Pages

Most Popular

جمعرات، 5 جولائی، 2018

یسوع اور یہودی ربائی آمنے سامنے


 یسوع اور یہودی ربائی آمنے سامنے
میں تم سے سچ کہتاہوں جس کے کان ہوں وہ سن لے کہ "تم اپنے باپ شیطان سے ہواورچاہتے ہو کہ اپنے باپ کی خواہشوں کے موافق کرو۔وہ تو شروع سے ہی خونی تھا اورسچائی پر قائم نہ رہا کیونکہ اس میں سچائی نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تواپنے ہی سے بولتا ہے۔ کیونکہ وہ جھوٹا بلکہ جھوٹے کاباپ ہے۔۔۔۔۔۔جوخدا سے ہوتاہے وہ خداکی باتیں سنتا ہے تم اس لیے نہیں سنتے کیونکہ خدا سے نہیں ہو"۔[1]
          ہیکل میں خداند کی دی ہوئی شریعت کے مطابق عبادت میں دل وجان کی گہرائی سے مصروفیت کے دوران جب یہ کلمات میری سماعت سے ٹکرائے توباوجود کوشش کے میں اپنی عبادت میں یکسوئی برقرار نہ رکھ سکا۔میں نے مڑ کر دیکھا تو شرع کے علماء وفقہاء کامجمع تھا جو کسی شخص کے گرد دائرہ بنائے کھڑے اس سے مباحثہ میں مصروف تھے۔ان علماء فقہاء کی موجودگی نے میری توجہ کو ان کی طرف مبذول کیا اور میرے دل میں شدید خواہش پیداہوئی کہ میں بھی ان کی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے ان کےمخاطب سے کلام کرسکوں جس کے فقط ایک جملے نے ہی میری سماعتوں میں ہلچل مچادی تھی۔مگر جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچ کر ان میں شامل ہوا تو میں نے عظیم استاد یسوع مسیح کو ان کے درمیان کھڑا پایا۔اس کی موجودگی میرے لیے قابل تعجب تھی اور اُس کی طرف سے ایسے کلمات کی مجھے ہرگز توقع نہیں تھی جوکہ کچھ ہی دیرقبل میں نے سن کر اس گفتگو میں شریک ہونے کافیصلہ کیا۔
ہیکل میں اس سے سامناہونے  سے قبل میں پہاڑی پر اس کاعظیم الشان وعظ سن چکاتھا جس نے اِس کے لیے انتہادرجے کی عقیدت میرے دل میں پیدا کردی تھی اور میری خواہش تھی کہ میں بھی شرع کے اس زبردست استاد سے کچھ سوالات کرکے شریعت کا کچھ علم مزید سیکھ سکوں مگر چند ساعتوں قبل میرے کانوں سےٹکرانے والے اِس کے الفاظوں نے مجھے،میری اُس خواہش پر ،نظرثانی کرنے پر مجبور کردیاتھا۔بےشک مجھے اس کا پہاڑی وعظ سننے کے بعد اس کے کلام کی لطافت نے مسحور کررکھاتھا کیونکہ اُس  کے کلام کی نوعیت بھی اُسی طرز کی تھی کہ جس طرح موسیٰ نے کوہ سینا پر اسرائیل سے کلام کیا تھا کہ "'تم' اس دن کویاد رکھنا جس میں 'تم'مصرسے جوغلامی کاگھر ہے نکلے کیونکہ خداوند اپنے زور بازو سے 'تم 'کووہاں سے نکال لایا"۔[2]
مبارک ہو'تم'جوغریب ہوکیونکہ خداکی بادشاہی 'تمہاری'ہے
مبارک ہو'تم'جواَب بھوکے ہو کیونکہ آسودہ ہو گے
مبارک ہو'تم'جواب روتے ہو کیونکہ ہنسو گے[3]
میری یہ سوچ اس یقین کامحرک بن رہی تھی کہ تورات میں موعود اسرائیل کے بھائیوں سے آمدہ  'وہ نبی'یقینا یہی ہے کیونکہ اِس کے کلام میں میں نے موسیٰ کے اُس تکلم کے وصف کو پایاجوکوہ سینا پر لفظ'تم"کے ساتھ متصف ہے۔قریب تھا کہ میرا ایقان اس سوچ پر قوی ہوتا،یکدم مجھے چنددن قبل ہی اِس(یسوع) کاشرع کاعلماء وفقہاء سے کیا گیاایک اور مکالمہ یادآیا جہاں اس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ
تمہارے باپ دادا نے بیاباں میں من کھایااورمرگئے۔[4]
مجھے یاد آیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اس نے فقیہوں  سے بات کرتے ہوئے یہی طرزتخاطب اختیار کیا تھاکہ "تمہاری شریعت میں لکھا ہے ۔۔۔۔۔"[5]اوریہ کہنے کے کچھ ہی دیر بعد اس نے وہ کہاجس نے مجھے اس بات پرابھاراکہ میں بھی مجمع میں  شامل ہوکر اس کی گفتگو سنوں۔لیکن پہاڑی پراسرائیل سے خطاب اور اِس وقت اُس کے اسرائیل کے فقہیوں سے خطاب میں کچھ توتھاجونہ صرف مجھے بلکہ مجمع کوبھی بےچین کررہاتھا۔
یقیناً وہ اسرائیل کاداؤدی المسیح ہی تھا اور بہت سے لوگوں نے اسے المسیح کی حیثیت سے قبول بھی کرلیاتھا ،اس کی  شہرت اسرائیل کے گھرانوں میں بڑھتی ہی جارہی تھی  کیونکہ اُس نے 'خداکی بادشاہت 'کی منادی کوفقط اسرائیل تک ہی محدود کررکھا تھامگر اس کے باوجودبھی اس کا پہاڑی پردیاگیاوعظ سننے کے بعد کی گفتگو میں ایسا محسوس ہوتاتھا کہ داؤدی المسیح تودرکنار وہ(یسوع) تو خود کو اسرائیل میں سے بھی نہیں سمجھتا۔آخربیاباں میں من کھانے والے اسرائیل کے اجداد –جنہیں اُس نے'تمہارے اجداد' کہہ کرتعبیرکیا-کیا اُُس کے خود کے بھی اجداد نہ تھے؟توپھر وہ کیوں اس تحقیرانہ انداز سے اسرائیل کے اسلاف کے متعلق گفتگو کررہاتھا ؟ اس کا یہ انداز میرے لیے شدید الجھن کاباعث تھا ۔اس پر مستزاد ، 'تمہاری شریعت'کہہ کر  شرع کے علماء پر اُس کاتنقید کرنا میرے لیے ماورائے تفہیم تھا۔آخر یہ اُسی شریعت ہی کی تو بات کررہاتھا جس کی تکمیل اِس نے –چنددن قبل-اپنی آمد کوقراردیاتھا۔[6]وہی شریعت جسے خدا نے موسیٰ کی معرفت اسرائیل کو ودیعت کیاتھا،اُ پر بھی اِس شریعت کا بحیثیت یہودی ویسا ہی اطلاق تھا جیسا کہ کسی اورعام یہودی پر تھا،توپھر چنددن کے فرق نے ہی  اُس کے انداز وکلام کو اس  قدر کیوں تبدیل کردیاتھاکہ وہ خود کوایک اسرائیلی کے بجائے گویاکہ غیرقوم کاکوئی فرد سمجھ کر خدا کی مقدس شریعت سے خود کولاتعلق ظاہر کرکے اپنا ناطہ بھی یہودیت سے ترک کرنے جیسی گفتگو کررہاتھا؟
فقہیوں سے اس کی گفتگو جاری تھی،میں جوکہ اس کے قریب پہنچ گیاتھا،مگر اس نے میری طرف کوئی توجہ نہیں دی۔وہ مسلسل فقیہوں اور ربائیوں کے ساتھ گفتگو میں  مصروف رہا اور میں اس موقع کی تلاش میں کہ کب مجھے اس سے استفسار کاموقع ملے۔چنانچہ میں نے اس کے یک لحظہ توقف کرتے ہی فوراً یہ سوال کردیا:
اے استاد!تُو اسرائیل کو اُس کے اسلاف سمیت شیطان کیونکر کہتاہے؟کیا تُو نہیں جانتا کہ (تجھ سمیت)ہم کن کی اولادیں ہیں؟ ابراہیم، اسحاق ، یعقوب جس طرح ہمارے باپ ہیں،اُسی طرح کیا یہ سب تیرے باپ نہیں؟کیا ہماری طرح توبھی ہمارے باپ ابراہیم سے کیے گئے اُس عہد کی پاسداری میں شامل نہیں کہ ''تُو میرے حکموں پرچل اور کامل ہو"[7]؟اس عہد کے وسیلے سے تو اسرائیل کی مرضی خداکی خواہش کے ماتحت ہے توپھر تو کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہم(یہود)شیطان سے ہیں او راس کی مرضی پوری کرنا چاہتے ہیں؟
اُس نے ایک پُرجلال نظر مجھ  پرڈالی مگر کچھ نہیں کہا۔اس کی گفتگو ربائیوں سے جاری تھی اور ہیکل کے پرنور ماحول میں ان کی آوازیں گونج رہی تھیں مگر میرا ذہن ان کی گفتگو سننے کے بجائے اُس کے انہی کلمات میں الجھا ہواتھا جن کاتسلی  بخش جواب تاحال مجھے نہ مل سکاتھا۔'تمہاری تورات'کہہ کر اُس نےنجانے کس تورات کی بات کی تھی کیونکہ ہماری تورات،اسرائیل کی تورات ،خداوند کی شریعت  تو وہی ایک ہی تھی جس پر نہ صرف وہ (یسوع)خودبھی عامل تھا بلکہ پہاڑی پر اپنے متبعین کو بھی اس پر عمل کرنے کی اس نے بھرپور تاکید کی تھی۔مگر کوہ سیناپر موسیٰ کو ودیعت دی گئی شریعت کی کتاب میں تو کہیں بھی شیطان کا ذکر نہیں پایاجاتا؟توپھر یہ شیطان کون ہے جسے وہ اسرائیل کاباپ قرار دے رہاہے؟ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید وہ ابلیس کے متعلق کہنا چاہ رہاہو مگر تورات میں تو ابلیس کے لیے بھی کہیں نہیں لکھا کہ وہ شروع سے ہی خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہاہے۔توپھر  آخر یہ عظیم استاد کس کی بابت گفتگو کررہاتھا؟ اپنے پہلے سوال کو ردکیے جانے کے بعد مجھ میں دوسرا سوال پوچھنے کی ہمت نہیں تھی لہٰذا میں نے یہ اُس نے نہیں پوچھا۔
          شریعت کا عالموں اور فقیہوں سے گفتگوکرتے ہوئے اب اُس (یسوع) کی آواز خاصی بلند ہوچکی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں موجود افراد کے رنگ اور تیور بدلتے جارہے تھے۔ ایک دوستانہ ماحول میں کیے جانے والے مکالمے کاماحول ایک تصادم انگیز ماحول کی صورت اختیار کرنے جارہا تھا جس کی وجہ اس کی ایسی گفتگو تھی جوسراسر اسرائیل کی مخاصمت پر مشتمل تھی اور بحیثیت المسیح اسے ایسی اپنی ہی قوم سے اس طرح گفتگو کرنا ہرگز زیب نہیں دے رہاتھا۔
          اس کی گفتگو سن کر میرے دماغ میں یہ خیال پیدا ہواکہ نجانے کیوں اس کی گفتگو اُسے(یسوع کو) اسرائیل سے ممیز وممتاز کرکے باقی ماندہ دیگر اسرائیل کو خدا  کاچنیدہ وبرگزیدہ قرار دینے کے بجائے اُس کانافرمان  اورباغی بناکرپیش کررہی ہے؟ ایک اسرائیلی یہودی ہوکر اُس کااپنے ہی لوگوں سے یہ رویہ رکھنا ناقابل تفہیم بات  تھی۔ مجھےیہ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کچھ دن پہلے جس لفظ'تم'کے ذریعے وہ اسرائیل کو خوشخبری سنارہاتھا آج وہی لفظ'تم' کیسے وعید وعداوت میں تبدیل ہوکر پورے اسرائیل کو سراسر خداکی طرف سے ملعون اور متروک قرار دے رہاہے؟کیونکہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے اُس نے کہا تھاکہ "جوخدا سے ہوتاہے وہ خداکی باتیں سنتا ہے تم اس لیے نہیں سنتے کیونکہ خدا سے نہیں ہو"۔ اس کی یہ بات مجھ سمیت دیگر یہودیوں کے لیے ایک دھچکے سے کم نہ تھی جنہوں نے اپنی زندگیوں کو خداوند کی خوشنودی کے حصول کے لیے وقف کررکھا تھااوراس مقصد کے حصول کے لیے کبھی کسی بھی قسم کی جانی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
          توکیا ہمارے سب اعمال ناراست اور بے کار ٹھہرائے جائیں گے؟ کیا خداوند کے حضور چڑھائی جانے والی ہماری قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی؟ کیا کفارے کادن بھی ہمیں پاک نہیں کرسکےگا؟کتنے ہی سوالوں نے بیک وقت میرے ذہن میں جنم لیا ۔میں نے یک لحظہ سوچا مگر خود ہی اپنی سوچ کورد کردیا۔ کیونکہ اُس(یسوع) کی باتوں کو پرکھنے کے لیے میرے پاس کسوٹی عظیم توراتھی جوکہ ہرآن،ہر لمحہ وہر گھڑی میری رہنمائی کے لیے موجود تھی اور اس تورات کی موجودگی میں مجھے اس طرح کے سوالات سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے یاد آیاکہ کوہ سینا پر دی جانے والی تورات (زبانی تورات) میں خداوند نے فرمایا۔
خداوند نے موسیٰ سے کلام کرتے ہوئے اسرائیلیوں سے کہا:میں تمہاراخداوند خداہوں۔
ربائی سائمن بن یوحائی کہتے ہیں:"خداوند نے کلام کرکے یہ سب باتیں فرمائیں کہ میں خداوندتیرا خداہوں جو تجھے ملک مصر یعنی جائے غلامی سے نکال لایا"۔(خروج 20:2)
'کیامیں تمہارا خداوند ہوں جس کی حکومت تم نے مصر میں اپنے اوپر لی تھی؟
اُنہوں(اسرائیل) نے اُس (خدا) سے کہا:"بےشک"
"بےشک  تم نے میری بادشاہی کو تسلیم کرلیا ہے"
'انہوں نے میرے آئین کوتسلیم کیا:تمہارے لیے میرے سوا کوئی خدانہ ہوگا۔'
دوسرے لفظوں میں یہاں یہ کہاگیاہے کہ"میرا تمہاراخداوند خداہوں "کامطلب "کیامیں وہ ہوں جس کی بادشاہی تم نے کوہ سیناپرتسلیم کی"ہے؟
اُنہوں(اسرائیل) نے اُس (خدا) سے کہا:"بےشک"
"بےشک  تم نے میری بادشاہی کو تسلیم کیا ہے "
'انہوں نے میرے قوانین کوتسلیم کیا:تُم ملک مصر کے اعمال کونہیں دہراؤ گے جہاں تم سکونت پذیررہے اور نہ ہی ملک کنعان کے قوانین کی پیروی کروگے جس کومیں تم سے لیتاہوں'۔[8]
          لہٰذا جب بحیثیت اسرائیل ہم خداوند کو سنتے اور اس کی تسلیم کرتے ہیں –جس کی تصدیق وہ (خدا)خود تورات میں بھی کرتاہے- تو پھر وہ کیسے یہ کہاجاسکتاہے کہ اسرائیل خدا سے نہیں؟
          میری سوچ کاتسلسل لوگوں کے شوروغل بڑھ جانے سے ٹوٹ چکاتھا۔اس سے قبل کہ میں صورتحال سمجھتا اور اُس سے سوال کرکے اپنی ذہنی خلش دور کرتا،فقہاء سے اس کی گفتگو ایک جدال کی صورت اختیار کرچکی تھی  اورعنقریب کسی بھی قسم کاناخوشگوار واقعہ ہوسکتاتھا۔صورتحال انتہائی نازک تھی۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے انہیں روکوں؟ وہ اُسے مارنے کے لیے پتھر اُٹھا چکے تھے مگر وہ ،وہ تواپنی باتیں کہہ کر نجانے  کب کاکدھر نکل گیاتھا۔میں نے اُس کی تلاش میں ہیکل کے دروازے کارخ کیا جہاں پہنچ کر میں نے دور اسے جاتے ہوئے دیکھا۔وہ چھپ کر ہیکل سے نکل کر جاچکاتھا۔


[1] یوحناباب8فقرہ44تا47
[2] خروج13:3
[3] لوقا6:20
[4] یوحنا6:49
[5] یوحنا8:17
[6] متی5:17
[7] پیدائش17:1
[8]  (Sifra to Adhare MOT CXCIV:II.1)

مکمل تحریر >>