Pages

Most Popular

جمعرات، 26 اپریل، 2018

مسیحیوں کی عہدجدید میں سینہ زوری


مسیحیت کی عہد قدیم میں سینہ زوریاں 
تحریر:عارف محمد
پوادران کا کہنا ہے کہ 
ایسعیاہ 9
6 اس لیے ہمارے لیے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹابخشا گیا اور سلطنت اُسکے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مشیرخدائے قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شہزادہ ہو گا۔ 

یہ حوالہ یسوع مسیح علیہ السلام کیلئے ہے اور اس میں صلیب کا بھی ذکر ہے تو قارئین کرام صلیب تو ظاہر ہے اس میں کہیں نہیں لیکن الوہیت مسیح کے حوالہ سے اس پر بات شروع کرتے ہیں۔


پوادران کا کہنا ہے کہ اس حوالہ میں خدائے قادر اور ابدیت کا باپ یسوع مسیح علیہ السلام کو کہا گیا ہے۔
آئیے اسی آیت کو یہودی بائبل تناخ میں دیکھتے ہیں۔

For a child has been born to us, a son given to us, and the authority is upon his shoulder, and the wondrous adviser, the mighty God, the everlasting Father, called his name, "the prince of peace

اس آیت کے دو حصے ہیں 

For a child has been born to us, a son given to us, and the authority is upon his shoulder, and the wondrous adviser, 
یہ پہلا حصہ اس آیت کا ہے جو کہ لڑکے کے متعلق ہے کہ۔
ایک لڑکا پیدا ہوا ہے ایک بیٹا ہمیں بخشا گیا ہے اس کو اختیار دیا گیا ہے ( حکومت ) اور زبردست ایڈوائزر ہے یا حکمت والا ہے
, the mighty God, the everlasting Father, called his name, "the prince of peace."
یہ دوسرا حصہ ہے جو خدا کیلئے ہے۔ کہ۔۔
قادر مطلق ہمیشہ رہنے والا باپ اس کو ( لڑکے کو ) نام دیتا ہے امن کا شہزادہ۔

جی تو قارئین کرام دیکھا کیسے مسیحیت نے ترجمہ کو خداوند کی طرف منسوب کرنے کیلئے ترجمہ بگاڑا ہے۔
خدائے قادر اور ابدیت کا باپ حقیقی خدا کو کہا گیا ہے اور وہ بیٹے کو لقب دیتا حکمت والا امن کا شہزادہ وغیرہ نہ کہ بیٹا خدائے قادر ابدیت کا باپ ہے۔
  یہ پیشین گوئی بھی یسوع مسیح علیہ السلام کیلئے نہیں ہے
اس پیشین گوئی کا عہد جدید میں بھی کہیں ذکر نہیں یعنی عہد جدید کے مصنفین اس سے نابلد تھے۔
اس حوالے کا کانٹیکسٹ بھی اسے یسوع مسیح علیہ السلام سے قطعی طور پر مطابقت نہیں رکھتا اب پوادران کا یہ سوال بنتا ہے کہ پھر اس پیشین گوئی کس پر صادق آتی ہے تو اس کیلئے ہمیں یہود کے قدیم مفسر راشی کو سننا پڑے گا وہ اسے حزقیاہ بادشاہ کیلئے کہتے ہیں 

For a child has been born to us: Although Ahaz is wicked, his son who was born to him many years ago [nine years prior to his assuming the throne] to be our king in his stead, shall be a righteous man, and the authority of the Holy One, blessed be He, and His yoke shall be on his shoulder, for he shall engage in the Torah and observe the commandments, and he shall bend his shoulder to bear the burden of the Holy One, blessed be He.
and… called his name: The Holy One, blessed be He, Who gives wondrous counsel, is a mighty God and an everlasting Father, called Hezekiah’s name, “the prince of peace,” since peace and truth will be in his days

ادھر تفسیر میں بالکل کلیئر ہو گیا کہ یہ حزقیاہ بادشاہ کی بات ہو رہی ہے 
آئیے آپ کو تلمود سے بھی دکھا دیتے ہیں کہ حزقیاہ ہی ہے۔

سنہرڈن 94a
یہ تلمود کا حوالہ ہے جس میں حزقیاہ کی پیشین گوئی ہے اور اس آیت کے متعلق مزید معلومات ہیں 

§ The verse states: “Therefore shall the Master, the Lord of hosts, send among his fat ones [mishmanav] leanness” (Isaiah 10:16). What is the meaning of the phrase “send among his fat ones leanness”? The meaning is that the Holy One, Blessed be He, said: Let Hezekiah, who has eight [shemona] names, come, and exact retribution from Sennacherib, who has eight names. The Gemara elaborates: The eight names of Hezekiah are as it is written: “For to us a child is born, to us a son is given; and the government is upon his shoulder; and his name is called Pele Joez El Gibbor Abi Ad Sar Shalom” (Isaiah 9:5). The Gemara asks: But isn’t there an additional name, Hezekiah? The Gemara explains: That was not a given name; rather, it is an appellation based on the fact that God strengthened him [izzeko]. Alternatively, he was called Hezekiah due to the fact that he strengthened the devotion of the Jewish people to their Father in Heaven.
قارئین کرام یہاں تک تو بات کلیئر ہو گئی کہ یہ حزقیاہ بادشاہ کیلئے ہے لیکن اب مسیحی حضرات اس سے اگلی آیت کا حوالہ دینگے کہ اس میں۔۔
ایسعیاہ 9
7 اُسکی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہو گی۔ وہ داؤد کے تخت اور اُسکی مملکت پر آج سے ابد تک حکمران رہیگا اور عدالتاورصداقت سے اُسے قیام بخشے گا رب الافواج کی غیوری یہ کرے گی۔ 

تناخ میں۔
To him who increases the authority, and for peace without end, on David's throne and on his kingdom, to establish it and to support it with justice and with righteousness; from now and to eternity, the zeal of the Lord of Hosts shall accomplish this.

ترجمہ میں فرق یہاں بھی موجود ہے ۔

یعنی اسے ہمیشہ کیلئے حکمران کہا گیا ہے اور حزقیاہ کی بادشاہی تو محدود وقت کیلئے تھی لہذا یہ یسوع مسیح علیہ السلام کی ہی بات کہی گئی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ حزقیاہ کی بادشاہی بھی داود ع کی بادشاہی ہے وہ تخت داود ع کا وارث تھا اور اسی بادشاہی کا تسلسل تھا لیکن مسیح علیہ السلام نہ تو اس بادشاہی کو حاصل کر سکے اور نہ ہی انہوں نے اسے حاصل کرنے کی کوشش کی بلکہ انہوں اس کا واضح انکار کر دیا کہ ان کی بادشاہی اس دنیا کی نہیں جبکہ داود علیہ السلام کی بادشاہی اس دنیا کی تھی اور حزقیاہ بادشاہ بھی اسی بادشاہی کا وارث ہوا۔

اب آتے ہیں بائبل مقدس کے لفظ ہمیشہ یا ابد پر تو بائبل کا ابد تو خود مسیحی پوادر تسلیم نہیں کرتے جیسے خدا کا حکم تھا کہ میری شریعت کا عہد ابد تک ہے اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ابدی عہد ختنہ کا تھا وہ بھی ابد ابد نہ رہا اور نہ ہی سبت کا عہد ابدی رہا۔
قارئین کرام بائبل مقدس کے ابد کی عجب کہانی ہے۔
ہمیں بائبل مقدس میں کئی حوالہ جات مل جائیں گے جن میں ہمیشہ کی بات کی گئی ہے لیکن وہ صرف استعارتا ہی کہا گیا ہے مثلا 
1سیموئیل 1
22 لیکن حؔنہّ نہ گئی کیونکہ اُس نے اپنے خُاوند سے کہاجب تک لڑکے کا دودھ چُھڑیا نہ جائے میں یہیں رہونگی اور تب اُسے لیکر جاؤنگی تاکہ وہ خُداوند کے سامنے حاضِر ہو اور پھر ہمیشہ وہیں رہے۔ 

تناخ 
But Hannah did not go up, for she said to her husband: "Until the child is weaned, then I shall bring him, and he shall appear before the Lord, and abide there forever

جی مندرجہ بالا حوالہ میں لڑکے کو حنہ ہیکل میں ہمیشہ کیلئے چھوڑتی ہے لیکن یہ ہمیشہ کیلئے نہ تھا صرف اس کی زندگی تک کی بات کی گئی ہے ۔
اسی طرح حزقیاہ بادشاہ کا تخت بھی ہمیشہ کیلئے سے مراد اسکی زندگی تک ہے۔
امید ہے اب یہ دونوں حوالہ جات کلیئر ہو چکے ہونگے۔
صلیب مسیح علیہ السلام کی نفی پر لگائی گئی ایک پوسٹ کا جواب ہمارے ایک محترم فاضل دوست پرویز مسیح صاحب نے دیا ہے 
میں نے اس جواب کو خوش آئند قرار دیا ہے اور بہت اعلٰی معیار کی تحریر تھی اس کو داد نہ دینا بھی زیادتی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ چند گزارشات بھی انکی نظر کرتا چلوں کہ  فاضل دوست آپ نے نہ تو صلیب کا کوئی اس خاص حوالہ میں ذکر کیا اور نہ ہی پیدائش 3: 15 کا یسوع مسیح علیہ السلام سے خاص تعلق کو ثابت کر سکے۔
اس کے علاوہ میں نے مختلف تفاسیر مذکورہ بالا حوالہ کا مطالعہ بھی کیا مسیحی سکالرز نے جو خاص الخاص اس حوالہ پر جس لفظ سے استدلال کیا ہے وہ ہے 
" نسل " seed
 یعنی یہ لفظ واحد ہے اور عورت سے منسوب ہے تو اس حوالے کی بنیاد پر صرف یسوع مسیح علیہ السلام ہی کنواری سے پیدا ہو کر اس کے اصل مصداق ٹھہرتے ہیں۔
آپ کے اسی نقطہ کو اس پوسٹ میں پرکھنے کی جسارت کرونگا۔

پہلے حوالہ دیکھئے 
پیدائش 3: 
15 اور مِیں تیرے اور عَورت کے درمیان اور تیری نسل اور عَورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔ وہ تیرے سر کو کُچلیگا اور تُو اُسکی ایڑی پر کاٹیگا۔۔ 

قارئین کرام۔
ایک بات تو واضح ہے کہ اس میں صلیب کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ بات تو کلیئر ہوئی۔

عورت کی نسل پر سابقہ پوسٹ پر چند حوالہ جات دے چکا ہوں کہ اس سے مراد یہ نہیں کہ صرف عورت کی اولاد بلکہ اس سے مراد عام انسان ہیں کیونکہ سانپ یعنی شیطان نے خاص حضرت حوا علیہ السلام کو بہکایا تھا اس لئے یہاں عورت کی نسل یعنی حوا کی نسل اور ساتھ ہی شیطان کی نسل کی عداوت کا ذکر بطور خاص آیا ہے اس سے مراد نسل انسانی ہے نہ کہ فرد واحد یسوع مسیح علیہ السلام۔
کیونکہ شیطان اور نسل انسانی کی دشمنی شروع سے چلی آ رہی ہے۔
اور انبیاء کرام علیہم کا مقصد بھی یہی تھا اور انہوں نے اپنے اپنے حصہ کا کام بھی سر انجام دیا اور یہ معاملہ چلتا رہے گا۔
اس معاملے پر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کا بھی اختلاف ہے کیتھولک نسل سے مراد مریم علیہ السلام اور پروٹسٹنٹ یسوع مسیح علیہ السلام کو مراد لیتے ہیں۔
یہود اس سے مراد نسل انسانی لیتے ہیں اور ہمارے مسیحی فاضل دوست ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ ان سے استدلال کرنا گمراہی ہے تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ چونکہ آپ کو عہد قدیم ان ہی کی وساطت سے ملا ہے جن میں انبیاء کرام علیہم السلام بھی شامل ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ کلام مقدس کے صحیح معنوں میں امین نہ تھے تو پھر آپ قرآن کریم کے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہود نے تحریف اور اپنے من چاہے مطالب وضع کئے۔
اب آتے ہیں اصل مدّعے پر کہ آیا یہ لفظ واحد کیلئے ہے یا جمع کیلئے۔

پہلے تناخ سے عبرانی سمیت یہ حوالہ غور سے دیکھئے۔

וְאֵיבָ֣ה ׀ אָשִׁ֗ית בֵּֽינְךָ֙ וּבֵ֣ין הָֽאִשָּׁ֔ה וּבֵ֥ין זַרְעֲךָ֖ וּבֵ֣ין זַרְעָ֑הּ ה֚וּא יְשׁוּפְךָ֣ רֹ֔אשׁ וְאַתָּ֖ה תְּשׁוּפֶ֥נּוּ עָקֵֽב׃ (ס)
I will put enmity Between you and the woman, And between your offspring and hers; They shall strike at your head, And you shall strike at their heel.”

جو لفظ یہاں نسل seed بیج کیلئے استعمال ہوا ہے זרע zera 
  zeh'-rah ذہرہ 
کہتے ہیں
عبرانی زبان کے کئی الفاظ جمع اور واحد دونوں کیلئے استعمال ہوئے ہیں
لیکن ان کے کانٹیکسٹ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ واحد ہے یا جمع۔
جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ میں سیاق و سباق یہی ہے کہ نسل انسانی کو سزا دی گئی اور آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کو باغ عدن یعنی جنت سے نکالا گیا تو اس سے مراد پوری انسانیت ہی بے دخل کی گئی تو پھر ہم کیسے نسل سے مراد صرف یسوع مسیح علیہ السلام یا مریم علیہ السلام لے سکتے ہیں؟ 
کیا سیاق و سباق سے یسوع مسیح علیہ السلام بے دخل ہوئے؟ 
اگر بے دخلی تمام نوع انسانی کی ہے تو نسل سے مراد بھی نوع انسان ہے۔

آئیے تکنیکی طور پر اس عبرانی لفظ کو دیگر حوالہ جات میں دیکھتے ہیں یہ لفظ عہد قدیم یا تناخ میں 229 مرتبہ آیا ہے 

پیدائش 16
9 خُداوند کے فرشتہ نے اُس سے کہا کہ مَیں تیری اَولاد کو بہت بڑھاؤنگا یہاں تک کہ کثرت کے سبب سے اُسکا شمار نہ ہوسکیگا۔ 

یہ حاجرہ علیہ السلام سے کہا جا رہا ہے۔
یہاں عبرانی لفظ واحد ذہرہ seed نسل استعمال ہوا ہے لیکن اس سے مراد صرف اسماعیل علیہ السلام نہیں لی جا سکتی یہاں یہ بائبل مقدس کا اسلوب بھی ثابت ہو رہا ہے ادھر بھی حاجرہ کی نسل کہا جا رہا ہے یعنی عورت کی نسل عبرانی میں تناخ کا یہی حوالہ چیک کر سکتے ہیں ہو بہو وہی الفاظ ہیں جس سے جمع مراد ہے۔

וַיֹּ֤אמֶר לָהּ֙ מַלְאַ֣ךְ יְהוָ֔ה הַרְבָּ֥ה אַרְבֶּ֖ה אֶת־זַרְעֵ֑ךְ וְלֹ֥א יִסָּפֵ֖ר מֵרֹֽב׃
And the angel of the LORD said to her, “I will greatly increase your offspring, And they shall be too many to count.”

یہی لفظ آپ باآسانی یہاں پر بھی دیکھ سکتے ہیں جس کو مسیحی علما واحد کہتے ہیں 

مزید دیکھئے 
پیدائش 24
60 اور اُنہوں نے رِؔبقہ کو دُعا دی اور اُس سے کہا اے ہماری بہن تُو لاکھوں کی ماں ہو اور تیری نسل اپنے کینہ رکھنے والوں کے پھاٹک کی مالِک ہو۔

اس حوالہ میں بھی عورت کی نسل سے مراد فرد واحد نہیں بلکہ لاتعداد نسلیں مراد ہے الفاظ وہی پیدائش باب 3: 15 کے موجود ہیں۔
یہاں پر بھی عورت کی نسل لکھا ہوا ہے۔
تناخ بھی دیکھئے 
וַיְבָרֲכ֤וּ אֶת־רִבְקָה֙ וַיֹּ֣אמְרוּ לָ֔הּ אֲחֹתֵ֕נוּ אַ֥תְּ הֲיִ֖י לְאַלְפֵ֣י רְבָבָ֑ה וְיִירַ֣שׁ זַרְעֵ֔ךְ אֵ֖ת שַׁ֥עַר שֹׂנְאָֽיו׃
And they blessed Rebekah and said to her, “O sister! May you grow Into thousands of myriads; May your offspring seize The gates of their foes.”

جی ادھر بھی وہی لفظ ہے
 اس سے مراد واحد فرد نہیں ہے 

پیدائش 22
17 مَیں تجھے برکت پر برکت دُونگا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانِند کر دُونگا اور تیری اَولاد اپنے دُشمنوں کے پھا ٹک کی مالِک ہوگی۔

تناخ میں بھئ دیکھئے ۔
כִּֽי־בָרֵ֣ךְ אֲבָרֶכְךָ֗ וְהַרְבָּ֨ה אַרְבֶּ֤ה אֶֽת־זַרְעֲךָ֙ כְּכוֹכְבֵ֣י הַשָּׁמַ֔יִם וְכַח֕וֹל אֲשֶׁ֖ר עַל־שְׂפַ֣ת הַיָּ֑ם וְיִרַ֣שׁ זַרְעֲךָ֔ אֵ֖ת שַׁ֥עַר אֹיְבָֽיו׃
I will bestow My blessing upon you and make your descendants as numerous as the stars of heaven and the sands on the seashore; and your descendants shall seize the gates of their foes.

یہاں پر سارہ علیہ السلام کو برکت دی جا رہی ہے اور وہی الفاظ اور انداز اسلوب عورت کی نسل کا ادھر بھی موجود ہے اور نسل سے مراد فرد واحد نہیں بلکہ ستاروں کی مانند لکھا ہوا ہے۔

1سیموئیل 2
20 اور عؔیلی نے الؔقانہ اور اُسکی بِیوی کو دُعا دی اور کہا خُداند تُجھ کو اِس عَورت سے اُس قرض کے عِوض میں جو خُداوند کو دِیا گیا نسل دے۔ پھر وہ اپنے گھر گئے۔ 
21 اور خُداوند نے حؔنہّ پر نظر کی اور وہ حاملہ ہوُئی اور اُسکے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہُؤئیں اور وہ لڑکا سؔموئیل خُداوند کے حُضور بڑھتا گیا۔ 

قارئین کرام اس میں غور کیجئے واضح عورت یعنی حنہ  کو نسل دینے کا وعدہ کیا گیا ہے اس سے صرف سیموئیل مراد نہیں بلکہ دیگر اولاد اور پھر ان کی اولاد مراد ہے اور لفظ واحد استعمال ہوا ہے اور عورت کی نسل سے مراد یسوع مسیح علیہ السلام تو نہیں لیا جا سکتا۔

اس کو تناخ میں بھی دیکھ لیجئے
וּבֵרַ֨ךְ עֵלִ֜י אֶת־אֶלְקָנָ֣ה וְאֶת־אִשְׁתּ֗וֹ וְאָמַר֙ יָשֵׂם֩ יְהוָ֨ה לְךָ֥ זֶ֙רַע֙ מִן־הָאִשָּׁ֣ה הַזֹּ֔את תַּ֚חַת הַשְּׁאֵלָ֔ה אֲשֶׁ֥ר שָׁאַ֖ל לַֽיהוָ֑ה וְהָלְכ֖וּ לִמְקֹמֽוֹ׃
Eli would bless Elkanah and his wife, and say, “May the LORD grant you offspring by this woman in place of the loan she made to the LORD.” Then they would return home.

ایسعیاہ 54
3 اس لئے کہ تو دہنی اور بائیں طرف بڑھے گی اور تیری نسل قوموں کی وارث ہو گی۔اور ویران شہروں کو بسائے گی

جی یہاں بھی لفظ تو واحد ہے لیکن مراد بنی اسرائیل ہیں اس سے خاص فرد مراد نہیں لیا جا سکتا

تناخ میں بھئ دیکھئے 
כִּי־יָמִ֥ין וּשְׂמֹ֖אול תִּפְרֹ֑צִי וְזַרְעֵךְ֙ גּוֹיִ֣ם יִירָ֔שׁ וְעָרִ֥ים נְשַׁמּ֖וֹת יוֹשִֽׁיבוּ׃
For you shall spread out to the right and the left; Your offspring shall dispossess nations And shall people the desolate towns.

جی قارئین کرام عورت کی نسل کے چند حوالہ جات سابقہ پوسٹ میں دیے ہیں ان کو دوبارہ ادھر لگانے کی ضرورت نہیں یہ بائبل مقدس کا اسلوبِ بیاں ہے
اور مسیحی فاضل دوست مختلف تاویلات تلاش کر کے اسے خاص ایک فرد سے منسوب کرنے کی لایعنی کوشش کرتے ہیں جو بائبل مقدس کو ایک خاص مقام پر محدود کر کے اصل پیغام کو چھپانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
اس حوالہ پر یہود تفاسیر اور تلمود مشناہ وغیرہ سب متفق ہیں کہ شیطان اور انسان کی دشمنی اب تا قیامت جاری رہے گی اور راستباز شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور اس امتحان میں سرخرو ہو کر نکلیں گے۔

یہ لفظ جب سیاق و سباق میں واحد ہو گا تو اسے سمجھنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہے مثلاً
پیدائش 4
25 اور آدمؔ پھر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اُسکے ایک اَور بیٹا ہُوا اور اُسکا نام سیؔت رکھاّ اور وہ کہنے لگی کہ خُدا نے ہاؔبل کے عِوض جسکو قاؔئنِ نے قتل کیا مجھے دُوسرا فرزند دیا۔ 

جی یہاں پر فرد واحد سیت مراد ہے کوئی کسی قسم کا ابہام نہیں۔

یہاں ایک بات نوٹ رکھنی چاھئے کہ کسی بھی نبی نے اسے یسوع مسیح علیہ السلام کی پیشین گوئی کے طور پر نہیں سمجھا اور نہ ہی خود یسوع مسیح علیہ السلام نے اس کو خود کیلئے استعمال کیا اور نہ ہی عہد جدید واضح طور پر اس حوالہ کو یسوع مسیح علیہ السلام کی کنواری مریم علیہ السلام سے جوڑتا ہے۔

مسیحی فاضل دوستوں سے التماس ہے کہ چونکہ پوسٹ ایک خاص حوالہ پیدائش 3: 15  پر لگائی گئی ہے تو ضروری ہے کہ صرف اس خاص حوالہ پر ہی دلائل دیے جائیں اس حوالہ کے باہر سے جو نقاط ہیں ان پر بعد میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔


مکمل تحریر >>