Pages

Most Popular

منگل، 28 مارچ، 2023

واقعہ صلیب کا تاریخی پس منظر







واقعہ صلیب کا تاریخی پس منظر

تحریر: ڈاکٹر عبداللہ غازی(استاذجامعۃ الرشیدکراچی)

حیات یسوعؑ اور تصلیب

یسوع کی مبینہ مصلوبیت پہلی صدی عیسوی کی یہودی و مسیحی تاریخ کاامرحصہ ہے۔اسی لئے مؤرخین اسے کوئی انوکھا واقعہ نہیں سمجھتے اور اناجیل کا مطالعہ کرتے ہوئے انجیلی وقائع کو ان کی تاریخیت، تہذیب، مذہبی اور قانونی پس منظر میں دیکھتے ہیں ۔ چنانچہ یسوع کی بابت حقیقی معلومات  اور واقعہ تصلیب کی درست تفہیم کے ادراک کے لئے ان سب عناصر کا ملحوظ خاطر رکھنا ناگزیر ہے۔

یسوع ؑ مسیح کی زندگی کی شروعات (۵/۶ق م)ہیرو دیس اعظم (۳۷-۴ق م)کی زندگی کے آخری ایام سے ہوئی اور اس کا اختتام رومی گورنر پنتس پیلاطوس(۲۶-۳۶ء) میں ہوا۔ یسوع ؑ کی ولادت باسعادت کے وقت ارض فلسطین کا خطہ رومی حکومت کا ایک باجگزار علاقہ تھا جہاں ادومی النسل حکمران ہیرودیس اعظم کی حکومت تھی۔ ہیرودیس اعظم کی موت کے بعد رومی شہنشاہ قیصر اگستس نے اس خطے کو ہیرودیس کے تینوں بیٹوں کے درمیان تقسیم کر دیا چنانچہ ارخلاؤس (۴ق م-۶ء)کو یہودیہ، ادومیہ اور سامریہ کا علاقہ ملا،اینٹی پاس (۴ق م-۳۹ء)کو گلیل جبکہ فلپس (۴ق م-۳۴ء)کو گلیل کا شمالی اور مشرقی علاقہ ملا۔  ہیرودیس کے ان تینوں بیٹوں میں سے کوئی بھی شاہی لقب نہیں رکھتا تھا۔

قیصر اگستس نے ارخلاؤس کو ۶ عیسوی میں برطرف کر دیا ۔اس کی برطرفی کے بعد یہودیہ کا علاقہ براہ راست رومی عمل داری میں آگیا اور قیصر روم نے  وہاں اپنا گورنر(prefect) مقرر کر کے اس علاقے پر نئے ٹیکس لاگو کر دیئے۔ نفاذ ِ محصول کا نتیجہ ایک خونریز بغاوت کی صورت میں ظاہر ہوا جس کی قیادت یہودی حریت پسند ربائی یہوداہ گلیلی کر رہا تھا۔ یہ ناکام بغاوت سیریا کے گورنر کورینس کے عہد میں ظاہر ہوئی اور طویل عرصے تک جاری رہی۔ یہودیہ کے رومی عمل داری میں آجانے کے بعد رومی گورنروں کے اتنے وسیع اختیارات مل گئے کہ وہ براہ راست ہیکل کے داخلی و خارجی امور میں مداخلت کرنے لگے جو یہودیت کا بنیادی مرکز تھا۔ اس دور میں ہیکل کے سردار کاہن کا عہدہ سیاسی بن چکا تھا اور سردار کاہنوں کی تقرر رومی گورنروں کی جانب سے کیا جانے لگا تھا۔ رومی گورنر کو اختیار حاصل تھا کہ وہ جب چاہے اور جسے چاہے سردار کاہن کے عہدے سے معزول کر دے چنانچہ پہلی صدی عیسوی کے دوران بے شمار سردار کاہن بنے جنہوں نے نہایت قلیل مدت تک اپنے فرائض سرانجام دیئے اور پھر معزول کر دیئے گئے۔ ان سردار کاہنوں میں حناہ(۶-۱۵ء) اور کائفا(۱۸-۳۶ ء) کو استثنا حاصل ہے جو ایک طویل عرصے تک کہانت عظمی کے عہدے پر براجمان رہے۔ اناجیل کے مطابق  مقدمہ یسوع میں انہی دونوں کا کلیدی کردار تھا۔سردار کاہن کے علاوہ یہودی سنہڈرین بھی رومیوں کے ماتحت تھی جو یہودیوں کی شرعی عدالت اور مجلس شوری تھی۔

یسوعؑ مسیح کی عملی زندی کی شروعات اس وقت ہوئی جب حضرت یوحناؑ اصطباغی کو گرفتار کر لیا گیا۔ جناب یسوعؑ نےبنی اسرائیل کو  خدا کی بادشاہت کی آمد کی نوید سنائی اور توبہ کی منادی کی۔ انجیل یوحنا کے مطابق حضرت یوحنا ؑاصطباغی نے اپنا مشن ۱۴ عیسوی میں شہنشاہ بننے والے قیصر طبریاس کی حکومت کے پندرہویں برس شروع کیا جو۲۹ عیسوی بنتا ہے۔ اپنی منادی کے آغاز کے مختصر  عرصے بعد ہی حضرت یوحنا اصطباغی کو گرفتار کرکے شہید کردیا گیا۔ اگر یہ متصور کر لیا جائے کہ حضرت یوحناؑ نے ۲۹ء کے آغاز میں ہی منادی کی شروعات کی اور کم و بیش چھ ماہ بعد گرفتار کر لئے گئے تو اس لحاظ سے یسوع ؑ کی منادی کے آغاز کا سال بھی ۲۹ء ہی بنتا ہے۔

انجیل یوحنا کا مصنف یسوع کے منظرعام پر آنے کے بعد  دو یا تین عید فصح کا ذکر کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یسوع ؑکی منادی کا دورانیہ کم و بیش تین ساڑھے تین سال رہا ہے۔دوسری طرف انجیل یوحنا کے برعکس اناجیل متوافقہ میں صرف ایک ہی فصح کا ذکر ملتاہے جس کے لئے یسوعؑ یروشلم تشریف لے گئے اور وہ فصح ان کی منادی کے بعد  ان کی زمینی حیات کی  آخری فصح ثابت ہوئی۔اس سوال کا جواب کچھ مشکل نہیں کہ انجیل یوحناکے مصنف نے یسوع کی زندگی کے دستیاب ریکارڈ کو تین سال تک طویل کیوں کر دیا ۔ انجیل یوحنا کا مواد ہی اس سوال کو سہل کر دیتا ہے جہاں یسوع کے متعدد طویل ترین خطبات مذکور ہیں۔ اناجیل متوافقہ کے مصنفین نے یہ سب افعال و اقوال یسوع کی حیات کے چھ ماہ میں منحصر رکھے ہیں مگر یوحنا نے انہیں تین سال تک پھیلا دیا۔

عید فصح منانے کے لئے یسوع ۳۰ء میں عازم یروشلم ہوئے۔ اس سے قبل وہ گلیل میں پوری طرح سرگرم تھے اور گلیل کے اطراف و اکناف کے شہروں کا بھی دورہ کر چکے تھے۔دوسرے زائرین یروشلم کی طرح انہوں نے سامریہ کے علاقے سے گزرنے سے اجتناب کیا جہاں کے باسیوں کے یہودیوں کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات تھے ۔ انہوں نے سامریہ سے گزرنے کے بجائے  وادی اردن کے جنوبی کنارے سے سفر کرتے ہوئے یریحو سے گزر کر یروشلم جانا پسند کیا۔

اناجیل یسوع کی مبینہ صلیبی موت کے حالات پر اختلاف ِ شدید رکھتی ہیں مگر اس امر پر چاروں باہم متفق ہیں کہ  یسوع کی مبینہ صلیبی موت دو تفصیلی قانونی مرحلوں کے آخر میں ہوئی۔ پہلی صدی عیسوی کے فلسطین میں دو طرح کی عدالتیں متحرک تھیں۔ ان میں پہلی عدالت ہیرودیئن حکومت یا رومی حکومت کی تھی جبکہ دوسری عدالت 'سنہڈرین؛یہودیوں  کے ان شرعی مسائل کے حل کے لئے تھی جو شریعت موسوی کے ذیل میں آتے تھے۔ یہودیہ کے رومی حکومت کے ماتحت آجانے کے بعد سیاسی معاملات کی نگہبانی رومی گورنروں کو تفویض کردی گئی کہ وہ رومی حکومت کےخلاف اٹھنے والی ہر آواز کو اپنی طاقت اور اختیار استعمال کرتے ہوئے فی الفور دبا دے۔ چنانچہ ۶ تا۴۱ ء تک رومی گورنر پرفیکٹ جبکہ ۴۴ تا ۶۶ء تک پروکیوریٹر کے منصب و اختیار کے ساتھ حکومت کرتے رہے۔ اناجیل میں یسوع کے جن دو مقدموں کا ذکر ہے ان میں سے پہلا یہودی مذہبی عدالت جبکہ دوسرا مقدمہ رومی عدالت میں رومی قانون کے تحت چلایا گیا۔

 

مکمل تحریر >>