور کیسے ایسا شفاف خاندانی پس منظر حاصل کیا؟ جیسا کہ اوپر مدلل اور ٹھوس انداز میں نشاندہی ہے وہ اس بات پر غور کی دعوت دیتی ہے کہ پولس کبھی بھی گملیل کا شاگرد نہیں رہا.
اعمال کی کتاب اس باب میں ایک ضروری سوال یہ بھی ہے کہ پولس رومی شہری تھا. اس کی گواہی سب سے پہلے باب ١٦ سے دستیاب ہوتی ہے جہاں پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی پیدائش ایک رومی شہری کی حیثیت سے ہوئی جس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کا والد ایک رومی شہری تھا. اس مقام پر تبادلہ خیال کا تقاضہ کرنے والی بے شمار الجھنیں اور کچھ ایسے سوالات ہیں جو پولس کے فریسی خاندان سے تعلق رکھنے کے دعوی سے باہم ٹکراتے ہیں.
مسیحیت سے قبل پولس کی سوانح حیات کے بارے میں کچھ معلومات اعمال باب ٢٦ سے ملتی ہے جہاں پولس بادشاہ اگرپا کے سامنے ایک تقریر کرتا ہے. پولس کہتا ہے.
سب یہُودی جانتے ہیں کہ اپنی قَوم کے درمیان اور یروشلِیم میں شُرُوع جوانی سے میرا چال چلن کیَسا رہا ہے۔ چُونکہ وہ شُرُوع سے مُجھے جانتے ہیں اگر چا ہیں تو گواہ ہوسکتے ہیں کہ مَیں فرِیسی ہوکر اپنے دِین کے سب سے زیادہ پاِبنِدِ مزہب فِرقہ کی طرح زِندگی گزُارتا تھا اور اَب اُس وعدہ کی اُمِید کے سبب سے مُجھ پر مُقدّمہ ہورہا ہے جو خُدا نے ہمارے باپ دادا سے کِیا تھا. اُسی وعدہ کے پُورا ہونے کی اُمِید پر ہمارے بارہ کے بارہ قبِیلے دِل و جان سے رات دِن عِبادت کِیا کرتے ہیں۔ اِسی اُمِید کے سبب سے اَے بادشاہ! یہُودی مُجھ نالِش کرتے ہیں۔ جب کہ خُدا مُردوں کو جِلاتا ہے تویہ بات تُمہارے نزدِیک کِیُوں غَیر مُعتبر سَمَجھی جاتے ہے؟ مَیں نے بھی سَمَجھا تھاکہ یِسُوع ناصری کے نام کی طرح طرح سے مُخالفت کرنا مُجھ پر فرض ہے۔ چُنانچہ مَیں نے یروشلِیم میں اَیسا ہی کِیا اور سَردار کاہِنوں کی طرف سے اِختیّار پاکر بہُت سے مُقدّسوں کو قَید میں ڈالا اور جب وہ قتل کِئے جاتے تھے تو مَیں بھی یہی راۓ دیتا تھا۔ اور ہر عِبادت خانہ میں اُنہِیں سزا دِلا دِلا کر زبردستی اُن سے کفُر کہلواتا تھا بلکہ اُن کی مُخالفت میں اَیسا دِیوانہ بناکہ غَیر شہروں میں بھی جا کر اُنہِیں ستاتا تھا۔ اِسی حال میں سَردار کاہِنوں سے اِختیّار اور پروانے لے کر دمشق کو جاتا تھا۔

بے شک پولس کی اس تقریر کو اگرپا بادشاہ کو کئے گئے خطاب کے طور پر مستند ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ تاریخی انداز میں اعمال کتاب کے مصنف لوقا کی ترتیب کردہ فقط لفاظی ہے.پولس کے متعلق اس دعوے کی کوئی حقیقی اہمیت نہیں کہ یہودی جانتے تھے کہ پولس اعلی طرز کی فریسیانہ روش پر قائم تھا. یہ بات مزید دلچسپی کی حامل ہے کہ اس منظر نامہ میں پولس کو یہ کہتے ہوئے پیش کیا گیا ہے کہ وہ یسوع کے پیروکاروں کی مخالفت میں رائے دیا کرتا تھا. رائے دہی کا اختیار صرف کونسل کے بزرگوں یا اہم معاملات کے حل کے لئے طلب کی جانے والی سنہڈرین کو ہی حاصل تھا. لہٰذا اپنے ممدوح پولس کے متعلق لوقا کیسے یہ دعوی کر سکتا ہے کہ کسی وقت وہ بھی سنہڈرین کا ممبر تھا. اگر یہ دعوٰی سچ ہے تو پولس کے لئے باعث عار ہے کیونکہ اپنے خطوط میں اپنی حیات کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ کچھ بھی ایسا دعوی نہیں کرتا. اوپر مذکور واقعات کے ربط میں انتہائی مشکلات ہیں جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سنہڈرین اور اسکے ساتھ ساتھ سردار کاہن بھی یسوع کے متعلقین کو ایذا رسانی میں مصروف تھے. بعض مرتبہ سردار کاہن کا ذکر تن تنہا آتا ہے تو بعض اوقات سنہڈرین کے ساتھ اس طرح آتا ہے گویا کہ دونوں لازم و ملزوم ہوں، لیکن اعمال کی کتاب میں دو مواقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ فریسیوں کی وجہ سے سردار کاہن رائے دینے میں پیچھے رہ جاتا ہے اور دونوں مواقع پر فریسی یسوع کے پیروکاروں پر تشدد کے لئے کی جانے والی کوششوں کی مخالفت کررہے تھے لہذا (عہد جدید میں) سردار کاہن اور سنہڈرین کے ایک جیسے عزائم دکھاتے ہوئے انہیں پیش کرنا ان سب وقائع کے اندر مشکوک ترین پہلو ہے. 
اعمال کی کتاب میں مندرج پولس کے خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی کے متعلق درج بالا اقتباس کے مجموعے اور اسکے ساتھ ساتھ پولس کے وہ حوالہ جات جو اس کے خاندان کے پس منظر سے متعلقہ ہیں، پولس کے متعلق ایسا مضبوط تصور قائم کرتے ہیں جیسے وہ ایک تربیت یافتہ یہودی ربی تھا اور ان تمام ربائی تفاسیر کی پیچیدگیوں سے واقف تھا جو صحف اور قانونی روایات سے متعلق تھیں (اس کے بعد ربائی تالیفات مدراش اور تلمود جمع کی گئیں) اور بطور فریسی پولس اس نو مولود فرقے کا سخت معاند تھا جو خود کو یسوع کا پیروکار کہتے اور اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ وہ صلیب پر موت کے بعد اپنی قبر سے جی اُٹھا تھا. پولس اس فرقے کا مخالف تھا اور ان لوگوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں میں حصہ لیتا تھا اور ان لوگوں کو جیل میں گھسیٹتا تھا. اگرچہ عہد جدید سے یہ ٹھوس تاثر ابھرتا ہے مگر مبہم رکھے گئے کچھ شبہات یہاں بھی موجود ہیں. مثال کے طور پر پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ مسیحیت قبول کرنے سے قبل سنہڈرین میں وہ مسیحیوں کے خلاف اپنی رائے دیا کرتا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پطرس کے مقدمہ کے وضاحتی بیان میں (اعمال باب 5) فریسی گملیل کی قیادت میں پطرس کی رہائی کے لئے رائے دیتے نظر آتے ہیں. پولس کس قسم کا فریسی تھا؟ اعمال کی کتاب کی گواہی کے مطابق اگر پولس ابتدائی کلیسیاء کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتا تھا تو یہ فریسیوں کا طریقہ ہرگز نہ تھا. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اعمال کی کتاب خود اپنے اندر ہی اختلاف رکھتی ہو؟ ایک طرف اعمال کی کتاب پولس کو فریسی ازم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے متشدد اور مخالف مسیح کے طور پر پیش کرتی ہے تو دوسری طرف یہی کتاب فریسیوں کو ابتدائی مسیحیوں کا دوست ہونے کی حیثیت سے اس حد تک بیان کرتی ہے کہ فریسی مسیحیوں کی حفاظت اور زندگیاں بچانے کے لئے ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں.
بہت سے علماء یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ اعمال کی کتاب مجموعی اعتبار سے حیران کن شواہد کے حساب پر مشتمل ہے جو کہ فریسیوں کے لئے سازگار ہیں اور انہیں روادار اور مہربان ظاہر کرتے ہیں. بعض علماء یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ اعمال کی کتاب کی گواہیاں فریسیوں کے حق میں جاتی ہے مگر یہ رائے مشکل ہی سے برقرار رکھی جا سکتی ہے. ان تمام شواہد سے کہیں زیادہ سازگار فریسیوں کے لئے وہ مواد ہے جو پولس سے متعلق ہے، پولس زمانہ فریسیت میں خود کو کلیسیاء کے ایذا رساں کے طور پر پیش کرتا ہے اور اسکے ساتھ یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ وہ خود بھی پانچ مرتبہ یہودیوں کے ہاتھوں کوڑوں سے پیٹا گیا. (2-کرنتھیوں 11:24) (یہاں اکثر یہودی سے مراد فریسی ہی لیا جاتا ہے). لہٰذا کوئی بھی اعمال کا ایسا قاری نہیں جو اس کے مطالعہ کے بعد فریسیوں کے لئے اچھا تاثر رکھتا ہو بلکہ متشدد اناجیل کی وجہ سے منفی رائے ہی اخذ کرتا ہے.
پولس ہمیشہ سے ہی اس تعلق پر زور دیتا رہا کہ وہ فریسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے. اگرچہ اس دعوی کی وجوہات کے محرکات کثیر ہیں مگر یہاں زیر بحث ایک ہی ہے وہ یہ کہ پولس کی خواہش تھی کہ پولوسی مسیحیت اور یہودیت کے درمیان مبینہ تسلسل برقرار رہے. پولس یہ کہنا چاہتا تھا کہ (جب وہ فریسی تھا) وہ غلطی سے ابتدائی مسیحیوں کو بطور بدعتی سمجھتا تھا جو مسیحیت قبول کرکے یہودیت سے جدا ہو گئے تھے. اس کا خیال تھا کہ مسیحیت ہی اصل یہودیت ہے. اپنی فریسیانہ تعلیم و تربیت کو بنیاد بنانے کا مقصد یہ تھا کہ "اُس کی ساری تعلیم" اسے یسوع کو بطور المسیح قبول کرنے کی طرف لاتی ہے جس کی پیشگوئی عہد قدیم میں کی گئی تھی. لہذا جب پولس اپنے فریسی ہونے کا اقرار کرتا ہے تو یہ فقط اس کا، جرائم قبول کرنے کا اعلان نہیں بلکہ وہ اپنی سند کا بھی اعلان کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اتنا ہی جانتا ہو جتنا میں یقین کر سکوں کہ یسوع ہی تورات کی تکمیل تھا تو کون اس کے دعوے سے عدم اتفاق کی جرات کر سکتا ہے؟
یسوع کے متعلق پولس کے نظریات یہودیت سے جراتمندانہ علیحدگی کا نام ہے. پولس ان نظریات کی وکالت کررہا تھا جو یہودیت کی نسبت مشرکانہ افسانوں سے زیادہ مماثل تھے جیسا کہ یسوع ایک الوہی ذات رکھنے والی ہستی تھی جو آسمان سے زمین پر اترا اور انسانیت کی نجات کے عظیم مقصد کے لئے صلیبی موت کو قبول کیا. یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں نے اس کے نظریات کو حیران کن پایا جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سارے معاملے میں یہودی صحائف مقدسہ کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی (پولوسی نظریات) کسی بھی طرح سے یہودیوں کے لئے قابل تفہیم رہے. پولس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اس کے نظریات نئے ہیں بلکہ اس کے برخلاف وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس کی تفہیم کے مطابق یہودی صحائف کی ہر ہر سطر یسوع کی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور جن لوگوں نے اس سوچ سے ہٹ کر صحائف کو کسی اور رخ سے سمجھا وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہو گئے.
وہ لوگ جنہوں نے پولس کے نظریات کو قبول کیا اور اسے ایک مجدد کے طور پر تسلیم کیا کہ یہودی صحف میں ایسا اشارہ نہیں، انہی میں سے ایک شخص مارقیون بھی تھا جو پولس کے سو سال بعد آیا اور اس کو بطور ملہم اعلی تسلیم کیا تھا. اس کے ساتھ ساتھ مارقیون نے پولوسی نظریات میں کوئی بھی یہودی عنصر دیکھنے کا انکار کیا اور اسے ایک نئے مکاشفہ کا طور پر قبول کیا. وہ یہودی صحف کو شیطان کا کام قرار دیتا تھا اور عہد عتیق کو اپنی مرتب کردہ بائبل سے خارج رکھتا تھا.
پولس خود اس نظریہ کا مخالف تھا اگرچہ وہ نبی عہد عتیق کو یسوع کی آمد کے بعد فرسودہ قرار دیتا تھا مگر اسے کلام خدا اور نئی کلیسیاء کی نبوتی تعلیم کے طور پر قبول کرتے ہوئے مستند قرار دیتا تھا. لہذا بطور فریسی پولس کی خود کی تصویر نئی اور پرانی تقسیم کے درمیان تسلسل کی ایسی علامت ہے جو اس (پولس) کی ذات کو ایسا اہم موڑ قرار دیتی ہے جس پر آکر یہودیت مسیحیت میں تبدیل ہو جاتی ہے.
ابتدائی صدیوں سے ہی مسیحی علماء اس پس منظر کی روشنی میں پولس کے فریسی ہونے کا دعوٰی کررہے تھے. قرون وسطی میں یہودیوں کو مسیحیت میں داخل کرنے کے لئے منعقد ہونے والے مناظروں میں اس دعوی کو ظاہر کرنے کے لئے دلائل پیش کیے جاتے تھے کہ نہ صرف یہودی صحائف بلکہ ربائی تحاریر، تلمود اور مدراش مسیحیت کے اس دعوے کو قائم رکھتی ہیں کہ یسوع ہی موعود مسیح تھا اور ایسا الوہی حیثیت کا حامل تھا جس نے انسانیت کی خاطر موت کو گلے لگا لیا. جدید زمانہ میں علماء نے یہ دلیل دینے پر بہت محنت کی ہے کہ مسیح اور الہی آزمائش جیسے پولوسی عقائد یہودیت کا ہی تسلسل ہیں جیسا کہ بائبل، اپاکریفا اور غیر مستند تصانیف اور ربائی تحاریر سے بھی ظاہر ہے. لہذا پولس کا فریسیت میں مہارت حاصل کرنے کا دعوی انتہائی اہم اور مرکزی ہے خواہ پولس کی تشکیل شدہ مسیحیت واقعی یہودیت کے ساتھ اتصال بر قرار رکھے ہوئے ہے یا خواہ یہ نظریہ جدید ہو جس کی یہودیت میں کوئی نظیر نہیں. حاصل کلام تو یہی ہے کہ آسمان سے نیچے اترنے والے نجات دھندہ کے یونانی افسانے اور خدا کے مرنے اور جی اٹھنے کی مشرکانہ روایات فقط ایک تاریخی پس منظر کے طور پر ہیں کیا پولس صحیح معنوں میں یہودیوں روایات کو قائم رکھے ہوئے تھا یا پھر یہ بنیادی طور پر ایسا یونانی مذہبی انسان تھا جو ایسے گروہ کو یہودیت کا رنگ دینے کی کوشش میں تھا جو اُس عقیدہ نجات کے قائل تھے جو ہر اس چیز کے خلاف تھا جس پر یہودیت قائم تھی.


Join us on Facebook so click here
مکمل تحریر >>

برابا کا معمہ؟اصل حقیقت!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ: (یہ تحریر مشہور ہائی پروفائل یہودی اسکالر ہائم مکابی کی مشہور کتاب Revolution in Judaea, Jesus and The Jewish Resistance کے پہلے باب The problem of Brabbas کے ترجمہ پر مشتمل ہے)
مترجم عبداللہ غازیؔ
ﺑﺮﺑﺎﺱ کا افسانہ ان واقعات کی بہترین توضیح پیش کرتا ہے ﺟﻦ ﮐﯽ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﺼﻮﯾﺮﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺱ انجیلی مقام پر ﺗﻤﺎﻡ افسانوی کردار ﺍﺱ ﻃﺮﺡ یکے بعد دیگرے ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ کہانی ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﺣﺼﮧ یہی ﮨﻮ۔اس واقعہ میں ﺭﻭﻣﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ( ﺍﻧﻮﮐﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﻭﻣﯽ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺣﺪ ﺗﮏ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ) ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ معاصرین یسوع یہودیوں کی منظر کشی کی گئی ہے لہذا اس مقام پر ﮐﺎﮨﻦ ﺍﻋﻈﻢ،ﺻﺪﻭﻗﯽ،ﻓﺮﯾﺴﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺘﺒﻌﯿﻦ ﺳﻤﯿﺖ،ﺍﻧﻘﻼﺑﯽ ﺷﺪﺕ ﭘﺴﻨﺪ،ﮨﯿﺮﻭﺩﺋﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮﺗﻌﺪﺍﺩ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﺐ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﺤﺪ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺍﺑﺎﺱ ﮐﺎ ﻗﺼﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﯿﮟ ﺗﻮﺍﻧﺠﯿﻞ ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻗﺼﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ معمولی ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻋﻨﺼﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺠﯿﻠﯽ داستان کو تشکیل دیتا ہے ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﮐﺎ ﻭﺍﺿﺢ ﺗﻌﯿﻦ اور ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻃﺮف کا رویہ بھی بیان کرتا ہے ۔ﺁﺋﯿﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮧ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ اربعہ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ اس واقعہ کی ﺟﺰﺋﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ۔
ﯾﺴﻮﻉ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎﺟﺎﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺟﺲ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﮈﺍﻻ ﮔﯿﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﮐﺶ ﮈﺍﮐﻮ ﺗﮭﺎ ۔ ان سب واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے وقت ﯾﮧ ﻋﯿﺪ ﻓﺴﺢ ﮐﺎ موقع تھا ﺍﻭﺭ انجیلی بیان کے مطابق فسح کے موقع پر ﯾﮩﻮﺩﯼ ﯾﮧ ﺣﻖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﺪﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺯﯾﺎﺑﯽ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺭﻭﻣﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﮐﺮ ﺍﺱ کی بے گناہی اور معصومیت کا معترف ہو کر یسوع کا طرفدار تھا ﺍﻭﺭ یہودیوں کی طرف سے ﯾﺴﻮﻉ پر لگائے جانے والے الزامات کے کذب بیانی پر مشتمل ہونے کا متقین تھا اور ساتھ ہی یسوع کی سچائی پر بھی یقین رکھتا تھا کہ یہ بے ضرر اور بیگناہ ہے. گورنر کے سامنے پیشی کے موقع پر ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻗﯿﺪﯼ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﻣﺠﻤﻊ ﻧﮯ ﺷﻮﺭﻣﭽﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ۔ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ اسی ﻣﻮﻗﻊ ﮐﯽ ﺗﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﺎﮨﻦ ﻣﺠﻤﻊ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭼﮑﺮ ﮐﺎﭦ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ اس بات پر ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ پیلاطوس کی طرف سے دی جانے والی اس ممکنہ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔یہودی ﻣﺠﻤﻊ ﻧﮯ ﮐﺎﮨﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭﮐﺮﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﮮﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﻮﮐﮧ رومی حکومت کا ﺑﺎﻏﯽ ﺗﮭﺎ۔ یہ مطالبہ سامنے آنے کی صورت میں ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﻭﺍﻗﻌﺘﺎً ﺭﻧﺠﯿﺪﮦ ہوگیا تھا ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ،ﭘﮭﺮﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯﭘﻮﭼﮭﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ؟ﻣﺠﻤﻊ ﭼﻼﯾﺎﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺻﻠﯿﺐ ﺩﻭ۔ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﺍﺱ ﺧﻮﻧﯽ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﺳﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﮨﻮﮔﯿﺎ کیونکہ وہ ﯾﮧ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﯼ ﺍﻟﺬﻣﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯﮔﻨﺎﮨﯽ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﯽ۔ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺠﻤﻊ ﺍﭘﻨﯽ بات ﭘﺮ ﺑﻀﺪ ﺗﮭﺎ اور چلا چلا کر ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ،ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﯾﺴﻮﻉ کو ﺻﻠﯿﺐ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻟﮯﺟﺎﯾﺎﮔﯿﺎ۔
ﯾﮩﺎﮞ ﭼﻨﺪﺳﻮﺍﻻﺕ ﺫﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺤﻀﺮ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ پیلاطوس کی دلی خواہش اور یسوع کی بےگناہی ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﺻﻠﯿﺐ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﮍﯼ؟ ﺍﮔﺮ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﺴﯽ ﻗﯿﺪﯼ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺍﻥ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﮩﯿﮟ اس موقع پر ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮔﯿﺎ ﺍﻥ( ﯾﮩﻮﺩ ) ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﮟ؟ ﯾﻮﺣﻨﺎ ﮐﯽ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ﯾﮩﻮﺩﯼ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﻮﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﮈﺭﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﺴﻮع ﮐﻮ ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺗﻮﻭﮦ ﻗﯿﺼﺮ ﮐﻮ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﮔﮯﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ( ﯾﺴﻮﻉ ) ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻗﯿﺼﺮ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ۔ﻟﯿﮑﻦ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﻮ ایسے ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺯﺭﯾﻌﮯ ﺟﻮﮐﮧ ﺭﻭﻡ ﮐﯽ ﻣﺎﺗﺤﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﯿﺮﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺗﮭﮯ،ﺍﺱ جرم ﮐﯽ ﯾﺎﺩﮬﺎﻧﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﮔﺌﯽ؟ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﺭﻭﻣﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﺮﻧﺎ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺣﮑﻮﻣﺖ ِﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ؟ﺍﺱ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻟﻨﺎ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ( ﯾﺴﻮﻉ ) ﮐﻮ ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ " ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻭ " ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭﮞ؟
ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺰﯾﺪﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﻦ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺗﺐ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﯾﺴﻮﻉ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﺷﺎﮨﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ تمام انجیل نویس ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ " ﻓﺎﺗﺤﺎﻧﮧ ﺩﺍﺧﻠﮧ " ﻗﺮﺍﺭ ﺩیتے ہیں ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺱ ﻗﺪﺭﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﮔﻮﯾﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﻗﻮﻣﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﻮ۔ﻟﻮﮒ یسوع ﮐﻮ ﺑﻄﻮﺭ "ﻧﺒﯽ" ﺩﺍﺅﺩ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﮑﺎﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ﯾﺴﻮﻉ ﺍﯾﮏ ﮔﺪﮬﯽ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﻤﻊ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺮﺟﻮﺵ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﮭﺠﻮﺭ ﮐﯽ ﺷﺎﺧﯿﮟ ﻟﮩﺮﺍ ﮐﺮﺭﮨﺎﺗﮭﺎﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭﯾﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﭽﮭﺎ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ۔ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮨﯿﮑﻞ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮑﻞ ﮐﮯ تقدس کی پامالی کرنے والوں کے ٹھیلوں کو الٹ دیا، ﺗﺎﺟﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻮﮌﮮ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﯿﺎ۔ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ بیان کرتی ﮨﯿﮟ ﮐﮧ یسوع ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ وہ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ تھا اور اُسے ﻣﻀﺒﻮﻁ ﻋﻮﺍﻣﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ بھی حاصل تھی یہی وجہ تھی کہ ہیکل کے پہرےدار و یہودی کاہن ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔اناجیل کے بیان کے مطابق ﯾﺴﻮﻉ ﮐﺎ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺗﺤﺎﻧﮧ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﺍﺗﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ،ﺟﻤﻌﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮﻟﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻭﮦ مصلوب کئے گئے۔ ﺑﺮﺍﺑﺎ کا افسانہ ﯾﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮتا ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺲ ﻃﺮﺡیہودی مجمع ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻇﺎﻟﻤﺎﻧﮧ ﺳﺰﺍ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﮟ۔
ﺍﯾﮏ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﻦ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ اتوار کے روز ﯾﺴﻮﻉ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﮭﯿﮍ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ بطور "منجیِ اسرائیل" ﺟﯿﺴﯽ ﺁﻣﺪِﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ استقبال ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ کھجور کی شاخیں لہرا ﮐﯿﺎ مگر یہی لوگ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﺍﺳﯽ منجی ﮐﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻼﻧﮯ ﻟﮕﮯ؟ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺮﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﻭﻋﺪﮦ ﺧﻼﻑ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﯾﺴﻮﻉ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺍﻣﯿﺪ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ وہی ﻣﻮﻋﻮﺩﮦ ﻣﺴﯿﺢ ﺗﮭﺎ جس نے آکر یہودیوں کو رومی غلامی سے نجات دینی تھی مگر یہ تو ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﻮ شکست دیئے بغیر ہی ﻣﻐﻠﻮﺏ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮐﺌﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺷﮑﺴﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﭼﮑﺎﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﺟﻮ کہ ایک شدت پسند ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺷﮑﺴﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮐﮯ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﯼ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ رومیوں کے خلاف ﺳﺨﺖ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﺗﮭﯽ ﺟﻮﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺠﻤﻊ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ بطور حریت پسند ﻣﻌﺰﺯ ﺑﻨﺎ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺠﻤﻊ یسوع کی طرف سے بدظن ہوکر اپنی امیدوں کا مرکز برابا کو بنا چکے تھے. ﯾﺴﻮﻉ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﮔﺮﻡ ﺟﻮﺷﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﺏ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﮨﻦ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﺒﮯ ﭘﺮ ﺍﺑﮭﺎﺭﺍ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کہانی سے جو تاثر پہنچانا مقصود تھا وہ پوری طرح پہنچ گیا. یسوع امن پسندی کے باوقار عالی مقصد کے لیے اٹھے جبکہ برابا مادیت پسندی کا متشددانہ مقصد لئے ہوئے تھا. بے دین مجمع یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یسوع وہ پرشکوہ کامیاب مسیح نہیں تھا جس کے وہ منتظر ہیں اور اس کی بادشاہی اس دنیا کی نہیں ہے. وہ خدا کا بیٹا ہے جسے شکست کی مصیبت اور موت سے دوچار ہونا پڑتا تاکہ انسانیت کے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکے.یہودیوں کا برابا کو یسوع پر ترجیح دینا ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺍﺳﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﮐﻮ ﺭﺩ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﻣﺠﻤﻊ ﮐﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ان کے ﺭﻭﯾﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﯾﺴﻮﻉ ﭘﺎﻟﻢ ﺳﻨﮉﮮ ﮐﻮ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍز ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺧﻮﺵ ﺁﻣﺪﯾﺪ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﺮﻧﮯ والوں کے استقبال کے لئے ﻣﻌﺮﻭﻑ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﮯﺻﺮﺍﻓﻮﮞ ( ﺯﺭﻣﺒﺎﺩﻟﮧ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ) ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻝ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﺎ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺍﻣﻦ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻈﮩﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻌﻞ ﮐﺴﯽ ﺧﻼﻑ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮐﺴﯽ ﻋﻤﻮﻣﯽ ﺍﺻﻮﻝ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﺗﯿﺎﺭ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺑﮩﺖ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ . ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﻣﻔﺮﻭﺿﮧ ﻭﺿﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﺍﯾﮏ ﭘُﺮ ﺍﻣﻦ ﺩﺍﻋﯽ ﺗﮭﺎ . ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﺢ ﺟﺪﻭﺟﮩﺪ ﮐﮯ ﺻﻠﯿﺐ ﭘﺮ ﻣﺼﺎﺋﺐ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺭﻓﻘﺎﺋﮯ ﮐﺎﺭ ﮨﯽ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺭﻓﻘﺎﺋﮯ ﮐﺎﺭ ﮐﻮ ) ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻗﻄﻌﯽ ﻃﻮﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ( ﮐﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﮔﺎ ) ۔ یہودی ﻣﺠﻤﻊ ﺟﻮﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﮯ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ سے بخوبی واقف ﺗﮭﺎ، ﺍﺳﮑﯽ ﺣﺘﻤﯽ ﻓﺘﺢ ﺳﮯ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ. ﻭﮦ لوگ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻌﺠﺰﮮ ﮐﮯ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻗﯿﺪﺧﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﯾﮟ ﺗﻮﮌ ﮈﺍﻟﮯ اور ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ "المسیح" کے اُس ﺗﺼﻮر ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺗﮭﮯ جو یہودیوں میں معروف تھا.
ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ عسکری طاقت رکھنے کی ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ہی ﺣﻘﯿﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﮔﯿﺎ ،ﻭﮦ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﭼﭗ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮﺍﻟﺰﺍﻣﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﭘﺮﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﻏﯿﺒﯽ ﻣﺪﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﻭﻗﺖ (ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ ) ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺭﮨﺎﺗﮭﺎ ﺗﻮﻭﮦ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺭﮨﺎﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺭﻭﻣﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﺴﻮﻉ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮﺍﻭﺭ ﮈﺭ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭﺍﺳﮑﮯ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﮐﺮﺭﮨﺎﺗﮭﺎ۔ﺍﺩﮬﺮ ﻣﺠﻤﻊ ﺍﯾﮏ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺻﺎﺩﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺘﻨﻈﺮ ﺗﮭﺎ مگر ﺭﻭﻣﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮ کے لئے روا نہ تھا ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ یونہی ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﺟﻮﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﺎﺗﺤﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔۔
بے شک خدا پیلاطوس گورنر کے ذہن کو مفلوج کر چکا تھا تبھی وہ یسوع جیسے بادشاہت کے مدعی کو رہا کرنے کا سوچ رہا تھا. ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﮐﻮ ﯾﺴﻮﻉ جیسے منجی اسرائیل ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺭﺯﻭﺅﮞ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯﭘﻮﺭﺍﮨﺠﻮﻡ ﻏﯿﺮﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﻃﻮﺭ یسوع ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔یسوع ﮐﯽ ﻣﻘﺒﻮﻟﯿﺖ ﮔﮭﭩﺘﮯ ﮔﮭﭩﺘﮯ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﺍﮨﺠﻮﻡ ﻣﺘﺬﺑﺬﺏ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺍﯾﺴﺎ اضطراب ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻧﻈﺮﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﺩﯾﺎﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ مگر یہ درست نہیں کہ ﻋﻘﻮﺑﺖ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎﺟﺎﺋﮯ۔ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﺎ ﮨﺠﻮﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﮐﯿﺎﺟﺎﻧﺎ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﺍﯾﮏ زبردست حریت پسند رہنما ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﮯ۔ﺍﺱ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﯾﺴﻮﻉ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻭﺍﻗﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﺍﺍﻭﺭ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ۔ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﺎ ﺩﺷﻤﻦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﻣﻌﺎﻭﻥ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﻟﮩﺬﺍ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻻﺯﻣﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ( ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ) ﻟﺌﮯﺍﻟﺘﺠﺎ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﯽ ﺭﻭﻣﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﮑﯿﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ حکومت وقت کے خلاف بغاوت ﮐﮯ ﺍﻟﺰﺍﻣﺎﺕ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ دونوں ﮐﯽ ﻣﻘﺒﻮﻟﯿﺖ مقامی ﺁﺑﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﻭﻣﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮯﻗﺎﺑﻮ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺭﻭﻣﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺩﻭﻏﻼ ﭘﻦ ﺗﮭﺎ ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺷﯿﮑﺴﭙﯿﺌﺮ ﮐﯽ ﺟﻮﻟﯿﺲ ﺳﯿﺰﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯﮐﮧ ﻗﯿﺼﺮ ﺳﮯ ﺑﺮﻭﭨﺲ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﻭﭨﺲ ﺳﮯ ﻗﯿﺼﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﻮ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺭﮨﻨﺎ۔ﻭﮦ ﻣﻄﺎﺑﻘﺖ ﺟﻮﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻣﯽ ﻣﺠﻤﻊ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﮨﮯ ۔ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺠﻤﻊ ﺻﺮﻑ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻨﮧ ﭘﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ یسوع سے یہودیوں کی ﺑﻼﻭﺟﮧ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﮐﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮ نے کی کوشش ﮨﮯ ﺟﻮﮐﮧ انجیل نویس کے مقصد کو ظاہر کرتی ہے ﻟﯿﮑﻦ یہ نفس واقعہ فی الحقیقت ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺻﺮﻑ متاخر کتاب ہی "ﺟﻮﮐﮧ ﯾﻮﺣﻨﺎﮐﯽ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﮨﮯ " ﺑﺮﺍﺑﺎ ﮐﻮ ﮈﺍﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ جبکہ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺗﯿﻦ ﮐﺘﺐ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺎﻏﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ﺑﮯﺷﮏ ﯾﻮﺣﻨﺎ ﯾﮩﻮﺩیوں ﮐﯽ اس ﺍﺣﻤﻘﺎﻧﮧ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﭘﺮﺯﯾﺎﺩﮦ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﻮ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﻦ۔ﭼﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﮈﺍﮐﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﻟﻔﻆ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﯾﺖ ﭘﺴﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ اور ﮈﺍﮐﻮ ﮐﺎﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﻟﻔﻆ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺁﺯﺍﺩ ﺟﻨﮕﺠﻮﺅﮞ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﮐﺜﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے جس کا مطمع نظر یہ ﮐﮧ ﻭﮦ (ﯾﮩﻮﺩﯼ) ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﺗﮭﮯ۔
ﯾﻮﺣﻨﺎﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﻂ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﻮ ﺗﮭﺎ اور ﻭﮦ ( ﺭﻭﻣﯽ ) ﺍﺱ( ﺑﺮﺍﺑﺎ ) ﮐﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮐﮯ ﻓﻘﻂ ﺍﻥ (ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ) ﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
اناجیل میں برابا کو ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ہے جس کا ثبوت انجیل نویسوں کا رویہ ہے کہ انہوں نے ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺻﺮﻑ ﺑﻮﮌﮬﻮﮞ ﯾﺎﯾﮩﻮﺩﯼ ﭘﯿﺸﻮﺍﺅﮞ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻟﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ بلا استثناء ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎﮔﯿﺎ۔ ﻣﺴﯿﺤﯽ ﮐﻠﯿﺴﯿﺎﺀ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺳﭽﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﯾﮟ،چنانچہ یہود دشمنی میں انجیل نویسوں نے ﺍﺱ قصہ سے یہ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﮯ کی کوشش کی ہے ﮐﮧ "یسوع کو دھوکہ دینے کے بعد ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﮦ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﻭﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﮭﻮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻣﻘﺮﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻋﮩﺪﻧﺎﻣﮧ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻭﻋﺪﮮ ﺍﺏ ﺻﺮﻑ ﻣﺴﯿﺤﯽ ﮐﻠﯿﺴﯿﺎﺀ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩیوں ﮐﮯ ﻟﺌﮯ. اس افسانے میں ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﯽ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﺭﺩ ﮐﯿﺎﺍﻭﺭﺳﻮﻟﯽ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ لے لی، ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ یسوع کی مصلوبیت کے مطالبے کے لئے ﭼﻼﻧﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﻟﯽ ﺩﻭ،ﺍﺳﮯ ﺳﻮﻟﯽ ﺩو، کو ﮨﯽ ﻣﺴﯿﺤﯽ ﮐﻠﯿﺴﯿﺎﺀ ﻧﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ پوری ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ یسوع کے خون کا ذمہ دار ٹھہرایا.
ﮐﯿﺎ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻣﺪﻋﺎ یہی ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﻭ ﺗﻮﺿﯿﺢ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﭼﺮﭺ ( ﮐﻠﯿﺴﯿﺎ ) ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﭖ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ؟ ﮐﯿﺎ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﻭﺍﻻ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺍﺧﺘﺮﺍﻉ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﻣﻘﺪﺱ ﻧﻮﺷﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﺍﯾﺰﺍﺩ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﻗﺒﻮﻝ ﻭ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﭨﮭﮩﺮﺍﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺑﻼ ﮐﻢ ﻭ ﮐﺎﺳﺖ ﻣﺠﺮﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ؟ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﺮﮒ ﻭ ﺑﺎﺭ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ؟ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﺻﺪﺍﻗﺖ ﮐﻮ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﻣﺴﺦ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ؟ ﮨﻢ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﺱ ﮨﺠﻮﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ برابا نامی ﺍﯾﮏ ﻗﯿﺪﯼ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﻌﺮﮦ ﺯﻥ ﺗﮭﺎ؟ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺣﺮﻑ ﺑﺤﺮﻑ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﻻﺯﻣﺎ ﺍﺱ ﮐﮩﺎﻧﯽ کے ﺍﻧﺠﯿﻠﯽ ﻋﻨﺼﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﺗﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯾﻨﯽ ﮨﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ۔
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻞ ﺟﻮ ﺑﺮﺍﺑﺎﺱ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯽ . ﻭﮦ ﺍﺱ ﮨﺠﻮﻡ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺍﻟﺠﮭﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﺘﻀﺎﺩ ﯾﺎ ﺗﺮﺩﯾﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻨﮧ ﭘﺮﻭﺭ ﯾﺎ ﻋﻨﺎﺩ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﺭﻭﯾﮧ ﮨﮯ ﺟﺘﻨﺎ ﮐﮧ ﺭﻭﻣﻦ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ۔ﺑﺮﺍﺑﺎﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻋﮩﺪ ﻧﺎﻣﮧ ﺟﺪﯾﺪ ﮐﮯ علاوہ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎ ﺁﺯﺍﺩﺍﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ . ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﻮ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﯽ ﻋﺎﺩﺍﺕ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺟﻮ ﻓﯿﻠﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺯﻓﺲ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺳﻔﺎﮎ ﻇﺎﻟﻢ ﻟﭩﯿﺮﺍ ﮈﺍﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﺍﻃﻮﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ۔ﻭﮦ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﮏ ﻏﯿﺮ ﻣﻨﺼﻔﺎﻧﮧ ﭘﮭﺎﻧﺴﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﺗﮭﺎ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﺱ منصب ﺳﮯ نااہل قرار دے کر ﻗﺘﻞ ﻋﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺑﺮﺧﺎﺳﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ. ﻋﮩﺪ ﻧﺎﻣﮧ ﺟﺪﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮔﯿﻠﯿﺌﻦ ﮐﮯ ﺭﯾﻔﺮﻧﺴﺰ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮧ ﺟﺴﮑﺎ ﺧﻮﻥ ﭘﯿﻼطوس ﻧﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ اسکی ﻭﮦ انجیلی ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺟﻮ ﺑﺎﺭﺑﺮﺍ ﻭﺍﻟﮯ واقعہ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ شخص جیسی ہے ﺟﻮ ﺑﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﻣﻮﺭﻭﺩ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﭨﮭﮩﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺟﻮ ﻧﯿﮏ ﻧﯿﺖ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﭽﮑﭽﺎﮨﭧ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﮮ ﻣﮕﺮ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﺠﻮﻡ کے مطالبے ﺳﮯ بلاوجہ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﮮ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺽ ﺷﻨﺎﺱ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺍﻓﺴﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ کردار ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺮﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺎﮔﯿﺎ ہے ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﮯ۔ﻭﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﭘﯿﭽﯿﺪﮔﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ یہودی ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺭﮨﺎﺗﮭﺎ؟ﻭﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﺰائم ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﮯ ﺑﺲ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ کے علاوہ اور کچھ نہیں ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ؟
ﻋﯿﺪﻓﺴﺢ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮑﻮﮎ ﻋﻨﺼﺮ ﮨﮯ اور ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺯﺭﺍﺋﻊ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺎ ﮨﻮﻧﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔ﺍﮔﺮ پیلاطوس کو ﻭﺍﻗﻌﯽ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﮐﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ یسوع کو ﺭﮨﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻗﻮﯼ ﺍﻣﮑﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﻖ تفویض کیا گیا تھا کہ ﻭﮦ کسی بھی ﺳﺮﮐﺸﯽ و بغاوت ﮐﮯ ﻣﺮﺗﮑﺐ ﻗﯿﺪﯼ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ مختیار ﮨﻮﮞ کیونکہ ﯾﮧ رومی گورنر کے لئے بہت مشکل ہوتا ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﺻﻮﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﻢ ﻭﺿﺒﻂ ﺭﮐﮭﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﺘﺸﺎﺭ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﻭﺍلے باغیوں ﮐﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ سے ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﻣﺮﺗﺒﮧ یونہی ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺩﯾﺎﺟﺎﺋﮯ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﺮﮐﺸﯽ ﭘﮭﯿﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺍﻣﮑﺎﻥ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﮐﻞ ﺳﺒﮭﯽ محققین و علماء ﻋﯿﺪﻓﺴﺢ ﮐﮯ اِس ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﻮ بے معنی ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺘﻔﻖ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﮨﻢ ﻣﻘﺼﺪ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮨﮯ اور ﯾﮧ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﮐﮯ ﻣﺼﻨﻔﯿﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺭﻭﻣﯽ یسوع کی مصلوبیت ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ تھے بلکہ رومی ﮔﻮﺭﻧﺮ ﻓﺴﺢ ﻣﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻭﯾﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ عاجز ہوگیا،ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺟﮭﮑﺎ ﺩﮮ۔ﺟﺒﮑﮧ اگر ﮐﻮﺋﯽ گہری نظر سے ﺍﺱ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮﮮ ﺗﻮﻭﮦ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ افسانہ ﺗﮭﺎ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﯽ ﺑﮯﺑﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺻﻞ ﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔
ﭼﻠﯿﮟ ﮨﻢ ﺫﺭﺍ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﺎﻥ ﺑﯿﻦ ﮐﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮌﺍ وسیع ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﺎ ﺻﺎﻑ ﺳﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺨﺺ ﺟﻮ اس ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺳﮯ ﺟﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ، ﻭﺍﻗﻒ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﮨﮯ.
ﺍﺱ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺳﭽﺎﺋﯽ یہ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩیہ پر قائم ﺭﻭﻣﻦ ﻗﺒﻀﮧ کے خلاف ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﯽ تحریک کو قریبی زمانہ ﻣﯿﮟ ہی ﺧﺘﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ( ﭼﮫ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﺍﺑﮭﯽ ﺻﺮﻑ ﺑﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ ) ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﻦ ﻗﺒﻀﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻃﻮﺭ ﻏﯿﺮ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﯾﺎ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ .
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﮯ 1940-45 کے عرصے کے ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﮯ اور ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻗﻄﻌﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮔﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﮮ ﮐﮧ فرانس ﺍﺱ ﻭﻗﺖ نازی ﺟﺮﻣﻨﺰ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ. ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﮩﻮﺩﯼ ( ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻓﺮﺍﻧﺲ ) ﻗﻮﻣﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺗﮭﺎ۔
ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ مشترک ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﮯ " ﺭﻭﻣﻦ " ( ﯾﻮﺣﻨﺎ 9 ؛48 )
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻏﯿﺮﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻃﻠﺐ ﮨﮯ. اناجیل میں ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ مسلسل ﻏﯿﺮﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﯽ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﮯ اور یہ بالکل ﺍن کتوں کی مانند ہے ﺟﻮﮐﮧ ﺷﺮﻻﮎ ﮨﻮﻣﺰ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﻮﻧﮑﮯ۔
فقط ﺩﻭﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮨﯿﮟ۔
ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﮐﮯ ﺗﺤﻔﻈﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ،ﺟﺲ ﭘﺮ ﮨﻢ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺭﻭﻣﯽ ﺻﻮﺑﯿﺪﺍﺭ ﺟﻮﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮ ﺻﻠﯿﺐ ﭘﺮ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺑﮯﺷﮏ ﯾﮧ ﺁﺩﻣﯽ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ " ۔ﺍﺱ ﮐﺎ ﻃﺮﺯﻋﻤﻞ ان یہودیوں کے ساتھ ﻣﻮﺍﺯﻧﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﻮﺻﻠﯿﺐ ﺩﯾﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮭﮍﮮ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮔﯽ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﻮﻗﻌﮯ ﮨﯽ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﺎﺯﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ۔ﭘﯿﻼﻃﻮﺱ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﺑﯿﺪﺍﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﻣﺼﺎﺋﺐ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺣﺴﺎﺱ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮ ﻋﮑﺲ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ الوہیت کے ﻣﻨﮑﺮ ﺍﻭﺭ بطور ﻇﺎﻟﻢ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﺴﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﯾﮩﻮﺩ ﺩﺷﻤﻦ ﺭﻭﺋﯿﮯ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﺿﺢ ﺟﮭﮑﺎﺅ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﮭﮑﺎﺅ ﮨﺮ ﺩﻭ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﯾﺎ ﺣﺬﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﺮﻑ ﺁﺗﺎ ﮨﻮ ( ﻣﺜﻼً ﺍﻥ ﮐﺎ ﯾﮩﻮﺩﯾﮧ ﭘﺮ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻏﻠﺒﮧ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺖ ﭘﺮﺳﺘﯽ، ﻋﺼﻤﺖ ﺩﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺍﻭﺭ ﻇﺎﻟﻤﺎﻧﮧ ﺧﻮ ﺑﻮ ﻭﻏﯿﺮﮦ ) ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﺴﺘﺰﺍﺩ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻗﻮﻡ ﭘﺮ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺑﺮﺗﺮﯼ ﺟﺘﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ.
ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﺍس قدر ﯾﮩﻮﺩ ﺩﺷﻤﻦ رویہ پر مشتمل ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﯿﮟ؟ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﻻﺯﻣﺎً ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺕ ﮐﺮﻧﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ۔ﯾﮧ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺕ ﮨﺮ ﺩﻭ ﺍﺩﻭﺍﺭ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺍﻭﻝ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﯾﺴﻮﻉ ﻣﺴﯿﺢ ﺑﻘﯿﺪِ ﺣﯿﺎﺕ ﺗﮭﮯ . ﺩﻭﻡ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﻌﺮﺽ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ نیز ﯾﮩﻮﺩ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﻥ ﺑﯿﻦ بھی ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﺩﮬﻨﺪﻟﯽ ﮨﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﮨﯽ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ.
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻓﺮﻗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﯽ گروہوں ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﯽ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﯾﺴﻮﻉ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﭘﺮ ﮐﻤﺮﺑﺴﺘﮧ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﻻﺯﻣﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻧﺎﺟﯿﻞ ﮐﻮ اس طرح سے کیوں لکھا کہ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺯﺍﻭﯾﮧ ﻧﻈﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﺨﺖ ﯾﮩﻮﺩ ﺩﺷﻤﻦ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻣﻦ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﯿﻮﮞ ﺗﮭﺎ ؟
گذشتہ سطور میں ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم پورے قصے کے قریب مزید تفہیم اور یسوع اور ان کی تحریک کی اہمیت کی اصلیت جان کر ساتھ ہو سکتے ہیں اور تبھی ہم برابا کے قضیہ کی مشکلات کا حل پیش کر سکتے ہیں جس میں انجیلی کہانی کا بنیادی الجھاؤ موجود ہے

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 6 اگست، 2016

کیا پولس فریسی تھا؟

اس کتاب کو پی ڈی ایف شکل میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم               
                یہودی و مسیحی علمی حلقوں میں پروفیسر ہائم مکابی جیسے اسکالر کا نام تعارف کا محتاج نہیں، برطانیہ میں یہودی و مسیحی روایات پر انہیں اتھارٹی اسکالرز کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے حتی کہ ڈاکٹر ہیوجے شون فیلڈ جیسے چوٹی کے اسکالرز بھی ان کے علم کے متعلق لکھتے ہیں کہ "مجھے یقین ہے کہ ہائم مکابی کے مقدس پولس کے متعلق نظریات قابل فکر ہیں". زیر نظر تحریر بھی ہائم مکابی کی کتاب The myth maker Paul and The Invention of Christianity کے باب Was Paul a Pharisee? کا سلیس ترجمہ ہے جس میں انہوں نے مقدس پولس کے دعویٰ فریسیت اور ان کے چند دعاوی کا جائزہ لیا ہے۔ اپنی اس ادنی سی کاوش کو میں اپنے محسن، مرشد اور مربی محترم جناب ظفر اقبال صاحب مدظلہ کی طرف منسوب کرتا ہوں جن کی رہنمائی اورمحبت و شفقت کے باعث میں اس مقام پر پہنچااوریہ ترجمہ کرنے کے قابل ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے چند مخلصین دوستوں بھائی شہزادیوسف گجرانوالہ، محمد مسلم رحیم یار خان اور سید محمد وقاص حیدر امریکہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ بعض مشکل مقامات پر انہوں نے میری رہنمائی فرمائی۔
                                                                                                                                                احقر عبداللہ غازی

                یہ پولس ہی تھا جس نے یسوع سے اس قدر اختلاف شدید رکھا کہ ان کے پیغام کو ایسی اخروی شکل میں تبدیل کردیا جو نہ ہی سیاست سے مطابقت رکھتی ہے اور نہ ہی رومیوں کے مغضوب اسکے یہودیوں ساتھیوں کے مصائب سے. یہ تصریف رومیوں کے بجائے یہودیوں کو یسوع کی تصلیب کا مجرم ٹھہراتی ہے. کیونکہ یسوع ماورائے سیاست رہے، یہودی مذہبی اور سیاسی اعتبار سے اُس وقت معتوب قرار پائے جب وہ مسیحیت کی نظر میں اچھوت بنا دیئے گئے ، انہیں سیاسی و معاشی حقوق سے معزولی کا سامنا کرنا پڑا اور تعذیب کا تختہ مشق بھی بنائے گئے۔
                تو پھر پولس کون تھا؟ اور کس طرح کا انسان تھا کہ اِس نے یسوع کی حیات و ممات کے واقعات کو اس حد تک تبدیل کردیا کہ یہ (وقائع) ایک ایسے مذہب کی بنیاد بن گئے جس کا مرکزی تخیل یہودیوں کی کردار کشی کرتے ہوئے انہیں مقدس تاریخ کا بدترین شریر بنا کر پیش کرنا تھا. یسوع خدا کی بادشاہی کی منادی کرنے آئے تھے اور خودکو ایسے اسرائیل کا بادشاہ متصور کرتے تھے جس میں رومی اور دیگر عسکری حکومتیں شامل نہ تھیں۔ انہوں نے کبھی ایک الوہی ہستی ہونے کا دعوٰی نہیں کیا اور نہ ہی اس بات کا اعلان کیا کہ ان کی موت انسانیت کے گناہوں کا کفارہ ہوگی۔ یہ یسوع کے مشن کی ناکامی تھی کہ وہ ممکنہ طور پر خدا سے صادر ہونے والے ایک عظیم معجزے کی مدد سے رومیوں کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہو سکے جو کہ ان کی ساری امیدوں کا محور تھا اور ان کی مایوسی صلیب پر چیختے چلاتے صاف ظاہر ہوتی ہے. اپنی مقدس سرزمین کی آزادی کو بحال کرنے، خدا کی بادشاہی میں ساری دنیا کے لئے کاہنوں کی سلطنت کے طور پر عمل کرنے کے یسوع کے منظر نامہ کے مستقبل میں یہودی بطور مقربین الہی شامل تھے. پولس کا نظریہ انوکھا ہے جس میں یہودیوں کے لئے کوئی قابل ذکر کردار نہیں اور وہ درحقیقت خدا کے دشمنوں کا کردار ادا کرنے میں ڈوب گئے تھے. پولس کے ذریعے المسیح کے عنوان سے یسوع کی طرف منسوب وہ معنی جس میں وہ اسرائیل کے بادشاہ کے عارضی اعزازی لقب کے بجائے ایک الوہی ہستی کا لقب پا گیا، ان معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے یسوع کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
                یسوع کو ایک فریسی کے طور پر اس خیال کے ساتھ کبھی نہیں سمجھا یا قبول کیا جا سکتا جو اس کو کفر گو اور بت پرست گردانتا اور یہودی تاریخی اصولوں کا اس طرح سے مخالف ظاہر کرتا ہے گویا کہ وہ (یسوع) جھوٹے خداؤں کا مقابل ایسا شخص ہو جسے انسانی قربانی کے ذریعہ کفارہ ادا کرنے کا حق تفویض کیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ پولس(جس کے نزدیک یسوع ایک زمینی خدا اور انسانی قربانی جیسی دونوں حیثیوں کا حامل تھا) فریسی تربیت یافتہ ہونے کا دعوٰی کرتا ہے۔ اب ہم اس سوال کی مکمل کھوج میں داخل ہوتے ہیں کہ یہ دعوی سچ تھا یا جھوٹ؟
                اعمال کی کتاب میں فریسیوں کی تصویر کشی اُس منظر نامے کے بالکل متبائن ہے جو اناجیل میں پیش کیا گیا ہے اور یہ ایسا تفاوت ہے جس سے (واقعاتی) تضادات بہت زیادہ صریح ہو گئے ہیں. ایک طرف اعمال کی کتاب میں فریسیوں کے مظالم کی تصویر خود پولس کے کردار کے ذریعے اس طرح کی گئی ہے جس طرح اناجیل میں فریسیوں کی تصویر بطور ایذا رساں پیش کی گئی ہے اسی وجہ سے پولس کو مبینہ ابتدائی زمانہِ فریسیت میں یسوع کے پیروکاروں کے تکلیف پہنچانے اور ستانے والا ظاہر کیا گیا ہے۔ دوسری طرف انہی واقعات کے دوران بہت سی علامات متون میں ایسی موجود ہیں کہ فریسی ابتدائی ناصریوں کے مخالف نہیں تھے بلکہ اسکے برعکس وہ ان کے ہمدرد تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اعمال کی کتاب کا مصنف لوقا بمشکل ہی وہ سب کچھ فریسی مخالف صلاحیتیں بروئے کار لانے کا تسلسل برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنی انجیل میں انتہائی لاپرواہی سے کام میں لایا تھا. اعمال کی کتاب میں اس کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ لوقا فقط وہی بیان دیتا ہے جو پولس کی تصویر کشی کرتے ہوئے اُسے حقائق سے انحراف کرنے کے لئے ضروری معلوم ہوتے ہیں۔
                یسوع کے ابتدائی پیروکاروں اور فریسیوں کے درمیان بنیادی موافقت کا ثبوت اعمال کی کتاب میں موجود پولس کے فریسی ہونے کے دعوے پر سنگین شک قائم کرتا ہے۔یہ مناسبت اعمال کی کتاب کے ایک اہم جز میں یہ ملاحظہ کی جا سکتی ہے جہاں پطرس اور دوسرے رسولوں کا دفاع بزرگ گملیل کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں اعمال باب ٥ کا مبینہ واقعہ تفصیلی تجزیے کا تقاضا کرتا ہے.
سردار کاہن کی طرف سے پطرس کو یسوع کے متعلق منادی کرنے سے خبردار نہیں کیا گیا تھا بلکہ دوسرے رسولوں نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں. سردار کاہن اور اسکے ساتھی جو کہ صدوقی گروہ سے تھے وہ حسد کی وجہ سے انکے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اٹھے اور رسولوں (حواریین) کو گرفتار کرکے انہیں حوالات میں بند کردیا. اناجیل کے برعکس اعمال کی کتاب اس حقیقت کو نہیں چھپاتی کہ سردار کاہن صدوقی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ فریسیوں کا مخالف بھی تھا. یہاں بہت واضح اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ وہ صدوقی جماعت سے تعلق رکھتا تھا جو کہ اعمال کی کتاب کے مطابق رسولوں کو گرفتار کرانے اور حوالات میں بند کروانے میں ملوث تھے. یہودیوں کی عدالت عالیہ سنہڈرین کی طرف سے تبلیغی سرگرمیوں سے باز آجانے کے حکم کے باوجود شاگرد اپنی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے کا جرم کرتے رہتے ہیں. پطرس رسولوں کی طرف سے جواب دیتے ہیں کہ " ہمیں آدمِیوں کے حُکم کی نِسبت خُدا کا حُکم ماننا زیادہ فرض ہے". اور پھر یہ کہانی اس طرح جاری ہوتی ہے۔
                گملی ایل نام ایک فرِیسی نے جو شرع کا مُعلِّم اور سب لوگوں میںعزت دار تھا عدالت میں کھڑے ہوکر حُکم دِیا کہ اِن آدمِیوں کو تھوڑی دیر کے لِئے باہِر کردو ۔ پِھر اُن سے کہا کہ اَے اِسرئیلیوں ۔ اِن آدمِیوں کے ساتھ جو کُچھ کِیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا کِیُونکہ کہ اِن دِنوں سے پہلے تھیُوداس نے اُٹھ کر دعویٰ کِیا تھا کہ مَیں بھی کُچھ ہُوں اور تخمینا چارسَو آدمِی اُس کے ساتھ ہوگئے تھے مگر وہ مارا گیا اور جتِنے اُس کے ماننے والے تھے سب پراگندہ ہُوئے اور مِٹ گئے ۔ اِس شَخص کے بعد یہُوداہ گلِیلی اِسم نِویسی کے دِنوں میں اُٹھا اور اُس نے کُچھ لوگ اپنی طرف کر لِئے ۔ وہ بھی ہلاک ہُؤا اور جِتنے اُس کے ماننے والے تھے سب پراگندہ ہوگئے ۔ پَس اَب مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِن آدمِیوں سے کِنارہ کرو اور اِن سے کُچھ کام نہ رکھّو ۔ کِہیں اَیسا نہ ہو کہ خُدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو کِیُونکہ یہ تدِبیریا کام اگر آدمِیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہوجائے گا لیکِن اگر خُدا کی طرف سے ہے تو تُم اِن لوگوں کو مغلُوب نہ کرسکوگے ۔ اُنہوں نے اُس کی بات مانی اور رَسُولوں کو پاس بُلاکر اُن کو پِٹوایا اور یہ حُکم دے کر چھوڑ دِیا کہ یِسُوع کا نام لے کر بات نہ کرنا ۔ (اعمال باب ٥ فقرات ٣٣ تا ٤٠)
                اِس واقعہ کی تاریخ اہمیت کی علماء نے کماحقہ قدر نہیں کی۔ اوپر وضاحت کردہ بیان کی روشنی میں یہ واقعہ جو اناجیل اور اعمال کی کتاب کے بعض واقعات کے مکمل متضاد نمایاں مفروضہ بیانات کے خلاف جاتا ہے، خاص توجہ کا متقاضی ہے۔ اُس وقت کی درست تاریخی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ قضیے کا مطالعہ اس واقعہ کا ایک اہم رُخ سامنے لاتا ہے۔
                پہلی قابل ذکر بات یہی ہے کہ گملیل کسی طرح بھی شاگردوں کی طرف سے مذمت نہیں کر سکتا تھا جوکہ بدعتی اور یہودی مذہب کے باغی تھے۔ اس مقام پر ہم انہیں مسیحی تحریک کے مناد کے بجائے رومیوں کے خلاف ہدایت یافتہ پاتے ہیں۔ اس کا ثبوت گملیل کا تجزیہ پر مبنی بیان ہے جو وہ شاگردوں اور اُس وقت کی دیگر تحاریک کے مابین کرتا ہے. اپنی تقریر میں وہ دو قسم کی تحاریک کا ذکر کرتا ہے جس میں تھیوداس اور یہودا گلیلی شامل ہیں۔ ان دونوں تحریکوں کے وقوع کے متعلق ہمارے پاس اعمال کی کتاب کے ہم عصر ماخذات کی بنیاد پر لکھی جانے والی ٩٠ عیسوی سے تعلق رکھنے والی جوزفیس کی تاریخی تحاریر ہیں۔ (اعمال کی کتاب کو ترتیب دینے کا زمانہ بھی ٩٠ عیسوی ہی ہے) جوزفیس ان دونوں تحریکوں کو ایسی میسیانک تحریک قرار دیتے ہوئے انکی تصدیق کرتا ہے جو کہ کسی بھی طرح یہودی مذہب کے خلاف نہیں تھیں۔ تھیوداس ایک نبی کے مماثل اُٹھا تھا جس کے پاس کوئی عسکری تنظیم نہیں تھی بلکہ اس نے بائبل کی پیشگوئیوں پر انحصار کرتے ہوئے خدا کی طرف سے ایسے معجزے کے صادر ہونے کا انتظار کیا جو رومیوں کو تباہ و برباد کر دے۔
                بے شک یہ فرض کر لینے میں یہ کوئی قباحت نہیں کہ اعمال کا مصنف جو الفاظ گملیل کی طرف سے بیان کرتا ہے بالکل وہی ہیں جو گملیل نے سنہڈرین سے قبل استعمال کئے بلکہ گملیل کی اصل رائے اُس وقت کے اصل تاریخی حالات کے ساتھ درست قرار پاتی ہے کہ (اعمال کی کتاب کی کتاب میں مختلف کرداروں کو مختلف تقاریر دی گئی ہیں) اس بات میں زبردست حقیقت موجود ہے۔یہ بیان تصنع سے بھرپور نہیں ہے بلکہ ایسی حقیقت پر مبنی ہے جس کی کچھ تفصیلات کو مسخ کردیا گیا ہے. مثال کے طور پر گملیل کی تقریر میں موجود تھیوداس کا نام درست نہیں ہو سکتا کیونکہ تھیوداس کا زمانہ بغاوت ٤٥ عیسوی ہے اور وہ گملیل کے تقریر کے متاخر زمانہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اعمال کے مصنف نے یہاں گمنامی کی دبیر تہوں میں دبے کردار کے اصل نام کی جگہ متبادل نام شامل کیا ہے جیسا کہ المسیح کی حیثیت سے نمودار ہونے والا تھیوداس، جس کا نام تاحال قارئینِ اعمال میں معروف تھا۔
                دوسری طرف یہوداہ گلیلی چھٹی صدی عیسوی میں ہونے والی کورنیس کے عہد کی مردم شماری اور محصول جمع کرنے والوں کے زمانہ میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ یہوداہ گلیلی ایک زبردست حریت پسند تحریک کا بانی تھا جو کہ "زائیلوٹ" کے نام سے مشہور تھی اور یہوداہ گلیلی کے موت کے بعد بھی طویل عرصے تک جاری رہی۔ اعمال کی کتاب کے ضبط تحریر میں لانے کے وقت تک اِس کا نَام قارئین کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ تھیوداس کے برعکس یہوداہ ایک عسکریت پسند جنگجو تھا جو جنگی گوریلا کارروائیوں میں مصروف رہا۔ وہ کسی بھی طرح ایسا باغی نہیں تھا جسے یہودی مذہب کا مخالف قرار دیا جاتا بلکہ اس کے برعکس وہ فریسی ربی بھی تھا۔
                گملیل یسوع کی تحریک کو بھی انہی دونوں تحاریک کے تناظر میں رکھتا ہے۔ یہوداہ گلیلی اور یسوع کے درمیان مماثلت کی بنسبت یسوع اور تھیوداس (گمنام کردار جس کی جگہ معروف نام ودیعت رکھا گیا از مترجم) کے درمیان گہری مشابہت ہے کیونکہ یسوع کبھی بھی عسکری قوت کو منظم کرنے میں مصروف عمل نہیں رہے بلکہ تھیوداس کی طرح خدا کی طرف سے صدورِ معجزہ کے منتظر رہے۔ جس وقت یسوع کی تحریک کے زمانہ عروج کے وقت اُس میں بغاوت کے عناصر جنم لے چکے تھے یہی وجہ تھی کہ یسوع اپنے شاگردوں سے سوال کرتے نظر آتے ہیں "خواہ ان کے پاس تلواریں ہوں یا نہ یوں" اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان شاگردوںکے پاس دو تلواریں ہیں تو وہ فرماتے ہیں "بس بہت ہیں" (لوقا ٣٨:٢٢)اس واقعہ کو فقط ایک ہی انجیل نویس کا رقم کرنا دراصل یہ تاثر قائم کرنا نہیں کہ یسوع عدم تشدد کا حامی نہیں تھا بلکہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کے حصے کی لڑائی کے لئے یہ کافی ہیں باقی کام خدا کرے گا۔ یہاں وہ جدعون کے بائبلی محاورے کی پیروی کرتا ہے لیکن یسوع کا یہ غیر عسکری مؤقف اس کی رومیوں کی مخالفت میں زرا بھی کمی نہیں کرتا جنہوں نے تھیوداس کی بات کو اس قدر سنجیدگی سے لیا کہ اس کو قتل کرنے کے درپے ہو گئے۔
                اناجیل کے مبینہ بیان کے مطابق اگر یسوع واقعی یہودی مذہب کے باغی تھے اور تورات کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے خود کو اس کی دفعات منسوخ کرنے کے قابل سمجھتے تھے تو گملیل نے اِس موقع پر اس حوالے سے ایسا کچھ کیوں نہیں کہا جب وہ یسوع کے پیروکاروں کے ساتھ ممکنہ برتاؤ کی تجویز دے رہا تھا کہ ان کے ساتھ فوری طور پر کیا کرنا ہے؟ حالانکہ گملیل فریسی اور ایسی مذہبی جماعت کا سربراہ تھا جو تورات کے مامور من اللہ ہونے پر ایمان رکھتی تھی۔ اگر فریسی واقعی یسوع کی حین حیات ان کے دشمن ہوتے تو ان کا مذہبی پیشوا یسوع کی موت کے بعد یکدم اتنی جلدی یہ سب کچھ کیسے بھول کر ان لوگوں کی حمایت کر سکتا تھا جو یسوع کے ساتھی بھی تھے اور ان میں پطرس جیسے یسوع کے دست راست بھی شامل تھے ؟ اگر یسوع اور اس کے ساتھی سبت اور دیگر یہودی قوانین کو توڑنے والے ہوتے(جیسا کہ مروجہ مسیحی عقیدہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ سب کچھ اُس رویے کے مطابق جاری رکھا جائے جو یسوع کا اپنا تھا) تو گملیل جیسے فریسی کیسے اس تحریک کو "خدا کی طرف" سے قرار دے سکتے تھے؟
                اگر یہ فریسی رہنما کا نرم رویہ تھا (مگر روایتی مسیحی نظریہ کے مطابق ناقابل توضیح) تو مبینہ فریسی پولس اس سے یکسر مختلف نظریات کا حامل کیوں تھا کہ وہ یسوع کے پیروکاروں کا خونی دشمن اور سخت ایذا رساں تھا اور انہیں اُس جیل کی طرف کھینچنے ہوئے لے جاتا تھا جدھر سے گملیل اسے رہا کرانا چاہ رہا تھا؟
                کلیسیاء کے مسیحی دلیلی (Apologist ) ان سوالات کا مشکل ہی سے سامنا کر پاتے ہیں اور عموما ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ گملیل ایک روایتی فریسی نہیں تھا بلکہ وہ فی الحقیقت خفیہ طور پر مسیحیوں کا ہمدرد تھا اور اس کے ساتھ ساتھ مسیحی کلیسیاء کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتا تھا۔ ہر وہ شخص جو گملیل کے فریسی پس منظر سے واقفیت رکھتا ہے اس کے نزدیک یہ جواب انتہائی مضحکہ خیز ہوگا لیکن اعمال کی کتاب سے گملیل کی بطور فریسی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کرنے سے ناکامی سے دوچار ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور اس کی وجہ خود اعمال کی کتاب ہے جو اپنے واقعات میں تضاد بیانی کا شکار ہے۔
                لوقا کا گملیل کو" ایک ایسا فرِیسی جو شرع کا مُعلِّم اور سب لوگوں میں عِزت دار تھا "کہنا اس بات کو واضح نہیں کرتا کہ وہ اس وقت کی نسل کا ایسا فریسی سردار تھا جو یہودی روایت کے سلسلے کی اہم کڑی ہو اور یہودیت کے حقیقی اجداد میں سے ہو۔ لوقا کا گملیل کو خفیہ مسیحی کہنا اسی طرح ہوا جیسا کہ پطرس ایکوناس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ خفیہ طور پر ہندو تھا۔ بے شک گملیل یسوع کے پیروکاروں کا ہمدرد تھا جیسا کہ حالیہ واقعہ سے بھی ظاہر ہے مگر یہ ہمدردی ان معنوں میں تھی کہ اُس نے اِن لوگوں میں کوئی قباحت نہیں پائی اور سوچا کہ ممکن ہے کہ یہ خدا کی طرف سے مؤید ہو سکتے ہیں ۔ لیکن وہ یہ ہمدردی اُس وقت کبھی نہیں کر سکتا تھا اگر یسوع اور پیروکاروں کی طرف وہ نظریات منسوب ہوتے جو بعد میں مسیحی ایمان کا حصہ بنے۔
                یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اعمال کی کتاب میں گملیل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے جیسے وہ سب لوگوں میں انتہائی معزز ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اشارہ ہے جو عہد جدید میں یہودیوں عوام کے درمیان فریسیوں کے رتبے کو ظاہر کرتا ہے۔ اناجیل کی ایسی تفہیم کو ہم کبھی بھی درست نہیں کہتے بلکہ وہاں فریسیوں کو بطور فخریہ ظالم، عوام کو مشقت میں ڈالنے والے، ریاکاری کرتے اور تقوی و پرہیزگاری کی نمائش کرتے ہوئے منافق ظاہر کیا گیا ہے۔ ایک شخص کبھی بھی اِس مواد (عہد جدید) سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ فریسی درحقیقت ایسے لوگوں کا گروہ تھا جو صدوقیوں کی خلافِ شرع آراء سے یہودی رسوم و روایات کی حفاظت کررہے تھے اور لوگ انہیں خدا کی طرف سے بدعنوان سردار کاہنوں اور بادشاہوں کے خلاف قدرتی محافظ سمجھتے ہوئے ان سے محبت کرتے تھے۔
                گملیل کے معمہ کا جدید حل دراصل فریسیوں کے مابین تقسیم کی تدبیر ہے، اِس نظریہ کے مطابق گملیل ربی ہللیل کی فریسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا جبکہ پولس انتہائی سخت گیراور انتہا پسند ربی شمائی کے گروہ سے آمدہ تھا۔ یہ وضاحت طلب بات یہ ہے کہ دو فریسی گروہ کیوں یسوع کے پیروکاروں کے ساتھ مختلف رویوں سے پیش آ رہے تھے؟ یہ حقیقت ہے کہ گملیل ایک ہلیلائی تھا کیونکہ وہ ہلیل کی نسل میں سے تھا۔ لیکن یہاں ربی ہلیل اور شمائی کے درمیان اختلاف کا کوئی موقع نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے یسوع کے متبعین کے متعلق کچھ اختلافی نظریہ پیش کیا ہو۔ یہ سارا واقعہ اس امر کی خبر دیتا ہے کہ اپنے اعمال و نظریات میں ناصری کس طرح بدعتی تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی گزارنے میں قدامت پسند یہودی تھے جس میں ختنہ پر عمل، غذائی احکامات کی تعظیم، سبت اور دیگر تہواروں کی تکریم بھی شامل تھا۔ فقط ایک ہی شے تھی جو انہیں دیگر روایتی مسیحیوں سے ممتاز کرتی تھی اور وہ یسوع کو بحیثیت "المسیح" قبول کرنا تھا کیونکہ اُس وقت تک ناصریوں میں یسوع کے متعلق الوہی ہستی ہونے کا کوئی نظریہ شامل نہیں ہوا تھا اور یہ نظریہ بھی دوسرے یہودیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رواداری کے دائرے میں ہی تھا جن میں (دیگر یہودیوں) سے اکثر المسیح کے متعلق اِسی طرح کا عقیدہ دیگر ہستیوں کے بارے میں رکھتے تھے جیسا کہ یہوداہ گلیلی اور تھیوداس. کوئی بھی فریسی خواہ وہ ہلیلی ہو یا شمائی اس کے لئے ایسی کوئی معقول وجہ نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ یسوع کے متعلقین کے لئے تعصب یا ناراضگی کا کوئی رویہ رکھے۔
                ربی شمائی کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے فریسی، یسوع کے ابتدائی پیروکاروں سے ہلیلی فریسیوں کی نسبت زیادہ ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے کیونکہ شمائی فریسی، ہلیلیوں کی نسبت رومی غلامی کے خلاف زیادہ مستعد و سرگرم تھے چنانچہ اگر کوئی بھی "رومی غلامی سے جلد نجات کی امید کے ساتھ اُٹھنے والی مسیحی تحریک " اگر سرگرم ہوتی تو محتاط روش اختیار کرنے والے ہلیلیوں کی نسبت شمائی فریسیوں کی طرف سے زیادہ پرجوش مثبت ردعمل وصول کر سکتی تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا اس سے اس بات کے یقین کا جواز پیدا ہوتا ہے کہ یسوع خود بھی شمائی مکتب فکر سے تھے. یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہلیلی رومی حکومت سے راضی تھے اور متوقع مستقبل میں یہودی آزادی کی تمام امیدیں کھو چکے تھے. گملیل کی تقریر اس کے برعکس ظاہر کرتی ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ یہ ایک سرگرم سیاسی تقریر تھی۔ وہ درحقیقت یہ کہتا ہے کہ "ماضی کے چند ناکام گروہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یسوع کے پیروکاروں کی متوقع کامیابی کے سوا کوئی چیز خوش نہیں کر پائے گی مگر میں صرف انتظار اور معاملہ کی نزاکت دیکھنے کو اختیار کروں گا۔ بحیثیت ایک معتدل فریسی یہ بالکل درست رویہ تھا جو کہ سابقہ بہت سی ناکام تحریکوں کی وجہ سے کسی بھی ایسے شخص کی طرف سے امید و بیم میں مبتلا تھے جو المسیح ہونے کا دعوٰی کرتا اور وہ المسیح کی آمد پر گرم جوشی اور امید کے ساتھ ایمان رکھے ہوئے تھے۔ اس طرح اعتدال پسند فریسی سیاسی جمود سے تحرک کی طرف بآسانی منتقل ہو سکتے تھے جیسا کہ بارکیوبا کی تحریک کے دوران ہوا۔ فریسی جماعت رومی مخالفت کی فضا پیدا کرنے اور لوگوں کو رومی حکومت کے خلاف برانگیختہ کرنے کا مرکز تھی۔ گملیل کی تقریر کا سیاسی کردار، یسوع کی تحریک اور فریسیوں کے درمیان تعلق کے واقعات اور عہد جدید کی عمومی جانبدار وضع کے مضبوط فرق کو ظاہر کرتی ہے جسے اعمال کے مصنف نے فقط مذہبی مسئلہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
                یہ بات قابل استفسار ہے کہ اعمال کی کتاب کے مصنف لوقا نے اس واقعہ کے انکشاف کو کیوں ظاہر کیا جوکہ اناجیل میں بےحد متضاد رخ سے پیش کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہی سجھائی دیتا ہے کہ لوقا کے پاس دیگر انجیل نویسوں کے مقابل تاریخی ماخذات تک زیادہ رسائی تھی اور اکثر ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے کردار کے تحریری ذرائع سے کام لے رہا تھا جس کو سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل تھی اور لوقا اِس مواد کو علمی قابلیت کے ساتھ فخر ظاہر کرتے ہوئے منتقل کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی انجیل میں وہ ہمیں اُس وقت کی فرد جرم کی تفصیل بھی فراہم کرتا ہے جب یسوع کو رومیوں کے حوالے کیا جا چکا تھا. کوئی شک نہیں کہ یہ سارا بیان کسی سرکاری کاغذات سے لیا گیا ہے ( اِسے ہم نے اپنی قَوم کو بہکاتے اور قَیصر کو خِراج دینے سے منع کرتے اور اپنے آپ کو مسِیح بادشاہ کہتے پایا)۔ لوقا کا اپنے ماخذ سے لفظ بہ لفظ اقتباس دینا سیاسی حقیقت کے رجحان کو واضح کرتا ہے جس کی لوقا نے مختلف تجاویز کے ذریعے مزاحمت کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔ اگرچہ حالیہ واقعہ میں وہ سنہڈرین کے سیاسی مقدمہ سے قبل رسولوں کا ظہور اُس تقریر کے ساتھ کرتا ہے جسے وہ پطرس کے منہ میں اُس وقت رکھتا ہے جب وہ مقدمہ شروع ہونے سے قبل سوالات کی زد میں تھا. " ہمیں آدمِیوں کے حُکم کی نِسبت خُدا کا حُکم ماننا زیادہ فرض ہے ۔ ہمارے باپ دادا کے خُدا نے یِسُوع کو جِلایا جِسے تُم نے صلِیب پر لٹکاکر مار ڈالا تھا ۔ اُسی کو خُدا نے مالِک اور مُنجّی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سر بُلند کِیا تاکہ اِسرائیل کو تَوبہ کی تَوفِیق اور گُناہوں کی مُعافی بخشے ۔ اور ہم اِن باتوں کے گواہ ہیں اور رُوح القدُس بھی جِسے خُدا نے اُنہِیں بخشا ہے جو اُس کا حُکم مانتے ہیں ۔ " (اعمال باب ٥ فقرات ٢٩ تا٣٢)یہ تقریر دراصل سردار کاہن سے خطاب ہے جہاں لوقا یہودیوں پر یسوع کے قتل کا الزام لگاتا ہے اور رومیوں کے خلاف حریت پسند کے بجائے یسوع کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتا ہے یہاں تک کہ گملیل کے متاخر تقریر سے نکلنے والے مفہوم کے برخلاف یسوع کی تحریک کو بالکل ہی مختلف جماعت کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یہاں مسیحا کی اصطلاح یقیناً استعمال کی گئی ہے لیکن یہ یہودی اصطلاح "نجات دھندہ" کے انداز میں قطعاً استعمال نہیں ہوئی ہے بلکہ مسیحیوں نے بہت بعد میں اسے "گناہوں سے نجات" کے معنی میں استعمال کیا۔ یہ اندازِ بیاں اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے جو سنہڈرین کے باقی ماندہ پس منظر میں پیش کیا گیا ہے لیکن اگر آپ پطرس اور دیگر رسولوں کے نظریات اِسی بنیاد پر استوار ہوتے (جس پر مروجہ مسیحیت کی عمارت کھڑی ہے) تو گملیل کبھی بھی ان کا دفاع نہ کرتا۔
                دوسری صورتحال جو گملیل کے واقعہ میں استعمال ہوئی ہے وہ گملیل کی فرد واحد اور نااہل نمائندے کے طور پر تصویر ہے جہاں صرف اس حقیقت جو چھپا کر تسلیم نہیں کیا جاتا کہ گملیل فریسیوں کا سردار تھا بلکہ اس سچائی پر بھی پردہ ڈالا گیا ہے کہ شاگردوں کی رہائی ایک واضح اکثریت کے ذریعے عمل میں آئی تھی۔ لوقا لفظوں کی ہیر پھیر کے ساتھ صرف یہ بتاتا ہے کہ گملیل اپنے نقطہ نظر سے سنہڈرین کو اپنی رائے کے موافق ترغیب دے رہا تھا کہ وہ شاگردوں کو معاف کرنے اور درگزر کرنے کا انوکھا عمل کریں. یہ بات گملیل کو واحد شخص کی حیثیت سے ممتاز کر دیتی ہے جس نے ایک موقع پر معجزاتی انداز میں قائل کرنے کی کوشش کی مگر عام فریسی ایسا کچھ نہ کر سکے۔ مسیحی علماء نے اس سارے معاملے کو اسی طرح سمجھا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ سنہڈرین کی نرم دلی تو لوقا کے اسی دعوے سے ختم ہو جاتی ہے کہ شاگردوں کو رہا کرنے سے قبل کوڑے سے مارا گیا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ گملیل جو کہ فریسیوں کا مذہبی رہنما تھا اس کے مؤقف کے مؤید سنہڈرین کے سبھی فریسی ارکان ہونے چاہیے تھے ناکہ صدوقی جن کا پیشوا سردار کاہن تھا، اس وجہ سے یہ معاملہ فریسیوں کی کثرت رائے کے سبب صدوقی اور سردار کاہن کا ہے۔ اہم واقعات کی شہادات اور دیگر ذرائع تائید کرتے ہیں کہ سردار کاہن عام طور پر سنہڈرین میں "جہاں فریسیوں کی کثرت تھی" اپنا راستہ نہ بنا سکتا تھا اور اسی طرح سردار کاہن اور فریسیوں کے نظریات میں اختلاف کی وجہ سے یکسانیت نہیں ہو سکتی تھی۔
                گملیل کو یہاں ناصریوں (مسیحیوں) سے غیرمعمولی مہربان رویہ رکھنے والے واحد شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس طرح کی دیگر صورتیں بھی اسکے ساتھ جگہ لیتی ہیں جیسا کہ یوسف ارمتیائی اور نیکودیمس جو کہ اناجیل میں نمایاں ہیں اور دونوں کو ہی سنہڈرین کا رکن اور فریسی بیان کیا گیا ہے جو کہ یسوع کی تحریک میں شمولیت اختیار کئے بغیر ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور مصلوبیت کے بعد یسوع کو ایک مناسب مقبرہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ سب صورتیں دراصل اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ فی الاصل فریسیوں اور یسوع کے درمیان کوئی مخاصمت موجود نہ تھی بلکہ انکے آپس میں ذاتی روابط تھے جبکہ اناجیل میں فریسیوں کی معاندانہ تصویرکشی کرکے اسکے برعکس تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر یسوع کفر گو ہوتے، بت پرستی کی طرف دعوت دیتے یا تورات کے مخالف ہوتے تو کوئی بھی فریسی یسوع اور ان کے شاگردوں سے ہمدردی نہیں کرتا، اگر ایسا ہوتا تو نیکودیمس، یوسف ارمتیائی کا دوستانہ رویہ اور گملیل کی تمام فریسیوں کی طرف سے یسوع کی حمایت کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔
                اعمال کی کتاب میں ہمیں گملیل اور پولس کے دو کردار ملتے ہیں جن کے بارے میں فریسی ہونے فرض کر لیا گیا ہے مگر اسکے باوجود وہ ایک دوسرے کے مخالف کھڑے نظر آتے ہیں. اناجیل میں پائے جانے والے واقعات کا تسلسل ہم گملیل کی ذات میں جاری رکھیں گے (اگرچہ ظاہری طور پر نہیں) کہ یسوع فریسی تھے اور انکی تحریک فریسیوں کے ہمدردوں میں شمار کی جاتی تھی۔ اناجیل میں فریسی مخالفت کے رجحان کا اہم کارندہ ہم پولس کی ذات میں دیکھتے ہیں لہٰذا انجیل میں یسوع کی موت کی تشریح کے مطابق پولس وہ غیر عاقل اور متشدد فریسی تھا جو یسوع کے پیغام سے بہت برانگیختہ ہوتا اور یسوع کی تحریک کو تباہی سے دوچار کرنا چاہتا تھا۔ گملیل ایک مستند تاریخی کردار ہے جس کا رویہ اُس وقت کی معلومات کی روشنی میں درست سمجھا جا سکتا ہے لیکن صرف ساؤل (پولس) ہی ایسا مضحکہ خیز اور دہشت ناک فریسی ہے جس کے محرکات کو کسی طرح بھی نہیں سمجھا جا سکتا) بحیثیت فریسی پولس کو درست سمجھا ممکن نہیں لیکن فریسیت کے دائرے سے خارج کرکے پولس کی تفہیم درست سمت میں کی جا سکتی ہے اور اس کے ساتھ پولس کے سردار کاہن کے ساتھ تعلقات کی جانچ بھی ضروری ہے بلکہ سچائی کے ادراک کا ایک ذریعہ ہے۔
                جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سردار کاہن صدوقیوں کا سردار تھا (عہد جدید بھی اس کی گواہی دیتا ہے) اور فریسیوں کے ساتھ مذہبی معاملات میں مسلسل مخاصمت میں مصروف تھا اور صدوقیوں کی فریسیوں سے یہ مخالفت رومی قابضین کے ساتھ تعاون کی حد کے تعین کے سیاسی مسئلہ پر بھی تھی جہاں ان دونوں گروہوں کے درمیان بنیادی فرق یہ تھا کہ صدوقی رومیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے یہاں تک فعال تھے کہ لوگوں کو گرفتار کرکے ایذا دینے کے لئے رومیوں کے حوالے تک کردیا کرتے تھے. رومیوں کی طرف سے نامزد کی حیثیت سے سردار کاہن ہیکل پر فقط رسمی سرکاری اختیار نہیں رکھتا تھا بلکہ درحقیقت پولیس چیف ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی خود کی مسلح پولیس رکھتا تھا جس کا تعلق سیاسی جرائم سے تھا اور اس پولیس کا باقاعدہ تعزیری نظام بھی تھا جس میں مجرموں کو کوڑے مارنے کی سزا بھی شامل تھی۔ جبکہ رومی حکومت کے خلاف تشویشناک بغاوت جیسے بڑے جرائم کے مقدمات میں وہ (سردار کاہن) مجرموں کو خود سزا سنانے کے بجائے رومی حکومت کے حوالے کردیا کرتا تھا، یہ صورتحال دوسری جنگ عظیم میں مقبوضہ فرانس کے حالات سے موازنہ کرکے درست سمجھی جا سکتی ہے۔
                یہ اگرچہ ناقابل یقین ہے کہ معروف فریسی یا کوئی بھی فریسی، سردار کاہن کے ساتھ قریبی شراکت میں داخل تھا جیسا کہ پولس اپنی کارگزاری میں بیان کرتا ہے کہ وہ اُن لوگوں کو گرفتار کرکے قیدی بنا کر سردار کاہن کے پاس لاتا تھا جو سردار کاہن کی نظروں میں مجرم تھے اور یہ پولیس کا کام تھا کیونکہ سردار کاہن کوئی ایسا بڑا مذہبی جج نہیں تھا کہ وہ بدعتیوں کا محاسبہ کرنے کے معاملات میں مداخلت کرتا۔ یقیناً ایک صدوقی کے طور پر یہودیوں کی اکثریت اُسے بدعتی تسلیم کرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ سردار کاہن سرکاری ہرکاروں کو کسی بھی طرح کیوں استعمال کرسکتا تھا، لیکن سردار کاہن نے اپنے نفع بخش مقاصد کی تکمیل کے لئے انہیں استعمال نہیں کیا۔ (کچھ ذرائع اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ سرکاری افسران کو دہ یکی وصول کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے اگرچہ انہیں یہ ظاہر کیا جاتا تھا جیسا کہ وہ اختیاری معاملہ ہو) ان کا بنیادی تعلق رومی زعماء کو مطلوب نتائج کو منظر عام پر لانا تھا۔
                اگر یسوع کی تحریک اس طرح بدعتی ہوتی اور یہودیت کے روایتی عقائد کے برعکس مذہبی نظریات کا پرچار کرنے والی ہوتی، تو کاہن اس سے مکمل طور پر لا تعلق ہوتے لیکن اگر یہ تحریک مذہبی معاملات میں فریسیوں کی مخالف ہوتی تو کاہن اس سے راضی رہتے ، کیونکہ یہی ان کے موقف کے مؤید ہوتے ۔ (دراصل انہوں نے اضطراب میں انجیل میں یسوع کےمنہ سے ایسی باتیں منسوب کی ہیں جو بعض اوقات صدوقیوں سے ملتی جلتی ہیں ، اور واضح طور پر فریسیوں کے برعکس صدوقیوں کے دلائل سے اخذ کی گئی ہیں ، اس اصول پر کہ کتے کو کسی بھی چھڑی سے مارا جا سکتا ہے ) واحد صورت کہ جس میں کاہن اپنی عسکری قوت کو عوام کو گرفتار یا قید کرنے کے لئے استعمال کر سکتا تھا وہ یہ تھی کہ عوام میں سے کوئی رومی سلطنت کے مخالف کسی طرح کی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہوتا۔ اگر ساؤل (پولس) کو کاہن نے لوگوں کو گرفتار اور قید کرنے کے لئے مامور کیا تھا تو اس کا صرف ایک ہی سبب تھا کہ ساؤل (پولس) کاہن کی عسکری قوت کا ایک رکن تھا اور اس کا پیشہ ورانہ فرض تھا کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو گرفتار کرلے جو اسکی حیثیت کے لیے خطرے کا باعث ہو۔ آخری شخص جو کاہن نے اس حیثیت میں مامور کیا تھا وہ فریسی تھا اگرچہ ساؤل فریسی نہیں تھا۔
                یہ ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ محقق جو کبھی اس امکان کا گمان نہیں رکھتے تھے کہ پولس ایک فریسی نہیں تھا بالآخر اسے تسلیم کرنے لگتے ہیں ۔ یوں Johannes Munck اپنی کتاب رسولوں کے اعمال میں لکھتے ہیں کہ اس ثبوت کے تناظر میں کہ فریسی ناصریوں (مسیحیوں) کے دوست تھے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ساؤل واحد فریسی تھا جس نے تحریک کو سزا دینے کے لیے فوجی قوت میں شمولیت اختیار کی ۔ کاہن کے خدمت گاروں میں واحد فریسی پولس تھا جس نے گیمیلن چھوڑ دیا تھا اور عیسائیوں کو سزا دینے والا پر جوش سپاہی بن گیا تھا اور اس سے پہلے اس سے زیادہ ایک انقلابی لہر نے اسے یسوع کا حواری بنا دیا تھا۔ کہانی کے اس طرح بالکل بدل دیے جانے پر اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس کہانی میں بنیادی طور پر کچھ غلط ہے ۔ اس صورتحال میں واحد تسلی بخش حل یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساؤل فریسی نہیں تھا مگر اس نے مسیحیوں کو ٹھیک اسی وجہ سے سزائیں دیں جس کے سبب کاہن نےانہیں سزائیں دی تھیں کیونکہ وہ (فریسی) رومن تسلط کے مخالفین تھے۔ ورنہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ایک فریسی لوگوں کے ایک ایسے گروپ کو سزائیں دے جنہیں تمام فریسی بشمول اپنے محترم رہنما کے مقدس یہودی سمجھتے ہوں ۔ جنکے یسوع کے مسیح ہونے کے یقین کی وقت کے ساتھ تصدیق ہو چکی تھی۔
                پھر کس قسم کے یہودی نے سردار کاہن کے زیر اثر سیاسی پولیس میں شمولیت اختیار کی ہو گی ۔ بلاشبہ سردار کاہن کی پولیس مختلف النوع قسم کے لوگوں پر مشتمل تھی جن میں چھوٹے درجے کے کاہن جو جزوی طور پر صدوقیوں کے حامی تھے یا پھر ان چند خاندانوں کے افراد تھے جن میں سے سردار کاہن کو روایتی طور پر منتخب کیا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی مختلف ممالک کے مناد بھی شامل تھے، جن میں یہودی اور غیر یہودی بھی تھے۔ جو کہ یہودی حب الوطنی سے نسبتاً بے نیاز تھے اور وہ اس غیر مقبولیت کو برداشت کرنے پر راضی تھے جو کہ ناپسندیدہ فوجی تسلط کے مفادات میں طاقت کا استعمال کرتے تھے ان کا لازمی مقدر تھی . یہاں ہم یہودی مسیحی "ابیونیوں" کی ساؤل کی اصلیت کے بارے میں رائے جاننے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کہ اسے یسوع کے پیغام کو بگاڑنے کا مسبب جانتے تھے اور ایک ایسے نئے مذہب کا بانی بھی سمجھتے تھے جسے خود یسوع بھی رد کر دیتے ۔ ابیونیوں کے مطابق ساؤل فریسی نہیں تھا اور نہ ہی پیدائشی یہودی ۔ اس کے والدین طرسوس میں غیر یہودی تھے اور وہ خود مذہب تبدیل کر کے مقدس زمین کی طرف گیا تھا۔ جہاں پر اسے کاہن کے ماتحت ملازمت مل گئی تھی۔ یہ عہد نامہ جدید میں پائی جانے والی کہانی سے بالکل مختلف ہے جس کے مطابق ساؤل ایک نمایاں فریسی تھا جو کہ سردار کاہن کی خدمت گاری میں زیادہ داخل نہیں ہوتا تھا جتنا اس اتحاد میں شمولیت پر فخر کرتا ۔ ابیونیوں کے بیان کو ہمیشہ عیسائی مصنفین اور جدید محققین نے حقارت آمیز انداز کے ساتھ رد کر دیا ہے ۔ جن کا مقصد پولس کی حیثیت کو کم کرنا تھا اور جنکی رائے کی بنیاد محض کینہ اور بغض پر تھی۔ لیکن ابیونی اس سے کہیں زیادہ داد کے مستحق ہیں کیونکہ جب ہم ابیونی تحریک کے خواص اور تاریخ کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ ہمیں غالب روایات کی وارث محسوس ہوتی ہے۔
                موجودہ باب میں جو دلائل دئیے گئے ہیں وہ ہمیں ساول کی اصلیت کے بارے میں ابیونیوں کی روایتی حقارت کو مسترد کرنے کی جانب راغب کرتے ہیں اور اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔ ساؤل ایک فریسی تھا یہ امکان ناصریوں کو اسکی جانب سے دی گئی سزاؤں اور کاہن کے ساتھ اسکے تعلق دونوں کی بنیاد سے مسترد ہو جاتا ہے ۔ لیکن ایک شخص جو غیر ملکی اور غیر یہودی بنیاد رکھتا ہو صرف وہی اس قسم کا شخص ہو سکتا ہے کہ وہ کاہن کے زیر خدمت ہو اور ایسی عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہو جنہیں ایک مقامی پیدائشی یہودی جو کہ رومن تسلط اور صدوقیوں کی اتحادی حکومت کے خلاف ہو اور وہ اسے نفرت اور ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا۔جن معاشروں کے نزدیک پال ایک وحی یافتہ رسول تھا، انہیں خطوط لکھتے ہوئے فطری امر تھا کہ پال اپنے آپ کو اس سے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا جو کچھ وہ حقیقت میں تھا اور اپنی خدمات انجام دینے کی صورتحال کی مکمل وضاحت پیش کرتا جسے وہ سردار کاہن کی پولیس کے ایک رکن ہونے کے باعث مذہبی غیرت کے نام پر کر رہا تھا بجائے اس کے کہ وہ ایک بے کیف تحریک کے زیر اثر اپنا رزق روٹی کماتا جو ایک مہاجر کا مقدر ہوتی ہے،وہ اقوام جنہیں پولس خط لکھ رہا تھا، یہودیہ میں سیاسی مذہبی حالات سے ناواقف تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ فریسی اور ابتدائی پیروکاران یسوع باہم مخالف تھے لہٰذا وہ اس بات کو خلافِ عقل نہیں پاتے کہ پولس ابتداء میں ایسی تحریک کا مخالف تھا جو فریسی ازم کے ذریعے متحرک تھی۔ یہ وضاحت خود پولس کے خطوط سے سامنے آتی ہے جس میں وہ یہ انکشاف کبھی نہیں کرتا کہ وہ طرطوس میں پیدا ہوا لیکن اعمال کی کتاب میں لوقا بہت احتیاط سے اور حقیقتا بغیر کہے یہ تاثر ابھارتا ہے کہ وہ ایک یہودیہ میں پیدا ہونے والا مقامی فرد تھا۔

لیکن ہم یہاں کچھ نظریہ پر غور کر سکتے ہیں جب بہت سے علماء اس بات کو مسلمہ تسلیم کرتے ہیں کہ کیا پولس کی بطور فریسی تربیت یافتہ ہونا اس کے خطوط سے ظاہر ہے؟ ہمیں بار بار بتایا گیا ہے کہ پولس کے اپنے خطوط میں انداز تحریر و دلائل یہودی ربیوں جیسا ہے. پولس یہودی ربیوں کی نسبت اپنے علمی نظریات اور دلائل کے معاملے میں بہت آگے چلا جاتا ہے، اگرچہ پولس کی منطق یہودیت کی ربیائی شکل جیسی ہی رہتی ہے اور وہ اسی بنیاد پر کلام الہی کی تفسیر کرتا ہے اور طریقے وضع کرتا ہے. یہاں اس کی فریسی تعلیم صاف نظر آتی ہے. اگرچہ یہ نقطہِ نظر علماء کا ہے، لیکن یہ بلکل غلط ہے، ناواقفیت اور ربیوں کی تشریح اور منطق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس سے پہلے دوسرے اعتراضات سے نمٹا جائے جو کہ اس نظریہ پر ہیں کہ پولس کے ابیونی نظریات عہد نامہ جدید کے نظریات کے مقابلے میں سچائی کے قریب تر ہیں۔
مکمل تحریر >>