مقدس پولس کی اُم المسلمین سیدہ ہاجرہ پر بہتان
تراشی
تحریر:محمداصغر
تعلق
کتنا گہرا، ربط کتنا خوبصورت ہے
لبوں
پر مسکراہٹ اور سینوں میں کدورت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدہ
حاجرہ سلام اللہ علیہا سے تعلق و ربط چاہے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو مگر صلیبیوں کے
کدورت بھرے سینے کبھی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے ۔
صلیبیوں
کے چہیتے پولس رسول نے گلتیوں کے نام خط میں سیدہ حاجرہ سلام اللہ علیہا اور سیدہ
سارہ سلام اللہ علیہا کی مثال بیان کی ہے جس میں سچ کے ساتھ ساتھ جھوٹ کی آمیزش
بھی کارفرما ہے کیونکہ جھوٹ سے جلال بلند کرنا تو پولس کی تعلیم کا بنیادی جز ہےحالانکہ
پولس خود اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے کہ ان باتوں میں تمثیل پائی جاتی ہے اور یہ
بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہ عورتیں گویا دو عہد ہیں۔)گلتیوں 4:24(لیکن اس کے باوجود جھوٹ سے معمور ہو
کر کچھ یوں بیان کر جاتا ہے کہ لونڈی کا بیٹا جسمانی طور پر اور آزاد کا بیٹا عہد
کے سبب سے پیدا ہوا۔)گلتیوں 4:23(یعنی جھوٹ سے جلال کچھ اس طرح بلند کہ
دو عہد کو صرف ایک عہد میں بند ۔
اب آگے
چل کر پولس مزید آدھے سچ کے ساتھ آدھے جھوٹ کا پیوند کچھ اس طرح لگانے کی کوشش
کرتا ہے کہ تاریخ کو دھندلا سے مگر سب بےسودلکھا ہے ایک کوہ سینا پر کا ہے جس سے
غلام ہی پیدا ہوتے ہیں اور وہ حاجرہ ہے ۔)گلتیوں 4:24(
یہ بات
تو برحق ہے کہ سینا پر سے نسل در نسل غلام ہی پیدا ہوئے ۔پہلے
مصریوں کے غلام پھر اسوریوں کے بعد میں بابلی فارسی اور یونانیوں کا طوق ان کے گلے
میں پڑا جس کے بعد چار صدیوں تک رومیوں نے ان پر حکمرانی کی ،اسی لیے پولس نے اپنی
اس ہزیمت کو مٹانے کی ناکام کوشش میں جھوٹ کا ٹانکا لگا کر لکھ دیا کہ (وہ حاجرہ
ہے)حالانکہ یہ بات تاریخ عالم میں روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بنی اسمعیل نے کبھی
بھی اپنے اوپر کسی دوسری قوم کے تسلط کو قبول نہیں کیااور پھر سیدہ حاجرہ سلام
اللہ علیہا "سینا" کی نہیں "بیر سبع" کی رہنے والی تھیں۔(پیدائش
21:14)اور پولس چونکہ یہودی تھا اس لیے وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بنی اسرائیل کے
چار قبائل کے جدامجد (دان،نفتالی،جد،آشر)
لونڈیوں
(زلفہ،بلہا) کی نسل سے تھے جبکہ لیاہ اور راخل تو خود اپنے لونڈی ہونے کا اقرار
کرتی ہیں کیونکہ وہ خریدی گئیں تھیں۔(پیدائش 31:15)اور خریدے ہوئے عہد عتیق کے مطابق
غلام کہلائے جاتے ہیں۔(احبار 25:44)تو ثابت ہوا بنی اسرائیل کے تمام قبائل لونڈیوں
کی نسل سے تھے اور غلاموں کی اولاد بھی غلام ہی رہتی ہے(خروج 21:4)تبھی تو بنی
اسرائیل نسل در نسل غلامی میں رہے جبکہ اس کے برعکس سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے
متعلق خدا نے پہلے ہی سے مہر ثبت کر دی تھی کہ وہ گورخر آزاد مرد کی طرح ہو گا۔(پیدائش
16:12)
یہاں
ایک اور مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ اگر سیدہ حاجرہ سلام اللہ علیہا حقیقتا لونڈی
ہوتیں تو ان کے بیٹے سیدنا اسمعیل علیہ السلام (خروج21:4) کے مطابق غلام ہی پیدا
ہوتے جبکہ وہ تو آزاد مرد پیدا ہوئے تو ثابت ہوا سیدہ حاجرہ علیہ السلام بھی آزاد
خاتون تھی اور پولس اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا جبھی تو گلتیوں باب 14 میں جھوٹ پر
جھوٹ کے پیوند لگانے کے باوجود پولس کو تسلی نہ ہوئی اور آخر کار اس حقیقت کو
تسلیم کرنا ہی پڑاکہ موجودہ یروشلم اپنے لڑکوں سمیت غلامی میں ہے۔(گلتیوں 4:25)اور
اپنے اسی احساس کمتری کو مٹانے کے لیے پولس کو مزید اضافہ کر کے لکھنا پڑا کہ عالم
بالا کی یروشلم آزاد ہے۔(گلتیوں 4:26)
لیجئیے
جناب نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری
اب کون
عالم بالا پر جا کر دیکھے کہ عالم بالا کی یروشلم کیسی ہے؟