Pages

Most Popular

پیر، 29 اپریل، 2019

پولس کے متعلق بہترین معلوماتی تحریر: از قلم ظفراقبال


مقدس پولوس کے متعلق بہترین معلوماتی آرٹیکل
تحریر: میاں ظفر اقبال صاحب۔
سیدنا عیسٰی علیہ السلام مسیح کے صعود آسمانی کے چھ سال بعد یکایک ایک شخصیت منظرنامہ پر نمودار ہوئی اور دعوٰی کیا کہ انہیں مکاشفہ میں یسوع مسیح نے آ کر فرمایا کہ جو کچھ اسے کرنا ہے اسے بتا دیا جائے گا اور بعدازاں دمشق میں انہیں بتا دیا گیا ہے کہ وہ خدا کا چنا ہوا وسیلہ ہیں۔اس کے بعد وہ یسوع کی منادی کرنے لگے۔ (اعمال باب 9) یہ شخصیت مسیحیت میں پولوس یا سینٹ پال کی ہے جسے اعمال کی کتاب میں پہلے مسیحیت کا شدید مخالفت اور بعد ازاں اس کی زبردست منادی کرنے والا ظاہر کیا گیا ہے۔
سینٹ پال کون تھے اور کہاں کے رہنے والے تھےاور ان کے مستند سوانح حیات کیا ہیں، تاریخی اعتبار سے سب کچھ اندھیرے میں ہے۔جو کچھ بھی معلومات دستیاب ہیں ان سب کا ماخذ عہد جدید ہی ہے جس کی اپنی استنادی حیثیت اور تاریخی وقائع نگاری دونوں بہت کمزور ہیں اور اس میں پیش کی گئی پولوس کی تصویر پر ناقدین شدید تحفظات رکھتے ہیں کیونکہ تاریخی اعتبار سے اس کی تفصیلات بہت کچھ خلاف واقعہ ہیں۔عہد جدید سے جو کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ طرسوس کے رہائشی اور بنیامین کے قبیلے سے نسبی تعلق رکھنے والے اور مسلکاً فریسی ہونے کے دعوے دار تھے اور رومی شہریت رکھتے تھے۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہر یہودی کو رومی سلطنت کا غلام ہونے کے باوجود یہ حیثیت حاصل نہیں تھی حتی کہ خود یسوع مسیح بھی باقاعدہ رومی شہری نہیں تھے بلکہ رومی غلامی کی زندگی بسر کرنے والی یہودی قوم کے ایک عام فرد تھے۔پولوس دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ مشہور یہودی رابائی گملی ایل کے شاگرد تھے اور مسلکاً فریسی تھے۔ان کی مسیحیت میں آمد سے پہلے کی زندگی کے بارے مستند طور پر کچھ نہیں معلوم اور مسیحیت میں داخل ہونے کے بعد والی زندگی کے متعلق معلومات بھی تضاد کا شکار ہیں۔پولوس اپنے متعلق اپنے خطوط میں جو کچھ بتاتے ہیں اعمال کی کتاب کا مصنف اس کے بالکل برعکس بتاتا ہے جس کی وجہ سے ایک تجزیہ نگار کے لیے حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن مسیحی برادری کے نزدیک متضاد اطلاعات بھی درست ہیں اور سب اچھا ] اعمال کے مطابق:
(1)            پولوس دمشق جاتے ہوئے راستے میں یسوع کی آواز سن کر مسیحی ہو گئے۔
 (2)            اس کے بعد وہ دمشق میں حننیاہ کے پاس پہنچے اور کئی دن قیام کیا۔
 (3)            اس کے بعد وہ یروشلم چلے گئے اور اور وہاں رسولوں سے ملے اور ان کے ساتھ آتے جاتے رہے۔
 (4)      وہ یروشلم میں تبشیری سرگرمیوں میں مصروف رہے لیکن جان کے خطرے کے پیش نظر انہیں طرسوس بھیج دیا گیا۔(یہاں تک کی تفصیلات اعمال باب 9 میں موجود ہیں) 
 (5)            اس کے بعد برنباس اور پولوس دونوں یروشلم اور یہودیہ میں امدادی سامان لے کر پہنچے۔(اعمال باب 11)
 (6)            پولوس تیسری مرتبہ یروشلم آئے (اعمال باب 12 ورس 25)
 (7)      ایک دفعہ پھر پولوس ہمیں یروشلم میں ایک کونسل میں شرکت کیلئے نظر آتے ہیں۔(اعمال باب 15) کچھ لوگ اسے تیسرے یروشلمی سفر کا حصہ قرار دیتے ہیں اور کچھ اسے چوتھا سفر کہتے ہیں۔لیکن پولوسی خطوط ایک مختلف فیہ صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔
 (8)            دمشق کی راہ میں پولوس کی مذہبی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔(غلاطیوں 16:1)
 (9)             اس تبدیلی کے فوراً بعد وہ عرب چلے گئے ناکہ یروشلم اور عرب سے واپسی پر بھی وہ پہلے دمشق ہی پہنچے۔(17:1 غلاطیوں) 
(10)      تبدیلی کے تین سال بعد وہ یروشلم پہنچتے ہیں اور وہاں پطرس سے ملاقات کرتے ہیں۔ان کا قیام 15 روزہ رہا۔تاہم وہ پطرس اور کسی دوسرے رسول سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کرتے (غلاطیوں)
(11)            اس ملاقات کے بعد وہ شام اور کیلکیہ کی طرف روانہ ہو گئے۔(غلاطیوں)
(12)            ان علاقوں میں 14 برس مقیم رہنے کے بعد برنباس اور طیطس کے ہمراہ یروشلم واپس آئے (غلاطیوں ب 2)
(13)            اس کے بعد پولوس اور پطرس کا انطاکیہ کے مقام پر جھگڑا ہو گیا۔(یہ سب کچھ غلاطیوں کے نام خط میں موجود ہے)
اس کے بعد وہ مزید کچھ نہیں بتاتے۔
دونوں کتابوں میں پولوس کے متعلق اطلاعات میں اتنا تضاد موجود ہے کہ باہمی تطبیق کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔مسیحی ان تضادات کو چنداں اہمیت نہیں دیتے اور یہ ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ اس کے علاوہ تاریخی اعتبار سے کوئی تفصیلات موجود ہی نہیں ہیں۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد ہم آتے ہیں پولوس کی منادی کی طرف جس نے مسیحیت کی ایک بالکل مختلف نئی جہت متعین کر دی اور اب اس سے مسیحیت کے لیے پیچھے ہٹنا کسی طور ممکن نہیں ۔مسیحی ہمیشہ یہ اصرار کرتے ہیں کہ پولوس نے یسوع علیہ السلام مسیح کی تعلیم کی ہی منادی کی لیکن تنقیدی نظر سے دیکھنے والوں کی رائے اس سے بالکل مختلف ہے۔یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا مسیح کی منادی کرنے سے کوئی رسول بن سکتا ہے جیسا کہ مسیحی دوست سمجھتے ہیں یا کیا وہ نئے عقائد دینے کا مجاز بن سکتا ہے جیسا کہ ناقدین کا کہنا ہے ؟ مسیحی قوم کی خوش اعتقادی کو سمجھنے کے لیے یسوع مسیح کی بعثت کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔یہودی ایک ہستی کے بطور مسیح کی بعثت کے منتظر تھے جو ان کی سیاسی قیادت سنبھال کر انہیں داؤدی و سلیمانی رفعت دوبارہ عطا کرتی لیکن سیدنا یسوع علیہ السلام بطور مسیح ہادی قوم اور معلم اخلاق بن کر مبعوث ہوئے اور قوم کو اخلاقی گراوٹ سے اٹھ کر اخلاقیات کی اعلی ترین مثالیں قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور بنی اسرائیل کو یاد دلایا کہ وہ خدا کی شریعت کے امین ہیں اور انہیں شریعت پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے ناکہ ریاکارانہ طریق اختیار کرنے کی. یسوع مسیح کی اسی تعلیم کا تسلسل ہم ان کے منظر عام سے ہٹنے کے چند برس بعد تک پاتے ہیں۔شاگردوں کی ساری منادی یسوع کی اسی تعلیم کے گرد گھومتی ہے لیکن بہت جلد پولوس کی دبنگ شمولیت سے سارا منظر نامہ تبدیل ہو جاتا ہے(اعمال ب 9)۔سینٹ پولوس کی تبدیلی محض ایک فرد کی تبدیلی ثابت نہیں ہوئی بلکہ پورے نظریہ کی تبدیلی کا پیش خیمہ بن گئی۔یسوع مسیح کا پیغام ان کی بابت پیغام میں تبدیل کر دیا گیا اور فقط یہودی قوم کی اصلاح و تربیت کے لئے مبعوث مسیح کو عالمگیریت عطا کر دی گئی۔انہیں ہادی بنی اسرائیل سے اٹھا کر منجی العالمین بنا دیا گیا۔(1-قرنتیوں 17:15) سیدنا یسوع علیہ السلام مسیح کے اخلاقی اسباق خدا کے اس فضل تلے دفن کر دئیے گئے جس کی آبیاری مسیح کے صلیب پر بہے خون نے کر دی تھی اور اب ان (اخلاقی اسباق) کو شریعت کی پاسداری اور پشتیبانی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی۔اب نئی انجیل میں المسیح کی صلیبی موت اور اس سے جڑے معاملات پر مجرد ایمان ہی مسیحی مومنین کو بلا رو رعایت عذاب سے نجات کا پروانہ تھما دیتا تھا۔سینٹ پولوس نے برملا کہہ دیا کہ "میں خدا کے فضل کو بیکار نہیں کرتا کیونکہ صداقت اگر شریعت کے وسیلے سے ملتی تو مسیح کا مرنا عبث ہوتا" (غلاطیوں 21:2)
حقیقت یہ ہے کہ پولوس نے مسیح علیہ السلام کے پیغام کی منادی ہی نہیں کی بلکہ مسیح کا پیغام آگے پہنچانے کی بجائے مسیح علیہ السلام کی بابت اپنا پیغام مسیح کے نام سے دیا۔ اس فرق کو سمجھنے سے بہت سے لوگ قاصر رہتے ہیں. پولوس اپنی تعلیم کو نہایت بے تکلفی سے "میری انجیل" قرار دیتے ہیں۔ پولوس ہی پہلے شخص ہیں جو یسوع مسیح کو نیا عہد باندھنے والا قرار دیتے ہیں. پولوس ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے یسوع علیہ السلام مسیح کی تعلیم کی بجائے ان کی ذات سے سارے عقائد وابستہ کئے ہیں مثلاً عقیدہ کفارہ، الوہیت مسیح اور تجسیم جس سے بالآخر تثلیث کی راہ ہموار ہوئی اور مسیح کی صلیبی موت جس سے بالآخر شریعت کو ساقط ہو کر دور فضل کا آغاز ہوا وغیرہ وغیرہ۔ممتاز مسیحی تھیالوجین ڈاکٹر آرنلڈ میئر نے بہت درست الفاظ میں پولوس کا مسیحیت میں نظریات پیوست کرنے کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے :
"
اگر مسیحیت کا مطلب صحیح طور پر اس طرح کا ایمان رکھنا سمجھا جائے کہ یسوع خدا کا آسمانی بیٹا ہے جو زمینی انسانوں میں سے نہیں تھا بلکہ خدا کی صورت اور شان رکھتا تھا اور وہ آسمان سے زمین پر اتر آیا اور انسانی شکل اختیار کر لی تاکہ وہ صلیب پر اپنے خون کے وسیلے سے لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے اور جسے موت سے جگا کر اوپر اٹھا لیا گیا اور جسے مومنین کے خداوند کے طور پر خدا کے دینے ہاتھ بٹھایا گیا اور اب خود پر ایمان رکھنے والوں کی شفاعت کرتا ہے اور ان کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی حفاظت و رہنمائی کرتا ہے۔ خود پر ایمان رکھنے والوں میں سے ہر ایک کے اندر رہ کر کام کرتا ہے اور جو دنیا کا انصاف کرنے آسمان کے بادلوں کے ساتھ دوبارہ آئے گا اور خدا کے سب دشمنوں کو ہلاک کرے گا مگر اپنے لوگوں کو اپنے ہمراہ نور کے گھر میں لے جائے گا تاکہ وہ اس کے معظم بدن کی مانند ہو جائیں۔اگر یہ مسیحیت ہے تو اس کی بنیاد مقدس پولوس نے رکھی تھی ناکہ ہمارے خداوند نے "
Jesus or Paul by Dr. Arnold Meyer, page 122, Harper brothers London & New York, 1909.

مکمل تحریر >>