Pages

Most Popular

پیر، 25 مئی، 2020

یسوعؑ، گلیل اور یہودی حریت پسند (زیلوٹ/زیلوتس)


یسوعؑ مسیح،گلیل اور زیلوٹ
تحقیق و تحریر: عبداللہ غازیؔ       
عہدنامہ جدید میں گلیل کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ بہت سے انجیلی واقعات کا تعلق گلیل سے ہے اور یسوع مسیحؑ نے نہ صرف گلیل بلکہ اس کے اردگرد بھی منادی کی۔ گلیل کے علاقے میں یہودی غالب تعداد میں نہ تھے بلکہ یہاں غیراقوام بھی آباد  تھیں۔ گلیل کی نسبت یہودیہ کا علاقہ یہودی اکثریت کا علاقہ تھا مگر حیرت انگیز طور پر یسوع جب اپنی منادی شروع کرتے ہیں تو وہ یہودیہ کے بجائے گلیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ سب سے پہلے لکھی جانے والی انجیل مرقس کے مطابق یسوع نے اپنی منادی کا آغاز گلیل سے کیا تھا [1]اور اسی علاقے سے انہوں نے اپنے ابتدائی شاگردوں کا انتخاب کیا۔  یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یسوع کا مطمع نظر غیراقوام میں بھی منادی تھا اسی لیے انہوں نے گلیل جیسے علاقے سے منادی شروع کی جہاں بڑی تعداد میں غیر یہودی آباد تھے۔ ایسا سوچنا اس لیے بھی محال ہے کہ یسوع مسیحؑ کی زندگی کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق  وہ ہمیشہ غیر یہودیوں سے دور ہی رہے۔ایک موقع پر جب ایک غیریہودی عورت نے آکر ان سے کچھ سوال کیا تو بھی انہوں نے اس کی طرف التفات نہیں فرمایا بلکہ اسے یوں جواب دیا کہ لڑکوں کی روٹی کتوں کو دینا جائز نہیں۔[2]
گلیل سے منادی شروع کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ گلیل کا علاقہ یہودی قوم پرستوں کا مرکز تھا جو رومی حکومت کے مخالف تھے۔ یہ گلیل ہی تھا جہاں سے  رومیوں کے خلاف اس وقت شورش برپا کی گئی جب انہوں نے یہودیوں پر ٹیکس لگانے کے لیے مردم شماری کا انعقاد کرانے کا فیصلہ کیا۔یہیں سے یہوداہ گلیلی کو بھی شہرت ملی اور اس کی اٹھائی گئی آواز آگے چل کر ایک بڑی تحریک 'زیلوٹ'بن گئی۔حیرت انگیز طور پر انجیل نویسوں نے اس قدر اہم معاملات کو قلم بند نہیں کیا حالانکہ یہوداہ گلیلی کا فساد ۶ء میں عین اس وقت برپا ہوا تھا جب کورینس کے دور میں یسوع مسیح کی پیدائش ہوئی تھی [3]البتہ اعمال کی کتاب میں یہوداہ گلیلی کا خفیف سا ذکر موجود  ہے۔[4] انجیل میں موجود یسوع مسیحؑ کے بارہ شاگردوں میں سے ایک 'شمعون غیور" کا تعلق بھی اسی یہوداہ گلیلی کی تحریک زیلوٹ سے تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت شمعون کے نام کے ساتھ اس جماعت کا نام"غیور" ملحق ہونا ہے۔یہ بات گزر چکی ہے کہ خداوند کی شریعت کے لیے غیرت رکھنے کی وجہ سے انہیں یہ نام 'زیلوٹ' دیا گیا تھا۔یسوع ؑ کی جماعت میں شمعون جیسے غیور  اور یہوداہ اسکریوتی جیسے خنجربردار کی موجودگی بہت سی اندرونی کہانیاں سامنے لے آتی ہے۔اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ یسوع کے دیگر شاگردوں میں بھی غیور موجود ہوں لیکن اس بارے میں حتمی طور سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
گلیل یروشلم سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھا اور گلیل اور یروشلم کے درمیان صرف سامریہ کا علاقہ تھا اس لیے یہودی قوم پرست –زیلوٹ-بآسانی یہاں آکر چھپ جاتے تھے اور وسیع وعریض علاقہ ہونے کے سبب بہت سی خفیہ جگہیں ان کے چھپنے کےلیے کارساز ہوتیں۔ اس کےعلاوہ ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ ان حریت پسند کو یہاں رہ کر یروشلم رابطہ رکھنے میں بھی آسانی رہتی تھی۔ پہلی صدی عیسوی میں گلیل کا علاقہ براہ راست سلطنت روم کی ماتحتی میں نہ تھا بلکہ یہاں ہیرودیوں کی حکومت تھی جو رومیوں کے وفادار تھے اور قابض افواج کی مدد سے گلیل پر حکومت کر رہے تھے۔ رومیوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے باعث یہودی قوم پرستوں کی نظر میں ہیرودین غدار تھے اسی لیے وہ ان کے سخت مخالف تھے ۔[5] ان سب حقائق کے باوجود گلیل کے پہاڑی اور دیہی علاقے میں حریت پسندوں اور زیلوٹ کا روپوشی اختیار کرنا  بہت آسان تھا۔یہ حریت پسند اور زیلوٹ گلیل کے باہر سے نہیں آئے تھے بلکہ ان کا تعلق گلیل سے ہی تھا۔ گلیل کے لوگ نہایت سنگ دل اورلڑاکا قسم کے ہوا کرتے تھے۔ جوزیفس کے مطابق یہ لوگ آغوش مادر سے ہی جنگجو طبیعت واقع ہوتے ہیں۔ [6]
اسی طرح  انجیل نویسوں نے گلیل کے بڑے شہروں کے متعلق بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی [7]یسوع مسیح ؑ کا تعلق گلیل کے قصبے ناصرۃ سے تھا ۔ناصرۃ سے چند میل کے فاصلے پر واقع سفورس شہر کے بارے میں انجیل نویسوں نے معمولی سا تذکرہ بھی نہیں کیا حالانکہ سفورس کا علاقہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ جوزیفس نے اسے 'گلیل کا زیور'  کہا ہے ۔[8]اس علاقے میں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد آباد تھی لہذا اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ یسوع مسیحؑ نے اس علاقے کو اپنی منادی میں شامل نہ کیا ہوگا۔ انجیل نویسوں کا اس علاقے کو نظر انداز کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ  یہ علاقہ بھی حریت پسندوں اور باغیوں کی آماجگاہ  تھا۔ ہیرودیس اعظم کی موت کے بعد سب سے بڑا فساد یہیں ہوا تھا جس میں زیلوٹ نے بڑی تعداد میں غدار یہودیوں کو قتل کیا تھا جو رومیوں سے مل گئے تھے۔رومیوں کی طرف سے جوابی کاروائی میں سینکڑوں زیلوٹ مارے گئے اور دو ہزار سے زائد لوگ گرفتار ہوئے جنہیں مصلوب کر دیا گیا۔جس طرح انجیل نویسوں نے یہوداہ گلیلی کے فساد کو نظر انداز کیا،اسی طرح سفورس جیسے اہم ترین شہر کو بھی عمداً فراموش کر دیا  تاکہ یسوع کی تحریک کو زیادہ سے زیادہ پر امن دکھایا جا سکے حالانکہ یسوع مسیحؑ اور ان کے حواریوں سے زیادہ شریعت کے لیے کون غیرت مند ہو سکتا تھا؟ مگر اس کے باوجود انجیل نویسوں نے انہیں اِس طرح سے پیش کیا ہے کہ انہوں نے مشرک اور بت پرست رومیوں کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی بلکہ لوگوں کو رومی غلامی کا درس دیا۔ انجیل نویسوں کی پیش کردہ یہ تصویر سراسر یسوع مسیحؑ جیسے جلیل القدر نبی کی شایانِ شان کے خلاف ہے۔
          لوقا۱۳ :۱کے مطابق پیلاطوس نے بہت سے گلیلیوں کو قتل کیا تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ پیلاطوس کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے یہ گلیلی زیلوٹ جماعت سے تعلق رکھنے والے یہودی باغی تھے جنہوں نے حکومت کے خلاف فساد مچا رکھا تھاوگرنہ پیلاطوس کے پاس ان کو قتل کرنے کی دوسری وجہ نہ تھی۔[9]اسی قتل عام کی وجہ سے ہیرویس اور پیلاطوس میں شدید عداوت پیدا ہو گئی تھی کیونکہ گلیل کا علاقہ پیلاطوس کی عمل دار ی میں نہیں بلکہ ہیرودیس کے زیراختیار تھا [10]اور پیلاطوس کا اس علاقے کے لوگوں کو قتل کرنا رومی قانون کے حساب سے بھی درست نہ تھا۔دونوں کے درمیان عداوت کا اختتام یسوع کے مقدمہ کے وقت ہوا۔جیساکہ لوقا نے لکھا ہے
"اور اسی دن ہیرودیس اور پیلاطوس آپس میں دوست ہوگئے کیونکہ پہلے ان میں دشمنی تھی۔"[11]
یوحنا۱۰ :۱ میں یسوع ایک چرواہے کی تمثیل پیش کرتے ہیں۔ یہ تمثیل دراصل  جھوٹے نبیوں اور مدعیان المسیح کے خلاف ہے جوکہ اس وقت لوگوں کے رہنما بن کر ابھر رہے تھے۔ انہی لوگوں کو اُس وقت کی اصطلاح میں ڈاکو کہا جاتا تھا۔ا س لحاظ سے  زیلوٹ تحریک اور اس کے قائدین بھی اس فہرست میں شامل ہیں کیونکہ انہی لوگوں میں سے بہت سے لوگوں نے جھوٹی نبی اور المسیح ہونے کا دعوی کیا تھا جس کے بارے میں ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔
انجیل مرقس کا مصنف لکھتا ہے کہ "یسوع نے ان سے کہا کیا تم تلواریں اور لاٹھیاں لے کر مجھے ڈاکو کی طرح پکڑنے نکلے ہو؟میں ہر زور تمہارے پاس ہیکل میں تعلیم دیتا تھا اور تم نے مجھے نہیں پکڑا۔"[12]یسوع کے اس کلام میں بھی ڈاکو کا لفظ موجود ہے جو اصطلاحی طور پر زیلوٹ یا دیگر باغیوں کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ زیلوٹ کی خفیہ تحریک کے ارکان کے برعکس یسوع نے ہمیشہ عوام الناس میں منادی کی۔ یسوع مسیح نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے اوپر لگایا گیا یہ الزام مسترد کر دیا کہ "ہم نے اسے قیصر کو خزاج دینے سے منع کرتے ہوئے پایا"۔[13]جب یہ الزام مسترد ہوگیا تو ان کے معاندین نے انہیں مدعیِ المسیح ہونے کے الزام میں پیلاطوس سے سزا دلوائی کیونکہ المسیح کا دعویٰ کرناہی رومی حکومت کے خلاف اعلان بغاوت تھا۔چنانچہ بغاوت کے جرم میں سزا پانے کے بعد  مبینہ طور پر دو ڈاکوؤں(زیلوٹ) کے ہمراہ صلیب پرلٹکایا گیا ۔اناجیل کے مطابق یسوع مسیحؑ کو ایسی موت دینے کی کوشش کی گئی جو اس سے قبل یہودی باغیوں کو دی جاتی تھی اور بعد میں بھی دی جاتی رہی یعنی صلیبی موت۔[14]انجیل مرقس سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع ؑمسیح کا مقدمہ بھی ایک زیلوٹ کے ساتھ ہی سنا گیا تھا۔
"اور برابا نامی ایک آدمی ان باغیوں کے ساتھ قید میں پڑا تھا جنہوں نے بغاوت میں خون کیا تھا۔[15]
          اس  انجیلی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران یروشلم کے اردگرد کوئی بغاوت ہوئی تھی جس کی قیادت برابا نامی باغی کررہا تھا۔اس بغاوت میں کچھ لوگ قتل بھی ہوئے مگر کچھ ہی عرصہ میں رومیوں نے باغیوں پر قابو پا لیا اور انہیں ان کے سربراہ سمیت گرفتار کر لیا۔ برابا نامی باغی یہودیہ کے باسیوں کے لیے ہرگز غیرمعروف نہ تھا اور نہ ہی یہ کوئی معمولی قاتل تھا۔برابا یہودی تحریک آزادی  کا سرگرم رکن اور رہنما تھا اسی لیے لوگوں کو اس سے دلی ہمدردیاں بھی تھیں۔ انجیل یوحنا کے مصنف نےورس ۱۸ :۴ پر برابا کے لیے جو یونانی لفظ استعمال کیا ہے وہ وہی ہے جو جوزیفس نے اپنی تحاریر میں زیلوٹ کے لیے لکھا ہے۔[16]اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ برابا زیلوٹ کے  ایک گروہ کا سربراہ تھاجو بغاوت ناکام ہونے کی صورت میں گرفتار ہو گیا تھا۔
          ان تمام انجیلی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہوگاکہ یسوع کی تحریک بھی ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد داؤد کے تخت کی بحالی تھا کیونکہ مقدسہ مریم ؑ کے پاس آنے والے فرشتے نے بھی ان کویہی بشارت دی تھی کہ یہ بچہ اپنے باپ داؤد کا تخت بحال کرے گا۔پس اسی وجہ سے یسوع کا ان غیوروں یا زیلوٹ سے ایک خاص تعلق رہا۔اگرچہ انجیل نویسوں نے پوری کوشش کے ساتھ ان تمام معاملات کو دبانے کی کوشش کی ہے جو یسوع اور زیلوٹ کے مابین درپیش رہے ہوں گے مگر اس کے باوجود اناجیل سے واضح اشارے ملتے ہیں کہ زیلوٹ کا یسوع کے ساتھ قریبی تعلق رہا  تھا۔اس کا سب سے بڑا ثبوت شمعون غیور تھا جو یسوع ؑ مسیح کے بارہ شاگردوں میں شامل تھا۔شمعون کے علاوہ بھی یہ بات عقل و شعور کے تقاضوں کے خلاف ہے کہ گلیل کے علاقے میں چلنے والی یسوع کی تحریک کا اسی علاقے سے اٹھنے والی زیلوٹ تحریک سے کوئی تعلق نہیں رہا ہو باوجودیکہ یسوع کی تحریک میں زیلوٹ کے شمعون جیسے سرگرم غیور موجودتھے۔



[1] مرقس باب اول
[2] متی۱۵ :۲۶
[3] کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت ، ص ۱۸۵۳.
[4] اعمال۵:۳۷ کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت ص ۱۹۹۶.
[5] Jean Danielou, A History of Early Christian Doctrine before the Council of Niacaea, p 71.
[6] Lynn Picknett & Clive Prince, The Masks of Christ, Behind the Lies and Cover-Ups about the Life of Jesus, p 154.
[7] حالانکہ جغرافیائی لحاظ سے گلیل زبردست اہمیت تھی اور یہ معاملہ اس وقت مزید اہم ہو جاتا ہے جب یسوع کو غیر اقوام کےلیے بھی مسیح ثابت کیا جائے لیکن گلیل میں رہ کر یسوع نے کبھی غیراقوام میں منادی نہیں کی۔
[8] Flavius Josephus, Antiquities of the Jews 18:27.
[9] Hengel, The Zealots: Investigations into the Jewish Freedom Movement in the Period from Herod I Until 70 A.D., p 338.
[10] Hugh J. Schonfield, Jesus : Man, Mystic, Messiah, 94.
[11] لوقا۲۳ :۸
[12] مرقس۱۴ :۴۸
[13] لوقا۲۳ :۲
[14] Hengel, The Zealots: Investigations into the Jewish Freedom Movement in the Period from Herod I Until 70 A.D., p 340.
[15] مرقس۱۵ :۷
[16] Hengel, The Zealots: Investigations into the Jewish Freedom Movement in the Period from Herod I Until 70 A.D., p 339.

مکمل تحریر >>

پیر، 18 مئی، 2020

یسوع کے جڑواں بھائی یہوداہ توما کی شخصیت کا تاریخی جائزہ

یسوع کے جڑواں بھائی یہوداہ توما کی شخصیت کا تاریخی جائزہ
ازقلم :عبداللہ غازیؔ
          اسلام کی آمد سے سینکڑوں سال قبل مسیحیت میں یسوع مسیح اور ان کے متعلقین کے حوالے سے مختلف فیہ آراء معاشرے میں موجود تھیں۔بدقسمتی سے تثلیثی مشرک پولوسی عیسائیوں کے رومی حکومت کی چھتری تلے آنے کے بعد صرف تثلیثی عیسائیوں کے نظریات کو باقی رکھا گیا باقی تمام عقائد و نظریات کو جبرا دبا دیا گیا۔انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ ہندوستان میں یسوع مسیح کی منادی کرنے والے یسوع کے شاگرد یہوداہ توما دراصل یسوع کے جڑواں بھائی تھے۔ اس عقیدے کی انجیلی شہادت یوحنا کی انجیل میں موجود  لفظ توما  اور توام  اور تاریخی شہادت  توما رسول کے اعمال نامی کتاب ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ آبائے کلیسیا میں شامل جن افراد نے  یہوداہ توم کے ہندوستان جانے کا ذکر کیا ہے ان میں سے کسی نے اس عقیدے کی تردید نہیں کی  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی روایت معاشرے میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہو ئی تھی جس کا وجود چوتھی صدی عیسوی تک رہا اور پھر طاقت کے زور پر ایسے نظریات کو مٹا کر انسانی کونسلز کے عقائد کو مسیحیوں پر مسلط کیا گیا ۔
          یہوداہ توما یسوع کے جڑواں بھائی تھے یا نہیں؟ اس معاملے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ایسی تمام روایات اسلام سے قبل قدیم مسیحی عقائد اور ادب کا باقاعدہ حصہ تھیں۔  اس سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع کے صعود آسمانی کے کچھ وقت بعد ہی مسیحیت پر گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا گئے تھے اور خود  یسوع مسیح کی شخصیت بھی اس قدر متنازع ہو گئی تھی کہ عیسائیوں کو بعد میں کونسلز بٹھا کر فیصلے کرنے پڑے۔ مسیحیوں میں ان گمراہ کن عقائد کے بارے میں اس قدر شدت تھی کہ کئی کونسلز میں باقاعدہ سر پٹھول ہوئی اور پادریوں اور بشپوں نے ایک دوسرے کو خوب مارا پیٹا۔ یہی شدت پسند عناصر آج ہمارے مقامی عیسائی پوادران دوستوں میں بھی بدرجہ اتم موجود  ہیں۔لہذا مضمون ہذا میں توما کی شخصیت کا انجیلی اور تاریخی جائزہ لینگے کہ ابتدائی مسیحی ان کے حوالے سے کیا عقیدہ رکھتے تھے۔
یسوع کے حقیقی بہن بھائی
عہدنامہ جدید ہمیں نہ صرف یسوع بلکہ ان کے خاندان کے بارے میں  بھی کسی حد تک تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ اناجیل متوافقہ میں   ان کے چار بھائی یعقوب، یہوداہ،شمعون اور یوسف  اور کچھ بہنوں کا بھی ذکر ہے جن کی تعداد غیر معین ہے تاہم بہنوں کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہونے کی وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تعداد کم از کم دو ضرور ہوگی۔ عہدجدیدکے متن میں یسوع کے بھائیوں کےلیے یونانی لفظ"adelphos"استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنیٰ سگے اور حقیقی بھائی کے ہی ہیں۔مقدس پولس اور جوزیفس کی تحاریر میں جابجا بھائی کے لیے یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ لہذا اس انجیلی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یسوع کے بہن بھائی نہیں تھے۔آتشیں کلام مقدس مطالعاتی اشاعت کے مطابق یسوع کی پیدائش کے بعد یوسف نجار اور مقدسہ مریم شادی کے حوالے سے جسمانی تعلق میں داخل ہوئے اور ان کے اولاد ہوئی۔[1]یسوع کے بھائیوں میں موجود یہی یہوداہ یسوع کا جڑواں بھائی تھا جس کی شہادت انجیل مرقس کے مطابق اہل علاقہ نے دی تھی۔[2]اسی یہوداہ کا اصل نام حذف کرکے انجیل یوحنا کے مصنف نے اس کا لقب توما اور توام بیان کیا ہے لیکن توما کی انجیل کی تمہید سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ توما کا اصل نام یہوداہ تھا۔پس ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ بیک وقت یہوداہ نا م کے یسوع کے دو بھائی موجود ہوں لہذا انجیلی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہوداہ توما ہی یسوع کا جڑواں بھائی تھا۔
توما،توام اور یہوداہ توما
          اناجیل متوافقہ میں اگر یسوع کے بہن بھائیوں کا ذکر ہے تو دوسری طرف انجیل یوحنا میں یسوع کے جڑواں بھائی کا ذکر موجود ہے۔غالباً اسی لیے یوحنا نے یسوع کی ولادت کی وقائع نگاری کو ضبط قلم کرنا مناسب اور اہم نہیں سمجھا۔ یوحنا کے اس اسلوب سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ قدیم کلیسیا کی طرح وہ یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ یسوع کا جڑواں بھائی بھی موجود ہے۔ان قدیم مسیحی روایات میں توما رسول کے اعمال نامی کتاب شامل ہے  جس میں واضح طور پر مقدس توما کو یسوع کا جڑواں بھائی قرار دیا گیا ہے ۔ انجیل ِتوما سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا اصلی نام یہوداہ اور عرفی نام توما تھا جبکہ توام لقب تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ توما اور توام دونوں کے لغوی معنی جڑواں کے ہی ہیں۔[3] بائبل مقدس کے اردو پروٹسٹنٹ ترجمہ میں لکھا ہے" تیری دونوں چھاتیاں دو توام آہو بچے ہیں "(غزل الغزلات 4:5) تیری دونوں چھاتیاں دوآہوبچے ہیں جو توام پیدا ہوئے ہوں ۔ (غزل الغزلات 7:3) جبکہ جیولنک ریسورس کنسلٹنٹ سے امریکہ سے شائع ہونے والے ترجمہ اردو میں توام کے بجائے جڑواں لفظ استعمال کیا گیا ہے. تیری چھاتیاں سوسنوں میں چرنے والے غزال کے جڑواں بچوں کی مانند ہیں. (محولہ بالا) تیری چھاتیاں غزال کے جڑواں بچوں کی مانند ہیں. (محولہ بالا) یہی نہیں بلکہ یوحنا کی انجیل میں( یوحنا۱۱ :۱۶، ۲۰ :۲۴، ۲۱ :۲) وام یا دیدیمس کا ترجمہ بھی اِس ترجمہ میں جڑواں کے طور پر کیا گیا ہے جس سے صاف بات بتا چل جاتی ہے کہ توما رسول یسوع کا جڑواں بھائی تھا جس کی اصل حقیقت کو چھپانے کے لئے ان مقامات پر ترجمہ "مواضع سے پھیر کر" کیا گیا ہے تاکہ قاری سے خوش کن پوادرانہ دعاوی پر آنکھ بند کرکے آمین آمین کہلوایا جا سکے اور سچائی پر پردہ ڈال کر انسانی کلام پر مبنی روایات سے کلام الہی کو باطل کیا جا سکے۔ فقط بائبل میں ہی نہیں بلکہ مسیحی علماء بھی اس حقیقت کے معترف ہیں مگر عوام الناس کو بتانے سے ڈرتے ہیں کہ خوش عقیدتگی کہیں سچائی کے سامنے دم نہ توڑ دے۔
مقدس توما اور یسوع
توما کے یسوع کے جڑواں بھائی ہونے کی شہادت دونوں کے ہم پیشہ ہونے سے بھی ملتی ہے کیونکہ اناجیل کے مطابق یسوع مسیح اور یوسف نجار بڑھئی تھے۔[4]اسی طرح توما توام بھی بڑھئی تھا۔[5]اسی طرح قدیم شامی کلیسیا کی روایات کے مطابق یسوع کا قد چھوٹا تھا جبکہ توما کی انجیل میں خود توما بھی خود کو پستہ قد کہتا ہے جس کی بنیاد پر علما نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دونوں کا قد چھوٹا ہونا درحقیقت ان کے جڑواں بھائی ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[6]
مقدس یعقوب اور توما
          ہم دیکھ چکے ہیں کہ عہد نامہ جدید میں ہی یسوع کے دیگر بھائی بھی موجود ہیں اور یسوع کے ایک بھائی یعقو ب کوتو اعمال کی کتاب یسوع کے بعد کلیسیا کا سربراہ بھی قرار دیتی ہے حالانکہ یہی یعقوب یسوع کی حین حیات ان سے دور بھاگتا رہا لیکن اعمال کی کتاب میں یکایک یسوع کی کلیسیا کا سربراہ بن کر بیٹھ گیا۔نیز اس کے علاوہ عہدنامہ جدید میں شامل ایک خط کا انتساب بھی یعقوب برادر یسوع کی طرف کیا جاتا ہے۔یہاں یہ نکتہ وضاحت طلب ہے کہ اگر توما یسوع کاجڑواں بھائی نہیں تھا تو پھر یعقوب کیسے یسوع کا بھائی ہوگیا؟یہاں عیسائی یہ تاویل نکالتے ہیں کہ یسوع کے یہ سارے بہن بھائی یوسف نجار کی پہلی بیوی سے تھے لیکن یہ عیسائی تاویل بھی تار عنکبوت جتنی مضبوطی رکھتی ہے کیونکہ انجیل میں ایسا کہیں بھی مذکور نہیں ہے اور ہمارے دیسی عیسائی دوست ہم سے یہوداہ توما توام کے جڑواں بھائی ہونے کے متعلق صرف انجیلی دلیل طلب کرتے ہیں تو ہم بھی حق بجانب ہیں کہ ان سے حوالہ طلب کریں کہ کدھر لکھا ہے کہ یعقوب یوسف کی پہلی بیوی کی اولاد تھا؟ اگر یعقوب انجیل کے مطابق یسوع کابھائی،اعمال کے مطابق کلیسیا کا سربراہ اور عہدنامہ جدید میں شامل خط کا مصنف ہو سکتا ہے تو پھر توما توام کیوں یسوع کا جڑواں بھائی نہیں ہو سکتا؟ حالانکہ انجیل یوحنا نے تین بار اسے توام لکھا ہے اور پھر خود توما کے معنی بھی جڑواں کے ہی ہیں۔ اگر مسیحی برادری کے دعوے کے مطابق توما یسوع کا  بھائی نہیں تھا  تو پھر یعقوب بھی ہرگز یسوع مسیح کا بھائی نہیں لہذا ہمارا مسیحی برادری سے مطالبہ ہے کہ یعقوب کے خط کو فی الفور عہدنامہ جدید سے باہر کیا جائےاور اعمال کی کتاب سے اس کا ذکر حذف کیا جائے۔
عہدنامہ جدید اور "توما رسول کے اعمال"
توما کےاعمال کی نامی قدیم کتاب میں واضح شہادت ملتی ہے کہ توما یسوع کا جڑواں بھائی اور بڑھئی تھا۔[7] تاہم مصنف نے اس تحریر کو غناسطی ہونے کی وجہ سے رد کیا ہے اور ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے کہ یہ کتاب اس لیے لکھی گئی کہ مسیحیوں کو شادی کرنے اور ہر قسم کے مال و دولت سے پرہیز کرنے سے روکنے کی تعلیم دی جائے۔[8] تاہم مصنف کے یہی اعتراضات بدرجہ اتم اناجیل اربعہ پر وارد ہوجاتے ہیں۔یونانی لفظ Gnosis کے معنی"عرفان ،معرفت یا واقفیت" کے ہیں۔ غناسطیوں کا عقیدہ تھا کہ انسان کو نجات اس کے سچائی کی معرفت سے ملتی ہے جبکہ یہی چیز ہم انجیل یوحنا میں بھی پاتے ہیں کہ یسوع نے فرمایا کہ تم سچائی سے واقف ہو تو سچائی تمہیں آزاد کرے گی۔دوسرے لفظوں میں سچائی کی معرفت ہی نجات کی ضامن ہے ۔اسی طرح مصنف کو اعتراض ہے کہ یہ کتاب مسیحیوں کو شادی سے روکنے کےلیے لکھی گئی ہے حالانکہ تجرد تو شروع سے ہی مسیحیت کا خاصہ رہا ہے اور پطرس کے علاوہ یسوع اور ان کے تمام شاگرد حتی کہ  مقدس پولس تک شادی سے مجتنب ہی رہے۔ اسی طرح مصنف کو یہ بھی اشکال ہے کہ اس کتاب میں مال ودولت سے پرہیز کرنے کی تعلیم دی گئی ہے حالانکہ یہی تعلیم  عہدنامہ جدید میں بھی موجود ہے جہاں ایک شخص یسوع کے پاس آتا ہے اور نجات کے متعلق سوال کرتا ہے تو یسوع اسے ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اپنا تمام مال غریبوں میں بیچ کر ان کی اتباع کرے۔اس پر وہ شخص غمگین  ہو کر چلا جاتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انجیل یوحنا اور اعمالِ توما میں اتنی فکری مماثلت کس لیے ہے۔اگر غناسطی ہونے کی بنا پر توما کے اعمال کتاب قابل رد ہے تو اسی اصول کے مطابق یوحنا کی انجیل بھی مردود ہونی چاہیے کیونکہ اس میں بھی غالب حد تک غناسطی افکار موجود ہیں۔ اب اگر ہمارے دیسی عیسائی دوست انجیل توما کو رد کرتے ہیں تو پھر انہیں چاہیے کہ فی الفور انجیل یوحنا کو بھی مسترد کردیں کیونکہ اس میں بھی غناسطی افکار رچے بسے ہوئے ہیں۔
توما رسول کے اعمال  اور دیسی عیسائی دوستوں کارویہ
توما کے اعمال کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کتاب کے مطابق یہوداہ توما نے ہندوستان کی طرف تبلیغی سفر بھی کیا تھا جسے تمام دیسی عیسائی بڑے طمطراق سے بیان کرتے ہیں۔ بہت سے آبائے کلیسیا نے اپنی تحاریر میں بھی توما کے اعمال کتاب سے نقل کرتے ہوئے یہ بات ذکر کی ہے۔یہاں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر توما کے اعمال نامی کتاب سے توما کا ہندوستان جانا ثابت ہو سکتا ہے تو پھر توما کا یسوع کا جڑواں بھائی ہونا ثابت کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟ہمارے دیسی عیسائی دوستوں کے ناپنے کے دو پیمانے کیوں ہیں حالانکہ کتاب مقدس میں لکھا ہے کہ جھوٹا ترازو خداوند کی نظر میں مکروہ ہے۔(امثال۱۱ :۱)
ولیم جے ینگ کے مطابق ان لوگو ں میں مقدس ایرونیمس(۴۰۰ء)، مقدس افرائیم(۳۷۰ء) اور یوسبیس(۳۲۵ء)شامل ہیں جنہوں نے توما کے ہندوستان جانے کے بارے میں اپنی تحاریر میں لکھا ہے۔ ان تمام تحاریر کا زمانہ چوتھی یاپانچویں صدی عیسوی ہے لیکن توما رسول کے اعمال کتاب کا زمانہ تصنیف دوسری صدی عیسوی کا ہے ۔یسوع سے دو ہزار سال کا بُعد زمانی رکھنے والے مسیحی حضرات ان چوتھی صدی عیسوی کے اقتباسات کی بنیاد پر توما کے ہندوستان جانےکی روایت کو درست سمجھ لیتے ہیں لیکن دوسری صدی عیسوی میں لکھی جانے والی اعمالِ توما کتاب کی صداقت صرف بغض کی وجہ سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نیز ان  تمام لوگوں نے توما کے ہندوستان جانے کا تو ذکر کیا ہے مگر اس بات کی کوئی تردید نہیں کی کہ وہ اسے یسوع کا جڑواں بھائی نہیں سمجھتے تھے حالانکہ افرائیم سریانی کے مطابق چوتھی صدی عیسوی تک توما کی انجیل موجود  تھی۔ آبائے کلیسیا کا توما کے اس منصب کی نفی نہ کرنا  اور اس کی کتاب میں موجود حقائق کا پرچار کرنا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ نہ صرف یہوداہ توما کی ذات کے اس پہلو(جڑواں بھائ) سے اچھی طرح واقف تھے بلکہ توما کے اعمال کتاب کو بھی مستند سمجھتے تھے اسی لیے تو وہ اس سے استدلال کر رہے تھے۔ اب دو ہزار سال کے بعد انجیل میں جڑواں لکھا ہونے کے باوجود کچھ دیسی عیسائی اٹھ کر یہوداہ توما  کے یسوع کے جڑواں بھائی ہونے کا انکار کر دیں تو اس کا مطلب اس کےسوا کچھ نہیں کہ وہ نہ صرف انجیلی متن کو جھٹلا رہے ہیں بلکہ انہوں نے آبائے کلیسیا کو بھی جاہل مطلق سمجھ لیا ہے جنہوں نے اتنی بڑی اور اہم بات کے متعلق کوئی قلم کشائی نہیں کی۔ حالانکہ توما کے جڑواں بھائی ہونے کے عقیدے کی نفی کرنے والے علمی طور پر وہ مفلوک الحال مسیحی ہیں جنہوں نے اپنے عقائد بھی کونسلز بٹھا بٹھا کر حل کیے ہیں۔ صدیوں تک مقدسہ مریم کو تثلیث کا جز مان کر ان کی پرستش کی جاتی رہی لیکن جب کونسل بیٹھی تو تثلیث سے مقدسہ مریم کو نکال باہر کرکے روح القدس کو شامل کرکے تثلیث کو مکمل کردیا۔(حالانکہ آج بھی کیتھولک کلیسیا کے کیٹی کیزم میں مقدسہ مریم کو پاک تثلیث کا جز مانا جاتا ہے) اس قسم کے اعتقادی محروم لوگ اٹھ کر مقدس یہوداہ توما کے یسوع کے جڑواں بھائی ہونے کی نفی کررہے ہیں تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ آئندہ ہونے والی کونسل میں  یسوع کے جڑواں بھائی یہوداہ توما کو تثلیث میں شامل کرلیا جائے او  ر روح القدس کو باہر نکال کر پھینک دیا جائے۔(یاد رہے کہ ۱۹۶۵-۱۹۶۶ میں ہونے والی کیٹی کن کونسل دوم میں مسیحیوں نے انجیلی حقائق کے برخلاف پیلاطوس گورنر کو قاتل یسوع قرار دیا ہے حالانکہ دو ہزارسال سے یہ یہودیوں کو قاتلین یسوع مانتے چلے آرہے تھے کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہ یسوع کا خون یہودیوں اور ان کی اولاد کی گردن پر)
قدیم مسیحی فرقے اور نظریات
قدیم مسیحی روایات کے مطابق ابتدائی مسیحی مقدس توما کو یسوع کا جڑواں بھائی سمجھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ یسوع کو کنواری سے پیدا ہونے والا اکلوتا بیٹا  اور الوہیت کی حامل ہستی نہیں مانتے تھے۔ بعد میں جب رومی بادشاہ قسطنطائن نے مسیحیت کو قبول کیا تو پولوسی چرچ غالب آگیا ۔ پولوسی عیسائیوں نے اقتدار میں آنے  کے بعد اپنے مخالفین پر بدعتی اور مشرک ہونے کے فتوے لگائے اور اپنے مخالف تمام نظریات کو نہ صرف طاقت کے زور پر دبایا بلکہ مخالفانہ  عقائد پر مشتمل کتب کو بھی نذر آتش کردیا ۔ اس حوالے سے  اسکندریہ کا کتب خانہ بہت مشہور ہے جسے دہشت گرد اور شدت پسند تثلیثی مسیحیوں نے جلا کر راکھ کر ڈالا تھا۔
 اس کتب خانے کی برباد ی کے بعد پولوسی نظریات سے مماثلت نہ رکھنے والی اکثر کتب ضائع ہوگئیں تاہم ستر سال قبل مصر میں ناگ حمادی کے مقام سے قدیم مسیحیوں کی کچھ کتب کے نسخے دریافت ہوئے جن میں توما رسول کے اعمال نامی کتاب بھی شامل تھی۔ پولوسی کلیسیا نے فی الفور اسے بدعتی اور جعلی قرا ردے دیا کیونکہ اس میں مندرج تعلیمات پولوسی نظریات سے متضاد تھی حالانکہ اگر ہم دوسری یا تیسری صدی عیسوی میں کھڑے ہو کر منصفانہ جائزہ لیں تو غناسطیوں کی نظر میں بھی پولس کے پیروکار مسیحی مشرک اور بدعتی کے سوا کچھ نہ تھے لیکن جب انہی پولوسیوں کو چرچ کی چھتری میسر آگئی تو یہی لوگ کلیسیا کے علم بردار اور انہی کے عقائد مسیحیت کے مسلمہ عقائد ٹھہرے اور انکے  ماسوا ہر کوئی بدعتی اور مشرک ہوگیا حالانکہ یسوع مسیح نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ میں اس دنیا پر فتوی لگانے نہیں آیا لیکن ہمارے پولوسی مسیحی دوست سچائی سے اعراض کرتے ہوئے  اور یسوع کی تعلیم کو پس پشت ڈالتے ہوئے دھڑلے سے ان لوگوں کو بدعتی کہہ رہے ہیں۔


[1] آتشیں کلام مقدس مطالعاتی اشاعت،ص۱۶۲۵
[2] مرقس۶ :۳
[3] The NIV Study Bible (London: Hodder & Stoughton, 2000), n. John 11:16.
[4] متی۱۳ :۵۵
[5] ولیم جی ینگ، رسولوں کے نقش قدم پر، مسیحی اشاعت خانہ،۲۰۱۳ء،ص۵۷
[6] Lynn Picknett and Clive Prince, The Masks of Christ: Behind the Lies and Cover-Ups about the Life of Jesus (New York: Simon & Schuster, 2008), 151.
[7] رسولوں کے نقش قدم پر ،ص۵۷
[8] محولہ بالا

مکمل تحریر >>