یہودی
و مسیحی علمی حلقوں میں پروفیسر ہائم مکابی جیسے اسکالر کا نام تعارف کا محتاج
نہیں. برطانیہ میں یہودی و مسیحی روایات پر انہیں اتھارٹی اسکالرز کی فہرست میں
شمار کیا جاتا ہے حتی کہ ڈاکٹر ہیوجے شون فیلڈ جیسے چوٹی کے اسکالرز بھی ان کے علم
کے متعلق لکھتے ہیں کہ "مجھے یقین ہے کہ ہائم مکابی کے مقدس پولس کے متعلق
نظریات قابل فکر ہیں". زیر نظر تحریر بھی ہائم مکابی کی کتاب The myth maker Paul and
The Invention of Christianity کے باب اول The problem of Paul کا سلیس ترجمہ ہے جس میں انہوں نے مقدس پولس کے مسیحیت پر اثرات اور ان کے
چند دعاوی کا جائزہ لیا ہے. اپنی اس ادنی سی کاوش کو میں اپنے محسن، مرشد اور مربی
محترم جناب ظفر اقبال صاحب مدظلہ کی طرف منسوب کرتا ہوں جنہوں کی محبت و شفقت کے
باعث میں یہ ٹوٹا پھوٹا ترجمہ کرنے کے قابل ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے چند
مخلصین دوستوں بھائی عبدالباسط کراچی، محمد مسلم رحیم یار خان اور سید محمد وقاص
حیدر امریکہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ بعض مشکل مقامات پر انہوں نے میری رہنمائی
فرمائی.
احقر عبداللہ غازی
معمہ پولس
ابتدائی مسیحیت میں دو شخصیات ظاہر ہوئیں . یسوع اور پولس، عیسائی یسوع کو ان کی زندگی کے واقعات کی بنیاد پر مسیحیت کے بانی کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ پولس کو مقصد یسوع کا ایسا زبردست شارح تصور کیاجاتا ہے جو خود یسوع بھی نہ کرسکے-یہ وہی تھا جس نے اس بات کی تشریح کی کہ کس طرح حیات و ممات یسوع کو اس آسمانی قانونِ نجات کا حصہ بنایا جائے جو حضرت آدم کی خلقت سے قیامت تک مشتمل ہے.
ہم یسوع اور پولس کے باہمی تعلق کو کیسے سمجھیں؟ یہ سوال ہم ایمان کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ان تاریخ دانوں کی نظر سے پرکھیں گے جو اناجیل اور نئے عہد نامہ کو ایک اہم ذریعہ ثبوت مانتے ہیں اور جن کی محتاط پرکھ ، تنقیدی جائزہ ضروری ہے. کیونکہ ان کے مصنفین بجاۓ غیر جذباتی تاریخی معلومات پہنچانے کے مذہبی عقائد کا پرچار کر رہے تھے-اسی طرح ہم دوسرے ذرائع جیسے یوسیفس، تلمود، چرچ کے مؤرخین اور غیر انجیلی صحیفوں سے تمام متعلقہ ثبوت بھی ضرور زیر بحث لائیں گے.
یسوع خود پولس کے بارے میں کیا راۓ رکھتے تھے؟ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یسوع پولس کو کبھی نہیں جانتے تھے اور ان دو ہستیوں کی ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی.حواریینِ یسوع یعنی پطرس، یعقوب اور یوحنا جو یسوع کے بہت قریب تھے ، انہوں نے کوئی تحریر ایسی نہیں چھوڑی جو یہ وضاحت کرتی ہو کہ مقصد یسوع کیا تھا اور وہ خود مسیح کو کیسا سمجھتے تھے. کیا وہ حواری پولس کی فصیح اور رواں تحریروں میں ان کی تشریحات سےکبھی متفق ہوئے؟ یاشاید کبھی انہوں نے یہ سوچا کہ اس موقعہ پر یہ اجنبی شخص ( پولس ) مقامِ یسوع کے بارے میں پیچیدہ افکار پھیلا رہا ہے.
پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی تشریحات اس کی اس کی ذاتی اختراع نہیں بلکہ یہ اس کو ذاتی مکاشفہ سے عطا کی گئی ہیں. وہ مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد یسوع سے ملاقات کرنے کا بھی دعوی کرتا ہے اگرچہ وہ کبھی یسوع لے حین حیات ان سے ملاقات نہ کر سکا. وہ یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ اس کا خواب و سفر میں یسوع سے تعلیم پانا دراصل یسوع کی زندگی میں ملاقات کرنے سے بھی برتر ہے جب یسوع اپنے مقاصد کے لئے زبردست جدوجہد کررہے تھے.
ہمیں مقدس پولس کے بارے میں معلومات اس کے اپنے خطوط کے ساتھ ساتھ اعمال کی کتاب سے بھی حاصل ہوتی ہیں جس میں اس کی پوری زندگی کے بارے میں تذکرہ موجود ہے۔ درحقیقت مقدس پولس ہی اعمال کی کتاب کا مرکزی کردار ہے کیونکہ یہ کتاب پولس کے ہی ایک شاگرد لوقا نے لکھی ہے جوکہ انجیل لوقا کا بھی مصنف ہے۔ اعمال کی کتاب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقدس پولس اور اس دور کے ابتدائی کلیسیاء کے زعماء( جوکہ یسوع کے حواری تھے) کے مابین کچھ اختلافات موجود تھے لیکن ان اختلافات کوآخر کار حل کرلیا گیا اور پھر وہ سب اپنے مشترکہ مقاصد کی خاطر بہترین دوست بن گئے۔ البتہ مقدس پولس کے خطوط (خاص طور پر وہ جو گلیتیوں کی طرف لکھے گئے تھے) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اختلافات کہیں زیادہ شدید تھے جبکہ اعمال کی کتاب میں کسی حد تک ابتدائی مسیحیت(مقدس پولس اور یسوع کے حواریوں) میں ہم آہنگی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہٰذا یہی سوال با ر بار اٹھتا ہے کہ یسوع اور ان کے شاگرد ، مقدس پولس کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ موجودہ عہد نامہ جدید پر مقدس پولس کا اثرو رسوخ کہیں زیادہ ہے جتنااس پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم مسیحیت کی مذہبی کتب کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عہد نامہ جدید کی چاروں اناجیل کا مرکزی کردار یسوع ہیں اور ان اناجیل میں ہمیں مقدس پولس سے واسطہ نہیں پڑتا یہاں تک کہ ہم اعمال کی کتاب تک پہنچ جاتے ہیں جس میں مقدس پولس کا تذکرہ موجود ہے جوکہ یسوع کے بعد کے حالات و واقعات پر مشتمل ہےاور پھر آخر کار خطوط میں ہمیں بذات خود مقدس پولس سے واسطہ پڑتا ہے لیکن یہ تاثر غلط ہے کیونکہ عہدنامہ جدید میں موجود سب سے قدیم اور ابتدائی تحریریں سینٹ پولس کے ہی خطوط ہیں جوکہ 50-60 بعد از مسیح میں لکھے گئے تھے جبکہ اناجیل اربعہ میں سے کوئی بھی 70-110 عیسوی سے پہلے نہیں لکھی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدس پولس کے نظریات ان اناجیل کے لکھے جانے سے پہلے موجود تھے اور اناجیل کے مصنفین نے ان پولسی نظریات کو یسوعؑ کے قول و فعل کا رنگ دے کر پیش کیا۔مقدس پولس ایک طرح سے عہد نامہ قدیم کا پہلا حرف لکھے جانے سے بھی پہلے منظرنامے پر موجود تھا البتہ اناجیل کی بنیاد وہ روایات حتیٰ کہ وہ تحریری دستاویزات بھی ہیں جن کا تعلق مقدس پولس کے اثرانداز ہونے سے پہلے کے دور سے ہے اور یہ ابتدائی روایات اور تحریری دستاویزات اناجیل کے آخری اور موجودہ شکل سے مکمل طور پر ختم نہیں کی گئیں اور یہ قدیم ترین اور ابتدائی دستاویزات اس بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرسکتی ہیں کہ اناجیل کے پولسی مصنفین کے اناجیل کے آخری شکل میں مدون کرنے سے قبل مسیحیت کی اصل تعلیمات اور معاملات کیا تھے۔ موجودہ اناجیل پر غالب رنگ اور نظریہ مقدس پولس کا ہی ہے جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت کی تاریخ میں یسوع کے دنیا میں قیام اور تبلیغ کے بارے میں مقدس پولس کا جو نقطہ نظرتھا اسی کو مسیحی چرچ میں مقبولیت اور غلبہ حاصل ہوا ۔ اس کے برعکس وہ تمام روایتی مذہبی نظریات جو سینٹ پولس کے اس انفرادی نقطہ نظر سے مخلتف تھے ، ان سب کو بدعتی اور گمراہ کن قرار دے کر پولسی چرچ نے عہد نامہ جدید کے آخری ایڈیشن میں سے ختم کردیا۔
اس سے اناجیل میں یسوع کے دیگر 12حواریوں کو دئیے گئے مبہم اور پیچیدہ کردار کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے۔ یسوع کے دیگر بارہ حواریوں کا اناجیل میں انتہائی مبہم اور مختصر سا تذکرہ موجود ہے سوائے اس کے کچھ خاص مقاصد کے لئے ان کو ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان سب کو کم عاقل بھی ظاہر کیا جاتا ہے جو عموماً یسوع کے اقوال کااصل مطلب سمجھنے کے قابل نہیں ہیں۔ مسیحیت کے بنیادی لٹریچر میں ان حواریوں کی اہمیت کو بڑے غیر معمولی انداز میں کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یسوع کی وفات کے بعد یروشلم کے چرچ کا لیڈر یعقوب رسول ہیں جبکہ اناجیل میں اس یعقوب کا یسوع کے مشن اور زندگی سے متعلق کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس کے برعکس اس کا مختصر سا یہ تذکرہ ملتا ہے کہ اس نے یسوع کی زندگی میں ان کی مخالفت کی اور ان کو پاگل تک کہا۔ یہ کیسے ہوا کہ ایک ایسا بھائی جو یسوع کی زندگی میں ان کا دشمن تھا لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد مسیحی کلیسیاء ایک انتہائی معزز رہنما بن جاتا ہے، واضح نہیں ہے۔ تاہم شاید کوئی یہ سوچے کہ اس بارے میں کچھ معلومات کو اکٹھا کرکے بعد میں آنے والے مسیحیت کے عظیم رہنماؤں نے یعقوب کے معجزانہ طور پر بدلنے اور ایک رسول بن جانے کے واقعات کو بیان کرکے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سب سے زیادہ معقول وضاحت یہ ہے (جس کے لئے آگے چل کر بھی دلائل دئیے جائیں گے) کہ یعقوب (اور یسوع ؑ کے دوسرے بھائیوں )کے بارے میں معلومات کو اناجیل میں تمام اہم مقامات سے ختم کردینا ، مسیحیت کے تمام ابتدائی رہنماؤں (جو یسوع کی زندگی میں ان سے نہایت قریب تھے)کی تضحیک کئے جانے کے منصوبے کے حصہ ہیں اور ان سب کو ایک دم سے کہیں سے نمودار ہونے والے مقدس پولس کے مسیحی نظریات (مذہب) میں انتہائی مشکوک اور مایوس تصور کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ان تمام نظریات کو یسوع کے اقوال کی تعبیر بنا کر پیش کیا جاسکے جنہیں ان کی زندگی میں وہ کبھی نہیں ملا تھا۔
تو پھر مقدس پولس کون تھا؟ اس سلسلے میں ہمارے پاس کافی معلومات موجود ہیں لیکن اگر ان معلومات کا غور سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس میں کافی مسائل نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس مقدس پولس کے بارے میں جو معلومات ہیں وہ اس نے اپنے خطوط میں خود اپنے بارے میں دی ہے جوکہ غیر جانبدار ہونے سے کوسوں دور ہے اور عمومی طور پر ایک طرح سے خودنوشت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ مقدس پولس کے بارے میں معلومات کتاب اعمال میں ہے جس میں مقدس پولس کا ہی بنیادی کردار ہے لیکن کسی بھی شخص کے خود اپنی ذات کے بارے میں دی ہوئی معلومات کے حوالے سے تحفظات ہوتے ہیں کیونکہ ہر انسان خود کو ممکنہ طور پر بہترین دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور مقدس پولس کے بارے میں کتاب اعمال میں دی گئی معلومات کو بھی تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرور ت ہے کیونکہ یہ معلومات ایک ایسے شخص کی طرف سے دی گئی جوکہ ذاتی طور پر پولسی نظریات سے وابستہ تھا۔ کیا ہمارے پاس مقدس پولس کی زندگی کے بارےمیں جاننے کے لئے کوئی دوسرے ذرائع موجود ہیں؟ حقیقیت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے دیگر ذرائع موجود ہیں تاہم وہ مختلف اور خلاف توقع مقامات پر موجود ہیں۔ جو کہ ہمارا مقصد ہوگا کہ ہم انہیں ڈھونڈیں۔ خوش قسمتی سے ابیونیوں (مسیحیت کا ایسا فرقہ جو کہ ہماری اس جدوجہد کے حوالے سے انتہائی اہم ہے) کی گمشدہ تحریروں میں سے جمع کیا گیا اقتباس اور آرتھوڈوکس اسرائیلی مسیحیوں (جو کہ پولس کے مخالفین تھے) کا ایک عربی مخطوطہ گردش زمانہ کے باوجود محفوظ رہ گیا ہے۔
مزید بہتر اور واضح ماخذات میں پائے جانے والے شواہد کو جاننے کے لئے ہمارے ساتھ آئیے. اعمال کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس کا نام ساؤل تھا اور اس کی جائے پیدائش طرطوس تھی جو کہ ایشیائے کوچک کا شہر ہے. (اعمال 9:11, 21:39،22:3) کافی عجیب بات ہے کہ ایک بہترین سوانح نگار ہونے باوجود پولس اپنے خطوط میں کبھی اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ وہ طرطوس سے آئے ہیں. اپنے خاندان کے متعلق وہ چند ہی معلومات فراہم کرتے ہیں (رومیوں 11:2) (فلپیوں 3:5)ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خطوط کے وصول کنندگان کے متعلق یہ معلومات فراہم کرنے میں پولس کو کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ طرطوس سے اِس شہر یروشلم میں آئے تھے جو فریسی ازم کا گڑھ تھا. وہ تاثر جو پولس ایک شفاف فریسی پس منظر رکھنے کی حیثیت سے دینا چاہتے تھے اِس اعتراف سے بہت کمزور ہو جاتا ہے کہ وہ طرطوس کے رہنے والے ہیں جہاں فریسی اساتذہ اور ان کی تربیت کسی طرح بھی میسر نہیں ہو سکتی تھی.
پولس کے خاندانی پس منظر کے متعلق ہماری کھوج شروع سے ہی اس سوال کی ہے کہ کیا پولس واقعی ایک خالص فریسی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے خطوط میں دعوی کرتے ہیں یا پھر وہ ان چیز دعاوی کی مدد سے اپنے پیروکاروں کی نظر میں اپنا مقام بلند کرنا چاہ رہے تھے؟ یہ حقیقت ہے کہ کبھی نہ پوچھا گیا یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ پولس کا مطالعہ کرتے وقت مذہبی روایات کا رویہ کتنا مضبوط اثر و رسوخ رکھتا ہے.
موضوع کی مکمل بحث کے ابتداء میں ہی یہ جان لینا چاہیے کہ جدید علماء اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ فریسی بطور جماعت رومی اور پارتھیائی سلطنت کی گرفت میں تھا جو شریعت کی درخواست پر عمل اور صبر کو برقرار رکھتے ہوئے ظلم کے سامنے اپنے مذہبی نظریات برقرار رکھے ہوئے تھے اور امراء کے جبر کے خلاف غریبوں کے حقوق کا علمبردار سمجھے جاتے تھے. قرون وسطی اور جدید زمانہ میں فریسی نام کی طرف جو بلاوجہ فریب دہی منسوب کر دی گئی ہے وہ دراصل اناجیل میں فریسیوں کے خلاف ایسی کاروائی کا نتیجہ ہے جو اُس وقت سیاسی مذہبی سوچ و فکر کے ذریعے فریسیوں کے خلاف اُس وقت کی گئی جب یسوع کی موت کے چالیس تا اسی سال بعد اناجیل اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں تھیں. پولس اس بات کا شدید آرزومند تھا کہ
وہ اپنے حین حیات فریسیوں کے اصل مقام کی روشنی میں ایک فریسی تربیت یافتہ شخص سمجھا جائے. پولس کا اپنے اعلی و معزز ہونے کا دعوٰی کرنا دراصل اپنے مخاطبین کی نظر میں اپنی قدر و منزلت بڑھانا تھا. علماءکا خیال ہے کہ چاہے جس قدر بھی معروضی اور حقیقت پر مبنی تحقیق ہی کیوں نہ کر لی جائے، لیکن پولس کی طرف ایک خاص قسم کے "احترام" کا روّیہ ضرور اختیار کیا جانا چاہیے، اور ایسا بیان ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ پولس نے "سچ" کو توڑ مروڑ کر پیش کیا،۔ ایسا کرنا ہر حال میں ضروری ہے، چاہے کتنا ہی جاندار ثبوت اُس کی اپنی زندگی کے مختلف حصوں سے حاصل کیوں نہ ہو جائے، جس کے مطابق جب بھی اُس نے حالات کی نزاکت کا سہارا لیتے ہوئے سچائی پر ملمع کاری کی۔
فریسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے پولوسی دعوے کی مزید توضیح کے لئے ہم اس بات کی تحقیق کریں گے کہ قابل رسائی ماخذات میں پولس کے متعلق ہمیں کیا بتایا گیا ہے. نوجوان ساؤل نے طرطوس چھوڑا اور اسرائیل کی سرزمین کی طرف آ گئے جہاں مقدس گملیل کے مکتب میں تعلیم حاصل کی (اعمال 22:3) دیگر روایات سے بزرگ گملیل کے متعلق پتہ چلتا ہے جس کا مشنا جیسی ربائی تحاریر میں انتہائی معزز خاکہ کھینچا گیا اور "ربان" کے عنوان سے سرفراز اور قائد عوام بھی کہا گیا ہے. وہ اُس ساری فریسی جماعت کا سربراہ تھا جس کی نہ صرف عہد نامہ جدید تصدیق کرتا ہے بلکہ اُسے اعمال کی کتاب کے ایک منظر نامے میں ایسا نمایاں کردار دے کر پیش کرتا ہے جس کی اناجیل میں پیش کی گئی فریسی تصویر سے موافقت انتہائی مشکل ہے.
مقدس پولس نے کبھی اپنے خطوط میں خود کو بزرگ گملیل کا شاگرد قرار نہیں دیا مگر اس کے باوجود وہ پرزور انداز میں اپنی علمی سند کو فریسی ازم سے جوڑتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سوال پھر سے اٹھتا ہے کہ کیا پولس واقعی گملیل کے شاگرد تھے یا یہ دعویٰ لوقا نے اپنی انجیل کی تزئین کے لئے کیا ہے؟ہم بعد میں دیکھیں گے کہ یہاں وہ درست سوچ جو اس معاملے کو مشکوک بنا دیتی ہے، اس معاملے میں مقدس پولس کا کچھ کہنے میں معنی خیز تسامح ہے جو کہ سب سے الگ ہے کہ وہ کبھی مقدس گملیل کا شاگرد تھا.
نوجوان ساؤل کے متعلق ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اسٹیفن کی موت میں بھی پولس ملوث رہا تھا، وہ لوگ جنہوں نے اسٹیفن کے خلاف جھوٹی گواہی دی اور اس کے بے گناہ قتل میں قائدانہ کردار ادا کیا، انہوں نے اپنے کپڑے اتار کر ساؤل کے قدموں میں رکھے تھے. اسٹیفن کی موت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس میں یہ بھی اضافہ کیا گیا ہے کہ ساؤل اس کے قتل پر راضی تھا. (اعمال 8:1) ان تفصیلات میں کتنا سچ ہے؟ کیا پولس کی تبدیلی سے ماقبل و بعد کے حالات کا تقابل تاریخی تناظر میں ہے یا محض حقائق کے اظہار کے طور پر؟ اسٹیفن کی موت بذات خود ایک افسانہ ہے جو حقیقی تجزیہ کا تقاضہ کرتی ہے اگرچہ یہ الجھنوں اور تضادات سے بھرپور ہے. کیوں اور کس وجہ سے اسٹیفن کو مارا گیا اور وہ نظریات کیا تھے جو اس کی مظلومانہ موت کا سبب بنے؟اس سارے معاملے میں قابل غور عنصر پولس کی موجودگی ہے، چند لمحات کے لئے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس واقعہ میں پولس کی مبینہ موجودگی اس تاثر میں اضافہ کرتی ہے کہ فریسییت اختیار کرنے کا مطلب یسوع کے پیروکاروں کا دشمن ہونا تھا.
اگلی چیز جو پولس کے متعلق اعمال کی کتاب میں ہمیں بتائی گئی ہے وہ یہ کہ ساؤُل کِلیسیا کو اِس طرح تباہ کرتا رہا کہ گھر گھر گھُس کر اور مردوں اور عَورتوں کو گھِسیٹ کر قَید کراتا تھا۔ (اعمال 8:3) اس مقام پر ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس اختیار سے اور کس کے حکم پر وہ لوگوں کو عقوبت خانے لے جایا کرتا تھا؟ یہ واضح طور پر پولس کا انفرادی معاملہ نہیں تھا بلکہ لوگوں کو جیل بھیجنا صرف چند قسم کے افسران کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا تھا. ساؤُل یقیناً یہ سب کچھ اختیارات ملنے کہ بنیاد پر ہی کررہا تھا اور ہو سکتا ہے کہ یہ اختیارات مابعد کے ان واقعات سے لئے گئے ہوں جس میں پولس سردار کاہن کے ایماء پر یہ سب کاروائیاں کرتا تھا. کوئی بھی فرد جو اُس وقت یہودیہ کی سیاسی اور مذہبی تصویر سے واقفیت رکھتا ہے وہ یہاں ایک گھمبیر مسئلہ محسوس کر سکتا ہے. سردار کاہن فریسی نہیں بلکہ صدوقی تھا اور صدوقی فریسیوں کے انتہائی سخت مخالف تھے. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مبینہ طور پر ایک پرجوش فریسی سردار کاہن کے اشارے پر یہ سب کچھ کاروائیاں کررہا تھا؟ پولس کی اصلیت کی وہ تصویر کشی جو یسوع کو قبول کرنے سے قبل عہد نامہ جدید میں کی گئی ہے انتہائی متضاد اور مشکوک ہے.
اعمال باب ٩ میں ہم سنتے ہیں کہ پولس ابھی تک خداوند کے رسولوں کو قتل کرنے کے درپے تھا اور انہیں ڈرانے دھمکانے میں مصروف تھا. وہ سردار کاہن کے پاس گیا اور اس سے دمشق کے سینیگاگ کے نام خط لکھنے کی درخواست کی کہ وہ اِس (پولس) کو اجازت دیں کہ وہ ہر اس شخص کو" خواہ وہ مرد ہو یا عورت " گرفتار کرے اور پکڑ کر یہاں یروشلم لائے. یہ واقعہ مکمل طور پر مشکوک ہے. اگر ساؤل کو یہودیہ میں کلیسیاء کو ایذا رسانی کی آزادی تھی تو اچانک اس کے دل میں دمشق جاکر وہاں کی کلیسیاء کو تنگ کرنے کا خیال کیسے پیدا ہوا؟ (جبکہ یسوع کے سارے شاگرد یروشلم میں ہی تبلیغی سرگرمیوں میں پوری طرح مصروف تھے از مترجم) دمشق جانے کے لئے وہ کون سی عجلت تھی؟ مزید یہ کہ کس قانونی حیثیت سے یہودی سردار کاہن نے ایسے علاقے میں جا کر لوگوں کو گرفتار کرنے کی منظوری دے دی جو یہودی عملداری میں تھا ہی نہیں؟ ان سوالات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں سردار کاہن اور پولس کے تعلقات کو بیان کرنے کے لئے مزید الجھاؤ ہے. پولس جوکہ ایک عام شہری تھا اور اس بات کا شدید خواہش مند تھا کہ وہ ایسا بااختیار شہری بنے جو اس کے بیان کے مطابق لوگوں کو گرفتار کرے اور مزید اہم اختیارات حاصل کرنے کے لئے انہیں قید کرکے سردار کاہن کے پاس لائے. یہاں سردار کاہن اور پولس کے درمیان بالکل واضح سرکاری تعلق نظر آتا ہے کیونکہ سردار کاہن ہی پولس کے منصوبوں کو منظوری کی سند دینے والا تھا. اس بات کا بھی زبردست امکان ہے کہ منصوبہ بندی تو پولس کے بجائے سردار کاہن کی ہوا کرتی تھی لیکن پولس کا کردار سردار کاہن کے مخبر یا ایجنٹ کے طور پر تھا. یہ پورا واقعہ درست حالات اور امکانات کی روشنی میں مزید تفہیم کا تقاضا کرتا ہے.
اعمال کی کتاب پولس کی دمشق کی راہ پر تبدیلی، یسوع سے ملاقات اور یسوع کا اُس کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی تفصیل جاری رکھتی ہے. مسیحیت سے قبل پولس کی زندگی کے واقعات بھی اعمال کی کتاب میں جگہ رکھتے ہیں جو کہ اپنی ذات میں پیچیدگی لئے دلچسپ تفصیل کے ساتھ اعمال باب ٢٢ اور ٢٦ میں موجود ہیں.
باب ٢٢ میں، رومی صوبیدار کے سوالات کے بعد پولس لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ابتدائی واقعات کو خود لوگوں کے سامنے ظاہر کرتا ہے. پولس کہتا ہے.
مَیں یہُودی ہُوں اور کلِکیہ کے شہر تَرسُس میں پَیدا ہُؤا مگر میری تربِیت اِس شہر میں گملی ایل کے قدموں میں ہُوئی اور مَیں نے باپ دادا کی شَرِیعَت کی خاص پاِبنِدی کی تعلِیم پائی اور خُدا کی راہ میں اَیسا سرگرم تھا جَیسے تُم سب آج کے دِن ہو۔ چُنانچہ مَیں نے مردوں اور عَورتوں کو باندھ باندھ کر اور قَید خانہ میں ڈال ڈال کر مسِیحی طِریق والوں کو یہاں تک ستایا کہ مروا ڈالا۔ چُنانچہ سَردار کاہِن اور سب بُزُرگ میرے گواہ ہیں کہ اُن سے مَیں بھائِیوں کے نام خط لے کر دمشق کو روانہ ہُؤا تاکہ جِتنے وہاں ہوں اُنہِیں بھی باندھ کر یروشلِیم میں سزا دِلانے کو لاؤں۔
اس کے بعد پولس دمشق کی راہ پر یسوع سے ملاقات ہونے کی وضاحت بیان کرنے کی طرف نکل جاتا ہے. رومی صوبیدار کو بطور یہودی وہ یہ پہلے ہی باور کرا چکا تھا کہ وہ کلکلیہ کے شہر طرطوس سے تعلق رکھتا ہے. اس طرح سے ہم پولس کے آبائی شہر کو اور اس کی مبینہ تعلیم "جس کی تحصیل بزرگ گملیل کی نگرانی میں ہوئی" سے واقف ہوتے ہیں. یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پولس کہتا ہے "اگرچہ میں طرطوس میں پیدا ہوا اور اس شہر (یروشلم) میں پرورش پائی" یہ اس بات کا غماز ہے کہ اُس نے اپنا بچپن یروشلم میں گزارا. اس کا مطلب یہ کہ اس کے والدین طرطوس چھوڑ کر یروشلم منتقل ہو گئے تھے یا انہوں نے اپنے طور سے بچے کو یروشلم بھیج دیا تھا. اس بات کا امکان ہے کہ یروشلم منتقل ہونے سے قبل ہی مقدس پولس بالغ ہو چکے تھے اور انہوں نے اپنے والدین کو طرطوس میں ہی چھوڑ دیا تھا یہ نقطہ بھی مزید ممکنات میں شامل کیا جا سکتا ہے. یروشلم میں مقدس پولس کے تجربات کے واقعات میں یہ تذکرہ کہیں بھی حاصل نہیں ہوتا. مقدس گملیل سے تعلیم حاصل کرنے کے پولس کے مبینہ بیان کے مطابق یہ تعلیم بلوغت میں ہی حاصل کی جا سکتی تھی کیونکہ بزرگ گملیل تعلیم کی ابتدائی جماعتوں کے بجائے شرع کی اعلی تعلیم کے بڑے استاد تھے. وہ بطور طالبعلم انہی طلباء کا انتخاب کرتے تھے جو ربانیت کی تعلیم کے اہل ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی خاندانی پس منظر بھی رکھتے تھے. یہ سوال یہاں پھر سر اٹھاتا ہے کہ پولس نے کدھر اور کیسے ایسا شفاف خاندانی پس منظر حاصل کیا؟ جیسا کہ اوپر مدلل اور ٹھوس انداز میں نشاندہی ہے وہ اس بات پر غور کی دعوت دیتی ہے کہ پولس کبھی بھی گملیل کا شاگرد نہیں رہا.
اعمال کی کتاب اس باب میں ایک ضروری سوال یہ بھی ہے کہ پولس رومی شہری تھا. اس کی گواہی سب سے پہلے باب ١٦ سے دستیاب ہوتی ہے جہاں پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی پیدائش ایک رومی شہری کی حیثیت سے ہوئی جس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کا والد ایک رومی شہری تھا. اس مقام پر تبادلہ خیال کا تقاضہ کرنے والی بے شمار الجھنیں اور کچھ ایسے سوالات ہیں جو پولس کے فریسی خاندان سے تعلق رکھنے کے دعوی سے باہم ٹکراتے ہیں.
مسیحیت سے قبل پولس کی سوانح حیات کے بارے میں کچھ معلومات اعمال باب ٢٦ سے ملتی ہے جہاں پولس بادشاہ اگرپا کے سامنے ایک تقریر کرتا ہے. پولس کہتا ہے.
سب یہُودی جانتے ہیں کہ اپنی قَوم کے درمیان اور یروشلِیم میں شُرُوع جوانی سے میرا چال چلن کیَسا رہا ہے۔ چُونکہ وہ شُرُوع سے مُجھے جانتے ہیں اگر چا ہیں تو گواہ ہوسکتے ہیں کہ مَیں فرِیسی ہوکر اپنے دِین کے سب سے زیادہ پاِبنِدِ مزہب فِرقہ کی طرح زِندگی گزُارتا تھا اور اَب اُس وعدہ کی اُمِید کے سبب سے مُجھ پر مُقدّمہ ہورہا ہے جو خُدا نے ہمارے باپ دادا سے کِیا تھا. اُسی وعدہ کے پُورا ہونے کی اُمِید پر ہمارے بارہ کے بارہ قبِیلے دِل و جان سے رات دِن عِبادت کِیا کرتے ہیں۔ اِسی اُمِید کے سبب سے اَے بادشاہ! یہُودی مُجھ نالِش کرتے ہیں۔ جب کہ خُدا مُردوں کو جِلاتا ہے تویہ بات تُمہارے نزدِیک کِیُوں غَیر مُعتبر سَمَجھی جاتے ہے؟ مَیں نے بھی سَمَجھا تھاکہ یِسُوع ناصری کے نام کی طرح طرح سے مُخالفت کرنا مُجھ پر فرض ہے۔ چُنانچہ مَیں نے یروشلِیم میں اَیسا ہی کِیا اور سَردار کاہِنوں کی طرف سے اِختیّار پاکر بہُت سے مُقدّسوں کو قَید میں ڈالا اور جب وہ قتل کِئے جاتے تھے تو مَیں بھی یہی راۓ دیتا تھا۔ اور ہر عِبادت خانہ میں اُنہِیں سزا دِلا دِلا کر زبردستی اُن سے کفُر کہلواتا تھا بلکہ اُن کی مُخالفت میں اَیسا دِیوانہ بناکہ غَیر شہروں میں بھی جا کر اُنہِیں ستاتا تھا۔ اِسی حال میں سَردار کاہِنوں سے اِختیّار اور پروانے لے کر دمشق کو جاتا تھا۔
بے شک پولس کی اس تقریر کو اگرپا بادشاہ کو کئے گئے خطاب کے طور پر مستند ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ تاریخی انداز میں اعمال کتاب کے مصنف لوقا کی ترتیب کردہ فقط لفاظی ہے.پولس کے متعلق اس دعوے کی کوئی حقیقی اہمیت نہیں کہ یہودی جانتے تھے کہ پولس اعلی طرز کی فریسیانہ روش پر قائم تھا. یہ بات مزید دلچسپی کی حامل ہے کہ اس منظر نامہ میں پولس کو یہ کہتے ہوئے پیش کیا گیا ہے کہ وہ یسوع کے پیروکاروں کی مخالفت میں رائے دیا کرتا تھا. رائے دہی کا اختیار صرف کونسل کے بزرگوں یا اہم معاملات کے حل کے لئے طلب کی جانے والی سنہڈرین کو ہی حاصل تھا. لہٰذا اپنے ممدوح پولس کے متعلق لوقا کیسے یہ دعوی کر سکتا ہے کہ کسی وقت وہ بھی سنہڈرین کا ممبر تھا. اگر یہ دعوٰی سچ ہے تو پولس کے لئے باعث عار ہے کیونکہ اپنے خطوط میں اپنی حیات کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ کچھ بھی ایسا دعوی نہیں کرتا. اوپر مذکور واقعات کے ربط میں انتہائی مشکلات ہیں جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سنہڈرین اور اسکے ساتھ ساتھ سردار کاہن بھی یسوع کے متعلقین کو ایذا رسانی میں مصروف تھے. بعض مرتبہ سردار کاہن کا ذکر تن تنہا آتا ہے تو بعض اوقات سنہڈرین کے ساتھ اس طرح آتا ہے گویا کہ دونوں لازم و ملزوم ہوں، لیکن اعمال کی کتاب میں دو مواقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ فریسیوں کی وجہ سے سردار کاہن رائے دینے میں پیچھے رہ جاتا ہے اور دونوں مواقع پر فریسی یسوع کے پیروکاروں پر تشدد کے لئے کی جانے والی کوششوں کی مخالفت کررہے تھے لہذا (عہد جدید میں) سردار کاہن اور سنہڈرین کے ایک جیسے عزائم دکھاتے ہوئے انہیں پیش کرنا ان سب وقائع کے اندر مشکوک ترین پہلو ہے.
اعمال کی کتاب میں مندرج پولس کے خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی کے متعلق درج بالا اقتباس کے مجموعے اور اسکے ساتھ ساتھ پولس کے وہ حوالہ جات جو اس کے خاندان کے پس منظر سے متعلقہ ہیں، پولس کے متعلق ایسا مضبوط تصور قائم کرتے ہیں جیسے وہ ایک تربیت یافتہ یہودی ربی تھا اور ان تمام ربائی تفاسیر کی پیچیدگیوں سے واقف تھا جو صحف اور قانونی روایات سے متعلق تھیں (اس کے بعد ربائی تالیفات مدراش اور تلمود جمع کی گئیں) اور بطور فریسی پولس اس نو مولود فرقے کا سخت معاند تھا جو خود کو یسوع کا پیروکار کہتے اور اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ وہ صلیب پر موت کے بعد اپنی قبر سے جی اُٹھا تھا. پولس اس فرقے کا مخالف تھا اور ان لوگوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں میں حصہ لیتا تھا اور ان لوگوں کو جیل میں گھسیٹتا تھا. اگرچہ عہد جدید سے یہ ٹھوس تاثر ابھرتا ہے مگر مبہم رکھے گئے کچھ شبہات یہاں بھی موجود ہیں. مثال کے طور پر پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ مسیحیت قبول کرنے سے قبل سنہڈرین میں وہ مسیحیوں کے خلاف اپنی رائے دیا کرتا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پطرس کے مقدمہ کے وضاحتی بیان میں (اعمال باب 5) فریسی گملیل کی قیادت میں پطرس کی رہائی کے لئے رائے دیتے نظر آتے ہیں. پولس کس قسم کا فریسی تھا؟ اعمال کی کتاب کی گواہی کے مطابق اگر پولس ابتدائی کلیسیاء کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتا تھا تو یہ فریسیوں کا طریقہ ہرگز نہ تھا. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اعمال کی کتاب خود اپنے اندر ہی اختلاف رکھتی ہو؟ ایک طرف اعمال کی کتاب پولس کو فریسی ازم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے متشدد اور مخالف مسیح کے طور پر پیش کرتی ہے تو دوسری طرف یہی کتاب فریسیوں کو ابتدائی مسیحیوں کا دوست ہونے کی حیثیت سے اس حد تک بیان کرتی ہے کہ فریسی مسیحیوں کی حفاظت اور زندگیاں بچانے کے لئے ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں.
بہت سے علماء یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ اعمال کی کتاب مجموعی اعتبار سے حیران کن شواہد کے حساب پر مشتمل ہے جو کہ فریسیوں کے لئے سازگار ہیں اور انہیں روادار اور مہربان ظاہر کرتے ہیں. بعض علماء یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ اعمال کی کتاب کی گواہیاں فریسیوں کے حق میں جاتی ہے مگر یہ رائے مشکل ہی سے برقرار رکھی جا سکتی ہے. ان تمام شواہد سے کہیں زیادہ سازگار فریسیوں کے لئے وہ مواد ہے جو پولس سے متعلق ہے، پولس زمانہ فریسیت میں خود کو کلیسیاء کے ایذا رساں کے طور پر پیش کرتا ہے اور اسکے ساتھ یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ وہ خود بھی پانچ مرتبہ یہودیوں کے ہاتھوں کوڑوں سے پیٹا گیا. (2-کرنتھیوں 11:24) (یہاں اکثر یہودی سے مراد فریسی ہی لیا جاتا ہے). لہٰذا کوئی بھی اعمال کا ایسا قاری نہیں جو اس کے مطالعہ کے بعد فریسیوں کے لئے اچھا تاثر رکھتا ہو بلکہ متشدد اناجیل کی وجہ سے منفی رائے ہی اخذ کرتا ہے.
پولس ہمیشہ سے ہی اس تعلق پر زور دیتا رہا کہ وہ فریسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے. اگرچہ اس دعوی کی وجوہات کے محرکات کثیر ہیں مگر یہاں زیر بحث ایک ہی ہے وہ یہ کہ پولس کی خواہش تھی کہ پولوسی مسیحیت اور یہودیت کے درمیان مبینہ تسلسل برقرار رہے. پولس یہ کہنا چاہتا تھا کہ (جب وہ فریسی تھا) وہ غلطی سے ابتدائی مسیحیوں کو بطور بدعتی سمجھتا تھا جو مسیحیت قبول کرکے یہودیت سے جدا ہو گئے تھے. اس کا خیال تھا کہ مسیحیت ہی اصل یہودیت ہے. اپنی فریسیانہ تعلیم و تربیت کو بنیاد بنانے کا مقصد یہ تھا کہ "اُس کی ساری تعلیم" اسے یسوع کو بطور المسیح قبول کرنے کی طرف لاتی ہے جس کی پیشگوئی عہد قدیم میں کی گئی تھی. لہذا جب پولس اپنے فریسی ہونے کا اقرار کرتا ہے تو یہ فقط اس کا، جرائم قبول کرنے کا اعلان نہیں بلکہ وہ اپنی سند کا بھی اعلان کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اتنا ہی جانتا ہو جتنا میں یقین کر سکوں کہ یسوع ہی تورات کی تکمیل تھا تو کون اس کے دعوے سے عدم اتفاق کی جرات کر سکتا ہے؟
یسوع کے متعلق پولس کے نظریات یہودیت سے جراتمندانہ علیحدگی کا نام ہے. پولس ان نظریات کی وکالت کررہا تھا جو یہودیت کی نسبت مشرکانہ افسانوں سے زیادہ مماثل تھے جیسا کہ یسوع ایک الوہی ذات رکھنے والی ہستی تھی جو آسمان سے زمین پر اترا اور انسانیت کی نجات کے عظیم مقصد کے لئے صلیبی موت کو قبول کیا. یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں نے اس کے نظریات کو حیران کن پایا جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سارے معاملے میں یہودی صحائف مقدسہ کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی (پولوسی نظریات) کسی بھی طرح سے یہودیوں کے لئے قابل تفہیم رہے. پولس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اس کے نظریات نئے ہیں بلکہ اس کے برخلاف وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس کی تفہیم کے مطابق یہودی صحائف کی ہر ہر سطر یسوع کی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور جن لوگوں نے اس سوچ سے ہٹ کر صحائف کو کسی اور رخ سے سمجھا وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہو گئے.
وہ لوگ جنہوں نے پولس کے نظریات کو قبول کیا اور اسے ایک مجدد کے طور پر تسلیم کیا کہ یہودی صحف میں ایسا اشارہ نہیں، انہی میں سے ایک شخص مارقیون بھی تھا جو پولس کے سو سال بعد آیا اور اس کو بطور ملہم اعلی تسلیم کیا تھا. اس کے ساتھ ساتھ مارقیون نے پولوسی نظریات میں کوئی بھی یہودی عنصر دیکھنے کا انکار کیا اور اسے ایک نئے مکاشفہ کا طور پر قبول کیا. وہ یہودی صحف کو شیطان کا کام قرار دیتا تھا اور عہد عتیق کو اپنی مرتب کردہ بائبل سے خارج رکھتا تھا.
پولس خود اس نظریہ کا مخالف تھا اگرچہ وہ نبی عہد عتیق کو یسوع کی آمد کے بعد فرسودہ قرار دیتا تھا مگر اسے کلام خدا اور نئی کلیسیاء کی نبوتی تعلیم کے طور پر قبول کرتے ہوئے مستند قرار دیتا تھا. لہذا بطور فریسی پولس کی خود کی تصویر نئی اور پرانی تقسیم کے درمیان تسلسل کی ایسی علامت ہے جو اس (پولس) کی ذات کو ایسا اہم موڑ قرار دیتی ہے جس پر آکر یہودیت مسیحیت میں تبدیل ہو جاتی ہے.
ابتدائی صدیوں سے ہی مسیحی علماء اس پس منظر کی روشنی میں پولس کے فریسی ہونے کا دعوٰی کررہے تھے. قرون وسطی میں یہودیوں کو مسیحیت میں داخل کرنے کے لئے منعقد ہونے والے مناظروں میں اس دعوی کو ظاہر کرنے کے لئے دلائل پیش کیے جاتے تھے کہ نہ صرف یہودی صحائف بلکہ ربائی تحاریر، تلمود اور مدراش مسیحیت کے اس دعوے کو قائم رکھتی ہیں کہ یسوع ہی موعود مسیح تھا اور ایسا الوہی حیثیت کا حامل تھا جس نے انسانیت کی خاطر موت کو گلے لگا لیا. جدید زمانہ میں علماء نے یہ دلیل دینے پر بہت محنت کی ہے کہ مسیح اور الہی آزمائش جیسے پولوسی عقائد یہودیت کا ہی تسلسل ہیں جیسا کہ بائبل، اپاکریفا اور غیر مستند تصانیف اور ربائی تحاریر سے بھی ظاہر ہے. لہذا پولس کا فریسیت میں مہارت حاصل کرنے کا دعوی انتہائی اہم اور مرکزی ہے خواہ پولس کی تشکیل شدہ مسیحیت واقعی یہودیت کے ساتھ اتصال بر قرار رکھے ہوئے ہے یا خواہ یہ نظریہ جدید ہو جس کی یہودیت میں کوئی نظیر نہیں. حاصل کلام تو یہی ہے کہ آسمان سے نیچے اترنے والے نجات دھندہ کے یونانی افسانے اور خدا کے مرنے اور جی اٹھنے کی مشرکانہ روایات فقط ایک تاریخی پس منظر کے طور پر ہیں کیا پولس صحیح معنوں میں یہودیوں روایات کو قائم رکھے ہوئے تھا یا پھر یہ بنیادی طور پر ایسا یونانی مذہبی انسان تھا جو ایسے گروہ کو یہودیت کا رنگ دینے کی کوشش میں تھا جو اُس عقیدہ نجات کے قائل تھے جو ہر اس چیز کے خلاف تھا جس پر یہودیت قائم تھی.
احقر عبداللہ غازی
معمہ پولس
ابتدائی مسیحیت میں دو شخصیات ظاہر ہوئیں . یسوع اور پولس، عیسائی یسوع کو ان کی زندگی کے واقعات کی بنیاد پر مسیحیت کے بانی کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ پولس کو مقصد یسوع کا ایسا زبردست شارح تصور کیاجاتا ہے جو خود یسوع بھی نہ کرسکے-یہ وہی تھا جس نے اس بات کی تشریح کی کہ کس طرح حیات و ممات یسوع کو اس آسمانی قانونِ نجات کا حصہ بنایا جائے جو حضرت آدم کی خلقت سے قیامت تک مشتمل ہے.
ہم یسوع اور پولس کے باہمی تعلق کو کیسے سمجھیں؟ یہ سوال ہم ایمان کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ان تاریخ دانوں کی نظر سے پرکھیں گے جو اناجیل اور نئے عہد نامہ کو ایک اہم ذریعہ ثبوت مانتے ہیں اور جن کی محتاط پرکھ ، تنقیدی جائزہ ضروری ہے. کیونکہ ان کے مصنفین بجاۓ غیر جذباتی تاریخی معلومات پہنچانے کے مذہبی عقائد کا پرچار کر رہے تھے-اسی طرح ہم دوسرے ذرائع جیسے یوسیفس، تلمود، چرچ کے مؤرخین اور غیر انجیلی صحیفوں سے تمام متعلقہ ثبوت بھی ضرور زیر بحث لائیں گے.
یسوع خود پولس کے بارے میں کیا راۓ رکھتے تھے؟ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یسوع پولس کو کبھی نہیں جانتے تھے اور ان دو ہستیوں کی ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی.حواریینِ یسوع یعنی پطرس، یعقوب اور یوحنا جو یسوع کے بہت قریب تھے ، انہوں نے کوئی تحریر ایسی نہیں چھوڑی جو یہ وضاحت کرتی ہو کہ مقصد یسوع کیا تھا اور وہ خود مسیح کو کیسا سمجھتے تھے. کیا وہ حواری پولس کی فصیح اور رواں تحریروں میں ان کی تشریحات سےکبھی متفق ہوئے؟ یاشاید کبھی انہوں نے یہ سوچا کہ اس موقعہ پر یہ اجنبی شخص ( پولس ) مقامِ یسوع کے بارے میں پیچیدہ افکار پھیلا رہا ہے.
پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی تشریحات اس کی اس کی ذاتی اختراع نہیں بلکہ یہ اس کو ذاتی مکاشفہ سے عطا کی گئی ہیں. وہ مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد یسوع سے ملاقات کرنے کا بھی دعوی کرتا ہے اگرچہ وہ کبھی یسوع لے حین حیات ان سے ملاقات نہ کر سکا. وہ یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ اس کا خواب و سفر میں یسوع سے تعلیم پانا دراصل یسوع کی زندگی میں ملاقات کرنے سے بھی برتر ہے جب یسوع اپنے مقاصد کے لئے زبردست جدوجہد کررہے تھے.
ہمیں مقدس پولس کے بارے میں معلومات اس کے اپنے خطوط کے ساتھ ساتھ اعمال کی کتاب سے بھی حاصل ہوتی ہیں جس میں اس کی پوری زندگی کے بارے میں تذکرہ موجود ہے۔ درحقیقت مقدس پولس ہی اعمال کی کتاب کا مرکزی کردار ہے کیونکہ یہ کتاب پولس کے ہی ایک شاگرد لوقا نے لکھی ہے جوکہ انجیل لوقا کا بھی مصنف ہے۔ اعمال کی کتاب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقدس پولس اور اس دور کے ابتدائی کلیسیاء کے زعماء( جوکہ یسوع کے حواری تھے) کے مابین کچھ اختلافات موجود تھے لیکن ان اختلافات کوآخر کار حل کرلیا گیا اور پھر وہ سب اپنے مشترکہ مقاصد کی خاطر بہترین دوست بن گئے۔ البتہ مقدس پولس کے خطوط (خاص طور پر وہ جو گلیتیوں کی طرف لکھے گئے تھے) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اختلافات کہیں زیادہ شدید تھے جبکہ اعمال کی کتاب میں کسی حد تک ابتدائی مسیحیت(مقدس پولس اور یسوع کے حواریوں) میں ہم آہنگی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہٰذا یہی سوال با ر بار اٹھتا ہے کہ یسوع اور ان کے شاگرد ، مقدس پولس کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ موجودہ عہد نامہ جدید پر مقدس پولس کا اثرو رسوخ کہیں زیادہ ہے جتنااس پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم مسیحیت کی مذہبی کتب کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عہد نامہ جدید کی چاروں اناجیل کا مرکزی کردار یسوع ہیں اور ان اناجیل میں ہمیں مقدس پولس سے واسطہ نہیں پڑتا یہاں تک کہ ہم اعمال کی کتاب تک پہنچ جاتے ہیں جس میں مقدس پولس کا تذکرہ موجود ہے جوکہ یسوع کے بعد کے حالات و واقعات پر مشتمل ہےاور پھر آخر کار خطوط میں ہمیں بذات خود مقدس پولس سے واسطہ پڑتا ہے لیکن یہ تاثر غلط ہے کیونکہ عہدنامہ جدید میں موجود سب سے قدیم اور ابتدائی تحریریں سینٹ پولس کے ہی خطوط ہیں جوکہ 50-60 بعد از مسیح میں لکھے گئے تھے جبکہ اناجیل اربعہ میں سے کوئی بھی 70-110 عیسوی سے پہلے نہیں لکھی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدس پولس کے نظریات ان اناجیل کے لکھے جانے سے پہلے موجود تھے اور اناجیل کے مصنفین نے ان پولسی نظریات کو یسوعؑ کے قول و فعل کا رنگ دے کر پیش کیا۔مقدس پولس ایک طرح سے عہد نامہ قدیم کا پہلا حرف لکھے جانے سے بھی پہلے منظرنامے پر موجود تھا البتہ اناجیل کی بنیاد وہ روایات حتیٰ کہ وہ تحریری دستاویزات بھی ہیں جن کا تعلق مقدس پولس کے اثرانداز ہونے سے پہلے کے دور سے ہے اور یہ ابتدائی روایات اور تحریری دستاویزات اناجیل کے آخری اور موجودہ شکل سے مکمل طور پر ختم نہیں کی گئیں اور یہ قدیم ترین اور ابتدائی دستاویزات اس بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرسکتی ہیں کہ اناجیل کے پولسی مصنفین کے اناجیل کے آخری شکل میں مدون کرنے سے قبل مسیحیت کی اصل تعلیمات اور معاملات کیا تھے۔ موجودہ اناجیل پر غالب رنگ اور نظریہ مقدس پولس کا ہی ہے جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت کی تاریخ میں یسوع کے دنیا میں قیام اور تبلیغ کے بارے میں مقدس پولس کا جو نقطہ نظرتھا اسی کو مسیحی چرچ میں مقبولیت اور غلبہ حاصل ہوا ۔ اس کے برعکس وہ تمام روایتی مذہبی نظریات جو سینٹ پولس کے اس انفرادی نقطہ نظر سے مخلتف تھے ، ان سب کو بدعتی اور گمراہ کن قرار دے کر پولسی چرچ نے عہد نامہ جدید کے آخری ایڈیشن میں سے ختم کردیا۔
اس سے اناجیل میں یسوع کے دیگر 12حواریوں کو دئیے گئے مبہم اور پیچیدہ کردار کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے۔ یسوع کے دیگر بارہ حواریوں کا اناجیل میں انتہائی مبہم اور مختصر سا تذکرہ موجود ہے سوائے اس کے کچھ خاص مقاصد کے لئے ان کو ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان سب کو کم عاقل بھی ظاہر کیا جاتا ہے جو عموماً یسوع کے اقوال کااصل مطلب سمجھنے کے قابل نہیں ہیں۔ مسیحیت کے بنیادی لٹریچر میں ان حواریوں کی اہمیت کو بڑے غیر معمولی انداز میں کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یسوع کی وفات کے بعد یروشلم کے چرچ کا لیڈر یعقوب رسول ہیں جبکہ اناجیل میں اس یعقوب کا یسوع کے مشن اور زندگی سے متعلق کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس کے برعکس اس کا مختصر سا یہ تذکرہ ملتا ہے کہ اس نے یسوع کی زندگی میں ان کی مخالفت کی اور ان کو پاگل تک کہا۔ یہ کیسے ہوا کہ ایک ایسا بھائی جو یسوع کی زندگی میں ان کا دشمن تھا لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد مسیحی کلیسیاء ایک انتہائی معزز رہنما بن جاتا ہے، واضح نہیں ہے۔ تاہم شاید کوئی یہ سوچے کہ اس بارے میں کچھ معلومات کو اکٹھا کرکے بعد میں آنے والے مسیحیت کے عظیم رہنماؤں نے یعقوب کے معجزانہ طور پر بدلنے اور ایک رسول بن جانے کے واقعات کو بیان کرکے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سب سے زیادہ معقول وضاحت یہ ہے (جس کے لئے آگے چل کر بھی دلائل دئیے جائیں گے) کہ یعقوب (اور یسوع ؑ کے دوسرے بھائیوں )کے بارے میں معلومات کو اناجیل میں تمام اہم مقامات سے ختم کردینا ، مسیحیت کے تمام ابتدائی رہنماؤں (جو یسوع کی زندگی میں ان سے نہایت قریب تھے)کی تضحیک کئے جانے کے منصوبے کے حصہ ہیں اور ان سب کو ایک دم سے کہیں سے نمودار ہونے والے مقدس پولس کے مسیحی نظریات (مذہب) میں انتہائی مشکوک اور مایوس تصور کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ان تمام نظریات کو یسوع کے اقوال کی تعبیر بنا کر پیش کیا جاسکے جنہیں ان کی زندگی میں وہ کبھی نہیں ملا تھا۔
تو پھر مقدس پولس کون تھا؟ اس سلسلے میں ہمارے پاس کافی معلومات موجود ہیں لیکن اگر ان معلومات کا غور سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس میں کافی مسائل نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس مقدس پولس کے بارے میں جو معلومات ہیں وہ اس نے اپنے خطوط میں خود اپنے بارے میں دی ہے جوکہ غیر جانبدار ہونے سے کوسوں دور ہے اور عمومی طور پر ایک طرح سے خودنوشت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ مقدس پولس کے بارے میں معلومات کتاب اعمال میں ہے جس میں مقدس پولس کا ہی بنیادی کردار ہے لیکن کسی بھی شخص کے خود اپنی ذات کے بارے میں دی ہوئی معلومات کے حوالے سے تحفظات ہوتے ہیں کیونکہ ہر انسان خود کو ممکنہ طور پر بہترین دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور مقدس پولس کے بارے میں کتاب اعمال میں دی گئی معلومات کو بھی تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرور ت ہے کیونکہ یہ معلومات ایک ایسے شخص کی طرف سے دی گئی جوکہ ذاتی طور پر پولسی نظریات سے وابستہ تھا۔ کیا ہمارے پاس مقدس پولس کی زندگی کے بارےمیں جاننے کے لئے کوئی دوسرے ذرائع موجود ہیں؟ حقیقیت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے دیگر ذرائع موجود ہیں تاہم وہ مختلف اور خلاف توقع مقامات پر موجود ہیں۔ جو کہ ہمارا مقصد ہوگا کہ ہم انہیں ڈھونڈیں۔ خوش قسمتی سے ابیونیوں (مسیحیت کا ایسا فرقہ جو کہ ہماری اس جدوجہد کے حوالے سے انتہائی اہم ہے) کی گمشدہ تحریروں میں سے جمع کیا گیا اقتباس اور آرتھوڈوکس اسرائیلی مسیحیوں (جو کہ پولس کے مخالفین تھے) کا ایک عربی مخطوطہ گردش زمانہ کے باوجود محفوظ رہ گیا ہے۔
مزید بہتر اور واضح ماخذات میں پائے جانے والے شواہد کو جاننے کے لئے ہمارے ساتھ آئیے. اعمال کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس کا نام ساؤل تھا اور اس کی جائے پیدائش طرطوس تھی جو کہ ایشیائے کوچک کا شہر ہے. (اعمال 9:11, 21:39،22:3) کافی عجیب بات ہے کہ ایک بہترین سوانح نگار ہونے باوجود پولس اپنے خطوط میں کبھی اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ وہ طرطوس سے آئے ہیں. اپنے خاندان کے متعلق وہ چند ہی معلومات فراہم کرتے ہیں (رومیوں 11:2) (فلپیوں 3:5)ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خطوط کے وصول کنندگان کے متعلق یہ معلومات فراہم کرنے میں پولس کو کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ طرطوس سے اِس شہر یروشلم میں آئے تھے جو فریسی ازم کا گڑھ تھا. وہ تاثر جو پولس ایک شفاف فریسی پس منظر رکھنے کی حیثیت سے دینا چاہتے تھے اِس اعتراف سے بہت کمزور ہو جاتا ہے کہ وہ طرطوس کے رہنے والے ہیں جہاں فریسی اساتذہ اور ان کی تربیت کسی طرح بھی میسر نہیں ہو سکتی تھی.
پولس کے خاندانی پس منظر کے متعلق ہماری کھوج شروع سے ہی اس سوال کی ہے کہ کیا پولس واقعی ایک خالص فریسی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے خطوط میں دعوی کرتے ہیں یا پھر وہ ان چیز دعاوی کی مدد سے اپنے پیروکاروں کی نظر میں اپنا مقام بلند کرنا چاہ رہے تھے؟ یہ حقیقت ہے کہ کبھی نہ پوچھا گیا یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ پولس کا مطالعہ کرتے وقت مذہبی روایات کا رویہ کتنا مضبوط اثر و رسوخ رکھتا ہے.
موضوع کی مکمل بحث کے ابتداء میں ہی یہ جان لینا چاہیے کہ جدید علماء اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ فریسی بطور جماعت رومی اور پارتھیائی سلطنت کی گرفت میں تھا جو شریعت کی درخواست پر عمل اور صبر کو برقرار رکھتے ہوئے ظلم کے سامنے اپنے مذہبی نظریات برقرار رکھے ہوئے تھے اور امراء کے جبر کے خلاف غریبوں کے حقوق کا علمبردار سمجھے جاتے تھے. قرون وسطی اور جدید زمانہ میں فریسی نام کی طرف جو بلاوجہ فریب دہی منسوب کر دی گئی ہے وہ دراصل اناجیل میں فریسیوں کے خلاف ایسی کاروائی کا نتیجہ ہے جو اُس وقت سیاسی مذہبی سوچ و فکر کے ذریعے فریسیوں کے خلاف اُس وقت کی گئی جب یسوع کی موت کے چالیس تا اسی سال بعد اناجیل اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں تھیں. پولس اس بات کا شدید آرزومند تھا کہ
وہ اپنے حین حیات فریسیوں کے اصل مقام کی روشنی میں ایک فریسی تربیت یافتہ شخص سمجھا جائے. پولس کا اپنے اعلی و معزز ہونے کا دعوٰی کرنا دراصل اپنے مخاطبین کی نظر میں اپنی قدر و منزلت بڑھانا تھا. علماءکا خیال ہے کہ چاہے جس قدر بھی معروضی اور حقیقت پر مبنی تحقیق ہی کیوں نہ کر لی جائے، لیکن پولس کی طرف ایک خاص قسم کے "احترام" کا روّیہ ضرور اختیار کیا جانا چاہیے، اور ایسا بیان ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ پولس نے "سچ" کو توڑ مروڑ کر پیش کیا،۔ ایسا کرنا ہر حال میں ضروری ہے، چاہے کتنا ہی جاندار ثبوت اُس کی اپنی زندگی کے مختلف حصوں سے حاصل کیوں نہ ہو جائے، جس کے مطابق جب بھی اُس نے حالات کی نزاکت کا سہارا لیتے ہوئے سچائی پر ملمع کاری کی۔
فریسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے پولوسی دعوے کی مزید توضیح کے لئے ہم اس بات کی تحقیق کریں گے کہ قابل رسائی ماخذات میں پولس کے متعلق ہمیں کیا بتایا گیا ہے. نوجوان ساؤل نے طرطوس چھوڑا اور اسرائیل کی سرزمین کی طرف آ گئے جہاں مقدس گملیل کے مکتب میں تعلیم حاصل کی (اعمال 22:3) دیگر روایات سے بزرگ گملیل کے متعلق پتہ چلتا ہے جس کا مشنا جیسی ربائی تحاریر میں انتہائی معزز خاکہ کھینچا گیا اور "ربان" کے عنوان سے سرفراز اور قائد عوام بھی کہا گیا ہے. وہ اُس ساری فریسی جماعت کا سربراہ تھا جس کی نہ صرف عہد نامہ جدید تصدیق کرتا ہے بلکہ اُسے اعمال کی کتاب کے ایک منظر نامے میں ایسا نمایاں کردار دے کر پیش کرتا ہے جس کی اناجیل میں پیش کی گئی فریسی تصویر سے موافقت انتہائی مشکل ہے.
مقدس پولس نے کبھی اپنے خطوط میں خود کو بزرگ گملیل کا شاگرد قرار نہیں دیا مگر اس کے باوجود وہ پرزور انداز میں اپنی علمی سند کو فریسی ازم سے جوڑتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سوال پھر سے اٹھتا ہے کہ کیا پولس واقعی گملیل کے شاگرد تھے یا یہ دعویٰ لوقا نے اپنی انجیل کی تزئین کے لئے کیا ہے؟ہم بعد میں دیکھیں گے کہ یہاں وہ درست سوچ جو اس معاملے کو مشکوک بنا دیتی ہے، اس معاملے میں مقدس پولس کا کچھ کہنے میں معنی خیز تسامح ہے جو کہ سب سے الگ ہے کہ وہ کبھی مقدس گملیل کا شاگرد تھا.
نوجوان ساؤل کے متعلق ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اسٹیفن کی موت میں بھی پولس ملوث رہا تھا، وہ لوگ جنہوں نے اسٹیفن کے خلاف جھوٹی گواہی دی اور اس کے بے گناہ قتل میں قائدانہ کردار ادا کیا، انہوں نے اپنے کپڑے اتار کر ساؤل کے قدموں میں رکھے تھے. اسٹیفن کی موت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس میں یہ بھی اضافہ کیا گیا ہے کہ ساؤل اس کے قتل پر راضی تھا. (اعمال 8:1) ان تفصیلات میں کتنا سچ ہے؟ کیا پولس کی تبدیلی سے ماقبل و بعد کے حالات کا تقابل تاریخی تناظر میں ہے یا محض حقائق کے اظہار کے طور پر؟ اسٹیفن کی موت بذات خود ایک افسانہ ہے جو حقیقی تجزیہ کا تقاضہ کرتی ہے اگرچہ یہ الجھنوں اور تضادات سے بھرپور ہے. کیوں اور کس وجہ سے اسٹیفن کو مارا گیا اور وہ نظریات کیا تھے جو اس کی مظلومانہ موت کا سبب بنے؟اس سارے معاملے میں قابل غور عنصر پولس کی موجودگی ہے، چند لمحات کے لئے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس واقعہ میں پولس کی مبینہ موجودگی اس تاثر میں اضافہ کرتی ہے کہ فریسییت اختیار کرنے کا مطلب یسوع کے پیروکاروں کا دشمن ہونا تھا.
اگلی چیز جو پولس کے متعلق اعمال کی کتاب میں ہمیں بتائی گئی ہے وہ یہ کہ ساؤُل کِلیسیا کو اِس طرح تباہ کرتا رہا کہ گھر گھر گھُس کر اور مردوں اور عَورتوں کو گھِسیٹ کر قَید کراتا تھا۔ (اعمال 8:3) اس مقام پر ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس اختیار سے اور کس کے حکم پر وہ لوگوں کو عقوبت خانے لے جایا کرتا تھا؟ یہ واضح طور پر پولس کا انفرادی معاملہ نہیں تھا بلکہ لوگوں کو جیل بھیجنا صرف چند قسم کے افسران کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا تھا. ساؤُل یقیناً یہ سب کچھ اختیارات ملنے کہ بنیاد پر ہی کررہا تھا اور ہو سکتا ہے کہ یہ اختیارات مابعد کے ان واقعات سے لئے گئے ہوں جس میں پولس سردار کاہن کے ایماء پر یہ سب کاروائیاں کرتا تھا. کوئی بھی فرد جو اُس وقت یہودیہ کی سیاسی اور مذہبی تصویر سے واقفیت رکھتا ہے وہ یہاں ایک گھمبیر مسئلہ محسوس کر سکتا ہے. سردار کاہن فریسی نہیں بلکہ صدوقی تھا اور صدوقی فریسیوں کے انتہائی سخت مخالف تھے. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مبینہ طور پر ایک پرجوش فریسی سردار کاہن کے اشارے پر یہ سب کچھ کاروائیاں کررہا تھا؟ پولس کی اصلیت کی وہ تصویر کشی جو یسوع کو قبول کرنے سے قبل عہد نامہ جدید میں کی گئی ہے انتہائی متضاد اور مشکوک ہے.
اعمال باب ٩ میں ہم سنتے ہیں کہ پولس ابھی تک خداوند کے رسولوں کو قتل کرنے کے درپے تھا اور انہیں ڈرانے دھمکانے میں مصروف تھا. وہ سردار کاہن کے پاس گیا اور اس سے دمشق کے سینیگاگ کے نام خط لکھنے کی درخواست کی کہ وہ اِس (پولس) کو اجازت دیں کہ وہ ہر اس شخص کو" خواہ وہ مرد ہو یا عورت " گرفتار کرے اور پکڑ کر یہاں یروشلم لائے. یہ واقعہ مکمل طور پر مشکوک ہے. اگر ساؤل کو یہودیہ میں کلیسیاء کو ایذا رسانی کی آزادی تھی تو اچانک اس کے دل میں دمشق جاکر وہاں کی کلیسیاء کو تنگ کرنے کا خیال کیسے پیدا ہوا؟ (جبکہ یسوع کے سارے شاگرد یروشلم میں ہی تبلیغی سرگرمیوں میں پوری طرح مصروف تھے از مترجم) دمشق جانے کے لئے وہ کون سی عجلت تھی؟ مزید یہ کہ کس قانونی حیثیت سے یہودی سردار کاہن نے ایسے علاقے میں جا کر لوگوں کو گرفتار کرنے کی منظوری دے دی جو یہودی عملداری میں تھا ہی نہیں؟ ان سوالات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں سردار کاہن اور پولس کے تعلقات کو بیان کرنے کے لئے مزید الجھاؤ ہے. پولس جوکہ ایک عام شہری تھا اور اس بات کا شدید خواہش مند تھا کہ وہ ایسا بااختیار شہری بنے جو اس کے بیان کے مطابق لوگوں کو گرفتار کرے اور مزید اہم اختیارات حاصل کرنے کے لئے انہیں قید کرکے سردار کاہن کے پاس لائے. یہاں سردار کاہن اور پولس کے درمیان بالکل واضح سرکاری تعلق نظر آتا ہے کیونکہ سردار کاہن ہی پولس کے منصوبوں کو منظوری کی سند دینے والا تھا. اس بات کا بھی زبردست امکان ہے کہ منصوبہ بندی تو پولس کے بجائے سردار کاہن کی ہوا کرتی تھی لیکن پولس کا کردار سردار کاہن کے مخبر یا ایجنٹ کے طور پر تھا. یہ پورا واقعہ درست حالات اور امکانات کی روشنی میں مزید تفہیم کا تقاضا کرتا ہے.
اعمال کی کتاب پولس کی دمشق کی راہ پر تبدیلی، یسوع سے ملاقات اور یسوع کا اُس کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی تفصیل جاری رکھتی ہے. مسیحیت سے قبل پولس کی زندگی کے واقعات بھی اعمال کی کتاب میں جگہ رکھتے ہیں جو کہ اپنی ذات میں پیچیدگی لئے دلچسپ تفصیل کے ساتھ اعمال باب ٢٢ اور ٢٦ میں موجود ہیں.
باب ٢٢ میں، رومی صوبیدار کے سوالات کے بعد پولس لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ابتدائی واقعات کو خود لوگوں کے سامنے ظاہر کرتا ہے. پولس کہتا ہے.
مَیں یہُودی ہُوں اور کلِکیہ کے شہر تَرسُس میں پَیدا ہُؤا مگر میری تربِیت اِس شہر میں گملی ایل کے قدموں میں ہُوئی اور مَیں نے باپ دادا کی شَرِیعَت کی خاص پاِبنِدی کی تعلِیم پائی اور خُدا کی راہ میں اَیسا سرگرم تھا جَیسے تُم سب آج کے دِن ہو۔ چُنانچہ مَیں نے مردوں اور عَورتوں کو باندھ باندھ کر اور قَید خانہ میں ڈال ڈال کر مسِیحی طِریق والوں کو یہاں تک ستایا کہ مروا ڈالا۔ چُنانچہ سَردار کاہِن اور سب بُزُرگ میرے گواہ ہیں کہ اُن سے مَیں بھائِیوں کے نام خط لے کر دمشق کو روانہ ہُؤا تاکہ جِتنے وہاں ہوں اُنہِیں بھی باندھ کر یروشلِیم میں سزا دِلانے کو لاؤں۔
اس کے بعد پولس دمشق کی راہ پر یسوع سے ملاقات ہونے کی وضاحت بیان کرنے کی طرف نکل جاتا ہے. رومی صوبیدار کو بطور یہودی وہ یہ پہلے ہی باور کرا چکا تھا کہ وہ کلکلیہ کے شہر طرطوس سے تعلق رکھتا ہے. اس طرح سے ہم پولس کے آبائی شہر کو اور اس کی مبینہ تعلیم "جس کی تحصیل بزرگ گملیل کی نگرانی میں ہوئی" سے واقف ہوتے ہیں. یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پولس کہتا ہے "اگرچہ میں طرطوس میں پیدا ہوا اور اس شہر (یروشلم) میں پرورش پائی" یہ اس بات کا غماز ہے کہ اُس نے اپنا بچپن یروشلم میں گزارا. اس کا مطلب یہ کہ اس کے والدین طرطوس چھوڑ کر یروشلم منتقل ہو گئے تھے یا انہوں نے اپنے طور سے بچے کو یروشلم بھیج دیا تھا. اس بات کا امکان ہے کہ یروشلم منتقل ہونے سے قبل ہی مقدس پولس بالغ ہو چکے تھے اور انہوں نے اپنے والدین کو طرطوس میں ہی چھوڑ دیا تھا یہ نقطہ بھی مزید ممکنات میں شامل کیا جا سکتا ہے. یروشلم میں مقدس پولس کے تجربات کے واقعات میں یہ تذکرہ کہیں بھی حاصل نہیں ہوتا. مقدس گملیل سے تعلیم حاصل کرنے کے پولس کے مبینہ بیان کے مطابق یہ تعلیم بلوغت میں ہی حاصل کی جا سکتی تھی کیونکہ بزرگ گملیل تعلیم کی ابتدائی جماعتوں کے بجائے شرع کی اعلی تعلیم کے بڑے استاد تھے. وہ بطور طالبعلم انہی طلباء کا انتخاب کرتے تھے جو ربانیت کی تعلیم کے اہل ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی خاندانی پس منظر بھی رکھتے تھے. یہ سوال یہاں پھر سر اٹھاتا ہے کہ پولس نے کدھر اور کیسے ایسا شفاف خاندانی پس منظر حاصل کیا؟ جیسا کہ اوپر مدلل اور ٹھوس انداز میں نشاندہی ہے وہ اس بات پر غور کی دعوت دیتی ہے کہ پولس کبھی بھی گملیل کا شاگرد نہیں رہا.
اعمال کی کتاب اس باب میں ایک ضروری سوال یہ بھی ہے کہ پولس رومی شہری تھا. اس کی گواہی سب سے پہلے باب ١٦ سے دستیاب ہوتی ہے جہاں پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی پیدائش ایک رومی شہری کی حیثیت سے ہوئی جس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کا والد ایک رومی شہری تھا. اس مقام پر تبادلہ خیال کا تقاضہ کرنے والی بے شمار الجھنیں اور کچھ ایسے سوالات ہیں جو پولس کے فریسی خاندان سے تعلق رکھنے کے دعوی سے باہم ٹکراتے ہیں.
مسیحیت سے قبل پولس کی سوانح حیات کے بارے میں کچھ معلومات اعمال باب ٢٦ سے ملتی ہے جہاں پولس بادشاہ اگرپا کے سامنے ایک تقریر کرتا ہے. پولس کہتا ہے.
سب یہُودی جانتے ہیں کہ اپنی قَوم کے درمیان اور یروشلِیم میں شُرُوع جوانی سے میرا چال چلن کیَسا رہا ہے۔ چُونکہ وہ شُرُوع سے مُجھے جانتے ہیں اگر چا ہیں تو گواہ ہوسکتے ہیں کہ مَیں فرِیسی ہوکر اپنے دِین کے سب سے زیادہ پاِبنِدِ مزہب فِرقہ کی طرح زِندگی گزُارتا تھا اور اَب اُس وعدہ کی اُمِید کے سبب سے مُجھ پر مُقدّمہ ہورہا ہے جو خُدا نے ہمارے باپ دادا سے کِیا تھا. اُسی وعدہ کے پُورا ہونے کی اُمِید پر ہمارے بارہ کے بارہ قبِیلے دِل و جان سے رات دِن عِبادت کِیا کرتے ہیں۔ اِسی اُمِید کے سبب سے اَے بادشاہ! یہُودی مُجھ نالِش کرتے ہیں۔ جب کہ خُدا مُردوں کو جِلاتا ہے تویہ بات تُمہارے نزدِیک کِیُوں غَیر مُعتبر سَمَجھی جاتے ہے؟ مَیں نے بھی سَمَجھا تھاکہ یِسُوع ناصری کے نام کی طرح طرح سے مُخالفت کرنا مُجھ پر فرض ہے۔ چُنانچہ مَیں نے یروشلِیم میں اَیسا ہی کِیا اور سَردار کاہِنوں کی طرف سے اِختیّار پاکر بہُت سے مُقدّسوں کو قَید میں ڈالا اور جب وہ قتل کِئے جاتے تھے تو مَیں بھی یہی راۓ دیتا تھا۔ اور ہر عِبادت خانہ میں اُنہِیں سزا دِلا دِلا کر زبردستی اُن سے کفُر کہلواتا تھا بلکہ اُن کی مُخالفت میں اَیسا دِیوانہ بناکہ غَیر شہروں میں بھی جا کر اُنہِیں ستاتا تھا۔ اِسی حال میں سَردار کاہِنوں سے اِختیّار اور پروانے لے کر دمشق کو جاتا تھا۔
بے شک پولس کی اس تقریر کو اگرپا بادشاہ کو کئے گئے خطاب کے طور پر مستند ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ تاریخی انداز میں اعمال کتاب کے مصنف لوقا کی ترتیب کردہ فقط لفاظی ہے.پولس کے متعلق اس دعوے کی کوئی حقیقی اہمیت نہیں کہ یہودی جانتے تھے کہ پولس اعلی طرز کی فریسیانہ روش پر قائم تھا. یہ بات مزید دلچسپی کی حامل ہے کہ اس منظر نامہ میں پولس کو یہ کہتے ہوئے پیش کیا گیا ہے کہ وہ یسوع کے پیروکاروں کی مخالفت میں رائے دیا کرتا تھا. رائے دہی کا اختیار صرف کونسل کے بزرگوں یا اہم معاملات کے حل کے لئے طلب کی جانے والی سنہڈرین کو ہی حاصل تھا. لہٰذا اپنے ممدوح پولس کے متعلق لوقا کیسے یہ دعوی کر سکتا ہے کہ کسی وقت وہ بھی سنہڈرین کا ممبر تھا. اگر یہ دعوٰی سچ ہے تو پولس کے لئے باعث عار ہے کیونکہ اپنے خطوط میں اپنی حیات کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ کچھ بھی ایسا دعوی نہیں کرتا. اوپر مذکور واقعات کے ربط میں انتہائی مشکلات ہیں جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سنہڈرین اور اسکے ساتھ ساتھ سردار کاہن بھی یسوع کے متعلقین کو ایذا رسانی میں مصروف تھے. بعض مرتبہ سردار کاہن کا ذکر تن تنہا آتا ہے تو بعض اوقات سنہڈرین کے ساتھ اس طرح آتا ہے گویا کہ دونوں لازم و ملزوم ہوں، لیکن اعمال کی کتاب میں دو مواقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ فریسیوں کی وجہ سے سردار کاہن رائے دینے میں پیچھے رہ جاتا ہے اور دونوں مواقع پر فریسی یسوع کے پیروکاروں پر تشدد کے لئے کی جانے والی کوششوں کی مخالفت کررہے تھے لہذا (عہد جدید میں) سردار کاہن اور سنہڈرین کے ایک جیسے عزائم دکھاتے ہوئے انہیں پیش کرنا ان سب وقائع کے اندر مشکوک ترین پہلو ہے.
اعمال کی کتاب میں مندرج پولس کے خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی کے متعلق درج بالا اقتباس کے مجموعے اور اسکے ساتھ ساتھ پولس کے وہ حوالہ جات جو اس کے خاندان کے پس منظر سے متعلقہ ہیں، پولس کے متعلق ایسا مضبوط تصور قائم کرتے ہیں جیسے وہ ایک تربیت یافتہ یہودی ربی تھا اور ان تمام ربائی تفاسیر کی پیچیدگیوں سے واقف تھا جو صحف اور قانونی روایات سے متعلق تھیں (اس کے بعد ربائی تالیفات مدراش اور تلمود جمع کی گئیں) اور بطور فریسی پولس اس نو مولود فرقے کا سخت معاند تھا جو خود کو یسوع کا پیروکار کہتے اور اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ وہ صلیب پر موت کے بعد اپنی قبر سے جی اُٹھا تھا. پولس اس فرقے کا مخالف تھا اور ان لوگوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں میں حصہ لیتا تھا اور ان لوگوں کو جیل میں گھسیٹتا تھا. اگرچہ عہد جدید سے یہ ٹھوس تاثر ابھرتا ہے مگر مبہم رکھے گئے کچھ شبہات یہاں بھی موجود ہیں. مثال کے طور پر پولس یہ دعوی کرتا ہے کہ مسیحیت قبول کرنے سے قبل سنہڈرین میں وہ مسیحیوں کے خلاف اپنی رائے دیا کرتا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پطرس کے مقدمہ کے وضاحتی بیان میں (اعمال باب 5) فریسی گملیل کی قیادت میں پطرس کی رہائی کے لئے رائے دیتے نظر آتے ہیں. پولس کس قسم کا فریسی تھا؟ اعمال کی کتاب کی گواہی کے مطابق اگر پولس ابتدائی کلیسیاء کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتا تھا تو یہ فریسیوں کا طریقہ ہرگز نہ تھا. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اعمال کی کتاب خود اپنے اندر ہی اختلاف رکھتی ہو؟ ایک طرف اعمال کی کتاب پولس کو فریسی ازم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے متشدد اور مخالف مسیح کے طور پر پیش کرتی ہے تو دوسری طرف یہی کتاب فریسیوں کو ابتدائی مسیحیوں کا دوست ہونے کی حیثیت سے اس حد تک بیان کرتی ہے کہ فریسی مسیحیوں کی حفاظت اور زندگیاں بچانے کے لئے ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں.
بہت سے علماء یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ اعمال کی کتاب مجموعی اعتبار سے حیران کن شواہد کے حساب پر مشتمل ہے جو کہ فریسیوں کے لئے سازگار ہیں اور انہیں روادار اور مہربان ظاہر کرتے ہیں. بعض علماء یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ اعمال کی کتاب کی گواہیاں فریسیوں کے حق میں جاتی ہے مگر یہ رائے مشکل ہی سے برقرار رکھی جا سکتی ہے. ان تمام شواہد سے کہیں زیادہ سازگار فریسیوں کے لئے وہ مواد ہے جو پولس سے متعلق ہے، پولس زمانہ فریسیت میں خود کو کلیسیاء کے ایذا رساں کے طور پر پیش کرتا ہے اور اسکے ساتھ یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ وہ خود بھی پانچ مرتبہ یہودیوں کے ہاتھوں کوڑوں سے پیٹا گیا. (2-کرنتھیوں 11:24) (یہاں اکثر یہودی سے مراد فریسی ہی لیا جاتا ہے). لہٰذا کوئی بھی اعمال کا ایسا قاری نہیں جو اس کے مطالعہ کے بعد فریسیوں کے لئے اچھا تاثر رکھتا ہو بلکہ متشدد اناجیل کی وجہ سے منفی رائے ہی اخذ کرتا ہے.
پولس ہمیشہ سے ہی اس تعلق پر زور دیتا رہا کہ وہ فریسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے. اگرچہ اس دعوی کی وجوہات کے محرکات کثیر ہیں مگر یہاں زیر بحث ایک ہی ہے وہ یہ کہ پولس کی خواہش تھی کہ پولوسی مسیحیت اور یہودیت کے درمیان مبینہ تسلسل برقرار رہے. پولس یہ کہنا چاہتا تھا کہ (جب وہ فریسی تھا) وہ غلطی سے ابتدائی مسیحیوں کو بطور بدعتی سمجھتا تھا جو مسیحیت قبول کرکے یہودیت سے جدا ہو گئے تھے. اس کا خیال تھا کہ مسیحیت ہی اصل یہودیت ہے. اپنی فریسیانہ تعلیم و تربیت کو بنیاد بنانے کا مقصد یہ تھا کہ "اُس کی ساری تعلیم" اسے یسوع کو بطور المسیح قبول کرنے کی طرف لاتی ہے جس کی پیشگوئی عہد قدیم میں کی گئی تھی. لہذا جب پولس اپنے فریسی ہونے کا اقرار کرتا ہے تو یہ فقط اس کا، جرائم قبول کرنے کا اعلان نہیں بلکہ وہ اپنی سند کا بھی اعلان کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اتنا ہی جانتا ہو جتنا میں یقین کر سکوں کہ یسوع ہی تورات کی تکمیل تھا تو کون اس کے دعوے سے عدم اتفاق کی جرات کر سکتا ہے؟
یسوع کے متعلق پولس کے نظریات یہودیت سے جراتمندانہ علیحدگی کا نام ہے. پولس ان نظریات کی وکالت کررہا تھا جو یہودیت کی نسبت مشرکانہ افسانوں سے زیادہ مماثل تھے جیسا کہ یسوع ایک الوہی ذات رکھنے والی ہستی تھی جو آسمان سے زمین پر اترا اور انسانیت کی نجات کے عظیم مقصد کے لئے صلیبی موت کو قبول کیا. یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں نے اس کے نظریات کو حیران کن پایا جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سارے معاملے میں یہودی صحائف مقدسہ کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی (پولوسی نظریات) کسی بھی طرح سے یہودیوں کے لئے قابل تفہیم رہے. پولس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اس کے نظریات نئے ہیں بلکہ اس کے برخلاف وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس کی تفہیم کے مطابق یہودی صحائف کی ہر ہر سطر یسوع کی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور جن لوگوں نے اس سوچ سے ہٹ کر صحائف کو کسی اور رخ سے سمجھا وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہو گئے.
وہ لوگ جنہوں نے پولس کے نظریات کو قبول کیا اور اسے ایک مجدد کے طور پر تسلیم کیا کہ یہودی صحف میں ایسا اشارہ نہیں، انہی میں سے ایک شخص مارقیون بھی تھا جو پولس کے سو سال بعد آیا اور اس کو بطور ملہم اعلی تسلیم کیا تھا. اس کے ساتھ ساتھ مارقیون نے پولوسی نظریات میں کوئی بھی یہودی عنصر دیکھنے کا انکار کیا اور اسے ایک نئے مکاشفہ کا طور پر قبول کیا. وہ یہودی صحف کو شیطان کا کام قرار دیتا تھا اور عہد عتیق کو اپنی مرتب کردہ بائبل سے خارج رکھتا تھا.
پولس خود اس نظریہ کا مخالف تھا اگرچہ وہ نبی عہد عتیق کو یسوع کی آمد کے بعد فرسودہ قرار دیتا تھا مگر اسے کلام خدا اور نئی کلیسیاء کی نبوتی تعلیم کے طور پر قبول کرتے ہوئے مستند قرار دیتا تھا. لہذا بطور فریسی پولس کی خود کی تصویر نئی اور پرانی تقسیم کے درمیان تسلسل کی ایسی علامت ہے جو اس (پولس) کی ذات کو ایسا اہم موڑ قرار دیتی ہے جس پر آکر یہودیت مسیحیت میں تبدیل ہو جاتی ہے.
ابتدائی صدیوں سے ہی مسیحی علماء اس پس منظر کی روشنی میں پولس کے فریسی ہونے کا دعوٰی کررہے تھے. قرون وسطی میں یہودیوں کو مسیحیت میں داخل کرنے کے لئے منعقد ہونے والے مناظروں میں اس دعوی کو ظاہر کرنے کے لئے دلائل پیش کیے جاتے تھے کہ نہ صرف یہودی صحائف بلکہ ربائی تحاریر، تلمود اور مدراش مسیحیت کے اس دعوے کو قائم رکھتی ہیں کہ یسوع ہی موعود مسیح تھا اور ایسا الوہی حیثیت کا حامل تھا جس نے انسانیت کی خاطر موت کو گلے لگا لیا. جدید زمانہ میں علماء نے یہ دلیل دینے پر بہت محنت کی ہے کہ مسیح اور الہی آزمائش جیسے پولوسی عقائد یہودیت کا ہی تسلسل ہیں جیسا کہ بائبل، اپاکریفا اور غیر مستند تصانیف اور ربائی تحاریر سے بھی ظاہر ہے. لہذا پولس کا فریسیت میں مہارت حاصل کرنے کا دعوی انتہائی اہم اور مرکزی ہے خواہ پولس کی تشکیل شدہ مسیحیت واقعی یہودیت کے ساتھ اتصال بر قرار رکھے ہوئے ہے یا خواہ یہ نظریہ جدید ہو جس کی یہودیت میں کوئی نظیر نہیں. حاصل کلام تو یہی ہے کہ آسمان سے نیچے اترنے والے نجات دھندہ کے یونانی افسانے اور خدا کے مرنے اور جی اٹھنے کی مشرکانہ روایات فقط ایک تاریخی پس منظر کے طور پر ہیں کیا پولس صحیح معنوں میں یہودیوں روایات کو قائم رکھے ہوئے تھا یا پھر یہ بنیادی طور پر ایسا یونانی مذہبی انسان تھا جو ایسے گروہ کو یہودیت کا رنگ دینے کی کوشش میں تھا جو اُس عقیدہ نجات کے قائل تھے جو ہر اس چیز کے خلاف تھا جس پر یہودیت قائم تھی.
Join us on Facebook so click here