یسوعؑ مسیح،گلیل اور زیلوٹ
تحقیق و تحریر: عبداللہ غازیؔ
عہدنامہ جدید میں گلیل کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ بہت سے
انجیلی واقعات کا تعلق گلیل سے ہے اور یسوع مسیحؑ نے نہ صرف گلیل بلکہ اس کے
اردگرد بھی منادی کی۔ گلیل کے علاقے میں یہودی غالب تعداد میں نہ تھے بلکہ یہاں غیراقوام
بھی آباد تھیں۔ گلیل کی نسبت یہودیہ کا
علاقہ یہودی اکثریت کا علاقہ تھا مگر حیرت انگیز طور پر یسوع جب اپنی منادی شروع
کرتے ہیں تو وہ یہودیہ کے بجائے گلیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ سب سے پہلے لکھی جانے
والی انجیل مرقس کے مطابق یسوع نے اپنی منادی کا آغاز گلیل سے کیا تھا [1]اور
اسی علاقے سے انہوں نے اپنے ابتدائی شاگردوں کا انتخاب کیا۔ یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یسوع کا مطمع نظر
غیراقوام میں بھی منادی تھا اسی لیے انہوں نے گلیل جیسے علاقے سے منادی شروع کی
جہاں بڑی تعداد میں غیر یہودی آباد تھے۔ ایسا سوچنا اس لیے بھی محال ہے کہ یسوع
مسیحؑ کی زندگی کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق
وہ ہمیشہ غیر یہودیوں سے دور ہی رہے۔ایک موقع پر جب ایک غیریہودی عورت نے
آکر ان سے کچھ سوال کیا تو بھی انہوں نے اس کی طرف التفات نہیں فرمایا بلکہ اسے
یوں جواب دیا کہ لڑکوں کی روٹی کتوں کو دینا جائز نہیں۔[2]
گلیل سے منادی شروع کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ گلیل
کا علاقہ یہودی قوم پرستوں کا مرکز تھا جو رومی حکومت کے مخالف تھے۔ یہ گلیل ہی
تھا جہاں سے رومیوں کے خلاف اس وقت شورش
برپا کی گئی جب انہوں نے یہودیوں پر ٹیکس لگانے کے لیے مردم شماری کا انعقاد کرانے
کا فیصلہ کیا۔یہیں سے یہوداہ گلیلی کو بھی شہرت ملی اور اس کی اٹھائی گئی آواز آگے
چل کر ایک بڑی تحریک 'زیلوٹ'بن گئی۔حیرت انگیز طور پر انجیل نویسوں نے اس قدر اہم
معاملات کو قلم بند نہیں کیا حالانکہ یہوداہ گلیلی کا فساد ۶ء میں عین اس وقت برپا
ہوا تھا جب کورینس کے دور میں یسوع مسیح کی پیدائش ہوئی تھی [3]البتہ
اعمال کی کتاب میں یہوداہ گلیلی کا خفیف سا ذکر موجود ہے۔[4] انجیل
میں موجود یسوع مسیحؑ کے بارہ شاگردوں میں سے ایک 'شمعون غیور" کا تعلق بھی
اسی یہوداہ گلیلی کی تحریک زیلوٹ سے تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت شمعون کے نام کے
ساتھ اس جماعت کا نام"غیور" ملحق ہونا ہے۔یہ بات گزر چکی ہے کہ خداوند
کی شریعت کے لیے غیرت رکھنے کی وجہ سے انہیں یہ نام 'زیلوٹ' دیا گیا تھا۔یسوع ؑ کی
جماعت میں شمعون جیسے غیور اور یہوداہ
اسکریوتی جیسے خنجربردار کی موجودگی بہت سی اندرونی کہانیاں سامنے لے آتی ہے۔اس
بات کا امکان بھی موجود ہے کہ یسوع کے دیگر شاگردوں میں بھی غیور موجود ہوں لیکن
اس بارے میں حتمی طور سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
گلیل یروشلم سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھا اور گلیل اور
یروشلم کے درمیان صرف سامریہ کا علاقہ تھا اس لیے یہودی قوم پرست –زیلوٹ-بآسانی
یہاں آکر چھپ جاتے تھے اور وسیع وعریض علاقہ ہونے کے سبب بہت سی خفیہ جگہیں ان کے
چھپنے کےلیے کارساز ہوتیں۔ اس کےعلاوہ ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ ان حریت پسند کو
یہاں رہ کر یروشلم رابطہ رکھنے میں بھی آسانی رہتی تھی۔ پہلی صدی عیسوی میں گلیل
کا علاقہ براہ راست سلطنت روم کی ماتحتی میں نہ تھا بلکہ یہاں ہیرودیوں کی حکومت
تھی جو رومیوں کے وفادار تھے اور قابض افواج کی مدد سے گلیل پر حکومت کر رہے تھے۔
رومیوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے باعث یہودی قوم پرستوں کی نظر میں ہیرودین غدار
تھے اسی لیے وہ ان کے سخت مخالف تھے ۔[5] ان سب
حقائق کے باوجود گلیل کے پہاڑی اور دیہی علاقے میں حریت پسندوں اور زیلوٹ کا
روپوشی اختیار کرنا بہت آسان تھا۔یہ حریت
پسند اور زیلوٹ گلیل کے باہر سے نہیں آئے تھے بلکہ ان کا تعلق گلیل سے ہی تھا۔
گلیل کے لوگ نہایت سنگ دل اورلڑاکا قسم کے ہوا کرتے تھے۔ جوزیفس کے مطابق یہ لوگ
آغوش مادر سے ہی جنگجو طبیعت واقع ہوتے ہیں۔ [6]
اسی طرح انجیل
نویسوں نے گلیل کے بڑے شہروں کے متعلق بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی [7]یسوع
مسیح ؑ کا تعلق گلیل کے قصبے ناصرۃ سے تھا ۔ناصرۃ سے چند میل کے فاصلے پر واقع
سفورس شہر کے بارے میں انجیل نویسوں نے معمولی سا تذکرہ بھی نہیں کیا حالانکہ
سفورس کا علاقہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ جوزیفس نے اسے 'گلیل کا زیور' کہا ہے ۔[8]اس
علاقے میں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد آباد تھی لہذا اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا
کہ یسوع مسیحؑ نے اس علاقے کو اپنی منادی میں شامل نہ کیا ہوگا۔ انجیل نویسوں کا
اس علاقے کو نظر انداز کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ بھی حریت پسندوں اور باغیوں کی
آماجگاہ تھا۔ ہیرودیس اعظم کی موت کے بعد
سب سے بڑا فساد یہیں ہوا تھا جس میں زیلوٹ نے بڑی تعداد میں غدار یہودیوں کو قتل
کیا تھا جو رومیوں سے مل گئے تھے۔رومیوں کی طرف سے جوابی کاروائی میں سینکڑوں
زیلوٹ مارے گئے اور دو ہزار سے زائد لوگ گرفتار ہوئے جنہیں مصلوب کر دیا گیا۔جس
طرح انجیل نویسوں نے یہوداہ گلیلی کے فساد کو نظر انداز کیا،اسی طرح سفورس جیسے
اہم ترین شہر کو بھی عمداً فراموش کر دیا
تاکہ یسوع کی تحریک کو زیادہ سے زیادہ پر امن دکھایا جا سکے حالانکہ یسوع
مسیحؑ اور ان کے حواریوں سے زیادہ شریعت کے لیے کون غیرت مند ہو سکتا تھا؟ مگر اس
کے باوجود انجیل نویسوں نے انہیں اِس طرح سے پیش کیا ہے کہ انہوں نے مشرک اور بت
پرست رومیوں کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی بلکہ لوگوں کو رومی غلامی کا
درس دیا۔ انجیل نویسوں کی پیش کردہ یہ تصویر سراسر یسوع مسیحؑ جیسے جلیل القدر نبی
کی شایانِ شان کے خلاف ہے۔
لوقا۱۳ :۱کے مطابق پیلاطوس نے بہت سے
گلیلیوں کو قتل کیا تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ پیلاطوس کے ہاتھوں قتل کیے جانے
والے یہ گلیلی زیلوٹ جماعت سے تعلق رکھنے والے یہودی باغی تھے جنہوں نے حکومت کے
خلاف فساد مچا رکھا تھاوگرنہ پیلاطوس کے پاس ان کو قتل کرنے کی دوسری وجہ نہ تھی۔[9]اسی
قتل عام کی وجہ سے ہیرویس اور پیلاطوس میں شدید عداوت پیدا ہو گئی تھی کیونکہ گلیل
کا علاقہ پیلاطوس کی عمل دار ی میں نہیں بلکہ ہیرودیس کے زیراختیار تھا [10]اور
پیلاطوس کا اس علاقے کے لوگوں کو قتل کرنا رومی قانون کے حساب سے بھی درست نہ
تھا۔دونوں کے درمیان عداوت کا اختتام یسوع کے مقدمہ کے وقت ہوا۔جیساکہ لوقا نے
لکھا ہے
"اور اسی دن ہیرودیس اور پیلاطوس آپس میں دوست ہوگئے
کیونکہ پہلے ان میں دشمنی تھی۔"[11]
یوحنا۱۰ :۱ میں یسوع ایک چرواہے کی تمثیل پیش کرتے ہیں۔ یہ
تمثیل دراصل جھوٹے نبیوں اور مدعیان
المسیح کے خلاف ہے جوکہ اس وقت لوگوں کے رہنما بن کر ابھر رہے تھے۔ انہی لوگوں کو
اُس وقت کی اصطلاح میں ڈاکو کہا جاتا تھا۔ا س لحاظ سے زیلوٹ تحریک اور اس کے قائدین بھی اس فہرست میں
شامل ہیں کیونکہ انہی لوگوں میں سے بہت سے لوگوں نے جھوٹی نبی اور المسیح ہونے کا
دعوی کیا تھا جس کے بارے میں ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔
انجیل مرقس کا مصنف لکھتا ہے کہ "یسوع نے ان سے کہا
کیا تم تلواریں اور لاٹھیاں لے کر مجھے ڈاکو کی طرح پکڑنے نکلے ہو؟میں ہر زور
تمہارے پاس ہیکل میں تعلیم دیتا تھا اور تم نے مجھے نہیں پکڑا۔"[12]یسوع
کے اس کلام میں بھی ڈاکو کا لفظ موجود ہے جو اصطلاحی طور پر زیلوٹ یا دیگر باغیوں
کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ زیلوٹ کی خفیہ تحریک کے ارکان کے برعکس یسوع نے ہمیشہ عوام
الناس میں منادی کی۔ یسوع مسیح نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے اوپر لگایا گیا یہ الزام
مسترد کر دیا کہ "ہم نے اسے قیصر کو خزاج دینے سے منع کرتے ہوئے پایا"۔[13]جب یہ
الزام مسترد ہوگیا تو ان کے معاندین نے انہیں مدعیِ المسیح ہونے کے الزام میں
پیلاطوس سے سزا دلوائی کیونکہ المسیح کا دعویٰ کرناہی رومی حکومت کے خلاف اعلان
بغاوت تھا۔چنانچہ بغاوت کے جرم میں سزا پانے کے بعد مبینہ طور پر دو ڈاکوؤں(زیلوٹ) کے ہمراہ صلیب
پرلٹکایا گیا ۔اناجیل کے مطابق یسوع مسیحؑ کو ایسی موت دینے کی کوشش کی گئی جو اس
سے قبل یہودی باغیوں کو دی جاتی تھی اور بعد میں بھی دی جاتی رہی یعنی صلیبی موت۔[14]انجیل
مرقس سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع ؑمسیح کا مقدمہ بھی ایک زیلوٹ کے ساتھ ہی سنا گیا
تھا۔
"اور برابا نامی ایک آدمی ان باغیوں کے ساتھ قید میں
پڑا تھا جنہوں نے بغاوت میں خون کیا تھا۔[15]
اس
انجیلی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران یروشلم کے اردگرد کوئی بغاوت
ہوئی تھی جس کی قیادت برابا نامی باغی کررہا تھا۔اس بغاوت میں کچھ لوگ قتل بھی
ہوئے مگر کچھ ہی عرصہ میں رومیوں نے باغیوں پر قابو پا لیا اور انہیں ان کے سربراہ
سمیت گرفتار کر لیا۔ برابا نامی باغی یہودیہ کے باسیوں کے لیے ہرگز غیرمعروف نہ
تھا اور نہ ہی یہ کوئی معمولی قاتل تھا۔برابا یہودی تحریک آزادی کا سرگرم رکن اور رہنما تھا اسی لیے لوگوں کو
اس سے دلی ہمدردیاں بھی تھیں۔ انجیل یوحنا کے مصنف نےورس ۱۸ :۴ پر برابا کے لیے جو
یونانی لفظ استعمال کیا ہے وہ وہی ہے جو جوزیفس نے اپنی تحاریر میں زیلوٹ کے لیے
لکھا ہے۔[16]اس
سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ برابا زیلوٹ کے
ایک گروہ کا سربراہ تھاجو بغاوت ناکام ہونے کی صورت میں گرفتار ہو گیا تھا۔
ان تمام انجیلی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ
نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہوگاکہ یسوع کی تحریک بھی ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد
داؤد کے تخت کی بحالی تھا کیونکہ مقدسہ مریم ؑ کے پاس آنے والے فرشتے نے بھی ان
کویہی بشارت دی تھی کہ یہ بچہ اپنے باپ داؤد کا تخت بحال کرے گا۔پس اسی وجہ سے
یسوع کا ان غیوروں یا زیلوٹ سے ایک خاص تعلق رہا۔اگرچہ انجیل نویسوں نے پوری کوشش
کے ساتھ ان تمام معاملات کو دبانے کی کوشش کی ہے جو یسوع اور زیلوٹ کے مابین درپیش
رہے ہوں گے مگر اس کے باوجود اناجیل سے واضح اشارے ملتے ہیں کہ زیلوٹ کا یسوع کے
ساتھ قریبی تعلق رہا تھا۔اس کا سب سے بڑا
ثبوت شمعون غیور تھا جو یسوع ؑ مسیح کے بارہ شاگردوں میں شامل تھا۔شمعون کے علاوہ
بھی یہ بات عقل و شعور کے تقاضوں کے خلاف ہے کہ گلیل کے علاقے میں چلنے والی یسوع
کی تحریک کا اسی علاقے سے اٹھنے والی زیلوٹ تحریک سے کوئی تعلق نہیں رہا ہو
باوجودیکہ یسوع کی تحریک میں زیلوٹ کے شمعون جیسے سرگرم غیور موجودتھے۔
[6] Lynn Picknett &
Clive Prince, The Masks of Christ, Behind
the Lies and Cover-Ups about the Life of Jesus, p 154.
[7] حالانکہ جغرافیائی لحاظ سے گلیل زبردست اہمیت تھی اور یہ
معاملہ اس وقت مزید اہم ہو جاتا ہے جب یسوع کو غیر اقوام کےلیے بھی مسیح ثابت کیا
جائے لیکن گلیل میں رہ کر یسوع نے کبھی غیراقوام میں منادی نہیں کی۔
[9] Hengel, The Zealots: Investigations into the Jewish
Freedom Movement in the Period from Herod I Until 70 A.D., p 338.
[14] Hengel, The Zealots: Investigations into the Jewish
Freedom Movement in the Period from Herod I Until 70 A.D., p 340.
[16] Hengel, The Zealots: Investigations into the Jewish
Freedom Movement in the Period from Herod I Until 70 A.D., p 339.